پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 4



ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک مقبرہ ہے جس میں پاکستان سے جڑی تین شخصیات کی قبریں ہیں ایک مولوی فصل الحق دوسرے خواجہ ناظم الدین الدین اور تیسرے حسین شہید سہروردی جن کی موت بیروت میں جلا وطنی میں ہوئی تھی ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا 21 توپوں کی سلامی دی گئی پاکستان کا پرچم سر نگوں کر دیا گیا اور پھر ان کی میّت کو ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے صحن میں دفن کر دیا گیا
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سہروردی کے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کا سانس رُک گیا اور وہ فوت ہو گئے
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔
1918 میں لندن کے "گریز ان" سے تعلیم مکمل کر بنگال لوٹ کر آنے والے سہروردی نے 1946 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد اراکان کو ساتھ ملا کر کامیابی پلیٹ میں رکھ کر قائد اعظم کو پیش کی تھی۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔قائد نے انھیں بنگال کاوزیراعلیٰ نامزد کردیاتھا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کر دیا تھا
ان کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔قابلیت وہ ہوتی ہے جس کا مخالفین بھی اعتراف کریں گاندھی کے الفاظ ہیں کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے
لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوارن ایک صحافی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے زیادتیوں کے حوالے سے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ بابا! مشرقی اور مغربی پاکستان کو کونسی طاقت متحد رکھے ہوئے ہے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تین طاقتیں ہیں ً انگریزی زبان ً ً پی آئی اے ً اور ًحسین شہید سہروردی ً
وہ پاکستان کی وحدت کے سخت حامی تھےصدر ایوب خاں کو اپنی معذولی کے بعد ایک خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہےان کی خواہش تھی کہ ان کی اندگی میںمشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement ہو جائے،
انھوں نے جنرل ایوب کو کہلوایا تھا "میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘
ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔
جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پاکستان میں رہیں ۔

گوادر اج جو ترقی کی امید کا محور ہے۔ اس کے حصول کی ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں ہو چکی تھی ۔ سہروردی نے اپنے دور میں اس کو آگے بڑہایا اور فیروز خان نون کے دور میں پاکستان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

امریکہ نواز خارجہ پالیسی تو انہیں ورثے میں ملی تھی مگر بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ بھارت سے کسی بھی چپقلش کی صورت میں انہیں امریکہ سے کسی قسم کی امداد کی امید نہیں تھی جبکہ اپنے معاہدوں کے مطابق روس بھارت کے ساتھ کھڑا تھا اس لئے اس وقت انہوں نے دیانتداری سے محسو س کیا تھا کہ پاکستان کیلئے اب چین سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنا ہماری علاقائی اور دفاعی ضرورت بن گیا ہے
میں جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں امریکی صدر نکسن پہلی مرتبہ 1969 پاکستان سے پی آئی اے کی پرواز پر چین گئے تھے. جس کے بعد چین امریکہ تعلقات کا دور شروع ہوا تھا۔
سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئےتو انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کا بحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوںنے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد( ایٹمی توانائی ) کو حاصل کیا جانا تھا۔ایوب خان نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو ترک کر دیا تھا کہ ہم غریب قوم ہیں ۔ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے

جنرل ایوب خان نے مارشل لالگانے کے بعد سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور عدالت نے یاستدانوں کو نااہل فرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی پر بھی کرپشن کا کیس بنا۔ جو ایک فوجی عدالت میں چلا ۔ اس کیس کی روداد منیر احمد منیر نے لکھی ہے “ گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request کی تھی‘‘

