اتوار، 14 جنوری، 2018

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

مضبوط قلعہ کا کمزور مقام


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ 
اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔
بر صغیر میں ایک گروپ قادری صاحب کی سوچ سے بھی تیز تر نکلا ۔ یہ گروپ جو بر صغیر میں ٹائی مگر یورپ پہنچ کر ٹائی اتار کر ٹوپی پہن لیتاہے ۔ 
کتنی بڑی محنت وکوشش وجدو جہد ہے دین کی تبلیغ کی , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ 
پتلون پوشوں پر پاکستان اور برطانیہ میں لگے جنسی دھبے ,اور ٹائی پوشوں کے برطانیہ میں حالیہ جنسی سکینڈل کے بعد معلوم ہوا دین کے مضبوط قلعے کی کمزور دیوار کا نام جنسی بے راہ روی ہی ہے ۔ 
مذہبی جنسی بے راہ روی کو انگریزی میں سوچیں تو الفاظ بھیانک دکھائی دیتے ہیں۔ 
اللہ کا حکم البتہ یہ ہے کہ اس کے کلام کی تلاوت سے قبل تعوذ کا ورد کر لیا جائے

عقلی میزان بمقابلہ اجتماعی ہاہاکار


سوچنا ، سمجھنا ، عقل کی میزان میں تولنا، فیصلہ کرنا، اور ۔۔۔ فیصلہ ہمارے جذبات سے ٹکرا جائے تو اپنی عقل کے فیصلے ہی کو دیوار کے ساتھ دے مارنا۔ یہ عمل اگر انفرادی طور پر غلط ہے تو اجتماعی طور پر بھی قال قبول نہیں ہو سکتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے عمل کوماہرانہ سعی سے قابل قبول بنا کر اپنے فن کی داد وصول کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ بن جاتا ہے۔

اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چلن بن چکا ہے۔غصے کا تعلق محرومیوں ،معاشرتی نا انصافیوں اور پیٹ کی بھوک سے جوڑا جاتا ہے۔مگر ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ ہمارے ماہرین نہائت کامیابی سے اس غصے کا رخ اپنے مخالفین کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہ جو کہا گیا تھا کہ علم معیشت کی نئی راہیں کھولتا ہے تو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ نئی راہیں تخلیق کرنی پڑتی ہیں اور ہر نئی راہ کی ایک منزل بھی ہوا کرتی ہے لیکن اس نئی منزل کی معاشرتی اقدار بھی اب ماہرین ہی طے کیا کریں گے۔

 اپریل 1985 کوکراچی میں بشریٰ زیدی نام کی ایک 20 سالہ لڑکی کو ایک تیز رفتار منی بس نے اسے کچل دیا۔مہاجر گھرانے کی بشریٰ کی موت پر احتجاج شروع ہوا ، مہاجر پشتون کشمکش میں کتنی جانیں گئی کتنے زخمی ہوئے اور کتنا معاشی نقصان ہوا سو ہوا مگر علاقہ میں کرفیو نافذ رہا ۔حتیٰ ناظم آباد کے ہر گھر میں ایک بالٹی پانی ہر وقت موجود رہتا تھا کہ کسی بھی وقت شروع ہو جانے والے آنسو گیس سے بچاو کیا جا سکے۔البتہ عشروں بعد جب بشریٰ کا خاندان بیرون ملک مقیم ہو گیا تو معلوم ہوا بس کا ڈرائیور تو کشمیری تھا۔اور علاقے کے لوگ سیاسی طور پراستعمال ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ، ڈھیر میں سے ایک مثال ہے کہ کیسے عام آدمی شاطروں کے منصوبوں کی بھٹی کا ایندہن بن کر خاکستر ہوتا ہے

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کارکنوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا مقصد حاصل کریں گے ۔البتہ مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر قائم ہیں اور اپنا مقصد دین کی ترویج بتاتی ہیں ۔ ان سے منسلک لوگ سیاسی طور پر معصوم مگر دینی پر پر مخلص ہوتے ہیں۔جب ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان ، مثال کے طور پر مذہبی مزاج کی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ منہاج القرآن کے ادارے کے سربراہ جناب طاہر القادری صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سب کے رو برو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا تھا ۔ ان کی دینی خدمات کے صلہ میں ، اور سیاست میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر یقین کر کے ، مسلمانوں نے ان پر ہن نچھاور کر دیا مگر کچھ سالوں بعد ہی ان کے معاشی اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لوگوں کی شکایات سامنے آئیں کہ ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہ قادری صاحب کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس پر جب ادارے کے اندر سے آواز بلند ہوئی تو ان کو ادارے میں تنظیم کے نام پر چپ کرایا گیاتو کئی لوگ جو اہم تنظیمی عہدیدار تھے ، انھوں نے شیخ الاسلام صاحب سے دوری اختیار کر لی۔مگر اب قادری صاحب کے پاس وسائل کی کثرت اور تشہیر کا وسیع میدان ہونے کے باعث چند دینی اور شفاف ذہن کے لوگوں کے چلے جانے پر کوئی تشویش نہ تھی۔ 

