منگل، 3 جون، 2025

صبح نو ہے منتظر



"جھو   ٹ جو کل تک فخر سے چلتا تھا، اب سچ کے سامنے سر جھکانے لگا ہے — اور یہی آغاز ہے اصل آزادی کا۔"

بعض اوقات قومیں اندھیرے میں اتنا وقت گزار دیتی ہیں کہ روشنی کا تصور بھی خواب سا لگنے لگتا ہے۔ ہرسمت مایوسی، ہر طرف شور، اور ہر چہرے پر ایک سا سوال ہوا کرتا تھا 
ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب لفظ بکنے لگے تھے، جب سچ کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا، جب کردار کمزور اور نعرے طاقتور ہو چکے تھے۔ جب ہر طرف جھوٹ کا بازار گرم تھا، اور وہ لوگ جو سچ بولتے تھے، تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیے جاتے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل تھی، بقول ابن خلدون قوم خواب بیچنے والوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
زائچے تقدیر لکھ رہے تھے، درباری فقیہہ فتوے بیچ رہے تھے، اور شاعری طنز و تحقیر کی زبان بن چکی تھی۔
جب علم پسپا ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کا حسن، بازاری پن میں گم ہو چکا تھا۔

مگر… ہر اندھیری رات کا ایک سحر ہوتا ہے۔

ریاست نے اپنے زخم چھپانے کی بجائے زخموں کی مرہم پٹی کر رہی ہے ۔ جھوٹے خواب فروش، نجومی، جھوٹی پیشن گوئیوں میں الجھانے والےاور قصیدہ گو کم ہوتے جا رہے ہیں۔

آئینہ وہ آلہ ہے جو چہرے پر جمی گرد کا صاف دکھا دیتا ہے

ریاست نے اب آئینہ دیکھ لیا ہے۔
 اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ  دشمن کے خنجر تیز ہینجبکہ ، ہماری صفوں میں انتشار ہے۔ عوام نے حیرت سے محسوس کیا ہے کہ وہ ریاست جو تنقید کا نشاہ بنی ہوئی تھی جو سو رہی تھی نہ غافل تھی ۔ اس ادراک نے پاکستان  کے نوجوانوں میں وہ احساس زندہ کر دیا ہے 
جو مٹی میں دفن ہو چکا محسوس ہوتا تھا مگر اس  کی خوشبو اب پھر سے محسوس ہونے لگی ہے۔
جھوٹ جو کل تک سینہ تان کر چلتا تھا، اب نظریں چرا رہا ہے۔
علم پھر سے بولنے لگا ہے، اور وہ صدا جو کبھی دب گئی تھی، اب ہوا میں گونجنے لگی ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں ایک نئی صبح جنم لیتی ہے۔
یہ وہ موڑ ہے جہاں تاریخ نئے رخ پر مڑتی ہے۔
اور یہ وہ مرحلہ ہے جب قومیں فیصلہ کرتی ہیں — صرف زندہ رہنا ہے یا جینا ہے، سر اٹھا کر۔

ہمیں مان لینا ہوگا کہ ہم اندھیرے سے گزرے ہیں۔
مگر ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اب ہم اس سے نکل آئے ہیں۔
اب سچ پھر سے معتبر ہو رہا ہے۔
اب درباری کنارے لگائے جا رہے ہیں۔
اب قیادت صرف وعدے نہیں، سمت دکھا رہی ہے۔

یہ وقت ہے دعا کا نہیں، محنت کا۔
یہ وقت ہے گلہ نہیں، عمل کا۔
یہ وقت ہے قوم بننے کا — صرف ہجوم سے آگے بڑھ کر۔

ہماری امید کے چراغ کی لو

شاید دھیمی سی  ہو، مگر جل رہی ہے۔
اگر ہم سب نے اپنی سانسوں سے اسے ہوا دی…
تو صبح کی پہلی کرن صرف اُفق پر نہیں، دل میں بھی اترے گی۔


