ہفتہ، 25 نومبر، 2017

فیض آباد دھرنے کی روداد



* سپریم کورٹ کے حکم پر رات بارہ بجے شروع ہونے والا "دھرنا ہٹاو" اپریشن ، بلند درگاہ گولڑہ شریف کی درخواست پرحکومت نے ملتوی تو کر دیا گیا ۔ مگر صبح سات بجے یہ اپریشن شروع کر دیا گیا، جس میں پولیس، رینجرز اور ایف سی نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر سیکورٹی کے 8500 جوانوں نے اس میں حصہ لیا۔


*فیض آباد ، راولپنڈی اور اسلا�آباد کو ملانے والا اہم اور مصروف ترین راستہ ہے۔ یہاں پانچ سڑکیں آپس میں ملتی ہیں۔ ایک روڈ جس کو آئی جے پی روڈ کہا جاتا ہے جی ٹی روڈ سے آتی ہے جس پر صوبہ کے پی کے سے آنی والی ٹریفک چلتی ہے ، پیر ودہائی اور دوسرے معروف شہروں کو جانی والی گاڑیوں کے اڈے بھی اس سڑک پر واقع ہیں۔
دوسری بڑی گذرہ گاہ مری روڈ ہے جس سے راولپندی کے رہائشی اسلا�آباد میں داخل ہوتے ہیں، تیسری وہ ہائی وے ہے جس پر لاہور کی جانب سے آنے والی ٹریفک چلتی ہے۔ چوتھی سڑک مری کی طرف سے آنے والی ٹریفک کی گذرگاہ ہے اور پانچویں شاہراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کا بنیادی اور مصروف ترین رستہ ہے۔ یہاں ٹریفک کا بہاو اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ فیض آباد کے مقام پر ایک بڑا اوروسیع پل ( فلائی اور) بنایا گیا ہے ، دھرنا کے قائدین پل کے اوپر اس مقام پر تشریف فرما ہیں کہ پانچوں راستے ان کے قدموں کے نیچے ہیں اور نگاہوں کے سامنے ہیں۔


*پولیس نے اس ااپریشن کے لیے کافی تیاری کی ہوئی تھی۔ ان کی حکمت عملی کا اساسی نقطہ یہ تھا کہ کسی کو جانی نقصان پہنچائے بغیردھرنے والی جگہ کو واگذار کرایا جائے۔اس اپریشن کو عملی جذبے اور مربوط حکمت عملی سے شروع کیا گیا، تمام راستوں پر کنٹینر لگا کر اہل دھرنا کو پہلے ہی محصور کیا جا چکا تھا، پولیس نے پتھراو کر کے دھرنے کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کو مرکزی مقام سے کنٹینرز کے عقب تک آنے پر مجبور کیا، جب مرکزی قام پر صرف قائدین اور سو ڈیڑھ سو کے درمیان کارکن رہ گئے تو آگ کے شعلے پھینک کر رہائشی خیموں کو نذر آتش کر دیا۔ اور پھر کثیر مقدار میں آنسو گیس پھینک کر ساری رات کے بیدار قائدین کو نڈھال کر دیا۔ پروگرام کے مطابق اس مرحلے پر پانی والی توپ سے ٹھنڈا پانی برسا کر قائدین کو جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دینا شامل تھا، مگر اس مرحلے پر پولیس کی حکمت عملی پر ہی پانی پھر گیا۔ اور شاہدین نے پولیس کو عجلت میں دھرنے کی جگہ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جاتے 
دیکھا۔



* اس دوران پولیس تقریبا دو سو افراد کو گرفتار کر کے اور ان کو قیدیوں کی گاڑیوں میں بند کر چکی تھی۔ اس دوران اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ۲۸ اور راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ۱۲ زخمیوں کو لایا گیا 
جن میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔ پولیس کے ایک جون کی ہلاکت کی البتہ تصدیق نہ ہو سکے۔


*نومبر ۲۰۱۷ کے اس اپریشن نے نومبر ۲۰۰۷ کے اس اپریشن کی یاد تازہ کرا دی جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا اور ناکام ہو گیا تھا۔ یہ اپریشن بھی ناکام ہوا۔ دھرنا قائدین کی کمک کے لیے راولپندی، اسلام آباد سے بڑی کمک میسر آ گئی۔ اور میدان اہل دھرنا کے نام رہا۔

