منگل، 12 دسمبر، 2017

4 دجالی پروٹوکولز

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور فلسطین :
دوسری جنگ عظیم کی ابتداء تک فلسطین میں عوامی تحریکیں جاری رہیں کہ جن میں بعض اوقات فلسطینی عوام کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن عربوں کے محدود وسائل ، برطانیہ کی فلسطینی عوام سے دشمنی اور مخالف اقدامات اور فلسطینیوں کی غفلت کی وجہ سے کوئی خاص قابل ذکر نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے کئی عوامل کے باعث انقلاب کی آگ ٹھنڈی پڑگئی کیونکہ جنگ سے دوچار ممالک میں شدید کنٹرول کی وجہ سے عربوں کے پاس اسلحہ اور دوسرے وسائل کی شدید کمی واقع ہوگئی ،فلسطین کا رابطہ لبنان اور شام سے مکمل طور پرمنقطع ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دو ممالک سے ملنے والی فوجی امداد بھی رک گئی تھی۔ جنگ کی وجہ سے ایمرجینسی کے بہانہ سے فلسطینیوں کو جلاوطن، قید یا اذیتوں کا شکار بنایا جانے لگا اور فلسطینیوں کی تمام سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی۔
دوسری جنگ عظیم کے دو اہم نتیجے سامنے آئے، ایک تو برطانیہ کی طاقت میں کمی اور نوآبادیوں کی خودمختاری اور دوسرا ''امریکہ'' کا نئی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا۔ سرزمین فلسطین پر صہیونی حکومت کا وجود جن دلائل کی بنیاد پر برطانیہ کے لیے اہم تھا، انہی کی بناء پر اس نئی طاقت کے لیے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ علاوہ ازیں، امریکی حکومت پر صہیونیوں اور یہودی سرمایہ داروں کو کافی رسوخ بھی حاصل تھا۔ ان سب عوامل کی وجہ سے امریکہ نے اس حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
١٩٤٢ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل ''بالٹی مور'' میں امریکی صہیونیوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ''ڈیوڈبن گوریان'' کی جانب سے یہ تجاویز پیش کی گئیں۔
١۔ فلسطین کی جانب نقل مکانی کی محدودیت کو ختم کرنا
٢۔ یہودی فوج کی تشکیل
٣۔ پورے فلسطین کو ایک یہودی ملک میں تبدیل کرنا
امریکی صہیونیوں کی تنظیم کی جانب سے منظور شدہ قرار داد کے بعد، امریکی صدر'' ٹرومین'' نے برطانوی وزیر اعظم ''اِٹِلی'' کو ایک خط لکھا، جس میں یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی کو آزادی دینے اور ان کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران میں برطانوی وزیر خارجہ نے عوامی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بناکر اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش کردیا۔فلسطین سے برطانوی سرپرستی کا خاتمہ :
برطانیہ نے تقریباً تیس سال کے ظالمانہ تسلط اور تمام اہم امور صہیونیوں کو سپرد کرنے کے بعد ١٩٤٧ء میں اعلان کردیا کہ وہ ١٥ مئی ١٩٤٨ء تک اپنی فوجیں فلسطین سے واپس بلالے گا۔ اسی لیے برطانیہ نے اقوامِ متحدہ سے اس مسئلہ کے حل کا مطالبہ کردیا۔
اقوامِ متحدہ نے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کو فلسطین کو تقسیم کرنے کی لائن کو معین کرنے کے لیے بھیجا جس نے تحقیقات اور مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد دو رپورٹیں پیش کیں جن میں سے ایک کی حمایت میں کمیٹی کی اکثریت نے اور دوسری کی حمایت میں اقلیت (ہندوستان، ایران، یوگوسلاویہ اور آسٹریلیا) نے رائے دی۔ پہلی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے سات حصہ کیے گئے تھے، جن میں تین تین حصوں پر یہودی اور عربی حکومت کی تشکیل اور ایک حصہ جس میں بیت المقدس شامل تھا ) کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ دوسری رپورٹ ١٩٤٦ء میں برطانوی تجویز سے مشابہت رکھتی تھی جس کے مطابق دو قوموں پر مشتمل ایک فیڈرل ملک کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کا مرکز بیت المقدس ہوگا۔
