بدھ، 23 جنوری، 2019

تم کتنے اچھے باپو ہو


بچے من کے سچے ہوتے ہیں ، ایک بچے کا واقعہ ہے جو ہندوستان کے ایک مشہور شہر کے مضافات میں اپنے والدین کے ساتھ ایک کھولی میں رہتا تھا۔ اس کا والد دیہاڑی دار مزدور تھا۔ دیہاڑی دار مزدورں کے بیوی بچے شام کو اپنے والد کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ کچھ کما کر لائے گا تو چولہے میں آگ جلے گی ۔ چولہے کو جو نسبت پیٹ سے ہوتی ہے ۔ غریب خاندانوں کو وہی نسبت اپنے باپ سے ہوا کرتی ہے۔ مگر ہم جس بچے کا قصہ آپ کو سنانے لگے ہیں اس کا مسٗلہ پیٹ کے لیے روٹی سے بڑھ کر تھا۔ پہلے تو اس نے اپنا مسٗلہ اپنی ماں کو بتایا مگر جلد ہی اسے سمجھ آ گئی کہ اس کے مسٗلے کا حل ماں کے پاس ہے ہی نہیں۔ اس نے اپنے باپ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا باپ دیر سے گھر آتا تھا عام طور پر وہ سو چکا ہوتا تھا۔ جن گھروں مین بجلی نہیں ہوتی وہاں رات سورج غروب ہوتے ہی اتر آتی ہے۔مگر وہ باپ کا انتظار کر رہا تھا۔ جوں ہی اس کا باپ کھولی میں داخل ہوا وہ دوڑ کر باپ کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا۔ باپ کی پورے دن کی تھکاوٹ اتر گئی ۔ ادہر ہی بیٹھ کر باپ نے پورے بدن کا پیار سمیٹ کر اپنے ہونٹوں پر جمع کیا اور بیٹے کو چوم لیا۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب چاہتوں کو قبولیت بخشی جاتی ہے ۔ بڑے فیصلے ایسے ہی جذبانی لمحات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہی لمحہ تھا جب بیٹے نے ْ سائیکل ْ کا مطالبہ باپ کے سامنے رکھا۔ باپ نے ہاں کر دی ۔ بیٹا سکون کی اور باپ تکھن کی نیند سوگیا ۔ صبح ہوئی باپ کام پر چلا گیا ۔ شام ہو گئی ۔ باپ کام سے گھر واپس پہنچا تو بیٹے کو منتظر پایا مگر آج انتطار سائیکل کا کیا جا رہا تھا۔ بیٹے نے باپ کو کل والا وعدہ یاد دلایا ۔ باپ کو احساس ہو گیا کہ بیوی سے کیے گئے وعدے اور بیٹے سے کیے گئے وعدے مین بہت فرق ہوتا ہے۔ بیوی تو اس کی تھکن کو ہی دیکھ کر سارے وعدے بھول جایا کرتی تھی۔ جو کسر رہ جاتی خاوند کے پسینے والے کپڑے دھوتے نکل جاتی ۔ اس کو ادراک ہو گیا تھا کہ کیا ممکن ہے اور کیا نہیں مگر بچہ ادراک سے واقف ہی نہ تھا۔ اس کو تو صرف یہ یاد تھا کہ اس کے باپ نے اسے سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ہر شام کو اس کے من میں امید کے پھول کھلتے اور رات کو باپ کے آنے کے بعد مرجھا جاتے۔ ہفتوں بیت گئے ۔ جب خواب بکھرتے ہیں تو انسان کے اندر ، خواہ ، بے ادراک بچہ ہویا عقل مند مردو زن ، اس کے اندر ایک بغاوت جنم لیتی ہے ۔ بغاوت ایک لمحے کا فیصلہ نہیں ہوا کرتی ۔ بغاوت کا پس منظر ہوا کرتا ہے ۔ محرومی باغیانہ خیالات کو جنم دیتی ہے۔ محرومیوں کی طوالت باغیانہ خیالات کو مستحکم کرتی ہے۔ یہ ایک لاوہ ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا مگر انسان کے اندر ایک بھٹی جل رہی ہوتی ہے جہاں کچے خیالات پک رہے ہوتے ہیں۔ مٹی کی کچی اینٹ اور بھٹی سے پک کر نکلنے والی اینٹ میں ہم نام ہونے کے باوجود بہت فرق ہوتا ہے ۔ کچی اینٹ سخت چیز سے ٹکرا کرمٹی بن جاتی ہے مگر پکی اینٹ حالات کے سرد و گرم کہ سہنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اور سخت مزاحمت سے ٹکرا کر مٹی کا ڈھیر نہیں بنتی بلکہ مزحمت کو پاش پاش کر دیتی ہے۔بچے کے من میں مزاحمت کے خیالات نے جڑ پکڑ لی تھی۔ تین ماہ کے با صبر مطالبے نے بچے کے من میں لاوہ روشن کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور ہر رات وعدے کو اگلے دن پر ٹالا جا رہا تھا۔ وقت کی طوالت مزاحمت کے الاو کوایندہن فراہم کر چکی تھی۔ اب بچہ سائیکل کی خواہش کا اظہار نہیں کرتا تھا باپ کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی یاد دہانی کراتا تھا۔ اس کو معلوم ہو گیا تھاکہ ماں کی طرح اس کے باپ پر اس کا رونا اثر انداز نہیں ہوتا۔ روٹھ جانا بھی کارگر نہ ہوا۔ یہ کیسا انسان ہے کہ وعدہ کرکے پورا نہیں کر رہا ۔اس سوچ نے بغاوت کے شعلے کو بلند کر دیا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا۔ اس کے اس فیصلے سے ماں بھی بے خبر تھی ۔ حالانکہ اس دن اس کا باپ بہت دیر سے گھر واپس آیا تھا مگر وہ جاگ رہا تھا۔ اج اس نے باپ سے پوچھنے کا حوصلہ پیدا کر لیا تھا۔ باپ گھر میں داخل ہوا بچے نے اس کی ٹانگوں کو جکڑ لیا۔ باپ نے وہیں بیٹھ کر سارے جسم سے پیار کشید کر کے ہونٹوں پر جمع کرنا شروع کیا کہ اس کے کانوں نے سنا ْ باپو ۔۔ تم ہی میرے باپو ہو ، تم نے سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا تھا ۔۔ مجھے بتاو میرا کوئی دوسرا باپو ہے جس سے میں سائیکل کا مطالبہ کروں ْ باپ کے جسم سے کشید ہوتا پیار بکھر گیا۔ ْ بتاو میرا دوسرا باپو ہے ْ باپ نے من میں شور اٹھا ْ میں ہی تیرا باپو ہوں ْ مگر اس کی زبان نے ساتھ نہ دیا۔ اٹھا ، الٹے قدموں سے گھر سے باہر نکل گیا۔ ماں نے کہا تم نے اپنے باپو کو ناراض کر دیا ہے ۔ انھوں نے کچھ کھایا بھی نہیں اور بن بتائے کہیں چلے گئے ہیں۔ باہر اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ ارد گرد کی کھولیوں والے سو چکے تھے ۔ پتہ نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ باپ واپس آیا۔ اس کے کاندھے پر نئی سائیکل تھی۔وہ رات تینوں دیر تک جاگتے رہے۔ صبح باپ کام پر جانے لگا تو اس نے جھک کر بیٹے کے ماتھے کو چوما۔ بیٹا ایک دم اٹھ بیٹھا۔ اس نے باپ کو گلے لگایا ۔ باپ کا منہ چومتا جاتا تھااور کہتا جاتا تھا ۔۔ میرے باپو ،میرے باپو اور باپ کا منہ چومتا جاتا تھا۔ ۔ جب باپ گھر سے نکلنے لگا تو بیٹا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا ۔ باپ نے بیٹے کو دیکھا دونوں کی نظریں چار ہوئیں ۔۔ ْ میرے باپو ۔۔ تم کتنے اچھے باپو ہو ْ 

