اتوار، 3 اگست، 2025

بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے





 بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے

بڑھاپا زندگی کی سب سے سچی حقیقت ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں جسم کی توانائی، آنکھوں کی چمک، آواز کی روانی اور ذہن کی چستی پیچھے رہ جاتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان کا دل، بڑھاپے میں بھی، ویسا ہی حساس اور محبت کا طلبگار رہتا ہے جیسا بچپن میں ہوتا ہے۔
اس عمر میں سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے — وقت۔
نہ پیسہ، نہ دوائی، نہ آرام دہ بستر — فقط تھوڑا سا وقت، محبت بھرا لمس، اور چند لمحوں کی دلجوئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آج کی اولاد والدین کی اس محبت کی بھیک دینے پر بھی تیار نہیں۔ وہ ماں جس نے راتیں جاگ کر بچے پالے، وہ باپ جس نے اپنی خواہشیں مار کر بچوں کو سہولت دی — وہی ماں باپ آج ضعیفی کی دہلیز پر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باپ، ماں کے برعکس، سوال کا عادی نہیں ہوتا۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کو دباتا ہے، دکھ کو چھپاتا ہے، اور اولاد کی مصروفیت کا عذر خود بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کی ذاتی ضروریات پر نظر رکھے، ان میں کسی کمی کو محسوس کرے اور اس کی تلافی کرے۔
بڑھاپے میں والدین کی خدمت صرف خدمت نہیں، ان کی روح کی غذا ہے۔
ان کا ہاتھ تھامنا، ان کے چہرے کو چھونا، ان سے محبت سے بات کرنا — یہ سب انہیں توانائی دیتا ہے۔ یہ سادہ سے عمل انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے بچوں کی دنیا کا حصہ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بڑھاپے میں نظر انداز کیے گئے والدین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ "خرچ" یا "پرائیویسی" کے لیے "غیر موزوں" ہو گئے۔
ایک 78 سالہ شخص لاہور کی سڑک پر روتا ہوا ملا جسے بیٹے نے نکال دیا۔ کراچی کی ایک ماں، الزائمر کی مریضہ، ایدھی ہوم میں پڑی رہتی ہے اور دن رات بیٹوں کو یاد کرتی ہے۔ راولپنڈی کا ایک استاد، جو سینکڑوں بچوں کا استاد رہا، بڑھاپے میں فٹ پاتھ پر آ بیٹھا۔
ان مناظر کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں، انہیں محسوس کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔"
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص برباد ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔"
اسلام صرف عبادات کا دین نہیں، یہ تعلقات کا بھی دین ہے۔ اور سب سے پہلا تعلق — والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔
روزانہ اگر صرف پانچ منٹ بھی والدین کے ساتھ گزار لیے جائیں، ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے، ان کی بات سنی جائے — تو وہ دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے:
کیا ہماری مصروفیات، ہمارے والدین سے زیادہ قیمتی ہیں؟
کیا آج جو وقت بچا رہے ہیں، وہی کل ہمارے بچے ہمیں واپس دیں گے؟
یاد رکھیں، بڑھاپا وقت نہیں مانگتا — محبت مانگتا ہے، موجودگی مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے والدین کو وقت نہ دیا، تو کل ہم وقت کے سب سے بڑے قیدی ہوں گے — اور شاید ہمارے بچے بھی ہماری ہی مثال کو دہرا رہے ہوں گے۔

(یہ کالم "بڑھاپے" پر ایک اجتماعی اور ذاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسے ضرور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی ایک یاد دہانی سمجھا جائے، نہ کہ فقط ایک تحریر۔)

