پیر، 7 جولائی، 2025

بہشتی دروازہ



 بہشتی دروازہ 

 روایت کے مطابق یہ دروازہ سال میں مخصوص ایام میں کھولا جاتا ہے اور لاکھوں افراد اس دروازے سے گزرنے کے لیے دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ صدیوں سے یہ عقیدہ عام ہے کہ جو شخص اس دروازے سے گزر جائے، اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

یہ روایت، جو صوفی بزرگ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی نسبت سے منسوب ہے، برصغیر پاک و ہند کی صوفیانہ تاریخ اور عوامی عقائد میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دینِ اسلام میں اس نوعیت کی نجات اور مغفرت کی ایسی مخصوص 'زمینی علامت' یا 'مخصوص راستہ' کوئی شرعی بنیاد رکھتا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ایسی روایات اور عقائد کا مقام اور دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟

قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کی تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ، ندامت، اعمالِ صالحہ، حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ کی رحمت بنیادی ذرائع ہیں۔ سورہ زمر میں ارشاد ہے:
"اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف فرما دیتا ہے۔" (سورۃ الزمر: ۵۳)

یہ آیت ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مغفرت ایک ذاتی روحانی کیفیت اور رب کی بارگاہ میں انکساری کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی مخصوص دروازے یا علامت کے گزرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

بلاشبہ، روحانی مقامات، بزرگانِ دین کی نسبتیں، اور صوفی روایات ہمارے معاشرتی اور روحانی ورثے کا حصہ ہیں، لیکن جب ان روایات کو دین کے بنیادی اصولوں سے بلند کر کے لازمی عقائد یا بخشش کی یقینی ضمانت بنا دیا جاتا ہے تو یہاں سوالات جنم لیتے ہیں۔

مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس جیسے مقدس ترین مقامات کے دروازوں میں بھی ایسی کوئی روایت یا عقیدہ موجود نہیں کہ محض ان کے نیچے سے گزرنے سے گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر دنیا کے مقدس ترین مقامات پر ایسی سہولت موجود نہیں تو پھر صوفیانہ محبت اور عقیدت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی باتوں کو مذہب کے مسلمہ اصولوں کا درجہ دینا دین کی سادہ روح کے ساتھ ناانصافی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بہشتی دروازے پر ہر سال انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ ۲۰۲۱ میں پیش آنے والا سانحہ، جس میں ۲۷ افراد اپنی جان سے گئے، اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب عقیدہ، غیر ضروری ہجوم، اور حفاظتی تدابیر کی کمی یکجا ہو جائیں تو نتیجہ المیہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

سوال پھر وہی ہے کہ دین اور روایت میں توازن کہاں ہے؟ عقیدت اور عمل میں فرق کیسے واضح کیا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر، قوم کو کیسے یہ شعور دیا جائے کہ جنت کسی دروازے یا مخصوص رسم کا محتاج نہیں، بلکہ نیت، تقویٰ، حقوق العباد اور اللہ کی رضا کی طلب سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ بحث جذبات سے نہیں، شعور اور علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ عقیدت قابلِ احترام ہے، لیکن جب عقیدت عقل پر حاوی ہو جائے تو معاشرہ استحصال، جہالت اور اندھی تقلید کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔


منگل، 1 جولائی، 2025

زمین پر جنت کی نشانیاں


زمین پر جنت کی نشانیاں
دلپزیر احمد جنجوعہ

انسان ہمیشہ سے جنت کے تصور میں گم رہا ہے۔ کبھی اس کی جستجو میں، کبھی اس کی تمنا میں، اور کبھی اس کے خواب آنکھوں میں سجا کر۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جنت کی چند نشانیاں تو رب نے ہماری اس زمین پر بھی بھیج دی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انہیں پہچانیں اور ان کی قدر کریں۔

اسلامی روایات اور احادیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بعض چیزیں جنت سے اس زمین پر نازل کی گئیں، جو آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یہ چیزیں نہ صرف اللہ کی عظمت کی نشانیاں ہیں بلکہ ہمیں جنت کی یاد دلاتی ہیں اور اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ جنت کوئی خیالی تصور نہیں بلکہ ایک حقیقی مقام ہے۔