*جب پولیس میدان چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جا رہی تھی ، اس وقت کسی ذمہ دار پولیس افسر کے پاس بات کرنے کا وقت تھا نہ ہی الفاظ۔ بد دلی اور یاسیت کے ملے ملے جذبات البتہ غالب تھے۔ صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ اپریشن چھوڑ کر واپسی کا حکم آیا ہے۔


*بعد میں معلوم ہوا کہ پاک فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں۔


*اس افراتفری میں بعض مقامی لوگوں نے جن کو معلوم تھا کہ سابقہ وزیر داخلہ کا گھر فیض آباد میں ہے ان کے گھر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر صرف بیرونی گیٹ ہی کو نقصان پہنچا سکے۔




*دھرنا قائدین نے جس جرات اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب ان کے کارکن ان سے دور جا چکے تھے، ان کے گرد گھیراو تنگ کیا جا چکا تھا، اس دوران بھی ان کے جذبے کا قائم رہنا اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا، ایسا عمل ہے جو ان کے اپنے کاز سے مخلص ہونے کا پتہ دیتا ہے۔


*اس دوران چند سیاسی لوگوں کے بیان آنا بھی ہوا کے رخ کا پتہ دیتا ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کے سربراہ اور

اے این پی کے رہنماء جناب افراسیاب خٹک کے بیان قابل ذکر ہیں۔

*یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کچھ لوگ جو دھرنے میں شامل ہی نہیں تھے اور اس پل پر کھڑے تھے جو قائدین دھرنا کے بالکل سامنے ہے، ان کے پاس ایسی بندوقیں تھیں جن سے پولیس والوں پر ٓنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔


*یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دھرنا قائدین کو صوبہ کے پی کے سے بڑی تعداد میں علماء اور شیوخ نے ذاتی طور پر آ کر نصرت اور یک جہتی کا اعلان کیا ، مگر عملی طور پر صرف سندھ اور پنجاب ہی بند ہوا مگر پشاور میں کوئی دھرنا نہ ہوا ۔ جبکہ فیض آباد میں دھرنا قائدین کی امیدیں اس کے بر عکس تھیں۔

*اس دھرنے میں مذہبی عنصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ سیاسی کردار کی حقیقت چند دنوں میں واضح ہو جائے گی۔

*بعض مذہبی جماعتوں او ر تنظیمیوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل بھی چند دنوں تک ، دھندلی تصویر کو واضح کر دے گا۔

جمعہ، 24 نومبر، 2017

مصر : مسجد پر حملہ

حملہ میں اب تک 235   لوگ ہلاک اور109 زخمی ہوئے ہیں


یہ ولاِیۃ سینائی نامی گروپ کا کام ہے جس کا تعلق دعش سے ہے




مصر کے صوبہ سینائی مین واقع مسجد العریش میں نما ز جمعہ کے نمازیوں پر وحشیانہ حملہ، دنیا بھر میں
 مسلمانوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں
      مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک مرنے والوں کی تعداد 236 ہو چکی ہے،   پہلے مسجد میں بم پھینکا 
گیا اور ساتھ ہی نمازیوں کو گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا گیا۔ 



صہیونی میدیا کی طرف سے شعلہ برساتا سوال
Again. Muslims killing Muslims for not being Muslim enough. Just imagine what they’d do to Non Muslims-given the chance.



دہشت گرد  4 گاڑیوں میں آئے ، پہلے بم پھینکا پھر نمازیوں پر گولیاں برسائیں
Over 235 people killed - Deadliest terrorist attack in Egyptian history - During prayers at mosque in North Sinai - Condemnations from Arab League, US, Gulf states and Jordan
تین دن پہلے ناہجیرا کی مسجد میں بھی ایسا ہی ظلم ڈہایا گیا تھا