بیرسٹر ظہور بٹ لندن۔ جو سہروردی کے بہت قریب تھےنے لکھا ہے
جنرل ایوب خان ایک عرصہ دراز تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
( Elective Bodies Disqualification Odrinnance 1960)
کے نام سے مارشل لاء کا ایک ضابطہ جاری کیا جسے ایبڈو (EBDO)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے تمام سیاستدانوں کو ناہل قرار دلوانا تھا جو جنرل ایوب خان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے تھے اس مقصد کیلئے ایک ٹریبونل بنایا گیا جس کے چیئر مین جسٹس اے آر چنگیز تھے جو پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے دوسرے دو ممبروں میں ایک فوجی کرنل محمد اکرم تھے اور دوسرے ایک سینئر بیوروکریٹ۔
ٹریبونل میں پیش ہو کر سہروردی صاحبؒ کہا ’’میں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں لگائے جانیوالے بد عنوانیوں کے ان الزامات کو نفرت اور حقارت کیساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ کلکتہ میں وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک تھے جس کے عوض وہ بھی پاکستان میں متروکہ املاک پر قبضہ کرکے حقوق ملکیت حاصل کر سکتے تھے مگر انکی غیرت نے ایسا کرناگوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پورے پاکستان میں ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں ہے ڈھاکہ میں وہ اپنے دوست اور روزنامہ اتفاق کے مالک مانک میاں کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی کوٹھی لکھم ہاؤس میں ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اب جا کر کہیں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک بیگھہ زمین خریدی ہے جس پر ایک ٹھکیدار مکان تعمیر کر رہا ہے جس کی ادائیگی وہ ماہوار قسطوں میں کر رہے ہیں جس مہینے میں قسط رُک جاتی ہے‘ اس مہینے مکان کی تعمیر بھی رُک جاتی ہے‘بہر حال یہ مکان ان کی موت تک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ ’پھر ٹریبونل کے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ گدو بیراج اور سکھر بیراج میں ہزاروں ایکڑوں کے حساب سے تقسیم کی جانیوالی زمینیں انہوں نے اپنے نام نہیں لکھوائیں بلکہ جنرل ایوب خان اور انکے دیگر تمام جرنیلوں نے اپنے ناموں پہ لکھوائی ہیں جن میں جنرل اعظم خان سے لیکر جنرل پیرزادہ تک سبھی ملوث ہیں یہ اور بات ہے کہ انکے کرتوتوں کا علم لوگوں کو کئی سالوں بعد ہو گا خود ان جرنیلوں کا اپنا تو یہ حال ہے اور بدعنوانی کے الزامات یہ مجھ پر لگا رہے ہیں۔

کلکتہ کی عدالتوں میں جس وکیل کا نام عزت سے لیا جاتا تھاجب وہ پاکستان کی وزارت عظمی سے برخاست کیا گیا تو 1۔ دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر اپنا دفترپر ان کااپنا وکالت کا دفتر موجود تھا ۔حکومت نے انھیں معاشی طور پر محتاج کرنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ ملک کی عدالتوں کی بار کونسلوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری کی ایک عدالت نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“

منیر احمد منیر نے " ان کہی سیاست " میں لکھا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ۔ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض میں مجھے کشمیر لے دیں۔جب ان سے برظرفی کے کاغذات پر دستخط کرائے جا رہے تھے تو ان کی آنکھوں مین انسو تھے ۔ کسی نے پوچھا یہ انسو وزارت عظمی کے چھن جانے پر ہیں تو انھوں نے فولادی لہجے میں جواب دیا ۔ مجھے وزارت عظمی کے چھن جانے کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے یہ آنسو تو اس لیے ہیں کہ ہم نے کشمیر ہمیشہ کے لیے کھو دیا

کشمیر کے لیے انسو بہاتے ، پاکستان کے اس سابقہ وزیر اعظم کو71 سال کی عمر مین جنوری کی یخ بستہ صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا تو ان پر گاندہی سے ہاتھ ملانے کاالزام تھا جو ملک سے سنگیں غداری تھی .ان پر غداری کا مقدمہ چلا چیل بھیجے گئے ۔ مشرقی پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرے شروع ہونے کے خوف سے ان کو جیل سے نکال کر ملک بدر کر دیا گیا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا:   کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب...

پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

 کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب خان کی مارشل لا حکومت کے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب ’’ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان 1971ء میں نہیں 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا۔ 1971ء میں تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کی رسمی کارروائی ہوئی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم کی ڈائریوں اور جنرل ایوب خان کے ساتھ اُن کی خط و کتابت پر مشتمل یہ کتاب اُن کی صاحبزادی ڈاکٹر صوفیہ احمد نے مرتب کی ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کی سابق سربراہ ہیں۔ جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب 1960ء سے 1966ء تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور کتاب میں حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات کو بھی شامل کیا گیا ہے، شاید اسی لئے یہ کتاب جسٹس محمد ابراہیم کی وفات کے  45سال بعد شائع کی گئی ہے۔ جسٹس محمد ابراہیم 1958ء سے 1962ء تک جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون تھے۔ ایوب خان کے ساتھ اُن کے اختلافات کا آغاز 1962ء کے صدارتی آئین پر ہوا۔ جسٹس محمد ابراہیم پارلیمانی نظام حکومت کے حامی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ صدارتی نظام مشرقی پاکستان کے احساس محرومی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے جو آئینی تجاویز دیں وہ مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 1961ء کے بعد اُنہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا بند کر دی۔ جنرل ایوب خان نے اُن کو راضی کرنے کے لئے وزیر خزانہ محمد شعیب، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ہاشم رضا کو بھیجا لیکن جسٹس محمد ابراہیم نے ان سب کو جواب دیا کہ وہ پاکستان کی تباہی کے آئینی منصوبے میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کابینہ کے تین دیگر بنگالی وزراء حفیظ الرحمان، حبیب الرحمان اور اے کے خان بھی جسٹس محمد ابراہیم کے موقف کی تائید کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی استعفے کی دھمکی نہ دی۔ جنوری 1962ء میں حسین شہید سہروردی کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا تو 5فروری کو جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ سہروردی کی گرفتاری ایک ’’بلنڈر‘‘ ہے لیکن ایوب خان نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ میں نے اُسے ڈھاکہ کے بجائے کراچی میں گرفتار کیا ہے تاکہ زیادہ عوامی ردعمل نہ ہو۔ جسٹس محمد ابراہیم نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صدر ایوب خان کو بھی پتا ہے کہ اُن کے صدارتی آئین کے خلاف شدید مزاحمت ہو گی اور متوقع مزاحمت کو روکنے کے لئے وہ ایک ظالم ڈکٹیٹر کے انداز میں انسانی آزادیاں چھین رہے ہیں۔ اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھنے والا دردمند شخص وزارت سے استعفے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں جیل پہنچانے کے بعد جنرل ایوب خان راجشاہی یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے جہاں اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی جانی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے ڈھاکہ پہنچتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں طلبہ نے سہروردی کی رہائی کے لئے مظاہرے شروع کر دیئے۔ کتاب کے صفحہ 140پر وہ لکھتے ہیں کہ طلبہ نے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور استعفے کی پیشکش کر دی۔ فوجی صدر نے اپنے وزیر قانون کو استعفے سے روک دیا۔ خیال تھا کہ وہ پاکستانی عوام پر صدارتی آئین مسلط کرنے کا ارادہ ترک کر دیں گے لیکن جب اس آئین کو نافذ کرنے کا اعلان ہو گیا تو پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان اور پھر وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے وزارت قانون سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے ایک اعلامیے کے ذریعے اخبارات کو بتایا کہ وزیر قانون نے بیماری کے باعث استعفیٰ دیا ہے جس پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو خط لکھا کہ وہ اپنے استعفیٰ میں 1962ء کا آئین مسترد کر چکے ہیں اور استعفے کی نقل اخبارات کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی صدر نے جواب میں جسٹس محمد ابراہیم کو ایسی کسی حرکت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود جسٹس محمد ابراہیم نے کوئی قانونی ضابطہ اور اخلاقی روایت نہیں توڑی لیکن جنرل ایوب خان دھونس پر اُتر آئے تھے۔ اگر ٹوئٹ کا زمانہ ہوتا تو جسٹس محمد ابراہیم ایک مختصر ٹوئٹ کرتے کہ میں 1962ء کا آئین مسترد کرتا ہوں اور پھر خاموشی اختیار کر لیتے۔ لیکن وہ ٹوئٹ کے نہیں ٹیلی گرام اور ٹیلی فون کے زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے دھمکی آمیز خط کے جواب میں چار صفحات پر مشتمل طویل خط لکھا اور اپنے دور کے ’’گاڈ فادر‘‘ کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے لئے لڑائی کی ہے کیونکہ مجھے پاکستان سے محبت ہے۔
جنرل ایوب خان نے جسٹس محمد ابراہیم کی جگہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو اپنا نیا وزیر قانون بنایا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے یہ جج صاحب جمہوریت کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کر چکے تھے۔ موصوف نے وزیر قانون بنتے ہی قائد اعظمؒ کے پاکستان کو قتل کرنے کے ایک باقاعدہ اعلان کی تیاری شروع کر دی۔ جسٹس محمد منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء ‘‘ میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے وزیر قانون بننے کے بعد جنرل ایوب خان کے مشورے سے 1962ء کی قومی اسمبلی کے بنگالی ارکان سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کے لئے باقاعدہ مذاکرات کئے لیکن ایک بنگالی رکن اسمبلی رمیض الدین نے اُنہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ہم اکثریت ہیں اور ہم پاکستان ہیں پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ اکثریت کو نہیں اقلیت کو کرنا ہے۔ 1971ء میں یہ اکثریت لڑجھگڑ کر اقلیت سے علیحدہ ہو گئی۔
جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں میں بار بار جنرل ایوب خان کے علاوہ حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق کا ذکر آتا ہے۔ اے کے فضل الحق نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی تھی اور سہروردی نے 1946ء میں قرارداد دہلی پیش کی تھی جس کے ذریعے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک ملک بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے ناصرف سہروردی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا۔ سہروردی اور فاطمہ جناح کو غدار کہنے والے ایوب خان کے نام پر راولپنڈی میں ایک ایوب پارک ہے۔ اس ایوب پارک کے قریب ہی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ہے اور چند کلو میٹر دور اسلام آباد میں حسین شہید سہروردی روڈ اور اے کے فضل الحق روڈ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف 1971ء کے بعد ڈھاکہ کے جناح ایونیو کو بنگلہ بندھو ایونیو بنا دیا گیا حالانکہ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان والوں نے فاطمہ جناح کو اکثریت دلوائی تھی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کے باوجود بہت سے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ 1962ء کے صدارتی نظام کی ناکامی کے بعد پاکستان میں 1973ء کا پارلیمانی آئین چل رہا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کو واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سرفہرست ہیں۔ اُنہیں جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب پڑھ لینی چاہئے اور پاکستان کو مزید ٹوٹ پھوٹ کی طرف دھکیلنے سے گریز کرنا چاہئے۔
بشکریہ روز نامہ جنگ

