بدھ، 7 فروری، 2018

گوگل کا لٹکا ہوا منہ


دنیا اگر گلوبل ویلیج ہے تو اس گاوں کے ایک محلے کا نام پاکستان ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے دوست بھی موجود ہوتے ہیں جو اس عالمی گاوں کے کسی اور محلے میں رہتے ہیں اور ان کی زبان بھی مختلف ہوتی ہے مگر بھلا ہو ٹیکنالوجی کا کہ ہم دوسری زبان میں لکھی گئی بات کو اپنی پسند کی زبان میں پڑھ یا سن لیتے ہیں۔ ترجمے کا یہ کام مشینی ذہانت انجام دیتی ہے۔ یہ ذہانت ابھی بچپن کے دور سے گذر رہی ہے اس لئے بعض ثقیل الفاظ اور محاوروں پر اس کا منہ لٹک جاتا ہے ۔ مگر ہم اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ ابھی تاثرات کو ویڈیو میں ڈھالنا باقی ہے مگر یار لوگ ہاتھ دھونا ملتوی کر کے اس مشکل کام کو آسان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر کلام بشمول کسی معصوم کا گریہ ، عدالت میں فریاد ، جرنیل کا حکم، عالم کا وعظ یا باپ کی نصیحت ، سب کا مقصد سامع میں کسی عمل کی تحریک کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو کسی کام سے روکنا بھی دراصل کام کے متضاد کی تحریک ہی پیدا کرنے کا نام ہے۔ 
جب ایک حکمران دوسرے حکمران کو سندیسہ بھیجتا ہے تو لکھے ہوئے خط کے ساتھ ایک خوش کلام و ذی شعور سفیر کو بھی بھیجتا ہے جو اس کو خط پڑھ کر سناتا ہے۔ خط کے الفاظ کے اثرات ہوتے ہیں تو سفیر کی زبان اور اس کے جسم کے اعضاء کی حرکات کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور حکمران کے مشیران و مددگار سفیر کی باڈی لینگویج کو بھی نوٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔
عزیر و دوست کے خط کو آدہی ملاقات کہا جاتا ہے تو ویڈیوکال بھی اس تشنگی کو دور نہیں کر پاتے جو روبرو ہو کر بات کرنے سے دور ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ْ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ْ (سورۃ الیوسف:۲) ۔ بنی اللہ اسماعیل جو مکہ میں بس گئے تھے ان کی زبان عربی تھی تو اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ ان کی اولادکے لوگوں سے انسانوں کی امامت کا کام لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے عربی میں کتاب اتاری تاکہ وہ لوگ پیغام کو سمجھ سکیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے حکمران قوی کے احکامات کو اپنی زبان مبارک سے پڑھ کر سنایا اور سننے والوں نے ان کے لہجے اور ان کے جسمانی اعمال کو دیکھ کر پرکھا ۔ جب رسول اللہ کی محترم زوجہ صاحبہ سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاقات بارے سوال کیا گیا تو انھوں نے سوال کرنے والوں کو جواب دیا تھا کہ کی�آپ قرآن نہیں پڑہتے۔
قران پیغام ہے جو انسانوں کے نام ہے۔ اور انسانوں میں بیٹھ کر قران کا درس دینے والی ہستی بھی مرسل ہے۔
دورنبوت میں ، انسانوں میں سے ہر سطح کے علماء، شعراء ، سرداروں اور معاشرے کی رہنمائی کرنے والے لوگوں نے ان سے ملاقات کی ، ان پر سوالات کیے، اپنے دل کی تسلی کے لیے مطالبات پیش کیے ، اور مطمن ہوئے ۔ ان افراد کا اطمینان اس درجے کا تھا کہ اپنے ایمانی اعتماد کے بل بوتے پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اولین رہنماء دستے کا حصہ بنے۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے رو برو ہو کر قران سنا کرتے تھے۔ عظیم ہستی کے روبرو ان کی زبان مبارک سے اپنی بولی میں سن کر سمجھنے ہی کا اعجاز تھا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دست وبازو بنے۔
مشینی ذہانت کے اس دور میں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے بعض اوقات ترجمہ کرنے والے سوفٹ ویر کا نتیجہ عجیب منظر پیش کررہا ہوتا ہے ۔جیسے قران پاک جیسے پر حکمت کلام کی بعض عبارتوں کی ترجمانی کے دوران گوگل کا لٹکا ہوا منہ 

