جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

غربت کا مسئلہ

لوگ دو طرح کے  ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ اورغربت ایک مسٗلہ ہے . روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے October 2004 کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے .
 سروے کے ایک ممتاز ادارے Statisca.comکے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط 67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہےپاکستانفی آدمی فی سال131 کلو گندم پیدا کرتا ہے. بھوک مسئلہ ہے مگر سیاسی ہے





پیر، 8 اکتوبر، 2018

عصاء


اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اشرف کہہ کر حکمرانی کی کرسی پر بٹھا دیا، اٹھارہ ہزار نعمتیں اس کے آگے رکھ دیں کہ اس سے لطف اندوز ہو۔ لکڑی بھی ان اٹھارہ ہزار نعمتوں میں شامل ہے، ابتداء سے ہی انسان اس نعمت سے مستفید ہوتا آ رہا ہے،کھانا پکانے ، سردیوں مین جسم تاپنے، گھر بنانے کے بعد انسان نے اسی لکڑی سے بنے کوئلے سے ریل انجن چلانے سے بجلی پیدا کرنے تک کا کام لیا۔ لکڑی سے انسان نے تسبیح بنائی، کرسی، میز اور پلنگ تیار کیے۔ عصاء بھی لکڑی کا بنا ہوتا ہے جو ان انسان اپنے مقصد کے لیے ہاتھ میں لے کر چلتا ہے۔اس کو لاٹھی ، چھڑی ،سوٹا ، لٹھ،سہارا اور ڈانگ بھی کہاجاتا ہے۔نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ نام کے سہارے ہی تصویر ذہن میں محفوط یادداشت سے ابھرتی ہے۔
عصاء سے عقیدت اور بزرگی کا عکس ابھرتا ہے،کچھ عصاء مشہور بھی ہوئے کچھ عقیدتوں کا محور بنے، کچھ کو تاریخ نے یاد رکھا۔معلوم تاریخ میں اللہ کے نبی سلیمان کے عصاء کو خاص اہمیت حاصل ہے،نبی اللہ موسی کے عصاء کا ذکر کتاب میں محفوظ ہے،عصاء کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نبی خاتم المرسلین نے بھی اس کو ہاتھ میں رکھا۔ موجودہ تاریخ میں میانوالی والے مولانا عبد الستار خان نیازی کے عصاء نے بھی اپنے وقت میں خوب شہرت پائی تھی۔مولانا دوسرے بزرگوں کی طرح اسے اپنے نبی کے عمل کی تقلید میں ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔انھوں نے عصاء پر گرفت مضبوط رکھی اور اللہ نے ان کے شملے کو بلند رکھااور ان کے عصاء کو کوئی دوسرا نام دینے کی کسی کو اللہ نے توفیق ہی نہ دی۔
