پیر، 14 اپریل، 2025

تھیلے کہاں گئے


"تھیلے کہاں گئے؟"

شہر کا شور کچھ الگ سا لگتا تھا۔ لوگ جلدی میں تھے، دکانیں کھلی تھیں، اور سڑکوں پر چہل پہل تھی۔ کرناٹک کے اس چھوٹے سے شہر میں، جہاں وقت بھی دھیرے چلتا ہے، وہاں ایک دکان ایسی تھی جو ہمیشہ وقت سے آگے چلتی تھی — "وشواناتھ جنرل اسٹور"۔

وشواناتھ جی کا شمار ان تاجروں میں ہوتا تھا جن کی سچائی ضرب المثل بن چکی تھی۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم، کھرے، اور نرم مزاج انسان تھے۔ گاہکوں کو اپنے ہاتھ سے سامان تھماتے اور بچوں کو مفت ٹافی دے کر ان کے چہرے پر خوشی دیکھتے۔

مگر اب وقت بدل رہا تھا۔ دکان بڑی ہو چکی تھی، گاہکوں کی تعداد بھی۔ تنہا نبھانا مشکل ہو رہا تھا، اس لیے انھوں نے ایک نوجوان مینیجر رکھا — سوربھ۔

سوربھ، جو ابھی حال ہی میں شہر آیا تھا، تعلیم یافتہ تھا، کمپیوٹر جانتا تھا، اور خوش اخلاق بھی تھا۔ دکان کی ترتیب بدلی، ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوا، اور گاہک مزید مطمئن نظر آنے لگے۔ وشواناتھ جی کو لگا کہ انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔

پہلا اشارہ

ایک دن حساب کتاب دیکھتے ہوئے وشواناتھ جی نے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ کچھ تھیلوں کی تعداد کم نکل رہی تھی۔ انھوں نے سوربھ کو بلایا،
"بیٹا، تھیلے تین کم نکلے ہیں۔ نظر رکھو، شاید غلطی ہو گئی ہو۔"

سوربھ نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر سر ہلایا،
"جی سر، میں دیکھتا ہوں۔"

اگلے ہفتے پھر تھیلے کم تھے۔ اس بار تین نہیں، گیارہ۔

"یہ تو عجیب بات ہے۔ استعمال تو کم ہو رہا ہے، مگر تھیلے اور کم ہو رہے ہیں؟" وشواناتھ جی نے حیرانی سے کہا۔

سوربھ نے تمام عملے کو سختی سے ہدایت دی:
"بغیر ضرورت کے تھیلے استعمال نہ کیے جائیں۔"

مگر صورتحال بدستور بگڑتی گئی۔ آخرکار وشواناتھ جی نے پرنٹ شدہ تھیلوں کی جگہ عام شاپنگ بیگ خرید لیے۔

خاموش چوری

تین ماہ ایسے گزرے جیسے سب کچھ نارمل ہو۔ گاہک آتے، جاتے، مسکراتے۔ سوربھ اپنی جگہ مگن، دکان چلانے میں مصروف۔ وشواناتھ جی پھر بھی مطمئن نہ تھے۔ دل کا ایک کونا مسلسل کچھ کہہ رہا تھا — "کچھ تو ہے..."

اور پھر وہ دن آیا۔

سوربھ نے اسٹاک لسٹ بنائی تو اس میں کئی چیزیں غائب تھیں۔ چاکلیٹس، شیمپو، کچھ قیمتی مصالحے۔ اس نے فوراً وشواناتھ جی کو رپورٹ دی۔

وشواناتھ جی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے۔ چند لمحے کچھ کہے بغیر گزرے۔ پھر آہستگی سے بولے:
"میں نے تمہیں تھیلوں کے بارے میں بتایا تھا، سوربھ۔ وہ تھیلے نہیں جا رہے تھے، وہ راہ کھل رہی تھی چوری کی۔ تم نے وقت پر نہیں روکا۔ تم نے خود ایک چور کو راستہ دے دیا۔"

سوربھ کو جیسے کسی نے آئینہ دکھا دیا ہو۔ دل میں شرمندگی کی ٹھنڈی لہر اتری۔

سچ کا سامنا

سوربھ نے اگلے ہی دن دکان کے مختلف کونوں میں چھوٹے کیمرے لگوا دیے۔ گودام کی نگرانی شروع کی۔ ہر تھیلا، ہر کارٹن اب اُس کی نظر میں تھا۔

