منگل، 11 جولائی، 2023

آخری انقلاب



پاکستان میں دو قسم کے انقلاب آتے رہے ہیں۔ پہلی قسم کو ظاہری اور دوسری کو خفی کہا جا سکتا ہے ۔ ظاہری انقلابوں میں پہلا جنرل ایوب خان نے 1958 میں برپا کیا تھا۔ دوسرا انقلاب جنرل یخیی خان نے 1969 لایا۔ پھر1977 میں جنرل ضیاء نے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی روایات میں تین کا عدداہمیت کا حامل ہے ۔ چوتھی بار دروازے پر دستک دینے سے بھی احترازکی نصیحت موجود ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے مگر چوتھا انقلاب 1999 میں مسلط کر دیا۔ ان انقلابات کا سبب سیاست دانوں کی ﴿کرپشن﴾ بتایا گیا۔ کرپشن کے خلاف مگر خفیہ انقلابات بھی برپا کیے جاتے رہے ۔ ﴿کرپشن﴾ ایسا شیطانی دھندہ ہے جوپاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ۔ اسی لیے ( Public Representation Office Disqualification Act ) پروڈا نامی انقلابی ایکٹ جاری تو 1949 میں ہوا مگر اسے نافذ اگست 1947 سے کیا گیا تھا ۔ بات مگر بنی نہیں تو ﴿Public Office Disqualification Order ﴾ پوڈو ۔۔۔ سے لے کر موجودہ نیب ترمیم تک خفی انقلابوں کی لمبی داستان ہے ۔ ہر انقلاب سے پہلے ایک تقریر سنائی جانے کی روائت کو برقرار رکھا گیا۔ تازہ ترین تقریر دس جولائی 2023 کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستان کے سپہ سالار نے کی ہے ۔خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان ایک سال میں اپنی معاشی کسمپرسی پر قابو پالے گا ۔ 

اسی تقریب میں ﴿مقر ر ﴾ زرعی انقلاب کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ جنرل ایوب کے دور میں زرعی انقلاب بھی برپا کر لیا گیا تھا۔ جس کے چند سال بعد ہی ملک میں قحط پڑ گیا تھا۔ ہم کچھ نیا کرنے کی بجائے تجدید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے پر ہم نے نیا پاکستان بھی بنا لیا تھا مگر 2018 میں دوبارہ نیا پاکستان بنا ڈالا جو اپریل 2022 سے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے ۔

تازہ ترین سبز انقلاب کی خوشی میں میڈیا پر بحث جاری ہے اور تقریب میں موجود سامعین کا کہنا ہے ۔ تقریر کے دوران ماحول جذباتی ہو گیا اور لوگوں نے کھڑے ہو کر ﴿ نعرہ تکبیر ﴾ بھی بلند کیا۔ 

غیر جذباتی مبصرین البتہ اس انقلاب کو ملک کا آخری انقلاب بتاتے ہیں ۔ ہم ان تمام مایوسی کے شکار مبصرین پر چار حروف بھیجتے ہیں ۔ ہمارے بس میں اور ہے بھی کیا؟

پیر، 10 جولائی، 2023

پروپیگنڈہ




جانور چلتے پھرتے ہیں، کھاتے سوتے اور بولتے بھی ہیں۔ جو کام جانور نہیں کر سکتے و ہ ہے  (پروپیگنڈہ)  پروپیگنڈہ جو کہ جھوٹ،ناکامیوں اور خواہشات کے بیج سے جڑ پکڑتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ قوی درخت بن جاتا ہے۔صرف حقیقت کا بگولہ ہی اسے کمزور کرتا، گراتا یا جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔ 

 جب مسلمان فاتح بن کر مکہ میں داخل  ہو رہے تھے تو  (ہندہ) نے حیرت سے اپنے خاوند سے پوچھا  تھا(کیا ہم واقعی غلط تھے)  یہ وقت تھا جب پرپیگندہ کا شجر نا پائیدار حقیقت کے سامنے سر نگوں ہو رہا تھا۔

 جرمنی کے ہٹلر کے پیروکاروں کے سامنے جب حقیقت کا عفریت فوجی شکست کی صورت میں آکھڑا ہوا تو ان کے پروپیگنڈہ کا درخت بھی زمین بوس ہو گیا 