یہ مسجد "صوفی مکتبہ فکر " والوں کی بتائی جاتی ہے

مصری حکومت نے دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے

سات دہشت گردوں نے اہمبولنس پر بھی گولیان برسائیں


امریکی صدر کی مسجد پر حملہ کی مذمت

تقسیم کی لکیر



اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جنجویانہ اور غیر مفاہمانہ رویے کا حامل مذہب ہے ، یہ خاکہ غیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اندر بھی نئی نسل میں راسخ ہو چکا ہے
اسلام ، انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود ، مسلم اکثریت کے ممالک میں انسانی اقدار پر عمل نہ ہونے کے باعث مدافعتی رویے پر مجبور ہے۔ دین کے دکھائی دینے والے چہرے کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں تعلیم یافتہ طبقہ دو گروہوں مین منقسم ہے۔ عصری علوم کا پروفیسر،دینی مفتی کے علم منظق و فلسفہ کوعصر حاضر کی اورنج ٹرین کا پچھڑا ہوا مسافر گردانتا ہے ، جب کہ دینی اداروں میں اب بھی جدید معاشرے کی بناوٹ پر بحث کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک میں معاشرتی بناوٹ کے باعث، مسجد کا مائیک دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے کے سبب ان کی آواز بلند تر ہے جو مساجد کے قریبی گھروں ہی میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لوگوں پر بصارتوں کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ عام آدمی کی بصارتوں تک صرف مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی ہے اور جدید علوم کی آوازیں مخصوص تعلیمی اداروں اور چند بند مقامات میں کم لوگوں تک رسائی حا صل کر پاتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فلسفہ دینی مدرسے میں پڑھا جائے تو دین کا حصہ اور کالج سے پڑھا جائے تو دین بیزار مضمون بن جاتا ہے۔اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کی سند سیال شریف سے ہو تو معاشرے کا رہنماء اوراسلامیات میں پی ایچ ڈی یونیورسٹی سے ہو تو مشکوک ۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھنا چائیے، اور معاشرے کی رہنمائی کا فرض نبھانا چاہئے ، اختلافات اور معاشرتی تقسیم ، تعلیم یافتہ افراد کی پیدا کردہ ہے۔اوراس تقسیم کی لکیر کو مٹانا بھی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہی کام ہے۔ 

بابا بھلے شاہ کی ایک نظم کا بند اہل علم کی نذر
عِلموں پئے قِضیّے ھور
اکھّاں والے انّھے کور
پھڑدے سادھ ، تے چھڈن چور
دو ھیں جہانِیں ، ھون خوار
عِلموں بس کریں او یار

بدھ، 22 نومبر، 2017

پہلی بار

22
 نومبر 2017 فیض آباد دھرنے کا 17 وان دن، میرے دیکھتے دیکھتے کم از کم 4 باوردی لوگوں کو لہو لہان کر گیا۔لمبے ڈنڈوں سے مسلح جوانوں کا جتھہ اپنی فتح کے نعرے لگاتا ہجوم میں گم ہو گیا۔
اسی اسلام اباد میں قومی اسمبلی کی عمارت میں بھی ایک معرکہ برپا تھا۔ریاستی نصرت سے آراستہ متحدہ اپوزیشن رائے شماری کے نتائج پر حیرت زدہ تھی۔
وزیر قانون کے بیان کو اسمبلی کے اندر اپوزیشن اور فیض آباد میں بیٹھے عوام نے یکساں نا پسندیدگی سے سنا ، اور کڑوا سچ یہ نکلا کہ دھرنے کا باعث سبب بننے والے بل کی منظوری میں اکثر سیاسی جماعتوں سمیت شیخ رشید کا ووٹ بھی شامل تھا۔
پہلی باریہ ہوا کہ فیض آباد دھرنے کے شرکاء نے ہی پولیس والوں پرتشدد کی مذمت اس عزم سے کی کہ کنٹینر کے لاوڈ سپیکر وں سے اس کی توجہیات بیان کی گئیں، دوسری طرف 70 سالوں میں پہلی بار عوام نے قومی اسمبلی میں خود کو ملکی معاملات میں حصہ دار پایا۔
اداروں کے خود ساختہ ترجمان، عدلیہ کو مفت مشوروں سے نوازنے والے، سیاسی رہنماوں کی ٹانگیں کھینچنے والے ، اور ذاتی خواہشات کے اسیران ، اپنی سوچوں کو اسمبلی میں آئین او ر فیض آباد میں قانون کو اپنی راہ بنانے دیں۔
پہلا بیانیہ ہی آخری ثابت ہو گا اور پہلا بیانیہ یہ ہے کہ ْ جس کا کام اسی کو ساجھے ْ 

جمعہ، 17 نومبر، 2017

صبح نور



سعودی عرب کی اہمیت
سعودی عرب اپنے جغرافیائی وجود، دو متبرک شہروں کی موجودگی اور حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت اور مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر و رسوخ اور سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے ، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردگی اور بہادری کی تاریخ اور اپنے مخصوص قبائلی ہیت کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔جدید تاریخ میں خدا داد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے اور دنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو ، حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، مملکت کا جھنڈا وہ وحید علم ہے جو کبھی بھی سر نگون نہیں ہوتا۔
مگر ماضی قریب میں اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔




