"کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟"
قرآنِ کریم انسان کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، اور اس میں ایسے اصول اور احکام بیان کیے گئے ہیں جو کسی خاص قوم یا دور کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر دور اور ہر قوم کے لیے یکساں ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 85 میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ"
"کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ تو جو لوگ تم میں ایسا کریں، ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟ اور قیامت کے دن ان کو سخت عذاب میں ڈال دیا جائے گا، اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔" (البقرہ 85)
بنی اسرائیل کی کوتاہیاں
یہ آیت خاص طور پر بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنقید کرتی ہے۔ بنی اسرائیل وہ قوم تھی جسے اللہ نے بے شمار انبیاء عطا فرمائے، آسمانی کتابیں دیں، معجزات دکھائے، اور دنیا میں عزت عطا کی۔ مگر اس قوم نے جب اللہ کے کچھ احکام کو مانا اور کچھ کو پسِ پشت ڈال دیا تو ان پر اللہ کی مدد موقوف ہو گئی۔ وہ حدوداللہ کی پابندی نہ کرتے، احکامِ تورات کو اپنی خواہشات کے تابع کر دیتے، اور صرف ان باتوں پر عمل کرتے جو ان کے مفاد میں ہوتیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ ہفتے کے دن شکار نہ کریں، تو انہوں نے حیلے بہانے تلاش کیے۔ جب جہاد کا حکم آیا تو بزدلی اور دنیا پرستی کا مظاہرہ کیا۔ انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ آئے، اور اللہ کی کتاب میں تحریف تک کر ڈالی۔
ان کی یہ روش بنی اسرائیل کے زوال کا سبب بنی۔ وہ جو کبھی "اللہ کے منتخب بندے" تھے، دنیا میں رسوائی کا نشان بن گئے، ان پر ذلت اور محکومی مسلط کر دی گئی، اور وہ زمین میں بکھر کر رہ گئے۔
مسلمانوں کی حالتِ زار
آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو بنی اسرائیل نے کیں۔ ہم نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے ظاہری اعمال پر تو زور دیتے ہیں لیکن دیانت، عدل، انصاف، جھوٹ سے اجتناب، ناپ تول میں انصاف، غیبت، بدگمانی، رشوت، ظلم، دھوکہ دہی، تکبر، اور ریاکاری جیسے گناہوں کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، ہم سنت کی بات کرتے ہیں مگر زندگی میں اسے نافذ کرنے سے گریزاں ہیں۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں دین الگ اور دنیا الگ کر دی گئی ہے۔ ہمارے سیاستدان اسلامی اقدار کی بات کرتے ہیں مگر عمل میں دنیا پرستی، کرپشن اور اقربا پروری غالب ہے۔ ہمارے تاجر "بسم اللہ" کہہ کر ترازو میں دو نمبری کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے پاس بے پناہ وسائل، تیل، گیس، افرادی قوت، اور قدرتی دولت ہونے کے باوجود وہ مغربی طاقتوں کے محتاج ہیں، اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ہم صرف وہی اسلامی احکام مانتے ہیں جو ہمارے مفاد میں ہوں، باقی کو یا تو فراموش کر دیتے ہیں یا نظرانداز۔
اللہ کی سنت: نہ بدلنے والی
اللہ تعالیٰ کی سنت نہ کبھی بنی اسرائیل کے لیے بدلی، نہ آج کے مسلمانوں کے لیے بدلے گی۔
"وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا"
"اور تم اللہ کی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔" (الاحزاب: 62)
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو، تو ہمیں پورے دین کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ عمل کی کتاب بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں اللہ کی رضا مقدم رکھنی ہوگی، نہ کہ اپنی خواہشات۔ امتِ مسلمہ کو دوبارہ عروج تب ہی ملے گا جب وہ دین کے ہر حکم کو دل سے تسلیم کرے گی اور عملاً نافذ کرے گی، خواہ وہ حکم اسے وقتی طور پر کٹھن ہی کیوں نہ لگے۔
سورہ البقرہ کی یہ آیت صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس قوم کے لیے ایک آئینہ ہے جو اللہ کی کتاب کے ساتھ دوہرا معیار رکھتی ہے۔ جب تک ہم اللہ کے احکام کو مکمل طور پر اختیار نہیں کرتے، ہمیں دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ملے گی اور آخرت میں بھی سخت عذاب کا سامنا ہو گا۔ اگر ہمیں اپنی حالت بدلنی ہے تو ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی۔
"اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔" (الرعد: 11)