جمعہ، 18 اپریل، 2025

چائے والا

 


" ایک تاجر، ایک سبق، اور 100 دن کی رفاقت"

ان دنوں میں ایک امریکی  سافٹ ویئر کی مارکیٹنگ کرتا تھا۔ میں اس سافٹ ویئر کو مختلف کاروباری مراکز میں متعارف کرواتا، دکانداروں کو قائل کرتا اور ان کے سسٹمز کو کمپیوٹرائز کرنے میں مدد دیتا۔ راولپنڈی کے مشہور تجارتی مراکز جیسے سٹی صدر روڈ، نرنکاری بازار اور راجہ بازار میں میرے متعدد گاہک تھے۔

انہی میں سے ایک تاجر ایسے تھے جن سے میری پیشہ ورانہ وابستگی وقت کے ساتھ ایک جذباتی اور سیکھنے کا رشتہ بن گئی۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر ان کی کاروباری ذہانت، خلوص اور معاملہ فہمی غیر معمولی تھی۔ میں نے انہیں سافٹ ویئر خریدنے پر آمادہ کیا، اور ان کے سٹور کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز کرنے کا آغاز کیا۔

کچھ ہفتے، کچھ مشاہدے:

شروع کے چند ہفتوں میں ہی مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک دوکان کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ وہ تاجر نہ صرف کاروبار کے ماہر تھے بلکہ انسان شناس بھی تھے۔
ان کی دوکان تو شام کے اوقات میں بند ہو جاتی، مگر میں اکثر ان کے دو ملازمین کے ساتھ دیر تک سسٹم کی ترتیب، اسٹاک کی ڈیجیٹل فہرست اور بلنگ کے خودکار طریقہ کار پر کام کرتا رہتا۔

 میں نے محسوس کیا کہ کچن میں چائے بناے  والا ایک نوجوان بھی ہر روز آخر وقت تک وہیں رکا رہتا ہے۔ وہ خاموشی سے کام کے ماحول کو سیکھ رہا ہوتا، جیسے اسے بھی کچھ نیا حاصل کرنا ہو۔

معاہدے کی تکمیل اور الوداعی عشائیہ:

میرا ان سے معاہدہ 100 دن کا تھا۔ میں نے اپنے حصے کا کام مکمل کیا اور اجازت لینے پہنچا۔ مگر انھوں نے مجھے روک کر بتایا کہ  میرے اعزاز میں عشائیے کا انتظام کیا گیا ہے۔

اس عشائیے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام 38 افراد شریک تھے۔ وہ ایک خوشگوار اور غیر رسمی محفل تھی۔ ہر چہرے پر محبت اور احترام جھلک رہا تھا۔

ایک سادہ شخص کی بڑی باتیں:

عشائیے کے اختتام پر وہ تاجر خود کھڑے ہوئے اور اپنے بارے میں بات کرنا شروع کی —
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم مکمل نہ کر سکے، مگر محنت کو کبھی کمزور نہ پڑنے دیا۔ "میں نے ہمیشہ کام کو اپنا سمجھ کر کیا" — انہوں نے کہا،

"جب میں نے ہوٹل میں برتن  تب بھی خود کو اس ہوٹل کا حصہ سمجھا۔ جب میں نے کسی کے ساتھ مل کر پرچون چلائی، تب بھی ایسے کام کیا جیسے یہ میری دکان ہو۔ ہارڈوئر کی دوکان چلائی تو اپنی سمجھ کر چلائی۔"


"کام کو اپنا سمجھ کر کرنا انسان کو ذمہ دار بناتا ہے، اور جب انسان ذمہ دار ہو جاتا ہے تو کامیابی کی سیڑھیاں خود بخود اس کے قدموں میں بچھنے لگتی ہیں۔"

یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔
میں تو انہیں ایک سافٹ ویئر سکھانے آیا تھا، مگر وہ مجھے زندگی کا سب سے قیمتی اصول سکھا گئے۔



چائے بناے والا لڑکا اج بھی اسی سٹور پر کام کر ہا ہے ۔ مگر اب وہ چائے نہیں بناتا بلکہ ستور کے اکاونٹ دیکھتا ہے ۔  

یہ کیسے ممکن ہوا ۔ میں نے پوچھا ۔ اس کا جواب تھا"ہمارے حاجی صاحب نے پہلے دن ہی مجھے کہا تھا ۔ اس دوکان کو اپنا سمجھ کر کام کرنا" 6 ماہ تک میں سوچتا رہا اپنی دوکان سمجھ کر کام کروں گا تو بھی مجھے چائے ہی بنانا ہے ۔ مگر میں نے جب اس دوکان کو اپنا سمجھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ میں نے ذمہ داریاں قبول کرنا شروع کیں تو میں حاجی صاحب کے ذینی طور پر قریب ہوتا چلا گیا ۔

تم نئے آنے والوں کو کیا ہدائت دیتے ہو " وہی جو حاجی صاحب نے مجھے پہلے دن دی تھٰی  

"کام کو اپنا سمجھو، پھر دیکھو تم کتنے اہم ہو جاتے ہو"

سوشل میڈیا پر مختلف خطوں میں مقبول موضوعات کا تجزیاتی جائزہ

 

سوشل میڈیا پر مختلف خطوں میں مقبول موضوعات کا تجزیاتی جائزہ
(تحریر: ڈی اے جنجوعہ)

سوشل میڈیا موجودہ دور کی ایک طاقتور حقیقت بن چکا ہے۔ ہر خطے میں اسے مختلف انداز سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں کہیں یہ اظہارِ رائے کا ذریعہ ہے، وہیں کہیں یہ تفریح، معلومات، کاروبار یا معاشرتی بیداری کا وسیلہ بھی ہے۔ دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنی ثقافت، حالات، رجحانات اور ضروریات کے مطابق سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم چین، جاپان، برصغیر (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش)، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے سوشل میڈیا رجحانات کا جائزہ لیں گے۔


چین میں سوشل میڈیا کا رخ

چین میں سوشل میڈیا سخت حکومتی نگرانی اور سنسرشپ کے باوجود انتہائی فعال ہے۔ WeChat، Weibo، Douyin جیسے پلیٹ فارمز عام ہیں۔ یہاں سوشل میڈیا پر درج ذیل موضوعات نمایاں ہوتے ہیں:

  • ٹیکنالوجی اور اختراعات: مصنوعی ذہانت، سمارٹ سٹیز، روبوٹکس وغیرہ۔

  • صحت، خوراک، اور طرزِ زندگی پر مشورے اور معلوماتی ویڈیوز۔

  • قومی وقار اور ثقافتی ورثہ کی تشہیر۔

  • برانڈز اور پروڈکٹس کے ریویوز۔


جاپان میں سوشل میڈیا کا انداز

جاپان میں سوشل میڈیا نہایت مہذب، تخلیقی اور مخصوص ذوق کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ Twitter، Instagram، Line اور YouTube وہاں کے نمایاں پلیٹ فارمز ہیں۔

  • انیمے، مینگا اور گیمنگ سے متعلق پوسٹس بہت مقبول ہیں۔

  • ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس پر معلوماتی اور ریویو ویڈیوز۔

  • Minimal lifestyle، ذہنی سکون، اور خود انحصاری جیسے موضوعات بھی خاصی توجہ حاصل کرتے ہیں۔

  • سفر، کھانے اور مقامی ثقافت کی خوبصورتی سوشل میڈیا پر اجاگر کی جاتی ہے۔


برصغیر پاک و ہند میں مقبول رجحانات

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا ایک مکمل دنیا ہے جہاں سیاست، تفریح، تعلیم، اور معاشرتی مسائل سبھی موضوعات پر بحث ہوتی ہے۔

