جمعہ، 1 فروری، 2019

صدارتی نظام اوراٹھارہویں ترمیم کاکانٹا

وجاہت مسعود

تیشہ نظر








اگر کوئی کہے کہ صدارتی نظام کی افواہوں میں
صداقت نہیں نیز یہ کہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت کے سرکردہ ارکان مثلاً فواد چوہدری، فیصل واوڈا اور زرتاج گل ایک سے زائد بار اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ فروری 2018 ءمیں خبر دی گئی تھی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد سے صدارتی نظام کے قدیمی موید ڈاکٹر صاحب مسلسل صدارتی نظام کی وکالت کر رہے ہیں۔ اور اب 29 جنوری 2019ءکو روز نامہ جنگ ہی میں برادر عزیز نے بھی قائد اعظم کے جولائی 1947ء میں صدارتی نظام کو ترجیح دینے کا مفروضہ دہرایا ہے۔ گویا عرش سے فرش تک ایک ہی نور کی تجلی فروزاں ہو رہی ہے۔ موقع ہے کہ اس معاملے پر خاک نشینوں کی معروضات بھی قلم بند کر دی جائیں۔ دیکھنا چاہئے کہ صدارتی نظام کی وعید اور اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کیا ربط ہے؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپریل 2010ء میں دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تھا۔ پارلیمانی نظام میں مقننہ کا ایوان زیریں اکثریتی رائے سے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے جو حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں فیصلہ سازی کا سرچشمہ وزیر اعظم کا منصب ہوتا ہے۔ صدارتی نظام کے حامی اختیارات کے منبع کو ایوان وزیر اعظم سے ایوان صدر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے والی اٹھارہویں ترمیم ان کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی مخالفت اور صدارتی نظام کی وکالت کے پس پشت وفاقی اکائیوں کو اختیارات کی منتقلی پر اعتراض کارفرما ہے۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے ایک طرف وفاقی وزرا اپنے اختیارات میں کمی پر ناخوش ہیں۔ دوسری طرف مالی وسائل میں صوبوں کیلئے مختص حصے میں اضافے سے ان صاحبان ذی وقار کو تشویش ہے جو مرکزی وسائل کے ذخائر سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ گویا یہ صوبوں اور مرکز میں اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم کی کشمکش ہے۔ اس جھگڑے میں قائد اعظم کو گھسیٹنے کا مقصد اپنے موقف میں وزن پیدا کرنا ہے۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد ایک ہی موقف بیان کیا کہ پاکستان کے آئینی خدوخال کا فیصلہ دستور ساز اسمبلی کو کرنا ہے۔ 21 مئی 1947 کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل نے پاکستان کے مجوزہ آئینی بندوبست کے بارے میں سوال کیا تو قائد اعظم نے فرمایا’’ پاکستان کی مرکزی حکومت اور وفاقی اکائیوں میں اختیارات کی تقسیم کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے، تاہم پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندگی پر مبنی جمہوری نظام ہو گا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ حتمی طور پر رائے دہندگان کو جواب دہ ہو گی‘‘۔قیام پاکستان کے بعد 26 فروری 1948ء کو امریکی میڈیا کے نام پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو ملک کا آئین مرتب کرنا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس آئین کے حتمی خدوخال کیا ہوں گے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری دستور ہو گا جس میں اسلام کے بنیادی اصول مثلاً شہریوں کی مساوات اور انصاف سموئے جائیں گے۔ بہرصورت پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہو گا جسے مذہبی پیشوا کسی الوہی نصب العین کی روشنی میں چلائیں۔ ہمارے ملک میں ہندو، مسیحی اور پارسی موجود ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں‘۔