چھڑی عصا ، ہی کی چھوٹی بہن ہے مگر نام کے بدلنے سے ہی ذہن میں موجود عصاء کے ساتھ عقیدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔چھڑی کے مختلف علاقوں میں استعمال مختلف ہیں، چھڑی کا عام استعمال کتوں سے بچنا ہے۔کچھ علاقوں میں اسے تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بعض تعلیمی اداروں میں چھڑی کو بطورپوانٹر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں اس سے استعفیٰ وغیرہ لینے کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے۔
عصاء کو ڈنڈا کہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نمازی بے وضو ہو گیا ہو۔اور حقیقتا ڈنڈے کا استعمال رحمت العالمین کے پیرو کاروں کو بے وضو ہی کرتا ہے۔ڈنڈا چھڑی سے بڑا ہوتا ہے اور ہمیشہ بطور ہتھیار ہی استعمال ہوا ہے۔جس نسل نے ٹاٹ والے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ ڈنڈے کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔سرکار کے پاس بھی ایک ڈنڈا ہوتا ہے جو معلمانہ ڈنڈے سے کافی تگڑا ہوتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔اور سرکار کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے کام آتا ہے۔عصر جدید میں اس کو حکومت کی رٹ قائم رکھنے کا نام دیا گیا ہے۔رٹ قائم رکھنے کی ضرورت ہر طبقے،معاشرے اور ملک میں ہوتی ہے، اس میں ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تفریق کرنا بے معنی ہے۔ڈنڈے کا سیاسی استعمال
1971
میں بنگالیوں پر ہوا تھا۔ایف ۔ایس ۔ ایف نامی ایک فورس کے پاس بھی کافی مضبوط ڈنڈا ہوتا تھا۔آئی جے آئی ایک تحریک تھی جو ڈنڈے کے ساتھ آئی تھی مگر خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی۔
لکڑی ہی سے انسان نے دستہ دریافت کیا تھا جو مختلف ہتھیاروں کے استعمال کو سہل بنانے کے کام آتا ہے۔ جیسے درانتی، کھرپا ، بھالا، کلہاڑی وغیرہ کے دستے۔ ایک دستہ گینتی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگرسیاسی جماعت کے جھنڈے کی طرح گینتی کا دستہ بھی کثیر المقاصد شے ہے۔
2014
میں اسلام آباد میں یہ دستہ عصمت اللہ جونیجو کا سر پھاڑنے میں استعمال ہوا تھا۔پاکستان ٹیلیویژن کی عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو
22
 کروڑ کی آبادی نے جب سے پہچاننے سے انکار کیا ہے ، اس کے بعد دستہ کا لفظ ذہن میں گڈمڈ رہتا ہے ، فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کو متبرک عصاء کہا جائے، حکومتی رٹ قائم رکھنے والا ڈنڈا کہا جائے، با اختیار چھڑی میں شمار کیا جائے ، عوامی ڈانگ کہا جائے یا نا اہلی کی لٹھ کا نام دیا جائے۔ 

