منگل، 12 دسمبر، 2017

7 دجالی پروٹوکولز

دجالی پروٹوکولز کی مختلف شکلیں
دجالی پروٹوکولز 9/11 کے بعد اس نے طاقتور فوجی افسروں، سیاستدانوں، میڈیا کے مالکوں، بینکرز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈروم میٹنگوں کی شکل اختیار کر لی ہے جن کی لگام مزید چالاک و عیار یہودیوں اوران کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے جو مسلمانوں کو محکوم بنانے کے درپے ہیں - اور دھشتگری کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرنا اپنا حق سمحھتے ہیں مسلم ممالک کو مضید کمزور کرنے کے لیے دھشتگری کرواتے ہیں تاکہ ان کی مندپسند حکومت قائم ہو سکے
یہودی سازش ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر اتحادی حملے کے بارے میں بھی یہودی سازشی بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی ایسی یہودی سازشی وسیع پیمانے پر کی جارہیں ہیں جیسے دھشتگردی پھلانا اور پھر دھشتگردی کے نام پر پوری دنیا میں تباہی کرنا
فری میسن کی مدد سے ہر ملک میں یہودی ایجنٹ مردوں اور عورتوں معاشی، فوجی اور سیاسی اقتدار کے ایوانوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور ہماری زمین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں- ان میں ٹی وی کے اہم چینلوں پر مبصرین اور سیاسی شعبدہ بازوں کی شکل میں با قاعدگی سے تبصرہ کرتے ہوے سنتے ہیں- بھی شامل ہیں
۔ پروٹوکولز نامی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دنیا میں موجود غربت، بیروزگاری، نفسا نفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی موجودگی کی اصل وجہ معلوم ہو جائے گی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ آج نہ صرف پوری دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودی قابض ہیں بلکہ وہ سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ خالص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر بھی اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اس کے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں۔ برین واشنگ یا ذہنی دھلائی سے مراد غیر اخلاقی طور پر انفرادی یا اجتماعی سطح پر کسی کے خیالات کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ عموماً یہ عمل مفعول کی مرضی کیخلاف سرانجام دیا جاتا ہے اور یہ کام نفسیاتی یا غیر نفسیاتی طریقے کی مدد سے سرانجام پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفعول اپنی سوچ، اپنے رویئے، اپنے جذبات اور اپنی قوتِ فیصلہ پر اپنا قابو کھو دیتا ہے۔ برین واشنگ یا مائنڈ کنٹرول کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی آدمی سے اس کا ہر طرح کا ماحول، اس کی خوشحالی اور فلاح کی تمام راہیں چھین کر اسے تنہا کر دیا جائے۔ مائنڈ کنٹرول کا شکار آدمی حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کر پاتا اور جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔ مغرب یہ جانتا ہے کہ آج کا دور میڈیا، برین واشنگ اور فکری یلغار کا ہے۔ اس لیئے وہ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے پسپا کرنے کے لیئے نت نئے طریقے استعمال میں لاتا ہے۔ وہ باہر سے بھی دباؤ ڈالتا ہے اور اندر سے بھی جڑیں کھوکھلی کرکے نقب لگاتا ہے۔ آج کے دور میں ہم سر سے پاؤں تک دجالی نظام میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جس طرح سے آہستگی کے ساتھ پوری دنیا پر دجالی نظام قائم ہوتا جا رہا ہے آج معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر تقریباً پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ آج کے ماڈرن دور میں جدید ایجادات کے ذریعے حکومتیں میڈیا مائنڈ کنٹرول کے ذریعے کسی قوم کو اپنے تابع کرنے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نائن الیون کے جعلی حملے، عراق میں جوہری توانائی و کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا پروپیگنڈہ وغیرہ۔ اسی چیز کا نام مائنڈ کنٹرول آف میڈیا ہے۔ مائنڈ کنٹرول یا برین واشنگ کے لئے ٹی وی اور میس میڈیا کا استعمال اب ایک سائنس بن گیا ہے اور یہ میڈیا ایک نہایت طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی یہودی میڈیا اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کے لیئے سرگرم عمل ہے۔ اس دجالی میڈیا سے قومی ذرائع ابلاغ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ہمارے قومی میڈیا کے ذریعے بعض معاملات پر ایسے برین واشنگ کی جاتی ہے کہ حیرانی کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکا۔ آج کل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کی دھلائی کرکے جس طرح امریکی اور یہودی مفادات کی ترجمانی کی جاتی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت متعدد ممالک کا میڈیا اب جیوش نیوز ( Jewish News ) بن گیا ہے۔

6 دجالی پروٹوکولز

صہیونی بزرگوں کے پروٹوکولز (The Protocols of the elders of Zion)
یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ قدامت پسند لوگ یہودیوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہودی بیشتر دوسرے لوگوں کے برعکس انٹرنیشنل تھے۔ وہ تقریباً ہرملک میں رہتے تھے اور اکثر اعلیٰ عہدوں اور دولت کے مالک تھے۔ ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود وہ الگ تھلگ تھے۔ وہ اپنی الگ زبان میں عبادت کرنے، دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کرنے کے اقرار کرتے اور تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لوگ انہیں کسی عظیم راز کا پاسبان سمجھتے تھے۔
انہی دنوں تقریباً اسّی صفحات کی ایک کتاب سامنے آئی۔ یہ جرمن اور انگریزی زبان میں تھی۔ انگریزی میں اس کا نام The Protocols of the Elders of Zion تھا۔ یہ ہدایات اور لائحہ عمل پر مشتمل تھی کہ موجودہ طاقتوں، سلطنتوں، حکومتوں اور چرچوں کو کس طرح ختم کر کے ایک نئی عالمی حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ خاندان دائو دی کا سپریم یہودی آمر ہو۔ پروٹوکولز میں ہدایت کی گئی کہ اس مقصد کے لیے طبقاتی نفرت پیدا کی جائے۔ جنگوں کو ہوا دی جائے۔ انقلاب لائے جائیں اور قومی اداروں کو بدنام کیا جائے۔
روایتی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے لبرل ازم کو فروغ دیا جائے۔ اس سے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم ریاستیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا کو ایک نئے نظام کی تلاش ہو گی اور فری میسن کی مدد سے ہم اس کے لیے تیارہوں گے۔ پروٹوکول جو بیس سرخیوں کے تحت مینجمنٹ کے لیکچروں کی طرح ہیں۔ پہلے پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں اچھی فطرت والوں کے مقابلے میں بدفطرت افراد زیادہ ہیں اس لیے تعلیمی مباحث سے زیادہ تشدد موثر ہوسکتا ہے۔ پروٹوکولز میں ضابطہ پالیسی، سیکورٹی، اسلحہ بندی، اجارہ داری، پریس، ٹیکس پالیسی اور تعلیم کے ابواب ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک ا نتخابی منشور نظر آتا ہے لیکن اسے رائے دہندگان سے پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کا انداز میکاولی کاہے کہ انسانوں کی کمزوریوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ پروٹوکول 12 میں کہا گیا ہے کہ ادب اور صحافت سب سے اہم تعلیمی قوتیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رسالوں اور اخباروں کے مالک بن جائیں گے لیکن لوگوں کے شک سے بچنے کے لیے تمام رسالے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ظاہری شکل، خیالات اور رجحانات میں ایک دوسرے سے ہٹ کر ہوں گے۔ یہ رسالے ہر مکتبہ فکر کے ہوں گے۔ ارسٹوکریٹک، ری پبلکن، انقلابی حتیٰ کہ انارکسٹ بھی۔ ہندو دیوتا وشنو کی طرح ان کے ایک سو ہاتھ ہوں گے اور ہر ہاتھ کی نبض مختلف ذہنی رجحان کے تحت ہو گی۔ فحش اور عریاں مواد بھی خوب پھیلایا جائے گا تاکہ وہ تقریروں اور پارٹی پروگراموں سے زیادہ راحت پائیں۔
جرمن ایڈیشن کے ایڈیٹر 74 سالہ سابق فوجی افسر، زوربیک نے لکھا کہ اگست 1897ء میں سوئس شہر باتل میں پہلی صہیونی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی ضرورت پر غور کیا گیا۔ کانگریس کے دس اجلاس ہوئے جن کی صدارت بابائے صیہونیت ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے کی۔
انہوں نے ہی یہ پروٹوکول بیان کیے۔ ہرشخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ 9 پروٹوکولز کا مسودہ کہیں لے جانے والے ایلچی نے بھی اپنی قیمت وصول کی۔ اسے مسودہ کہیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فرنکفرٹ کے میسنک لاج میں روسی سیکرٹ پولیس کا ایک ایجنٹ اسے ملا جس کے ساتھ نقل نویسوں کی ایک ٹیم بھی تھی۔ ایلچی نے قیمت وصول کی اور ایک رات کے لیے مسودہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے راتوں رات اصل زبان (شاید عبرانی) میں اس کی نقل تیار کی۔ صبح کو ایلچی نے مسودہ واپس لیا اور تاریخ سے غائب ہو گیا۔ نقل روس پہنچی جہاں سکالرز نے اس کا ترجمہ کیا۔
1905ء میں ماسکو کے ایک سکالر سرگئی اے فیلوس نے ایک کتاب "The Great in the small" لکھی۔ پروٹوکولز اس میں بطور ضمیمہ شامل تھے۔ زوربیک کے جرمن ایڈیشن کے بعد پروٹوکولز کے کئی یورپی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے۔ امریکہ میں تین مختلف ایڈیشن چھپے۔ اس کے بعد عربی ترجمہ بھی آ گیا۔ ہرجگہ سکالرز اور حکمرانوں میں اس کاچرچا ہونے لگا۔ 1919ء میں ایک اور کتاب چھپی Friedrich wichtl کی اس کتاب The World Freemasunry world revolution میں یہودیوں اور فری میسن کے بارے میں وہی خیالات تھے جنہیں پروٹوکولز نے تقویت دی تھی 

5 دجالی پروٹوکولز

صہیونی حکومت کو تسلیم کرنا:
صہیونی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد، امریکی صدر ٹرومین نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر کے اس کی حمایت کا اعلان کردیا اور اس کے بعد فوجی اور اقتصادی امداد کا سیل رواں امریکہ سے اسرائیل کی جانب بہنے لگا۔ اس حکومت کو تسلیم کرنے والا تیسرا ملک روس تھا جب کہ اس سے پہلے بھی اسٹالن نے صہیونیوں کی کافی مدد کی تھی۔
صہیونیوں نے اپنی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد، مسلمانوں کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو ضبط کرلیا اور مسلمان دیہاتوں اور مقامات مقدسہ کو ویران کرنا شروع کردیاجس کے نتیجے میں مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر جوق در جوق قریبی ممالک کی طرف ہجرت کر کے جانے لگے۔
اور اس طرح یہودی اپنے دجالی پروٹوکولز منصوبوں کو پروان حڑھانے میں کامیاب ہوتے جارہیں ہے

4 دجالی پروٹوکولز

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور فلسطین :