اسلام آباد میں دھرنے کی مخالف میں مشورہ دینے والوں اور دین کے نام پر حکمران گنجے ٹولے کی قبریں کھودنے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی پچھلی صفوں مین بھیج دیا گیا ، کچھ تو جوتے پہن کر گھر جا چکے جو باقی ہیں وہ حیران ہیں کہ بولیں تو کیا اور چپ رہیں تو کیوں؟

قادری صاحب کا یکم جنوری کا طے شدہ مارچ ملتوی ہو ا اور 8 جنوری کی تایخ دی گئی۔ پھر سیاسی بھرم کو قائم رکھنے کے لیے 
17
 جنوری کی تاریخ دی گئی۔ اس دوران قصور والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری  ملک سے جاندار مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔قصور کے محمد امین جو مظلومہ زینب کے والدہیں ، ایک استاد اور شریف النفس انسان ہیں اور قادری صاحب کی پارٹی سے منسلک بھی ہیں، عمرے کی ادائیگی کے سفر کو مختصر کر کے واپس گھر پہنچے تو ، اطلاع کے باوجود کہ وہ رستے میں ہیں قادری صاحب نے جنازہ پڑہا دیا۔ قادری صاحب ،جو پاکستان کے بے مثل خطیب ہیں، نے اپنی طویل دعا کے ذریعے اپنے نوجوان کارکنوں ایسا دینی فیض تقسیم کیا کہ چند گھنٹوں میں قصور کے ڈی سی کے دفتر کا گیٹ ٹوٹ گیا ، دو گاڑیاں جل گئیں ، کئی نجی املاک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ واقعہ اس شہر میں پیش آّ رہا ہے جو بھارتی سرحد سے صرف
70
  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔دو دن" میرا سوہنا شہر قصور" آگ کے شعلوں میں جلتا رہا ۔ اور مطالبہ یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف اور وزیر قانوں ثنا اللہ مستعفی ہوں ۔ اصل ہدف تو شہباز شریف ہے ثنا اللہ کا نام تو محض قافیہ کا حصہ ہے۔ ہمیں ثنا اللہ سے د لچسپی ہے نہ شہباز شریف سے لگاو کہ اگر ان کے اعمال درست ہوتے تو دن دہاڑے یہ درندگی ممکن ہی نہ تھی۔ البتہ شام کو وضو کے بعد متبرک ہاتھ چہرے پر پھیر کر خود کو غیر سیاسی منوانے کے اصرار پر تعجب کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

دین کے نام پر سیاسی کاز کے لیے اپنے دو کارکن مروا دینے سے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے سینوں میں شاید انسان کا دل ہی نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں گنجا شہباز شریف اور اس کے چمچے شامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گی۔اور اس غریب راہ گیر کے خاندان کی اللہ تعالی نصرت فرمائے کہ وہ نہ قادری صاحب کا مرید تھا نہ شہباز کا پٹواری۔ اللہ تعالیٰ قائد کے اس پاکستان میں راہگیروں کو محفوظ رکھے
سوچئے گا ۔ ا نفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ کیوں بن جاتا ہے

جمعہ، 12 جنوری، 2018

دو آتشہ

تصوف ہمیشہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب رہاہے ۔ اور اہل تصوف کو ہر معاشرہ اور مذہب میں بلکہ بے مذہبوں میں بھی احترام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سب انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں ، مثال کے طور پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم صاحب روحانی فیض حا صل کرنے کو مفید خیال کرتے ہیں اور سابقہ دو وزرائے اعظم صاحبان جناب نواز شریف اور آصف زرداری اپنے اپنے پیر کو وزیر اعظم ہاوس میں مدعو کرتے رہتے تھے، اس سے قبل بے نظیر صاحبہ بھی مانسہرہ کے ایک بزرگ دیوانہ بابا کی چھڑی سے فیض یاب ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان بھی ایک بابے کے مرید تھے۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایک نانگے بابے کے آشرم پر سر جکاتے ہیں تو بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندہی کے وقت میں ان کے روحانی گرو دھرندرا بھرم چاری نے بھی خوب نام کمایا
تھا