بالآخر اکثریتی ارکان کی تجویز، لاطینی امریکہ (١٢)کے ممالک پر امریکہ کے شدید دباؤ اور روس کے تعاون سے منظور کرلی گئی، اگرچہ عرب ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبہ کی منظوری کے بعد، صحیح طور پر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی کو معین کیا تا کہ وہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبہ پر نگرانی کریں، لیکن اس کمیٹی ، جنرل اسمبلی اور نہ ہی سلامتی کونسل کسی نے بھی اس نگرانی کے لیے وسائل فراہم نہ کیے اور صہیونیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا ۔ اس کے فوراً بعد فلسطین کے تمام شہروں میں شدید اعتراضات شروع ہوگئے اور مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے اس منصوبہ کی مخالفت کی۔
صہیونیوں نے اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین پر مبنی قرارداد اور برطانیہ کی فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد ان زمینوں پر حملہ کرنا شروع کردیا جو قرارداد کے مطابق عربوں کے حصہ میں آنی تھی تا کہ برطانیہ کے نکلنے سے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آئندہ حکومت کی سرحدوں کو پھیلاسکیں۔ یہ ناانصافی دیکھ کر عربوں نے اپنی جان اور وطن کا دفاع کرنے کی کوششیں کی لیکن چونکہ صہیونی پہلے ہی سے تیار تھے ، اس لیے انہوں نے جلدہی حالات پر قابو پالیا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے اعلان اور فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کی درمیانی مدت میں پوری کوشش کی گئی کہ یہودی، فلسطین پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرلیں۔ ایک طرف سے فلسطینی مسلمان، برطانوی افواج کی کڑی نگرانی میں تھے اور اپنی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوتے دیکھ کر بھی وہ کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے، تو دوسری جانب سے، ہاگانا اور اشترن آرگون جیسے دہشت گرد دستوں نے کئی قتل عام کر کے مسلمانوں پر اس طرح سے رعب اور دہشت بٹھا دی تھی کہ وہ لوگ کوئی بھی مناسب رد عمل نہ دکھا سکیں۔
١٤ مئی ١٩٤٨ء کو فلسطین میں برطانوی نمائندہ اور دوسرے ارکانِ حکومت ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ شہر حیفا سے کشتی کے ذریعہ نکل گئے۔ ابھی یہ فوج فلسطین سے نکلی بھی نہیں تھی کہ ''بن گوریان'' کی جانب سے صہیونی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔
عرب دنیا نے اس اعلان کے بعد فیصلہ کیا کہ عربوں کی منظم فوج کو یہودیوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ صہیونی حکومت کے اعلان کے ایک دن بعد عرب فوج فلسطین میں داخل ہوگئی اور اپنے مشترکہ بیان میں فلسطین میں صہیونی مقاصد کی مذمت کی اور اپنے تئیں اس سرزمین کے امن کا حامی گردانا۔