  • سیاست: جماعتوں کی کارکردگی، لیڈرز کی تقاریر، عوامی ردِ عمل۔

  • شوبز، کرکٹ، اور مزاحیہ مواد: ڈرامے، فلمیں، میمز، اور کھلاڑیوں کے گرد گفتگو۔

  • سماجی و مذہبی موضوعات: مذہبی مواقع، دعائیں، اصلاحی پیغامات۔

  • تعلیم و روزگار: امتحانات، نوکریاں، اسکالرشپس۔

  • مزاحیہ ویڈیوز اور شارٹ فارمیٹ مواد کا سیلاب۔


یورپ میں سوشل میڈیا کا زاویہ

یورپی اقوام سوشل میڈیا کو علم، معاشرتی شعور اور ثقافتی اظہار کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

  • ماحولیاتی تحفظ: کلائمیٹ چینج، گرین انرجی، ماحولیاتی تحریکیں۔

  • انسانی حقوق اور سماجی انصاف: مساوات، اقلیتوں کے حقوق، آزادی اظہار۔

  • آرٹ، موسیقی، ادب اور ثقافتی سرگرمیاں۔

  • سفر اور لائف اسٹائل پر تصویری بلاگز اور وڈیوز۔


افریقہ میں سوشل میڈیا کا کردار

افریقی ممالک میں سوشل میڈیا ترقی اور بیداری کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔

  • تعلیم و تربیت: طلبہ کے لیے مواقع، تعلیمی پلیٹ فارمز۔

  • مقامی کاروبار اور نوجوان انٹرپرینیورز کی تشہیر۔

  • موسیقی، رقص اور ثقافت کا فروغ۔

  • سیاسی شعور اور کرپشن کے خلاف آواز۔


امریکہ میں سوشل میڈیا کی جہتیں

امریکہ میں سوشل میڈیا صرف اظہارِ رائے ہی نہیں بلکہ رجحانات پیدا کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ Facebook، Instagram، TikTok، Twitter اور YouTube یہاں کے بڑے پلیٹ فارمز ہیں۔

  • سیاسی مباحثے، نسلی مساوات، اور سماجی تحریکیں۔

  • ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے متعلق مواد۔

  • سیلیبرٹیز، فلم، میوزک اور انفلوئنسر کلچر۔

  • مینٹل ہیلتھ، سیلف ہیلپ، اور لائف کوچنگ۔


خلاصہ

دنیا کے مختلف خطوں میں سوشل میڈیا کا استعمال ان کے معاشرتی، ثقافتی اور فکری پس منظر کے مطابق ہوتا ہے۔

  • چین اور جاپان میں نظم، جدیدیت اور ٹیکنالوجی غالب ہے۔

  • برصغیر میں سیاست، مذہب، تفریح اور تعلیم پر توجہ ہے۔

  • یورپ میں شعور، ماحول، فن اور مساوات۔

  • افریقہ میں تعلیم، ثقافت اور ترقی۔

  • امریکہ میں اظہارِ رائے، رجحانات کی قیادت اور سیلیبرٹی کلچر۔

سوشل میڈیا آج صرف بات چیت کا ذریعہ نہیں بلکہ دنیا کے مختلف چہروں کو دکھانے والا آئینہ بن چکا ہے۔ ہر پوسٹ، ہر ویڈیو، اور ہر ہیش ٹیگ اس معاشرے کی ایک جھلک ہے جہاں سے وہ پیدا ہوتا ہے۔

کامیاب ملازم

 ڈیل کارنیگی (پیدائش: 24 نومبر 1888 – وفات: 1 نومبر 1955) ایک مشہور امریکی مصنف اور موٹیویشنل اسپیکر تھے، جنہیں ذاتی ترقی، سیلف ہیلپ اور عوامی تعلقات کے موضوعات پر لکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ان کی معروف کتاب "How to Win Friends and Influence People" آج بھی دنیا بھر میں متاثر کن شخصیات کی تربیت میں پڑھی جاتی ہے۔