دو ریاستی حل: امن کی راہ یا ایک خواب؟


دو ریاستی حل: امن کی راہ یا ایک خواب؟

ایسا خطہ جہاں دہائیوں سے خونریزی، محاصرے اور وعدہ خلافیاں معمول بن چکی ہیں، وہاں دو ریاستی حل آج بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن کے لیے سب سے موزوں تصور سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس راہ پر چلنا اب تک ایک مشکل اور کٹھن سفر رہا ہے۔

اس تصور کی بنیاد 1947 میں پڑی، جب اقوام متحدہ نے برطانوی زیرانتظام فلسطین کو دو علیحدہ ریاستوں — ایک یہودی اور ایک عرب — میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ یہودی قیادت نے اسے قبول کرلیا، مگر عرب دنیا نے مسترد کر دیا۔ نتیجہ جنگ، نقل مکانی اور آج تک جاری رہنے والا تنازعہ نکلا۔

تب سے لے کر اب تک، ہر بڑی سفارتی کوشش — جیسے اوسلو معاہدے (1993) اور عرب امن منصوبہ (2002) — اسی خواب کی طرف لوٹتی ہے۔ لیکن یہ خواب ہمیشہ آباد کاری, سیکیورٹی کے خدشات اور قیادت کی ناکامیوں کے سبب حقیقت نہ بن سکا۔

2023 کے غزہ تنازع کے بعد، عالمی سطح پر دو ریاستی حل کے مطالبات میں شدت آئی ہے۔ اس تناظر میں فرانس اور سعودی عرب نے نمایاں سفارتی کردار ادا کیا ہے۔
فرانس کا نیا سفارتی اقدام

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کی تجویز دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دو ریاستی حل ہی فلسطینیوں کو انصاف اور اسرائیلیوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ فرانس نے غزہ کے لیے امداد میں اضافہ کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ اگر مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ فلسطین کو باقاعدہ ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کا فیصلہ کن مؤقف

سعودی عرب، جو 2002 کے عرب امن منصوبے کا بانی ہے، اس نے حالیہ دنوں میں واضح سفارتی پیغام دیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات چیت کے دوران، ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی سفارتی تعلق ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
طویل مگر ضروری سفر

امن کا نقشہ موجود ہے، مگر راستہ ابھی بھی سیاسی رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ پھر بھی اگر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو، اور سعودی عرب و فرانس جیسے ممالک سنجیدہ سفارتی کردار ادا کرتے رہیں، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دو ریاستی حل ایک خواب سے نکل کر حقیقت بن جائے۔


Kashmir in Crisis: Suppression, Silence, and the Shadow of War

Kashmir in Crisis: Suppression, Silence, and the Shadow of War

In the aftermath of a military setback against Pakistan, Indian forces have intensified their grip on Indian-administered Kashmir, launching what many observers call an undeclared siege. Thousands of Kashmiri youth have been rounded up. Homes have been torched, entire neighborhoods demolished, and disturbing reports suggest that girls and women have been taken to military camps. The valley, once described as the Switzerland of Asia, now resembles a war zone under lockdown.

No journalist is allowed to enter. The internet is a luxury permitted only to a few vetted individuals. What little information escapes the region paints a grim picture of systematic repression.

Then, on April 22, a brutal attack on a tourist site near Pahalgam claimed 26 lives. India immediately pointed fingers at Pakistan, alleging the involvement of a little-known militant group called The Resistance Front (TRF). The group, however, denied any role. The incident triggered another round of accusations and retaliation.

Within weeks, India struck targets across the Pakistani border, killing civilians, including women and children. Pakistan responded swiftly, targeting the military installations from which the initial missiles had been launched. Tensions soared as India deployed dozens of fighter jets, including the much-vaunted French-made Rafales. But in a dramatic counter, Pakistan reportedly shot down five Indian aircraft—three of them Rafales. A ceasefire was hastily negotiated by then-U.S. President Donald Trump at India’s request.

At the core of this bitter and recurring hostility lies Kashmir—a territory whose fate has remained unresolved since 1947.

Back then, the princely state of Jammu and Kashmir was given a choice: accede to India or Pakistan. Despite the region’s Muslim-majority population, its Hindu ruler, Maharaja Hari Singh, aligned with India. The decision, never accepted by  Kashmiris, they fought back and liberated the Area now called Azad Kashmir.