سب سے نمایاں نشانی حجرِ اسود ہے، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت کے مطابق، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حجرِ اسود جنت سے نازل ہوا تھا اور ابتدا میں وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، مگر انسانوں کے گناہوں نے اُسے کالا کر دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک پتھر پر انسان کے گناہوں کا اثر اتنا گہرا ہو سکتا ہے، تو انسان خود گناہوں میں ڈوبا ہو تو اس کی حالت کیا ہوگی؟

دوسری بڑی نشانی کھجور کا درخت ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے مسلمان کی مثال قرار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ کھجور حضرت آدمؑ کی مٹی کے بقیہ حصے سے پیدا ہوئی، جو جنت کی مٹی تھی۔ اس درخت کی پائیداری، برکت اور ہر موسم میں فائدہ دینا، سب کچھ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک سچا مومن بھی معاشرے میں اسی طرح فائدہ مند اور مستقل مزاج ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر آیا ہے، جو ساتویں آسمان پر موجود ہے۔ اگرچہ زمین پر موجود بیری کے درخت کو براہِ راست جنت سے نازل ہونے والی چیز کہنا درست نہیں، لیکن اس کی نسبت ضرور جنت کی اس عظیم الشان نشانی کی طرف کی جاتی ہے۔

اسی طرح دنیا میں موجود مشک کی خوشبو کو جنت کی خوشبو سے مشابہت دی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنتی انسانوں کا پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا۔ یوں دنیا کی یہ خوشبو جنت کی یاد دلاتی ہے۔

حضرت آدمؑ اور حضرت حواءؓ کی زمین پر آمد بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی اصل ابتدا جنت سے ہوئی۔ اگر انسان اپنی اصل کو نہ بھولے تو وہ زمین پر رہ کر بھی جنت کے حصول کی تیاری کرتا رہے گا۔

آبِ زمزم، جسے دنیا کا بہترین پانی قرار دیا گیا، جنت کا پانی تو نہیں لیکن اس کی برکت اور اس میں شفا کی خاصیت ہمیں جنت کی نعمتوں کی یاد دلاتی ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں جنت کے پھلوں — جیسے انار، کھجور، انگور — کا ذکر موجود ہے، اور ان پھلوں کی موجودگی زمین پر جنت کی یادگار ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان نشانیوں کے درمیان رہتے ہیں، مگر اکثر ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ حجرِ اسود کو دیکھ کر دل میں توبہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، کھجور کھاتے وقت ہمیں جنت کی تمنا یاد نہیں آتی، آبِ زمزم پیتے ہوئے شفا کا یقین کمزور ہو چکا ہے۔

یہ کائنات رب کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے، بس آنکھِ بینا کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں اور نشانیوں کی قدر کریں، ان سے سبق لیں، تو زمین پر رہتے ہوئے جنت کا راستہ ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔

 اختتام اس دعا کے ساتھ
اللہ ہمیں جنت کی ان نشانیوں کو پہچاننے، ان کی قدر کرنے اور جنت کے حقیقی حقدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


بھارت کا منافقانہ کردار




 بھارت کا منافقانہ کردار

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایک طرف بھارت دنیا میں جمہوریت، ترقی اور ٹیکنالوجی کے دعوے کرتا ہے، دوسری طرف اسی بھارت کی خفیہ سرگرمیاں بتدریج خطے کے امن اور ہمسایہ ممالک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایران اور پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جس خفیہ نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے، اس نے بھارت کے اس منافقانہ چہرے کو مزید واضح کر دیا ہے، جو برسوں سے پردے کے پیچھے رہ کر سازشوں کے تانے بانے بنتا آ رہا ہے۔

خبر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر کم از کم دو سو اسٹار لنک ریسیورز خلیجِ عمان کے راستے ایران میں اسمگل کیے۔ یہ ریسیورز تہران جیسے مرکزی شہروں کی بجائے ساحلی علاقوں اور صوبہ سیستان-و-بلوچستان کے دور دراز قصبات میں نصب کیے گئے، جہاں موساد کے بدنام زمانہ سائبر یونٹ 8200 کی مکمل تکنیکی معاونت موجود تھی۔

ان ریسیورز کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ایک محفوظ وی پی این ٹنل کے ذریعے اسرائیلی گراؤنڈ اسٹیشنز سے منسلک تھے، جس کی بدولت ایرانی ائیر ڈیفنس اور سرکاری کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی حقیقی وقت میں نگرانی ممکن ہو گئی۔ گویا ایک غیر علانیہ جنگ کا میدان، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی آڑ میں ایران کے اندر کھول دیا گیا۔

صورتحال اس وقت مزید سنجیدہ ہو گئی جب ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بلوچستان سے متصل ایرانی علاقے سراوان میں چھاپہ مار کر ایک خفیہ کمانڈ نوڈ سے پانچ ریسیورز برآمد کیے۔ یہ صرف ایرانی سلامتی پر حملہ نہیں تھا، بلکہ ان ریسیورز سے پاکستان کے جنوب مغربی سرحدی علاقوں کے سگنل لاگز بھی برآمد ہوئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب تہران نے اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی کے سپرد کیا اور محض 48 گھنٹوں کے اندر اندر اسٹار لنک پر مکمل پابندی لگا دی گئی، جبکہ ریسیور رکھنے کو سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔

مشترکہ فرانزک تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہی نیٹ ورک بلوچ شدت پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے درمیان خفیہ رابطوں کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ تربت، آواران اور پنجگور کے پہاڑی کیمپوں سے برآمد ہونے والے شواہد نے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر دیا۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تفتان اور زاہدان کے درمیان چلنے والی مسافر کوچ سروس کو بھی اس اسمگلنگ میں استعمال کیا جا رہا تھا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے نوجوانوں کو ’ٹیک سپورٹ‘ کے نام پر اس سازش میں گھسیٹا گیا۔ انہیں ریسیورز کی تنصیب کے دوران مترجم اور مقامی گائیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا، بدلے میں انہیں آن لائن پروپیگنڈہ مہم چلانے کے لیے جدید لیپ ٹاپ، بٹ کوائن والیٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی گئیں۔

کراچی میں گرفتار ہونے والے BYC میڈیا ونگ کے دو کارکنان نے اعتراف کیا کہ وہ انہی انکرپٹڈ وِز اکاؤنٹس کو چلاتے رہے، جن سے بی ایل اے کے حملوں کی ذمہ داری لی جاتی تھی۔ یوں یہ سازش صرف ایران تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان کے حساس علاقوں میں بھی اس کا جال بچھا دیا گیا۔

تحقیقات نے ایک اور خطرناک پہلو کو بھی بے نقاب کیا۔ بھارتی ریاست گجرات کے کنڈلا پورٹ سے ان ریسیورز کو ’ڈپلومیٹک کارگو‘ کے جعلی ٹیگ کے تحت روانہ کیا گیا، پھر عمان میں راس الحد کے نجی گودام میں دوبارہ پیکنگ کی گئی اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ایرانی ساحل تک پہنچایا گیا۔ ہر کھیپ کے ساتھ ایک مخصوص اپڈیٹ فائل آتی تھی، جس پر اسرائیلی یونٹ 8200 کے کوانٹم سائنچر ثبت ہوتے تھے۔

ایران نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے ملک بھر میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن ریگولیٹری فریم ورک کا ازسرِنو جائزہ لیا اور سیستان-و-بلوچستان میں فائبر آپٹک لنکس پر ریئل ٹائم ڈیپ پیکٹ انسپیکشن نافذ کر دی گئی۔ پاکستان نے بھی خضدار اور گوادر میں اسپیکٹرم مانیٹرنگ اسٹیشنز کو اپ گریڈ کیا، جن کی نگرانی کی صلاحیت اب دو سو کلومیٹر تک بڑھا دی گئی ہے۔

سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے مشترکہ انٹیلیجنس ٹاسک فورس کی مدت 2027 تک بڑھا دی ہے۔ اس فورس کا مقصد سرحدی سائبر خطرات کا سدباب اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی مالیاتی رگوں کو کاٹنا ہے۔

