وعدے کی اہمیت — فلم سے حقیقت تک
برصغیر میں بننے والی شہرۂ آفاق فلم "مغلِ اعظم" کا ایک منظر آج بھی مجھے ذہن میں تازہ ہے۔ بادشاہ محل کی ایک خادمہ کو انگوٹھی انعام میں دیتے ہوئے کہتا ہے:
"تم زندگی میں مجھ سے کچھ بھی مانگو، عطا کیا جائے گا، اگر ہم بھول جائیں تو یہ انگوٹھی ہمارے وعدے کی گواہ ہوگی۔"
وہ وعدہ بادشاہ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے، مگر اسے اپنے قول کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ یہ فلمی سین کوئی معمولی منظر نہیں، بلکہ اقتدار، تعلقات اور وعدے کی گہرائی کو خوبصورت انداز میں سمجھانے کی مثال ہے۔
اسی اصول پر اگر ہم اپنی زندگیوں، اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کو پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وعدے کی پاسداری صرف فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی عزت و وقار کی بنیاد ہے۔
وعدہ — دینِ اسلام کی روشنی میں
اسلام وعدے کو محض اخلاقی یا سماجی رویہ نہیں بلکہ دینی فریضہ قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"
(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"جس میں تین باتیں ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔"
(بخاری، حدیث نمبر: 33)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہمارے لیے سبق ہے۔ جب ان کی وفات قریب آئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق دیا گیا وعدہ یاد کیا اور فرمایا:
"میں نفاق کی علامت کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر نہیں ہونا چاہتا، لہٰذا میں وعدہ پورا کرتا ہوں۔"
صلح حدیبیہ — وعدے کی لازوال مثال
تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب صلح حدیبیہ ہے، جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ زخموں سے چور، بیڑیوں میں جکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مدینہ لے جانے کی درخواست کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات کی شدت کے باوجود معاہدے کی پابندی کی اور ابو جندل کو اہلِ مکہ کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وعدہ جذبات سے بڑا، تعلقات سے مقدم اور وقتی فائدے سے برتر ہے۔
وعدہ — صرف مذہبی یا سیاسی نہیں، روزمرہ زندگی کی ضرورت
بدقسمتی سے وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔ نکاح کارڈ پر وقت عصر کے بعد لکھا جاتا ہے، مگر بارات عشاء کے بعد آتی ہے۔ ولیمہ آٹھ بجے کا ہوتا ہے، لیکن کھانے کی ابتدا دس بجے ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے وعدوں کو توڑنا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے، اور یہی بے نظمی، بے وقت حاضری، اور بد اعتمادی کی جڑ ہے۔
معاشرتی زوال اور وعدہ خلافی
قوموں کی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا عمارتوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقیات، اعتماد اور قول کی پابندی سے ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے وعدہ توڑا، وہ ٹوٹ گئیں۔ وعدہ خلافی صرف فرد کی بدنامی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ساکھ کو برباد کر دیتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر آج بھی یہ الفاظ کندہ ہیں:
"محمد الرسول، صادق الوعد، الامین۔"
یہ الفاظ محض تعریفی القابات نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے عملی نصیحت ہیں کہ وعدہ نبھانا ایمان اور دین کا تقاضا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرمایا کرتے:
"جس میں امانت داری نہیں، اس کا ایمان نہیں، اور جس میں وعدے کی پابندی نہیں، اس کا دین نہیں۔"
(مشکوٰۃ المصابیح)
وعدے کی پاسداری، ترقی کی پہلی سیڑھی
معاشرتی مسائل، انتشار، بد اعتمادی، اور زوال کی اصل جڑ وعدہ خلافی ہے۔ جب ہم چھوٹے وعدے پورے کرنا سیکھیں گے، وقت کی پابندی اپنائیں گے، تعلقات میں سچائی اور معاہدوں میں سنجیدگی لائیں گے، تب ہی ہم ایک بہتر معاشرہ، ایک مضبوط قوم، اور دنیا میں باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔
قوم کی ترقی کا آغاز وعدوں کی پاسداری سے ہوتا ہے، اور زوال کی کہانی وعدہ خلافی سے لکھی جاتی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم قول کے سچے بن کر تاریخ کا روشن باب بننا چاہتے ہیں یا وعدہ خلافی کی تاریکی میں گم ہو جانا چاہتے ہیں۔