پانچ دن بعد ایک کیمرے نے سچ بول دیا — راجو۔

راجو، جو سٹور کا سب سے پرانا ملازم تھا، جو وشواناتھ جی کے ساتھ تب سے تھا جب دکان ایک کمرہ ہوا کرتی تھی۔ راجو، جس نے وشواناتھ جی کے بچوں کو کندھے پر اٹھایا تھا۔

وہی راجو، ہر رات بند ہونے کے بعد کچرے میں ایک تھیلا چھپاتا، جس میں دو تین چاکلیٹس، شیمپو یا کوئی قیمتی چیز ہوتی۔ صبح آ کر، صفائی کے بہانے تھیلا اٹھا کر گھر لے جاتا۔

انجام

راجو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ وشواناتھ جی کے چہرے پر غصے سے زیادہ دکھ تھا۔ انہوں نے اسے پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے صرف ایک سوال کیا:
"کیوں راجو؟"

راجو نے سر جھکایا،
"بچوں کی دوا لینی تھی، پیسے کم پڑ جاتے تھے... پھر عادت بن گئی، بابو جی۔"

وشواناتھ جی نے اسے جانے دیا، لیکن دکان کے دروازے سے ہمیشہ کے لیے باہر۔

دکان پھر سے چل پڑی۔ تھیلے اب حساب سے آتے، اور حساب سے ہی جاتے۔ سوربھ نے سیکھ لیا کہ اعتماد اور نظر دونوں ساتھ چلنی چاہئیں۔

وشواناتھ جی نے بھی سیکھا کہ بعض اوقات سب سے قریبی لوگ سب سے گہرا زخم دیتے ہیں۔


ایمانداری صرف دیانت دار بننے کا نام نہیں، بلکہ ہر اشارے کو سمجھنا اور ہر ذمہ داری کو نبھانا بھی ہے۔
زندگی ایک دکان ہے — جس میں ہر عمل تول کر کیا جائے، ورنہ نقصان صرف مال کا نہیں، اعتماد کا بھی ہوتا ہے۔


ہماری منزل کیا ہے

 



کے ایف سی پر حملے اور سوشل میڈیا کی جنگ — ہمیں کس سمت جانا ہے؟

کے ایف سی (KFC) ایک بین الاقوامی فوڈ چین ہے، جو امریکی ملکیت رکھتی ہے۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں اس کے تین ہزار سے زیادہ ریسٹورنٹس کام کر رہے ہیں، جن میں ہزاروں افراد کو روزگار میسر ہے۔ پاکستان میں بھی یہ فوڈ چین خاصی مقبول ہے، اور مختلف شہروں میں اس کی متعدد شاخیں موجود ہیں۔

تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان میں کے ایف سی کے خلاف کچھ ناپسندیدہ اور افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں۔ کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں اس کی ایک برانچ پر کچھ مذہبی شدت پسندوں نے حملہ کر کے ریسٹورنٹ بند کرا دیا۔ اس کے بعد میرپور میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ چند روز پہلے راولپنڈی کے علاقے صدر میں ایک برانچ میں چند نوجوان زبردستی داخل ہوئے، وہاں موجود فیملیز کو ہراساں کیا، گالم گلوچ کی، اور انہیں باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔

یہ واقعات سوشل میڈیا پر زیر بحث آئے، خاص طور پر جب ہمارے ایک دوست نے راولپنڈی کے واقعے کی ویڈیو شیئر کی۔ اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ سوشل میڈیا پر ایک مخصوص گروپ فعال ہے جو بظاہر پانچ چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر بیرون ملک مقیم ہیں، جعلی شناخت کے ذریعے پوسٹ کرتے ہیں، اور خود کو "اسلام کے مجاہد" ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا انداز یہی ہے کہ جو شخص ان کے نظریے سے اختلاف کرے، اس پر الزامات اور گالم گلوچ کی بوچھاڑ کی جائے تاکہ وہ خاموش ہو جائے۔