اتوار، 7 اکتوبر، 2018

کنواں اور گرگٹ

اگر دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت میسر کردی جائے، ہر بے زمین کو پانچ مرلے زمین سرکار عطیہ کر دے، سرکارپچاس لاکھ گھربناکر غریبوں کو قسطوں پر دے دے، نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دے دی جائیں، عافیہ صدیقی کو رہا کرا کر پاکستان لے آیا جائے، زرعی امرجنسی لگا کر زمین بانٹ دی جائے، سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے، ڈیم کی تعمیرکا کام شروع ہو جائے،ڈالر کے مقابلے میں روپے کو استحقام حاصل ہو جائے،پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت کی جائے، پاکستان سے لوٹا پیسہ واپس لے آیا جائے، ماڈل ٹاون کے مقتولین کو انصاف مہیا کر دیا جائے، اختیارات کی ٹاون کی سطح تک منتقلی ہو جائے، برابری کی سطح پر بھارت بات چیت پر آمادہ ہو جائے، فوری انصاف کی فراہمی ممکن بنا دی جائے، غیرت مند انہ خارجہ پالیسی کو اپنا لیا جائے، ملک کے اندربے رحمانہ احتساب کا دور چل پڑے، 
چوروں سے ستر سالوں کی لوٹ مار کی برامد ہو جائے،ہر دولت مند کو ثابت پڑے کہ دولت کہان سے آئی ہے ، نیب ، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو قانون کی نکیل ڈال دی جائے،تھانے میں غریب کو کرسی پر بٹھایا جائے، ملک میں انتقام نہیں ا بلکہ انصاف کی فراہمی ہونے لگے،تیس سال سے پرانے مقدمات کو نمٹادیا جائے،پاک فوج سمیت ہر ادارے میں جھاڑو پھیرکر صفائی کی جائے، پولیس کو عوام کا خادم بنادیا جائے،لینڈ رجسٹریشن کو شفا ف بنادیا جائے،صحت پر توجہمرکوز ہوجائے،تعلیم کو پورے ملک میں یکساں کردیا جائے،ٹیکس کے نظام میں بہتری لائی جائے،ریلوے میں خسارے کو ختم کر کے با منافع بنادیا جائے، بجلی کی ترسیل میں بہتری لاکرنئے پاور پلانٹ لگنا شروع ہو جائیں، ملک میں گیس کی قلت کو دور کردی جائے،پی آّ ئی اے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ائر لائن میں بدل دیا جائے،سٹیل مل کو چلا کراس سے منفع کمایا جائے،پی ٹی وی کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کردیا جائے ، جاہ وجلال والا پروٹوکول ختم کرکے سادگی اپنالی جائے، خاندانی سیاست کا غلبہ ختم کردیا جائے، الیکشن کمیشن کو خود مختار بنادیا جائے، میڈیا کی ٓزادی کا تحفظفراہم کر دیا جائے، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آ کر ذمہ داروں کو جواب دہ بنایا جائے۔ ملک میں مسنگ پرسن کا مسٗلہ حل کردیا جائے،ملک سے مفرور مجرموں کو واپس لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے تو شائد ہمارے سارے نہیں تو اکثر مسائل حل ہو جائیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری اور وعدے ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں میں کیے ہیں، 
ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے انھوں نے منتیں مانی، تعویز کرائے، منتیں ترلے تک کیے کہ ایک بار ان کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے دیا جائے تو وہ ایسے معجزے کر دکھائیں گے جو لوگوں کو مطمن کر دیں گے 
یہ قوم سات دہائیوں سے انتظار کر رہی ہیں آدھی دہائی مزید انتظار کرلے گی کہ اس کے سوا اور آپشن کیا ہے 
عوام ایک اخبارمیں شائع ہونے والی خبر پر البتہ انگشت بدندان ہے کہ ْ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کے خلاف حکومت نے سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہےْ
عوام امید کے خشک کنویں میں اس مینڈک کو دیکھنے میں بہت دلچسپی دکھا رہی ہے جس کے بارے میں افواہ ہے کہ اس نے گرگٹ کا روپ دھار لیا ہے۔

جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

طلسماتی موتی



ااٹھاروین ترمیم کو پہلے دن سے ہی ریاست کے اداروں کے کچھ اہم افراد نے پسند نہیں کیا تھا۔ حتی ِکہ ایسا وقت بھی آیا کہ چیف آف آرمی 
سٹاف کی آواز بھی ان آوازوں میں شامل ہوگئی ۔ اب اٹھاروین ترمیم کےخلاف باقاعدہ مہم کا آغاز ہو گیا ہے اور اسے زرداری ترمیم کا نام دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے(فوائد چوہدری نے جیو کےخانزادہ کے ساتھ انٹر ویو میں اس کا اعتراف کیا ہے)
ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ عمران خان اپنے وژن کے مطابق حکومت کو چلائیں جب مشکل فیصلہ کرنا ہو تو عوام کو اعتماد میں لیں اور کر گذریں اس طرح پارٹی اپنے منشور اور خان صاحب کے وژن کے مطابق فیصلے کرے گی تو نہ صرف پارٹی کو اہنا ہدف حاصل ہو گا بلکہ عوام کی طرف سے حمائت میں اضافہ ہو گا، یہ گروپ نہ صرف اٹھارویں ترمیم واپس لینے کے خلاف ہے بلکہ موجودہ حالات مین سیا سی مخالفت کا گراف نیچے لانے کا حامی ہے , پرانے اور بنیادی ساتھی ہونے کی وجہ سے ان کا پارٹی اور پارٹی سربراہ کے ساتھ جزبانتی لگاو ہے۔ ان لوگوں نے وفاداری اور ایثار کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے ان کو یقین ہے کہ ان کا وجود ہی اصل پارٹی ہےلہزا
فیصلے کرتے وقت ان کے جذبات کا پلڑا سیاست کے پلڑے کو بلند کر دیتا ہے . بلندی ہی مطلوب و مقصود ہے اور .. سیاست کی کس لیے جاتی ہے ؟
یہ سوال وہ جام ہے جس میں دوسرے گروپ کا سارا موقف ہی مثل میخانہ سما جاتا ہے
یہ گروپ دبے لفظوں میں خان صاحب کو ریاستی اداروں سے ڈراتا ہے اور تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہے مینڈیٹ کمزور ہے ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے . ان لوگوں کا پارٹی کے اندر پلڑا بلند ہے تو پارٹی کے باہر بھی ایسے با اثر لوگوں کی حمائت حاصل ہے جن کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی بات کہنے کے وسیع مواقع میسر ہیں .
لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ ، خان صاحب ,جو اپنی بات پر قائل کرنے کے ساحر ہیں , وزیر اعطم بننے کے بعد زبان کے جادو دکھانے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ مگر عملی جادو کے زور پر وہ قائد حزب اختلاف کی زبان سے یہ اگلوانے میں کامیاب ہو گئے ہین کہ اپوزیشن پنجاب کی حکومت گرانے پر نظر نہیں رکھے ہوئے ہے . جادو کا منتر جو میاں شہباز شریف کے سر چڑھ کر ان کی زبان سے بولا ہے . یہ منتر دوسرے مخالف رہنماوں بشمول میاں نواز شریف پر پڑھ کر پھونکنے کی ضرورت ہے .
پاکستان کے نامدار اخبار جنگ میں جناب ارشاد حقانی صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ و جناب آصف علی زرداری صاحب کے شادی کے فوری بعد ایک کالم میں زرداری صاحب کے صدر پاکستان بن جانے کے امکانات پر بات کی تھی .اس ذکر کا مقصود یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تجزیہ نگار اس گہرائی مین اتر جاتے ہیں جہاں دوسرے ممالک کے تجزیہ نگار پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جناب سہیل وڑائچ صاحب گہرے پانیوں سے خالص موتی چن کر لانے والے تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا تلاش کردہ قومی مفاہمت کا موتی غالی ہی نہیں طلسماتی بھی ہے ۔ موجودہ حکومت اسے بے مول لے کر سیاست، معیشت اور استحکام کے کالے علم کے عفریت پر قابو پا سکتی ہے۔