جمعرات، 17 جنوری، 2019

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

                                   

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پاکستان کے 26ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 18 جنوری 2019کوحلف اٹھا لیا وہ 20 دسمبر 2019 تک اس عہدے پر رہیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے،انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا، اسی یونیورسٹی سے  1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔اس وقت ملک میں 19 لاکھ کے قریب مقدمات التوا کا شکار ہیں ۔ 40871 مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں موجود ہیں جبکہ 130744 مقدمات خصوصی عدالتوں اور تریبونلز میں زیر التوا ہیں ۔ ملک کی ہائی کورٹس ، پنجاب میں 165515، کے پی کے 29624، بلوچستان 6842 ، سندھ  92169  جبکہ اسلام اباد میں 17085 مقدمات زیر التوا ہیں اس کے علاوہ ملک کی وفاقی شرعی عدالت میں بحی 422 مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں۔ 
  یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ١ میں ایک شہری نے چیف جستس پر رشوت لینے کے الزامات عائد کیے تو ادارے کو سانپ سونکھ گیا تھا۔ کسی جج نے جرات نہ کی کہ اپنے چیف کے خلاف لگائے گئے  الزام کی تحقیقات ہی کرا لی جائے ۔ البتہ چیف جستس صاحب کے نزدیک پاکستانی قوم اس لیے قابل رجم ہے کہ اس نے مزہب کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا لیکن سچائی، حق گوئی اور احتساب کو کوئی اپمیت نہیں دی ۔
 جستس کھوسہ کو اس قوم سے یہ گلہ ہے کہ وہ بے وقوف کو دانا سمجھتی ہے اور بد معاشوں کا احترام کرتی ہے۔
ان کے اس جرات مندانہ ریمارکس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد کو مایوسی ترک کر کے دوبارہ انصاف کے لیے پر امید ہو جانا چاہیےکیونکہ جستس کھوسہ یقین رکھتے ہیں کہ جج کو اپنے فیصلوں کے زریعے بولنا چاہیے ۔

پیر، 7 جنوری، 2019

بادشاہ



ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمھارا خدا بادشاہ۔۔۔ اس جملے پر دوبارہ نظر ڈالیں تو منکشف ہو گا کہ یہ کہانیاں صرف ان بادشاہوں کی ہوا کرتی تھیں ۔ جو بادشاہت سے محروم ہو چکے ہوتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ جب تک شاہی مسند پر براجمان ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی زبان نہیں کھولتا ۔ مگر جب وہ اپنے سر سے بادشاہ کا تاج اتار دیتا ہے تو پھر وہ لوک کہانیوں کا موضوع بن جایا کرتا ہے۔ 
تازہ ترین کہانی ملیشیاء کے بادشاہ کی ہے ۔ جس نے
 6 
جنوری
2019
کو بادشاہت کی کرسی خالی کر کے اپنی محبوبہ کو اپنا لیا۔
 49
 سالہ اس سابقہ بادشاہ کا نام سلطان محمد پنجم ہے ۔ جو ریاست کلینٹن کے بادشاہ تنکو اسماعیل پترا کا صاحبزادہ تھا ۔ شہزدہ محمد
1979
 میں ریاست کلینٹن میں اپنے والد کا ولی عہد بنا۔اور
 2010
میں اپنے والد کی وفات کے بعد ریاست کا بادشاہ بن گیا۔ 
2016
 میں پورے ملائیشیاء کا بادشاہ بن گیا۔






 سلطان محمد پنجم کی
 15 
نومبر 2004
 میں شاہی خاندان میں زبیدہ بنت نورالدین سے شادی ہوئی تھی مگر 
2008
میں شاہی جوڑے میں طلاق ہو گئی

                            
سلطان محمدپنجم ماسکو میں چھٹیاں گذار رہے تھے کہ
 22
 نومبر 2018 کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی ۔ جس میں بتایا گیاکہ سلطان نے ماسکو کی سابقہ ملکہ حسن ، 22
 سالہ 
OKsana Voevodina 
سے شادی کر لی ہے۔
                             