کرپشن
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔سعودی عرب میں کرپشن کی داستانوں کا طویل عرصہ سے بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہے مگر اس امیج کو درست کرنے کی جانب پہلی بار موثر قدم اٹھایا گیا ہے۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایساجرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کوحیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑہا بلکہ اس قدم سے معاشی نا ہمواری کی ٹوٹی پھوٹی راہ کی مرمت کی امید بندہی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑہوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود نخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔
اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔




سعودی ولی عہد کو جن چیلنج کا سامنا ہے اس میں ایک یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے حکومتی حریفوں پرہاتھ ڈال کر اپنے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ محض الزام ہی ہے کیونکہ ان کی ولی عہدی کا شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق کر چکی ہوئی ہے۔ اور انھوں نے تیاری اور ثبوت کے ساتھ صرف کرپشن مین مبتلاء افراد پر ہی ہاتھ ڈالا ہے۔ اور اس میں ان کے اپنے وزیر، مشیر اور خاندان کے لوگ بھی سر فہرست ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین کے منہ بند ہو جائیں گے کہ خادم حرمین شریفین نے عدلیہ میں نئے منصف ، جو قانونی ماہرین ہیں اور غیر جانبداری کی شہرت رکھتے ہیں شامل کر کے اور عدلیہ میں موجود ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کر دیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ اس تحریک کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ایسے سات افراد کو رہا کر دیاگیا جو اس پکڑ دھکڑ کا شکار ہو گئے تھے۔
جب مقدمات چلیں گئے اور تحویل میں لئے گئے افراد کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں گی تو عوام اور دنیا کا سعودی حکومت اور معاشرے پر یقین بڑہے گا۔



اخوت کی ٹھوس بنیاد
امت مسلمہ آپس میں اشتراک و اتحاد کے لئے مدت سے تگ و دود جاری رکھے ہوئے ہے ، علاقائی اتحادجیسے جی سی سی یا بین الاقوامی اتحاد جیسے اسلامی سربرائی کانفرنس در اصل اسی اتحا د اور اتفاق کے حصول کی کوشش ہے۔ جو وقت کی ضرورت اور اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔ قوموں مین اتحاد و یگانگت کے کئی محر ک ہوتے ہیں جیسے یورپی یونین کے اتحاد کی بنیاد معاش بنی۔ کچھ اتحاد علاقائی وحدتوں میں معاشرتی اشتراک بنا ، کہیں مشترک دشمن نے ملکوں کو اتحا د پر مجبور کیا۔مگر دین میں مشترکہ اعتقادات پر مبنی اتحاد ہمیشہ ہی پائیدار ثابت ہوا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت ، خاتم المرسلین کی ذات سے محبت، قرآن جیسی آفاقی کتاب کا موجود ہونا ، ایسی حقیقتیں ہیں جو اتحاد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانیت کو ٹھوس اور دور رس تحفے دئے تھے ۔ دور نبوت میں رسول اللہ کا یہ فرمان کہ عورتوں کو بھی ترکے میں حصہ دو حالانکہ کہ اس وقت عورت کو زندہ درگور کر دینا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علاقی و خاندانی تفرقات کی جائے تقویٰ کی بنیاد پر معاشرے کی بنیاد رکھنا ۔ ایسے انقلاب آفریں اعلانات تھے جس نے معاشرے کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ رواداری، محبت ، عفو و در گزر کے پیغام محمدی کو تو ہم عشروں سے پس پشت ڈالے ہوئے تھے ۔ اب خادم حرمین شریفین نے عید میلاد النبی پر عام تعطیل کا اعلان کر کے یہ راہ دکھائی ہے کہ ْ یا محمدا ْ کی بنیاد اگر ابوبکر کے دور میں نتیجہ خیز تھی تو موجودہ دور میں بھیْ حب النبیْ خیر ہی کا پیغام ثابت ہو گی۔تنقید، انا پرستی، اور مسلکی تفاخر ایسے امراض ہیں کہ جس جس معاشرے میں پھیلے اس معاشرے کو تباہ ہی کیا۔امید رکھنی چاہئے کہ حب النبی کے سایہ دار ، خوشبودار شجر سے اسلام کے باسیوں کو امن و عافیت کا سایہ نصیب ہو گا۔ خادم حرمین شریفین نے ۲۱ ربیع الاول کی اہمیت کو واضح کر کے خطے کے باسیوں کو محبت، دوستی کی راہ دکھائی ہے ۔