منگل، 6 فروری، 2018

سبق


وہ پیدا ہوا تو اس کو سونے کے چمچے سے گھٹی پلائی گئی تھی،اور ماہر ڈاکٹروں کے مشورے پر شہد میں ایسے اجزاء شامل کئے گئے تھے جن کی بدولت وہ اپنی زندگی میں بیماریوں سے محفوظ ہو گیا تھا۔ بیماری سے بچاو کے لیے اس کے والدین نے دنیا کے ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ پر عمل کیا تھا۔ بیماری کے علاوہ کسی بھی قسم کا خوف اس بچے کے والدین کو نہ تھا۔ جدہ میں جب یہ پیدا ہوا تو اس کا باپ طلال سعودی عرب کے بادشاہ کا وزیر مالیات تھاوالدہ لبنان کے وزیراعظم اول کی صاحبزادی تھی۔بچے کے دادے کا نام عبدالعزیزالسعود تھا ، جو نجد کا لڑاکا حکمران تھا اور اس نے
45
سال کی عمر میں آرمینیاء سے لائی ہوئی ایک
 12 
سالہ خوبصورت لڑکی سے شادی کر کے اس سے اپنا بیسواں بیٹا طلال پیدا کیا تھا۔بعد میں نجد کا حکمران ، سعودی عرب کا بادشاہ بنا تو سعودی عرب کی زمین نے زر بشکل تیل اگلنا شروع کیا جو قران میں بیان کی گئی پیشن گوئیوں کے عین مطابق تھا ۔
دولت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمن خود پیدا کرتی ہے۔ طلال کی بڑہتی ہوئی دولت نے جب سعودی عرب میں اس کے دشمنوں میں اضافہ کر دیا تو وہ امریکہ منتقل ہو گیا ۔ اس کے پاس اس قدر دولت تھی کہ وہ ہر ْ خواہش ْ خرید سکتا تھا مگر قدرت کا کوڑا اس کے گھر پر برسا ، خاندان ٹوٹ گیا، طلال کی بیوی اپنے ۷ سالہ بیٹے ولید کو لے کر لبنان آ گئی۔
ولید نے امریکہ کی سیراکیوس یونیورسٹی سے ماسٹر کیا تو سعودی عرب کے بادشاہ نے اپنے اس بھتیجے کو
1960 

میں وزیر مالیات بنا لیا۔مگر خاندانی اندرونی رقابتیں رنگین تر ہوئیں تو امریکہ جا کر کاروباری 
سرگرمیوں کا اغاز کیا۔باپ کی بے پناہ دولت میں ایسی برکت تھی کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتی۔ولید کے بنے سونے میں وقت کے ساتھ ساتھ زبردست اضافہ ہوتا گیا۔جولائی
 2015
میں اس کی معلوم شدہ دولت کا اندازہ فوربز نامی ادارے نے
 32
بلین ڈالر لگایا تھا۔ نامعلوم دولت کا کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا ۔ 
4
نومبر
 2017
 میں قدرت کا کوڑا پھر حرکت میں آیا تو یہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے ہاتھ میں تھا۔ ولی عہد نے اس کوڑے سے سیکڑوں ْ سونے کے چمچے ْ سے شہد پی کر دنیا میں آمد گان کوہانکا تو ولید بن طلال کو بھی اس کے ذاتی بوہنگ
 747
سے اتار کر اس ہانکے میں شامل کر لیا۔ تفتیش کامیدان ریاض کا ْ رٹز کارلٹن ہوٹلْ بنا ۔ ایمان کانٹے سے امانت کو ناپا گیا ، کمی کوتائی کو سکہ رائج الوقت سے پورا کر کے اونچی پرواز سے مانوس شہبازوں کو امین ہونے کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ دوبارہ اونچی چوٹیوں پر بسیرا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
ریاض کے رٹز انٹرنیشنل ہوٹل میں لگا انصاف کا میلہ اجڑ چکا ہے۔ واقت نے ثابت کیا ہے شہبازوں کو اونچی اڑانوں سے باز رکھنا ممکن نہیں ہے، بلند چوٹیاں امریکہ میں ہیں، اور سکہ رائج الوقت کا نام ڈالر ہے اور ایمان کانٹا کو ْ کوڑے ْ کی طاقت سے ہی برابر رکھا جا سکتا ہے، امانت کا سرٹیفیکیٹ فوربز نامی ادارہ جاری کرتا ہے اور وقت کا حکمران زمین پر ْ ظل الہی ْ ہوتا ہے اور قدرت کا کوڑا ْ قدرت کے سائے ْ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔خدا کو انسانی آنکھ دینے سے قاصر ہونے کے باوجود خدا کا سایہ اس کے وجود کا یقین دلانے کے لیے کافی ہے ۔ ان کھلی نشانیوں کے بعد بھی منکرین خدا کے ذہن و سوچ پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔
ٓالبتہ ایک عربی اخبار کے مطابق ولید بن طلال کی نا معلوم دولت میں
 118
ملین ڈالر کم ہو گئے ہیں اور ْ فوربز ْ کی رپورٹ کے مطابق ولید
 17
 بلین ڈالر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہیں ۔
ہر کہانی کے آخر میں اخلاقی سبق لکھ دینے کی روائت کو نبھاتے ہوئے عرض ہے کہ ْ سبق سکھایا جاتا ہے ْ 