سلطان محمدپنجم کی دلہن ، ماسکو کے ایک سرجن کے گھر پید اہونی والی حسینہ ماسکوکا اسلامی نام ریحانہ رکھا گیا۔قبول اسلام کے بعد اس کی زندگی کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ۔ ریحانہ سے پورے جسم کو ڈہانپے والا با 
وقارلباس زیب تن کرتی ہے او ر سر پر سکارف پہنتی ہے۔
                              
                               



پیر، 31 دسمبر، 2018

پسندیدہ جہاد

کرکٹ کا کھیل کھیلنے کے لیے پچ بہت محنت سے تیا ر کی جاتی ہے، تیار ہو جانے کے بعد اپنی ٹیم کھیلتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے اپنی تیار کردہ پچ پر مخالف کو کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔جب مخالف کو کھیلنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں تو بھی مد نظر اس کی شکست ہی ہوتی ہے۔

سیاست کی پچ پر، اس ملک میں طویل ترین میچ ،کرپشن کے نام پر چل رہا ہے۔میرے نوجوانی کے دنوں میں شہر میں ٹانگے ہوئے کرتے تھے۔ ٹانگوں کے کوچوان گھوڑے کو چابک سے اور سواریوں کو اپنی زبان سے قابو میں رکھے کرتے تھے البتہ ایک سرکاری محکمہ ایسا بھی تھا جس کے اہلکار کوچوانوں کو قابو میں رکھتے تھے۔ حکومت نے اس کا نام محکمہ انسداد بے رحمی رکھا ہوا تھا مگر اس محکمے کے اہلکاروں کو بے رحمی والے کے نام سے جانا جاتا تھا۔کوچوان کی آمدن اس قابل تو ہوتی نہیں تھی کہ خدا کی عائد کردہ زکواۃ ادا کرے مگر بے رحمی والے انسپکٹر کو اپنی آمدن کا حصہ دینا نہیں بھولتا تھا۔

ایک وقت تھا،جنگلات کی حفاظت کے نام پر بکری پالنا جرم قرار دیا گیا۔حتیٰ کہ دیہات میں بھی بکری پالنے والا مجرم ٹھہرایا جاتا تھا۔ قانون کی زد میں آنے سے اکثر لوگ بچ جاتے مگر گاوں کی مسجد کاپیش امام ہمیشہ حوالات کی ہوا کھاتا کیونکہ اسے موٹے پیٹ والوں کو کھلانے سے ایک وہ حدیث نبوی روکتی جس میں کھانے اور کھلانے والے دونوں ایک جیسے بتائے جاتے ہیں۔ 

حکومتوں کے فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان اپنے خاندانی سسٹم پر بہت نازاں ہوا کرتا تھا ۔ اور مشترکہ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے چولہا ٹیکس نافذ کیا گیا تاکہ خاندان کے لوگ اپنا ہانڈی چولہا علیحدہ علیحدہ نہ کر لیں۔ ایک خاندان گھر میں ایک ہی چولہا رکھ سکتا تھا۔ دوسرا چولہا رکھنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ حکومت نے تو قانون سازی ہی خاندانی اتفاق و اتحاد کے لیے کی تھی البتہ جن گھروں میں شادی کے بعد خانہ آبادی ہو جاتی ان گھرانوں اور حکومت کے مابین تعلقات خراب ہو جاتے البتہ پولیس والے ان تعلقات کے سدہار میں نمایاں کردار ادا کیا کرتے تھے۔

