بدھ، 29 ستمبر، 2021

جنون

 


تصوف کی دنیا میں شہاب الدین سہروردی کا نام ایک روشن ستارے کی طرح ہے۔ اس خاندان کا طرہ امتیاز علم تھا۔ پاکستان کے 

 1956 -1957

 میں وزیر اعظم بننے والی بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔ ان کی ماں پہلی 
سلم خاتون تھی جس نے کیمبرج کا امتحان پاس کیا تھا۔ سہروردی کے والد کلکتہ ہائی کورٹ کے جج تھے۔ تدبر، فراست، سیاست اس گھرانے کا اثاثہ تھا۔حسین سہروردی کو خود قائد اعظم نے مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی  تو ٓزادی کو وقت بنگال میں فسادات روکنے کے لیے گاندہی سہروردی سے مدد کا طلبگار ہوا تھا۔اس نے پاکستان کے لیے کیا کیا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اب تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ تاریخ گم گشتہ نہیں ہے کہ 1963 میں جب وہ مرا یا بقول ذولفقار علی بھٹو اس مارا گیا تو لوگ تسلیم کر چکے تھے کہ وہ جنونی شخص تھا۔یہ ملک کا غدار، شرابی، ڈانس کا رسیابتایا گیا اور اس ساری داستان کا راوی مجید چپڑاسی ہے۔
اس ملک میں دوسراجنونی خود بھٹو تھا۔ اس نے خود انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر پاکستان فوج کے جوانوں کو بتایا تھا کہ اکہتر کی شکست فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھی۔ اس نے عوام کو گھاس کھلائی،  یہ بھی شرابی تھا، غیر ملکی عورت سے شادی کر رکھی تھی، اسلام کی بجائے سوشلزم کا نعرہ لگاتا تھا، یہ غدار ہی نہیں بلکہ ایک ہندو کا بیٹا بتایا گیا۔ اور یہ انکشاف کرنے والا سینئر صحافی آج بھی پاکستان کی خدمت کر رہا ہے۔ اس کا نام معلوم کرنا ہو تو نصرت جاوید سے رجوع کیا جائے۔ بہرحال ہم نے اس جنونی کو ایسا عبرت کا نشان بنایا کہ کلیجوں میں ٹھنڈ پر گئی۔
تیسری جنونی قائد اعظم کی بہن تھی۔ فاطمہ نامی یہ عورت عبدلغفار خان کے ساتھ مل کر ملک سے غداری کی مرتکب ہونا چاہتی تھیں، اسلام کی تعلیمات کے خلاف ایک اسلامی ملک کی صدر بننا چاہتی تھیں اور شادی نہ کر کے مجرد زندگی گذار کر اپنی روایات اور اسلام دشمنی کی مرتکب ہورہی تھی۔ البتہ وہ اپنی موت آپ مر گئی۔ 
بے نظیر کا نام بھی جنونیوں میں شامل تھا۔ اس کو اسی باغ میں گولی سے بھون دیا گیا جس باغ میں لیاقت علی خان کو مارا گیا تھا۔ دونوں کے قاتل نا معلوم ہی رہے۔یہ بھی بھارت کے لیے نرم گوشی رکھتی تھیں اور سکھوں کی فہرستیں برآمد کیا کرتی تھیں۔غدار ہی نہیں کرپٹ بھی تھی۔
سیاستدانوں کا اس ملک میں وطیرہ رہا ہے۔ جھوٹ بولو، ان پڑھ اور جاہل عوام کو لوٹو اور دوسرے ملکوں میں محل بناو۔ سب سے بڑا لٹیرا سابقہ صدر آصف علی زرداری ثابت ہوا۔ عوام غریب جبکہ اس کے گھوڑے بادام اور جام کھایا کرتے تھے وہ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا۔
اس ملک کے سب سے بڑے چور کا نام نواز شریف ہے، اس کا والد لاہور کی گولمنڈی میں پانڈی کا کام کرتا تھا۔ اس کے بیٹوں نے لندن میں منی لانڈرگ کے پیسوں سے فلیٹ خریدا اور شاہانہ زندگی بسر کر رہے کہ جبکہ پاکستانی غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
سنا ہے ایک اور جنونی تیار ہو رہا ہے، اس نے کسی سے کہا ہے کہ بلی کو کمرے میں بند کر کے اس پر تشدد کیا جائے تو وہ تشدد کرنے والے کی آنکھوں پر پنجہ مارتی ہے۔ 
کہا جاتا ہے اقتدار کا کھیل بے رحم ہوتا ہے۔ اس کھیل میں نکا یا اپنا کوئی نہیں ہوتا۔ اس ملک میں ڈٹ کر کھڑا ہونا صرف جرنیلوں ہی کا کام ہے۔ پاپا جونز کو جو بھی کہو ڈت کر کھڑا ہونے کا معترف ہونا ہی پڑے گا۔ نکا البتہ ڈٹ کر  کھڑا نہیں ہو سکتا کہ بے وردی ہے۔ اس کے بارے میں لندن  کے ایک بجومین2018 ہی میں پیشن گوئی کر دی تھی