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3
----------------------
 خواجہ ناظم الدین اسی احسا ن منزل میں پیدا ہوئے تھے جہاں کسی زمانے میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے تو اہل بنگا ل نے انھیں ڈھاکہ میونسپلٹی کا چیرمین اورڈھاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ممبر بنادیا ۔1922ء سے 1929ء تک وہ ڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے چیرمیں رہے۔ 1929ء میں اپنی قابلیت کی بنا پر متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔1937ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا اور مسلم لیگ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبہ کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ دسمبر 1941ء تک اس عہدے پر کام کیا1942  ء میں مولوی  فضل الحق کی وزارت ختم ہونے پر خواجہ ناظم الدین نے وزارت بنائی۔ 1945ء تک وہ بنگال کے وزیراعظم رہے۔ 1937 سے 1947 تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔خواجہ ناظم الدین نے تحریک پاکستان میں جو خدمات انجام دیں‘ وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی قائد اعظم نے ان کے بارے مین کہا تھا”خواجہ ناظم الدین ذمہ دارلیڈر ہیں ۔ اور پاکیزہ کردار کے مالک ہیں ۔ ان کا کردار بالکل صاف ستھرا ہے۔ اُنہوں نے پوری زندگی میں اپنا دامن الزام سے پاک و بے داغ رکھا ہے۔“
پیر علی محمد راشدی  لکھتے ہیں:”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انہیں مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ نے انہیں بطور گورنر جنرل قائد اعظم کا جانشین منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اس عہدے پر 17 اکتوبر 1951ء تک فائز رہے، اس کے بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور 17 اپریل 1953ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے انہیں گورنر جنرل غلام محمد نے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور اس طرح ملک میں غیر جمہوری دور کا آغاز ہوا۔خواجہ صاحب کی حکومت سے معزولی کا ایک بڑا سبب ایک مذہبی تحریک تھی جس کو ریاستی حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔فروری 1953 میں اس تحریک نے زور پکڑ لیا۔ خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت کو انتظامی معاملات سے لا تعق کر دیا گیاکراچی اور ڈھاکہ میں طلباء تنظیمیں جن کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا فیسوں میں اضافے کا بہانہ بناکر کھل کر حکومت کے خلاف مظاہروں اور توڑ پھوڑ کرنے میں مشغول ہو گئی۔لاہور میں دین کے نام پر شروع مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ لاہور میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں 8 مارچ 1953 میں حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.
غلام عباس نے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" میں لکھا ہے:
ایک بحران 1953 میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اقتصادی بدحالی، قحط کی صورت اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی بحالی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دستور ساز مجلس میں مجھے اکثریت حاصل ہے اور بقول بعض کے ملکہء انگلستان سے بھی مدد کی التجاء کی مگر کچھ پیش نہ چلی۔ ادھر گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔ خواجہ صاحب کی کابینہ کے متعدد ساتھیوں نے حرص و ہوس میں آکر نہ سہی مگر بغیر چوں و چراں نئی کابینہ میں عہدے قبول کر لیے
گورنر جنرل غلام محمد  نے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کوکو برطرفکرنے کے بعد1954ئ میں پاکستان کی پہلی دستورسازی اسمبلی کو بھی برخاست کردیا۔اس دستورسازاسمبلی کی منسوخی پرسپیکراسمبلی مولوی تمیزالدین اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جہاں سپیکر کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے دستورسازاسمبلی کی برخواستگی کو بعض تکنیکی بنیادوں پر جائزقراردے دیامقتدر بیوروکریسی، طاقتور فوج ، محب وطن سیاستدان اور انتطامیہ فیڈرل کورٹ کی پشت پر کھڑی تھی دوسری جانب اور جذباتی جابل عوام ، غدار وطن سیاستدان ، غیر ملکی ایجنٹ اور ناعاقبت اندیش صحافی  کھڑے رہ گئے اور غلام محمد کی ٹرین سیٹیاں بجاتی وقت کے دوش بدوش روانہ ہو گئی
 خواجہ ناظم الدین سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق  قربانی کے ایک مجسمے کو  بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا
خواجہ ناظم ادین پر اخبارات میں الزام لگائے گئے کہ وہ کھانا بہت کھاتےتھے
نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار(یہ تینوں وزیر اعظم ہاوس کے ملازم تھے) کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘ نامی کتاب میں خواجہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی خوراک انتہائی سادہ ہوتی اور وہ بہت کم کھایا کرتے تھےاس کتاب میںان کاان کے اپنی معزولی پر یہ تبصرہ شامل ہے’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ 
احسان منزل پاکستان پر قربان کر دینے والے قائداعظم کے معتمد ساتھی نے کراچی میں وہ دن بھی دیکھے جب کسی نے ان پر رحم کھاکر انھیں رہائش کے لیے ایک مکان کرائے  پر لے دیا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق جب وہ ڈھاکہ واپس گئے تو ان کی حالت دیکھ کر دوست اور دشمن سب ہی انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ اب تو مگر کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں جن مین ان کو قائد قلت اور ہاظم الدین کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ ان پر کسی قسم کی کرپشن ، بد عنوانی ، اقراپروری، یا خلاف آئین اقدام کا الزام ان کے دشمن بھی نہ لگا سکے ۔