قیام پاکستان سے پہلے ہی علاقے میں ذرائع آمد روفت کے طور پر گھوڑے کی جگہ بائیسکل نے لینا شروع کر دی تھی۔ سائیکلوں کی چوری روکنے اور چوری شدہ سائیکلوں کی برآمدگی کے لیے ضلع کی سطح پر ایک رجسٹر ترتیب دیا جاتا تھااور ہر چوری ہونے والی سائیکل کا نمبر اس رجسٹر مین درج کر لیا جاتا تھا۔ جب یہ رجسٹر کافی پرانا اور بھاری ہو جاتا تو اسے کسی بھی چوراہے پر رکھ کر سائیکل سواروں کی سواریوں کے نمبر اس رجسٹر سے ملائے جاتے۔ جو عام طور پر نہیں ملا کرتے تھے۔ البتہ یہ منظر عام ہوتے کہ اہل رجسٹر اور اس کے درجنوں اہلکار ہر آنے والی کی سائیکل کو پکڑ لیتے اور سائیکل کی رسید پیش کرنے کا مطالبہ کرتے۔ الزام لگا کر بار ثبوت ملزم پر ڈالنا اسی زمانے کی اختراع ہے

یہ ابتداء تھی، معاشرے میں کرپشن نظر آنا شروع ہو گئی تو میرٹ کے نام پر تھانوں اور پٹوار خانوں میں با اعتماد افراد کی تعیناتی کا ڈول ڈالا گیا۔ معاشرے میں دیہاڑی دار آٹھ گھنٹے کی مزدوری پر کام کرتا تھا مگر کرپشن کے باعث اسے دیہاڑی کی بجائے ٹھیکہ دینے کا چلن چل نکلا۔ تھانے اور پٹوار خانے بھی بکنا شروع ہو گئے۔ محکوموں کو یقین ہو گیا کہ کرپشن کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ وکیل نہ کرو جج ہی کر لوکی اصطلاع ایجاد ہو چکی تھی۔ رشوت اور حرام کمائی کو لگام دینے کی بجائے مک مکا روائت بن گئی۔ نوسو چوہے کھا کر عمرہ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ اور ایسا چلا کہ معاشرہ اس متفق ہو گیا کہ کنویں میں پڑا مردار بے شک نہ نکالوحسب فرمان پانی کے ڈول نکال لو۔ مردار ملا پینے والا پانی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔معالجین گلی محلوں میں پھیل گئے ۔ لیبارٹریوں کا میلہ لگ گیا۔ میلے میں جلیبیاں تلنے والے بھی پہنچ گئے ۔معلوم ہوا تیل ملاوٹ زدہ ہے۔۔۔

اکہتر سالوں کی محرومیوں، تلخ تجربات، جلوسوں اور ہنگاموں کے بعد ہم طے کر چکے ہیں جلوس نہیں نکالیں گے البتہ ریلیاں نکالنا شرف انسانیت ہے۔ہنگاموں سے ہم نے منہ موڑ لیا ہے مگردھرنے وقت کی ضرورت ہیں۔اجتماعی زندگی میں ہم اپنے گروہ کا حصہ ہیں تو انفرادی زندگی کو محفوظ بنانے کے گر بھی ہمیں آگئے ہیں ہم اپنے نومولود کے سرہانے اس کے باپ کو بطور چوکیدار کھڑا کرتے ہیں،بچہ دن میں ایک بار تو اس کی حفاظت کے ذمہ دار دوبار سکول جاتے ہیں۔ بچے کو ٹیوشن اس لیے پڑہاتے ہیں کہ علم کے حصول کا حصہ ہے، ایک وقت تھا علم بڑی دولت ہوا کرتی تھی اب دولت ساری تعلیم میں سمٹ آئی ہے۔ہر سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کی قیمت ہے ۔

ہم دنیا کے نمبرایک جفاکش ہیں۔ گھر کو چمکاکر رکھتے ہیں۔ گھر کا کوڑا گلی کے راسے نکاسی کے نالے میں جاتا ہے۔ اللہ باران رحمت برساتا ہے تو نالا بھی صاف ہو جاتا ہے۔ البتہ دس سال بعد جب بند ہو جاتا ہے اور اس کے متوازی نیا نالا تعمیر کرلیتے ہیں۔ہم جان چکے ہیں سارا معاشرہ کرپٹ ہوجکا ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ کرپشن ختم ہوالبتہ ہم چاہتے ہیں اس کی ابتداء حریفوں سے ہو۔ 

