جمعہ، 9 مئی، 2025

چوتھا راونڈ



بھارت کی جانب سے پاکستان پر جارحیت کا آغاز ابتدائی مرحلے میں ہی شدید ناکامی کا شکار ہو چکا ہے۔ سفارتی، عسکری اور تکنیکی محاذوں پر بھارت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ پاکستان نے بھرپور دفاع اور تدبر سے اپنی پوزیشن مضبوط رکھی۔

پہلا راؤنڈ: سفارتی ناکامی

سفارتی میدان میں بھارت کو پہلی شکست اس وقت ہوئی جب عالمی برادری نے پاکستان پر لگائے گئے بھارتی الزامات کو شواہد کے بغیر مسترد کر دیا۔ بھارت نے بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، مگر اسے کسی بھی بڑی طاقت یا بین الاقوامی ادارے کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ نتیجتاً، سفارتی محاذ پر بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسرا راؤنڈ: فضائی محاذ پر ناکامی

دوسرے مرحلے میں بھارت نے75 جنگی طیارے پاکستان کی فضائی حدود کی جانب روانہ کیے، مگر پاکستان کی مؤثر دفاعی حکمت عملی نے نہ صرف حملہ ناکام بنایا بلکہ پانچ بھارتی جنگی جہاز تباہ بھی کر دیے۔
یہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جب دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں جنگی طیارے آمنے سامنے آئے — بھارت کے 75 اور پاکستان کے 40 طیارے، جو کہ اپنے اپنے علاقوں میں تھے۔ اس وقت پاکستان کی فضا میں 57 سویلین مسافر طیارے بھی موجود تھے، پاکستا نے ان کو بھی تحفط مہیا کیا۔
رافیل جیسے جدید اور قیمتی طیاروں کے نقصان نے بھارت کو سخت دھچکا دیا اور یہ مرحلہ بھی اس کے لیے ایک اور شکست بن گیا۔

تیسرا راؤنڈ: ڈرون حملے اور پاکستانی دفاع

تیسرے راؤنڈ کا آغاز بھارت نے اسرائیلی ساختہ 30 ڈرونز پاکستان کے شہروں کی طرف بھیج کر کیا۔ ان میں سے 29 ڈرونز کو پاکستانی دفاعی نظام نے کامیابی سے مار گرایا، صرف ایک ڈرون لاہور تک پہنچ سکا جس سے  نقصان ہوا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کے جدید دفاعی نظام بھی ڈرون حملوں کے سامنے اکثر بے بس دکھائی دیتے ہیں — چاہے وہ روس ہو یا امریکہ۔ لیکن پاکستان نے چینی مہارت کے ساتھ ان ڈرونز کو روک کر 95 فیصد کامیابی حاصل کی۔


تیزی سے بدلتی عالمی رائے

بھارت کے یہ اقدامات نہ صرف امریکی اور یورپی حلقوں کے لیے حیران کن ہیں، بلکہ ان کی اسٹریٹیجک سوچ پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ امریکہ جو بھارت کو چین کے خلاف اپنا شراکت دار سمجھ رہا تھا، اب سوچنے پر مجبور ہے: اگر بھارت پاکستان جیسے نسبتاً محدود دفاعی وسائل والے ملک کا سامنا نہیں کر پا رہا، تو چین جیسے عالمی طاقت سے کیسے نمٹے گا؟

بھارتی جنرل بخشی کا ترکی پر قبضے کا غیر سنجیدہ دعویٰ مغرب اور عرب دنیا کے لیے مزید تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ سب کو 2019 کا وہ جھوٹا دعویٰ یاد آ گیا جب بھارت نے پاکستان کے ایف-16 کو گرانے کا دعویٰ کیا تھا، جو بعد ازاں امریکی دفاعی اداروں نے فیک نیوز قرار دیا۔

امریکی دفاعی بھارت کے اس جھوتے دعوے پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس نے پاکستان کا ایک ایف--16 اور دو جے-17 تھنڈر طیارے مار گرائے ہیں ۔ بھارت سے سنجیدہ سوال کیا جارہا ہے کہ یہ طیارے کس نے اور کہاں گرائے ہیں اور اس کی باقیات کہاں ہیں ۔ 

چوتھے راؤنڈ کی جھلک

جنگ کا چوتھا راؤنڈ اُس وقت شروع ہو گا جب پاکستان ان حملوں کا جواب دے گا، جن میں بھارتی میزائلوں  نے پاکستانی شہروں کو نشانہ بنایا اور بے گناہ شہریوں کی جانیں لیں۔

بھارت نے پاکستان پر 22 اپریل کے واقعہ میں ملوث ہونے کے اعلان کے 15 دنوں بعد پاکستان پر فضائی دہشت گردی کی تھی ۔ پاکستان نے اپنی چوائس   کے وقت اور جگہ پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اعلان کیا ہےاکہ یہ حملہ کیا جائے گا تو دنیا کو نظر بھی ائے گا اور اس کی گونج بھی سنائی دے گی 

مودی کے ناکم حکمت عملی

بھارت کے اندر مودی سرکار سےعوام پوچھ رہی ہے ۔ پہلاگام پر حملہ کرے والے ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے ، دوسری طرف

بھارت کے وزیر خارجہ سعودیہ ، یو اے ای، قطر، برطانیہ  کے وزرا خارجہ کو فون کرتا ہے کہ ۔ ہم نے اپنے عوام کا غسہ ٹھنڈا کر دیا ہے اب پاکستان کو کسی بھی طرح روکیں 

پاکستان کا موقف دو ٹوک ہے کہ اس کے لیے بھارت کو 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جانا ہوگا، سندھ طاس معاہدے  نکل جاے کا اعلان واپس لینا ہو گا اور مستقبل میں ضمابت دے گا کہ وہ کشمیر میں یا بھارت ہونے والے ہر واقعے کا الزام پاکستان پر نہیں لگائے گا ، اور اپنی انتخابی سیاست کو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گا،

چوتھا راونڈ

پاکستان بیت سنجیدگی سے بھارت کے رد عمل کو دیکھ رہا ہے ۔ اور اپنا یہ حق محفوظ کیے ہوئے ہے کہ اپنی مرضی کی ٹارگٹ چن کر ، اپنی سولت کا وقت دیکھ کر ، اپنی طے شدہ طاقت سے جواب دے گا ، جس دن پاکستان نے یہ کر دیا وہ چوٹھا راوبد ہو گا ، اور بھارت کے لیے انہائی تباہ کن ہو گا 
یہ صرف بھارت کے بیانات پر نہیں بلکہ اس کے حقیقی اقدامات پر منحصر ہے۔ اگر بھارت کشیدگی کم کرنے میں سنجیدہ نہ ہوا، تو خطہ ایک نئے اور ممکنہ طور پر تباہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔


جمعرات، 8 مئی، 2025

ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟



 ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟

ہیروپ اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی) کی جانب سے تیار کردہ ’ہیروپ ڈرون‘ کو ’خودکش ڈرون‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ریموٹ پائلٹ فضائی گاڑی ہے جو مختلف اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔
ہیروپ ڈرون اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے الیکٹرو آپٹیکل سینسراستعمال کرتا ہے اور اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ٹرکوں اور بحری جہازوں سمیت مختلف پلیٹ فارمز سے لانچ کیا جاسکتا ہے۔
ہیروپ ڈرون کی ایک اور خاص بات یہ اپنے اہداف کی تلاش میں 6 سے 9 گھنٹوں تک مسلسل پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ کسی بھی سمت میں مڑنے کی صلاحیت کے ساتھ حملہ کرسکتا ہے۔
اہم خصوصیات
لوئٹرنگ کی صلاحیت، ہیروپ ڈرون میدان جنگ کے اوپر منڈلا سکتے ہیں، کئی گھنٹوں تک اہداف کو نشانہ بنانے کا انتظار کر سکتے ہیں اور آپریٹر کے ذریعے حملہ کر سکتے ہیں.
سینسر ٹو شوٹر سسٹم، الیکٹرو آپٹیکل کیمروں سے لیس، یہ ڈرون کمانڈ اینڈ کنٹرول اسٹیشن کو اصل وقت کی تصاویر فراہم کرتے ہیں۔
ماڈلز کی اقسام، یو ویژن کی ہیرو سیریز میں مختلف ماڈل شامل ہیں، جیسا کہ
ہیرو20: یہ ڈرون مین پورٹیبل، شارٹ رینج ٹیکٹیکل لوئٹرنگ سسٹم سے لیس ہوتا ہے
ہیرو30: یہ ڈرون مین پورٹیبل، مختصر فاصلے تک مار کرنے والا گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے
ہیرو120: اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے درمیانی رینج کا لوئٹرنگ سسٹم ہے
ہیرو250 اور ہیرو400: اسٹریٹجک اہداف کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے دھماکا خیز مواد لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔
آئی اے آئی ہیروپ ، آئی اے آئی کی طرف سے تیار کردہ ایک ایسا ڈرون ہے جو گولہ بارود کے ساتھ دشمن کے فضائی دفاع کو دبانے اور ریڈار سسٹم کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے. یہ 6 سے 9 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے اور اس کی رینج 200 کلومیٹرتک ہے
ہیروپ کو ناگورنو کاراباخ تنازع میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا، جس نے مشکل آپریٹنگ حالات میں فوجی خطرات کو دور کرنے میں زبردست مدد کی۔
شام کے فضائی دفاع میں ہیروپ ڈرونز کو 2018 میں شامی ایئر ڈیفنس ایس اے-22 گرے ہاؤنڈ سسٹم کو تباہ کرنے میں استعمال کیا گیا۔
مین ان دی لوپ کنٹرول
ہیروپ ڈرون کو ایک ریموٹ مشن آپریٹر کے ذریعہ چلایا جاتا ہے جو طیارے کے الیکٹرو آپٹیکل سینسر کے ذریعہ اپنے ہدف کو معلوم کرتے ہوئے نشانہ بناتا ہے، نشانہ بناتے وقت اس کا ہدف چاہے حرکت میں ہو یا ساکت ہو یہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
درست ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت
ہیروپ ڈرون اپنے الیکٹرو آپٹیکل سیکر کو اہداف کا پتہ لگانے اور اس کی شناخت کرنے اور پھر اپنے ہدف پر حملہ کرنے کے لیے راستے کی منصوبہ بندی کرنے اور پھر اسے ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے میں استعمال کرتا ہے۔
کثیر المقاصد اسٹرائیک ہتھیار
ہیروپ ڈرون کو وسیع پیمانے پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے اہداف میں فوجی گاڑیاں، بنیادی ڈھانچہ، انسان، بلڈنگز کو دیگر انسٹالیشن ہو سکتی ہیں۔
ہارپی سے ہیروپ میں تبدیلی
ہارپ ہارپی ٹیکنالوجی کی جدید شکل ہے، ہارپی ایک سابقہ گولہ بارود لے جانے والی گاڑی تھی، اب ہارپی کے ذریعہ استعمال ہونے والے آر ایف سیکر کے بجائے الیکٹرو آپٹیکل سینسر شامل ہے۔ ہیروپ کو ہدف کی شناخت اور حملے کی درستگی کو بہتر بنانے کے لیے ملٹی سینسر سسٹم میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
copied n transated

سندور

 



 ہندوستان نے صدیوں تک بیرونی حملہ آوروں کا سامنا کیا۔ ان حملہ آوروں میں پٹھان، ترک، اور دیگر وسطی ایشیائی اقوام شامل تھیں، جنہوں نے نہ صرف زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ مقامی آبادی کی عزت و آبرو کو بھی روند ڈالا۔ ان حملہ آوروں کے لشکروں کا ایک معمول بن چکا تھا کہ وہ مقامی خواتین، خصوصاً نوجوان اور خوبصورت عورتوں کو قیدی بناتے، اپنے ساتھ لے جاتے ۔

ان حالات میں ہندو معاشرہ نہایت اضطراب کا شکار ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان خاندانی نظام کو پہنچا، کیونکہ شادی شدہ عورتوں کو بھی ان حملوں سے استثنا نہ تھا۔ شوہر زندہ ہونے کے باوجود بیویوں کو اغوا کر لینا، ایک اخلاقی، مذہبی، اور معاشرتی بحران کی صورت اختیار کر چکا تھا۔درخواست اور مشورہ

روایت کے مطابق، اس ظلم سے تنگ آکر ہندو برادری کے معززین نے ان حملہ آوروں سے درخواست کی کہ اگر وہ کنواری لڑکیوں کو اٹھاتے ہیں تو کم از کم شادی شدہ عورتوں کو بخش دیا جائے، تاکہ معاشرتی ڈھانچہ کچھ حد تک محفوظ رہے۔ اس بات پر حملہ آوروں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر تم چاہو کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورت میں فرق کیا جا سکے، تو کوئی واضح نشانی مقرر کرو تاکہ فوراً پہچانا جا سکے۔


