اتوار، 31 دسمبر، 2017

بے نظیر کی ڈائری



میرے دوسرے دور حکومت میں مجھے جی ایچ کیو میں سیکورٹی کے بارے میں بریفنگ کے لئیے دعوت دی گئی ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشنز میجر جنرل پرویز 
مشرف (جو بعد میں چیف آف اور صدرمملکت بنا) نے بریفنگ دی
اس بریفنگ میں ایک بار پھر دہرایا گیا کہ پاکستان سرینگر پر قبضہ کیسے کرے گا مشرف کے آخری الفاظ کے مطابق جنگ بندی ہوجائے گی جبکہ سری نگر پاکستان کے قبضے میں ہوگا اس کے بعد کیا ہوگا ؟میرا سوال تھا وہ میرے سوال پر حیران ہوا اور کہنے لگا اگلا قدم یہ ہوگا کہ پاکستان کا جھنڈا سرینگر پارلیمنٹ پر لہرا رہاہوگا اس کے بعد کیا ہوگا؟؟ میں نے پھر سوال کیا ، آپ اقوام متحدہ کا دورہ کریں گئی اور انہیں بتائیں گئ کہ سرینگر پر پاکستان کا قبضہ ہے ، اور پھر کیا ہوگا میں نے سوال کیا ، مجھے محسوس ہوا کہ جنرل مشرف نے ایسے سوالات کے جوابات کی تیاری نہیں کی تھی وہ گھبرا گیا اس نے کہا آپ انہیں دنیا کی نقشے میں تبدیلی کے لئیے کہیں گئی اور نئے جغرافیائی حقائق کو تسلیم کرنے پر توجہ دلائیں گئی،
اور کیا آپ جانتے ہیں اقوام متحدہ مجھے کیا بتائے گی میں نے جنرل مشرف کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا ، کمرے کا ماحول سنجیدہ ہوگیا ، میں نے زور دے کر کہا سلامتی کونسل ہمارے خلاف مذمت کی قرارداد پاس کرے گی اور ہمیں سرینگر سے واپسی کا مطالبہ کرے گی ہمیں اپنی کوششوں کا کوئی صلہ نہیں ملے گا بلکہ بےچارگی اور تنہائی ہمارا مقدر ہوگی اسکے بعد میٹنگ کا اختتام کر دیا گیا ، ،

جمعرات، 28 دسمبر، 2017

ایک ہی رستہ




پاکستان خاص طور پر اور امت مسلمہ عام طور پر اس وقت عالمی ْ نفرت ْ کا شکار ہو چکی ہے ۔اور تلخ 
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے خون کی ارزانی کا عالم یہ ہے کہ اس کی موت کا دکھ صرف اس کے خونی 
رشتے داروں تک محدود ہو گیا ہے۔



بوسینیا میں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی منتقلی میں استعمال ہونے والے لوہے کے ایسے پنجروں میں بند کیا جاتا تھا جس میں انسان پوری طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ تین دنوں سے قید اس پنجرے میں کچھ تو مر گئے اور جو زندہ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ کئی منزلہ اس پنجرے کے اوپر والی منزل کا قیدی فطری حاجات پوری کرتا تو وہ نچلی منزلوں کے قیدیوں کے جسم اس سے آلودہ ہوتے ۔

بوسینیا کے بعد یہ ظلم کی داستان افغانستان سے بغداد تک دہرائی جاتی رہی، اور گوانتنامو بے ابھی تک وجود ہے اور اسرائیل کی جیلوں کے اندر فلسطینی مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوں پر جو مظالم ڈہائے جا رہے ہیں ان کا تصور کر کے ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ مگر عالمی برادری سے زیادہ بے حسی مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر طاری ہے۔ اور کڑوا سچ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ہاتھ اپنی ہی رعایا کے خون سے آلودہ ہیں۔ذاتی لالچ اور اختیارات کی طمع نے ان کے سوچنے اور دیکھنے کی قوت سلب کر لی ہے اور بدیسی آقاوں کے خوف نے ان کی زبانوں کو گنگ کر دیا ہوا ہے۔ ہر قسم کی بد امنی اور خون ریزی کا الزام مسلمانوں ہی کے سر آتا ہے۔ ایسی جنگ ہے جو امن کے نام پر لڑی جا رہی ہے اس میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ نان جویں کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 

سیاسی اور مذہبی تقسیم در تقسیم نے ہمیں بالکل ہی بے وقعت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ یہ گتھی نہ سلجھا سکا کہ امن کے دروازے کو کہاں تلاش کیا جائے، ہمارے دینی رہنما ایسا وظیفہ ڈہونڈ نہ پائے جو اثر پذیر ہو تا۔حالت یہ ہے کہ ماہرین میں سے کوئی مشورہ دینے کی جرات کرے تو اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس پر تبرہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔

پاکستان ان انگلیوں پر گنے جانے والے ان مسلمان ممالک میں شامل ہے جس کے حواس قائم ہیں ۔ورنہ اکثر ممالک میں مایوسی امید پر غالب آ چکی ہے۔ ہم معاشرتی اور معاشی طور پر بے وقعت ہو جانے کے باوجود اپنے اخلاق اور رویوں کو بہتر کر کے کم از کم مہذب دنیا میں انسان کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم بتدریج صرف اپنے اخلاق ہی کو بہتر کر لیں تو بہت جلد ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اپنی بھنور میں ڈنواڈول ناو کو طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ 

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جس کوپاکستان کی ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے ، حکومت پاکستان نے 25 دسمبر کو اس کی والدہ آوانتی اور اہلیہ چیتانکل سے ملاقات کرائی۔ جب کسی ملک کا کوئی جاسوس دوسرا ملک گرفتار کرتا ہے تو اس کے اعتراف جرم کے اس کو کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی ۔ مگرپاکستان نے بھارت کے جتنے بھی جاسوس پکڑے اج تک کسی کو عملی طورپر سزائے موت نہیں دی گئی۔کلبھوشن جو3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار ہوا ۔ وہ حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام پر غئر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ 10 اپریل2017 کو ایک فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی، بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی جس پرعالمی عدالت نے اس مقدمے کے فیصلے تک پھانسی پر عمل درآمد روک دینے کی سفارش کی ہے۔ 

اس دوران پاکستان نے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاسوس قیدی کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کا انتظام کیا۔ قیدی کی والدہ آوانتی اور اس کی اہلیہ چیتانکل نے 25 دسمبر کو 30 منٹ تک ملاقات کی جو در حقیقت 40 منٹ تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے لیے آنے والی اس کی اہلیہ کے جوتوں میں ایک 
chip
چھپا کر لائی گئی جو دوران تلاشی بر آمد کر لی گئی۔جس پر بھارت کی سراغ رسان ایجنسی را کے حصے میں بدنامی ہی آئی کہ اس نے اپنے ہی ملک کے شہری کو جو مکمل طور پر بھارتی حکومت کے رحم و کرم پر تھی اور اپنے قید خاوند سے ملاقات کے لئے آئی تھی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ را کی اس حرکت پر بھارت میں سنجیدہ حلقوں میں اس حرکت کو ایک اوچھی حرکت قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے خاتون کو متبادل جوتے فراہم کر کے چپ والے جوتے اپنی تحویل میں لے کر تحقیق کے لیے فورسونک لیبارٹری میں بجھوا دئے ہیں۔را کی اس حرکت کے باوجود پاکستان نے ملاقات کی اجازت دی جس پر قیدی کی ماں نے پاکستانی وزارت خارجی کا شکریہ ادا کیا۔

یہ ملاقات کر ا کر پاکستان نے اخلاقی فتح حاصل کی ہے ۔پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے تجویز پیش کی ہے کہ امت مسلمہ کے موجودہ بے چارگی کے حالات میں ہم اخلاقی طور پر انسانی ہمدردی کے طور پر فیصلے کر کے دنیا میں اپنے بدنام ہوتے چہرے کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم حامد میر کی اس تجویز سے مکمل اتفاق کرتے اس کی تائید کرتے ہیں۔اور حکومت پاکستان کیطرف سے انسانی ہمدردی 
کے تحت دی گئی ملاقات کی سہولت پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اخلاق کے علاوہ پیش کرنے کے لیے بچا ہی کیا ہے

منگل، 26 دسمبر، 2017

اخلاق کا شکستہ ترازو



عظیم مصلح شیخ فریدالدین عطّار رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اے پیارے بھائی! اگر تم کامل عقل رکھتے ہو تو لوگوں سے نرم اور شیریں گفتگو کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ترش رو اور سخت بات کہنے کا عادی ہو تو دوست بھی اس سے دور بھاگ جاتے ہیں

آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ دلی جیسی عمدہ صفات ناپیدہوتی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت بتلائی ہے 

حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کے ترازو میں اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بدگو کو مبغوض رکھتے ہیں۔
  