پیر، 5 فروری، 2018

عورت کی آزادی کا سفر


ہندوستان کے حالات
برصغیر کے علاقے میں اسلام کی آمد سے قبل ْ مہا بھارت ْ کے مطابق عورت اجناس کی طرح ایک جنس شمار ہوتی تھی۔ لوگ جوئے میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور بہنوں کو داو پر لگاتے تھے۔اور خاندان کے مردوں کی رضامندی سے ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے۔بیوہ عورت زندگی کی ہر سہولت سے محروم کر دی جاتی تھی ۔لباس تو کجا اس کے لیے نہانا اور منہ دہونا بھی جرم بنا دیا جاتا تھا۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے وہ بیوگی کی زندگی پر عائد پابندیوں کے تصور سے ہی کانپ جاتی تھا۔ اس کے لئے زندہ آگ میں جل کر ستی ہو جانا زندہ رہنے کی نسبت آسان دکھائی دیتا تھا یہی سبب تھا کہ بیوہ ہونے کے بعد عورت ستی کی رسم کو اپنا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کرتی تھی۔لڑائی عورتوں پر بہت بڑی مصیبت لاتی تھی ۔ اگر ان کے مرد لڑائی میں ہار جاتے تو مخالف ان کو اپنی رکھیل بنا کر ہر قسم کے حقوق سے محروم کر دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ شکست خوردہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا کرتے تھے۔مرد کی بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی۔ امیر لوگوں کی درجنوں اور حکمرانوں کی سیکٹروں بیویاں ہوتی تھیں۔البتہ ان کو تعلیم سے دور رکھنا ایک سماجی فرض تھا۔ آر سی دت کی ْ ہندوستان قدیم ْ کے مطابق عورتوں کو محکوم مانا جاتا تھا اور مرد کی غلام جانا جاتا تھا۔ذات پات میں بٹے معاشرے میں اونچی ذات کے کسی مرد کا نیچ ذات کی کسی عورت کے ساتھ زیادتی کو جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا البتہ کسی بدھ مت کی راہبہ کی عصمت دری کی سزا معمولی جرمانہ کافی سمجھی جاتی تھی۔
عربوں کے حالات
عرب میں عورتوں کی باقاعدہ منڈی ہوا کرتی تھی جہاں سے کوئی بھی مرد اپنی پسند کی عورت کو خرید سکتا تھا۔عربی مرد جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا ۔ اور اگر اس کو مالی آسودگی حاصل ہے تو لونڈی کے نام پر جتنی چاہے عورتیں اپنے حرم میں جمع کر سکتا تھا۔اور اس کے اس عمل کو معاشرتی تحفظ حاصل تھا۔ہمسائیوں کی عورتوں سے جنسی تعلقات رکھنے پر مرد کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاتا مگر عورت اسی ہی کی زوجیت میں دے دیا جاتا تھا۔شادی کے وقت لڑکی کا والد عورت سے مہر وصول کرتا۔مرد کے فوت جانے کے بعد اس کی تمام بیویاں ( سواے نسبی ماں ) اور لونڈیاں خود بخود بیٹے کی ملکیت میں آ جاتیں تھیںْ۔ مرد اگر عورت کو گھر سے نکال دے تو بھی اس کی مرضی تھی کہ وہ طلاق نہ دے تاکہ کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہ ہو سکے۔دشمنوں کی عورتوں کو کی میدان جنگ میں ہی بے حرمتی کر دی جاتی تھی۔ حج کی مذہبی رسم کے دوران بھی عورت کا ننگا ہونا مذہبی فریضہ شمار ہوتا تھا۔امیر لوگ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے کہ وہ بدکاری کے ذریعے ان کے لیے پیسے کما کر لائیں۔ سود خور اپنے مدیون کی عورتوں پر باآسانی تصرف حاصل کر لیتے۔قرض کی ضمانت میں عورت کو گروی رکھنا برا نہ سمجھا جاتا تھا۔ڈاکو اپنے ڈاکے میں مال وزر کے ساتھ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے ۔عرب جنسی بے راہ روی میں دنیا بھر میں آگے ہیں ان کی جنسی ہوس عورت کیا پورا کرے گی اس آگ کو تو جنات بھی ٹھنڈا نہ کرسکے ۔ عمرو بن یربوع نامی ایک عرب نے سعلاۃ (مونث جن) سے شادی کر رکھی تھی اور اس سے اس کی اولاد بھی تھی۔ عربوں کا یقین ہے کہ یمن کی ملکہ سباء جس کا قصہ قران پاک میں بیان ہوا ہے سعلاۃ ہی کی اولاد تھی۔
ڈاکو، چور، شرابی مرد مگر اپنی لونڈی سے ایمانی داری کی توقع رکھتے کرتے تھے اور بے ایمانی کی صورت میں عورت کو گھوڑے کی دم سے باندھ کر گھوڑے کو اس وقت تک دوڑاتے جب تک عورت کے جسم کے لوتھڑے جسم سے علیحدہ ہو گر نہ جاتے۔ بیوہ ہو جانے والی عورت سے شادی کرنا معاشرتی عیب شمار ہوتا تھا۔ بیوہ عورتوں کے اچھا لباس پہننے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔
عربوں میں شراب و کباب کے ساتھ عورت کا ساتھ لازمی سمجھا جاتا تھا۔لونڈی، رقاصہ معاشرتی ثروت کے نشان گردانے جاتے تھے ۔اور شام کے وقت کی محفلوں میں مرد عورت کے گریبان کے شگاف اور رانوں کے لباس کی باریکی کا ذکر اپنے شعروں میں فخر سے کیا کرتے تھے۔عورت کا شاعری میں ذکر ایران اور ہندوستان میں بھی ہوتا تھا مگر عربوں کی شاعری عمل کا اظہار ہوا کرتی تھی ۔مرد اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ تنہائی میں گذارے لمحات کی روداد اپنے دوستوں کی محفل میں سناتا تو بعض اوقات اس کے کہے ہوئے اشعار عورت کے والد کے لیے تازیانہ بن جاتے۔ اور یہ عمل اس قدر عام ہوا کہ بیٹی کا باپ ہونا مردکی غیرت کے خلاف طعنہ بن کیااور والد کے دل سخت ہونا شروع ہو گئے اور یہ سنگ دلی اس قدر بڑہی کہ قران پاک کی زبان میں ْ انکے دل پتھروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں ْ البقرہ:۴۷ اور ایک مرد نے خود اپنے ہاتھ سے آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا تھا ۔ قران پاک نے عربوں کی اس حالت کو بیان کیا ہے ْ اور ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اور اس خبر کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ ذلت کے ساتھ اسکو قبول کر لے یا زندہ زمین میں دفن کردے ْ سورۃ النحل: ۸۵،۹۵
انقلابی عملی اقدامات
ان حالات میں نبی رحمت ﷺ نے ایک بیوہ کے ساتھ شادی کی۔ اپنی بیٹی فاطمہ کو مثالی عزت دے کر فرمایا کہ جو باپ بیٹیوں کی کفالت کرے گا اس کو جنت میںخود ان کا ساتھ ملے گاْ۔ بچپن میں دودھ پلانے والی دائی کی آمد پر ان کا احترام کر کے دکھایا اور دودھ شریک بہن کی جھولی ان کی فرمائش کو پورا کر کے بھر دی۔ اور سرعام کہا کہ میں عائشہ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے ہونے کا شرف آپ ہی نے بخشا۔ اور حج کے موقع پر بھی عورت کی عزت کرنے کی تاکید کو نہ بھولے۔ اور عورت کو اس کے مہر پر حق کو تسلیم کر کے اور ترکے میں حصہ دار بنا کر عورت کی معاشی آزادی کی بنیاد فراہم کی۔

