پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3
----------------------
 خواجہ ناظم الدین اسی احسا ن منزل میں پیدا ہوئے تھے جہاں کسی زمانے میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے تو اہل بنگا ل نے انھیں ڈھاکہ میونسپلٹی کا چیرمین اورڈھاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ممبر بنادیا ۔1922ء سے 1929ء تک وہ ڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے چیرمیں رہے۔ 1929ء میں اپنی قابلیت کی بنا پر متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔1937ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا اور مسلم لیگ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبہ کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ دسمبر 1941ء تک اس عہدے پر کام کیا1942  ء میں مولوی  فضل الحق کی وزارت ختم ہونے پر خواجہ ناظم الدین نے وزارت بنائی۔ 1945ء تک وہ بنگال کے وزیراعظم رہے۔ 1937 سے 1947 تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔خواجہ ناظم الدین نے تحریک پاکستان میں جو خدمات انجام دیں‘ وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی قائد اعظم نے ان کے بارے مین کہا تھا”خواجہ ناظم الدین ذمہ دارلیڈر ہیں ۔ اور پاکیزہ کردار کے مالک ہیں ۔ ان کا کردار بالکل صاف ستھرا ہے۔ اُنہوں نے پوری زندگی میں اپنا دامن الزام سے پاک و بے داغ رکھا ہے۔“
پیر علی محمد راشدی  لکھتے ہیں:”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انہیں مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ نے انہیں بطور گورنر جنرل قائد اعظم کا جانشین منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اس عہدے پر 17 اکتوبر 1951ء تک فائز رہے، اس کے بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور 17 اپریل 1953ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے انہیں گورنر جنرل غلام محمد نے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور اس طرح ملک میں غیر جمہوری دور کا آغاز ہوا۔خواجہ صاحب کی حکومت سے معزولی کا ایک بڑا سبب ایک مذہبی تحریک تھی جس کو ریاستی حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔فروری 1953 میں اس تحریک نے زور پکڑ لیا۔ خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت کو انتظامی معاملات سے لا تعق کر دیا گیاکراچی اور ڈھاکہ میں طلباء تنظیمیں جن کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا فیسوں میں اضافے کا بہانہ بناکر کھل کر حکومت کے خلاف مظاہروں اور توڑ پھوڑ کرنے میں مشغول ہو گئی۔لاہور میں دین کے نام پر شروع مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ لاہور میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں 8 مارچ 1953 میں حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.
غلام عباس نے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" میں لکھا ہے:
ایک بحران 1953 میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اقتصادی بدحالی، قحط کی صورت اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی بحالی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دستور ساز مجلس میں مجھے اکثریت حاصل ہے اور بقول بعض کے ملکہء انگلستان سے بھی مدد کی التجاء کی مگر کچھ پیش نہ چلی۔ ادھر گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔ خواجہ صاحب کی کابینہ کے متعدد ساتھیوں نے حرص و ہوس میں آکر نہ سہی مگر بغیر چوں و چراں نئی کابینہ میں عہدے قبول کر لیے
