منگل، 20 دسمبر، 2022

ایک اور خط



چند عشرے قبل تک خط رابطے کا موثر ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ملک کے اندر عام طور پر خط تین دن میں پہنچ جاتا تھا  اور بیرون ملک خط سات دنوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ لیکن تاریخ میں خط کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے۔کربلا میں شہید کر دیے جانے والے نواسہ رسول حضرت امام حسین کے نام اہلیان کوفہ کے لکھے گئے خطوط کا ذکر کیے بغیر واقعہ کربلا مکمل ہی نہیں ہوتا۔

 اس سے قبل خلفائے راشدہ دور کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفوان کی شہادت میں خطوط نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خلیفہ کے مخالفین کی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہوا یہ کہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کو خطوط میں بتاتے کہ مدینہ منورہ  میں خلیفہ وقت کرپشن،  اقربا پروری میں مبتلا ہو کر بے انصافی کر رہے ہیں۔ اسی مضمون کے خطوط مصر والے بصرہ والوں کو اور بصرہ والے کوفہ والوں کو لکھتے۔ جس سے مدینہ سے دور بسنے والے مسلمانوں میں بھائی چارے کے جذبے تحت مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوئی اور مختلف شہروں سے نوجوان مدینہ المنورہ پہنچنے شروع ہوگئے۔ تاریخ نویسوں نے واقعہ شہادت عثمان میں خطوط کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا۔

موجودہ دور میں خط لکھنا متروک عمل ہے مگر سیاسی مقاصد کے لیے یہ کام  2022میں کیا گیا۔ ہوا یہ کہ پاکستان کے ایک صحافی ارشد شریف ((1973-2022  کینیا میں قتل کر دیے گئے۔ارشد شریف کے قتل کا الزام ایک سیاسی جماعت ایک پاکستانی ایجنسوں پر لگاتی اور جواب میں یہی الزام ایک سیاسی رہنما پر لگایا جاتا۔ البتہ حکومت نے ایک تفتیشی ٹیم بنائی مگر سیاسی جماعت بضد تھی کہ اس قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور مقدمے میں ان افراد کو نامزد کیا جائے جن کا نام وہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس مہم کی ناکامی کے بعد یہ مہم  خطوط کے ذریعے چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت عدالت عظمی کو خطوط لکھے گئے ۔خط لکھو مہم کامیاب ہوئی،  عدالت عظمی نے ان خطوط کا نوٹس لیا اور پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ یوں اس ڈیجیٹل دور میں خطوط کو ایک بار پھر سیاسی طور پر کامیابی سے استعمال کیا گیا۔


پیر، 19 دسمبر، 2022

متھ تھن جن



شسط کا لفظ ہم نے پہلی بار اپنے نوجوانوں کے مبینہ لیڈر جناب عمران خان نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیا تھا۔ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ قوم کی تربیت کر رہے ہیں اس لیے ان کی سیاسی،  تقریر کم اور لیکچر زیادہ ہوتی ہے۔ اوراپنے لیکچرز میں ایک ہی بات کو بار بار دہرا کر اپنے زیر تربیت نوجوانوں کو ازبر کرا دیتے ہیں۔ اور آفرین ہے ان نوخیز ذہنوں پر جو تعلیی مواد تو ازبر نہیں کر پاتے مگر ان لیکچروں میں دیے گئے بیانیوں کو فوری ازبر کر لیتے ہیں۔ ہم نے سنجیدگی سے، تعلیم سے وابستہ اپنے دوست اساتذہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خان صاحب کی تیکنیک سمجھیں پھر اس پر عمل کر کے اس کامیاب عمل سے اپنی اپنی کلاس کو مستفید کریں۔ لیکن میرے دوستوں نے بھی میرے مشورے کو سیاسی مذاق ہی جانا۔ 

