پیر، 17 دسمبر، 2018

پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

 کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب خان کی مارشل لا حکومت کے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب ’’ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان 1971ء میں نہیں 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا۔ 1971ء میں تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کی رسمی کارروائی ہوئی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم کی ڈائریوں اور جنرل ایوب خان کے ساتھ اُن کی خط و کتابت پر مشتمل یہ کتاب اُن کی صاحبزادی ڈاکٹر صوفیہ احمد نے مرتب کی ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کی سابق سربراہ ہیں۔ جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب 1960ء سے 1966ء تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور کتاب میں حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات کو بھی شامل کیا گیا ہے، شاید اسی لئے یہ کتاب جسٹس محمد ابراہیم کی وفات کے  45سال بعد شائع کی گئی ہے۔ جسٹس محمد ابراہیم 1958ء سے 1962ء تک جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون تھے۔ ایوب خان کے ساتھ اُن کے اختلافات کا آغاز 1962ء کے صدارتی آئین پر ہوا۔ جسٹس محمد ابراہیم پارلیمانی نظام حکومت کے حامی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ صدارتی نظام مشرقی پاکستان کے احساس محرومی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے جو آئینی تجاویز دیں وہ مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 1961ء کے بعد اُنہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا بند کر دی۔ جنرل ایوب خان نے اُن کو راضی کرنے کے لئے وزیر خزانہ محمد شعیب، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ہاشم رضا کو بھیجا لیکن جسٹس محمد ابراہیم نے ان سب کو جواب دیا کہ وہ پاکستان کی تباہی کے آئینی منصوبے میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کابینہ کے تین دیگر بنگالی وزراء حفیظ الرحمان، حبیب الرحمان اور اے کے خان بھی جسٹس محمد ابراہیم کے موقف کی تائید کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی استعفے کی دھمکی نہ دی۔ جنوری 1962ء میں حسین شہید سہروردی کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا تو 5فروری کو جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ سہروردی کی گرفتاری ایک ’’بلنڈر‘‘ ہے لیکن ایوب خان نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ میں نے اُسے ڈھاکہ کے بجائے کراچی میں گرفتار کیا ہے تاکہ زیادہ عوامی ردعمل نہ ہو۔ جسٹس محمد ابراہیم نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صدر ایوب خان کو بھی پتا ہے کہ اُن کے صدارتی آئین کے خلاف شدید مزاحمت ہو گی اور متوقع مزاحمت کو روکنے کے لئے وہ ایک ظالم ڈکٹیٹر کے انداز میں انسانی آزادیاں چھین رہے ہیں۔ اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھنے والا دردمند شخص وزارت سے استعفے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں جیل پہنچانے کے بعد جنرل ایوب خان راجشاہی یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے جہاں اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی جانی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے ڈھاکہ پہنچتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں طلبہ نے سہروردی کی رہائی کے لئے مظاہرے شروع کر دیئے۔ کتاب کے صفحہ 140پر وہ لکھتے ہیں کہ طلبہ نے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور استعفے کی پیشکش کر دی۔ فوجی صدر نے اپنے وزیر قانون کو استعفے سے روک دیا۔ خیال تھا کہ وہ پاکستانی عوام پر صدارتی آئین مسلط کرنے کا ارادہ ترک کر دیں گے لیکن جب اس آئین کو نافذ کرنے کا اعلان ہو گیا تو پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان اور پھر وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے وزارت قانون سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے ایک اعلامیے کے ذریعے اخبارات کو بتایا کہ وزیر قانون نے بیماری کے باعث استعفیٰ دیا ہے جس پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو خط لکھا کہ وہ اپنے استعفیٰ میں 1962ء کا آئین مسترد کر چکے ہیں اور استعفے کی نقل اخبارات کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی صدر نے جواب میں جسٹس محمد ابراہیم کو ایسی کسی حرکت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود جسٹس محمد ابراہیم نے کوئی قانونی ضابطہ اور اخلاقی روایت نہیں توڑی لیکن جنرل ایوب خان دھونس پر اُتر آئے تھے۔ اگر ٹوئٹ کا زمانہ ہوتا تو جسٹس محمد ابراہیم ایک مختصر ٹوئٹ کرتے کہ میں 1962ء کا آئین مسترد کرتا ہوں اور پھر خاموشی اختیار کر لیتے۔ لیکن وہ ٹوئٹ کے نہیں ٹیلی گرام اور ٹیلی فون کے زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے دھمکی آمیز خط کے جواب میں چار صفحات پر مشتمل طویل خط لکھا اور اپنے دور کے ’’گاڈ فادر‘‘ کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے لئے لڑائی کی ہے کیونکہ مجھے پاکستان سے محبت ہے۔
جنرل ایوب خان نے جسٹس محمد ابراہیم کی جگہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو اپنا نیا وزیر قانون بنایا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے یہ جج صاحب جمہوریت کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کر چکے تھے۔ موصوف نے وزیر قانون بنتے ہی قائد اعظمؒ کے پاکستان کو قتل کرنے کے ایک باقاعدہ اعلان کی تیاری شروع کر دی۔ جسٹس محمد منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء ‘‘ میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے وزیر قانون بننے کے بعد جنرل ایوب خان کے مشورے سے 1962ء کی قومی اسمبلی کے بنگالی ارکان سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کے لئے باقاعدہ مذاکرات کئے لیکن ایک بنگالی رکن اسمبلی رمیض الدین نے اُنہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ہم اکثریت ہیں اور ہم پاکستان ہیں پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ اکثریت کو نہیں اقلیت کو کرنا ہے۔ 1971ء میں یہ اکثریت لڑجھگڑ کر اقلیت سے علیحدہ ہو گئی۔
جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں میں بار بار جنرل ایوب خان کے علاوہ حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق کا ذکر آتا ہے۔ اے کے فضل الحق نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی تھی اور سہروردی نے 1946ء میں قرارداد دہلی پیش کی تھی جس کے ذریعے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک ملک بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے ناصرف سہروردی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا۔ سہروردی اور فاطمہ جناح کو غدار کہنے والے ایوب خان کے نام پر راولپنڈی میں ایک ایوب پارک ہے۔ اس ایوب پارک کے قریب ہی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ہے اور چند کلو میٹر دور اسلام آباد میں حسین شہید سہروردی روڈ اور اے کے فضل الحق روڈ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف 1971ء کے بعد ڈھاکہ کے جناح ایونیو کو بنگلہ بندھو ایونیو بنا دیا گیا حالانکہ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان والوں نے فاطمہ جناح کو اکثریت دلوائی تھی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کے باوجود بہت سے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ 1962ء کے صدارتی نظام کی ناکامی کے بعد پاکستان میں 1973ء کا پارلیمانی آئین چل رہا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کو واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سرفہرست ہیں۔ اُنہیں جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب پڑھ لینی چاہئے اور پاکستان کو مزید ٹوٹ پھوٹ کی طرف دھکیلنے سے گریز کرنا چاہئے۔
بشکریہ روز نامہ جنگ