گورنر جنرل غلام محمد  نے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کوکو برطرفکرنے کے بعد1954ئ میں پاکستان کی پہلی دستورسازی اسمبلی کو بھی برخاست کردیا۔اس دستورسازاسمبلی کی منسوخی پرسپیکراسمبلی مولوی تمیزالدین اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جہاں سپیکر کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے دستورسازاسمبلی کی برخواستگی کو بعض تکنیکی بنیادوں پر جائزقراردے دیامقتدر بیوروکریسی، طاقتور فوج ، محب وطن سیاستدان اور انتطامیہ فیڈرل کورٹ کی پشت پر کھڑی تھی دوسری جانب اور جذباتی جابل عوام ، غدار وطن سیاستدان ، غیر ملکی ایجنٹ اور ناعاقبت اندیش صحافی  کھڑے رہ گئے اور غلام محمد کی ٹرین سیٹیاں بجاتی وقت کے دوش بدوش روانہ ہو گئی
 خواجہ ناظم الدین سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق  قربانی کے ایک مجسمے کو  بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا
خواجہ ناظم ادین پر اخبارات میں الزام لگائے گئے کہ وہ کھانا بہت کھاتےتھے
نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار(یہ تینوں وزیر اعظم ہاوس کے ملازم تھے) کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘ نامی کتاب میں خواجہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی خوراک انتہائی سادہ ہوتی اور وہ بہت کم کھایا کرتے تھےاس کتاب میںان کاان کے اپنی معزولی پر یہ تبصرہ شامل ہے’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ 
احسان منزل پاکستان پر قربان کر دینے والے قائداعظم کے معتمد ساتھی نے کراچی میں وہ دن بھی دیکھے جب کسی نے ان پر رحم کھاکر انھیں رہائش کے لیے ایک مکان کرائے  پر لے دیا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق جب وہ ڈھاکہ واپس گئے تو ان کی حالت دیکھ کر دوست اور دشمن سب ہی انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ اب تو مگر کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں جن مین ان کو قائد قلت اور ہاظم الدین کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ ان پر کسی قسم کی کرپشن ، بد عنوانی ، اقراپروری، یا خلاف آئین اقدام کا الزام ان کے دشمن بھی نہ لگا سکے ۔

اتوار، 16 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2
--------------------------
ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو اس کے انتظام و انصرام کرنے والے نوجوانوں میں مولوی فضل الحق پیش پیش تھے۔ مسلم لیگ کے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی‘ مولوی فضل الحق اس کمیٹی میں بھی شامل تھے۔آپ 1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے1937میں بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ مولوی فضل الحق نے قراردادلاہور کے لیے اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب ملا۔ مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں , قائد اعظم سمیت مشورے سے طے ہوا تھا کہ علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں لاکھوں افراد پورے برصغیر سے شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کی اور اس میں شیر بنگال مولوی ابو قاسم فضل الحق نے تاریخی قرارداد لاہور پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والا شمال مشرقی حصہ جس میں بنگال اور آسام شامل ہیں اور شمال مغربی حصہ جس میں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے علاقے ہیں‘ ان سب پر مشتمل آزاد مملکت قائم ہونی چاہیے۔ شیر بنگال نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں‘ ان کو ایک کیا جائے۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زعماءنے شیر بنگال کی تائید کی اور بعد میں قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آج سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ”ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لیے ایک خطہ کی ضرورت ہے“
مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال آپ کو دفاع کے لیے قائم کونسل کا رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم نے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آپ پر کونسل سے مستعفی ہونے کے لیے کہا ۔ آپ نے قائداعظم کے حکم کو تسلیم کیا اور دفاع کونسل سے مستعفی ہوئے .
آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔
1954 وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔ 1955 میں آپ کو مرکزی حکومت میں وزریر داخلہ اور 1956 تا 1958 گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔ آپ 27 اپریل 1962 کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو آپ کی وفات پر پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔


ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 1

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 1
ہندوستان میں 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سر سید احمد خان نے محمڈن ایجوکشنل موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی 
۔۔ سر سید احمد خان کا خیال تھا کہ اعلی تعلیم کے حصول کے بغیر سیاست میں کامیابی ممکن ہی نہین ہے۔ جب 1885 میں کانگریس اپنے تاسیسی مقاصد سے ہٹ کر ہندوستان میں ہندوں کے مفادات کی علمبردار بن گئی تو مسلمانوں پر منکشف ہو گیا کہ ان کی ترجمانی کے لیے کسی پلیٹ فارم کا ہونا ضروری ہے۔ سرسید احمد خان کی وفات کے بعد نواب محسن الملک نے محمڈن ایجوکیشنل موومنٹ کی قیادت سنبھالی۔ 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل موومنٹ کا سالانہ اجلاس تھا۔ اس اجلاس میں دنیا بھر سے ہزاروں مندوبین شریک تھے۔ اس اجلاس کے اختتام پر نواب سرخواجہ سلیم اللہ خان کی رہائش احسان منزل ڈھاکہ پر ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت کرنے والوں میں نواب وقار الملک کمبوہ ، نواب محسن الملک اور سید امیر علی شامل تھے۔ اس تاسیسی اجلاس میں جسٹس شاہ دین، سید نواب علی ، محسن الملک، نواب سمیع اللہ خان، سید وزیر حسن ، مظہر الحق سمیت 3000 مندوبین شامل تھے۔ مسلم لیگ کی تاسیس کے محرک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے صدر نشین اور علی گڑھ یونیورسٹی ٹرسٹ کے سیکرٹری نواب محسن الملک (یو ۔ پی ) ہی تھے نواب سلیم اللہ خان نے جماعت کا نام " آل انڈیا مسلم لیگ " تجویز کیا جو سر سلطان محمد شاہ آغا خان ثالث (بمبی) کے ایماء پر "مسلم لیگ " کر دیا گیا۔ پہلا ہیڈ کوارٹر علی گڑھ میں بنا جو 1910 مین لکھنو اور 1927 مین دہلی منتقل کر دیا گیا اور.صدر کے عہدے کے لیے آغا خان اور سیکرٹری کے عہدے کے لیے سید حسن بلگرامی کو ذمہ داری سونپی گئی ساٹھ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کومولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں مسلم لیگ کا دستور بنانے کا کام سونپا گیا۔۱۹۰۸ میں سید امیر علی نے لندن میں مسلم لیگ کا دفتر کھولا ۔مسلم لیگ کا پہلا باضابطہ اجلاس 29 اور 30 دسمبر 1907 ء کو کراچی میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں مسلم لیگ کا آئین منظور کیا گیا ۔ 10 اکتوبر 1913 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے باقاعدہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت ملی ۔ 4 مئی 1934 ء کو لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جب مسلم طلبہ کو دعوت عمل دی تو بنگال کے مسلم طلبہ ان کی پکار پر آگے بڑھے ۔ انہوں نے پورے برصغیر میں مسلم طلبہ برادری کو اکٹھا کرنے اور مشترکہ جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کی کوششوں سے 1937 ء میں کلکتہ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام ممکن ہوا۔ بنگال میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل اور کارکردگی بڑی جاندار رہی۔



منگل، 11 دسمبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سلیمان کا سلیمان سے معاملہ

اردو کالم اور مضامین: حضرت سلیمان کا سلیمان سے معاملہ: اللہ کے نبی حضرت سلیمان 970 قبل مسیح سے 931 قبل مسیح تک 39 برس فلسطین کے علاقے کے حکمران رہے ۔ ان کی حکمرانی انسانوں کے علاوہ جنات ، چرند ...

اتوار، 9 دسمبر، 2018

زندگی کی حراست


پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعدسب سے پہلا کام یہ کیا کہ اقوام عالم میں پاکستان کی معاشی ترقی کے بارے میں جو تصور بن رہا تھا۔ اس کو غلط ثابت کیا۔ سابقہ حکومت کے وہ سارے منصوبے جن میں حکومت کو عوام کی تائید شامل تھی۔ مثال کے طور پر میٹرو اور توانائی سے متعلق منصوبے ، ان کو کرپشن کا گڑھ بتایا ۔ سب سے زیادہ اعتراض ملتان میٹرو پر سامنے آئے۔ جب اس منصوبے کو موازنہ پشاور میٹرو سے کیا جاتا ہے تو بالکل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ اورنج ٹرین ایسا منصوبہ تھا جس نے عوام ، حکومت اور سرمایہ کاروں کو نئے خواب دیکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ ایک سفارت کار نے ان دنوں سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اسلام آباد سے ناشتہ کر کے ٹرین سے کراچی جا کر میٹننگ اٹینڈ کروں گااور دوپہر کا کھانا کھا کر رات کو واپس اسلام آباد ہوں گا۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہوتا جب اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چل چکی ہوتی۔ اورنج ٹرین کے منصوبے کو سست روی کا شکار کر کے عوام کی امنگ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچائی گئی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے پوری ایک نسل درکار ہوگی ۔
پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن وہ داستان ہے جو 1954 سے مسلسل بیان کی جارہی ہے۔ پہلے عوام اس داستان سے متاثر ہوتی تھی۔ محدود ذرائع ابلاغ اور میڈیا پر سرکاری کنٹرول کے باعث عوام حقیقت حال جاننے سے محروم ہوتی تھی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں ۔ عوام نے 200 ارب والے بیانیے پر یقین کیا۔ کرپشن کرنے والوں پر چار حرف بھی بھیجے مگر چند ہفتوں بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جس صحافی نے چار حرف بھیجے تھے حکومتی عہدیداروں سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ قلم کی نوک سے نکلے یہ حروف اب کس  پر بھیجوں؟
جو مقدمات کرپشن کے نام پر حکومت مخالف جماعتوں پر چل رہے ہیں ان پر بہترین تبصرہ پاکستان کے صدر جناب عارف علوی نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں ْ فضول مقدمات ْ کی اصطلاح استعمال کرکے کیاہے
نیب کے کردار کے بارے میں ہر با عزت شخض تبصرہ کرنے سے گریزاں رہتا ہے ۔ اس ادارے کی کارستانیاں دیکھ کر ماضی میں پنجاب میں چلی ایک تحریک کی یاد آتی ہے جس کا نام تھا ْ پگڑی سنبھال جٹا ْ نیب کا چیلنج ہے ْ پگڑی بچا کے دکھا جٹا ْ نیب کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ شریف لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے ۔ نیب لوگوں کے بارے میں تو سپریم کورٹ کی سن سکتی ہے مگر شریفوں کا مسٗلہ دوسرا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جن کو نیب نے گرفتار کیا اور طویل ریمانڈ پر اپنی تحویل میں رکھا ، نے عدالت سے ضمانت پررہا ہونے کے بعد جو انکشافات کیے ہیں ان سے نیب کے سیاسی تعصب بارے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے انکشافات میں ایک یہ ہے کہ ان پر سابقہ حکومت کے ایک وزیر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباو ڈالا گیا ۔۔ سرگودہا یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر کے ساتھ نیب کے نوجوان افسر کی بدتمیزی کی خبریں اور گرفتار ملزمان کے خاندان کے افراد کی موجودگی میں تشدد کر کے سابقہ حکومت کے خلاف بیان لینے کی کوشش جیسے الزام عام ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماء جناب عارف علوی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ نیب تحقیقاتی نہیں بلکہ سیاسی ادارہ ہے۔ اس فتوےٰ کے بعد اس ادارے بارے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہی ہے۔ 