جنگ کے تمام محاذوں پر عربوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں حاصل ہوئیں اور مصر کی ہوائی فوج نے اس میں موثر کردار ادا کیا، لیکن فوج کی کمی، عرب فوجی سربراہوں کی یہودیوں کی حامی حکومتوں کے ساتھ وابستگی، بہت سے عرب سربراہانِ مملکت کی بے غیرتی اور برطانیہ کی جانب سے عربوں پر اسلحہ کی پابندی جیسے اسباب کی بناء پر عربوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یہ جنگ آٹھ روز تک جاری رہی اور بالآخر امریکی اور برطانوی کوششوں سے جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
سرزمین فلسطین پر صہیونی تسلط کے عوامل میں سے ایک اہم عامل، اکثر عرب سربراہوں کی سرمایہ داری نظام سے وابستگی تھی۔ مثال کے طور پر ، عرب اسرائیل جنگ کے دوران ، ماورائے اردن فوج کی سربراہی ایک انگریز میجر ''کلوپ پاشا'' کے ہاتھ میں تھی۔ ١٩١٩ء میں عرب افواج کے سربراہ فیصل بن شریف حسین (امیر مکہ) نے برطانیہ کے اکسانے پر وائز مین کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا، جس میں فیصل کے انگریز دوست لارنس نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدہ کے مطابق فیصل کے لیے ایک عرب سلطنت اور وائزمین کے لیے ایک خودمختار یہودی ریاست کی تجویز پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل نے اعتراف کیا ہے کہ اگر سلطان عبدالعزیز (اس وقت کے حجاز کے حکمران ) نہ ہوتے تو یہودی فلسطین پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے۔

3 دجالی پروٹوکولز

صہیونیوں کی ہوس :
دوسرے ممالک پر اپنے اقتدار کی ہوس کو جائز قرار دینے کے لیے ، صہیونی، ''ارضِ موعود'' کی حدود کے بارے میں، توریت میں موجود جعلی باتوں کو دستاویز قرار دیتے ہیں۔ '' روژہ گارودی''کے خیال میں صہیونی حکومت کی فوجی پالیسی (١٠)کا ہدف صرف اسرائیل کا دفاع نہیں ہے بلکہ خطہ کے عرب ممالک کو توڑنا ہے۔ اپنی سرحدوں کے مسلسل پھیلاؤ کی ''توجیہ'' اور بین الاقوامی دہشت گردی اور قتل عام کے وحشیانہ طریقوں کو ''جائز'' دکھانے کے لیے، توریت سے صہیونیوں نے سوء استفادہ کیا ہے۔
'' بن گوریان''(١١)کے خیال میں پانچ علاقوں کو اسرائیل میں شامل ہونا چاہیے۔ دریائے لیطانی تک جنوبی لبنان، جنوبی شام، پورا اردن ، پورا فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا۔ یہاں تک کہ بعض صہیونی ، ترکی کی شمالی سرحدوں کو بھی اسرائیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تھیوڈور ہرٹزل نے ١٨٩٨ء میں نیل سے فرات تک اسرائیلی سرحدوں کا تعین کیا تھا۔ '' بن گوریان'' کے عقیدہ کے مطابق اسرائیلی سلطنت فوجی اور سیاسی دونوں طریقوں سے تشکیل پائے گی۔ اسرائیل کی صہیونی حکومت کی پارلیمنٹ کے دروازہ پر لکھا ہے :
'' اے یہودیو! تمہارا وطن نیل سے فرات تک ہے'' ۔
صہیونی ہمیشہ اپنے اصلی مقصد کو خفیہ رکھتے ہیں یا گول مول انداز میں اس کو بیان کرتے ہیں اور صرف ظاہری مقصد کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ١٨٩٧ ء سے ١٩٤٦ء تک وہ لوگ کہتے رہے کہ ہم صرف یہودیوں کے لیے ایک مرکز چاہتے ہیں، حکومت نہیں۔ اور کہتے تھے کہ ہم فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور نہیں کریں گے، لیکن جب طاقت حاصل کرلی تو یہودی حکومت کا مطالبہ کر دیا۔ صہیونی حکومت کے سابق وزیر دفاع ''آریل شارون'' نے ١٩٨٠ء کے عشرے کے دوران صہیونزم کی پالیسیوں کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا:
