پیر، 14 اپریل، 2025

ہماری منزل کیا ہے

 



کے ایف سی پر حملے اور سوشل میڈیا کی جنگ — ہمیں کس سمت جانا ہے؟

کے ایف سی (KFC) ایک بین الاقوامی فوڈ چین ہے، جو امریکی ملکیت رکھتی ہے۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں اس کے تین ہزار سے زیادہ ریسٹورنٹس کام کر رہے ہیں، جن میں ہزاروں افراد کو روزگار میسر ہے۔ پاکستان میں بھی یہ فوڈ چین خاصی مقبول ہے، اور مختلف شہروں میں اس کی متعدد شاخیں موجود ہیں۔

تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان میں کے ایف سی کے خلاف کچھ ناپسندیدہ اور افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں۔ کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں اس کی ایک برانچ پر کچھ مذہبی شدت پسندوں نے حملہ کر کے ریسٹورنٹ بند کرا دیا۔ اس کے بعد میرپور میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ چند روز پہلے راولپنڈی کے علاقے صدر میں ایک برانچ میں چند نوجوان زبردستی داخل ہوئے، وہاں موجود فیملیز کو ہراساں کیا، گالم گلوچ کی، اور انہیں باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔

یہ واقعات سوشل میڈیا پر زیر بحث آئے، خاص طور پر جب ہمارے ایک دوست نے راولپنڈی کے واقعے کی ویڈیو شیئر کی۔ اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ سوشل میڈیا پر ایک مخصوص گروپ فعال ہے جو بظاہر پانچ چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر بیرون ملک مقیم ہیں، جعلی شناخت کے ذریعے پوسٹ کرتے ہیں، اور خود کو "اسلام کے مجاہد" ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا انداز یہی ہے کہ جو شخص ان کے نظریے سے اختلاف کرے، اس پر الزامات اور گالم گلوچ کی بوچھاڑ کی جائے تاکہ وہ خاموش ہو جائے۔

اسی گروپ نے ایک پوسٹ میں ان حملہ آوروں کو "اسلام کے سپاہی" قرار دیا۔ اس کے جواب میں کچھ معتدل اور باشعور افراد نے مہذب انداز میں یہ نکتہ اٹھایا کہ ایسے اقدامات پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر ہم غیر ملکی کمپنیوں پر تشدد آمیز کارروائیاں کریں گے تو بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان سے منہ موڑ لیں گے، اور حکومت کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی جو وہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کر رہی ہے۔

بحث کا رخ فوراً جذباتی نعروں کی طرف مڑ گیا — "رزق دینے والا تو اللہ ہے!" کہہ کر اصل نکتہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ اور پھر وہی درجنوں جعلی پروفائلز ایک ساتھ سامنے آ گئیں، جن کی نہ تعلیم کا کوئی پس منظر ہے، نہ دلیل کا کوئی وزن۔ بس گالم گلوچ، الزامات، اور فتوے۔

سوال یہ ہے: کیا یہی طرزِ عمل ہمیں ایک بہتر قوم بنا سکتا ہے؟

کیا کسی برانڈ پر حملہ کر کے ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں؟ کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ہی ہم وطنوں کو خوفزدہ کیا جائے، کاروبار تباہ کیے جائیں، اور معصوم خاندانوں کی عزت نفس مجروح کی جائے؟

اصل احتجاج کا طریقہ شعور، دلیل، اور قانون کی حدود میں ہوتا ہے۔ اگر کسی پالیسی یا غیر ملکی اثر پر اعتراض ہے تو اس کا حل احتجاج، بائیکاٹ، یا سفارتی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں، نہ کہ پرتشدد کاروائیاں۔

ایسے اقدامات صرف ملک میں انتشار پھیلاتے ہیں اور بیرونِ دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کار سوچتا ہے: "کیا میں اس ملک میں سرمایہ کاری کروں جہاں کسی وقت بھی شدت پسند کارروائیاں ہو سکتی ہیں؟"

وقت آ چکا ہے کہ ہم جذبات سے نہیں، عقل اور شعور سے فیصلے کریں۔ دلیل، برداشت اور احترام وہ عناصر ہیں جو ایک مہذب معاشرہ بناتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں — تعمیر کا یا تخریب کا۔

جمعہ، 11 اپریل، 2025

میرا دل خراب ہے



یہ محض ایک جملہ نہیں تھا، ایک فقرہ تھا جو دل کی گہرائیوں سے نکلا، مگر پوری قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ بات سابق وزیرِاعظم محمد نواز شریف نے حالیہ دنوں میں سینئر صحافی انصار عالم سے کہی، جب ان سے بلوچستان اور ملک کے سیاسی استحکام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس سے پہلے یہی جملہ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کہہ چکے ہیں — "دل خراب ہے"۔

