پیر، 4 اگست، 2025

سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34


 


وعدے کی اہمیت — فلم سے حقیقت تک

برصغیر میں بننے والی شہرۂ آفاق فلم "مغلِ اعظم" کا ایک منظر آج بھی مجھے ذہن میں تازہ ہے۔ بادشاہ محل کی ایک خادمہ کو انگوٹھی انعام میں دیتے ہوئے کہتا ہے:
"تم زندگی میں مجھ سے کچھ بھی مانگو، عطا کیا جائے گا، اگر ہم بھول جائیں تو یہ انگوٹھی ہمارے وعدے کی گواہ ہوگی۔"

 وہ وعدہ بادشاہ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے، مگر اسے اپنے قول کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ یہ فلمی سین کوئی معمولی منظر نہیں، بلکہ اقتدار، تعلقات اور وعدے کی گہرائی کو خوبصورت انداز میں سمجھانے کی مثال ہے۔

اسی اصول پر اگر ہم اپنی زندگیوں، اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کو پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وعدے کی پاسداری صرف فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی عزت و وقار کی بنیاد ہے۔

وعدہ — دینِ اسلام کی روشنی میں

اسلام وعدے کو محض اخلاقی یا سماجی رویہ نہیں بلکہ دینی فریضہ قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"
(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"جس میں تین باتیں ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔"
(بخاری، حدیث نمبر: 33)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہمارے لیے سبق ہے۔ جب ان کی وفات قریب آئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق دیا گیا وعدہ یاد کیا اور فرمایا:
"میں نفاق کی علامت کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر نہیں ہونا چاہتا، لہٰذا میں وعدہ پورا کرتا ہوں۔"

صلح حدیبیہ — وعدے کی لازوال مثال

تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب صلح حدیبیہ ہے، جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ زخموں سے چور، بیڑیوں میں جکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مدینہ لے جانے کی درخواست کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات کی شدت کے باوجود معاہدے کی پابندی کی اور ابو جندل کو اہلِ مکہ کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وعدہ جذبات سے بڑا، تعلقات سے مقدم اور وقتی فائدے سے برتر ہے۔

وعدہ — صرف مذہبی یا سیاسی نہیں، روزمرہ زندگی کی ضرورت

بدقسمتی سے وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔ نکاح کارڈ پر وقت عصر کے بعد لکھا جاتا ہے، مگر بارات عشاء کے بعد آتی ہے۔ ولیمہ آٹھ بجے کا ہوتا ہے، لیکن کھانے کی ابتدا دس بجے ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے وعدوں کو توڑنا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے، اور یہی بے نظمی، بے وقت حاضری، اور بد اعتمادی کی جڑ ہے۔

معاشرتی زوال اور وعدہ خلافی

قوموں کی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا عمارتوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقیات، اعتماد اور قول کی پابندی سے ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے وعدہ توڑا، وہ ٹوٹ گئیں۔ وعدہ خلافی صرف فرد کی بدنامی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ساکھ کو برباد کر دیتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر آج بھی یہ الفاظ کندہ ہیں:
"محمد الرسول، صادق الوعد، الامین۔"
یہ الفاظ محض تعریفی القابات نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے عملی نصیحت ہیں کہ وعدہ نبھانا ایمان اور دین کا تقاضا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرمایا کرتے:
"جس میں امانت داری نہیں، اس کا ایمان نہیں، اور جس میں وعدے کی پابندی نہیں، اس کا دین نہیں۔"
(مشکوٰۃ المصابیح)

 وعدے کی پاسداری، ترقی کی پہلی سیڑھی

معاشرتی مسائل، انتشار، بد اعتمادی، اور زوال کی اصل جڑ وعدہ خلافی ہے۔ جب ہم چھوٹے وعدے پورے کرنا سیکھیں گے، وقت کی پابندی اپنائیں گے، تعلقات میں سچائی اور معاہدوں میں سنجیدگی لائیں گے، تب ہی ہم ایک بہتر معاشرہ، ایک مضبوط قوم، اور دنیا میں باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔

قوم کی ترقی کا آغاز وعدوں کی پاسداری سے ہوتا ہے، اور زوال کی کہانی وعدہ خلافی سے لکھی جاتی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم قول کے سچے بن کر تاریخ کا روشن باب بننا چاہتے ہیں یا وعدہ خلافی کی تاریکی میں گم ہو جانا چاہتے ہیں۔

اتوار، 3 اگست، 2025

سور بقرہ ایت 85



"کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟"