پاکستان کے اندر 1968 میں جب عشرہ ترقی منایا جا رہا تھا تو بہاولپور میں حقیقت کے بگولے نے عوام کی آنکھیں کھولیں اور لوگوں نے ترقی اور کامیابی کی ریل کو سیٹی بجاتے مگر جلتے دیکھا۔ وہ سچ کا بگولہ تھا جس نے عوام کی آنکھیں کھولی تو 1954 سے شروع ہونے والے پروپیگنڈہ کادرخت زمین بوس ہو گیا۔

ہر انسان جو ذہنی طور پر سچ اور جھوٹ میں تمیز کی صلاحیت نہیں رکھتا، عمل کی استعداد سے محروم ہوتا ہے، اور اپنی خواہشات کے پورا ہونے کے لیے کسی معجزہ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔پروپیگنڈہ کا یقینی شکار ہو جاتا ہے۔ 

پروپیگنڈہ کی دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک جو پروپیگنڈہ سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں دوسرے وہ جن کے بل بوتے پر وہ مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر  (ع)  ایک یوٹیوبر ہے جو ہمیشہ ایک سیاسی شخصیت  کے گن گاتا ہے۔ سیاسی شخصیت کے پیروکار اس کی باتوں کو پسند کرتے ہیں اور اس کی ویڈیو دیکھتے ہیں۔ بدلے میں  (ع)  یو ٹیوب سے ڈالر میں چیک وصول کرتا ہے۔  (ع)  کو ادراک ہو چکا ہے کہ اس کی آمدن  سیاسی شخصیت کی تعریف سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ (ع)  بعض اوقات  اپنے ممدوح بارے ایسے جملے ادا کرتا ہے جو فیک نیوز یا جھوٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہی فیک نیوز اور جھوٹ  ہی پروپیگنڈہ کہلاتا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ کو ایسے ویڈیو کلپ نظر آئیں گے جن کے عنوان آپ کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کرلیں گے مگر ان ویڈیوکلپ کو چلا کر دیکھیں تو وہ عنوان سے متعلق ہی نہیں ہوں گے۔

فیک نیوز اور جھوٹ یعنی پروپیگنڈہ کی تشہیر کرنے والے عناصر ان لوگوں کو باربار اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے تیسری دنیا سے لا تعداد لوگ جو خود کو باخبر اور تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ نشانہ بن جاتے ہیں۔

 دی گارڈین اخبار میں 12 جون 2022 کو ایک مضمون میں کہا گیا کہانٹرنیٹ پر ایک چاٹ بوٹ اس قابل ہے کہ وہ اظہار بیان کے ساتھ ساتھ انسان جیسے محسوسات سے بھی لبریز ہے۔ یہ اتنی بڑی فیک نیوز تھی کہ ایک اخبار کی سرخی  اور ایک معروف انجیئنئر کی برطرفی کا سبب بنی۔مگر اس مضمون کی اشاعت سے قبل تک آئی ٹی سے وابستہ سیکڑوں سینئر انجینیر اور کمپنیاں اس بات پر یقین کرتی رہیں۔ جھوٹ بیج کی طرح ہوتا  ہے اور کوئی بھی بیج بلا مقصد نہیں بویا جاتا بلکہ مفاد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ مفاد جتنا بڑا ہو گا اس کے پیچھے پروپیگنڈہ بھی اتنا زیادہ ہوتا ہے۔  

پروپیگنڈہ کی زندگی ہمیشہ مختصر نہیں ہوا کرتی بلکہ اکثر اوقات عشروں پر پھیل جاتی ہے۔ سویت یونین میں کمیونزم دم توڑنے سے قبل عشروں تک کروڑوں لوگوں پر حکومت کر چکا تھا۔ مگر اسی دور میں سویت یونین کے سفارت خانے سے ایک میگزین شائع ہواکرتا تھا جس کے ماتھے پر لکھا ہوتا تھا   (سچ کی طرح سادہ)