دو سو اسٹار لنک ریسیورز کی کہانی محض ایک کھیپ کی برآمدگی نہیں بلکہ اس وسیع نیٹ ورک کا سراغ ہے جس کی جڑیں بھارتی ساحلوں سے جا ملتی ہیں اور کنٹرول اسرائیلی سائبر لیبز کے پاس ہے۔ یہ تمام حقائق بھارت کے اس دہرا معیار کو بے نقاب کرتے ہیں، جو ایک جانب دنیا میں خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور ٹیکنالوجی کا علمبردار ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور خودمختاری پر حملہ آور ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک  بھارت کے اس منافقانہ کردار پر سنجیدگی سے غور کرے۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور ہائبرڈ وار کے اس نئے دور میں خاموشی یا نظراندازی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ پاکستان اور ایران نے بروقت اقدامات کے ذریعے اس گٹھ جوڑ کی کمر ضرور توڑی ہے، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جب تک بھارت اور اسرائیل کی سازشوں کا ہر پہلو بے نقاب نہ کیا جائے، خطے کا امن خواب ہی رہے گا۔


پنجاب کو یہ جنگ لڑنا ہو گی





پنجاب کو پانی اور ماحول بچانے کی جنگ لڑنا ہو گی

پاکستان اس وقت پانی کی قلت کے خطرناک دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس چیخ چیخ کر متنبہ کر رہی ہیں، مگر ہمارے ایوان اور حکومتی حلقے شاید ابھی تک خوابِ غفلت میں ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز 
 کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں پانی کی قلت سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ 1947 میں ہمارے پاس فی کس 5,260 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، جو اب کم ہو کر محض 850 مکعب میٹر رہ گیا ہے — یہ وہ حد ہے جس کے نیچے اترنے کو عالمی زبان میں "آبی قحط" 
 کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہر سال تقریباً 30 ملین ایکڑ فٹ پانی، جو ہماری زمینوں کو زرخیز بنا سکتا تھا، سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ( وزارت آبی وسائل، پاکستان، 2022)۔
المیہ یہ ہے کہ تربیلا ڈیم کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہ کر سکے۔ کالا باغ ڈیم ہو یا بھاشا دیامر اور مہمند ڈیم — یہ سب سیاست، سستی اور وسائل کی کمی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ادھر بھارت، سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتا ہوا، چناب، جہلم اور دیگر دریاؤں پر 150 سے زائد ڈیم اور منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ 
، جب تک پاکستان خود پانی ذخیرہ نہیں کرے گا، دنیا میں کوئی طاقت ہمیں آبی تحفظ نہیں دے سکتی۔
یہ وقت ہے کہ پنجاب پہل کرے۔ محض بڑے ڈیموں پر انحصار کافی نہیں، ہمیں مقامی سطح پر انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس ضمن میں ایک سادہ مگر مؤثر تجویز سامنے ہے — پنجاب کے ہر گاؤں، ہر چک اور ہر ڈھوک میں ایک تالاب لازمی تعمیر کیا جائے۔
یہ تالاب نہ صرف بارشی پانی محفوظ کرے گا بلکہ:
 مقامی سطح پر زراعت کے لیے پانی میسر آئے گا۔
 زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی۔
 تالاب کے گرد شجرکاری سے ماحول بہتر ہو گا، درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔
 مقامی جنگلی حیات اور چرند پرند کیلئے پانی کی دستیابی ممکن ہو گی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس
 کی 2021 کی تحقیق کے مطابق اگر مقامی سطح پر تالاب اور چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تو مقامی معیشت میں 20 سے 30 فیصد بہتری آ سکتی ہے۔
چین، اسرائیل اور دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر بارشی پانی کا ایک ایک قطرہ محفوظ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے پہاڑی علاقوں، رود کوہیوں، چشموں اور برساتی نالوں پر اگر چھوٹے ذخائر اور تالاب بن جائیں تو ہم نہ صرف سیلابی تباہی روک سکتے ہیں بلکہ مقامی معیشت، ماحول اور زراعت کو بھی نئی زندگی دے سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ سیاستدانوں کی انا سے بالاتر ہو کر پانی کے مسئلے کو قومی ایجنڈا بنایا جائے۔ ہر گاؤں میں تالاب کی تعمیر کو بلدیاتی منصوبوں میں شامل کرنا ہوگا، بڑے آبی ذخائر پر کام تیز کرنا ہوگا اور عوام کو پانی کے تحفظ کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔
پانی کے بغیر نہ زراعت بچے گی، نہ صنعت، نہ زندگی — اور نہ ہی پاکستان۔

خود کو بہتر بنائیں

                              