'' ضرورت ہے کہ اسرائیل کی دفاعی اور اسٹریٹجک مصلحت مشرقِ وسطیٰ، بحرروم اور بحر احمر کے ساحلوں پر موجود عرب حکومتوں سے آگے بڑھ کر ٨٠ کے عشرے میں ترکی، ایران ، پاکستان ، خلیج فارس کے علاقوں اور افریقا خاص طور پر شمالی اور مرکزی افریقا کو بھی شامل ہے
یہودی حکومت کے قیام کے لیے بین الااقوامی سطح پر صہیونی اقدامات، برطانیہ کی مدد اور یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے ذہنی آمادگی پر بحث کی گئی ۔ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ، بوڑھے سامراج کے زوال اور نو آبادی علاقوں کی خودمختاری کی نوید لے کر آیا۔ برطانیہ نے یہ اعلان کر کے کہ وہ اب فلسطین کی سرپرستی جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، صہیونی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کردی۔ اس کام کی قانونی پشت پناہی کے لیے نومولود ''اقوام متحدہ'' کی قرار دادیں موجود تھیں۔

2 دجالی پروٹوکولز

صہیونی پر وٹوکول یا ان کے بنیادی اعتقادات

صہیونیوں نے اپنے ناپاک ارادوں کو چند اصولوں کی صورت میں بیان کیا ہے، جو ''پروٹوکول'' کے نام سے معروف ہیں۔ صہیونی اداروں نے ١٨٩٧ ء میں ایک نشست منعقد کی جس میں چند ایک فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ کے احوال کو سپرد قلم کرکے اس کا نام ''پروٹوکول'' رکھا گیا۔ ان ''پروٹوکلولز'' کا مجموعہ ایک کتاب میں شائع ہوا لیکن ہر بار چھپنے کے فوراً بعد وہ کتاب نایاب ہوجاتی ہے کیونکہ یہودی اسے فوری طور پر خرید لیتے ہیں۔
پروٹوکول کے بنیادی نکات :
پروٹوکولز کی تشریح اور اس پر لکھے گئے مقدمہ کے مطالعہ سے تین بنیادی نکتے سامنے آتے ہیں:
ِ ١۔ آزادی پسند اصولوں پر فلسفی تنقید اور آمرانہ حکومت کی تعریف
٢۔ عالمی آمرانہ حکومت کے قیام کے لیے یہودیوں کو اطمینان
دلانے کے لیے اجتماعی جنگ کا منصوبہ
٣۔ اس منصوبہ کے بنیادی نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیشگوئی (٩)
یہودی منصوبہ بندی کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے صہیونی درج ذیل امور پر کام کرتے ہیں:
١۔ فلسطین پر قبضہ اور خطہ میں یہودیوں کو جمع کرنا۔
٢۔ عالمی صہیونی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں ۔
٣۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے نسلی برتری کا خیال خام اور اس سیاسی نظریہ کو انجام دینے کا اعتقاد یہودیوں کا اسلحہ ہے۔
٤۔ ہر ممکن طریقہ سے مذہبی اعتقادات اور ایمان اور درحقیقت تمام توحیدی ادیان خاص طور پر اسلام کو محو کر دینا، اگرچہ اس عمل کو دینی رنگ ہی دینا پڑے۔
کلی طور پر صہیونزم اپنے اہداف کے حصول کے لیے درج ذیل پروگرام پر عمل کرتا ہے :
لوگوں کے مذہبی اعتقادات کو مشکوک بنانا، مذہبی رہنماؤں کو راستہ سے ہٹانا، دہشت گردی، فریب اور دھوکہ دہی، فحاشی کی ترویج، بے رحمی اور قتل و غارتگری، غیر اخلاقی حرکتوں کی تبلیغ، لوگوں کو عیش و عشرت میں مشغول کرنا، برائیوں کا فروغ، نمود و نمائش، لوگوں کو سیاسی مسائل سے دور کرنا، تفرقہ ڈالنا، جنگیں کروانا اور دوسرے ممالک پر قبضہ کرنا۔
یہود اور یہودیت کے ساتھ صہیونزم کا تضاد:
صہیونی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام مظالم یہودیوں کے اعتقادات اور آرزوؤں کے مطابق ہیں۔ اسی لیے اپنے مظالم کے جواز کے لیے وہ تمام عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ یہودیوں سے منسوب نعروں، اشاروں، علامتوں اور رنگوں سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح سے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی تمام وحشیانہ اور انسانیت سوز کاروائیوں کو دینی نقاب کے پیچھے چھپالیں اور عالمی حمایت حاصل کرسکیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