ہفتہ، 2 اگست، 2025

دولت کو راستہ دو




دولت کو راستہ دو

یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "پاکستان ایک غریب ملک ہے"، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے بلکہ ایسے باصلاحیت، جفاکش، اور ذہین لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ غربت نہیں، بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم، اس کا درست بہاؤ، اور امیروں سے نفرت کی وہ فضا ہے جس نے معاشرتی ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
پاکستان کے  ایک تحقیقی ادارے نے حال ہی میں ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں  35 خاندان ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔  ایوب دور کے 22 سرمایہ دار گھرانوں کے خلاف ایک بیان اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے دیا اور امارت کے غلاف نفرت کا پہلا بیج بویا جو اب تناور درخت بن چکا ہے  ہر امیر آدمی، بڑے گھر اور قیمتی گاڑی کو دیکھ کر ناظر کے زہن میں ایک ہی لفظ آتا ہے "چور"۔
اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کو کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کے خدام کی تعداد ہزاروں میں تھی اور ان کے جانوروں کے ریوڑ اتنے تھے کہ ان کے چرواہوں کی جماعتیں تشکیل دی گئی تھیں۔ حضرت یوسفؑ، جو مصر کے وزیر خزانہ بنے، نے نہ صرف سلطنت کی معیشت کو بچایا بلکہ خود بھی حکومتی دولت کے نگران بنے۔ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ ان کے پاس ہواؤں، جنات، پرندوں اور بے پناہ خزانوں کا کنٹرول تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابہ شامل تھے جنہوں نے اپنی دولت سے اسلام کو مستحکم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ایک موقع پر پورا لشکر تیار کر کے دیا، اور ان کے باغات مدینہ میں آج بھی موجود ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں دولت مند ہونے کو فخر یا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے 
"وَأَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم"
یعنی "اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا۔"
اس کا مطلب ہے کہ دولت ہو تو خرچ کرنے کا حکم ہے، رکھی نہ جائے۔
یورپ، امریکہ اور چین میں امیر افراد کو قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہاں کے امیر لوگ سادگی سے رہتے ہیں، مگر اپنی دولت کو کاروبار اور فلاح میں لگاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ داروں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ، یہاں 300، 700 یا 1200 کنال کے محلات میں صرف دو انسانوں اور تین کتوں کا قیام معاشرتی توازن بگاڑتا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
پاکستان میں وہ دماغ، وہ صلاحیت، وہ وژن موجود ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہاں اتنا سرمایہ موجود ہے کہ اگر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو یہی مقامی سرمایہ غیر ملکی سرمایہ کو مقناطیس کی طرح کھینچ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہنر اور مواقع دیے جائیں، تاکہ وہ  اپنی بلکہ اپنے خاندان کی حالت بدل سکیں۔ غریبوں کو نفرت کے بجائے امید دی جائے، محنت کے ذریعے خوشحال ہونے کا خواب دکھایا جائے، اور دولت مندوں کو تجوریوں میں سونے ڈالنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سال نئی پالیسیوں اور قوانین سے گریز کیا جائے۔ ایک طویل المدتی معاشی روڈ میپ تشکیل دیا جائے جو کم از کم 10 سال پر محیط ہو۔ یقین کریں، اگر ہم نے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے عمل کیا، تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں جذبے کی کمی نہیں، ہنر کی قلت نہیں، اور خواب دیکھنے والے آج بھی بے شمار ہیں۔
دولت برائی نہیں، اس کا غلط استعمال اور دکھاوا مسئلہ ہے۔ امیروں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں معاشرے کے محرک کے طور پر قبول کریں، اور غریبوں کو عزت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھائیں۔ یہی 
ترقی  کا فارمولا ہے۔
جہاں تک خواب دیکھنے کا تعلق ہے 
  ذولفقار علی بھٹو نے تیل سے لبریز ایک
ایک بوتل اپنے دفتر کے میز پر سجائی تھی، میاں نواز شریف کی تصاویر بھی موجود ہیں جس میں وہ دھات کا ایک راڈ اٹھائے ہوئے چنیوٹ کا ذکر کر رہے تھے ، عمران خان فرماتے تھے  کے پی کے میں پانی کے لیے  کنواں کھودا جائے تو پانی کی بجائے تیل نکل آتا ہے ۔ 
پاکستانی معجزے برپا کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف سرپرستی اور میدان عمل مہیا ہو جائے تو نتیجہ وہ خود نکال لیں گے ۔

جمعہ، 1 اگست، 2025

ایک تاریک محاذ





صیہونیت اور ہولوکاسٹ کی سیاست: 

برس ہا برس تک یورپ کے یہودی اپنے گھروں، چرچوں اور بازاروں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میں صیہونی تحریک نے اپنے پیش رووں کو یہ پیام دیا کہ “محفوظ رہنے کے لیے آپ کو ایک خود مختار ریاست چاہیے”۔ پھر آیا ہولوکاسٹ — وہ انسانیت سوز المیہ جس نے چھ لاکھ یہودیوں کی جانیں نگل لیں۔ کیا ہولوکاسٹ نے صیہونیت کو جواز بخشا؟ یا صیہونی حکمت عملی نے اس المیہ کو سیاسی ہتھیار میں بدل دیا؟
 ہولوکاسٹ: صیہونیت کے لیے نیا حجت نامہ؟

