ہفتہ، 28 جون، 2025

آئینے کے سامنے

 




آئینے کے دونوں رُخ

تاریخ گواہ ہے کہ بعض شخصیات اپنی تنقید، تلخی اور تیزطراری کی بدولت منظرِ عام پر آتی ہیں۔  ان کا ہنر یہی ہے کہ وہ لفظوں کو نیزے کی طرح برتتے ہیں، جملوں کو تیر کی مانند چھوڑتے ہیں، اور طنز کو ایسی تلوار میں ڈھال دیتے ہیں جس کا زخم مدتوں تازہ رہتا ہے۔

ایسی ہی دو شخصیات کا تقابل سامنے آتا ہے—ایک وہ جو سیاست کے نام پر جیل میں بند ہے، دوسرا جو مزہب کی چمکتی تلوار سونت کر روایات کے خلاف نعرہ زن ہے ۔ دونوں ہی تنقید کر کے مشہور ہوئے۔ ایک نے کسی کو نہ بخشا، اور دوسرے کا انداز بھی وہی ہے: براہِ راست، بے لاگ اور بلا لحاظ۔

وہ خود پسند تھا، یہ بھی اپنی ذات میں محو ہے۔ وہ زبان کا دھنی تھا، فنِ تقریر کا ماہر، الفاظ کا جادوگر۔ یہ بھی خطابت میں کسی سے پیچھے نہیں، مگر دونوں کی زبان میں شیرینی کی جگہ کڑواہٹ ہے۔ نہ وہ مروّت کا قائل تھا، نہ یہ لحاظ برتنے کا عادی ہے۔

وہ پگڑیاں اچھالتا تھا، یہ روایات کو روندتا  ہے۔ اس کی زبان تیز تھی، اس کی بھی تلخ ہے۔ وہ باہر نکلتا تو اپنے جانثاروں کی معیت میں، نعرے بلند کرتا، ہجوم کو گرما دیتا۔ یہ البتہ مصلحت کی چادر اوڑھے، ایک فاصلے سے بولتا ہے، مگر وار اس کا بھی کم نہیں ہوتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں وہ سیاست دان ہوتے ہوئے مذہب کی چاشنی شامل کرتا تھا، وہیں یہ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا لگانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک نے مذہب کو سیاست میں برتا، دوسرے نے سیاست کو مذہب میں گوندھا۔ فرق صرف زاویے کا ہے، مرکز ایک ہی ہے — اثر و رسوخ۔

دونوں ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ وہ دانا کہلاتا تھا، یہ دانا بن بیٹھا ہے۔ مگر ایک فرق نمایاں ہے: وہ بات کر کے بھول جاتا، یہ بات کر کے یاد رکھتا ہے۔ وہ دل کا صاف تھا، چوٹ لگاتا اور آگے بڑھ جاتا؛ یہ دل میں گرہ باندھتا ہے، اور موقع پا کر گرہ کھول کر دکھاتا ہے۔

وہ نئی نسل کا ہیرو تھا، یہ بھی نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ وہ کینہ  پرور تھا،کبھی  کبھار کاٹھ کا الو بھی؛ یہ فراخ دل ہے، کشادہ ظرف، مگر چالاک اور بیدار مغز۔

اور شاید سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ اس سے اگر غلطی سرزد ہو بھی جاتی، تو وہ اُسے تسلیم کرنے کے بجائے دلیلوں کی پناہ لے لیتا۔ یہ اگرچہ غلطی کرتا ہے، مگر اسے سرِ عام تسلیم کرنے کا ظرف رکھتا ہے — یہی بات اُسے ایک قدم آگے کر دیتی ہے۔

یہ دونوں رُخ ہیں اُس آئینے کے جس میں سماج اپنی خواہشوں، محرومیوں اور امیدوں کو جھانک کر دیکھتا ہے۔  وقت بدلتا ہے، چہرے بدلتے ہیں، مگر مزاج وہی رہتا ہے — تلخ، تیکھا، اور پُراثر۔