ان دونوں قابل تصدیق اقتباسات کی روشنی میں واضح ہے کہ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی پر اپنی رائے مسلط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ اور وفاقی اکائیوں کا ذکر کر کے صدارتی نظام کا پتہ کاٹ دیا۔ اقلیتوں کی مساوی حیثیت کی حمایت اور مذہبی پیشواؤں کے اختیار کی نفی کر کے قائد اعظم نے سیکولر جمہوری پاکستان کا عندیہ دیا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کابینہ اور وزیر اعظم کو اختیارات دے کر پارلیمانی نظام کی راہ ہموار کی کیونکہ پاکستان وحدانی ریاست کی بجائے ایک ایسے وفاق کے طور پر قائم ہوا تھا جس میں افراد کی بجائے صوبوں نے بطور وفاقی اکائی کے شمولیت اختیار کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں پالیمانی دستور کا مسودہ منظور کیا تھا۔ یہ آئین 25دسمبر 1954 ءکو نافذ العمل ہونا تھا لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے اختیارات میں کمی کو مسترد کرتے ہوئے 21 اکتوبر 1954ءکو دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔ نئی دستور ساز اسمبلی نے چوہدری محمد علی کی قیادت میں پارلیمانی نظام پر مبنی 1956ءکا آئین منظور کیا۔ اس آئین کے تحت فروری 1959 ءمیں انتخابات منعقد ہونا تھے لیکن اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں دستور کی بساط لپیٹ دی۔ پاکستان کی پہلی فوجی امریت نے 1962ءمیں صدارتی نظام پر مبنی دستور مسلط کیا۔ اس دستور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔ جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کے منشور کا بنیادی نکتہ پارلیمانی جمہوریت کی بحالی تھا۔ 1973 ءمیں بچے کچھے پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے متفقہ طور پر 1973ءکا پارلیمانی دستور منظور کیا۔ 1977 میں آئین کی معطلی کے بعد جنرل ضیا الحق نے صدارتی نظام مسلط کرنے کا پیڑا اٹھایا۔ ان کی اس خواہش کے پیش نظر آئین کے شعبدہ باز شریف الدین پیرزادہ نے قائد اعظم کی ایک ایسی ڈائری دریافت کی جو لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر اور فاطمہ جناح کے علم میں بھی نہیں تھی۔ جنرل ضیا نے 12 اگست 1983 کو مجلس شوریٰ کے سامنے اس ڈائری کا انکشاف کیا۔ اس ڈائری کی حقیقت واشگاف کرنے کے لئے یہی پوچھنا کافی ہے کہ یہ ڈائری کہاں رکھی ہے اور اس کے باقی صفحات پر کیا لکھا ہے؟
جنرل ضیا نے آٹھویں ترمیم اور پھر جنرل مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے صدارتی انتظام مسلط کرنا چاہا۔ 2010ءمیں منتخب پارلیمنٹ نے پارلیمانی جمہوریت بحال کر کے وفاقی اکائیوں پر اعتماد ظاہر کیا۔ تاریخ کی اس باز آفرینی سے واضح ہے کہ پاکستان میں جمہوری ذہن مسلسل پارلیمانی جمہوریت کا حامی رہا ہے جب کہ جمہور دشمن قوتیں بار بار صدارتی نظام کا اشقلہ اٹھاتی رہی ہیں۔ پاکستان صدارتی نظام کے دوران ٹوٹا جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد سے صوبائی ہم آہنگی کی صورت حال بے حد اطمینان بخش ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے اصول پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت دیتے ہیں۔ صدارتی نظام کے لئے دستور کو منسوخ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے ساتھ اس سے بڑی دشمنی ممکن نہیں۔ ہم جمہور کی اجتماعی فراست پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ذہانت کے خود ساختہ پتلوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔

دنیا میں ایسا بھی نہیں ہوتا!


ارشد وحید چوہدری




بچوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اور ان کے کپڑوں پہ اپنے ہی ماں باپ کے خون کے چھینٹے ہمارے معاشرے کی وہ بھیانک تصویر ہے جس سے ہم لاکھ منہ موڑیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہمارے لاشعور سے کبھی مندمل نہیں ہوگی۔ سینکڑوں زرخیز ذہنوں کو جنم دینے والے میرے آبائی شہر ساہیوال کے نام نے شہرت بھی پائی تو ایسی کہ ہماری اجتماعی جہالت کو بیچ چوراہے میں ننگا کردیا۔ ہماری تہذیب پہ وہ طمانچہ مارا کہ جس کو جتنا بھی سہلائیں درد ختم ہونے والا نہیں ،ہمارے ضمیر پہ وہ بوجھ ڈال دیا جسے تاحیات اب سہنا ہوگا۔ جو مذہب ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے، اس کے ماننے والے تیرہ سالہ معصوم اریبہ اور اس کے والدین کو اس سفاکی سے پلک جھپکنے کی دیر میں چیونٹی کی طرح مسل دیں تو بچ جانے والے بچوں عمیر ،منیبہ اور ہادیہ کوہم کیسے جان کی حرمت کا درس دے پائیں گے۔گورنر پنجاب چوہدی سرورنے بجا فرمایا کہ ایسے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں لیکن کاش وہ قوم کو یہ بھاشن دینے سے پہلے ایسے واقعات کے رونما ہونے کے بعد ان مہذب معاشروں کے رد عمل سے بھی آگاہ کر دیتے جہاں ان جیسا کوئی حکومتی عہدیدار ایسی دیدہ دلیری سے متاثرین کے زخموں پہ نمک نہیں چھڑکتا، جہاں کوئی فیاض چوہان اس طرح کے گھنائونےجرم کے مرتکب افراد کو حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کٹہرے میں کھڑے کئے بغیراگلے ہی لمحے بری الذمہ قرار نہیں دے دیتا، جہاں کوئی فواد چوہدری ریاست کا موقف دیتے ہوئے مقتولین کا خون خشک ہونے سے بھی پہلے ان کی بے گناہی پہ شک ظاہر نہیں کرتا، جہاں کوئی راجہ بشارت تحقیقات سے پہلے ہی معصوم افراد کو گناہ گار قرار دینے کا فیصلہ صادر نہیں فرماتا ، جہاں کوئی چیف ایگزیکٹو والدین اور بہن کو کھو دینے والے بچوں کو پھول پیش نہیں کرتا اور جہاں ماورائے عدالت قتل کرنے والے اہلکاروں کا اپنا ہی ادارہ اس طرح فرضی اور من گھڑت کہانی پہ مبنی سرکاری اعلامیے جاری نہیں کرتا۔ وطن کی مٹی سے کوسوں دور دیارغیر میں اپنی جوانی گزارنےوالے گورنر پنجاب کو اگر صاف گوئی کا اتنا ہی شوق تھا تو مہذب معاشرے کا یہ رخ بھی عوام کو بتاتے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں اگر سترہ سالہ سیاہ فام انٹون روز، کار روکے جانے پہ خوف زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش میں پولیس افسر کی فائرنگ سےمارا جائے تو واشنگٹن انتظامیہ سمیت پورا امریکہ معصوم روز کی ہلاکت کا ذمہ دار خود کو تصور کرتا ہے، بوسٹن اور پنسلوینیا جیسی یونیورسٹیاں تحقیقاتی مقالے شائع کرتی ہیں جن میں یہ کھوج لگانے کی جستجو کی جاتی ہے کہ ایسے واقعات کے معاشرے بالخصوص سیاہ فام آبادی کی ذہنی صحت پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جہاں محض ایک پولیس اہلکار کو سزا دینے میں تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے پولیس کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، اہلکاروں کی