1933
 سے 1945 تک نازی جرمنی نے یہودیوں کو 
منظم
 طریقے سے قتل کیا۔ یروشلم کے عقیدے میں قیامت صفت واقعہ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ صیہونی رہنماؤں نے اس المیے کو “عالمی ہمدردی” کی ایک سونامی میں بدل دیا۔ بلاشبہ یہ المیہ خود ایک تاریخ کا بدترین باب تھا، لیکن اس کی سیاسی استحصال نے صیہونیت کو
اخلاقی جواز فراہم کیا — ’’ہمیں اپنا وطن چاہیے‘‘

مغربی طاقتوں کو اسرائیل کی حمایت پر آمادہ کیا گیا، جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین کی قرارداد 
(1947)۔
ہولوکاسٹ کے بعد دنیا نے 
“Never Again”
 کا نعرہ لگایا۔ مگر کیا واقعی “دوبارہ نہیں” کے وعدے کا مرکز صرف یہودی المیے کی تکرار سے حفاظت تھا؟ یا اس کا ایک مظلومیت کا بیانیہ تھا، جس سے وہ ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو فلسطینیوں کے خون سے مسرور تھی؟
جب مغربی ممالک نے یہودیوں کو محفوظ اڈا دینے کا وعدہ کیا، تو فلسطینیوں کو اندھا دھند بے دخل کیا گیا۔
“Never Again”
 کا نعرہ اقوامِ متحدہ میں قراردادوں تک محدود رہا، عمل نہیں سامنے آیا۔
آج کل یورپ اور امریکہ میں ہر میوزیم اور تعلیمی پروگرام میں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہ یادگاری
صیہونی سفارت کاری کے زیر اہتمام چلتی ہے۔
مدرسوں، یونیورسٹیوں، اور سرکاری اداروں میں “ہولوکاسٹ ایجوکیشن” کے نام سے ہرگزروسی ضد ہوتی ہے۔
اس تعلیمی دباؤ نے آزاد تحقیق کو محدود کیا اور صیہونی روایت کو مقدس بنا دیا۔
نتیجتاً ہولوکاسٹ نے  فراہم کر دیا، جس کے خلاف تنقید مذہبی توہین کہلائی جاتی ہے۔
 سیاسی ہتھیار: ہولوکاسٹ سے استثناء؟
صیہونی ریاست جب فلسطینیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے، تو عالمی سطح پر مخالفت تو ہوتی ہے مگر فوری “مزدوری” کا شور بلند نہیں ہوتا۔ کیونکہ:
زچیت میڈیا ہولوکاسٹ کا حوالہ دے کر اسرائیلی کارروائیوں کو “تسلیم شدہ دفاع” کا درجہ دے دیتا ہے۔
اور فلسطینیوں کی حالت “غیر متعلقہ داخلی معاملات” بن جاتی ہے۔
یورپی یونین میں اکثر قراردادیں تو پاس ہوتی ہیں، مگر فنڈز دینے اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ ہولوکاسٹ کا المیہ ایک مستقل “سیاسی استثناء” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
 حقائق پر پردہ، المیے کی سیاست
کیا یہ درست ہے کہ ہولوکاسٹ کے زخم ہمیشہ تازہ رکھے جائیں مگر فلسطینی سربریدہ المیے کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے؟ اس میں دوہرے معیار کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے:
یہودی حقوق کی عالمی مہم کو ہر فورم پر سرفہرست رکھا جاتا ہے؛
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندیاں لگتی ہیں یا انہیں دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک المیہ کو یاد رکھنا انسانی فریضہ ہے، مگر دوسرا المیہ صرف سفارتی مذاکرات اور “میدانِ جنگ” میں لٹکایا جاتا ہے۔
 سوالِ ضمیر: انسانیت یا سیاست؟
ہولوکاسٹ نے ہمیں انسانیت کی بقاء کا سبق دیا۔ مگر اس واقعے کی سیاست نے ہمیں یاد دلایا کہ:
“مظلومیت کا بیانیہ جتنا درست، اس کا سیاسی استعمال اتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے۔”
یہ وقت ہے کہ ہم پوچھیں:
کیا صیہونی لابی ہولوکاسٹ کو محض سیاسی شرط بندی کے لیے استعمال کر رہی ہے؟
کیا انسانی المیات کا استحصال انسانی اقدار کے منافی نہیں؟
اور آخر کار، کیا انسانی بہبود کو مقدم رکھ کر ایک منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟

تقسیم کے بیج



اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" حکمتِ عملی

"تقسیم کرو اور حکومت کرو" (Divide and Rule) کی پالیسی انسانی تاریخ میں نوآبادیاتی طاقتوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر طویل حکومت کی، جبکہ روم کے حکمرانوں نے یونانی ریاستوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر انہیں محکوم بنایا۔ تاہم، جدید دور میں اگر کسی ریاست نے اس پالیسی کو بڑی چالاکی اور تسلسل سے استعمال کیا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔

اسرائیل نے اپنے وجود کے بعد جس انداز میں مسلم دنیا میں قومیت، مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے بیج بوئے، وہ خالصتاً ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ مسلم دنیا متحد نہ ہو سکے۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے اُن اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے مسلم دنیا کو تقسیم کیے رکھا:
1۔ عرب و عجم اختلافات کو ہوا دینا

عرب و عجم اختلاف کا تاریخی پس منظر قدیم دور سے موجود رہا ہے، لیکن اسلام نے ان امتیازات کو مٹا دیا تھا۔ بدقسمتی سے جدید دور میں ان اختلافات کو ایک بار پھر اجاگر کیا گیا، خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی کے ذریعے۔

اسرائیل نے ان اختلافات کو اپنی بقا کا ذریعہ بنایا۔ ایران کے انقلابِ اسلامی کے بعد مغربی میڈیا نے اسے "شیعہ خطرہ" بنا کر پیش کیا، جس سے سنی عرب ریاستیں خوف زدہ ہوئیں۔ اسرائیل نے اس فرقہ وارانہ بیانیے کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر تقویت دی، تاکہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہیں۔
2۔ کرد ریاست کا تصور

کرد، مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی اپنی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں۔ اسرائیل نے کردوں کی آزادی کی تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے خفیہ طور پر عسکری امداد بھی فراہم کی۔ 1960 کی دہائی میں عراق کے کردوں کو موساد نے ٹریننگ دی اور ہتھیار فراہم کیے۔

2017 میں جب عراق کے کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروایا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر خیرمقدم کیا۔ اس کا مقصد واضح تھا: عراق جیسے مضبوط مسلم ملک کو کمزور کر کے اسے اندرونی طور پر تقسیم کرنا۔
3۔ سعودی-ایرانی اختلافات کو شدت دینا

اسرائیل کا سب سے بڑا فائدہ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تناؤ سے ہوا۔ جب بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں بہتری کا امکان پیدا ہوتا، اسرائیل یا اس کے حلیف کوئی ایسا واقعہ ترتیب دیتے جس سے کشیدگی دوبارہ بھڑک اٹھے۔

مثلاً 2016 میں ایرانی مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارتخانے پر حملہ ہو یا یمن جنگ، ان تمام واقعات میں اسرائیلی تھنک ٹینکس نے دونوں فریقوں کی سوچ کو مزید سخت بنانے میں کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ سعودی عرب اور ایران کا اتحاد خطے میں اسرائیلی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گا۔
4۔ دروز کمیونٹی کی اسرائیل نوازی

دروز ایک منفرد مذہبی کمیونٹی ہے جو لبنان، شام، اردن اور اسرائیل میں موجود ہے۔ اسرائیل نے دروز کو اپنے معاشرے میں ضم کر کے انہیں دیگر عرب اقلیتوں سے الگ رکھا، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج میں بھی دروز نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

اس حکمت عملی سے اسرائیل نے عرب اتحاد کے ایک اور ممکنہ دھارے کو الگ کر دیا، اور دروز کمیونٹی کو ایک مخصوص شناخت دے کر عرب مسلم قوم پرستی سے کاٹ دیا۔ دروز اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں بطور انٹیلی جنس ایجنٹس اور افسران بھی موجود ہیں۔
5۔ عرب دنیا میں چھوٹے چھوٹے تنازعات کو بڑھاوا دینا

اسرائیل نے نہ صرف سعودی-ایرانی یا کرد-عرب اختلافات کو بڑھایا بلکہ مصر-ترکی، شام-اردن اور لبنان-خلیجی ممالک کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اسرائیلی میڈیا اور تھنک ٹینکس ان تمام تنازعات میں بطور پروپیگنڈہ مشینری کام کرتے رہے۔
نتیجہ: امت کی وحدت کے خلاف ایک منظم مہم

اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" پالیسی نے صرف فلسطین پر قبضے کو قائم نہیں رکھا، بلکہ پورے خطے میں مسلم اتحاد کو ممکن نہ بننے دیا۔ قومیت، فرقہ، نسل اور زبان کے نام پر تقسیم شدہ مسلمان آج بھی اسرائیل کو ایک مشترکہ دشمن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