آذربائیجان




آذربائیجان

دنیا کے سیاسی نقشے پر آذربائیجان ایک نسبتاً چھوٹا مگر تزویراتی اہمیت کا حامل ملک ہے، جو قفقاز کے پہاڑوں، بحیرہ کیسپین، ایران، روس، ترکی اور آرمینیا کے درمیان واقع ہے۔ اس جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے کئی طاقتوں کے درمیان پل اور میدانِ عمل بنا دیا ہے۔
اگرچہ آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی شیعہ ملک ہے، لیکن اس کے اسرائیل سے تعلقات حیرت انگیز طور پر گہرے، پائیدار اور اسٹریٹجک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان ایران کے ساتھ نرم رویہ اور مذہبی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ یہ دوہری پالیسی — ایک طرف اسرائیل کا قریبی دفاعی اتحادی، اور دوسری طرف ایران کا مذہبی و تہذیبی بھائی — خود ایک سیاسی معمّا بن چکی ہے۔
اس مضمون میں ہم اس گہرے تضاد، اس کے اسباب اور اس کے پس پردہ چلنے والے نظریات، مفادات اور تاریخی عوامل پر روشنی ڈالیں گے۔
آذربائیجان اسرائیل کا بھارت کے بعد دوسرا بڑا اسلحہ خریدار ملک ہے۔
دو ہزار سولہ سے دو ہزار تیئیس کے درمیان آذربائیجان نے اسرائیل سے دس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار، ڈرونز، سائبر ٹیکنالوجی اور میزائل سسٹم خریدے۔
اسرائیلی ہتھیاروں کی بدولت آذربائیجان نے دو ہزار بیس کی نگورنو-کاراباخ جنگ میں آرمینیا کو شکست دی۔
ایران کی سرحد پر واقع آذربائیجان اسرائیل کے لیے ایک انٹیلیجنس ہب ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے "موساد" یہاں سے ایران پر نظر رکھتے ہیں۔
کچھ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو آذربائیجان کی سرزمین سے ایران کے خلاف ڈرونز اور خفیہ آپریشن کی سہولت بھی ملی ہے۔
آذربائیجان اسرائیل کو خام تیل کا ایک اہم سپلائر ہے، جو اسرائیل کی مجموعی تیل ضرورت کا چالیس فیصد تک پورا کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان زرعی، طبی اور تکنیکی تعاون بھی موجود ہے۔
یہ بات بظاہر متضاد محسوس ہوتی ہے کہ ایک شیعہ اکثریتی ملک اسرائیل جیسے یہودی ریاست کے ساتھ اتنا قریبی تعاون رکھے۔ مگر آذربائیجان کی حکومت مذہبی کے بجائے سیکولر اور قوم پرست پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حکومت کی پالیسی واضح طور پر ایرانی طرز کے مذہبی نظام سے فاصلہ اختیار کرتی ہے۔
آذری قیادت "اسلامی انقلاب" کے پھیلاؤ کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، خاص طور پر ایران کی مذہبی اثر انگیزی کو۔
عوام مذہب سے جڑے ہوئے ہیں، مگر ریاست کا مزاج عملی مفاد پرستانہ ہے۔
ایران میں دو کروڑ سے تین کروڑ آذری نژاد لوگ بستے ہیں، جو ایرانی فوج، معیشت اور سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
ایران کے مذہبی مراکز، جیسے قم و مشہد، آذری عوام کی عقیدت کا مرکز ہیں۔
عاشورا، عزاداری، امام علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت دونوں قوموں میں مشترک ہے۔
ایران، آذربائیجان کو "صہیونی اتحادی" اور ترکی کے ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہے۔
آذربائیجان، ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ آرمینیا کا خفیہ حمایتی ہے۔
ایرانی رہنماؤں نے آذربائیجان کو کئی بار "غیراسلامی" پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایران اگرچہ آذربائیجان کی اسرائیل نواز پالیسی سے ناخوش ہے، مگر اس پر کھل کر حملہ نہیں کرتا کیونکہ ایران کے اندر آذری برادری بغاوت کا شکار ہو سکتی ہے۔
مذہبی جذبات کو سیاسی تنازعات سے الگ رکھنے کی مجبوری ہے۔
تو پھر آذربائیجان ایران کی حمایت کیوں کرتا ہے؟
یہ ایک انتہائی نازک توازن ہے۔ آذربائیجان ایران کے خلاف واضح جنگی پوزیشن نہیں لیتا تاکہ اپنی مذہبی شناخت اور اندرونی استحکام کو بچا سکے۔
شیعہ دنیا میں تنہا ہونے سے بچنے کے لیے ایران سے نرم لہجہ اختیار کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں ایران کے خلاف ووٹ سے گریز کرتا ہے تاکہ مسلمان دنیا میں امیج متوازن رہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فوجی و معاشی دائرہ میں محدود رکھتا ہے تاکہ مذہبی مخالفت نہ ابھرے۔
کیا مذہب مالی مفادات پر حاوی ہو سکتا ہے؟
یہ سوال ہر ملک کے اپنے قومی مفاد، عوامی مزاج، اور ریاستی نظریے پر منحصر ہوتا ہے۔
اگر حکومت سیکولر ہو اور ریاست کا مفاد مذہب سے بالا ہو تو مالی مفادات مقدم ٹھہرتے ہیں۔
اگر ریاست مذہبی نظریات پر قائم ہو، جیسے ایران، تو وہاں مذہب معاشی تعلقات کو روک بھی دیتا ہے (مثال کے طور پر ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، چاہے اسے نقصان ہی کیوں نہ ہو)۔
آذربائیجان کی مثال بتاتی ہے کہ مذہب عوام کا جذبہ ہو سکتا ہے، مگر فیصلہ کن قوت ریاستی مفاد ہوتا ہے۔
آذربائیجان اور اسرائیل کا رشتہ ایک خالص اسٹریٹجک شراکت داری ہے، جو دفاع، معیشت اور انٹیلیجنس پر قائم ہے۔ دوسری طرف، ایران کے ساتھ آذربائیجان کا رشتہ مذہبی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر نرم اور محتاط ہے۔
یہ تضاد ہمیں بتاتا ہے کہ آج کی دنیا میں دوستی کا پیمانہ نہ عقیدہ ہے، نہ دشمنی کا معیار مذہب — بلکہ اصل مرکز 'قومی مفاد' ہے۔
اسرائیل آذربائیجان کو ایک اتحادی سمجھتا ہے، مگر آذربائیجان ایران کو ایک مذہبی بھائی کے طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہی توازن اس کی سفارتی حکمت عملی کی جھلک ہے۔