اصفہان کا کتا



ہمارے معاشرے میں ہر روز کوئی نہ کوئی انوکھا وقعہ رونماء ہوتا ہے ۔ سبب اس کا یہ ہے ۔ یہ پچیس کروڑ نفوس کا ملک ہے ۔ جس میں اعلی تعلیم یافتہ سے لے کر جاہل ترین لوگ بھی بستے ہیں ۔ آبادی قبائل و اقوام کا مجموعہ ہے ۔ روسم و رواج اور روائیات ہر چند کلو میٹر بعد بدل جاتی ہیں ۔ کہیں دوستیاں پالی جاتی ہیں تو کہیں دشمنیوں پر لخت جگر قربان کیے جاتے ہیں ۔ یہاں انسانیت پر زندگی وار دینے والے موجود ہیں تو سیکڑوں بے گناہوں کی جان لینے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں ۔ ہمارے ارد گرد لنگر خانے موجود ہیں تو گھر کے اندر گھس کر والدین کے سامنے معصوم بچیوں کی عزت سے کھیلنے والے بھی نایاب نہیں ہیں ۔ معاشرے کے سدھار کے لیے تبلیغی جماعت سرگرم ہے تو شیطانی کاموں کا پرچار کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ مگر نو مئی کا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انوکھا ہی نہیں منفرد بھی ہے ۔اس دن ہم نے خود ہی خود پر حملہ آور ہو کر خود ہی کو لہولہان کر لیا ۔ اور خود ہی اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں ۔ 

 میرے شہر کے مضافات میں ایک زمیندار گھرانے کے اکلوتے لاڈلے نوجوان بیٹے نے باپ کو زمین اس کے نام منتقل نہ کرانے پر اپنے باپ پہ کی گن سے باپ ہی کو قتل کر دیا ۔ اسے قید کی سزا ہوگئی تو اس کی ماں کے آنسو خشک ہوگئے ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا میں اپنے خاوند کی موت پر آنسو بہاوں یابیٹے کے قید ہونے پر ۔۔۔ اسی محفل میں اس کے خاندان کی ایک جہاندیدہ رشتے دار عورت نے اسے مخاطب کر کے آنسو بہانے کی بجائے اپنی تربیت پر بین کرنے کا طعنہ دیا تو اس ماں کی آنکھیں چھلک پڑہیں۔ زمین اور مکان اکلوتے مجر م بیٹے کو رہا کرانے پرنچھاور کر کے ما ں بیٹے کو لے کر شہر میں کرائے کی کھولی میں آبسی ۔ بیٹا دن میں گاڑیاں دھوتا اور رات کو ماں سے مطالبہ کرتا کہ اس کی شادی کی جائے ۔ پھر بات مار پیٹ تک آئی اور آخر کار ماں کو قتل کر کے کہیں بھاگ گیا ۔ 

چند سال قبل ماں دیسی دھرتی والی نظم بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس نظم کا تعلق وکیلوں کی تحریک سے تھا جو منصفوں کی آزادی کے لیے برپا کی گئی تھی۔ تحریک کامیاب ہوئی منصف آزاد ہوگئے ۔ ایسے آزاد ہوئے کہ اپنے ہی بیٹے کی خرمستیوں پر خود ہی انصاف کرنے بیٹھ جاتے ۔ دوسرے منصف کی عدالت میں جاتے تو موبائل فون اس کے منہ پر دے مارتے ۔ رات کو ناول پڑہتے اور دن کو سسلین مافیا کہہ کر فیصلے دیتے ۔ ذاتی عناد و رنجشوں کا مداوا انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کرتے اور بضد رہتے کہ اسے انصاف کہا جائے ۔ سیاسی کرسی کے امیدواروں کو ساتھ لے کر ہسپتالوں کے دورے کرتے اور ذاتی تشہیر کے لیے تصویریں شائع کراتے ۔ عوام کو انصاف دینے کی بجائے ڈیم کی تعمیر کے لیے دولت جمع کرتے ۔ اگر حکومت کسی اہلکار کی تعیناتی کرتی تو سٹے آرڈر دے کر حکومت کو زچ کرتے ۔ تبادلے کے مقدمے میں سے انتخابات کی تاریخ برآمد کرکے الیکشن کمیشن پر اپنی دھونسس جماتے ۔کیس کی بجائے فیس دیکھنے کی اصطلاح اسی دور میں سنی گئی ۔شائد اس لیے کہ وکیل کی بجائے جج کر لینے کی اصطلاح پرانی ہو چکی تھی۔انصاف مانگنے والوں کی فائلوں کے جمع ہو جانے والے ڈھیرسے عوام مایوس ہو کر لوگوں نے عدالت کے باہراپنی فائلوں کو جلایا ۔ منصفوں پر ان کے کمرہ عدالت میں کھڑے ہوکر راشی ہونے کا شکوہ کیا ۔اپنے لا پتہ عزیروں کی بازیابی کی فریادیں کیں ۔ مگرجج صاحبان ثروت سیاسی لیڈروں کے مقدما ت تک محدود ہو کر رہ گئی۔ عوام کو ادراک ہو گیا ٹرک کا مطلب بڑی نوٹوں کی گڈیاں ہیں ۔ 