اتوار، 16 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2
--------------------------
ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو اس کے انتظام و انصرام کرنے والے نوجوانوں میں مولوی فضل الحق پیش پیش تھے۔ مسلم لیگ کے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی‘ مولوی فضل الحق اس کمیٹی میں بھی شامل تھے۔آپ 1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے1937میں بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ مولوی فضل الحق نے قراردادلاہور کے لیے اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب ملا۔ مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں , قائد اعظم سمیت مشورے سے طے ہوا تھا کہ علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں لاکھوں افراد پورے برصغیر سے شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کی اور اس میں شیر بنگال مولوی ابو قاسم فضل الحق نے تاریخی قرارداد لاہور پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والا شمال مشرقی حصہ جس میں بنگال اور آسام شامل ہیں اور شمال مغربی حصہ جس میں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے علاقے ہیں‘ ان سب پر مشتمل آزاد مملکت قائم ہونی چاہیے۔ شیر بنگال نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں‘ ان کو ایک کیا جائے۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زعماءنے شیر بنگال کی تائید کی اور بعد میں قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آج سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ”ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لیے ایک خطہ کی ضرورت ہے“
مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال آپ کو دفاع کے لیے قائم کونسل کا رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم نے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آپ پر کونسل سے مستعفی ہونے کے لیے کہا ۔ آپ نے قائداعظم کے حکم کو تسلیم کیا اور دفاع کونسل سے مستعفی ہوئے .
آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔
1954 وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔ 1955 میں آپ کو مرکزی حکومت میں وزریر داخلہ اور 1956 تا 1958 گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔ آپ 27 اپریل 1962 کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو آپ کی وفات پر پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