اسرائیل کی نئی دھمکی

اسراہیل کی نئی دھمکی

دنیا میں جب جنگ چھڑتی ہے تو اصول، اخلاقیات اور عالمی قوانین سب خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اس وقت اسی صورتحال کا شکار ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خطے میں جاری کشیدگی نئے سنگین حقائق کو جنم دے رہی ہے۔ تازہ ترین اور حیران کن انکشاف اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے کیا ہے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران اسرائیل نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع کے مطابق، 13 جون سے 25 جون 2025 کے دوران جاری بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کی اولین ترجیح ایرانی قیادت کو کمزور کرنا اور فیصلہ کن وار کرنا تھا۔ کاتز نے کھلے الفاظ میں کہا کہ "اگر خامنہ ای ہمارے نشانے پر آ جاتے، تو ہم انہیں ختم کر دیتے۔" لیکن اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج اس وقت حیران رہ گئی جب خامنہ ای زیرِ زمین چلے گئے اور اپنے تمام اہم کمانڈرز اور مشیروں سے رابطے مکمل طور پر منقطع کر دیے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ قیادت نے کھلے عام تسلیم کیا کہ جنگ کے دوران ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ مغربی دنیا اور اسرائیل بظاہر "ریاستی قتل" کو مسترد کرتے ہیں، لیکن جب ان کے اپنے مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو تمام عالمی اصول اور اخلاقیات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

کاتز نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کو ایسی کارروائیوں کے لیے امریکہ یا کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت کرتا ہے تو اسرائیل کو "گرین سگنل" حاصل ہے کہ وہ دوبارہ کارروائی کرے۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں کہا جا رہا ہے جب امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو محض چند دن گزرے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے، دوسری جانب اس کے وزیرِ دفاع کھلے عام دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں۔

کاتز نے طنزیہ انداز میں خبردار کیا کہ خامنہ ای کو زیرِ زمین رہنے میں ہی بہتری ہے، جیسا کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ برسوں سے چھپ کر زندگی گزار رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ محض میزائلوں اور ڈرونز تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب قیادت کی سطح تک جا پہنچی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئندہ ایسی کوئی کارروائی کامیاب ہو جاتی ہے تو خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بگڑ جائے گا اور دنیا کو اس کے خوفناک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایران نے اس اعتراف پر باضابطہ ردِعمل نہیں دیا، لیکن بظاہر تہران خاموش رہ کر اس سازش کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشرقِ وسطیٰ کے دن مزید خطرناک اور غیر یقینی دکھائی دے رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور یورپی طاقتیں اس کھلے اعتراف پر کیا ردِعمل دیتی ہیں یا ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ لیکن اتنا طے ہے کہ جب ایک ریاست خود دوسرے ملک کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرے اور اس کا کھلے عام اعتراف بھی کرے تو عالمی امن صرف ایک دکھاوا بن کر رہ جاتا ہے