یہودیت اور صہیونزم کے درمیان واضح فرق موجود ہے۔ ''یہودی'' اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ان احکام کا پابند ہو جو خداوند عالم کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے اور ان کی گفتار و کردار انہی حدود میں رہ کر اس طرح سے ہوکہ اسے بری صفت، بداخلاقی اور ناشائستہ عمل سے روک دے اور اسے سچائی، نیکی اور انسانوں کے درمیان اچھے تعلقات کی طرف رہنمائی کرے جو کہ ایک خدائی انسان کا خاصہ ہے۔
سچا یہودی نہ صرف اپنے دین کے اصولوں کا اعتقاد رکھتا ہے، بلکہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتا ہے۔ وہ خود کو بندگانِ خدا میں سے ایک بندہ اور اسے اپنے اعمال پر نگراں سمجھتا ہے جبکہ صہیونزم دنیاوی اہداف رکھنے والا ایک سیاسی نظریہ ہے جو نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا صفات سے بالکل بے بہرہ ہے بلکہ اس کے برعکس سوچتا ہے اور اس کے برخلاف ہی عمل کرتا ہے۔
دوسرے ممالک پر تسلط، تجاوز کی ہوس، شیطنت اور اختلاف ڈالنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ہر طریقہ سے رقم بٹورنا، دوسروں کے مال قبضہ کرلینا اور دوسری ہزاروں اخلاقی برائیاں صہیونزم کی واضح صفات میں سے ہیں۔
صہیونیوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کو یہ باورکرادیں کہ جو صہیونی نہیں ہے، وہ یہودی نہیں ہے۔ جب کہ دنیا بھر کی یہودی تنظیموں کی صہیونی سیاست سے مخالفت اس دعویٰ کو مسترد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، خود مختار یہودی تنظیمیں ، صہیونیوں کے برخلاف ، امن و آشتی کے ساتھ اور اپنے ہی ملک (جہاں وہ رہائش پذیر ہوں) میں موجود حکومتی نظام میں ضم ہو کر رہنا چاہتی ہیں۔
حقائق، دستاویزات، یہودیوں حتیٰ کہ یہودی رہنماؤں کے مطابق صہیونزم، یہودیت سے علیحدہ چیز ہے کہ جس نے لفظ یہود سے سوء استفادہ کرتے ہوئے، بہت سے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک یہودی رہنما کا کہنا ہے:
'' صہیونزم نے دین یہود کو اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔''
ایرانی یہودیوں کی روشن خیال انجمن کا آرگن تموز لکھتا ہے :
'' صہیونیوں۔۔۔۔ کا دینِ یہود کی توحیدی اقدار اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے خدائی احکامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''
تاریخی شواہد کے مطابق صہیونزم کا نظریہ پرداز تھیوڈور ہرٹزل بے دین تھا اور خدا پر کوئی اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔
دوسری جانب سے، تمام صہیونی ، یہودی نہیں ہیں ، بلکہ بہت سے صہیونی رہنما اور سرکردہ افراد غیر یہودی رہے ہیں۔ یورپی اور امریکی سامراجی حکومتوں کے بعض سربراہوں اور حکومتی افراد نے یہودی نہ ہونے کے باوجود ، صہیونزم کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعتراف اور عملی طور پر اس پر فخر بھی کیا ہے۔ شایانِ ذکر ہے کہ سارے '' اسرائیلی'' بھی یہودی نہیں ہیں، کیونکہ یورپی اور امریکی ممالک سے کوچ کرنے والے افراد میں سے بہت سے لوگ یہودی نہیں تھے بلکہ وہ نسلاً بھی یہودی نہیں تھے۔

دجالی پروٹوکولز 1