دوسری جنگ عظیم کی ابتداء تک فلسطین میں عوامی تحریکیں جاری رہیں کہ جن میں بعض اوقات فلسطینی عوام کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن عربوں کے محدود وسائل ، برطانیہ کی فلسطینی عوام سے دشمنی اور مخالف اقدامات اور فلسطینیوں کی غفلت کی وجہ سے کوئی خاص قابل ذکر نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے کئی عوامل کے باعث انقلاب کی آگ ٹھنڈی پڑگئی کیونکہ جنگ سے دوچار ممالک میں شدید کنٹرول کی وجہ سے عربوں کے پاس اسلحہ اور دوسرے وسائل کی شدید کمی واقع ہوگئی ،فلسطین کا رابطہ لبنان اور شام سے مکمل طور پرمنقطع ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دو ممالک سے ملنے والی فوجی امداد بھی رک گئی تھی۔ جنگ کی وجہ سے ایمرجینسی کے بہانہ سے فلسطینیوں کو جلاوطن، قید یا اذیتوں کا شکار بنایا جانے لگا اور فلسطینیوں کی تمام سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی۔
دوسری جنگ عظیم کے دو اہم نتیجے سامنے آئے، ایک تو برطانیہ کی طاقت میں کمی اور نوآبادیوں کی خودمختاری اور دوسرا ''امریکہ'' کا نئی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا۔ سرزمین فلسطین پر صہیونی حکومت کا وجود جن دلائل کی بنیاد پر برطانیہ کے لیے اہم تھا، انہی کی بناء پر اس نئی طاقت کے لیے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ علاوہ ازیں، امریکی حکومت پر صہیونیوں اور یہودی سرمایہ داروں کو کافی رسوخ بھی حاصل تھا۔ ان سب عوامل کی وجہ سے امریکہ نے اس حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
١٩٤٢ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل ''بالٹی مور'' میں امریکی صہیونیوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ''ڈیوڈبن گوریان'' کی جانب سے یہ تجاویز پیش کی گئیں۔
١۔ فلسطین کی جانب نقل مکانی کی محدودیت کو ختم کرنا
٢۔ یہودی فوج کی تشکیل
٣۔ پورے فلسطین کو ایک یہودی ملک میں تبدیل کرنا
امریکی صہیونیوں کی تنظیم کی جانب سے منظور شدہ قرار داد کے بعد، امریکی صدر'' ٹرومین'' نے برطانوی وزیر اعظم ''اِٹِلی'' کو ایک خط لکھا، جس میں یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی کو آزادی دینے اور ان کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران میں برطانوی وزیر خارجہ نے عوامی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بناکر اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش کردیا۔فلسطین سے برطانوی سرپرستی کا خاتمہ :
برطانیہ نے تقریباً تیس سال کے ظالمانہ تسلط اور تمام اہم امور صہیونیوں کو سپرد کرنے کے بعد ١٩٤٧ء میں اعلان کردیا کہ وہ ١٥ مئی ١٩٤٨ء تک اپنی فوجیں فلسطین سے واپس بلالے گا۔ اسی لیے برطانیہ نے اقوامِ متحدہ سے اس مسئلہ کے حل کا مطالبہ کردیا۔
اقوامِ متحدہ نے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کو فلسطین کو تقسیم کرنے کی لائن کو معین کرنے کے لیے بھیجا جس نے تحقیقات اور مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد دو رپورٹیں پیش کیں جن میں سے ایک کی حمایت میں کمیٹی کی اکثریت نے اور دوسری کی حمایت میں اقلیت (ہندوستان، ایران، یوگوسلاویہ اور آسٹریلیا) نے رائے دی۔ پہلی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے سات حصہ کیے گئے تھے، جن میں تین تین حصوں پر یہودی اور عربی حکومت کی تشکیل اور ایک حصہ جس میں بیت المقدس شامل تھا ) کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ دوسری رپورٹ ١٩٤٦ء میں برطانوی تجویز سے مشابہت رکھتی تھی جس کے مطابق دو قوموں پر مشتمل ایک فیڈرل ملک کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کا مرکز بیت المقدس ہوگا۔