آمدم بر سر عنوان، تو عرض کر رہا تھا کہ لفظ شسط پنجابی زبان کا لفظ ہے۔ اردو ہماری نہ عمران خان کی مادری زبان ہے۔ ہم  اکسفورڈ سے کسی بھی مضمون میں ڈگری حاصل کر لیں مگر رہیں گے وہی جہاں کے ہیں۔اور انگریزی بولنے کی فوجی تکنیک یہ ہے کہ جہاں آپ کو انگریزی کا لفظ نہ یاد رہے تو گفتگو کو روکیے نہیں بلکہ کسی بھی دوسری زبان کا لفظ استعمال کر لی جئے۔ اس تکنیک کو ہم نے فوجی اس لیے کہا ہے کہ ایک بار ہم نے دیکھا فوج کا ایک صوبیداراپنے سپاہوں کو انسپیکشن کے لیے تیار کر رہا تھا۔انسپیکشن فوجیوں کی نہیں بلکہ ان کے زیر استعمال ہتھیاروں  (ٹولز) کی تھی۔ صوبیدار نے ہدائت کی اگر آپ اپنے سینئر افسر کے سامنے نروس ہوکر ٹول کا انگریزی نام بھول چکے ہیں تو بھی آُ پ نے خاموش رہنا ہے نہ جواب کا تسلسل توڑنا ہے۔ بلکہ ایک لفظ ابھی سے ازبر کرنا شروع کر دیں۔ متھنجن۔ متھ  تھن جن ۔ اور مزید تشریح کی کہ جب آپ متھ انجن کا لفظ استعمال کریں گے تو سینئر افسر آپ کو کچھ کہنے کی بجائے میری طرف دیکھے گا۔ جب اس نے مجھے دیکھ لیا تو آپ کا کام ختم میرا کام شروع اور مجھے معلوم ہے کہ صورتحال کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔ 

عمران خان صاحب جو دوسری بہت ساری باتوں کی طرح اردو کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر بھول چوک ابن آدم کی مٹی میں شامل ہے۔ ہمیں فخر ہے خان صاحب رکے یا ٹھٹھکے نہیں بلکہ انھوں نے اپنی تقریر میں متھ تھن جن استعمال کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اردو کو بھی دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔


اتوار، 18 دسمبر، 2022

گنجا




ہالی وڈ میں  Yul Bryner (1920-1085)   نام کا ایک  روسی نژاد  اداکار تھا۔اس نے روس سے امریکہ ہجرت کی اپنے اداکاری کے فن کو چارہزار سے زیادہ سٹیج  پر ومارمنس کے ذریعے منوایا اور کامیاب اداکاری کر کے کئی ایوارڈ جیتے۔ اس نے انیس سو اکیاون میں ایک فلمی کردار  King and Iکے لیے اپنا سر منڈوا لیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مرتے دم تک ہمیشہ ٹنڈ ہی کرائی۔ اس کے مشکل نام کی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام گنجا رکھ لیا تھا۔ 

اس نے اپنی زندگی میں ایک انٹر ویو میں بتایا تھا  اس نے کہا میرا تعلق روس کے ایک قبیلے سے ہے اور قبیلے کی روائت تھی کہ دوسرے قبیلے کے ساتھ جنگ میں اگر ہمارا قبیلہ ہار جاتا تو قبیلے کے سارے مرد اپنا سر منڈوا کر ٹنڈ کرا لیتے اور اس وقت تک ٹنڈ کرواتے رہتے جب تک قبیلہ اپنی شکست کا بدلہ نہ لے لیتا۔ اس نے مزید کہا  1915 میں جب میرا قبیلہ جنگ کر کے ختم کر دیا گیا تو میں نے ٹنڈ کرا لی۔