قرآنِ کریم انسان کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، اور اس میں ایسے اصول اور احکام بیان کیے گئے ہیں جو کسی خاص قوم یا دور کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر دور اور ہر قوم کے لیے یکساں ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 85 میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ"
"کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ تو جو لوگ تم میں ایسا کریں، ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟ اور قیامت کے دن ان کو سخت عذاب میں ڈال دیا جائے گا، اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔" (البقرہ 85)

بنی اسرائیل کی کوتاہیاں
یہ آیت خاص طور پر بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنقید کرتی ہے۔ بنی اسرائیل وہ قوم تھی جسے اللہ نے بے شمار انبیاء عطا فرمائے، آسمانی کتابیں دیں، معجزات دکھائے، اور دنیا میں عزت عطا کی۔ مگر اس قوم نے جب اللہ کے کچھ احکام کو مانا اور کچھ کو پسِ پشت ڈال دیا تو ان پر اللہ کی مدد موقوف ہو گئی۔ وہ حدوداللہ کی پابندی نہ کرتے، احکامِ تورات کو اپنی خواہشات کے تابع کر دیتے، اور صرف ان باتوں پر عمل کرتے جو ان کے مفاد میں ہوتیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ ہفتے کے دن شکار نہ کریں، تو انہوں نے حیلے بہانے تلاش کیے۔ جب جہاد کا حکم آیا تو بزدلی اور دنیا پرستی کا مظاہرہ کیا۔ انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ آئے، اور اللہ کی کتاب میں تحریف تک کر ڈالی۔
ان کی یہ روش بنی اسرائیل کے زوال کا سبب بنی۔ وہ جو کبھی "اللہ کے منتخب بندے" تھے، دنیا میں رسوائی کا نشان بن گئے، ان پر ذلت اور محکومی مسلط کر دی گئی، اور وہ زمین میں بکھر کر رہ گئے۔

مسلمانوں کی حالتِ زار
آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو بنی اسرائیل نے کیں۔ ہم نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے ظاہری اعمال پر تو زور دیتے ہیں لیکن دیانت، عدل، انصاف، جھوٹ سے اجتناب، ناپ تول میں انصاف، غیبت، بدگمانی، رشوت، ظلم، دھوکہ دہی، تکبر، اور ریاکاری جیسے گناہوں کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، ہم سنت کی بات کرتے ہیں مگر زندگی میں اسے نافذ کرنے سے گریزاں ہیں۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں دین الگ اور دنیا الگ کر دی گئی ہے۔ ہمارے سیاستدان اسلامی اقدار کی بات کرتے ہیں مگر عمل میں دنیا پرستی، کرپشن اور اقربا پروری غالب ہے۔ ہمارے تاجر "بسم اللہ" کہہ کر ترازو میں دو نمبری کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے پاس بے پناہ وسائل، تیل، گیس، افرادی قوت، اور قدرتی دولت ہونے کے باوجود وہ مغربی طاقتوں کے محتاج ہیں، اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ہم صرف وہی اسلامی احکام مانتے ہیں جو ہمارے مفاد میں ہوں، باقی کو یا تو فراموش کر دیتے ہیں یا نظرانداز۔

اللہ کی سنت: نہ بدلنے والی
اللہ تعالیٰ کی سنت نہ کبھی بنی اسرائیل کے لیے بدلی، نہ آج کے مسلمانوں کے لیے بدلے گی۔
"وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا"
"اور تم اللہ کی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔" (الاحزاب: 62)

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو، تو ہمیں پورے دین کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ عمل کی کتاب بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں اللہ کی رضا مقدم رکھنی ہوگی، نہ کہ اپنی خواہشات۔ امتِ مسلمہ کو دوبارہ عروج تب ہی ملے گا جب وہ دین کے ہر حکم کو دل سے تسلیم کرے گی اور عملاً نافذ کرے گی، خواہ وہ حکم اسے وقتی طور پر کٹھن ہی کیوں نہ لگے۔

سورہ البقرہ کی یہ آیت صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس قوم کے لیے ایک آئینہ ہے جو اللہ کی کتاب کے ساتھ دوہرا معیار رکھتی ہے۔ جب تک ہم اللہ کے احکام کو مکمل طور پر اختیار نہیں کرتے، ہمیں دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ملے گی اور آخرت میں بھی سخت عذاب کا سامنا ہو گا۔ اگر ہمیں اپنی حالت بدلنی ہے تو ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی۔
"اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔" (الرعد: 11)


بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے





 بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے

بڑھاپا زندگی کی سب سے سچی حقیقت ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں جسم کی توانائی، آنکھوں کی چمک، آواز کی روانی اور ذہن کی چستی پیچھے رہ جاتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان کا دل، بڑھاپے میں بھی، ویسا ہی حساس اور محبت کا طلبگار رہتا ہے جیسا بچپن میں ہوتا ہے۔
اس عمر میں سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے — وقت۔
نہ پیسہ، نہ دوائی، نہ آرام دہ بستر — فقط تھوڑا سا وقت، محبت بھرا لمس، اور چند لمحوں کی دلجوئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آج کی اولاد والدین کی اس محبت کی بھیک دینے پر بھی تیار نہیں۔ وہ ماں جس نے راتیں جاگ کر بچے پالے، وہ باپ جس نے اپنی خواہشیں مار کر بچوں کو سہولت دی — وہی ماں باپ آج ضعیفی کی دہلیز پر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باپ، ماں کے برعکس، سوال کا عادی نہیں ہوتا۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کو دباتا ہے، دکھ کو چھپاتا ہے، اور اولاد کی مصروفیت کا عذر خود بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کی ذاتی ضروریات پر نظر رکھے، ان میں کسی کمی کو محسوس کرے اور اس کی تلافی کرے۔
بڑھاپے میں والدین کی خدمت صرف خدمت نہیں، ان کی روح کی غذا ہے۔
ان کا ہاتھ تھامنا، ان کے چہرے کو چھونا، ان سے محبت سے بات کرنا — یہ سب انہیں توانائی دیتا ہے۔ یہ سادہ سے عمل انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے بچوں کی دنیا کا حصہ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بڑھاپے میں نظر انداز کیے گئے والدین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ "خرچ" یا "پرائیویسی" کے لیے "غیر موزوں" ہو گئے۔
ایک 78 سالہ شخص لاہور کی سڑک پر روتا ہوا ملا جسے بیٹے نے نکال دیا۔ کراچی کی ایک ماں، الزائمر کی مریضہ، ایدھی ہوم میں پڑی رہتی ہے اور دن رات بیٹوں کو یاد کرتی ہے۔ راولپنڈی کا ایک استاد، جو سینکڑوں بچوں کا استاد رہا، بڑھاپے میں فٹ پاتھ پر آ بیٹھا۔
ان مناظر کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں، انہیں محسوس کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔"
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص برباد ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔"
اسلام صرف عبادات کا دین نہیں، یہ تعلقات کا بھی دین ہے۔ اور سب سے پہلا تعلق — والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔
روزانہ اگر صرف پانچ منٹ بھی والدین کے ساتھ گزار لیے جائیں، ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے، ان کی بات سنی جائے — تو وہ دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے:
کیا ہماری مصروفیات، ہمارے والدین سے زیادہ قیمتی ہیں؟
کیا آج جو وقت بچا رہے ہیں، وہی کل ہمارے بچے ہمیں واپس دیں گے؟
یاد رکھیں، بڑھاپا وقت نہیں مانگتا — محبت مانگتا ہے، موجودگی مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے والدین کو وقت نہ دیا، تو کل ہم وقت کے سب سے بڑے قیدی ہوں گے — اور شاید ہمارے بچے بھی ہماری ہی مثال کو دہرا رہے ہوں گے۔

(یہ کالم "بڑھاپے" پر ایک اجتماعی اور ذاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسے ضرور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی ایک یاد دہانی سمجھا جائے، نہ کہ فقط ایک تحریر۔)