Today, Kashmir is divided. India administers the Kashmir Valley, Jammu, and Ladakh; Pakistan oversees Azad Jammu and Kashmir and Gilgit-Baltistan. China controls Aksai Chin and the Shaksgam Valley. Each stakeholder maintains its grip, but the people of Kashmir continue to suffer the consequences.

In August 2019, India revoked Article 370 and 35A, stripping Kashmir of its special constitutional status. This opened the door for demographic change: over 85,000 domicile certificates have reportedly been granted to non-Kashmiris—mainly retired Indian army personnel and Hindu settlers—stoking fears of engineered demographic shifts.

Elections in 2024 brought Omar Abdullah back into the political spotlight, but his government holds little actual power. Real authority remains with the Indian Army, and the façade of democracy has offered little relief to the people.

Human rights groups have consistently flagged violations in the region. Thousands of young Kashmiris are behind bars. Freedom of speech, religion, and assembly has been suppressed. Dissent is met with detentions; protest is criminalized. Even digital resistance is quashed—over 8,000 social media accounts were blocked in the wake of the Pahalgam attack, many belonging to journalists, activists, and ordinary citizens.

India continues to label Kashmiri resistance as terrorism, but on the ground, the narrative is far more complex. What is framed as national security is, to many Kashmiris, the erasure of their identity and voice.

The media, once a potential ally for truth, is now a tool of statecraft. News portals have been shut down or repurposed to echo the state’s perspective. Journalists who dare to report independently face harassment or arrest.

What happens in Kashmir is not just a regional dispute—it is a human tragedy unfolding in silence.

Until the world chooses to listen—and act—Kashmir will remain caged in conflict, its people paying the price for geopolitical games played far from their homes.


سمبڑیال کی گونج


عنوان: سمبڑیال کی گونج — مسلم لیگ کی فتح، پی ٹی آئی کی شکست اور سیاسی اتحاد کی نئی راہیں

پی پی 52 (سمبڑیال) میں مسلم لیگ (ن) کی حالیہ انتخابی کامیابی محض ایک حلقے کی فتح نہیں بلکہ پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس کامیابی کے اثرات نہ صرف مقامی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی ایک نئی صف بندی کے آثار ابھر رہے ہیں۔
مقامی اثرات: امیدوں کی تازگی
مسلم لیگ (ن) کی جیت سے حلقہ سمبڑیال کے عوام میں ایک نئی امید نے جنم لیا ہے۔ ترقیاتی کام، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے اب توقعات بڑھ چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صرف انتخاب جیتنے والی جماعت نہیں بلکہ عوامی خدمت میں بھی سنجیدہ ہے۔
تحریک انصاف: ایک خاموش دھچکا
پی ٹی آئی کے لیے یہ شکست غیر معمولی نقصان ہے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں کبھی پی ٹی آئی کا بیانیہ، کرپشن مخالف مہم اور تبدیلی کا نعرہ گونجتا تھا۔ اب نہ صرف ووٹر کی ترجیح بدلی ہے بلکہ پارٹی کے اندر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں:
کیا امیدوار کا انتخاب درست تھا؟
کیا تنظیمی ڈھانچہ فعال تھا؟
کیا عوامی رابطہ مہم کمزور رہی؟
پی ٹی آئی کو اگر یہ شکست محض وقتی سمجھ کر نظرانداز کیا گیا تو آئندہ انتخابات میں مزید جھٹکے برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔
اتحاد کی سیاست: ن لیگ کی جیت، پیپلز پارٹی کی ضرورت
سمبڑیال کی یہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف عوامی تائید بلکہ سیاسی اتحادوں میں سبقت دلا رہی ہے۔ پنجاب میں کمزور پڑتی پیپلز پارٹی اب ایک ایسے اتحادی کی تلاش میں ہے جو اسے قومی سطح پر دوبارہ مؤثر بننے میں مدد دے سکے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ممکنہ اتحاد اب پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب ہے۔
ن لیگ کے پاس زمینی اثر و رسوخ ہے،
جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں مضبوط گرفت اور وفاق میں کردار ادا کرنے کی خواہش۔
یہ کامیابی ن لیگ کو "سینئر پارٹنر" کے طور پر سامنے لاتی ہے، اور پیپلز پارٹی کے لیے اس اتحاد میں شراکت ناگزیر ہو جاتی ہے — خصوصاً پی ٹی آئی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں۔


