سورہ جاثیہ آیت 13، انسانی رویے، اردو، قران، تفسیر قران، دلپزیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سورہ جاثیہ آیت 13، انسانی رویے، اردو، قران، تفسیر قران، دلپزیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 16 اپریل، 2025

سورہ جاثیہ آیت 13



چند دہائیاں قبل ایک ماہرِ نفسیات سے ملاقات ہوئی۔ ان کی شخصیت اور علم دونوں ہی متاثر کن تھے۔ انہوں نے جامعۃ الازہر، مصر سے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی اور بعد ازاں امریکہ کی ایک معروف یونیورسٹی سے انسانی رویوں پر بھی تعلیم حاصل کی۔ یہ ملاقات کویت میں ایک مشترکہ دوست کے گھر ہوئی،  پہلی نشست ہی ہماری دیرپا دوستی کی بنیاد بن گئی۔

کچھ برس قبل جب ان کی کمپنی نے اسلام آباد میں شاخ قائم کی، تو وہ پاکستان زیادہ وقت گزارنے لگے۔ چند ہفتے قبل ان کی پوتی کی شادی ان کے آبائی گاؤں میں ہوئی، اور میں بھی مدعو تھا۔ ایک پُرسکون شام، خاندان کے افراد ایک غیر رسمی محفل میں بیٹھے تھے۔ گفتگو کا رخ نئی نسل کے بدلتے رویوں کی طرف مڑ گیا، خاص طور پر ان کے اپنے بڑوں اور روایات سے دور ہونے کے رجحان پر۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے ایک جملہ کہا، جو گویا میرے دل میں تراش دیا گیا:

"بڑے اللہ کی اطاعت نہٰن کریں گے تو چھوٹوں سے بھی اطاعت کی امید نہ رکھیں"

یہ جملہ نہ صرف ایک فکری نکتہ ہے بلکہ ایک عظیم روحانی سچائی بھی۔ اس میں انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کی گہرائی، اور انسان اور کائنات کے باہمی ربط کی وضاحت پوشیدہ ہے۔ جب انسان خالق کے حکم کا تابع ہوتا ہے تو پوری کائنات اس کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔

قرآنِ کریم بارہا یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کے حکم کی تابع ہے، اور اس کا ہر نظام حکمت سے آراستہ ہے۔ زمین کو نرم فرش بنایا، آسمان کو محفوظ چھت، بارش برسائی، اور اناج و پھل اگائے۔ دریاؤں، نہروں، پہاڑوں، سورج، چاند، اور ستاروں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ تمہاری کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں، تم ملکوں ملکوں سفر کرتے ہو، تجارت کرتے ہو، علم حاصل کرتے ہو۔ دن اور رات اپنے وقت پر آتے ہیں، موسموں کا تغیر ہوتا ہے، فصلیں اگتی ہیں، دریا بہتے ہیں — یہ سب تمہارے فائدے کے لیے ہے، اور بظاہر تمہارے مطیع ہیں۔ لیکن درحقیقت، یہ سب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔

تو سوال یہ ہے: اگر تم اس خالق کے فرمانبردار بن جاؤ، جس کے حکم سے یہ ساری کائنات چل رہی ہے، تو کیا بعید ہے کہ یہ سب تمہارے لیے آسانیاں نہ پیدا کریں؟

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اور اُس نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب کو تمہارے تابع کر دیا ہے۔"
(سورۃ الجاثیہ، آیت 13)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کو زمین کی خلافت سونپی گئی ہے، اور اسے اللہ کی اطاعت کے بدلے یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔

لیکن افسوس! انسان اس سخی رب کے انعامات کو بھول بیٹھا ہے۔ جو نعمتیں مانگیں، وہ بھی عطا ہوئیں؛ جو نہ مانگیں، وہ بھی ملیں۔ اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو درکنار، اکثر ان کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اللہ کا حق اتنا عظیم ہے کہ بندہ اسے ادا نہیں کر سکتا، اور اس کی نعمتیں اتنی بے شمار ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔"

رسول اللہ ﷺ خود بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے:

"اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، ہم تیری حمد کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو ویسا ہی ہے جیسا تو خود اپنی حمد کرتا ہے۔"
(صحیح بخاری)

قیامت کے دن نیکیاں، گناہ، اور اللہ کی نعمتوں کے تین دیوان کھولے جائیں گے۔ جب نعمتیں اپنا حق مانگیں گی تو نیکیاں کم پڑ جائیں گی۔ اس وقت صرف اللہ کا کرم ہی کام آئے گا، جو بغیر معاوضے کے عطا کرنے والا ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا:

"یا رب! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، جب کہ شکر کرنا خود بھی تیری ایک نعمت ہے؟" اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: "اے داؤد! جب تُو نے یہ جان لیا، تو یہی تیرا شکر ہے۔"

ایک شاعر نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا:

"اگر ہر رونگٹے پر زبان ہو
تب بھی تیرے ایک احسان کا شکر ادا نہ ہو"

یہ سب کچھ اس ایک اصول کی طرف اشارہ کرتا ہے: خالق کی اطاعت میں وہ روحانی طاقت پوشیدہ ہے، جو کائنات کو تمہارے حق میں کر دیتی ہے۔ فرمانبرداری کا یہ جذبہ انسان کو نظامِ کائنات کا حصہ بناتا ہے، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، کام سنورتے ہیں، اور مخلوق خودبخود آسانیاں پیدا کرتی ہے۔