جس کا پورا ہونا ابھی بقی ہے

 

 


جمعہ، 25 دسمبر، 2020

شمع و شعلہ




شمع اور شعلہ دونوں دونوں کی ابتداء آگ ہے۔ شمع نور کا استعارہ ہے اور روز اول سے ہی اہل علم اس سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ شمع کے بارے مین کہا جاتا ہے وہ اپنا وجود جلا کر ماحول کو منور کرتی ہے ۔ اس کے برعکس شعلہ دوسروں کے وجود سے اس وقت تک توانائی لے کر روشن رہتا ہے جب تک کہ جلنے والے مواد کو بالکل ہی بھسم نہ کر دے۔
مکہ کے خاندان قریش میں بنو ہاشم میں دو بھائی گذرے ہیں ایک کا وجود شمع کی طرح تھا جو اپنے ہی وجود کو جلا کر اپنے قبیلے کی حفاظت کرتا رہا۔ جب قریش نے ابو طالب (۵۳۹ ا۔۔۶۹۱) سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سگے بھائی عبدللہ کے یتیم بیٹے کے سر سے بنو ہاشم قبیلے کی حفاظتی چھتری ہٹا لے تو اس مر د وفا شعار نے شرافت، قرابت اور انصاف کی پاسداری اپنے وجود کی قربانی کی شمع روشن کر کے کی۔ اور اپنے قببلے سمیت شعب ابو ظالب میں زندگی کا مشکل ترین وقت گذارا ۔ مگر قریش کے رسول اللہ ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ تسلیم کیا نہ ان کو قبیلہ بدر کیا۔ ان کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا۔
ابو لہب (۵۴۹۔۔۶۲۴) بھی عبدالمطلب ہی کا بیٹا تھا البتہ اس کی ماں کا تعلق قبیلہ خزاع سے تھا جو قریش کا حریف تھا۔ اس کی بیوی قریش کے سرادار ابو سفیان کی بہن تھی۔ سردار عبدلمظلب کی وفات کے بعد جب منصب تقسیم ہوئے اور سرداری ابوطالب کے حصے میں ائی تو کعبہ کے چڑہاواوں کی امانتوں کی رکھوالی ابو لہب کے حصے میں ٓئی تھی۔ اس کی ہوس اور لالچ اس دن مکہ والوں پر عیاں ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ اس نے کعبہ کے خزانے کے دو سونے کے ہرن چرا لیے ہیں۔

وہ ابو ظالب کا بھائی ہونے کے باوجود انتہائی بخیل، ہمسائیگی کی روایات سے لا تعلق، قرابت کی ذمہ داریوں سے دور انتہائی ہٹ دہرم اور ذاتی انا کا شکارانسان تھا۔ نام تو اسکا عبد العزیٰ تھا مگر دراصل وہ لالچ کا بندہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کا سبب ان ﷺ کا یتیم اور دنیاوی دولت سے محروم ہونا تھا۔ اس نے ساری عمر بنو ہاشم کے خلاف قریش کا ساتھ دے کر گذاری مگر بزدلی کا عالم یہ تھا کہ جنگ بدر میں جانے کا وقت آیا تو بیمار ہو گیا۔
اہل مکہ نے اس کی کمینگی کی انتہا اس دن دیکھی جن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسم فوت ہوئے تو اس نے جشن منایا تھا


ابو لہب کی موت بڑے عبرت ناک انداز میں ہوئی ۔ اس کے جسم پر ایک دانہ نمودار ہوا جس سے گندگی اور بدبو خارج ہوتی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھالہ اس کے تمام بدن پر چھا گیا ۔ خوف کے باعث کوئی آدمی اس کے قریب نہ ۤآتا ۔ سات دنوں میں اس کا سارا وجود گل گیا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کو منحوس قرار دیا گیا اور کوئی آدمی اس کی میت کے قریب نہیں جاتا تھا۔ تین دنوں بعد بد بو سے تنگ آ کر اس کے بیٹوں نے مکہ کے قبرستان کی بجائے ایک پہاڑی پر ایک گڑھا کھودا اور لکڑیوں کی مدد سے لاس کو دھکیلتے ہوئے اس گڑہے میں کر کر دور سے پتھر پھینک کر اس گڈہے کو بند کر دیا۔