ہزاروں سال پہلے دنیا پر یہودیوڑں نے دجالی حکومت کو قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا جو اب حقیقت بن چکا ہے اور یہودیوں نے تمام مزاہب کو جس طرح گمرہ کیا شراب نوشی ،فحاش،عریانی اور کس چلاقی سے تفرقہ بازی کو فروغ دے کر کسی کو اس کا علم بھی نہ ہو سکا یہودی آپنے علاوہ تمام مزاہب کے کو گمراہ کرنے کی سازش میں آج کامیاب ہو چکے ہیں اپنے دجالی نجات دہندہ امریکی حکومت کی مدد سے گریٹر اسرائیل بنارہیں ہے مگر مسلمان گمراه کن فرکہ واریت کی وجہ سے تباہ ہو رہیں ہے اگر آج بھی مسلمان طاقتورقوم اور مقبول ترین قوم بن سکتی ہے اگر متحد ہو کر قرآن مجید پر عمل کرنا شروع کر دے
’’ دجالی پروٹوکولز" اس قسم کی کتاب کی تشہیر تو کیا اس کا ذکر بھی امریکہ ، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک میں خودکشی کے مترادف ہوتا ہے - اس لیے ان " جمہوری" ممالک کے عوام کے لیے ان میں لکھیں باتیں انہونی اور بالکل ناممکن معلوم ہوتی ہیں اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دُنیا میں موجودہ غربت، بے روزگاری، نفسانفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی موجودگی کی اصل وجہ بھی معلوم ہو جائے گی۔یہودی اسکے نسخے خرید کر تلف بھی کرتے رہے ہیںتقریبا سو سال کے اس عرصے میں " پروٹوکولز " کو یہودیوں نظریہ دانوں میں ایک بائبل کی سی اہمیت حاصل ہو گئی،’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسے اجلاس کی کارروائی کو بیان کیا گیا ہے جس کے شرکاء میں طاقتور یہودی اور فری میسن شامل تھے جس میں انہوں نے اس بات پر غوروفکر کیا تھا کہ دنیا پر کس طرح غلبہ حاصل کیا جاۓ- فرانس1890 میں یہودیوں نے ایک عالمگیر سازش کا مرکزی نقطہ بنا دیا جو فری میسن کی مدد سے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے تھے.1890 میں یہودیوں اور فری میسن کے درمیان ایک میٹنگ تھی جسکا مقصد تمام مزاہب کا خاتمہ کرنا اور سیکولر ڈیموکریسی اور سوشلزم کی مدد سےپوری دنیا میں یہودی شہنشاہیت کا قائم کرنا تھا، صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے۔

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟


تحریر: سہیل احمد

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟
عام طور پر ہمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ھے کہ یہود کی بیت المقدس کے ساتھ عقیدت اپنی مذہبی تاریخ اور تعلق کی وجہ سے ھے، کہ بیت المقدس ایک طرح سے یہود کی جائے پیدائش تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور یہود کے کئی جلیل القدر انبیاء بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اور یہ وہ سرزمین ھے جہاں یہود کی مقدس عبادت گاہ ہیکلِ سلیمانی ہوا کرتی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوا کرتی تھی
اس تصور کا یہ مفہوم نکلتا ھے کہ یہودی مذہب بھی گویا عیسائیت کی طرح اپنے آپ کو آسمانی مذہب مانتا ھے بس ان کے مذہب میں کچھ ایسی باتیں پیدا ہوگئی ہیں جس سے وہ حق پر نہیں رہے جیسے ان کے اندر پیدا ہونے والا نسلی فخر و غرور جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دنیا کی تمام اقوام پر برتر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا لاڈلا کہلواتے ہیں .
یہ مغالطہ اور اس جیسے دوسرے مغالطے ہمارے ذہنوں میں اس لئیے پائے جاتے ہیں چونکہ یہود دنیا کی وہ واحد قوم ھے جو اپنے اصل مقاصد اور نظریات دنیا سے سو پردوں میں چھپا کر رکھتی ھے.