سابقہ آمر پرویز مشرف کے کارناموں میں پی سی او کا نفاذ ایسا کارنامہ تھا جس سے ہمارا معاشرہ بہت زیادہ متاثر ہو۔ اس کے سب سے زیادہ اثرات عدلیہ کے فیصلوں میں دیکھے گئے۔ عوام پی سی او ججوں کے بعض فیصلوں کو پڑھ کر حیران ہوتی ہے اور بعض  مقدمات کی کاروائی پر ششدر رہ جاتی ہے۔  قانون کے طالب علموں، وکلاء اور سول سوسائٹی نے اکہتر سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے البتہ اس انکشاف پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ سب سے زیادہ سبق عوام نے سیکھا ہے کہ وہ اکہتر سالوں سے ہربے انصافی کا بلا واسطہ ہدف رہے ہیں۔ عوام میں ایک یقین پایا جاتا ہے کہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو گا ۔ ایک وقت آئے گا کہ پاکستانی معاشرہ ہر قسم کی آمرانہ سوچ کی باقیات سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو گا۔
پاکستان کی بنیا د رکھنے اور اس کو بنانے والے رہنماوں کے اپنی زندگی کے دن پورے کر لینے کے بعد جب ملک حکمرانوں کے زیر تسلط آ گیا اور پورے مغربی پاکستان کے صوبے کے گورنر نے لوگوں کو اپنی مونچھ سے ڈرانا شروع کر دیا تو پھر حکمرانوں کو اپنی ہی عوام سے خطرہ پیدا ہو گیا۔ روٹ لگنے اور سڑکوں پر مسلح محافظوں کو قطار اندر اندر قطار کھڑا کرنے کی ضرورت ایوب خان کے دور میں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔افراد اداروں پر حاوی ہونا شروع ہو گئے۔ پھر ادارے ایک دوسرے کے حریف بننے لگے۔ ایک دوسرے کونیچادکھاتے دکھاتے ہم اپنے ہی دو ٹکڑے کر بیٹھے۔ ایک دانشمند نے کہا تھا کہ لوگوں کی غلطیوں سے سیکھو مگر ہم نے اپنی ہی غلطیوں کو غلطی ہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارے غلط ہونے کا ثبوت ہمارے پروٹوکول ہیں۔ جس دن ریاست ، حکومت اور عوام کی سوچ ایک جیسی ہو جائے گی اس دن پروٹوکول خود بخود ختم ہو جائے گا اور مسلح محافظوں اور ہٹو بچو پکارتے ہوٹروں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت تکمحفوظ دفاتر، پناہ گاہ بنے ادارے اور جان بچانے والی سیکیورٹی اور گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ ایمبولنس کی بھی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ پروٹول نہیں لیں گے سیکورٹی سے احتراز نہ کریں گے۔ بڑے گھرکے اندر چھوٹی رہائش مین رہیں گے۔ پاکستان اتنا بڑا ملک ہے اور عوام کا دل اس قدر وسیع ہے کہ انھیں آپ کے گھروں اور گاڑیوں پر کبھی اعتراز رہا ہی نہیں مگر یہ من کا چور ہے جو شور مچاتا ہے۔شور تو گرجتے بادل بھی بہت مچاتے ہیں۔ برستی بارش کو کان پھاڑتی گرج سے نہیں ، ملی میٹر سے ناپا جاتا ہے۔ جی کامیابی جان ، مال اور وقت لگا کر زینہ بزینہ ہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے ماپنے والےپیمانے بھی طویل نہین ہوا کرتے ۔ ہمیں ایسا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو یقین دلا سکے کہ کارخانہ قدرت میں ہر پرزے کا ایک مقام ہے۔ جب تک ایسا بیانیہ تراش نہیں لیا جاتا اس وقت تک آپ پروٹول کول اور سیکیورٹی کی اپنی تعریف بیان کرتے رہیں گے اور عوام اس پروٹوکول پر چار حرف بھیجتے رہیں گے۔مگر عوام کو یہ رویہ بھی پسند نہیں ہے کہ اداروں کے ملازمین کو ان ہی کے ادارے میں حکومتی وزراء اور مشیران دھکےماریںیا غریب ہمسائے کا جینا حرام کر دیں
وزیر اعظم صاحب کی ہمشیرہ محترمہ پر لگے مالی بد عنوانی کے الزامات کو جس طرح قانونی طور پر طے کیا گیا ہے ۔ اس عمل پر حزب اختلاف کی کسی جماعت نہ میڈیا نہ ہی عوام نے کوئی نقطہ چینی کی ہے۔ کیا مالی معاملات کو نمٹانے کایہ طریقہ اس طریقے سے بہتر ثابت نہیں ہوا جو طریقہ حکمران پارٹی کے مخالفین پر آزمایا جا رہا ہے۔البتہ یہ بیان حکومتی پارٹی کے اندر سے آیا ہے کہ ان سائیڈ ٹریڈنگ جرم نہیں ہے ۔ اس کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار
الزام تراشی اور بے بنیاد الزام ایسے اعمال ہیں ۔ جن سے ہمارا عدالتی نظام منفی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی مقدمات کے عدالتی فیصلوں پر عوام کی رد عمل اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف​
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا