ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟
جمعرات، 8 مئی، 2025
ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟
سندور
ہندوستان نے صدیوں تک بیرونی حملہ آوروں کا سامنا کیا۔ ان حملہ آوروں میں پٹھان، ترک، اور دیگر وسطی ایشیائی اقوام شامل تھیں، جنہوں نے نہ صرف زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ مقامی آبادی کی عزت و آبرو کو بھی روند ڈالا۔ ان حملہ آوروں کے لشکروں کا ایک معمول بن چکا تھا کہ وہ مقامی خواتین، خصوصاً نوجوان اور خوبصورت عورتوں کو قیدی بناتے، اپنے ساتھ لے جاتے ۔
ان حالات میں ہندو معاشرہ نہایت اضطراب کا شکار ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان خاندانی نظام کو پہنچا، کیونکہ شادی شدہ عورتوں کو بھی ان حملوں سے استثنا نہ تھا۔ شوہر زندہ ہونے کے باوجود بیویوں کو اغوا کر لینا، ایک اخلاقی، مذہبی، اور معاشرتی بحران کی صورت اختیار کر چکا تھا۔درخواست اور مشورہ
روایت کے مطابق، اس ظلم سے تنگ آکر ہندو برادری کے معززین نے ان حملہ آوروں سے درخواست کی کہ اگر وہ کنواری لڑکیوں کو اٹھاتے ہیں تو کم از کم شادی شدہ عورتوں کو بخش دیا جائے، تاکہ معاشرتی ڈھانچہ کچھ حد تک محفوظ رہے۔ اس بات پر حملہ آوروں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر تم چاہو کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورت میں فرق کیا جا سکے، تو کوئی واضح نشانی مقرر کرو تاکہ فوراً پہچانا جا سکے۔
اس مشورے پر غور و خوض کے بعد ہندو برادری نے طے کیا کہ شادی شدہ عورتیں اپنے ماتھے کے بیچ میں سرخ رنگ کا ایک نشان لگائیں گی، جسے بعد ازاں "سندور" کہا گیا۔
-
یہ نشان چونکہ ماتھے پر ہوتا تھا، اس لیے فوراً نظر آ جاتا۔
-
اس کا گہرا سرخ رنگ دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔
-
یہ نشان ایک ظاہری علامت بن گیا کہ یہ عورت شادی شدہ ہے۔
شادی شدہ عورتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس ہدایت پر فوری عمل شروع کر دیا۔ جلد ہی پورے معاشرے میں یہ علامت عام اور قبول شدہ بن گئی۔ خواتین اپنے شوہروں کے تحفظ میں یہ علامت فخر سے اختیار کرنے لگیں۔
رسم سے روایت اور روایت سے مذہب
وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشان صرف تحفظ کی علامت نہ رہا، بلکہ ایک رسم، روایت، اور پھر مذہبی علامت بن گیا۔ آج بھی لاکھوں ہندو عورتیں شادی کے بعد سندور لگاتی ہیں، اور اسے اپنے ازدواجی رشتے کی طاقت، وقار، اور دعاؤں کی علامت سمجھتی ہیں۔
یوں ایک علامت جو کسی وقت مجبوری اور شناخت کے لیے اختیار کی گئی تھی، آج عزت، محبت، اور وابستگی کی علامت بن چکی ہے۔
بدھ، 7 مئی، 2025
روشن ہندوستان کہاں ہے
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جنوبی ایشیا ایک بار پھر کشیدگی، بداعتمادی اور جنگی جنون کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ملک جو کبھی "روشن انڈیا" کے نعرے کے ساتھ خطے کے لیے ترقی، امن اور ٹیکنالوجی کی علامت بننے جا رہا تھا، آج جنگی اشتعال، سفارتی ناکامی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھارتی مؤقف کی پذیرائی کم ہوتی جا رہی ہے۔
سفارتی محاذ پر ناکامی سامنے کی بات ہے
حال ہی میں خریدے گئے جدید جنگی طیاروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ بھارتی فوج مہم جوئی سے گریز کا عندیہ دے رہی ہے، اور ایئر فورس خود اپنے وسائل اور تکنیکی کمی کا اعتراف کر چکی ہے۔
اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے اپنی نااہلی کا بوجھ ہمسایوں پر ڈالنے کی روش اپنا لی ہے۔ سکھوں کو ریاستی اداروں سے کاٹ کر عضوِ معطل بنا دینا، پیشہ ور فوجی اور نیوی افسران کو برخاست کر کے گرفتار کرنا، اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے مذہبی جذبات ابھارنے کا سلسلہ مودی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی جنون اس حد تک بڑھا کہ پاکستان پر میزائل حملے کیے گئے، جن میں نہ صرف سویلین آبادی نشانہ بنی بلکہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو بھی جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا۔
پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد، جب 26 جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان نے فوری مذمت کی، متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے انصاف کی فراہمی پر زور دیا، اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے بھی اسی موقف کی تائید کی۔ مگر بھارت میں جیسے پہلے ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان پر الزام دھر کر فوری حملہ کیا جائے۔
یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب پاکستان کی فضاؤں میں درجنوں سول طیارے فضا میں موجود تھے۔ نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ عبادت گاہیں بھی میزائل حملوں کی زد میں آئیں۔ خواتین، بچے، بزرگ—سب اس بربریت کا نشانہ بنے۔ اس گھناؤنے اقدام کا نہ تو اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی قانونی۔
پاکستان کی حکومت پر اب عوام کا دباو بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ رات کو اپنے گھروں میں سوتے بچوں اور عورتوں کا قتل، مساجد میں عبادت گزاروں کی شہادت، یہ سب ایسے زخم ہیں جو کسی بھی قوم کو خاموش نہیں رہنے دیتے۔
"قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مودی نے اقتدار کے دوسرے دور میں ترقی، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے راستے کو چھوڑ کر "ہندوتوا کے انتہا پسند بیانیے کو اپنا لیا۔ "اکھنڈ بھارت" کا خواب ایک مخصوص ذہنیت کو ضرور لبھاتا ہے، مگر یہ خواب بھارت کے ان کروڑوں نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جنہوں نے سیکولر بھارت کی بنیاد پر تعلیم حاصل کی اور دنیا میں بھارت کا روشن چہرہ پیش کیا۔ یہی نوجوان جب اس بیانیے کے خلاف بولے، تو "گودی میڈیا" نے جنم لیا، اور ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جو اختلاف رائے کو دبا کر اپنے نظریے کو طاقت سے تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے معصوم شہریوں کے خون کو یونہی بہنے دے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم خاموش نہیں رہتا۔ پاکستان پر بھارتی حملے نے ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ حکومت پر عوامی دباؤ لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کر رہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی متکبرانہ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے لیے ترقی کا مطلب صرف اپنے ہمسایوں کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے، حالانکہ حقیقی ترقی تعلیم، صحت، سائنس اور معیشت میں برتری سے حاصل ہوتی ہے، جنگوں اور نفرت سے نہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تکبر، چاہے فرد کا ہو یا قوم کا، بالآخر رسوائی ہی لاتا ہے۔ آج بھارت کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ایک ایسے رہنما کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ رکھنا چاہتے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کا کٹھ پتلی بن چکا ہے، اور جس کی پالیسیاں نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے خطے کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
ابھی یا کبھی نہیں
بھارت کا کوئی بھی طیارہ پاکستانی سرحد عبور کر کے بچ کر واپس نہیں جا سکا۔ پاکستان کی فضائیہ نہ صرف اپنی فضائی حدود کا دفاع کرتی ہے بلکہ دشمن کے علاقے میں داخل ہو کر بھی نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی زندہ مثال دنیا نے میں دیکھ لی ہے۔ یہی وہ دفاعی برتری ہے جو دشمن کے عزائم کو مفلوج کر دیتی ہے۔
پاکستان کی فتح کا اصل یقین مجھے نہ صرف ہتھیاروں میں بلکہ ان جوانوں کے ایمان، جذبے اور قربانی کے جذبے میں ہے جو اس وطن کی سرحدوں پر دن رات پہرہ دے رہے ہیں۔ ہمارے فضائی شاہین، بحری محافظ اور زمینی جوان، ہر ایک اپنے محاذ پر دل و جان سے وطن کی حفاظت میں مصروف ہے۔ ان کی تربیت، ان کا حوصلہ اور ان کا جزبہ ایمانی، ہی اصل میں پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
یہی یقین ہے جو قوم کو مطمئن رکھتا ہے۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، نظریات اور نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ ہم یہ جنگ اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں، اور دشمن کو مکمل شکست دینا اس جنگ کا واحد اور لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔
یہ بھی اللہ کی خاص مدد ہے کہ ہماری مسلح افواج کو ایسے مدبر، بہادر اور بصیرت رکھنے والے رہنما میسر ہیں جو ہر میدان میں حکمت سے فیصلے کرتے ہیں۔ قوم ان پر فخر کرتی ہے، اور ان کے لیے دعا گو ہے۔
پیر، 5 مئی، 2025
صحرا میں جہنم
نیگیو کے سنسان میدان میں، جہاں سورج بھی زخم دیتا ہے اور راتیں بھی بےرحم ہوتی ہیں، وہاں ایک جیل ہے – کیتسیوت۔ مگر یہ جیل عام نہیں، بلکہ وہ جگہ ہے جہاں قانون خاموش ہے اور ظلم مسلسل گونج رہا ہے۔
ہم اکثر سننے کے عادی ہو چکے ہیں کہ فلاں دہشت گرد پکڑا گیا، فلاں شدت پسند زیرِ حراست ہے، لیکن فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو نہ کبھی جرم بتایا جاتا ہے، نہ عدالت بلاتی ہے۔ ان کے حصے میں صرف قید آتی ہے — وہ بھی صحرا کی دھول بھری جیل میں، جسے دنیا کی بدنام ترین جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جیل یا خیمہ بدبو کا؟
کیتسیوت جیل، جسے اسرائیل “Ketziot Prison” کے نام سے جانتا ہے، 1988 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ جیل اس قدر وسیع ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدی یہاں خیموں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں جھلسا دینے والی تپش اور سردیوں میں ہڈیوں میں اترتی یخ بستگی — یہ قیدی ان دونوں موسموں سے بھی زیادہ اندرونی اذیت سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
اسرائیل اسے سیکیورٹی جیل کہتا ہے، مگر یہاں قید بیشتر فلسطینی نوجوان، طلبہ، کسان اور عام شہری ہوتے ہیں، جن پر نہ کوئی فردِ جرم ہوتی ہے، نہ کوئی مقدمہ۔ یہ قید صرف ایک تحریری حکم پر قائم ہے — جسے "ایڈمنسٹریٹو ڈیٹنشن" کہتے ہیں۔
بغیر جرم کے قید — سچی داستانیں چیخ چیخ کر بولتی ہیں
محمود السرسک: فٹبالر جو 92 دن بھوکا رہا
"انہوں نے جسم تو توڑ دیا، پر میرے خواب نہیں چھین سکے۔"
خلیل عواد: لاٹھی کے سہارے چلنے والا قیدی
محمد عدنان: جسے باپ کا جنازہ نصیب نہ ہوا
قانون کی آنکھ بند، ضمیر کا سوال باقی
صحرا کی خاموشی، جو چیخ بن چکی ہے
کاش ہم سن سکیں۔