ہم اپنی زبان کو شیریں کر کے اپنے ارد گرد خوشیوں میں اضافہ  کر سکتے ہیں

پیر، 25 دسمبر، 2017

ایمان کانٹا




گل خان کی نوکری چھن گئی ۔ آدمی با عزم تھا ۔ سحری کے وقت منڈی گیا ،پھول گوبھی کی ایک بوری خریدی ، سڑک پر وہی بوری بچھائی اور شام تک ساری گوبھی بیچ کر فارغ ہو گیا مگر کچھ آوازیں اس کا پیچھا کر رہی تھیں
ْ تم بغیر ترازو گوبھی بیچ رہے ہوْ 
ْ تمھارے پاس ترازونہیں ہے ْ 
ْ گوبھی بیچنی ہے تو ترازو رکھو ْ 
ْ ترازو کے بغیر سودا بیچنا حرام ہے ْ 
اگلے دن بازار گیا ، ترازو کی دوکان ڈھونڈی۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی بازار میں ایسی ترازو بک رہی تھیں جو کم تولتی ہیں ، زیادہ تولنے والی ترازو بھی موجود تھی ۔
صیح ترازو بھی رکھی ہوئی تھی ۔ایمان کانٹا کا لیبل چسپاں تھا، دوکاندار کے بقول اس کے گاہک بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
ایمان کانٹا کا لیبل مگر سب پر چسپاں تھا۔

ابھی کرنے کا کام



تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل صاحب نے ، اور میں موجود تھا قریب 30 منٹ کا وعظ فرمایا اور آخر 
میں انھوں بات کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ ْ ابھی کرنے کا کام ْ یہ ہے کہ ہم توبہ کریں 

پاکستان میں سیاسی ، معاشی، معاشرتی،عدلی،علمی اور مذہبی بد عنوانیوں کو لے کر بہت سارے مسائل ہیں جو ستر سالوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کا ازالہ یا درستگی سات دنوں میں ممکن نہیں ہے ۔ مگر ایک کام ہم آج ہی کر سکتے ہیں 

ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اپنے نبی ﷺ پر جان نچھاور کرنے کے لئے مستعد ہیں، بزرگوں کا احترام ہمارے دل میں ہے،مظلوم کی مدد کو ہمار دل تڑپتا ہے ۔ہم توہر طرح سے اچھے ہیں مگر ہمارے لیڈر اچھے نہیں ہیں، ہم تو انصاف پسند ہیں مگر ہمارے منصف بدعنوان ہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں مگر پولیس کرپٹ ہے، روادار ہیں مگر محلے کا مولوی فرقہ پست ہے۔ ہماری مسجدوں م امام باگاہوں، کلیساوں اور دوسرے معبدوں میں جو مارا ماری ہوتی ہے اور خون انسانی کی ارزانی ہے وہ ہمارا عمل نہیں ہے ۔ دشمن ملکوں اور ایجنسیوں کے لوگ ہیں ۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو ہر تیسرے شخص کی زبان پر ہے ۔ 

میں نے ایک بار گھروالوں کو ، کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی ، نصیحت کی کہ جب کمرہ میں کوئی نہ ہو تو لائٹ اور پنکھا بند رکھا جائے۔ اسی دن رات کو دیر سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ سب لوگ سو رہے ہیں مگرایک کمرے میں ٹی وی چل رہا ہے، پنکھا اور بلب بھی آن ہے۔ دوسرے دن میں نے سب سے چھوٹے بیٹے سے اپنی نصیحت کے بارے میں پوچھا جو اس یاد تھی ، بڑے بیٹے سے پوچھا کہ میرے نصیحت پر عمل کیوں نہیں ہوا ۔ بحث چل نکلی اور معلوم ہوا کہ ہر ٓدمی کے کرنے کا کام کوئی بھی نہیں کرتا ۔

معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنے حصہ کا فرض ادا کئے بغیر دوسروں سے توقع رکھنا یا یہ شرط رکھنا ، چونکہ سارا معاشرہ غیر ذمہ دار ہے اس لئے میں بھی غیر ذمہ دار ہوں انتہائی بودی دلیل ہے ۔

ہمارا فوری اور ممکن کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے حصے کا فرض ادا کریں ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا فرض ہے 



کہ وہ معاشرے کو تعلیم دیں ۔ معاشرتی تعلیم عمل سے ہی ممکن ہے۔ ذاتی بے عملی کے باوجود تنقیدی ذہن ، اپنا فرض پورا کئے بغیر تنقیدی زبان اور قلم ۔ وہ معاشرتی برائی ہے جس نے سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ 

ہے کوئی مرد مجاہد جو اپنی ذات سے جہاد شروع کرے۔اور یہی ْ ابھی کرنے کا کام ہے ْ ْ ٓ