نواز شریف کا تبصرہ


سمبڑیال کی فتح صرف ایک ایم پی اے کی سیٹ نہیں بلکہ پنجاب کی عوامی رائے کا ترجمان بنتی جا رہی ہے۔
یہ جیت بتاتی ہے کہ عوام اب کارکردگی کو نعروں پر ترجیح دے رہے ہیں، اور یہی پیغام اگلے انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔



اب فیصلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کرنا ہے کہ وہ اس عوامی پیغام کو کس حکمت عملی میں ڈھالتی ہیں — روایتی سیاسی لڑائیوں میں ضائع کر دیتی ہیں، یا تحریک انصاف کے خلاف ایک مضبوط، متحد اور سنجیدہ سیاسی بلاک تشکیل دیتی ہیں۔

روتشائلڈ (Rothchild) خاندان


 

روتشائلڈ خاندان: طاقت، سرمایہ اور ایک متنازعہ میراث

تعارف

روتشائلڈ خاندان دنیا کے اُن چند خاندانوں میں سے ہے جنہیں محض دولت کی علامت نہیں بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور حتیٰ کہ مذہب پر اثرانداز قوت سمجھا جاتا ہے۔ ان کا ذکر تاریخ کے کئی اہم موڑوں پر ملتا ہے—چاہے وہ یورپی بادشاہوں کی مالی معاونت ہو، جدید بینکاری نظام کی بنیاد ہو یا اسرائیل کے قیام میں کلیدی کردار۔ روتشائلڈ محض ایک خاندانی نام نہیں بلکہ ایک عالمی اثرورسوخ کی علامت ہے، جسے اکثر سازشی نظریات کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

روتشائلڈ خاندان کا آغاز 18ویں صدی کے آخر میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے ہوا، جہاں مایر ایمشیل روتشائلڈ نے اپنے پانچ بیٹوں کو یورپ کے مختلف شہروں—لندن، پیرس، ویانا، نیپلز اور خود فرینکفرٹ—میں بینکاری کے کاروبار کے لیے روانہ کیا۔ ہر بیٹے نے اپنے مقام پر دولت، اثرورسوخ اور تعلقات کا ایسا جال بچھایا کہ روتشائلڈ یورپ کے سب سے طاقتور خاندانوں میں شمار ہونے لگے۔

مایر ایمشیل روتشائلڈ کا مشہور قول آج بھی خاندان کی حکمت عملی کی ترجمانی کرتا ہے:

"مجھے پرواہ نہیں کہ قوم کا قانون کون بناتا ہے، جب تک کہ مجھے اس کے مالیات پر کنٹرول حاصل ہو۔"

بینکاری میں اجارہ داری

19ویں صدی میں روتشائلڈ خاندان نے یورپ کی بیشتر معیشتوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ انہوں نے نیپولین کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو قرض دیا، اور برطانوی حکومت کو فرانس کے خلاف مالی مدد فراہم کی۔ ان کی بینکنگ سلطنت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ انہیں "بادشاہوں کے بینکار" کہا جانے لگا۔

ان کے بنائے گئے جدید مالیاتی نظام، جس میں بانڈز اور قرضہ جات کی ساختی تقسیم شامل تھی، آج بھی بین الاقوامی معیشت کی بنیاد ہیں۔ کچھ محققین کے مطابق، انہوں نے مرکزی بینکنگ نظام اور بعد ازاں "فیڈرل ریزرو" کے قیام کی راہ ہموار کی۔

فیڈرل ریزرو اور جیکل آئس لینڈ

1910 میں امریکی ریاست جارجیا کے ساحل پر واقع جیکل آئس لینڈ پر بینکاری کے چند اہم شخصیات—روتشائلڈ، راک فیلر، مورگن، اور دیگر—نے ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا۔ یہاں ایک نجی بینکنگ نظام کا خاکہ تیار کیا گیا جسے 1913 میں "فیڈرل ریزرو" کے نام سے نافذ کیا گیا۔ اگرچہ بظاہر یہ ادارہ ایک ریاستی نظام لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے، جس پر کچھ ماہرین کے مطابق روتشائلڈز جیسے خاندانوں کا گہرا اثر ہے۔