ہفتہ، 2 اگست، 2025

دولت کو راستہ دو




دولت کو راستہ دو

یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "پاکستان ایک غریب ملک ہے"، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے بلکہ ایسے باصلاحیت، جفاکش، اور ذہین لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ غربت نہیں، بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم، اس کا درست بہاؤ، اور امیروں سے نفرت کی وہ فضا ہے جس نے معاشرتی ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
پاکستان کے  ایک تحقیقی ادارے نے حال ہی میں ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں  35 خاندان ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔  ایوب دور کے 22 سرمایہ دار گھرانوں کے خلاف ایک بیان اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے دیا اور امارت کے غلاف نفرت کا پہلا بیج بویا جو اب تناور درخت بن چکا ہے  ہر امیر آدمی، بڑے گھر اور قیمتی گاڑی کو دیکھ کر ناظر کے زہن میں ایک ہی لفظ آتا ہے "چور"۔
اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کو کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کے خدام کی تعداد ہزاروں میں تھی اور ان کے جانوروں کے ریوڑ اتنے تھے کہ ان کے چرواہوں کی جماعتیں تشکیل دی گئی تھیں۔ حضرت یوسفؑ، جو مصر کے وزیر خزانہ بنے، نے نہ صرف سلطنت کی معیشت کو بچایا بلکہ خود بھی حکومتی دولت کے نگران بنے۔ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ ان کے پاس ہواؤں، جنات، پرندوں اور بے پناہ خزانوں کا کنٹرول تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابہ شامل تھے جنہوں نے اپنی دولت سے اسلام کو مستحکم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ایک موقع پر پورا لشکر تیار کر کے دیا، اور ان کے باغات مدینہ میں آج بھی موجود ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں دولت مند ہونے کو فخر یا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے 
"وَأَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم"
یعنی "اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا۔"
اس کا مطلب ہے کہ دولت ہو تو خرچ کرنے کا حکم ہے، رکھی نہ جائے۔
یورپ، امریکہ اور چین میں امیر افراد کو قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہاں کے امیر لوگ سادگی سے رہتے ہیں، مگر اپنی دولت کو کاروبار اور فلاح میں لگاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ داروں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ، یہاں 300، 700 یا 1200 کنال کے محلات میں صرف دو انسانوں اور تین کتوں کا قیام معاشرتی توازن بگاڑتا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
پاکستان میں وہ دماغ، وہ صلاحیت، وہ وژن موجود ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہاں اتنا سرمایہ موجود ہے کہ اگر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو یہی مقامی سرمایہ غیر ملکی سرمایہ کو مقناطیس کی طرح کھینچ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہنر اور مواقع دیے جائیں، تاکہ وہ  اپنی بلکہ اپنے خاندان کی حالت بدل سکیں۔ غریبوں کو نفرت کے بجائے امید دی جائے، محنت کے ذریعے خوشحال ہونے کا خواب دکھایا جائے، اور دولت مندوں کو تجوریوں میں سونے ڈالنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سال نئی پالیسیوں اور قوانین سے گریز کیا جائے۔ ایک طویل المدتی معاشی روڈ میپ تشکیل دیا جائے جو کم از کم 10 سال پر محیط ہو۔ یقین کریں، اگر ہم نے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے عمل کیا، تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں جذبے کی کمی نہیں، ہنر کی قلت نہیں، اور خواب دیکھنے والے آج بھی بے شمار ہیں۔
دولت برائی نہیں، اس کا غلط استعمال اور دکھاوا مسئلہ ہے۔ امیروں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں معاشرے کے محرک کے طور پر قبول کریں، اور غریبوں کو عزت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھائیں۔ یہی 
ترقی  کا فارمولا ہے۔
جہاں تک خواب دیکھنے کا تعلق ہے 
  ذولفقار علی بھٹو نے تیل سے لبریز ایک
ایک بوتل اپنے دفتر کے میز پر سجائی تھی، میاں نواز شریف کی تصاویر بھی موجود ہیں جس میں وہ دھات کا ایک راڈ اٹھائے ہوئے چنیوٹ کا ذکر کر رہے تھے ، عمران خان فرماتے تھے  کے پی کے میں پانی کے لیے  کنواں کھودا جائے تو پانی کی بجائے تیل نکل آتا ہے ۔ 
پاکستانی معجزے برپا کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف سرپرستی اور میدان عمل مہیا ہو جائے تو نتیجہ وہ خود نکال لیں گے ۔

جمعہ، 1 اگست، 2025

ایک تاریک محاذ





صیہونیت اور ہولوکاسٹ کی سیاست: 

برس ہا برس تک یورپ کے یہودی اپنے گھروں، چرچوں اور بازاروں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میں صیہونی تحریک نے اپنے پیش رووں کو یہ پیام دیا کہ “محفوظ رہنے کے لیے آپ کو ایک خود مختار ریاست چاہیے”۔ پھر آیا ہولوکاسٹ — وہ انسانیت سوز المیہ جس نے چھ لاکھ یہودیوں کی جانیں نگل لیں۔ کیا ہولوکاسٹ نے صیہونیت کو جواز بخشا؟ یا صیہونی حکمت عملی نے اس المیہ کو سیاسی ہتھیار میں بدل دیا؟
 ہولوکاسٹ: صیہونیت کے لیے نیا حجت نامہ؟