جمعہ، 2 فروری، 2018

نہال ہاشمی کی گرفتاری پر تبصرے

کل صدیق الفاروق آج نہال ہاشمی سپریم کورٹ ناشتے میں ن لیگ کھا رہی ہے ...

خدا کی قسم مجھے نہال ہاشمی کےفیصلےپرقطعی حیرت نہیں ہوئی,جو عدلیہ مولوی تمیزالدین کیس میں گورنرجرنل کے حق میں فیصلہ دےسکتی ہے,مارشل لاز کو جائز قراردے سکتی ہے,بھٹو کو تختہ دار پر لٹکاسکتی ہے, وزیراعظم کو اقامہ پر نااہل قراردے سکتی ہے, تو نہال ہاشمی کس باغ کی مولی ہے

نوٹس نوٹس کھیلنے والوں میں جاوید ہاشمی کو نوٹس دینے کی جرآت نہیں.

جو بولے سو نہال سکھا شاہی شروع تو پھر چل سو چل ، ساڈا ذمہ توش پوش

ایہ ہیں نہال ہاشمی کے جرم جن کی وجہ سے انکو سزا دی گئی
ملک کوسازش کرکےکمزورکیاجارہاہےکچھ ادارےہیں جوکہتےہیں ہم خداسےبھی زیادہ مضبوط ہیں

جمہوری دور میں سلطان راہی کی طرح بڑھکیں مارنے والی عدلیہ ڈکٹیٹروں کے سامنے انجمن کی طرح ناچنا شروع کر دیتی ہے

5 ججِزکےاس گینگ نےیہ بات توصاف واضح کردی ہےکہ پاکستانیوں میں انتشار کی آگ کو ہوادی جارہی ہے,اوراسطرح کےیکطرفہ فیصلوں سےانکےناپاک ارادوں سےیہ بھی صاف ظاہر ہورہاکےوہ یہ سب کسی بیرونی قوتوں کےاشارےپر 1 لاڈلےکیلئےکررہےہیں اورانکانشانہ صرف ایک پارٹی,اسکےلیڈر,اسکےکارکن ہیں


ہال ہوشمی کوسزادیادتی ہے۔ آج جوکچھ ہوا اس کے بعدملک میں بہت افراتفری آئے گی: علی کرد

توہین عدالت : سزائیں شروع ہونے کو پیش رفت کے طور پر لیا جانا چاہیے ، چھپن چھپائی ختم کرکے ہر شے اوپن کیے بغیر معاملات آگے بڑھ نہیں سکتے

سپریم کورٹ جسے چاہتی ہے نااہل کر دیتی ہے، ہم کہاں جائیں؟ : نہال ہاشمی

صدقے جاؤں سپریم کورٹ کے ججز کو مہینوں گھر پر نظربند کرنے والے آمر جنرل مشرف کو “توہینِ عدالت” میں سزا سنانا تو دور کی بات بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی اور ایک سویلین سینیٹر نہال ہاشمی کو “جوشِ خطابت” پر ایک ماہ کے لئے جیل میں ڈال دیا

کس سے منصفی چاہیں... انا للہ و انا الیہ راجعون

ہمیں عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں

پارلیمنٹ سب اداروں کی ماں ہے ماں کے دفاع میں بولنے رہنما کے ساتھ ظلم کی داستان رقم کی جارہی ہے

معافی مانگنے کے باوجود معاف نا کرنا ظلم ھے کھوسہ صاحب اگر میرے اُپر کوئی ایسا کیس بنا تو معافی مانگنے کی بجائے یہی کہوں۔ جج صاحب جو اکھاڑ سکتے ھو اکھاڑ لو۔ پھر بھی یہی سزا ھونی ھے ۔ مگر تمہیں تمہاری اوقات کا تو پتہ چل جائے گا۔

