آئینے کے دونوں رُخ
تاریخ گواہ ہے کہ بعض شخصیات اپنی تنقید، تلخی اور تیزطراری کی بدولت منظرِ عام پر آتی ہیں۔ ان کا ہنر یہی ہے کہ وہ لفظوں کو نیزے کی طرح برتتے ہیں، جملوں کو تیر کی مانند چھوڑتے ہیں، اور طنز کو ایسی تلوار میں ڈھال دیتے ہیں جس کا زخم مدتوں تازہ رہتا ہے۔
ایسی ہی دو شخصیات کا تقابل سامنے آتا ہے—ایک وہ جو سیاست کے نام پر جیل میں بند ہے، دوسرا جو مزہب کی چمکتی تلوار سونت کر روایات کے خلاف نعرہ زن ہے ۔ دونوں ہی تنقید کر کے مشہور ہوئے۔ ایک نے کسی کو نہ بخشا، اور دوسرے کا انداز بھی وہی ہے: براہِ راست، بے لاگ اور بلا لحاظ۔
وہ خود پسند تھا، یہ بھی اپنی ذات میں محو ہے۔ وہ زبان کا دھنی تھا، فنِ تقریر کا ماہر، الفاظ کا جادوگر۔ یہ بھی خطابت میں کسی سے پیچھے نہیں، مگر دونوں کی زبان میں شیرینی کی جگہ کڑواہٹ ہے۔ نہ وہ مروّت کا قائل تھا، نہ یہ لحاظ برتنے کا عادی ہے۔
وہ پگڑیاں اچھالتا تھا، یہ روایات کو روندتا ہے۔ اس کی زبان تیز تھی، اس کی بھی تلخ ہے۔ وہ باہر نکلتا تو اپنے جانثاروں کی معیت میں، نعرے بلند کرتا، ہجوم کو گرما دیتا۔ یہ البتہ مصلحت کی چادر اوڑھے، ایک فاصلے سے بولتا ہے، مگر وار اس کا بھی کم نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں وہ سیاست دان ہوتے ہوئے مذہب کی چاشنی شامل کرتا تھا، وہیں یہ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا لگانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک نے مذہب کو سیاست میں برتا، دوسرے نے سیاست کو مذہب میں گوندھا۔ فرق صرف زاویے کا ہے، مرکز ایک ہی ہے — اثر و رسوخ۔
دونوں ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ وہ دانا کہلاتا تھا، یہ دانا بن بیٹھا ہے۔ مگر ایک فرق نمایاں ہے: وہ بات کر کے بھول جاتا، یہ بات کر کے یاد رکھتا ہے۔ وہ دل کا صاف تھا، چوٹ لگاتا اور آگے بڑھ جاتا؛ یہ دل میں گرہ باندھتا ہے، اور موقع پا کر گرہ کھول کر دکھاتا ہے۔
وہ نئی نسل کا ہیرو تھا، یہ بھی نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ وہ کینہ پرور تھا،کبھی کبھار کاٹھ کا الو بھی؛ یہ فراخ دل ہے، کشادہ ظرف، مگر چالاک اور بیدار مغز۔
اور شاید سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ اس سے اگر غلطی سرزد ہو بھی جاتی، تو وہ اُسے تسلیم کرنے کے بجائے دلیلوں کی پناہ لے لیتا۔ یہ اگرچہ غلطی کرتا ہے، مگر اسے سرِ عام تسلیم کرنے کا ظرف رکھتا ہے — یہی بات اُسے ایک قدم آگے کر دیتی ہے۔
یہ دونوں رُخ ہیں اُس آئینے کے جس میں سماج اپنی خواہشوں، محرومیوں اور امیدوں کو جھانک کر دیکھتا ہے۔ وقت بدلتا ہے، چہرے بدلتے ہیں، مگر مزاج وہی رہتا ہے — تلخ، تیکھا، اور پُراثر۔