1933
 سے 1945 تک نازی جرمنی نے یہودیوں کو 
منظم
 طریقے سے قتل کیا۔ یروشلم کے عقیدے میں قیامت صفت واقعہ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ صیہونی رہنماؤں نے اس المیے کو “عالمی ہمدردی” کی ایک سونامی میں بدل دیا۔ بلاشبہ یہ المیہ خود ایک تاریخ کا بدترین باب تھا، لیکن اس کی سیاسی استحصال نے صیہونیت کو
اخلاقی جواز فراہم کیا — ’’ہمیں اپنا وطن چاہیے‘‘

مغربی طاقتوں کو اسرائیل کی حمایت پر آمادہ کیا گیا، جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین کی قرارداد 
(1947)۔
ہولوکاسٹ کے بعد دنیا نے 
“Never Again”
 کا نعرہ لگایا۔ مگر کیا واقعی “دوبارہ نہیں” کے وعدے کا مرکز صرف یہودی المیے کی تکرار سے حفاظت تھا؟ یا اس کا ایک مظلومیت کا بیانیہ تھا، جس سے وہ ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو فلسطینیوں کے خون سے مسرور تھی؟
جب مغربی ممالک نے یہودیوں کو محفوظ اڈا دینے کا وعدہ کیا، تو فلسطینیوں کو اندھا دھند بے دخل کیا گیا۔
“Never Again”
 کا نعرہ اقوامِ متحدہ میں قراردادوں تک محدود رہا، عمل نہیں سامنے آیا۔
آج کل یورپ اور امریکہ میں ہر میوزیم اور تعلیمی پروگرام میں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہ یادگاری
صیہونی سفارت کاری کے زیر اہتمام چلتی ہے۔
مدرسوں، یونیورسٹیوں، اور سرکاری اداروں میں “ہولوکاسٹ ایجوکیشن” کے نام سے ہرگزروسی ضد ہوتی ہے۔
اس تعلیمی دباؤ نے آزاد تحقیق کو محدود کیا اور صیہونی روایت کو مقدس بنا دیا۔
نتیجتاً ہولوکاسٹ نے  فراہم کر دیا، جس کے خلاف تنقید مذہبی توہین کہلائی جاتی ہے۔
 سیاسی ہتھیار: ہولوکاسٹ سے استثناء؟
صیہونی ریاست جب فلسطینیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے، تو عالمی سطح پر مخالفت تو ہوتی ہے مگر فوری “مزدوری” کا شور بلند نہیں ہوتا۔ کیونکہ:
زچیت میڈیا ہولوکاسٹ کا حوالہ دے کر اسرائیلی کارروائیوں کو “تسلیم شدہ دفاع” کا درجہ دے دیتا ہے۔
اور فلسطینیوں کی حالت “غیر متعلقہ داخلی معاملات” بن جاتی ہے۔
یورپی یونین میں اکثر قراردادیں تو پاس ہوتی ہیں، مگر فنڈز دینے اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ ہولوکاسٹ کا المیہ ایک مستقل “سیاسی استثناء” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
 حقائق پر پردہ، المیے کی سیاست
کیا یہ درست ہے کہ ہولوکاسٹ کے زخم ہمیشہ تازہ رکھے جائیں مگر فلسطینی سربریدہ المیے کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے؟ اس میں دوہرے معیار کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے:
یہودی حقوق کی عالمی مہم کو ہر فورم پر سرفہرست رکھا جاتا ہے؛
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندیاں لگتی ہیں یا انہیں دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک المیہ کو یاد رکھنا انسانی فریضہ ہے، مگر دوسرا المیہ صرف سفارتی مذاکرات اور “میدانِ جنگ” میں لٹکایا جاتا ہے۔
 سوالِ ضمیر: انسانیت یا سیاست؟
ہولوکاسٹ نے ہمیں انسانیت کی بقاء کا سبق دیا۔ مگر اس واقعے کی سیاست نے ہمیں یاد دلایا کہ:
“مظلومیت کا بیانیہ جتنا درست، اس کا سیاسی استعمال اتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے۔”
یہ وقت ہے کہ ہم پوچھیں:
کیا صیہونی لابی ہولوکاسٹ کو محض سیاسی شرط بندی کے لیے استعمال کر رہی ہے؟
کیا انسانی المیات کا استحصال انسانی اقدار کے منافی نہیں؟
اور آخر کار، کیا انسانی بہبود کو مقدم رکھ کر ایک منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