اس مشورے پر غور و خوض کے بعد ہندو برادری نے طے کیا کہ شادی شدہ عورتیں اپنے ماتھے کے بیچ میں سرخ رنگ کا ایک نشان لگائیں گی، جسے بعد ازاں "سندور" کہا گیا۔

  • یہ نشان چونکہ ماتھے پر ہوتا تھا، اس لیے فوراً نظر آ جاتا۔

  • اس کا گہرا سرخ رنگ دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔

  • یہ نشان ایک ظاہری علامت بن گیا کہ یہ عورت شادی شدہ ہے۔

شادی شدہ عورتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس ہدایت پر فوری عمل شروع کر دیا۔ جلد ہی پورے معاشرے میں یہ علامت عام اور قبول شدہ بن گئی۔ خواتین اپنے شوہروں کے تحفظ میں یہ علامت فخر سے اختیار کرنے لگیں۔

رسم سے روایت اور روایت سے مذہب

وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشان صرف تحفظ کی علامت نہ رہا، بلکہ ایک رسم، روایت، اور پھر مذہبی علامت بن گیا۔ آج بھی لاکھوں ہندو عورتیں شادی کے بعد سندور لگاتی ہیں، اور اسے اپنے ازدواجی رشتے کی طاقت، وقار، اور دعاؤں کی علامت سمجھتی ہیں۔

یوں ایک علامت جو کسی وقت مجبوری اور شناخت کے لیے اختیار کی گئی تھی، آج عزت، محبت، اور وابستگی کی علامت بن چکی ہے۔


بدھ، 7 مئی، 2025

روشن ہندوستان کہاں ہے

 



بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جنوبی ایشیا ایک بار پھر کشیدگی، بداعتمادی اور جنگی جنون کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ملک جو کبھی "روشن انڈیا" کے نعرے کے ساتھ خطے کے لیے ترقی، امن اور ٹیکنالوجی کی علامت بننے جا رہا تھا، آج جنگی اشتعال، سفارتی ناکامی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہا ہے۔

 بین الاقوامی سطح پر بھارتی مؤقف کی پذیرائی کم ہوتی جا رہی ہے۔ 

سفارتی محاذ پر ناکامی سامنے کی بات ہے

حال ہی میں خریدے گئے جدید جنگی طیاروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔  بھارتی فوج مہم جوئی سے گریز کا عندیہ دے رہی ہے، اور ایئر فورس خود اپنے وسائل اور تکنیکی کمی کا اعتراف کر چکی ہے۔

اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے اپنی نااہلی کا بوجھ ہمسایوں پر ڈالنے کی روش اپنا لی ہے۔ سکھوں کو ریاستی اداروں سے کاٹ کر عضوِ معطل بنا دینا، پیشہ ور فوجی اور نیوی افسران کو برخاست کر کے گرفتار کرنا، اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے مذہبی جذبات ابھارنے کا سلسلہ مودی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی جنون اس حد تک بڑھا کہ پاکستان پر میزائل حملے کیے گئے، جن میں نہ صرف سویلین آبادی نشانہ بنی بلکہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو بھی جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا۔

پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد، جب 26 جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان نے فوری مذمت کی، متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے انصاف کی فراہمی پر زور دیا، اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے بھی اسی موقف کی تائید کی۔ مگر بھارت میں جیسے پہلے ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان پر الزام دھر کر فوری حملہ کیا جائے۔

یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب پاکستان کی فضاؤں میں درجنوں سول طیارے فضا میں موجود تھے۔ نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ عبادت گاہیں بھی میزائل حملوں کی زد میں آئیں۔ خواتین، بچے، بزرگ—سب اس بربریت کا نشانہ بنے۔ اس گھناؤنے اقدام کا نہ تو اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی قانونی۔

پاکستان کی حکومت پر اب عوام کا دباو بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ رات کو اپنے گھروں میں سوتے بچوں اور عورتوں کا قتل، مساجد میں عبادت گزاروں کی شہادت، یہ سب ایسے زخم ہیں جو کسی بھی قوم کو خاموش نہیں رہنے دیتے۔

"قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مودی نے اقتدار کے دوسرے دور میں ترقی، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے راستے کو چھوڑ کر "ہندوتوا کے انتہا پسند بیانیے کو اپنا لیا۔ "اکھنڈ بھارت" کا خواب ایک مخصوص ذہنیت کو ضرور لبھاتا ہے، مگر یہ خواب بھارت کے ان کروڑوں نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جنہوں نے سیکولر بھارت کی بنیاد پر تعلیم حاصل کی اور دنیا میں بھارت کا روشن چہرہ پیش کیا۔ یہی نوجوان جب اس بیانیے کے خلاف بولے، تو "گودی میڈیا"  نے جنم لیا، اور ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جو اختلاف رائے کو دبا کر اپنے نظریے کو طاقت سے تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے معصوم شہریوں کے خون کو یونہی بہنے دے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم خاموش نہیں رہتا۔ پاکستان پر بھارتی حملے نے ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ حکومت پر عوامی دباؤ لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کر رہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے۔

یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی متکبرانہ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے لیے ترقی کا مطلب صرف اپنے ہمسایوں کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے، حالانکہ حقیقی ترقی تعلیم، صحت، سائنس اور معیشت میں برتری سے حاصل ہوتی ہے، جنگوں اور نفرت سے نہیں۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تکبر، چاہے فرد کا ہو یا قوم کا، بالآخر رسوائی ہی لاتا ہے۔ آج بھارت کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ایک ایسے رہنما کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ رکھنا چاہتے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کا کٹھ پتلی بن چکا ہے، اور جس کی پالیسیاں نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے خطے کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

ابھی یا کبھی نہیں

 



میں نے گزشتہ چند دنوں میں پاکستان اور بھارت کی دفاعی صلاحیتوں پر خاصی تحقیق کی ہے، اور اس تحقیق کی روشنی میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے پاس بھارت کی نسبت زیادہ مؤثر اور متوازن جنگی پلیٹ فارم موجود ہیں۔ ہماری فضائیہ کے شاہین جس مہارت، رفتار اور حکمتِ عملی سے فضا کو دشمن کے لیے تنگ کر دیتے ہیں، اس کی گواہی نہ صرف ہمارے عوام بلکہ عالمی دفاعی تجزیہ کار بھی دیتے ہیں۔

بھارت کا کوئی بھی طیارہ  پاکستانی سرحد عبور کر کے بچ کر واپس نہیں جا سکا۔ پاکستان کی فضائیہ نہ صرف اپنی فضائی حدود کا دفاع کرتی ہے بلکہ دشمن کے علاقے میں داخل ہو کر بھی نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی زندہ مثال دنیا نے  میں دیکھ لی ہے۔ یہی وہ دفاعی برتری ہے جو دشمن کے عزائم کو مفلوج کر دیتی ہے۔

 پاکستان کی فتح کا اصل یقین مجھے نہ صرف ہتھیاروں میں بلکہ ان جوانوں کے ایمان، جذبے اور قربانی کے جذبے میں ہے جو اس وطن کی سرحدوں پر دن رات پہرہ دے رہے ہیں۔ ہمارے فضائی شاہین، بحری محافظ اور زمینی جوان، ہر ایک اپنے محاذ پر دل و جان سے وطن کی حفاظت میں مصروف ہے۔ ان کی تربیت، ان کا حوصلہ اور ان کا جزبہ ایمانی، ہی اصل میں پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

یہی یقین ہے جو قوم کو مطمئن رکھتا ہے۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، نظریات اور نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ ہم یہ جنگ اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں، اور دشمن کو مکمل شکست دینا اس جنگ کا واحد اور لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔

یہ بھی اللہ کی خاص مدد ہے کہ ہماری مسلح افواج کو ایسے مدبر، بہادر اور بصیرت رکھنے والے رہنما میسر ہیں جو ہر میدان میں حکمت سے فیصلے کرتے ہیں۔ قوم ان پر فخر کرتی ہے، اور ان کے لیے دعا گو ہے۔

یہ وہ گھڑی ہے جس میں پوری قوم کو یکجا ہو کر اپنے محافظوں کے پیچھے کھڑا ہونا ہے۔ کیونکہ دشمن صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ ذہنی، نظریاتی اور سائبر محاذوں پر بھی حملہ آور ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر فتح حاصل کرنی ہے — اور ان شاء اللہ ہم کریں گے!

اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے، ہماری افواج کو فتح نصیب کرے، اور ہمیں ہمیشہ سچائی، عدل اور امن کے راستے پر گامزن رکھے۔
پاکستان زندہ باد!