پسماندہ معاشروں میں مذہبی اور سیاسی رہنماعوام کے نجات دہندہ مانے جاتے ہیں ۔ معاشرتی اور معاشی طور پر مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان اپنی محرومیوں کی نجات کے لیے خواب نگر کا رخ کرتا ہے۔ اور جو رہنماء اپنے پیروکار وں کو جتنا بہتر خواب دکھلا سکتا ہے وہ اتنا ہی مقبول ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ رہنماء ، مذہبی ہو یا سیاسی ، اپنے چاہنے والوں کے پجاری کا مقام حاصل کر لیتا ہے،مگر جب یہی پجاری اس رہنماء کی عدم استعداد سے با خبرہو جاتا ہے تو اس کی مثال خواب سے بیدار ہونے والے ایک فرد کی ہو جاتی ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ خود اپنی ذات کو متحر ک کئے بغیر اپنے حالات تبدیل نہیں کر سکتا ۔مگر اس بیداری کے بعد بھی وہ مواقع کی عدم دستیابی کے باعث اور دوسری طرف رہنماء اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے باعث ہر وقت اپنی عدم استعداد کا پول کھل جانے سے خوفزدہ رہتا ہے ، وہ جانتاہے کہ اس کی مقبولیت کی عمارت کچی بنیاد پر کھڑی ہے اس کا خوف بھی اسے تصوف کی طرف مائل کرتا ہے۔ دراصل رہنماء و پیروکار میں مستقبل کا خوف مشترک ہوتا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے روحانی سفر پر گامزن ہوتے ہیں، مبارک پتھروں والی انگھوٹیاں، بلند درگاہوں کا طواف ، اوروظیفوں کا ورد دراصل مستقبل کے خوف سے بچنے کے حربے ہوتے ہیں۔ اور یہ عمل اس کو قدامت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔مثال کے طور پر پچھلے دنوں عمران خان ایک ویڈیو کلپ میں اپنی انگوٹھی مین جڑے در نجف دکھاتے نظر آئے ۔ مگر چند دنوں بعد چکوال میں ہونے والے الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔حالانکہ ان کو نجومیوں نے بتایا ہوا تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ 
قصوں اور حکائتوں کی کتابوں کے مطابق زوال کے دور میں کمال کر دکھانا مذہب کا خاصہ ہے اور لوگ اسی خواب کی تعبیر کے لئے علامہ طاہر القادری صاحب کے گرویدہ ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے فن خطابت کی ٹکر کا کوئی دوسرا خظیب ہے ہی نہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آسائش زندگی سے مستفید ہونا سب کا حق ہے اور اس حق کا پاکستان کی نسبت کینیڈا میں بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔طاہر القادری صاحب کے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کا لاحقہ ان کا خود اختیار کردہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی کسی کا عطا کیا ہوا ہے۔
روس کے زاروں کا تصوف کا ایک بڑا کردار راسپیوٹن ہے مگر غیر اسلامی سہاروں کی داستانوں کے کرداروں کوہم اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور ایسے کرداروں کو شیخ الاسلام کا نام دے کر مقامی بنا لیتے ہیں اور اس اپنے پن سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تصوف کے نام پر چابک کی ضرب با آسانی سہہ لیتے ہیں مگر غیر اسلامی تاریخ کا حوالہ ہمیں سیخ پا کر دیتا ہے۔یاد رہے شیخ الاسلام صاحب عدم تشدد کے سب سے بڑے داعی ہیں

نجومی بھابی وہ نام ہے جو اخباری حلقوں میں عمران خان کی نئی بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے بارے ہوشیار سیاسی ساتھی ہی نہیں بلکہ دینائے تصوف کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں علم نجوم کے ماہرین متفق ہیں کہ در نجف کی برکت حاصل ہو جانے اور گاڑی میں نجومی بھابی کو سوار کر لینے کے بعد ان کو شاہراہ دستورپر تیز رفتاری سے سفر کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ ووٹ اور جمہوریت کی اذانوں کے بیچوں بیچ عمران خان کے اس یقین کو شیخ الاسلام کی اشیر آباد بھی حاصل ہے۔ تصوف اور نجوم کے باہمی ملاپ کے بعد بہت لوگ اس دو آتشہ سے معجزہ برآمد ہونے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی بھی امید پر مینہ نہ برسائے۔

منگل، 9 جنوری، 2018

'کیونکہ'

 عظیم الرحمٰن عثمانی 
خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے. گویا دل تو بچہ ہے جی !
.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے.
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا متمنی ہو.