جمعہ والے دن منبر پر بیٹھے خطیبوں، نصابی کتابوں میں درج داستانوں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روائتوں، جذباتی ناولوں اور سوشل میڈیا پر پھیلی اپنی کامیابیوں کا مان ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ کرنے والے سارے کام تو مکمل ہو چکے اب اعادہ ہی ممکن ہے ۔ بھٹو نامی شخص نے اگرچہ نیا پاکستان دسمبر1971 میں بنا لیا تھا دوبارہ دہرانے کا خیال نوجوانوں کو پسند آیا مگر کچھ ریٹائرڈ قسم کے بزرگوں کے من پر بھاری رہا ۔ البتہ کرپشن کے خلاف جہاد ایک بار پھر شروع کیا گیا تو اس پر ہمیشہ کی طرح نئے اور پرانے لوگ کافی مطمن ہیں۔ یہ تجربہ ہر بار عوام میں ایک نیا جذبہ پھونکتا ہے۔ اور سرور کا اصل سبب لفظ جہاد ہے۔ پاکستان میں کرپشن واحد برائی ہے جس کے خلاف عمل کے لیے نوجوان، جوان اور ریٹائرڈ لوگ سب ہی خوش دلی سے جہاد کرتے ہیں۔ 

ہم معاشرے میں گہری دفن کرپشن کی جڑوں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ ہر دس ، پندرہ سال بعد کرپشن کا درخت کاٹ کر اپنے جذبات کو قابل تحسین بنا سکیں۔