موجودہ قانون کےمطابق دوسروں کو صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ دینے والے ججوں کے لئے خود صادق اور امین ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ یہ قانون ججوں کا اپنا تحریراور وضاحت کردہ ہے۔ دنیا کے واحد جج ہیں جو خود جرم کریں تواس پر کوئی پکڑ نہیں، محض باعزت ریٹائرکرنےپراکتفاکیاجاتاہے

یعنی تین دفع اپنی مرضی کا معفی نامہ لکھوانے کے باوجود معافی دینے کی کبھی نییت تھی ہی نہیں ۔ مقصد صرف تذلیل تھا ۔ اب واضح ہوا عدالتیں بدلے لیتی ہیں ۔ انصاف نہیں دیتیں ۔ یاد رہے نہال نے : ۱۔ دھمکی دی تھی، تذلیل نہیں کی تھی
۲- JIT کو دی تھی، عدلیہ کو نہیں

میاں صاحب ثابت قدم رہیئے اللہ آپ کی مدد کرے گا

دنیا کے کسی ملک میں ایسی نظیر نہیں ملتی جہاں محترم جج انصاف کے نام پر لوگوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوں اور میڈیا پر آ کر اپنی صفایاں پیش کرتے ہوں

آیا اڈیالہ صرف ملک دوستوں کے لئے بنائی گئی ہے

عمران نیازی کی معافی قابل قبول اور نہال ہاشمی کی نامنظور

کوئی بتائے گا کہ جو عمران نیازی نے دو ماہ پورے کنٹینر پر چڑھ کر کیا تھا وہ عدلیہ کی عزت افزائی تھی

ان لوگوں کو کب اڈیالہ بھیجا جائے گا جنہوں نے وقت کے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا تھا

مشرف کو کس بات پر استثناء ہے

کیا میاں نواز شریف یا شریف خاندان کے لئے کوئی اور قانون ہے؟

اگر انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا ہوگا تو اللہ کا اپنا نظام ہے ترازو کو سیدھا کرنے کا:مریم نواز

میں نہال بھی ہوں میں طلال بھی ہوں
میں دانیال بھی ہوں

نہال ہاشمی تم جیت گے تم نااہل ہو کر بھی اہل ہوئے اور فیصلہ سنانے والے ججز اہل ہو کر بھی نااہل ہو گے آج۔

یورپ میں جن کو وکالت کا پرمٹ نہیں دیتے کہ قابلیت نہیں ہے
وہ پاکستان میں جسٹس لگے ہوئے ہیں وہ بھی چیف

فیصلے کو تاریخ جانچے گی

کس کس کو نااہل کرو گے
جیلیں بھرنی پڑ جایں گی

دلوں سے کیسے نکالو گے میاں صاحب کو

نہال کی نااہلی، طلال کے بعد دانیال کو توہین عدالت کا نوٹس مسلم لیگ والوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے ثاقب نثار صاحب نے ثابت کردیا جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا جاوید ہاشمی سچا آدمی ہے

وھ مرد ہی کیا جو ڈر جائے حالات کےخونی منظر سے

ناہل کر تو دیا ہے اب عوام کو بھی نااہل کر دیجئے

نہال ہاشمی مرد مجاہد ہے کمر درد کا بہانہ تو نہیں بنایا تھا

آیا عمران نیازی سے بھی زیادہ کوئی نااہل ہے

چيف صاحب میں بھی نواز شریف کا ديوانہ ہوں مجھے بھی جیل میں قید کرو يہاں سچ بولنے کی سزا آپ کی توہين ہی نا؟؟

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو، صبح بےنور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

نواز شریف اکیلا نہیں ن لیگ کا ہر کارکن نواز شریف ہے: مریم نواز

ہم ڈرنے والے جھکنے والے نہیں آزما کے دیکھ لو

کچھ بھی نہیں ہو گا کُتا وہی بھونکتا ہے جو مالک چاہتا ہے

انڈسٹری کو پھر سے چلانے کی سزا توہین عدالت

میاں صاحب نا اہلی کے بعد جس جگہ بھی گئے پہلے سے زیادہ عزت ملی لوگوں نے یہی ثابت کیا کہ ہمارے دِلوں کی دھڑکن وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں فیصلے کو پاؤں تلے روندا پاکستان کی عوام نے

لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی سزا توہین عدالت


عدل کی تفسیر


دس سالوں میں پاکستان بدل گیا ہے، ہماری اشرافیہ اور ہمارے قومی 
ادارے بے خبر نہیں ہیں مگر گئے دنوں کی باقیات کچھ شخصیات جو 
2013
میں کمزور ہونے کے باوجود اب
 2018
میں کمزور تر ہو کر 
مایوس بھی ہیں۔ 

طلوع سحر سے قبل کی ْ لو ْ پھڑپھڑا رہی ہوتی ہے تو ْ امیدوار ْ اس بجھتے چراغ کی روشنی کو دیکھ کر یقین نہیں کر پا رہے کہ وہ سحر آن پہنچی ہے

جوخواب کراچی کے ایک نحیف البدن وکیل نے عوام کو دکھایا تھا اور اس خواب نے پنجاب کے اس مردجر ی کے ذہن میں جنم لیا تھا جو بادشاہی مسجد کے دامن میں محو استراحت ہے۔
وکیل اپنے کام کی نوعیت کے باعث معاشرے میں پائی جانے والی کشمکش کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی جان لیتا ہے کہ مجبوریوں کی ماں کا نام ْ معاش ْ ہے ۔ قائد اعظم سے لے کر ذولفقار علی بھٹو تک اور عمران خان سے لے کر نواز شریف تک بنیادی جنگ غریب اور امیر کے درمیان برپا ہے۔ دس سال قبل تک ہمارے سیاسی ، مذہبی اور قبائلی تقسم در تقسیم معاشرے کے لوگ اپنے اپنے گروہ کے جال میں سحر زدہ تھے مگر جنوری کے مہینے میں کرامت یہ ہوئی کہ لاہور کے ایک جلسے میں عوام کا موڈ دیکھ کر زرداری کے بھٹو بیٹے نے اس دن ٹویٹ بطور تیر چلایا تو کپتان نے اگلے دن اعلان کیا کہ اس کی اپنی راہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عوام نے رہنماوں کو سجدہ سہو پر مجبور کر دیا تو غلط نہ ہو گا ۔ عوام مگر کبھی غلطی پر ہوتے ہی نہیں ہیں اجتماعی عقل ْ آواز خلق ْ کہلاتی ہے اور ْ نقارہ خدا ْ یہ ہے کہ آواز خلق کو سنا جا رہا ہے جو صیح راستہ ہے اور یہی خواب بادشاہی مسجد کے دامن میں خوابیدہ اقبال نے دیکھا تھا اور کراچی کے وکیل جناح نے اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد کی تھی۔

ہمارے ادارے ہمارا فخر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں ایسے ْ گھس بیٹھیے ْ براجمان رہے ہیں جنھوں نے اداروں کے تقدس کو بے پناہ نقصان پہنچایا ۔ اور ایسے ناموں میں سر فہرست ْ میں ڈرتا نہیں ْ کا نعرہ لگانے والا
وہ ْ مکہ تن ْ شخص تھا۔ جس کے دور میں پاکستان جیسے ملک میں دارلخلافہ سے ملحقہ چھاونی کے علاقے میں فوجیوں کو وردی پہن کر عوام میں آنے سے روک دیا گیا۔ مگر ادارہ جلد اس سے جان چھڑا کر سرخرو ہوا اور ساتھ پاکستانیوں کو بھی سرخرو کیا۔ 

اور آج ہم حسب روائت اپنی مسلح افواج پر فخر کناں ہیں اور فوجی وردی کا تقدس بحال ہو چکا ہے۔

میڈیا بھی ایک قومی ادارہ ہے جو عوام کی سوچ کے رخ کو متعین کرنے میں بنیادی کردار کا حامل ہے ۔ بطور ادارہ وہ بھی اپنے اندر ْ گھس بیٹھے ْ لوگوں سے جان بچا کر نکل جانے کی تگ و دود میں مصروف ہے اور یقینی طور پر کامیاب ہو گا کہ عقل اجتماعی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔

عدلیہ ایسا ادارہ ہے جو وکلاء اور ججوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ بنیادی طور پر جج بھی وکیل ہوتاہے اس لیے عدل کے ادارے کی اینٹ بھی وکیل ہے اور جج کی اونچی کرسی بھی وکیل ہی کا استحقاق ہے۔ مگر بطور ادارہ وکلاء نے کبھی بھی اپنے ادارے میں ْ گھس بیٹھوں ْ کا ساتھ نہیں دیا۔ اور آج کراچی میں وکلاء کی ہڑتال کے اعلان کا پورے پاکستان کی بار کونسلوں میں سنا جانا اور ساتھ دینااس اخلاص کا اظہار ہے جو وکلاء کے قانون کی بالادستی پر یقین ہونے کی نوید دیتا ہے ۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے صحن میں لگے انصاف کے میزان تلے دھلے پاجامے لٹکا نے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا ساتھ وکلاء ہی دے رہے ہیں۔ جب ایک ْ اپنے شہریوں کے سوداگر ْ نے ججوں کو پابند سلاسل کیا تھا تو ہم نے دیکھا تھا شاہراہ دستور پر بے نظیر کی آواز میں آواز ملانے والوں میں سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وکلاء کی آواز بھی شامل تھی ۔
وکیل جب اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے استاد کی معیت میں پہلی دفعہ عدالت جاتا ہے تو پہلا متاثر کن منظر یہ ہوتا ہے کہ جج بہت توجہ سے فریقین کو سنتا ہے مگر فیصلے کی صورت میں جب بولتا ہے تو وکیل مخالف کو بھی مزید بولنے کی ہمت نہیں رہتے کہ انصاف عمل ہی ایسا ہے ۔
اللہ کے نبی داود اپنے وقت میں جج بھی تھے ان کے ایک فیصلے پر اللہ کے ایک دوسرے نبی سلیمان نے تبصرہ کیاتو انھوں نے اسی وقت فریقین کو بلا کر اپنا نظر ثانی شدہ فیصلہ سنایا اور اس کے بعد معاشرے نے داود کو ْ مانا ہوا ْ جج تسلیم کر لیا تھا۔اس روائت سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے ہی فیصلے پر نظر ثانی جج کو انصاف کے قریب تر ہونے میں مدد گار ہوتی ہے مگر یہاں تو مسٗلہ عدلیہ میں ْ گھس بیٹھوں ْ کا ہے ۔ پاکستان کی عدلیہ کے بہت سارے فیصلے نظر ثانی کے محتاج ہیں جن میں سر فہرست سیاسی فیصلے ہیں جن کی مذمت ہم نجی محفلوں میں ہی نہیں بلکہ ٹی وی کی سکرینوں پر بھی دیکھتے ہیں۔ 


ملتان کے مخدوم جاوید ہاشمی نے جوڈیشنل مارشل لاء کا الزام لگایا تھا ۔ ججوں کے سیاسی فیصلوں پر تبصرے کی مرتکب سپریم کورٹ کی وکیل عاصمہ جہانگیر اور منفی تبصروں میں سبقت لے جانے والوں میں سابق صدر مشرف کا نام ہے۔ مگر ان افراد کے الزامات پر نہ نوٹس لیا گیا نہ کوئی دوسری کاروائی عمل میں لائی گئی۔

مخدوم جاوید ہاشمی کے نے جس جوڈیشنل مارشل لاء کی نوید سنائی تھی ۔اگر اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس کا پہلا ہدف کراچی کا وہ نحیف البدن وکیل ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک پنجابی مرد جر ی کی حمائت کا مجرم ہے ۔اور نام اس ْ بہاری ْ کا نہال ہے اور ہاشمی بھی ہے۔جس نے غیر مشروط معافی مانگی خود کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑا ، اس کے معافی نامہ میں دو بار عدالت نے ترمیم کرائی اور انجام کار اسی معافی نامہ کر مسترد کر کے اس پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے اپنے سامنے اسے گرفتار کرا کر اڈیالہ جیل بجھوا دیا گیا۔

جج بعض اوقات انصاف کی نسبت اپنے اختیارات کے اظہار کے مظہر بن جاتے ہیں ۔ اس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اس دن ہوا تھا جب ایک عدالت میں جج نے فرمایا ْ میرے پاس آپ کو جیل بھیجنے کا بھی اختیار ہے ْ تو میں نے عرض کیا ْ آپ انصاف کر کے اپنے اختیار کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں گے ْ جج صاحب کو میرا جواب پسند نہ آیا اور سیاسی مقدمے میں مجھے جیل بھیج دیا۔ 
ْ ْ