اسی دھرتی ماں کی گود میں پل کر جوان ہونے والوں میں سے کچھ نے دھرتی کے لیے اپنا خون پیش کیا ۔ عوام نے انھیں شہید کا رتبہ دیا ۔ تمغوں اور نشانوں سے نوازا ۔ ا نکے لیے ترانے گائے اور وسائل مہیا کیے ۔ ان ہی ہونہار سپوتوں میں مارشل لائی جرنیل پیدا ہو گئے ۔ جو آئین کو ردی کاغذ پکارتے اور عوام کی خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ۔ بیرون ملک اثاتے بناتے اور اندرون ملک عوام کو ان پڑھ اور جاہل کے طعنے سے نوازتے ۔سیاسی رہنما ٰوں کو دم ہلا کر پیچھے چلنے والے بتاتے ۔ انھوں نے مسلح ہو کر ہر غیر مسلح فرد اور ادارے پر قبضہ کر لیا ۔عوامی وسائل پر قابض ہو کر عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی دلدل میں جھونک دیا۔ سوال اٹھانے والوں کو اٹھانے کی روائت چل نکلی ۔

ان حالات میں ایک سیاسی لیڈر انصاف کا جھنڈا اٹھائے ٹی وی کی اسکرینوں پر نمودار ہوا۔ اس نے نوے دن میں کرپشن ختم کر کے ، ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کر کے دینے کا وعدہ کیا۔ پولیس اصلاحات کا چکمہ دیا، انصاف تک دسترس کا نعرہ لگایا،معاشی ، اخلاقی، معاشرتی بہتری کی نوید سنائی۔ رشوت اور سفارش کا خاتمہ کر کے میرٹ پر کام ہو جانے کی خوش خبری سنائی، تعلیم کو عام کرنے کا نعرہ لگایا ۔عوام کی عزت نفس کی بحالی کی وعدہ کیا۔ بیرون ملک سے آمدہ فنڈز کے بل بوتے پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی ذات کی تشہیر کر کے عوام کو پکے ہوئے میووں کے شاداب اور سرسبز باغ دکھائے ۔ مگر صرف ساڑہے تین سالوں میں ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پھنس گئی ۔ عدلیہ، فوج ، پولیس سمیت ہر ادارے کوبے وقعت کر دیا گیا ۔ کرپشن اور لوٹ مار کے باعث ہر طرف بدامنی اور بے روزگاری نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیے تو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے ایون اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔ تو اس نے معاشی طور پر تباہ ملک کے لیے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کی حکومتی کوششوں کو سبوثاز کرنے کی کوشش کی ، لانگ مارچ اور ریلیوں کا ڈول ڈالا۔ سیکڑوں پولیس اہل کاروں کو زخمی کیا اور جان سے مارا۔ عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کی روائت قائم کئی۔اور بالاخر نو مئی کو ملکی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہو گیا ۔

ماں رحمدل اور مہربان ہوتی ہے ۔ لاڈلا بیٹا باپ کو قتل بھی کر دے تو ماں ممتا سے مجبور ہو کر ساری جائیدا د بیچ کر بیٹے کو تو بچا سکتی ہے مگر مگر بیٹے کی انتہا پسند اور قاتل فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتی ۔ 

پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کی دھرتی ہے ۔ چند لاکھ انتہا پسندوں اور قاتل فطرت لوگوں کو ملک کا امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ ملک آئین و قانون پر عمل کر کے ہی ترقی کر سکتے ہیں ۔ مگر اپنی آزادی کی خوشی میں ایسی انگڑائی کی اجازت نہیں دی سکتی جو دوسرے شہری کی ناک ہی توڑ کر رکھ دے ۔۔

اس شر پسند ٹولے کو ان ہی ہتھ کنڈوں سے نتھ ڈالی جا سکتی ہے ۔جو وہ دوسروں پر آزماتے ہیں 

فارسی زبان کی کہاوت ہے ﴿اصفہان کے بھیڑے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے ﴾