انہوں نے ایک بار ایک ایسا واقعہ بیان کیا جو انہوں نے ایک زیرِ تعمیر عمارت کے مقام پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ واقعہ بظاہر عام سا تھا، لیکن اس میں ایک گہرا سبق چھپا ہوا تھا۔


"میں صرف مزدوری نہیں کر رہا، میں ایک عمارت بنا رہا ہوں" – ایک مزدور کی بصیرت

ڈیل کارنیگی ایک دن ایک شہر میں سفر کے دوران کسی بڑی عمارت کی تعمیر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ وہاں کئی مزدور کام میں مشغول تھے۔ کسی نے اینٹیں اٹھا رکھی تھیں، کوئی سریے لگا رہا تھا، کوئی سیمنٹ مکس کر رہا تھا۔ دھوپ، گرد، پسینے اور تھکن کے باوجود ہر کوئی اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔

کارنیگی نے تین مختلف مزدوروں سے ایک ہی سوال کیا:

"تم کیا کر رہے ہو؟"

پہلے مزدور نے بے دلی سے جواب دیا،
"دھوپ میں جل رہا ہوں... بس مزدوری کر رہا ہوں تاکہ شام کو بچوں کا پیٹ پال سکوں۔"

دوسرے نے کہا،
"اینٹیں اٹھا رہا ہوں، مالک کا حکم ہے، روز یہی کام کرنا پڑتا ہے۔"

پھر کارنیگی نے تیسرے مزدور سے یہی سوال پوچھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا، مگر اس کے چہرے پر عجب سی چمک تھی۔ اس نے مسکرا کر کہا:
"میں ایک عظیم عمارت بنا رہا ہوں۔ کچھ سال بعد لوگ یہاں آئیں گے، سیر کریں گے، شاید عبادت کریں یا علم حاصل کریں۔ میری محنت یہاں ہمیشہ کے لیے باقی رہے گی۔"

ڈیل کارنیگی یہ جواب سن کر ٹھٹھک گئے۔ یہ محض جواب نہیں تھا، یہ ایک سوچ تھی، ایک نقطۂ نظر، ایک جذبہ۔


وہی مزدور، برسوں بعد:

چند سال بعد کارنیگی دوبارہ اسی شہر آئے۔ عمارت اب مکمل ہو چکی تھی، واقعی شاندار اور عظیم الشان۔ انہوں نے اُس وقت کے انجینئر سے پوچھا:
"کیا وہ مزدور اب بھی یہاں کام کرتا ہے؟"

انجینئر نے مسکرا کر کہا:
"وہ اب مزدور نہیں رہا، وہ ہمارا سینئر سائٹ مینیجر ہے۔ شروع میں اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ عام مزدور نہیں، بلکہ وژن والا آدمی ہے۔ اس نے نہ صرف خود ترقی کی، بلکہ دوسروں کو بھی حوصلہ دیا۔"


سبق:

ڈیل کارنیگی نے اس واقعے کو ایک گہرا سبق قرار دیا — کہ کام کی اہمیت اس انداز میں چھپی ہوتی ہے، جس سے ہم اس کام کو دیکھتے ہیں۔
کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، لیکن جو اس میں معنی تلاش کرتا ہے، وہی شخص بڑا بنتا ہے۔ وہ مزدور اپنے کام کو محض روزی کا ذریعہ نہیں سمجھتا تھا، بلکہ وہ خود کو ایک بڑے مقصد کا حصہ تصور کرتا تھا۔


نتیجہ:

ڈیل کارنیگی اس کہانی کو زندگی کے ایک سچے اصول کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں:

"اپنے کام کو عزت دو، پھر دنیا تمہیں عزت دے گی۔"

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر سوچ مثبت ہو، تو کوئی بھی کام معمولی نہیں رہتا، اور ایک مزدور بھی ایک معمار بن جاتا ہے – نہ صرف عمارتوں کا، بلکہ اپنی تقدیر کا بھی۔