سیاسی و مذہبی نظریات

روتشائلڈ خاندان کو محض مالیاتی دنیا میں طاقتور نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان کے سیاسی اور مذہبی رجحانات کو بھی مشکوک نظریات میں دیکھا جاتا ہے۔ ان پر صہیونی تحریکوں کی مالی معاونت کا الزام ہے، اور بعض محققین کے مطابق ان کا ہدف "نیو ورلڈ آرڈر" جیسے تصورات کی تکمیل ہے۔

یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ روتشائلڈز قدیم خفیہ علم، صوفیانہ عقائد، اور یہاں تک کہ قبل از بائبل شخصیات جیسے نمرود تک اپنی نسل کا سلسلہ جوڑتے ہیں۔ لارڈ جیکب روتشائلڈ کے ایک مبینہ قول کا حوالہ دیا جاتا ہے:

"ہمارا شجرہ نسب نمرود تک جاتا ہے۔"

اسرائیل کے قیام میں کردار

روتشائلڈ خاندان نے یہودی وطن کے قیام کے لیے فنڈنگ، زمین کی خریداری اور سیاسی حمایت کی۔ ان کی کوششوں کا ثمرہ "بالفور ڈیکلریشن" کی شکل میں سامنے آیا، جو 1917 میں لارڈ آرتھر بالفور نے لارڈ والٹر روتشائلڈ کو بھیجی۔ اس خط میں برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودی وطن کی حمایت کا اعلان کیا، جو بعد ازاں ریاستِ اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ بنا۔

خاندان کے مختلف افراد، جیسے ایڈمنڈ جیمز ڈی روتشائلڈ، نے فلسطین میں زمین خریدی، اسکول، اسپتال، اور زراعتی ادارے قائم کیے، اور زایونسٹ تحریک کی مالی مدد کی۔ تل ابیب کے روتشائلڈ بلیوارڈ اور اسرائیل کی کئی عمارتیں آج بھی اس تعلق کی نشانیاں ہیں۔

روتشائلڈ آئس لینڈ

انٹارکٹیکا کے مغربی کنارے پر واقع روتشائلڈ آئس لینڈ ایک برف سے ڈھکا ہوا غیر آباد جزیرہ ہے، جو تقریباً 39 کلومیٹر طویل ہے۔ اسے 1908 میں فرانسیسی مہم جو ژاں بپتست شارکو نے ایڈورڈ روتشائلڈ کے نام پر رکھا، جنہوں نے ان کی مہم کو مالی مدد فراہم کی۔

یہ جزیرہ سائنسی تحقیق کا مرکز رہا ہے، جہاں برفانی تبدیلیوں، موسم، اور پینگوئن کالونیوں پر تحقیق کی جاتی ہے۔ تاہم، انٹرنیٹ پر گردش کرنے والے کچھ سازشی نظریات میں اسے "خفیہ تجربات" یا "شیطانی رسومات" کی جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں نہ کوئی انسانی آبادی ہے، نہ فوجی اڈہ، اور نہ ہی کوئی تصدیق شدہ خفیہ سرگرمی۔

روتشائلڈ خاندان کے گرد گھومتی کہانیاں تاریخ، حقیقت، سازش اور عقیدے کا ایک پیچیدہ امتزاج ہیں۔ ان کا اثر اور دولت ناقابلِ تردید ہے، مگر ان سے منسوب کئی دعوے تصدیق طلب ہیں۔ روتشائلڈ آئس لینڈ جیسے نام اور جیکل آئس لینڈ جیسے واقعات اس پیچیدگی کو اور گہرا کرتے ہیں۔

آج، جب دنیا معلومات کی کثرت کے باوجود اعتماد کے بحران کا شکار ہے، روتشائلڈ جیسے خاندان نہ صرف ماضی کی قوت ہیں، بلکہ موجودہ دور کے سوالیہ نشان بھی۔