سوال یہ نہیں کہ ان شخصیات کا دل کیوں خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کا دل آخر خراب کیوں نہ ہو؟

ایک طرف قوم ہے جو ان ہی شخصیات کو نجات دہندہ سمجھتی ہے، اور دوسری طرف طاقت کا وہ نامعلوم مرکز ہے جو ہر بار خدمت کرنے والوں کو یا تو رسوا کرتا ہے، یا خاموشی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔

نواز شریف کو بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزی، مولانا فضل الرحمان، اور شاہد خاقان عباسی جیسے سینئر سیاست دانوں نے قومی قیادت کے لیے آگے بڑھنے کو کہا۔ مگر جواب میں یہ جملہ: "دل خراب ہے" — ان کے اندر کی تھکن، رنج اور بےبسی کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔

کیا یہ وہی نواز شریف نہیں جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا؟ کیا ہر بار اسے گھر بھیجنے کا فیصلہ عوام نے کیا، یا کہیں اور سے ہوتا رہا؟ کیا کبھی ترقی کے منصوبے اس کی حکومت سے منسلک کیے گئے، یا صرف مقدمے، نااہلیاں، اور جلاوطنی؟

پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ذکر کیجیے، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مگر انہیں نظر بند کیا گیا، ان پر انگلیاں اٹھائی گئیں، ان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا۔ کیا یہ سب ایک آزاد ملک میں ہوا؟ یا کہیں نہ کہیں غیر ملکی اثر و رسوخ نے فیصلہ سازوں کو مجبور کیا؟

پاکستان کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو اگر ریاست کے حقیقی مفاد کی بات کریں تو یا تو "چڑھا دیے جاتے ہیں"، یا "خاموش کر دیے جاتے ہیں"۔

بینظیر بھٹو کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، اور آج کل کی صحافت میں انصار عباسی، سلیم صافی، مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کی گمشدگیاں یا مقدمات — سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بولنے، سوچنے، یا کچھ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

یہ سب ایک سوچے سمجھے نظام کا حصہ ہے، جس میں "ریاست کے مفاد" کو عوامی مفاد سے بالاتر کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھانے والے کو غدار، اور سچ بولنے والے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

اور یہی وہ ماحول ہے جہاں ایک مخلص سیاستدان، ایک عظیم سائنسدان یا ایک بےباک صحافی آخر کار کہہ اٹھتا ہے:
"میرا دل خراب ہے۔"

یہ جملہ دراصل ایک فرد کی مایوسی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔
یہ ان تمام پاکستانیوں کی زبان ہے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، مگر جنہیں اس محبت کی سزا ملتی ہے۔
یہ ان کرداروں کی آواز ہے جو پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر ہر بار کوئی "پوشیدہ ہاتھ" انہیں روک لیتا ہے۔

اور جب تک یہ سوال باقی ہے — کیا پاکستان کسی کو پاکستان کی خدمت کرنے دیتا ہے؟
تب تک دل خراب ہوتے رہیں گے… اور شاید دل ٹوٹتے بھی رہیں۔

کیا فلسطین کو تسلیم کرنا دہشتگردی کو انعام دینا ہے؟


 

مشرقِ وسطیٰ میں جاری خونریز کشمکش، سیاسی تعطل، اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے دنیا کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جہاں ہر قدم، ہر بیان، اور ہر سفارتی فیصلہ کئی زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی طرف سے دیا گیا بیان کہ "فرانس آئندہ چند ماہ میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے"، بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔

اس بیان نے دو دھڑوں میں منقسم عالمی بیانیے کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ ایک جانب وہ قوتیں ہیں جو اس اقدام کو فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق، ریاستی حیثیت اور دو ریاستی حل کی طرف مثبت پیش رفت سمجھتی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک، جن کے مطابق یہ اقدام دراصل دہشتگردی کے لیے ایک "انعام" ہو گا، کیونکہ یہ حماس جیسے گروہوں کو حوصلہ دے گا کہ تشدد سے بھی ریاستی پہچان حاصل کی جا سکتی ہے۔

لیکن کیا واقعی یہ اتنا سادہ اور یک رخی معاملہ ہے؟ کیا کسی مظلوم قوم کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرنا صرف تشدد کی حمایت ہے، یا یہ انصاف کا تقاضا ہو سکتا ہے؟

فرانس نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہو گا کہ وہ اسے "درست" سمجھتے ہیں۔ صدر میکرون کا کہنا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے فرانس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ان عناصر کے خلاف مؤثر آواز بلند کرے جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، جیسے کہ ایران۔

یہ مؤقف بظاہر متوازن نظر آتا ہے۔ ایک جانب فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دیا جا رہا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے وجود اور سلامتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اسرائیل نے اس پر سخت ردِعمل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سار نے فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو وہ درحقیقت حماس جیسے "دہشتگرد" گروہوں کو انعام دے گا۔