بدھ، 16 اپریل، 2025

سورہ جاثیہ آیت 13



چند دہائیاں قبل ایک ماہرِ نفسیات سے ملاقات ہوئی۔ ان کی شخصیت اور علم دونوں ہی متاثر کن تھے۔ انہوں نے جامعۃ الازہر، مصر سے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی اور بعد ازاں امریکہ کی ایک معروف یونیورسٹی سے انسانی رویوں پر بھی تعلیم حاصل کی۔ یہ ملاقات کویت میں ایک مشترکہ دوست کے گھر ہوئی،  پہلی نشست ہی ہماری دیرپا دوستی کی بنیاد بن گئی۔

کچھ برس قبل جب ان کی کمپنی نے اسلام آباد میں شاخ قائم کی، تو وہ پاکستان زیادہ وقت گزارنے لگے۔ چند ہفتے قبل ان کی پوتی کی شادی ان کے آبائی گاؤں میں ہوئی، اور میں بھی مدعو تھا۔ ایک پُرسکون شام، خاندان کے افراد ایک غیر رسمی محفل میں بیٹھے تھے۔ گفتگو کا رخ نئی نسل کے بدلتے رویوں کی طرف مڑ گیا، خاص طور پر ان کے اپنے بڑوں اور روایات سے دور ہونے کے رجحان پر۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے ایک جملہ کہا، جو گویا میرے دل میں تراش دیا گیا:

"بڑے اللہ کی اطاعت نہٰن کریں گے تو چھوٹوں سے بھی اطاعت کی امید نہ رکھیں"

یہ جملہ نہ صرف ایک فکری نکتہ ہے بلکہ ایک عظیم روحانی سچائی بھی۔ اس میں انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کی گہرائی، اور انسان اور کائنات کے باہمی ربط کی وضاحت پوشیدہ ہے۔ جب انسان خالق کے حکم کا تابع ہوتا ہے تو پوری کائنات اس کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔

قرآنِ کریم بارہا یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کے حکم کی تابع ہے، اور اس کا ہر نظام حکمت سے آراستہ ہے۔ زمین کو نرم فرش بنایا، آسمان کو محفوظ چھت، بارش برسائی، اور اناج و پھل اگائے۔ دریاؤں، نہروں، پہاڑوں، سورج، چاند، اور ستاروں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ تمہاری کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں، تم ملکوں ملکوں سفر کرتے ہو، تجارت کرتے ہو، علم حاصل کرتے ہو۔ دن اور رات اپنے وقت پر آتے ہیں، موسموں کا تغیر ہوتا ہے، فصلیں اگتی ہیں، دریا بہتے ہیں — یہ سب تمہارے فائدے کے لیے ہے، اور بظاہر تمہارے مطیع ہیں۔ لیکن درحقیقت، یہ سب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔

تو سوال یہ ہے: اگر تم اس خالق کے فرمانبردار بن جاؤ، جس کے حکم سے یہ ساری کائنات چل رہی ہے، تو کیا بعید ہے کہ یہ سب تمہارے لیے آسانیاں نہ پیدا کریں؟

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اور اُس نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب کو تمہارے تابع کر دیا ہے۔"
(سورۃ الجاثیہ، آیت 13)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کو زمین کی خلافت سونپی گئی ہے، اور اسے اللہ کی اطاعت کے بدلے یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔

لیکن افسوس! انسان اس سخی رب کے انعامات کو بھول بیٹھا ہے۔ جو نعمتیں مانگیں، وہ بھی عطا ہوئیں؛ جو نہ مانگیں، وہ بھی ملیں۔ اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو درکنار، اکثر ان کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اللہ کا حق اتنا عظیم ہے کہ بندہ اسے ادا نہیں کر سکتا، اور اس کی نعمتیں اتنی بے شمار ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔"

رسول اللہ ﷺ خود بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے:

"اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، ہم تیری حمد کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو ویسا ہی ہے جیسا تو خود اپنی حمد کرتا ہے۔"
(صحیح بخاری)