جون 2025 کی ایران اسرائیل جنگ نے دنیا پر ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ کسی قوم کی اصل کمزوری اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی کمی، ٹیکنالوجی یا فوجی سازوسامان میں نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جڑیں اُس کی داخلی حالت میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس جنگ کے ابتدائی لمحات میں ہم نے دیکھا کہ ایران کو کئی نامور سائنس دانوں، فوجی جرنیلوں اور سیاسی رہنماؤں کی قربانی دینا پڑی۔ ابتدا میں دشمن کو ایران کی صفوں میں موجود غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی طور پر بکھرے عناصر نے فائدہ پہنچایا۔

لیکن حیرت انگیز طور پر ایران محض چند گھنٹوں میں سنبھل گیا، اپنی صفوں کو درست کیا، اور دنیا کو یہ سبق دے گیا کہ کوئی قوم ظاہری طور پر کتنی ہی مضبوط ہو، اگر اندرونی کمزوری موجود ہو تو دشمن اُس کا فائدہ اٹھا لیتا ہے، اور اگر اندرونی استقامت پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی۔
قرآنی اصول: تبدیلی ہمیشہ اندر سے شروع ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔''
(سورۃ الرعد: 11)

امام رازیؒ  لکھتے ہیں:
"قوموں کی عزت یا ذلت کا دارومدار ان کی ظاہری طاقت یا ساز و سامان پر نہیں بلکہ ان کی داخلی حالت، اخلاق اور نظریاتی یکجہتی پر ہے۔"

ایران کے داخلی مسائل، بے راہ رو افراد اور نظریاتی کمزوریوں نے دشمن کو موقع فراہم کیا، مگر جب قوم نے خود احتسابی کی اور اندرونی صفوں کو درست کیا، تب جا کر خارجی دشمن پر قابو پایا جا سکا۔ یہی اصول فرد، معاشرے اور ملک، سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی میں مثبت سوچ، روشن نگاہ اور دل میں خیر کا جذبہ داخلی استحکام کی بنیاد ہیں۔ نفسیات کے مشہور ماہر ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل اپنی شہرۂ آفاق کتاب
 "The Power of Positive Thinking"
 میں لکھتے ہیں:
"مثبت سوچ ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسان کو مایوسی، کمزوری اور شکست خوردگی سے نکال کر امید، طاقت اور کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس داخلی کیفیت کی اصلاح کو سب سے مقدم قرار دیا
''بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔''
(صحیح بخاری، حدیث: 6064)
یعنی انسان کی سوچ اور نیت اگر صاف ہو، تو اُس کی زندگی، تعلقات اور معاشرہ خود بخود بہتر ہو جاتا ہے۔


مشہور اسلامی مفکر علامہ ابن القیمؒ لکھتے ہیں:
"جو دل حسنِ ظن، خیرخواہی اور محبت کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں سکون اور کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے، کیونکہ اس میں نفرت، حسد اور بغض کی تاریکی باقی نہیں رہتی۔"
(مدارج السالکین، جلد 2، صفحہ 480)

ایران کی حالیہ جنگ کا یہی عملی سبق تھا کہ دشمن کی گولہ باری سے زیادہ نقصان غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی بکھراؤ نے پہنچایا۔ یہی اصول ہر فرد اور معاشرے پر لاگو ہوتا ہے۔ جب انسان اندر بدگمانی، نفرت اور حسد پیدا ہو جائے  تو وہ خود اپنے وجود کو کمزور کرتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ
 اپنی آنکھوں کو ان چیزوں پر مرکوز رکھے جو امید، روشنی اور مثبت سوچ پیدا کریں۔
 اپنے دل میں دوسروں کے لیے بھلائی، خیرخواہی اور محبت کے جذبات رکھے۔
 اپنی سوچ کو منفی پہلو، شکایت اور بدگمانی کی بجائے اصلاح، ہمدردی اور تعمیر کی طرف لے جائے۔
یہ وہ معرکہ ہے جو 
بیرونی معرکہ جیتنے سے پہلے اندرونی طور پر جیتنا لازم ہے

دنیا کی کوئی فوج، معاہدہ یا طاقت اس وقت تک کسی قوم کو محفوظ نہیں بنا سکتی جب تک اُس کے افراد اندر سے کمزور، منتشر اور بدظن ہوں۔