جمعہ، 20 نومبر، 2020

صالح اور طالح

صالح اور طالح

راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ایک پسماندہ علاقے چنگا  بنگیال سے تعلق رکھنے والا ایک گیارہ سالہ لڑکا جب کرکٹ اکیڈمی چلانے والے آصف باجوہ کے پاس آیا تو آصف باجوہ نے اس بچے میں بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت کو   تاڑ    لیا تھا۔ اور پھر یہ بچہ راولپنڈی سے لاہور  اور پھر لندن منتقل ہو گیا۔ لندن کے ایک اخبار نے اس پر سٹے بازی کا الزام لگایا تو آصف باجوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا یہ محمد عامر کی صحبت کا اثر ہے۔

فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے

    صحبت صالح تیرا صالح کنند۔ صحبت طالح تیرا طالح کنند    

جو لوگ بھیڑیں پالتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھیڑ بیمار ہوتی ہے تو اسے دوسری بھیڑوں سے علیحدہ کردینا چاہیے۔ورنہ وہ سارے ریوڑ ہی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ صحرا کے بدو خارش زدہ اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ صحبت ہر جاندار پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ انسان مگر سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے۔ 

جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ دکھا تو ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ہمارے ارد گرد ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان صحبت کے غلط چناو کے باعث اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے لیے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ سعدی نے اپنی بوستان میں پرندوں کے ایک جوڑے کا ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کو دیکھ کرمادہ نے کہا کہ اس کا ارادہ شکار کرنے کا ہے نر نے کہا یہ لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے تیر نکالا اور نر پرندے کو شکار کر لیا۔ لاہور والے علی ہجویری  (داتا صاحب)  نے اپنی کتاب کشف المجوب میں تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی ہے ایک ایسے جاہل جنھوں نے صوفی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو۔دوسرے ایسے مبلٖٖغین جو اپنے ہی کہے پر عمل نہ کرتے ہوں اور تیسرے وہ فقراء جو قرض کی دلدل میں اتر چکے ہوں۔ یہ تینوں کسی وقت میں اپنا تیر نکال کر شکار کر سکتے ہیں۔

گئے وقتوں میں صحبت سے مراد لوگوں میں المشافہ اٹھنا بیٹھنا اور دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں صحبت کے دائرے فیس بک، نوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ تک ہی محدود  رہ کر لا محدود ہو چکے ہیں۔ تخم تاثیر کی عدم واقفیت کے باعث بعض اوقات ناقابل یقین واقعات جنم پذیر ہوتے ہیں۔ 

محمد عامر کی کہانی میں    نوٹ    تو مجید نامی آدمی نے گنے تھے مگر بدنامی محمد عامر کے حصے میں آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ سنبھل گیا اور کردار پر ملی گئی کالک کو اپنے عمل سے دہو ڈالا مگر ہر انسان  محمد عامر نہیں ہوتا۔ ٹخم تاثیر ہر جگہ حاوی نہیں ہوتا اکثر بری صحبتیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔


 

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل: میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو  Add  نہیں کر ...