بھرتی سے، ان کی تربیت ، جانچ پڑتال اور شہریوں سے برتائو کے پورے نظام کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا جاتا ہے، جہاں مستقبل میں روز جیسے بے گناہوں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایوان نمائندگان اور سینیٹ نئی قانون سازی کے لیے سوچ بچار کرتے ہیں ، چوہدری سرور صاحب جب آپ اور دیگر حکومتی ذمہ داران مسند اقتدار پہ بیٹھ کر ادھورا سچ بولیں گے یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں گے تو ساہیوال جیسے سا نحات رونما ہوتے رہیں گے۔ کاش آپ کی حکومت نے اس سے ہی سیکھ لیا ہوتا کہ رائو انوار کو بہادر بچہ قرار دیا گیا تھا تو معصوم اریبہ کو والدین سمیت اس سوچ کی بلی چڑھنا پڑا۔ جب تک ہم اپنے اپنے رائو انواروں کو تحفظ دیتے رہیں گے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھائیں گے تب تک ایسے سانحات ہمارا مقدر بنتے رہیں گے، دائرے کے اس سفر کی ذمہ داری ہم ایک دوسرے پہ ڈال کر کبھی منزل حاصل نہیں کر سکتے لیکن صد افسوس کہ طعنہ زنی کے اس رویے کی بدولت اس تاریک سرنگ کے آخرے سرے پہ بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ حسب روایت واقعے پہ تقاریر ہوئیں ، مذمت کی گئی اور پھر آستینیں چڑھا کر اور گلے پھاڑ کر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، کسی نے کسی کو سانحہ ماڈل ٹائون کا مرتکب قرار دیا تو کسی نے دوسرے کو سانحہ اے پی ایس یاد دلانے میں تامل نہیں کیا اور کسی نے سانحہ ساہیوال کے طعنے دے کر ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا تاثر دیا۔ شور شرابے، احتجاج اور طنز کے دوران کسی طرف سے یہ آواز سننے کو نہ ملی کہ بس بہت ہو چکا اب 1861 کے پولیس نظام کو کسی عجائب گھر کی زینت بنا دینا چاہئے ،پولیس کو عوام کا حقیقی محافظ بنانے کے اقدامات کریں، کوئی قانون ساز پولیس اہلکاروں کی تربیت اور مجرموں سے نمٹنے سے لے کر کمیونٹی پولیسنگ کے قیام میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتا نظر نہ آیا، کسی کو یہ تجویز دینے کی توفیق نہ ہوئی کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ، کسی نے زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کی نفسیاتی بحالی کو ترجیح قرار دے کر مناسب اقدامات کرنے کی سفارش نہ کی، کوئی ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دینے کی ضرورت پہ زور دیتا دکھائی نہ دیا، کسی نے یہ سفارشات پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ایسے واقعات کے بعد متعلقہ اداروں اور حکومت کا رد عمل کس نوعیت کا ہونا چاہئے۔ سانحہ ساہیوال کے بعد قانون سازوں کی طرف سے ایک دوسرے پہ کی جانے والی اس طعنہ زنی پہ کوئی اچنبھا نہیں کیونکہ جب سوچ ہی یہ ہو کہ ایسے واقعات تو دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں تو پھر رویے بھی ایسے ہی جنم لیتے ہیں، یہاں صرف اتنی گزارش کہ گورنر پنجاب جیسے ارباب اختیار کاش پورا سچ بولیں کہ دنیا میں ایسے واقعات رونما ضرور ہوتے ہیں لیکن وہاں ان پہ سیاست نہیں کی جاتی بلکہ ان سے سبق سیکھا جاتا ہے۔