اس تنازعے کی گہرائی میں جائیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ صرف سرحدوں یا ریاست کی پہچان کا نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور ایک پرامن بقائے باہمی کا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ مگر امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ فرانس کا یہ اعلان اگر عملی جامہ پہن لیتا ہے تو یہ یورپی سطح پر ایک بڑا اقدام ہو گا۔

اس اقدام سے دو ریاستی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی سر اٹھائے گا: کیا مغربی دنیا اپنی پالیسیوں میں واقعی انصاف کو مقدم رکھتی ہے یا وہ اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو؟

آخر میں، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ریاستوں کی پہچان اور ان کے عوام کے حقِ خودارادیت کا تعلق کسی گروہ یا تنظیم کی پالیسیوں سے مکمل طور پر جوڑ دینا بھی خود ناانصافی ہے۔ فلسطینی عوام کی شناخت، ان کا حق اور ان کی آزادی کسی ایک جماعت کے رویے سے مشروط نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بدھ، 9 اپریل، 2025

ظاہر و باطن کا تضاد اور اس کے معاشرتی اثرات:




 

اسلامی تناظر میں ظاہر و باطن کا تصور

اسلامی تعلیمات میں ظاہر اور باطن دونوں کی اصلاح کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

"إنَّ أكرمَكم عندَ اللَّهِ أتقاكم"
"بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے" (الحجرات: 13)

یہ آیت اس تصور کو مسترد کرتی ہے کہ صرف ظاہری مذہبی علامات یا سماجی مقام کسی کی برتری کا سبب بن سکتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم"
(صحیح مسلم)
"بے شک اللہ تمہارے چہروں اور مال کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔"

یہ تعلیمات ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ظاہری نمائش کے بجائے باطنی صفائی اور کردار کی تطہیر اہم ہے۔


معاشرتی تجزیہ

1. معاشرتی منافقت (Hypocrisy as a Social Norm)

معاشرے میں "ظاہر داری" کو فضیلت سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً، لوگ دوسروں کی نظر میں اچھے بننے کے لیے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو وہ اصل میں نہیں ہوتے۔ اس رویے نے خلوص، اعتماد، اور سچائی کو کمزور کیا ہے۔

2. سماجی تعلقات میں عدم اعتماد

ظاہر و باطن کے تضاد نے افراد کے درمیان اعتماد کے بحران کو جنم دیا ہے۔ جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سامنے والا وہ نہیں ہے جو نظر آتا ہے، تو دلوں میں بدگمانی، شک، اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔

3. دینی طبقات کی ساخت پر اثر

مذہبی لباس اور ظاہری شناخت کو تقویٰ کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ جدید لباس پہنتے ہیں یا مذہبی علامات اختیار نہیں کرتے، ان پر اعتماد کم کیا جاتا ہے، چاہے ان کے اعمال اور باطن زیادہ صاف ہوں۔

4. نوجوانوں پر اثر

نوجوان نسل ایک الجھن کا شکار ہے۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ "نظر آنا" زیادہ اہم ہے، بجائے اس کے کہ "اصل میں اچھا ہونا"۔ سوشل میڈیا نے اس رویے کو مزید فروغ دیا ہے، جہاں "فالوورز" اور "لائکس" ظاہری خوبصورتی کی بنیاد پر ملتے ہیں، کردار کی بنیاد پر نہیں۔


مثالیں

  • ایک اسکول پرنسپل جو نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے لیکن اساتذہ کی تنخواہیں دباتا ہے۔

  • ایک نوجوان جو سوشل میڈیا پر حجاب کے فضائل بیان کرتا ہے، مگر نجی زندگی میں غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے۔

  • ایک سیاسی رہنما جو عوام کے سامنے عاجزی سے پیش آتا ہے لیکن ذاتی زندگی میں تکبر کا پیکر ہوتا ہے۔


نتائج  

  1. ظاہر و باطن کا تضاد معاشرے میں اخلاقی زوال کا سبب بن رہا ہے۔

  2. اس تضاد نے اعتماد، خلوص، اور سچائی جیسی اقدار کو کمزور کیا ہے۔

  3. معاشرتی قبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگ منافقانہ رویے اختیار کرنے لگے ہیں۔

  4. ظاہری خوبصورتی اور نمائش کو کردار اور اخلاق پر فوقیت دی جا رہی ہے۔


ظاہر و باطن کا تضاد آج ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تضاد نے نہ صرف انفرادی شخصیت کو مجروح کیا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی خلوص، دیانت، اور سچائی جیسی بنیادی اقدار کو متزلزل کیا ہے۔ اگر ہم ایک متوازن، پرخلوص، اور بااعتماد معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ظاہری نمائش کے خول کو توڑ کر باطن کی پاکیزگی کو ترجیح دینی ہو گی۔ یہی وہ راستہ ہے جو فرد، معاشرہ، اور اُمت کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