اسی گروپ نے ایک پوسٹ میں ان حملہ آوروں کو "اسلام کے سپاہی" قرار دیا۔ اس کے جواب میں کچھ معتدل اور باشعور افراد نے مہذب انداز میں یہ نکتہ اٹھایا کہ ایسے اقدامات پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر ہم غیر ملکی کمپنیوں پر تشدد آمیز کارروائیاں کریں گے تو بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان سے منہ موڑ لیں گے، اور حکومت کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی جو وہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کر رہی ہے۔

بحث کا رخ فوراً جذباتی نعروں کی طرف مڑ گیا — "رزق دینے والا تو اللہ ہے!" کہہ کر اصل نکتہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ اور پھر وہی درجنوں جعلی پروفائلز ایک ساتھ سامنے آ گئیں، جن کی نہ تعلیم کا کوئی پس منظر ہے، نہ دلیل کا کوئی وزن۔ بس گالم گلوچ، الزامات، اور فتوے۔

سوال یہ ہے: کیا یہی طرزِ عمل ہمیں ایک بہتر قوم بنا سکتا ہے؟

کیا کسی برانڈ پر حملہ کر کے ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں؟ کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ہی ہم وطنوں کو خوفزدہ کیا جائے، کاروبار تباہ کیے جائیں، اور معصوم خاندانوں کی عزت نفس مجروح کی جائے؟

اصل احتجاج کا طریقہ شعور، دلیل، اور قانون کی حدود میں ہوتا ہے۔ اگر کسی پالیسی یا غیر ملکی اثر پر اعتراض ہے تو اس کا حل احتجاج، بائیکاٹ، یا سفارتی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں، نہ کہ پرتشدد کاروائیاں۔

ایسے اقدامات صرف ملک میں انتشار پھیلاتے ہیں اور بیرونِ دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کار سوچتا ہے: "کیا میں اس ملک میں سرمایہ کاری کروں جہاں کسی وقت بھی شدت پسند کارروائیاں ہو سکتی ہیں؟"

وقت آ چکا ہے کہ ہم جذبات سے نہیں، عقل اور شعور سے فیصلے کریں۔ دلیل، برداشت اور احترام وہ عناصر ہیں جو ایک مہذب معاشرہ بناتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں — تعمیر کا یا تخریب کا۔

جمعہ، 11 اپریل، 2025

میرا دل خراب ہے



یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، ایک فقرہ تھا جو دل کی گہرائیوں سے نکلا، مگر پوری قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ بات سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سینئر صحافی انصار عالم سے کہی، جب ان سے بلوچستان اور ملک کے سیاسی استحکام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس سے پہلے یہی جملہ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہہ چکے ہیں — "دل خراب ہے"۔

سوال یہ نہیں کہ ان شخصیات کا دل کیوں خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کا دل آخر خراب کیوں نہ ہو؟

ایک طرف قوم ہے جو ان ہی شخصیات کو نجات دہندہ سمجھتی ہے، اور دوسری طرف طاقت کا وہ نامعلوم مرکز ہے جو ہر بار خدمت کرنے والوں کو یا تو رسوا کرتا ہے، یا خاموشی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔

نواز شریف کو بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزی، مولانا فضل الرحمان، اور شاہد خاقان عباسی جیسے سینئر سیاست دانوں نے قومی قیادت کے لیے آگے بڑھنے کو کہا۔ مگر جواب میں یہ جملہ: "دل خراب ہے" — ان کے اندر کی تھکن، رنج اور بےبسی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔

کیا یہ وہی نواز شریف نہیں جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا؟ کیا ہر بار اسے گھر بھیجنے کا فیصلہ عوام نے کیا، یا کہیں اور سے ہوتا رہا؟ کیا کبھی ترقی کے منصوبے اس کی حکومت سے منسلک کیے گئے، یا صرف مقدمے، نااہلیاں، اور جلاوطنی؟

پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیجیے، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مگر انہیں نظر بند کیا گیا، ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ کیا یہ سب ایک آزاد ملک میں ہوا؟ یا کہیں نہ کہیں غیر ملکی اثر و رسوخ نے فیصلہ سازوں کو مجبور کیا؟