یادگار سال - 1979





کہتے ہیں بعض سال تاریخ میں صرف کیلنڈر بدلنے کے لیے نہیں آتے، وہ نسلوں کی قسمت اور قوموں کا مستقبل بدل دیتے ہیں۔ انیس سو اناسی (1979) بھی ایسا ہی سال تھا۔ اس سال مشرقِ وسطیٰ سے لے کر ایشیا تک زمین ہلی، تخت الٹے، معاہدے ہوئے، جنگوں کی بنیاد پڑی اور کئی ایسی چنگاریاں سلگیں جو آج دہائیوں بعد بھی شعلوں کی صورت میں بھڑک رہی ہیں۔

چند لمحے رک کر سوچیں، کیا آپ کو معلوم ہے 1979 میں ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، افغانستان پر دنیا کی سپر پاور سوویت یونین نے لشکر کشی کی، مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا، پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پڑی اور چین نے اپنی معیشت دنیا کے لیے کھول دی؟
جی ہاں، یہ سب ایک ہی سال میں ہوا اور یہی وہ واقعات ہیں جن کے اثرات آج بھی ہماری سیاست، معیشت اور سلامتی پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔
ایران کا انقلاب 
فروری 1979 میں ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا، بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا، امریکہ کا قریبی اتحادی ایران ہاتھ سے نکل گیا اور دنیا میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست اُبھری۔
کس کو فائدہ ہوا؟ ایران کی مذہبی قیادت کو۔ انہیں نہ صرف اقتدار ملا بلکہ شیعہ اسلام کو عالمی سطح پر ایک سیاسی طاقت کے طور پر منوانے کا موقع ملا۔
کس کو نقصان ہوا؟ امریکہ کو، جس کا مشرقِ وسطیٰ میں ایک مضبوط اتحادی کھو گیا۔ شاہ ایران کو، جنہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو، جنہیں ایران کے بڑھتے اثرات سے شدید خطرہ محسوس ہوا۔
افغان جہاد 
دسمبر 1979 میں سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ ان کے خیال میں یہ ایک چھوٹا سا فوجی آپریشن ہوگا، مگر یہ جنگ دس سال چلی اور سوویت یونین کی تباہی کی بنیاد بن گئی۔
فائدہ کس کو ہوا؟ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو، جنہوں نے بغیر براہِ راست لڑے سوویت یونین کو کمزور کیا۔ پاکستان کو وقتی طور پر فائدہ ہوا، عالمی امداد ملی، اسٹریٹجک اہمیت بڑھی۔
نقصان کس کا ہوا؟ افغان عوام کا، جن کا ملک برباد ہوا، لاکھوں مہاجر بنے، ہزاروں مارے گئے۔ خود پاکستان بھی مہاجرین، اسلحہ، منشیات اور شدت پسندی کی دلدل میں اتر گیا۔
مصر-اسرائیل معاہدہ 
مارچ 1979 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے نہ صرف اپنا مقبوضہ علاقہ واپس لیا بلکہ مغربی دنیا کی نظر میں خود کو "امن پسند" ثابت کیا۔
فائدہ کس کا؟ اسرائیل کا، جو عرب دنیا میں سفارتی تنہائی سے نکلا۔ امریکہ کا، جس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ثالثی اور طاقت دکھائی۔ مصر کو بھی سیاسی اور معاشی فوائد ملے۔
نقصان کس کا؟ فلسطینیوں کا، جنہیں عرب اتحاد کی کمزوری کی صورت میں تنہائی ملی۔ عرب دنیا مزید تقسیم ہو گئی۔
پاکستان میں اسلامائزیشن 
1979 ہی وہ سال تھا جب جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کا آغاز کیا۔ حدود آرڈیننس آئے، مدارس کا جال بچھا، افغان جہاد میں شمولیت نے پاکستان کی مذہبی اور سیاسی شناخت ہی بدل ڈالی۔
فائدہ کس کو ہوا؟ ضیاء حکومت کو، جو مذہب کی آڑ میں اپنی حکومت مضبوط کرتی رہی۔ مذہبی جماعتوں اور شدت پسند گروپوں کو، جو آگے چل کر خودمختار اور بااثر ہو گئے۔
نقصان کس کا ہوا؟ پاکستانی عوام کا، جنہیں انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کے تحفے میں ملا۔
چین کی معاشی اصلاحات 
1979 میں چین نے اپنی معیشت کے دروازے دنیا کے لیے کھول دیے۔ اس ایک فیصلے نے نہ صرف چین بلکہ پورے ایشیا میں معاشی توازن بدل دیا۔
فائدہ کس کا؟ چین کا، جو چند دہائیوں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ مغربی کمپنیوں کا، جنہیں سستی افرادی قوت ملی۔
نقصان کس کا؟ ایشیا میں روایتی صنعتی ممالک جیسے جاپان اور مغرب کے کچھ صنعتی شعبوں کا، جو چین کی مسابقت سے متاثر ہوئے۔