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 3
----------------------
 خواجہ ناظم الدین اسی احسا ن منزل میں پیدا ہوئے تھے جہاں کسی زمانے میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے لوٹے تو اہل بنگا ل نے انھیں ڈھاکہ میونسپلٹی کا چیرمین اورڈھاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ممبر بنادیا ۔1922ء سے 1929ء تک وہ ڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے چیرمیں رہے۔ 1929ء میں اپنی قابلیت کی بنا پر متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔1937ء کے انتخابات میں قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا اور مسلم لیگ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبہ کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ دسمبر 1941ء تک اس عہدے پر کام کیا1942  ء میں مولوی  فضل الحق کی وزارت ختم ہونے پر خواجہ ناظم الدین نے وزارت بنائی۔ 1945ء تک وہ بنگال کے وزیراعظم رہے۔ 1937 سے 1947 تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔خواجہ ناظم الدین نے تحریک پاکستان میں جو خدمات انجام دیں‘ وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی قائد اعظم نے ان کے بارے مین کہا تھا”خواجہ ناظم الدین ذمہ دارلیڈر ہیں ۔ اور پاکیزہ کردار کے مالک ہیں ۔ ان کا کردار بالکل صاف ستھرا ہے۔ اُنہوں نے پوری زندگی میں اپنا دامن الزام سے پاک و بے داغ رکھا ہے۔“
پیر علی محمد راشدی  لکھتے ہیں:”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انہیں مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ نے انہیں بطور گورنر جنرل قائد اعظم کا جانشین منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اس عہدے پر 17 اکتوبر 1951ء تک فائز رہے، اس کے بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور 17 اپریل 1953ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے انہیں گورنر جنرل غلام محمد نے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور اس طرح ملک میں غیر جمہوری دور کا آغاز ہوا۔خواجہ صاحب کی حکومت سے معزولی کا ایک بڑا سبب ایک مذہبی تحریک تھی جس کو ریاستی حلقوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔فروری 1953 میں اس تحریک نے زور پکڑ لیا۔ خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت کو انتظامی معاملات سے لا تعق کر دیا گیاکراچی اور ڈھاکہ میں طلباء تنظیمیں جن کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا فیسوں میں اضافے کا بہانہ بناکر کھل کر حکومت کے خلاف مظاہروں اور توڑ پھوڑ کرنے میں مشغول ہو گئی۔لاہور میں دین کے نام پر شروع مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ لاہور میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں 8 مارچ 1953 میں حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.
غلام عباس نے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" میں لکھا ہے:
ایک بحران 1953 میں آیا جب گورنر جنرل غلام محمد نے اقتصادی بدحالی، قحط کی صورت اور پنجاب کے فسادات کو بہانہ بنا کر خواجہ ناظم الدین کی وزارت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنی بحالی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دستور ساز مجلس میں مجھے اکثریت حاصل ہے اور بقول بعض کے ملکہء انگلستان سے بھی مدد کی التجاء کی مگر کچھ پیش نہ چلی۔ ادھر گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔ خواجہ صاحب کی کابینہ کے متعدد ساتھیوں نے حرص و ہوس میں آکر نہ سہی مگر بغیر چوں و چراں نئی کابینہ میں عہدے قبول کر لیے
گورنر جنرل غلام محمد  نے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کوکو برطرفکرنے کے بعد1954ئ میں پاکستان کی پہلی دستورسازی اسمبلی کو بھی برخاست کردیا۔اس دستورسازاسمبلی کی منسوخی پرسپیکراسمبلی مولوی تمیزالدین اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جہاں سپیکر کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے دستورسازاسمبلی کی برخواستگی کو بعض تکنیکی بنیادوں پر جائزقراردے دیامقتدر بیوروکریسی، طاقتور فوج ، محب وطن سیاستدان اور انتطامیہ فیڈرل کورٹ کی پشت پر کھڑی تھی دوسری جانب اور جذباتی جابل عوام ، غدار وطن سیاستدان ، غیر ملکی ایجنٹ اور ناعاقبت اندیش صحافی  کھڑے رہ گئے اور غلام محمد کی ٹرین سیٹیاں بجاتی وقت کے دوش بدوش روانہ ہو گئی
 خواجہ ناظم الدین سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق  قربانی کے ایک مجسمے کو  بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا
خواجہ ناظم ادین پر اخبارات میں الزام لگائے گئے کہ وہ کھانا بہت کھاتےتھے
نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار(یہ تینوں وزیر اعظم ہاوس کے ملازم تھے) کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘ نامی کتاب میں خواجہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی خوراک انتہائی سادہ ہوتی اور وہ بہت کم کھایا کرتے تھےاس کتاب میںان کاان کے اپنی معزولی پر یہ تبصرہ شامل ہے’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘ 
احسان منزل پاکستان پر قربان کر دینے والے قائداعظم کے معتمد ساتھی نے کراچی میں وہ دن بھی دیکھے جب کسی نے ان پر رحم کھاکر انھیں رہائش کے لیے ایک مکان کرائے  پر لے دیا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق جب وہ ڈھاکہ واپس گئے تو ان کی حالت دیکھ کر دوست اور دشمن سب ہی انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ اب تو مگر کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں جن مین ان کو قائد قلت اور ہاظم الدین کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ ان پر کسی قسم کی کرپشن ، بد عنوانی ، اقراپروری، یا خلاف آئین اقدام کا الزام ان کے دشمن بھی نہ لگا سکے ۔