بالآخر اکثریتی ارکان کی تجویز، لاطینی امریکہ (١٢)کے ممالک پر امریکہ کے شدید دباؤ اور روس کے تعاون سے منظور کرلی گئی، اگرچہ عرب ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبہ کی منظوری کے بعد، صحیح طور پر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی کو معین کیا تا کہ وہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبہ پر نگرانی کریں، لیکن اس کمیٹی ، جنرل اسمبلی اور نہ ہی سلامتی کونسل کسی نے بھی اس نگرانی کے لیے وسائل فراہم نہ کیے اور صہیونیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا ۔ اس کے فوراً بعد فلسطین کے تمام شہروں میں شدید اعتراضات شروع ہوگئے اور مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے اس منصوبہ کی مخالفت کی۔
صہیونیوں نے اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین پر مبنی قرارداد اور برطانیہ کی فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد ان زمینوں پر حملہ کرنا شروع کردیا جو قرارداد کے مطابق عربوں کے حصہ میں آنی تھی تا کہ برطانیہ کے نکلنے سے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آئندہ حکومت کی سرحدوں کو پھیلاسکیں۔ یہ ناانصافی دیکھ کر عربوں نے اپنی جان اور وطن کا دفاع کرنے کی کوششیں کی لیکن چونکہ صہیونی پہلے ہی سے تیار تھے ، اس لیے انہوں نے جلدہی حالات پر قابو پالیا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے اعلان اور فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کی درمیانی مدت میں پوری کوشش کی گئی کہ یہودی، فلسطین پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرلیں۔ ایک طرف سے فلسطینی مسلمان، برطانوی افواج کی کڑی نگرانی میں تھے اور اپنی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوتے دیکھ کر بھی وہ کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے، تو دوسری جانب سے، ہاگانا اور اشترن آرگون جیسے دہشت گرد دستوں نے کئی قتل عام کر کے مسلمانوں پر اس طرح سے رعب اور دہشت بٹھا دی تھی کہ وہ لوگ کوئی بھی مناسب رد عمل نہ دکھا سکیں۔
١٤ مئی ١٩٤٨ء کو فلسطین میں برطانوی نمائندہ اور دوسرے ارکانِ حکومت ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ شہر حیفا سے کشتی کے ذریعہ نکل گئے۔ ابھی یہ فوج فلسطین سے نکلی بھی نہیں تھی کہ ''بن گوریان'' کی جانب سے صہیونی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔
عرب دنیا نے اس اعلان کے بعد فیصلہ کیا کہ عربوں کی منظم فوج کو یہودیوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ صہیونی حکومت کے اعلان کے ایک دن بعد عرب فوج فلسطین میں داخل ہوگئی اور اپنے مشترکہ بیان میں فلسطین میں صہیونی مقاصد کی مذمت کی اور اپنے تئیں اس سرزمین کے امن کا حامی گردانا۔
جنگ کے تمام محاذوں پر عربوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں حاصل ہوئیں اور مصر کی ہوائی فوج نے اس میں موثر کردار ادا کیا، لیکن فوج کی کمی، عرب فوجی سربراہوں کی یہودیوں کی حامی حکومتوں کے ساتھ وابستگی، بہت سے عرب سربراہانِ مملکت کی بے غیرتی اور برطانیہ کی جانب سے عربوں پر اسلحہ کی پابندی جیسے اسباب کی بناء پر عربوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یہ جنگ آٹھ روز تک جاری رہی اور بالآخر امریکی اور برطانوی کوششوں سے جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