جمعرات، 6 جولائی، 2023

گوشت مبارک




 جب قارئین اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں گے عید گذر چکی ہو گی  پھر بھی عید مبارک۔عید منانے والی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ سعودی عرب والوں کے ساتھ تو دوسرا حصہ اپنے کیلنڈر کے مطابق عید مناتا ہے۔ پاکستان میں آج عید ہے جبکہ سعودی عرب  سمیت کچھ ممالک میں کل عید تھی۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ چند سال قبل تک عید اسی دن مناتے تھے جس دن سعودی عرب میں عید ہوتی تھی۔ کل صبح لندن میں مقیم بیٹے کو عید مبارک کہنے کے لیے کال کی تو معلوم ہوا کہ ان کی مسجد والے آج عید نہیں منا رہے بلکہ  (ہماری)  عید کل ہو گی۔  


میرے بچپن میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں چاند نظر آجاے تو پختون خواہ والے بھی عید کر لیا کرتے تھے۔ میری جوانی کے دنوں میں پختون خواہ اور بلوچستان میں الگ الگ دن عید ہوتے بھی دیکھی ۔ پھر ہم نے ایک لاکھ آبادی والے شہر میں تین تین عیدیں بھی دیکھیں۔


دارلعلوم دیوبند والے کہتے ہیں  (اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)


سادہ سی بات ہے کہ آج پاکستان میں جمعرات ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی جمعرات ہی ہے۔ پاکستان میں دن کا آغاز ہونے کے دو گھنٹے بعد سعودیہ میں دن کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے دو گھنٹے بعد لندن میں دن شروع ہوا۔  تاریخ البتہ تینوں جگہ ایک ہی ہے۔ عید منانے کے لیے دو گھنٹے کا فرق پورے ایک دن میں بدل جاتا ہے۔ 


علماء دین سنن النسائی کے حوالے سے روائٹ پیش کرتے ہیں کہ مدینہ میں موجود حضرت ابن عباس نے شام میں چاند نظر آنے کا اعتبار نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف دین ہی کے علماء یہ بھی مانتے ہیں کہ ابن عباس کے دور میں مدینہ سے شام تک کا تیز ترین گھوڑے پر سفر بھی کم از کم  آٹھ دن کا تھا۔ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ  (چاند نظر آجائے یا نظر آنے کی اطلاع مل جائے تو عید کر لینی چاہیے) نبی اکرم  ﷺ  کی روایات اور امام ابو حنیفہ کی ہدایات یہ ہیں کہ چاند نظر آنے کے بعد عید کر لینی چاہیے۔ 2016 میں ترکیہ کے شہر استنبول میں دنیا بھر سے مسلمان اسکالر جمع ہوئے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پوری دنیا میں عید ایک ہی دن ہونی چاہیے۔ اور دلیل یہ دی گئی کہ دن کی ابتداء ہر ملک میں مختلف وقت میں ہوتی ہے۔ اگر جمعرات کے دن پاکستان میں صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے تک ہو سکتی ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی یہی اصول نافذ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ میں دن دو گھنٹے بعد اور لندن میں مزید دو گھنٹے بعد شروع ہو گا۔ یہی وہ بنیادی دلیل ہے جس کو تسلیم کر کے او آئی سی نے دنیا بھر میں ایک ہی دن عید کرنے کی سفارش کی تھی۔ 


اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھ کر عید کرنے کی بجائے۔ دوسرے فرد کی شہادت کوتسلیم کرنے کی تاکید موجود ہے۔ فرد کی بجائے ادارے کی شہادت کو قوی تر مانا جاتا ہے۔ 


عید قربان پر حضرت ابراہیم کی عظیم قربانی پر خراج تحسین پیش کرنے پر کتنے جانور قربان کیے جاتے ہیں اور اس پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے، کا حساب لگانے کی کوئی موثر طریقہ حساب موجود نہیں ہے۔ مگر اس سال صرف سعودیہ میں قربانی کے لیے بیرون ملک سے درآمد جانوروں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے۔ اس تعداد میں وہ جانور شامل نہیں ہیں جومقامی طور پر پالے گئے تھے۔ اس تعدا د کو ذہن میں رکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال عید قربان پر دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر کی رقم خرچ کر کے، اللہ تعالی کے عظیم پیغمبر کی عظیم قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے۔ مسلمان قربانی کے جانور پر رقم خرچ کر کے اپنے دل کو مطمن کرتے اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ 