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

انصاف کے گلے میں ہڈی



ْکیا پاکستان میں کرپشن صرف سیاستدان کرتے ہیں ْ
اگر یہ سوال ملین ڈالر کا ہے تو اس کا جواب بلین ڈالر کا ہے۔ روپے کی بجائے ڈالر کا ذکر اس لیے ہے کہ دھندہ سارا ڈالر ہی میں کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنماء جہانگیر ترین کی نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کی درخواست داخل کی گئی تھی جو رد کر دی گئی اور جہانگیر ترین کی نا اہلیت کو برقرار رکھا گیا۔اس کیس کے فیصلے سے حلیفوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہوے اور حریفوں کو افاقہ ہوا ۔مگر حیرت انگیز بات ہے دونوں فریق سیاسی وابستگی کے باعث آزردہ یا خوش ہیں ، کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔اس کا جواب ترین صاحب کے پاس نہیں ہے۔
جہانگیر ترین تعلیم یافتہ شخصیت ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ۔ ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا ادراک خاندان والوں کو اس وقت ہوا جب ان کی شادی رحیم یار خان کے ایک اثرو رسوخ والے اور مالی طور پر آسودہ خاندان میں ہوئی۔ ان کی بیگم کے بھائی جناب مخدوم احمد ۱۹۸۸ میں وزیر تھے۔
مخدوم صاحب ایک متحرک سیاسی شخصیت ہیں انھون نے اپنے آبائی علاقے جمال دین والی میں شوگر مل لگانے کا ارادہ کیا اور ترین صاحب کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور اپنی کمپنی ترین صاحب کے حوالے کر کے انھیں انتظامی خود مختاری بھی دے دی۔ترین صاحب نے مل کی تنصیب خوش اسلوبی سے کرکے اسے متاثرکن انداز میں چلایا۔اور بہت جلدکاروباری حلقے میں اپنا نام بھی منوایا۔مضبوط مالی بنیادمعاشرتی تعارف کا سبب بناکرتی ہے ۔۱۹۹۷ کے انتخابات کے بعد شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی بنے تو مخدوم صاحب نے ان کا تعارف وزیر اعلی سے کرایا اور شہباز شریف نے انھیں زرعی ترقی کا مشیر بنا لیا۔کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ نواز شریف کے ذہن سے شہباز شریف کے ذریعے ترین صاحب تک آیا اور اس منصوبے پر پنجاب میں ترین صاحب نے زبردست کام کیا اور ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کی وساطت سے سرمایہ پاکستان آنا شروع ہوا۔سکیم یہ تھی کہ حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے انتہائی کم شرح منافع پر قرضہ مہیا کرے گی۔بوجہ یہ سکیم ناکام ہوگئی البتہ ترین صاحب نے تین بلین روپے کا قرض بنک سے لے لیا ہوا تھا۔جو شہباز شریف کے ساتھ اختلافات کا سبب بنا۔
۲۰۰۲ کے جنرل الیکشن کے وقت مخدوم صاحب رحیم یار خان کے ضلعی ناظم تھے ۔ انھوں نے اپنے حلقے سے ترین صاحب کو الیکشن مین جتوایا۔
مشرف کے دور میں ترین صاحب وفاق میں وزیر بنا دیے گئے۔مخدوم صاحب بھی چوہدریوں کی قاف لیگ میں تھے ۔ ان کے بنیادی اختلافات تو پرویز الہی کے ساتھ تھے جو ۲۰۰۵ میں پرویز مشرف سے تعلقات خراب ہونے کا بہانہ بنے۔ مخدوم صاحب قاف لیگ کو چھوڑ کر اپنے رشتے دار پیر پگاڑہ کی فنکشنل لیگ میں چلے گئے۔ جب کہ ترین صاحب نے مشرف کا ساتھ دیا اوروزارت کو محفوظ رکھا۔اس کے باوجود جب مشرف کے اقتدار کا جہاز چیف جسٹس بھنور میں ہچکولے لے رہا تھا اور ترین صاحب نے مخدوم احمد محمود کی وساطت سے فنکشنل لیگ کو جوائن کر لیا۔اورپارٹی ٹکٹ لے کر پھر منتخب ہوئے اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بنا دیے گئے۔
اسی دوران ترین صاحب نے مخدوم صاحب والی شوگر مل اپنی تحویل میں لینا چاہی تو معلوم ہوا کہ مخدوم صاحب کے ۳ بلین کے شیئر ترین صاحب کے نام ہو چکے ہیں، بورڈ آف ڈائرکٹرز میں اکثریت ان کی ہم نواہوں کی ہو چکی ہے۔ مخدوم صاحب کو کارگذاری معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے مل پر کر قبضہ کر لیا اور علاقے سے ترین صاحب کو بے دخل کر دیا۔
مشرف کی حکومت میں وزارت کے دوران کی لیز پر حاصل کردہ زرعی زمین کا رقبہ چوبیس ہزار ایکڑ اور بعض دستاویزات کے مطابق پچیس ہزار ایکڑ تک پہنچ گیا۔ اور مقامی لوگوں کا اصرار ہے کہ حقیقت میں یہ رقبہ چالیس ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔اس دوران ان کی دو شوگر ملیں بھی بن گئیں اور گنا ان کی اپنی زمین سے آتا ہے۔
پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں قانون اندھا ہوتا ہے۔مگر پاکستان میں قانون کے کے کانوں کی سماعت کم نہیں ہے ۔فیصلہ فائل کو دیکھ کر ہوتا ہے۔اورفائل بتاتی ہے ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