کتا ۔۔ہائے ہائے


قدرت اللہ شہاب صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب گھر سے نکلے ، راستے میں لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوب خان نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی مگر ایوب خان کے اصرار پر جب ڈرائیور نے حقیقت بیان کی تو ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑنے کا کہا اور گھر جا کر استعفیٰ دے دیا۔
ضیاء شائد صاحب نے لکھا ہے کہ لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ْ ایوب کتا ہاے ہائے ْ کی تختی ڈالی گئی۔ اس کی تصویر بناکر ایوب خان کو دکھائی گئی تو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔
ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہائے ْ کا نعرہ ہمارے سامنے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے مری روڈ پر ۷ نومبر ۱۹۶۸ کو لگایا گیا تھا۔ نعرہ لگوانے والا نوجوان عبدلحمید تھا جو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ جوپشاور روڈ پر گولڑہ موڑ سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے کنارے واقع تھا ( جنرل ضیاء کے دور میں اس سول ادارے کو عسکری ادارہ بنا دیاگیا تھا ) کا طالب علم تھا اور اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس نعرے کو عسکری حکمرانی سے جمہوری سفر کے آغاز کی نوید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور کچھ بنیادی حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ 
۵ ۱۹۶ کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان غذائی قلت کا شکار ہو گیا تھا۔ ایوب خان کے لائق وزیر زراعت خدا بخش بچہ کی درخواست پر امریکہ نے سرخ رنگ کی موٹے دانوں والی دہرے خواص والی مکئی پاکستان بجھوائی تھی ۔ اس مکئی کی پہلی خاصیت اس کا بد ذائقہ ہونا اور دوسری خاصیت یہ تھی کہ حلق سے نیچے مشکل سے اترتی تھی۔ قلت میں چینی بھی شامل تھی ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی قیمت میں ۲۵ فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی ایک روپیہ سیر کی بجائے سوا روپے سیر ۔ ملک بھرمیں پائی جانے والی تشویش کو مجتمع ہوتے ہوتے تین سال لگ گئے ۔ یاد رہے اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی۔ خبر چیونٹی کی چال رینگتی تھی۔ جب تشویش نے مظاہروں کا روپ دھارا تو اس وقت ملک میں اختیارات کا منبع جرنل ایوب خان تھا اور وہ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں اپنا دس سالہ اقتدار کا جشن ْ عشرہ ترقی ْ کے نام سے منا رہا تھا۔ گو پاکستان ایک وکیل نے بنایا تھا مگر ہراول دستے کا کردار طلباء نے ادا کیا تھا۔ ملک میں طلباء کی یونینز کافی مضبوط تھیں۔ لاہور کے جشن دس سالہ کے دوران لاہور کے طالب علم سٹیڈم کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور دوسرے مقامات پر بھی طلباء نے ہڑتال اور ہنگامے شروع کر دیے۔ دس سالہ ترقی کی سیٹی بجاتی ٹرین کو بہاولپور میں نذر آتش کر دیا گیاتھا۔۷ دسمبر کو ایوب خان کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران پولیس کی گولی سے دو افراد جان بحق ہو گئے تھے۔
اس وقت سوویت یونین اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ چین سے ماوزے تنگ کی عطا کردہ ٹوپی مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے سر پر تھی تو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدمولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشل عوامی پارٹی منظم ہو چکی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم ننگی تلواریں لیے مد مقابل تھے ۔ اسلامی ذہن کی سیاسی جماعتیں اور جنرل ایوب موجود نظام کے محافظ تھے تو مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب سرخ انقلاب کے داعی تھے۔ قحط کی ماری قوم سے ایک جلسے میں ایک مذہبی سیاسی رہنماء (جماعت اسلامی کے امیر )نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں قران پاک اٹھا کر عوام سے پوچھا کہ روٹی کو ترجیح دو گے یا قران کی حفاظت کرو گے۔ عوام نے شیخ مجیب اور بھٹو کو منتخب کر کے روٹی کو اہمیت دی ۔ ان دنوں ایک جلسے میں نعرہ بلند ہوتا تھا ایشیاء سرخ ہے تو دوسرے دن اسی مقام پر ایشیاء کے سبز ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی ۔ جنگ دائیں اوربائیں بازو کی تھی۔ جسے کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ 
ایوب کتا ۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگانے والے کوئی زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے ۔ جب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کوجنرل یحییٰ خان نے اپنے بھائی آغا محمد علی (جو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے) کی مدد سے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلے سے ٹائپ شدہ پر دستخط کرائے تو ایشیا سبز ہے کے نعرے لگانے والے مطمن ہو کر گھر چلے گئے ۔ اور سرخوں نے بھی کمیونزم کو
لپیٹ کر اسلامی سوشلزم کو برامد کر لیا۔ 
اس دور سے تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس حقیقت کو بھی دریافت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے کے پیچھے بنیادی عنصر یہ تھا کہ کانگریس نے ذہن بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھنا ہے ۔ مسلمانوں کو کانگریس کی اس سوچ سے اختلاف پیداہوا۔ مسلم لیگ نے جنم لیا اور پاکستان بن گیا۔ عزت نفس بنیادی انسانی حق ہے۔ ممتاز صحافی علی احمد خان نے اپنی کتاب ْ جیون ایک کہانی ْ میں لکھا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مادر ملت کے جلسے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گذارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ گرد و نواح کے گاوں کے لوگ بھی وہاں جمع تھے اور ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی نے بنگالی ڈرائیور نے انھیں تختے لانے کے لیے کہاتو ان میں ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے پوچھا کس کی طرف سے آئے ہو؟ ڈرائیور نے بتایا مادر ملت فاطمہ جناح کی طرف سے ۔ بنگالی نے کہا ایسا بولو نا ۔۔ تمھاری گاڑی کو تو ہم کندہوں پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔اس جلسے نے ثابت کر دیا تھا مادر ملت نے میدان مار لیا ہے ۔ مگر ایوب خان کی انتخابات میں دھاندلی نے عوام سے شراکت اقتدار کی امید ہی چھین لی تھی۔ جب امیدین چھین لی جائیں توبقول صاحب طلوع ارشاد احمد عارف ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہاے ْ کے نعرے گھر کے اندر معصوم نواسے بھی لگاتے ہیں۔