پچھلی عید الفطرپر ایک پروفیسر صاحب نے نجی محفل میں سوال اٹھایا تھا  (کیا دین کا مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تعلیمات اور علوم کی روشنی میں اپنے تہوار ایک ہی دن منائیں) اس سوال کا جواب طویل مدت سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں مل رہے۔ یہ شعر تو ایمان کی حدت کو دھکاتا ہے

مسجد تو شب بھر میں بنا دی ایمان کی حرارت والوں نے 

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نماز ی نہ بن سکا


پچھلی عید الفطر پر ایک  گیارہ سالہ بچے نے کہا  تھاساری دنیا عید منا رہی ہے اور ہم نے شیطان کی طرح روزہ رکھا ہوا ہے۔


دین کے بارے میں نئی نسل کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے۔ جو تشویش کی بات ہے۔ مگر جس طبقے کو تشویش میں مبتلاء ہونا چاہیے  وہ مسلمانوں کی عید کی بجائے  (ہماری)  عید کا اسیر ہے۔ ٹیکنالوجی اور علوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے کٹ ہجتی کا سہارا لیتا ہے۔ 

جمہوری معاشروں میں اپنی سنائی جاتی ہے تو دوسروں کو سنا بھی جاتا ہے۔ اپنی دلیل منوائی جاتی ہے تو دوسروں کی مانی بھی جاتی ہے۔ عادل منصف وہی ہوتا ہے جو فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کا موقف سنتا ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ خود کو حق کا راہی اور دوسروں کو گمراہی کا مسافر سمجھا جاتا ہے۔ مگر درد یہ ہے کہ اس روش کا شکار وہ دین کا علمبردار ہے جو خود کو پیغمبرانہ تعلیمات کا وارث گردانتا ہے۔ مگر فرماتا ہے 

(اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)

عید گذر چکی ۔ قربانی ہو گئی۔ گوشت مگر باقی ہے۔ گوشت مبارک

منگل، 27 جون، 2023

اندر یا باہر






تسبیح ہر مذہب میں روحانیت کا لازمی جزو رہا ہے۔ تسبیح سے جڑے بے شمار قصے کتابوں میں درج ہیں۔ ایک قصہ پنجاب کے حکمران  مہاراجہ رنجیت سنگھ سے جڑا ہوا ہے۔ رنجیت سنگھ بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر مذہبی تھا کہ میدان جنگ میں بھی گرنتھ صاحب کو ساتھ رکھا کرتا تھا مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ سیاسی میدان میں قابلیت کا قائل تھا۔ اس کے مشیروں میں عیسائی، سکھ، ہندو، مسلمان  بھی شامل تھے۔ یہی حال اس کی فوج کا تھا جس میں ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں کے افراد اپنی خدمات مہیا کرتے تھے۔ اس کے مسلمان مشیروں میں ایک بڑا نام عزیزالدین( 1845-1780  ) کا ہے۔ عزیزالدین  ایک ماہرمعالج، سفارتکار اور سیاستدان تھا۔ دوسری ریاستوں اور ممالک سے رنجیت سنگھ کی طرف سے سفارتکاری اور معاہدے وہی کیا کرتا تھا۔ 1809 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے طے پانے والا مشہور معاہدہ امرتسر عزیزالدین کی سفارتکاری کا ہی نتیجہ تھا۔

عزیز الدین کی عادت تھی کہ وہ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح رکھا کرتا تھا۔ اور تسبیح کے دانوں کو ہمیشہ اندر کی طرف لیا کرتا تھا۔ رنجیت سنگھ کے پاس  بھی ایک تسبیح تھی۔ جس کو وہ گرو کی عطا کردہ مالا کہا کرتا تھا۔ مہاراجہ کو گرو نے نصیحت کی تھی جب بھی مالا جپو اس کے دانے کو باہر کی طرف لینا۔ 

ایک بار مہاراجہ نے عزیزالدین کو کہا۔ مجھے تو گرو کی نصیحت ہے کہ دانے باہر کی طرف لیا کروں۔ کیا آپ کے گرو نے دانے اندر کی طرف لینے کی نصیحت کی ہوئی ہے۔ 

ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والے وسیع المطالعہ عزیزالدین جس نے بطور انکسار اپنے نام کے ساتھ فقیرکا  لاحقہ لگا لیا تھا، نے مہاراجہ کو جواب دیا۔آپ کے گرو کی نصیحت کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ آپ مالا کے دانے باہر کی طرف لے کر شر کو دفع کرتے ہیں جبکہ میں دانے اندر کی طرف لے کر خیر کو دعوت دیتا ہوں۔ 

یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے کا سبب یہ انکشاف ہے کہ ہمارے ایک سیاستدان کو اس کی مرشد نے اسلام آباد میں تسبیح دی تو نصیحت کی تھی کہ تسبیح کے دانے اندر کی طرف لینا مگر جب وہ سیاست دان لاہور منتقل ہونے لگا تو مرشد نے نصیحت کی لاہور پہنچنے کے بعد تسبیح کے دانے باہر کی طرف لینا۔ 

ہمارے نزدیک تسبیح کے دانے اندر کی طرف لیے جائیں یا باہر کی طرف یہ سیاسی حالات پر اثر انداز نہیں ہوتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی  شخصیت نے جب سے دانے باہر کی طرف لینے شروع کیے ہیں ملک میں شر میں اضافہ ہو ہوا ہے۔اس شر کا پہلا شکار زمان پارک کے رہاشی ہوئے۔ پھر اس شر نے پنجاب اور اسلام آباد کے درجنوں پولیس کے ملازمین کو ہسپتالوں کا منہ دکھایا۔ کچھ کو موت کا فرشتہ اچک لے گیا۔اس شر کا شکار ایسی سیاسی شخصیات بھی ہوئیں  جن کو حالات کی تتی ہوا بھی چھو کر نہیں گزرتی تھی وہ جیل میں بند ہیں یا مفرور ہیں۔ کچھ جرنیل اور جج بھی اس شر کا مزہ چکھ چکے۔

روحانیت کی دنیا بھی عجیب ہے۔ میرے ایک دوست اپنے مرشد بارے بتاتے ہیں کہ ان کے ایک مرید نے یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور مرشد سے روحانی مدد کا طلب گار ہوا۔ مرشد نے مدد کا وعدہ کیامگر یہ وعدہ بھی لیا کہ الیکشن پر ایک روپیہ بھی خرچ کرو گے نہ کسی سے ووٹ مانگنے جاوگے۔ ہوا یہ کہ مخالف امیدوار الیکشن سے قبل ہی دسبردار ہو گیا یوں صاحب بلا مقابل جیت کر مرشد کی خدمت میں پیش ہوئے تو مرشد نے پوچھا۔الیکشن میں کتنے خرچ کا اندازہ تھا۔ مرید نے بتایا پانچ لاکھ۔ مرشد نے حکم دیا تین لاکھ رروپے فلاں درگاہ کی تعمیر کے لیے بجھوا دو۔ مرید نے وعدہ تو کر لیا مگر رقم نہ بجھوائی۔ اگلے سال صوبائی اسمبلی کے الیکشن تھے۔ مرید دوبارہ روحانی امداد کا طلب گار ہوا اور عرض کی الیکشن لڑوں گا مگر مجھے ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے نہ روپیہ خرچ کرناپڑے۔ مرشد نے فرمایا وہ وقت گذرچکا  اس بار ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے گا اور روپے بھی خرچ کرنا ہوں گے۔

روحانی معاملات کو سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ روحانیت میں بھی ریڈلائن ہوتی ہے اگر اسے کراس کر لیا جائے تو صاحب روحانیت خود آزمائش کا شکار ہو جاتا ہے۔ روحانیت پر لکھی گئی کتابوں میں ایسے سیکڑوں واقعات ملتے ہیں۔ 

سیاسی شخصیت کی مرشد نے بھی شائد ایسی ہی کسی ریڈ لائن کو کراس کر لیا ہے۔ اور صاف طور پر بتا دیا ہے کہ دانے باہر کی طرف لیتے رہو گے تو شر پھیلتا ہی جائے گا مگر جس دن دان اندرکی طرف لیا ہم دونوں ہی گرم کڑاہی میں تلتی مچھلی کی طرح تلے جائیں گے۔ 

شنید ہے اس بار ایک ہم راز کو چین میں ایک بین الاقوامی مرشد کے پاس بھیجا گیا۔ مرشد نے فیس وصول کی مہمان کو چینی قہوہ پلایا اور بتایا معاملہ اندر یا باہر کی طرف لینے کا نہیں ہے۔ اصل مسٗلہ منہ میں موجود  (ڈانسر)  کا ہے۔