بیت المقدس پر دوبارہ قبضے کی جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہیں صہیونی کہا جاتا ہے اور صہیونیوں کے بارے میں یہ معلومات کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ خدا کے بجائے شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور فری میسنز اور الومیناٹی کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کا مقصد دنیا پر ایک شیطانی قوت دجال کی حکومت قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے تو ایک شیطان کی پوجا کرنے والی قوم کے لئیے بیت المقدس کی کیا اہمیت ہوسکتی ھے جس کے ساتھ ان کا رشتہ شیطانی نہیں بلکہ روحانی اور آسمانی ھے؟؟
یعنی بیت المقدس کی آسمانی تقدیس اور روحانیت یہود کے شیطانی منصوبے کے لئیے کس طرح کوئی مددگار بن سکتی ھے کہ انہیں اپنے شیطانی منصوبے کی تکمیل کے لئیے اس کی ضرورت پڑ رہی ہے!؟
اس کا جواب تھوڑا طویل ھے مختصرا ً اتنا عرض ھے کہ یہود کو بیت المقدس کی ضرورت ان کے اس آبائی تعلق اور نسبت کی وجہ سے نہیں ھے جو اسے ان کے انبیاء کی سرزمین بناتا ہے بلکہ یہود کو بیت المقدس اس لئیے چاہئیے چونکہ یہ سرزمین اور اس پر موجود ٹیمپل ان کے دنیا کی تمام اقوام پر برتری کی علامت ہوا کرتا تھا
یہود کی شیطانی محنت کا دارومدار محض پیشنگوئیوں پر ھے جس کے مطابق آخری زمانے میں ایک مسیحا (جس کی شیطانی حیثیت سے وہ بخوبی واقف تھے) آکر دنیا میں ایک دفعہ پھر یہود کو دنیا کی تمام اقوام پر برتری دلوائے گا اور چونکہ بیت المقدس ہی وہی مقام ھے جو یہود کی دوسری اقوام پر کوئی برتری کی علامت رہا ھے اور یہود کی جائے پیدائش بھی وہی تھا اس لئیے اس مقام پر پہلے قبضہ اور اسے اپنی برتری کی علامت بنانا یہود کے اولین مقاصد میں سے ھے تاکہ اپنی نسلی برتری کو دنیا والوں سے منوا کر اپنے پوری دنیا پر قبضے کے شیطانی منصوبے کی تکمیل کی جائے. تو یہود کو بیت المقدس کسی مذہبی رشتے یا تقدس کی وجہ سے نہیں چاہیے بلکہ انہیں وہ اس لئیے چاہئیے چونکہ بیت المقدس ان کی دنیا والوں پر نسلی برتری کی علامت ہے
دیوار گریہ کے ساتھ لگ کر تورات کی آہ و زاری کے ساتھ تلاوت کرتے یہودیوں سے مغالطہ نہ ہو کہ یہود اگر پوری دنیا کو اپنے مقاصد کے بارے میں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں تو اپنی قوم کے ہر فرد کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ اپنے شیطانی منصوبے کے لئیے انہیں اپنا مدد گار بنائیں. مذہب کو انہوں نے صرف اس لئیے زندہ رکھا ہوا ہے کہ یہ وہ واحد ذریعہ ھے جو ان میں نسلی تفاخر کو پیدا کرتا ہے. یہی وجہ ھے کہ آپ کو ایسے یہودی بھی ملیں گے جو ہماری طرح ان کے مذہبی ڈرامے کو کوئی حقیقت سمجھ کر صہیونیت سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آئیں گے.
یہود کی اگر اصل عبادات اور رسومات دیکھنی ہیں تو فری میسنز لاجز یا ان کے مشہور کلبز سکل اینڈ بونز اور بوہیمین وغیرہ میں دیکھی جائیں جہاں شیطان کے سامنے معصوم نوزائیدہ بچوں کو آگ میں زندہ جلایا جاتا ہے..