جمعرات، 27 اگست، 2020

جواب آں غزل



میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو 
Add
 نہیں کر رہا ۔ اس گلے سے بچنے کے لئے میں وقت کے ساتھ ساتھ چھانٹی کا عمل جاری رکھتا ہوں لیکن اس کے با وجود اس لسٹ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو معاشرتی اور دینی حوالے سے مجھ سے مختلف سوچ رکھتے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کر کے بات کو سنتے اور کچھ حاصل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ ْ اختلاف باعث رحمت ْ اسی وقت تک ہے جب ہماری نیت رحمت کے حصول کی ہو البتہ نیت اگر فرقہ پرستی اور اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی ہو تو ایسی پوسٹ کی حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا میرا اخلاقی منصب ہے۔۔
میرے ایک دوست نے اسلام آبا د میں میرے پیر و مرشد کے سانحہ ارتعال پر میرے لکھے ہوئے ایک  شذرے کو بنیا د بنا کر  بلند درگا ہ گولڑہ شریف کے بلند کنگروں پر سنگ باری کی کوشش ہے اور قبلہ پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادگان کے بارے میں اپنی ذہنی پستگی اور زہر آلودہ زبان کو دراز کرتے ہوئے لکھا ہے ْ افسوس کہ پیران گولڑہ شریف ۔۔۔ 
فتنہ قادیانیت ، اس کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے قلوب پر ْ گولڑہ شریف ْ نے جو چرکہ لگایا تھا لگتا ہے وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس پیپ زدہ ْ چرکےْ سے بدبودار مواد خارج ہوتا رہتا ہے ۔ جو کبھی ْ انسانیتْ کے لفافے میں چھپایا جاتا ہے تو کبھی ْ مسلک ْ کے کیپسول میں اور اج کل ْ لبرل ازمْ کے پھول دار شاپر میں ڈہانپا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ْ بدبوْ کیسی ہی خوش شکل بوتل میں بند کر دی جائے ، ڈھکنا کھلنے پر گردو پیش کو کثیف ہی کرتی ہے ۔
میرا یہ نا دیدہ دوست ْ احمد رضا خان بریلوی کی حسام الحرمین کو جہالت اور فتنہ خیزیْ بتاتا ہے مگرْ سیف چشتائی ْ کا ذکر اس لیے نہیں کرتا کہ یہ گستاخون کی زبان درازیوں کی قاطع ہے۔
ہم لوگوں کہ یہ ریت رہی ہے کہ ذاتی تنقید اور شخصی یاوہ گوئی پر بھی مسکرا دیا کرتے ہیں۔ کہ ہمارے مرشد اعلیٰ ، رہبر کامل رسول اللہ ﷺ نے جو دین عطا فرمایا ہے اس دین کی میزان میں عفو درگذر، معافی اور احسان کا پلڑا سدا انکسار کی طرح جھکا ہی رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب خاتم المرسلیں کا خون مبارک نعلین مبارک کو تر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نازل ہو کر منتظر حکم نبی ﷺ تھا تو ہمارے رحیم آقا کے لبوں سے وہ تاریخ ساز خیر خواہی ادا ہوئی کہ طائف والوں کی نسلیں سرخرو ہو رہی ہیں۔ہم اسی تعلیم کو لے کر چل رہے ہیں۔ ہم اس شجاع علی ابن طالب کے پیرو کار ہیں جو دشمن کو مغلوب کر لینے کے بعد ذاتی عناد کے شک پر عدو کے سینے سے اتر آتے ہیں ۔ ہم نے سبق یہ سیکھا کہ اصل شجاعت غصے کی حالت میں بھی حق کو تھامے رکھنے میں ہی ہے۔ 





گولڑہ شریف کے مکین رحمت العالمین کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، ان کی نسبتیں علی سے ہوتی ہوئی مہر علی سے گذر کر یہاں تک پہنچی ہیں ۔ تدبر، فراست رواداری ن کا ہی نہیں ان کے متعلقین کا بھی زاد راہ ہے۔ اور قبلہ عالم حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے کنگروں کو اس قدر بلند فرما گئے ہیں کہ مسلکی بغض وعناد کا مارا لکھاری کیسی بھی سنگ باری کی کوشش کر لے ، اس کے سنگ کا علم و حکمت اور فیضان نبی ﷺ کے بلند کنگروں تک رسائی پانا ممکن ہی نہیں ہے۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ آسمان کی طرف منہ کر کے تھوکتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کے عمل پر غصہ کیا جائے۔ یہ صاحب ْ افغانستان کے ملا عمرْ اور ْ کفر کو بر سر عام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگھو ی ْ کو اپنا مسلکی سرمایہ جانتے ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہے ، البتہ شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کاندہلوی کے بارے ، جو امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے ، مدعی کا دعویٰ حقائق کے بر 
خلاف  ہے ۔کہ انھوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب فضائل اعمال  میں فضائل صحابہ کے صفحہ 
142
 پر اللہ کا فرمان نقل فریایا ہے ْ جو میرے کسی ولی کو ستائے اس کو میری طرف سے لڑائی کا اعلان ہےْ اور ان کی اسی کتاب کے اصل نسخہ میں وہ عبارت حذف کر دینا جو نبی اکرم کی شان میں انھوں نے اپنے ایمان کا حصہ بتائی ہیں اور یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ان ہی کے ْ ہاںْ سے پرنٹ شدہ ہے ورنہ تبلیغی جماعت والے تو عکسی ایڈیشن ہی استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث محمد ذکریا کاندھلوی ، جن کو اس گئے گذرے دور میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا شرف حاصل ہے,  کی تما م تصانیف کی ایڈٹنگ کر لیں اس کے بعد ہی آپ ان کو حق نواز جھنگوی کا ہم مسلک بتاہئے گا۔ 
مولانا اشرف علی تھانوی کو اہل تصوف کا دشمن بنا کر پیش کرنے والے ان کی مثنوی روم کی شرع میں لکھی درجن سے زیادہ جلدوں کو کہاں چھپائیں گے اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کی ذات پر یاوہ گوئی پر اتنا ہی عرض ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی کوشش میں بعض اوقات بے وقوف گر کر اپنی ریڑھ کی ہڈی ہی کا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
عرض ہے ہم نے ستر سالوں میں سوائے تنقید کے کچھ نہ کیا کہ یہ کام سہل ترین ہے اور رنگ بھی چوکھا لاتا ہے ۔ اب بطور تجربہ ہی سہی ، تنقید کو چھوڑ کر تعمیر کی بات کریں۔ اہل حدیث کافر، ادیوبندیوں کے
22
  فرقے کافر، بریلویوں کے
4
  فرقے کافر،