بدھ، 14 دسمبر، 2022

مرشد اور گوگل




ہمارے والدین پنجابی بولتے تھے۔ ہم نے بچوں کے لیے گھر میں اردو بولنا شروع کی تاکہ بچے سکول میں اچھے نمبر لیں سکیں۔ ہماری اگلی نسل بچوں کے ساتھ انگریزی اس لیے بولتی ہے کہ وہ انگلش میڈیم سکول میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ میں اس نظریے سے بیزار ہوں۔ سبب یہ نہیں کہ میں انگلش میڈم کے خلاف ہوں بلکہ میری بیزاری کا سبب میرا پوتا ہے جو اردو کے الفاظ کے سمجھنے کے لیے میری انگریزی کا امتحان لیتا رہتا ہے،مسئلہ یہ ہے کہ اس کو اردو کے کسی لفظ کو سمجھانے کے لیے انگریزی کا سہارا لینا پڑتاہے۔ اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں اس کی وہ تقریر تیار کرنے میں مدد کروں جو اسے  روحانیت  کے موضوع پر سکول میں کرنی تھی اور میں نے اس کی درخواست منظور کی تھی۔روحانیت کی مشکل اصطلاحینں اور ثقیل الفاط تو اس نے انٹر نیٹ سے ڈہونڈ نکالے تھے مگر کچھ الفاظ کے بارے اس کا ذہن مطمن نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا (ولی) مذکر ہے یا مونث۔ میں نے کہا مذکر تو اس  کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے۔ ہماری تیسری نسل ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال ایسی بے دریغی سے کرتی ہے کہ وہ میڈیائی میدان میں ہم سے بہت  آگے ہے۔اس کا اگلا  سوال تھا کیا  (مرشد) بھی مذکر ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا  مگر لا جواب ہونے سے بچنے کے لیے میں نے اسے سامنے بٹھایا اور استاو و شاگرد، پیر مرید، مرشد اور سالک پر اسے طویل لیکچر دیا، بتایا   مُرشِد  اورمُرشَد   کا فرق بتایا۔ روحانیت کی تاریخ اور روحانی ہستیوں اور روحانی ادب کا ذکر کیا  اسیے شعر بھی سنائے جو مرشد کے اعلی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
مرشد دا دیدار باھو
لکھ کروڑ حجاں ہو
اور 
میں گلیاں دا روڑا کوڑا
تے محل چڑھایا سائیاں 
اور مرشد کا  مقام بھی بتایا کہ ماں اور باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔اور خدائی طاقتیں اس کے ہم رکاب ہوتی ہیں۔ میرا خیال تھا اسے تقریر کے لیے کافی مواد میسر آگیا ہے اس لیے اسے نصیحت کی کہ خود بھی کچھ محنت کیا کرو اللہ تعالی کی عطا کردہ انگلیوں کو  (کی بورڈ)  پر مارا کرو۔ نوجوان نے ہمت دکھائی اور چار صفحے ماں کے روبرو کھڑے ہو کر پڑہے، ماں سے داد پانے کے بعد مجھ سے داد طلب ہوا۔ میں نے پوچھا استاد اور شاگرد تو ٹھیک ہے پیر و مرید بھی مناسب ہے مگر مرشد و نکا کا کیاہے۔ پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا میں نے خود ہی اسے "کی بورڈ" پر انگلیاں مارنے کا کہا تھا۔ گوگل کے سرچ انجنوں نے وہی کچھ اگلنا ہوتا ہے جو ان میں فیڈ کیا گیا ہو۔ اور مشین نے مرشد کا متضاد اگلا تھا  "نکا


و ما علینا الاالبلاغ




ایک انار سو بیمار کا محاورہ اس لیے پرانا ہو گیا ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ چکی ہے اور انار مہنگے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کے اندر پیدا ہونے والے انار ناکافی ہوتے ہیں تواس کمی کو پورا کرنے کے لیے انار باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ باہر سے منگوائے انار کا معیار اور تعداد ہی نہیں قیمت بھی مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ درآمدی انار ہی نہیں کرسی کے بیمار بھی اس معیار پر پورے اترتے ہیں 