جمعرات، 31 جنوری، 2019

تھوڑی سی معقولیت

ترجیحات کا مسئلہ

بقائے جمہوریت اور آزادیٔ صحافت

آصف علی بھٹی



کہاجاتا ہےکہ صحافت کے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں اور آزادیٔ صحافت کا مطلب ہے کہ جمہوریت جاری رہے اور منتخب لوگ عوام کے اعتماد سےترقی وفلاح کا کام کرتے رہیں۔ جس ریاست یا معاشرے میں آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے وہاں جمہوریت کی سانسیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔ بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جہاں اقتدار حاصل کرلیاجاتاہے مگرسچ سننا اور برداشت کرنا تو درکنار سچ وحقیقت کی تلاش بھی جرم بن جاتی ہے۔ ایسی جمہوری حکومتیں عوام پر حکمرانی کا حق تو جتاتی ہیں لیکن خود احتسابی اور تنقید سےبچنےکےلئے زبانِ خلق کو گنگ رکھنا چاہتی ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ نیت،مقصد اور جدوجہد نیک ہو تو کسی کاخوف نہیں رہتا بلکہ سوال مثبت ہو یا منفی، غلط ہو یا درست، مثبت سمت سے گمراہ نہیں کرسکتا اورنہ منزل سے بھٹکا سکتاہے۔شومئی قسمت کہ ہم گزشتہ دس سال سے جمہوریت کا پہیہ کامیابی سےچلانے کے دعویدار تو ہیں لیکن جمہوریت کےرکھوالے اور سلامتی کے ضامن صحافتی کردار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے فخر محسوس کررہے ہیں۔یہ سب کچھ وہاں ہورہاہے جس ملک کےبانی جناب محمدعلی جناح نے خود آزادیٔ اظہار اور صحافت کی آزادی کاسرخیل بن کر اپنی جدوجہد کو پوری قوم کی فتح میں تبدیل کیا۔ 1947ء کی جدوجہدِ آزادی سے بہت پہلے ہی جنگ، منشور، زمیندار، انجم اور برصغیر پاک و ہند کےدیگر جریدوں نے مسلمانانِ ہند کی الگ ریاست کے قیام کا عَلم اپنی خبروں، اداریوں، بحث مباحثوں اور تصویروں سےبلند کردیاتھا، ایسے میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود پریس کی آزادی کےلئے میدان میں آگئے۔1910ءمیں امپیریل لیجیسلیٹیو کونسل کا ممبر بننےکےبعد بطور قانون دان حکومت کے آزادی صحافت کو دبانے کے ’’پریس ایکٹ‘‘ کی مخالفت کی۔ آپ اس قوم کے پہلے اور واحد رہنما ہیں جس نے انگریزوں، ہندوئوں اور عالمی استعمار کی سیاسی، صحافتی و عددی مخالفت اور پروپیگنڈے سے نمٹنے کےلئے 7جون 1937ء میں پہلا آزاد پریس فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو 1939ء تک پورے برصغیر میں فعال ہوگیا۔ قائد اعظم نے شہر شہر جاکر 1لاکھ 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کے فنڈز اکٹھے کئے،1941 میں قائد اعظم نے انگریزی زبان کےجریدے کو اپنی اور قوم کی آواز اور آئینہ قراردیا۔قائد اعظم محض آزادجمہوری ریاست کے موجد ہی نہیں تھے بلکہ آزاد صحافت کے بھی سرخیل تھے۔ 12مارچ 1947 میں بمبئی کی صوبائی مسلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن سےخطاب میں واضح کردیاکہ صحافیوں کےپاس عظیم طاقت ہے،وہ عوام کی نظر میں کسی بڑی شخصیت کو بنا اور بگاڑ سکتےہیں۔پریس کےپاس عظیم طاقت محض’’ اعتماد‘‘ ہےجس کےحصول کےلئے پوری ایمانداری اور مخلصانہ انداز میںمکمل طور پر بلا خوف و خطرکام کریں۔وہ آزاد صحافت کی خاطر خود پر تنقید کوبھی خوش آمدید کہتےہیں، وہ یا مسلم لیگ، پالیسی یا کسی منصوبے کےمعاملے پر کوئی بھی غلطی کریں تو انہیں تنقید کانشانہ بنایاجائے وہ اس کو دوستانہ انداز میں برداشت کریں گے۔