قیامت کے دن نیکیاں، گناہ، اور اللہ کی نعمتوں کے تین دیوان کھولے جائیں گے۔ جب نعمتیں اپنا حق مانگیں گی تو نیکیاں کم پڑ جائیں گی۔ اس وقت صرف اللہ کا کرم ہی کام آئے گا، جو بغیر معاوضے کے عطا کرنے والا ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا:

"یا رب! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، جب کہ شکر کرنا خود بھی تیری ایک نعمت ہے؟" اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: "اے داؤد! جب تُو نے یہ جان لیا، تو یہی تیرا شکر ہے۔"

ایک شاعر نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا:

"اگر ہر رونگٹے پر زبان ہو
تب بھی تیرے ایک احسان کا شکر ادا نہ ہو"

یہ سب کچھ اس ایک اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے: خالق کی اطاعت میں وہ روحانی طاقت پوشیدہ ہے، جو کائنات کو تمہارے حق میں کر دیتی ہے۔ فرمانبرداری کا یہ جذبہ انسان کو نظامِ کائنات کا حصہ بناتا ہے، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، کام سنورتے ہیں، اور مخلوق خودبخود آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ 

سورہ الصف ایت 2

 



قول و فعل کا تضاد — شخصیت اور معاشرے کا زوال

قول و فعل کا تضاد — یعنی زبان سے کسی بات کا دعویٰ کرنا لیکن عمل میں اس کے برعکس چلنا — ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے جو فرد کی سچائی، کردار اور معاشرتی اعتبار کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی بداعتمادی کو جنم دیتا ہے بلکہ خود انسان کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس روش کو سخت ناپسند فرمایا ہے:

"اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔"
(سورۃ الصف: 2-)

رسول اللہ ﷺ نے بھی قول و فعل کے تضاد کے انجام سے خبردار فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں:

"جو شخص کسی بات کی دعوت دیتا ہے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس برائی سے رک جائے جس سے دوسروں کو روکتا ہے۔"
(تفسیر درمنثور، جلد 1، صفحہ 177)

منافقانہ زندگی اور شخصیت پر اس کے اثرات:

  1. اندرونی کشمکش: جب انسان کی زبان اور عمل میں تضاد ہو تو اس کے اندر مسلسل ایک ذہنی و روحانی اضطراب رہتا ہے۔ وہ خود اپنی نظروں میں گر جاتا ہے۔

  2. کرداری کمزوری: قول و فعل کے تضاد سے انسان کی سچائی کمزور پڑتی ہے، اور وہ کردار کی پختگی سے محروم ہو جاتا ہے۔

  3. اعتماد کا فقدان: دوسروں کی نظر میں اس کی باتوں کی وقعت ختم ہو جاتی ہے، اور اس کا معاشرتی اعتبار مجروح ہوتا ہے۔

  4. روحانی تنزلی: ایسی زندگی اللہ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے، اور انسان روحانی طور پر محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔

اس رویے کا سدباب کیسے ممکن ہے؟

  1. خود احتسابی: انسان کو چاہیے کہ وہ خود سے سوال کرے: "کیا میں وہی ہوں جو کہتا ہوں؟" اور اپنی زندگی میں عمل اور بات میں مطابقت لائے۔

  2. اخلاقی تربیت: تعلیمی و سماجی نظام میں سچائی، دیانت اور کردار سازی کو مرکزی مقام دیا جائے۔

  3. سماجی اصلاح: منافقانہ رویوں کی نشان دہی کی جائے، مگر اصلاح کے جذبے کے ساتھ، نہ کہ محض تنقید کے لیے۔


قول و فعل کی ہم آہنگی انسان کو نہ صرف باوقار بناتی ہے بلکہ اس کے کردار میں صداقت، الفاظ میں تاثیر، اور معاشرے میں عزت پیدا کرتی ہے۔ ایک سچا انسان وہی ہوتا ہے جو جو کہے، اس پر عمل کرے — اور یہی سچائی ہر کامیاب معاشرے کی بنیاد ہے۔