مقتدر قوتوں بارے تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک صاحب راز نے کہا تھا (پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اقتدار میں ہوتی ہیں اور جب  اقتدار میں نہیں ہوتی تو زبردست اپوزیشن کرتی ہیں) وہ صاحب پاکستان کی معیشت کو کھانے والے کیک سے تشبیہ دے کر کسی کے حصے کی بات کر رہے تھے۔ ٹویٹ داغنے اور ڈیلیٹ کرنے کا قصہ چھیڑا ہی تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے ان کی زبان بند کر دی تھی۔ وہ زبان تو بند ہوگئی مگر اب عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد بہت ساری زبانیں بے لگا م ہو چکی ہیں۔ بے لگام ہونے کی اصطلاح گھوڑے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کی مثال گھوڑے ہی جیسی ہے جو کاٹھی ڈال لے اسی کی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں جمہوریت ہے۔ دونوں ہی عوام کے آستانے سے راندہ درگاہ ہیں۔ جن دنوں ایم کیو ایم کے گھوڑے پر الظاف بھائی نے کاٹھی ڈالی ہوئی تھی۔ مقتدرہ نے کاٹھی کی زیریں بلٹ خنجر سے کاٹ دی۔اس کامیاب تجربے کے بعد نون لیگی شہسوار کو اسی تکنیک سے گرایا گیا۔ اب کپتان بھی کہتا ہے اچھے بھلا سواری کر رہا تھا۔ پہلے تو فوج کا نام لیا پھر ایک جرنیل پھر تین جرنیل پھر بیس لوگوں کا نام ادھر ہی سے آ رہا ہے۔ یہ بیس ہیں یا ڈیڑھ سو یا پانچ سو، سب سنی سنائی کہانیاں ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی طبقہ پاکستان کا مقتدرہ ہے۔ اسی مقتدرہ کا، گلہ،  اسلام آباد کی عدالت کا برطرف شدہ جج کرتا پایا جاتا ہے۔ عدالت عظمی کا ایک حاضر جج اور اس کا خاندان بھی اپنے آپ کو اس مقتدرہ کی گرفت سے مشکل سے بچاتا ہے۔ سیاستدان تو عوام کے کھیت کی وہ مولی ہے جس کو کرپٹ اور غدار کہہ کر ہمیشہ ہی کاٹا گیا ہے۔ اسی مقتدرہ کے اشارے پر صحافیوں کو شمالی علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے بلکہ گولیاں تک مار دی جاتی ہیں۔ عوام جو دن کی ابتدا ہی جنرل ٹیکس کی ادائیگی کر کے کرتی ہے، اس کو حکومت میں شمولیت کا احساس ہوتا ہے نہ اس کے ووٹ سے منتخب نماہندوں کو۔ مقتدرہ کے، بظاہر، دباو پر قومی اسمبلی کے منتخب وزیر اعظم  کی  انتظامی افسروں کی تعیناتی کو عدالت موٹے شیشوں والی عینک لگا کر دیکھتی ہے مگر ایک صوبے میں ہونے والی غیر آئینی قانون سازی کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ ریکوڈک حرام مگر رق وڈق پکار کر حلال کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو شکائت ہے عدلیہ کو ان کے اور عوام کے ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایسی تقسیم پولیس میں بھی بتائی جاتی ہیں اور ایک انتظامی افسر کو مرکزی حکومت کے احکام کو نظر انداز کرتے عوام کی آنکھوں نے خود دیکھا۔ دوسری طرف صوبے سے پولیس کے سربراہ کو اسلام آباد  عدالت میں بلا کر بے توقیر کیا جاتا ہے۔ عوام پریشان ہے اور آئین اور قانون کے طالبعلم حیران ہیں کہ ادارے اپنے حصے کا کام کرنے کی بجائے دوسرے اداروں پر انگلی اٹھانے کو جوان مردی کیوں سمجھتے ہیں۔بہرحال کچھ سبق عوام کو ازبر ہو چکے ہیں 

لوگ جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں *

لوگ جس جگہ رہنا چاہیں انھیں رہنے دیا جائے *

انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے *

ٓآئین میں کی گئی مثبت ترامیم کو قبول کیا جانا چاہیے *

سسٹم کو چلنے دیا جائے اور سہولت کاری کا رویہ اپنایا  جائے *

جس ادارے کا جو کام وہ اسی پر توجہ دے *

پچھتر سالوں میں جس بات پر عوام متفق ہو چکی ہے۔ اس کے اعتراف اور عمل درآمد پر کیا مزید پچھتر سال لگیں گے۔ وقت بتاتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔ دیکھنے اور سننے، لکھنے اور پڑہنے، سیکھانے اور پڑھانے ۔۔۔ سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا انٹر نیٹ کے بادل پر سوار ہو کر انسان کے ہاتھ میں اٹھائے موبائل پر اتر چکی ہے۔ اس وقت  محکوم ذہنی طور پر حاکموں سے آگے نقل چکے ہیں۔ شہسوار، گھوڑے، خنجر اپنی جگہ موجود ہوتے ہوئے اپنا کردار کھو چکے ہیں۔ تصویر کبھی ممنوع ہوا کرتی تھی مگر کیمرہ مجبوری بن چکا ہے۔ 

جس پر عوام متفق ہو چکی اس کا اعتراف کرنے ہی میں زندگی ہے۔ اعتراف معافی کی طرح ہوتا ہے اور معافی انسان کو با کردار بناتی ہے۔ جو معافی نہیں مانگتا اسے خالق معاف کرتا ہے نہ مخلوق۔

انار مہنگے اور کم ہیں مگر عوام کا قلب وسیع اور خالق کی رحمت سب جہانوں پر غالب ہے۔