اتوار، 16 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2
--------------------------
ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو اس کے انتظام و انصرام کرنے والے نوجوانوں میں مولوی فضل الحق پیش پیش تھے۔ مسلم لیگ کے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی‘ مولوی فضل الحق اس کمیٹی میں بھی شامل تھے۔آپ 1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے1937میں بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ مولوی فضل الحق نے قراردادلاہور کے لیے اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب ملا۔ مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں , قائد اعظم سمیت مشورے سے طے ہوا تھا کہ علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں لاکھوں افراد پورے برصغیر سے شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کی اور اس میں شیر بنگال مولوی ابو قاسم فضل الحق نے تاریخی قرارداد لاہور پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والا شمال مشرقی حصہ جس میں بنگال اور آسام شامل ہیں اور شمال مغربی حصہ جس میں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے علاقے ہیں‘ ان سب پر مشتمل آزاد مملکت قائم ہونی چاہیے۔ شیر بنگال نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں‘ ان کو ایک کیا جائے۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زعماءنے شیر بنگال کی تائید کی اور بعد میں قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آج سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ”ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لیے ایک خطہ کی ضرورت ہے“
مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال آپ کو دفاع کے لیے قائم کونسل کا رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم نے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آپ پر کونسل سے مستعفی ہونے کے لیے کہا ۔ آپ نے قائداعظم کے حکم کو تسلیم کیا اور دفاع کونسل سے مستعفی ہوئے .
آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔
1954 وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔ 1955 میں آپ کو مرکزی حکومت میں وزریر داخلہ اور 1956 تا 1958 گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔ آپ 27 اپریل 1962 کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو آپ کی وفات پر پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔


ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 1

 ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 1
ہندوستان میں 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سر سید احمد خان نے محمڈن ایجوکشنل موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی 
۔۔ سر سید احمد خان کا خیال تھا کہ اعلی تعلیم کے حصول کے بغیر سیاست میں کامیابی ممکن ہی نہین ہے۔ جب 1885 میں کانگریس اپنے تاسیسی مقاصد سے ہٹ کر ہندوستان میں ہندوں کے مفادات کی علمبردار بن گئی تو مسلمانوں پر منکشف ہو گیا کہ ان کی ترجمانی کے لیے کسی پلیٹ فارم کا ہونا ضروری ہے۔ سرسید احمد خان کی وفات کے بعد نواب محسن الملک نے محمڈن ایجوکیشنل موومنٹ کی قیادت سنبھالی۔ 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل موومنٹ کا سالانہ اجلاس تھا۔ اس اجلاس میں دنیا بھر سے ہزاروں مندوبین شریک تھے۔ اس اجلاس کے اختتام پر نواب سرخواجہ سلیم اللہ خان کی رہائش احسان منزل ڈھاکہ پر ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت کرنے والوں میں نواب وقار الملک کمبوہ ، نواب محسن الملک اور سید امیر علی شامل تھے۔ اس تاسیسی اجلاس میں جسٹس شاہ دین، سید نواب علی ، محسن الملک، نواب سمیع اللہ خان، سید وزیر حسن ، مظہر الحق سمیت 3000 مندوبین شامل تھے۔ مسلم لیگ کی تاسیس کے محرک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے صدر نشین اور علی گڑھ یونیورسٹی ٹرسٹ کے سیکرٹری نواب محسن الملک (یو ۔ پی ) ہی تھے نواب سلیم اللہ خان نے جماعت کا نام " آل انڈیا مسلم لیگ " تجویز کیا جو سر سلطان محمد شاہ آغا خان ثالث (بمبی) کے ایماء پر "مسلم لیگ " کر دیا گیا۔ پہلا ہیڈ کوارٹر علی گڑھ میں بنا جو 1910 مین لکھنو اور 1927 مین دہلی منتقل کر دیا گیا اور.صدر کے عہدے کے لیے آغا خان اور سیکرٹری کے عہدے کے لیے سید حسن بلگرامی کو ذمہ داری سونپی گئی ساٹھ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کومولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں مسلم لیگ کا دستور بنانے کا کام سونپا گیا۔۱۹۰۸ میں سید امیر علی نے لندن میں مسلم لیگ کا دفتر کھولا ۔مسلم لیگ کا پہلا باضابطہ اجلاس 29 اور 30 دسمبر 1907 ء کو کراچی میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں مسلم لیگ کا آئین منظور کیا گیا ۔ 10 اکتوبر 1913 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے باقاعدہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت ملی ۔ 4 مئی 1934 ء کو لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جب مسلم طلبہ کو دعوت عمل دی تو بنگال کے مسلم طلبہ ان کی پکار پر آگے بڑھے ۔ انہوں نے پورے برصغیر میں مسلم طلبہ برادری کو اکٹھا کرنے اور مشترکہ جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کی کوششوں سے 1937 ء میں کلکتہ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام ممکن ہوا۔ بنگال میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل اور کارکردگی بڑی جاندار رہی۔



منگل، 11 دسمبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سلیمان کا سلیمان سے معاملہ

اردو کالم اور مضامین: حضرت سلیمان کا سلیمان سے معاملہ: اللہ کے نبی حضرت سلیمان 970 قبل مسیح سے 931 قبل مسیح تک 39 برس فلسطین کے علاقے کے حکمران رہے ۔ ان کی حکمرانی انسانوں کے علاوہ جنات ، چرند ...