 شیعوں کے 
21
 فرقے کافر۔   اور یہ معرکہ تنقیدی ذہن کے مولویوں ہی کا مارا ہوا ہے۔

ہم میں ایک مسلمان,  نام اان کا اشفاق احمد تھا انھوں نے بجا فرمایا تھا کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں یہ غیر مسلم ہی ہیں جو سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ 
کبھی سر سے تنقیدی ٹوپی اتار کر، مسلکی دھاری داررومال سے منہ صاف کر کے ، اس بات پر غور کی جیے گا کہ لفظ مولوی جو استا د کا ہم معنی تھا ۔ معاشرے میں گالی کیوں بن گیا۔ امام مسجد ، جو ہمارے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا ، اس کے لیے دو رکعت کے امام کی اصطلاح کسی کالجیٹ بابو نے ایجاد نہیں کی ہے۔ اور اب مولوی کو مولبی بنانے میں بھی کسی لبرل نے حصہ نہیں ڈالا ہے۔
اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ دنیا کی محرومی اور علم نافع کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔ آپ کو رہنے کے لیے اٹیچڈ باتھ والا بیڈ روم چاہیں ، ڈرائنگ روم قالینوں اور فانوسوں سے آاراستہ ہو ، علم برائے فروخت کا کتبہ سیائیڈ ٹیبل پر سجا ہو، گاڑی ائر کنڈیشنڈ ہو ، عباء و جبہ لشکارے مارے اور منہ جب بھی کھلے آگ برسائے۔ اور توقع یہ ہو کہ آپ کو سب سے بڑا مسلمان سمجھا جائے کہ آپ کے پاس جنگجو لوگوں کا جتھہ ہے جو کلاشنکوف کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اور طاقت سے اسلام کا اپنا ورژن صیح ثابت کرنے کے لئے انسانی لاشے گرا کر کامیابی کا جشن مناتا ہے ۔ ہر کمزور آپ کو منافق اور محمد ﷺ کا نام لیوا آپ کو بدعتی نظر آتا ہے۔ 
آپ کو ْ گمراہْ اور ْ جاہل ْ لوگوں کے دھرنے میں ناچ اور گانا ہی نظر آیا ۔ جان کی امان ہو تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے جشمے کا نمبر کیا ہے۔
آپ نے یہ شعر بھی جڑ دیا ہے
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

بھائی ہم امن پسند مسلمان اور پاکستانی ہیں ، مسلمانوں کے سب فرقے ہی نہیں غیر مسلم بھی ہمارے لئے محترم ہیں، ہمیں اپنے رحمت العالمین بنی ﷺ کی تعلیمات عزیز ہیں۔ ہم اول و آخر مصطفوی ہیں اور اس پر ہم شرمندہ نہیں ہیں ، ہمیں خنجر اٹھانے کی ضرورت ہے نہ تلوار ، ہمار ا ایک مقصد حیات ہے اور وہ کتاب میں درج ہے جو محفوظ ہے اور اس کا محافظ رب محمد ﷺ خود ہے ۔
آخر میں ایک واقعہ :
یہ
1984
کی بات ہے ، میں حکومت کویت کا ملازم تھا ۔ بغداد شریف سے درگاہ غوث پاک کے سجادہ نشین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، محفل میں عرب بھی شامل تھے ۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے دوران گفتگو کہا ْ کوئی شخص آپ کے پر دادا کی بے ادبی کرے تویہ شدید تر ہے اس سے کہ کوئی آپ کے والدکی بے ادبی کرے ۔ مگر بسبب زمانی طور پر قریب تر ہونے کے ، آپ والد کی بے ادبی پر زیادہ رد عمل کا اظہار کریں گے ْ

ہمارے پیر اور مرشد ہمارے استاد ہوتے ہیں، ہم استادوں کی جوتیاں سیدہی کر کے ان سے علم پاتے ہیں اور ادب سیکھتے ہیں۔ ان کا رتبہ والد ہی کی طرح کا ہوتا ہے اور والد زمانی طور پر پڑدادا سے قریب تر ہوتا ہے۔