قارئین! اندازہ لگائیں کہ عظیم قائد ایسے نازک موقع پر جب وہ خالی ہاتھ محض عوام کی سپورٹ اور اپنے بےداغ کردار سے علیحدہ سرزمین کےحصول کےمشکل ترین مرحلےمیں سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہو،اپنی سیاسی جدوجہد کی کامیابی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کےلئے آزاد میڈیا کی بنیاد رکھ رہاہے لیکن آزادی کےبعد ڈکٹیٹرشپ اور جمہوری حکومتیں محض اقتدار کےلئے آزادیٔ اظہار پر کیسے کیسے کڑے پہرے اور قدغن لگاتی رہی ہیں، ماضی کے بعض واقعات سے شاید اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،آج بھی اپنے اقتدار کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لئےحقِ تنقید ہی نہیں حقِ زندگی بھی چھینا جارہاہے۔
قارئین کرام! نیا سال مبارک ہو، نیا طرز سیاست اور حکومت مبارک ہو، نیا پاکستان مبارک ہو،قوم شکر گزار ہےکہ وطن عزیز میں جمہوریت قائم ہے، ریاستی ادارے آزاد اور فعال ہیں، احتساب کا عمل بلاتخصیص جاری ہے۔
لیکن یہاں توحد یہ ہےکہ بانی قائد نےجس پاک دھرتی کی جدوجہد میں آزاد و بلا خوف صحافت کی بنیاد رکھی اور آزاد و پیشہ ور اداروں کو مضبوطی سےسچائی پر قائم رکھنےکےلئےمتحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ جاکر فنڈز اکھٹے کئے، اسی پاک سرزمین میں صحافتی اداروں اور کہنہ مشق صحافیوں کو دیوار سےلگایاجارہاہے۔ پاکستان میں اپنی محنت اور کوششوں کےبل بوتے پر تیز رفتار ترقی اور مقام بنانے والےالیکٹرونک میڈیا کو وطن عزیز کے روشن چہرے اور حکمرانوں کی کوتاہیوں کو دکھانے سے روکنے کےلئے کوڑی کوڑی کامحتاج کیاجارہاہے۔ گزشتہ جمہوری دور میں وفاق اور صوبوں نے اخبارات اور چینلزکو8ارب کےاشتہارات دئیے مگر جمہوری تسلسل کے نئے حکمران ان جائز ادائیگیوں کو بھی تیار نہیں۔ نتیجتاً قیامِ پاکستان کے لئے بھرپور کردار اداکرنے والے صحافتی اداروں کا کاروبار ٹھپ، آزادیٔ اظہار کے علمبردار خاموش اور عوام کو حق وسچ سے آگاہی دینے والے سینکڑوں عامل صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں محض صحافت کو ذریعہ معاش وروزگار بنانے والے ادارے لاچار اور ہدف تنقید ہیں۔ صحافتی پیشے کی بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ریاست کے چوتھے ستون کو ہٹاکر آپ سب ایک دن اپنے گناہوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو جائیں گے اور پھر اس عمارت کو کھڑا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والےجمہوری ملک امریکہ کا آئین1787 ء میں بنا جس کی پہلی شق ہی آزادیٔ اظہار ہے، جو اسکول کےبنیادی نصاب میں بچوں کو پڑھانا لازمی ہے، اسی جمہوری ریاست میں چوتھے منتخب صدر جیمز مڈیسن نے کینٹکی کےگورنر کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ ایک مقبول حکومت اطلاعات یا اطلاعات دینے والے صحافتی اداروں کی عدم موجودگی سے مذاق اور سانحات کا شکار ہو سکتی ہے، عوام کو آزاد معلومات سے مسلح کریں، وہ آپ کو اپنا سمجھیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ نئے سال کی شروعات پر ہم عزم کریں کہ اپنے ارادوں کو مضبوط اور دلوں کو کشادہ کریں گے، نئے پاکستان کی تعبیر کیلئے سچائی سننے کی ہمت اور تنقید سہنے کی برداشت پیدا کریں گے۔ تالے بندیوں اور گردن زنی کے آمریتی ہتھکنڈوں سے نجات پا لیں گے اور حق اور سچ کو آشکار ہونے دیں گے کیونکہ جھوٹ اور گمراہی ہی زوال کے بنیادی اسباب ہیں۔