پاکستان کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اگر ریاست کے حقیقی مفاد کی بات کریں تو یا تو "چڑھا دیے جاتے ہیں"، یا "خاموش کر دیے جاتے ہیں"۔

بینظیر بھٹو کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور آج کل کی صحافت میں انصار عباسی، سلیم صافی، مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی گمشدگیاں یا مقدمات — سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بولنے، سوچنے، یا کچھ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

یہ سب ایک سوچے سمجھے نظام کا حصہ ہے، جس میں "ریاست کے مفاد" کو عوامی مفاد سے بالاتر کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو غدار، اور سچ بولنے والے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

اور یہی وہ ماحول ہے جہاں ایک مخلص سیاستدان، ایک عظیم سائنسدان یا ایک بےباک صحافی آخر کار کہہ اٹھتا ہے:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ جملہ دراصل ایک فرد کی مایوسی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔
یہ ان تمام پاکستانیوں کی زبان ہے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر جنہیں اس محبت کی سزا ملتی ہے۔
یہ ان کرداروں کی آواز ہے جو پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر ہر بار کوئی "پوشیدہ ہاتھ" انہیں روک لیتا ہے۔

اور جب تک یہ سوال باقی ہے — کیا پاکستان کسی کو پاکستان کی خدمت کرنے دیتا ہے؟
تب تک دل خراب ہوتے رہیں گے… اور شاید دل ٹوٹتے بھی رہیں۔

کیا فلسطین کو تسلیم کرنا دہشتگردی کو انعام دینا ہے؟


 

مشرقِ وسطیٰ میں جاری خونریز کشمکش، سیاسی تعطل، اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے دنیا کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جہاں ہر قدم، ہر بیان، اور ہر سفارتی فیصلہ کئی زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی طرف سے دیا گیا بیان کہ "فرانس آئندہ چند ماہ میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے"، بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔

اس بیان نے دو دھڑوں میں منقسم عالمی بیانیے کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ ایک جانب وہ قوتیں ہیں جو اس اقدام کو فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق، ریاستی حیثیت اور دو ریاستی حل کی طرف مثبت پیش رفت سمجھتی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک، جن کے مطابق یہ اقدام دراصل دہشتگردی کے لیے ایک "انعام" ہو گا، کیونکہ یہ حماس جیسے گروہوں کو حوصلہ دے گا کہ تشدد سے بھی ریاستی پہچان حاصل کی جا سکتی ہے۔

لیکن کیا واقعی یہ اتنا سادہ اور یک رخی معاملہ ہے؟ کیا کسی مظلوم قوم کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرنا صرف تشدد کی حمایت ہے، یا یہ انصاف کا تقاضا ہو سکتا ہے؟

فرانس نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہو گا کہ وہ اسے "درست" سمجھتے ہیں۔ صدر میکرون کا کہنا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے فرانس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ان عناصر کے خلاف مؤثر آواز بلند کرے جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، جیسے کہ ایران۔

یہ مؤقف بظاہر متوازن نظر آتا ہے۔ ایک جانب فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دیا جا رہا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے وجود اور سلامتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اسرائیل نے اس پر سخت ردِعمل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سار نے فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو وہ درحقیقت حماس جیسے "دہشتگرد" گروہوں کو انعام دے گا۔

اس تنازعے کی گہرائی میں جائیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ صرف سرحدوں یا ریاست کی پہچان کا نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور ایک پرامن بقائے باہمی کا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ مگر امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ فرانس کا یہ اعلان اگر عملی جامہ پہن لیتا ہے تو یہ یورپی سطح پر ایک بڑا اقدام ہو گا۔

اس اقدام سے دو ریاستی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی سر اٹھائے گا: کیا مغربی دنیا اپنی پالیسیوں میں واقعی انصاف کو مقدم رکھتی ہے یا وہ اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو؟

آخر میں، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ریاستوں کی پہچان اور ان کے عوام کے حقِ خودارادیت کا تعلق کسی گروہ یا تنظیم کی پالیسیوں سے مکمل طور پر جوڑ دینا بھی خود ناانصافی ہے۔ فلسطینی عوام کی شناخت، ان کا حق اور ان کی آزادی کسی ایک جماعت کے رویے سے مشروط نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