سرزمین فلسطین پر صہیونی تسلط کے عوامل میں سے ایک اہم عامل، اکثر عرب سربراہوں کی سرمایہ داری نظام سے وابستگی تھی۔ مثال کے طور پر ، عرب اسرائیل جنگ کے دوران ، ماورائے اردن فوج کی سربراہی ایک انگریز میجر ''کلوپ پاشا'' کے ہاتھ میں تھی۔ ١٩١٩ء میں عرب افواج کے سربراہ فیصل بن شریف حسین (امیر مکہ) نے برطانیہ کے اکسانے پر وائز مین کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا، جس میں فیصل کے انگریز دوست لارنس نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدہ کے مطابق فیصل کے لیے ایک عرب سلطنت اور وائزمین کے لیے ایک خودمختار یہودی ریاست کی تجویز پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل نے اعتراف کیا ہے کہ اگر سلطان عبدالعزیز (اس وقت کے حجاز کے حکمران ) نہ ہوتے تو یہودی فلسطین پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے۔

3 دجالی پروٹوکولز

صہیونیوں کی ہوس :
دوسرے ممالک پر اپنے اقتدار کی ہوس کو جائز قرار دینے کے لیے ، صہیونی، ''ارضِ موعود'' کی حدود کے بارے میں، توریت میں موجود جعلی باتوں کو دستاویز قرار دیتے ہیں۔ '' روژہ گارودی''کے خیال میں صہیونی حکومت کی فوجی پالیسی (١٠)کا ہدف صرف اسرائیل کا دفاع نہیں ہے بلکہ خطہ کے عرب ممالک کو توڑنا ہے۔ اپنی سرحدوں کے مسلسل پھیلاؤ کی ''توجیہ'' اور بین الاقوامی دہشت گردی اور قتل عام کے وحشیانہ طریقوں کو ''جائز'' دکھانے کے لیے، توریت سے صہیونیوں نے سوء استفادہ کیا ہے۔
'' بن گوریان''(١١)کے خیال میں پانچ علاقوں کو اسرائیل میں شامل ہونا چاہیے۔ دریائے لیطانی تک جنوبی لبنان، جنوبی شام، پورا اردن ، پورا فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا۔ یہاں تک کہ بعض صہیونی ، ترکی کی شمالی سرحدوں کو بھی اسرائیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تھیوڈور ہرٹزل نے ١٨٩٨ء میں نیل سے فرات تک اسرائیلی سرحدوں کا تعین کیا تھا۔ '' بن گوریان'' کے عقیدہ کے مطابق اسرائیلی سلطنت فوجی اور سیاسی دونوں طریقوں سے تشکیل پائے گی۔ اسرائیل کی صہیونی حکومت کی پارلیمنٹ کے دروازہ پر لکھا ہے :
'' اے یہودیو! تمہارا وطن نیل سے فرات تک ہے'' ۔
صہیونی ہمیشہ اپنے اصلی مقصد کو خفیہ رکھتے ہیں یا گول مول انداز میں اس کو بیان کرتے ہیں اور صرف ظاہری مقصد کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ١٨٩٧ ء سے ١٩٤٦ء تک وہ لوگ کہتے رہے کہ ہم صرف یہودیوں کے لیے ایک مرکز چاہتے ہیں، حکومت نہیں۔ اور کہتے تھے کہ ہم فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور نہیں کریں گے، لیکن جب طاقت حاصل کرلی تو یہودی حکومت کا مطالبہ کر دیا۔ صہیونی حکومت کے سابق وزیر دفاع ''آریل شارون'' نے ١٩٨٠ء کے عشرے کے دوران صہیونزم کی پالیسیوں کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا:
'' ضرورت ہے کہ اسرائیل کی دفاعی اور اسٹریٹجک مصلحت مشرقِ وسطیٰ، بحرروم اور بحر احمر کے ساحلوں پر موجود عرب حکومتوں سے آگے بڑھ کر ٨٠ کے عشرے میں ترکی، ایران ، پاکستان ، خلیج فارس کے علاقوں اور افریقا خاص طور پر شمالی اور مرکزی افریقا کو بھی شامل ہے
یہودی حکومت کے قیام کے لیے بین الااقوامی سطح پر صہیونی اقدامات، برطانیہ کی مدد اور یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے ذہنی آمادگی پر بحث کی گئی ۔ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ، بوڑھے سامراج کے زوال اور نو آبادی علاقوں کی خودمختاری کی نوید لے کر آیا۔ برطانیہ نے یہ اعلان کر کے کہ وہ اب فلسطین کی سرپرستی جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، صہیونی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کردی۔ اس کام کی قانونی پشت پناہی کے لیے نومولود ''اقوام متحدہ'' کی قرار دادیں موجود تھیں۔