انیس سو اناسی کے بعد مشرق وسطیٰ میں انقلاب، جنگ، معاہدے اور پراکسی لڑائیاں بڑھتی گئیں۔
آج ایران اور اسرائیل  کی کشمکش، فلسطینیوں کی حالت، افغانستان کی بدحالی، پاکستان میں انتہاپسندی، چین کی معیشت اور عالمی سیاست کے کئی بحران اسی ایک سال کی پیداوار ہیں۔

جمعرات، 26 جون، 2025

نقاب اُتر چکے ہیں



نقاب اُتر چکے ہیں
دنیا دہائیوں سے جمہوریت، انسانی برابری، آزادیِ اظہار اور سچ کی مالا جپ رہی ہے۔ بڑے بڑے عالمی فورمز، اقوامِ متحدہ کی میٹنگز، بین الاقوامی سربراہ کانفرنسوں اور انسانی حقوق کے سیمینارز میں خوبصورت الفاظ کی برسات ہوتی ہے۔ مگر جب زمینی حقائق، تاریخی پس منظر اور موجودہ عالمی حالات کو کھول کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ نظام اب کسی ایماندار میزان کی طرح نہیں، بلکہ ایسا ترازو بن چکا ہے جس میں ایک پلڑے میں طاقت، مفادات اور منافقت کا بوجھ مسلسل ڈالا جاتا ہے، اور دوسرے پلڑے میں آزادیِ اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق کے الفاظ رکھ کرترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر دکھایا جاتا ہے 
آج اگر کوئی صحافی، کوئی لکھاری یا عام شہری اس منافقت پر سوال اٹھائے تو اس کے حصے میں دھمکیاں، الزامات یا خاموش موت آتی ہے۔ ہم سب نے سنا کہ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کا سربراہ ایک صحافی کے لیے کہتا ہے کہ "اسے کتے کی طرح رگید کر نکالو"۔ افسوس کی بات یہ نہیں کہ یہ الفاظ کہے گئے، افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا نے خاموشی سے یہ الفاظ سن بھی لیے اور نگل بھی لیے۔

ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک خودمختار ملک، جس نے بارہا اعلان کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا، اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو کھول کر دنیا کو دکھایا، معائنہ کاروں کو بلایا، رپورٹس پیش کیں، لیکن اس سب کے باوجود، طاقتوروں نے اس کے سائنسدانوں اور قیادت کو چن چن کر قتل کیا، پابندیاں لگائیں، اور دنیا کو باور کروایا کہ ایران عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کھڑا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس، جس نے کبھی کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنا گوارا نہیں کیا۔ اُس کی بستیوں کی توسیع، فلسطینی زمینوں پر قبضہ، معصوم بچوں کی شہادتیں، نسل کشی، سب کچھ کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، مگر نہ کوئی سوال، نہ کوئی مذمت۔ مغربی میڈیا اور عالمی طاقتیں صرف خاموش تماشائی نہیں، بلکہ اس ظلم کی سیاسی اور سفارتی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔

فلسطین کے علاوہ کشمیر کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کھلے عام کہہ چکی ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، مگر مغربی میڈیا کا کمال دیکھیے کہ وہ بھارت کو آج بھی "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" کہنے سے باز نہیں آتا، حالانکہ صحافت کی آزادی کا حال یہ ہے کہ بھارت پریس فریڈم انڈیکس میں 161ویں نمبر پر کھڑا ہے۔

ایران اور اسرائیل کی حالیہ کشیدگی میں بھی دوہرے معیار کا یہ کھیل کھل کر سامنے آ گیا۔ اسرائیل کے حملوں کو "دفاع" جبکہ ایران کی مزاحمت کو "جارحیت" بنا کر پیش کیا گیا، حالانکہ ایران نے جنگی حالات میں بھی میڈیا پر مکمل قدغن نہیں لگائی، عوام کو اظہارِ رائے کی محدود مگر واضح گنجائش دی، جو خود مغربی دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔

سچ یہ ہے کہ آزادیِ اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق کا کھیل صرف طاقتوروں کے مفادات تک محدود ہو چکا ہے۔ صحافیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، سچ لکھنے والوں کو قتل یا جیل میں ڈالا جا رہا ہے، مگر چونکہ یہ سب اُن ممالک میں ہو رہا ہے جو مغربی اتحادی ہیں، اس لیے دنیا کو نظر نہیں آتا۔