جب تک مسلم دنیا تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی اور اتحاد و شعور کی راہ اختیار نہیں کرتی، اسرائیل جیسی ریاستیں اپنے مفادات کے لیے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالتی رہیں گی۔

بنی اسرائیل کون تھے؟




بنی اسرائیل کون تھے؟

بنی اسرائیل کا مطلب ہے "حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد"۔ عربی میں "بنی" کا مطلب ہے "بیٹے" اور "اسرائیل" حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جس کا مطلب بعض روایات کے مطابق "اللہ کا بندہ" یا "اللہ کا مجاہد" لیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ قرآن و بائبل دونوں میں ان کا ذکر ہے اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی ابتدا اور تاریخی پس منظر:

بنی اسرائیل درحقیقت ایک قوم تھی جس کی شروعات حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہوئیں۔ انہی بارہ بیٹوں کی نسل آگے جا کر بارہ قبائل میں تقسیم ہوئی، جو مجموعی طور پر "بنی اسرائیل" کہلائے۔ یہ قوم سب سے پہلے شام، فلسطین اور مصر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔
مصر میں قیام اور غلامی:

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے، جہاں ابتدائی دور میں انہیں عزت ملی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ فرعونوں کے دور میں یہ قوم غلامی، مظالم اور ذلت کا شکار ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خروج مصر:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی اور رہائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ انہوں نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی اور انہیں مصر سے نکال کر وعدے کی سرزمین (فلسطین) کی طرف روانہ کیا۔ اس واقعے کو "Exodus" یا خروجِ مصر کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی خصوصیات اور ان کی غلطیاں:

بنی اسرائیل وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء، معجزات اور آسمانی کتابوں سے نوازا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات، ان کی آزمائشوں، ناشکری، انبیاء کی نافرمانی اور بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی کا تفصیلی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی میں سے تھے۔
کیا موجودہ دور کے یہودی بنی اسرائیل ہیں؟
نسلی اعتبار سے:

جی ہاں، موجودہ دور کے بہت سے یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سفاردی، اشکنازی اور مزراحی یہودی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں آباد ہیں اور اپنی جڑیں قدیم بنی اسرائیل سے جوڑتے ہیں۔

لیکن اس بارے میں کئی تاریخی، مذہبی اور سائنسی اختلافات بھی موجود ہیں:
1. خالص نسل کا دعویٰ مشکوک:

ہزاروں سالوں میں بنی اسرائیل کی نسل میں مختلف قوموں کی آمیزش ہوئی، غلاموں، نو مسلموں، شادیوں اور مختلف اقوام میں میل جول کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ تمام یہودی خالص بنی اسرائیل ہیں۔
2. خزر یہودیوں کا معاملہ:

تاریخی شواہد کے مطابق 8ویں صدی میں وسط ایشیا کی ایک قوم "خزر" نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، حالانکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ موجودہ دور کے مشرقی یورپ کے کئی اشکنازی یہودی انہی خزر قوم کی نسل سے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انہیں خالص بنی اسرائیل ماننا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
3. مذہب اور نسل کی تفریق:

یہودیت ایک مذہب بھی ہے اور نسل بھی۔ کچھ لوگ پیدائشی یہودی ہوتے ہیں (یعنی بنی اسرائیل کی نسل سے)، کچھ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبِ یہودیت قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہر یہودی کو نسلِ بنی اسرائیل سمجھنا درست نہیں۔
خلاصہ:

موجودہ دور کے بیشتر یہودی خود کو بنی اسرائیل کی اولاد سمجھتے ہیں اور مذہبی و تاریخی حوالوں سے اس پر فخر کرتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے ان کی نسل کی خالص حیثیت پر سوالات موجود ہیں۔ بعض یہودی حقیقی بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جبکہ بہت سے یہودی دیگر اقوام کی نسل سے ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہودیت قبول کی۔

اسلامی نقطہ نظر:
قرآن مجید بنی اسرائیل کو بطور قوم مخاطب کرتا ہے اور ان کے واقعات میں عبرت، ہدایت اور انتباہ کی نشانیاں بیان کرتا ہے۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی قوم کی اصل اہمیت تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر ہے، محض نسل یا حسب نسب کی بنیاد پر نہیں۔
نتیجہ:

نسلی اعتبار سے بنی اسرائیل کی موجودگی آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، مگر خالص نسل کی پہچان تاریخی اور سائنسی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ اصل کامیابی نسل میں نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اللہ کی رضا میں ہے، جو ہر انسان کے لیے کھلا راستہ ہے۔