منگل، 12 دسمبر، 2017

2 دجالی پروٹوکولز

صہیونی پر وٹوکول یا ان کے بنیادی اعتقادات

صہیونیوں نے اپنے ناپاک ارادوں کو چند اصولوں کی صورت میں بیان کیا ہے، جو ''پروٹوکول'' کے نام سے معروف ہیں۔ صہیونی اداروں نے ١٨٩٧ ء میں ایک نشست منعقد کی جس میں چند ایک فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ کے احوال کو سپرد قلم کرکے اس کا نام ''پروٹوکول'' رکھا گیا۔ ان ''پروٹوکلولز'' کا مجموعہ ایک کتاب میں شائع ہوا لیکن ہر بار چھپنے کے فوراً بعد وہ کتاب نایاب ہوجاتی ہے کیونکہ یہودی اسے فوری طور پر خرید لیتے ہیں۔
پروٹوکول کے بنیادی نکات :
پروٹوکولز کی تشریح اور اس پر لکھے گئے مقدمہ کے مطالعہ سے تین بنیادی نکتے سامنے آتے ہیں:
ِ ١۔ آزادی پسند اصولوں پر فلسفی تنقید اور آمرانہ حکومت کی تعریف
٢۔ عالمی آمرانہ حکومت کے قیام کے لیے یہودیوں کو اطمینان
دلانے کے لیے اجتماعی جنگ کا منصوبہ
٣۔ اس منصوبہ کے بنیادی نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیشگوئی (٩)
یہودی منصوبہ بندی کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے صہیونی درج ذیل امور پر کام کرتے ہیں:
١۔ فلسطین پر قبضہ اور خطہ میں یہودیوں کو جمع کرنا۔
٢۔ عالمی صہیونی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں ۔
٣۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے نسلی برتری کا خیال خام اور اس سیاسی نظریہ کو انجام دینے کا اعتقاد یہودیوں کا اسلحہ ہے۔
٤۔ ہر ممکن طریقہ سے مذہبی اعتقادات اور ایمان اور درحقیقت تمام توحیدی ادیان خاص طور پر اسلام کو محو کر دینا، اگرچہ اس عمل کو دینی رنگ ہی دینا پڑے۔
کلی طور پر صہیونزم اپنے اہداف کے حصول کے لیے درج ذیل پروگرام پر عمل کرتا ہے :
لوگوں کے مذہبی اعتقادات کو مشکوک بنانا، مذہبی رہنماؤں کو راستہ سے ہٹانا، دہشت گردی، فریب اور دھوکہ دہی، فحاشی کی ترویج، بے رحمی اور قتل و غارتگری، غیر اخلاقی حرکتوں کی تبلیغ، لوگوں کو عیش و عشرت میں مشغول کرنا، برائیوں کا فروغ، نمود و نمائش، لوگوں کو سیاسی مسائل سے دور کرنا، تفرقہ ڈالنا، جنگیں کروانا اور دوسرے ممالک پر قبضہ کرنا۔
یہود اور یہودیت کے ساتھ صہیونزم کا تضاد:
صہیونی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام مظالم یہودیوں کے اعتقادات اور آرزوؤں کے مطابق ہیں۔ اسی لیے اپنے مظالم کے جواز کے لیے وہ تمام عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ یہودیوں سے منسوب نعروں، اشاروں، علامتوں اور رنگوں سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح سے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی تمام وحشیانہ اور انسانیت سوز کاروائیوں کو دینی نقاب کے پیچھے چھپالیں اور عالمی حمایت حاصل کرسکیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
یہودیت اور صہیونزم کے درمیان واضح فرق موجود ہے۔ ''یہودی'' اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ان احکام کا پابند ہو جو خداوند عالم کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے اور ان کی گفتار و کردار انہی حدود میں رہ کر اس طرح سے ہوکہ اسے بری صفت، بداخلاقی اور ناشائستہ عمل سے روک دے اور اسے سچائی، نیکی اور انسانوں کے درمیان اچھے تعلقات کی طرف رہنمائی کرے جو کہ ایک خدائی انسان کا خاصہ ہے۔
سچا یہودی نہ صرف اپنے دین کے اصولوں کا اعتقاد رکھتا ہے، بلکہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتا ہے۔ وہ خود کو بندگانِ خدا میں سے ایک بندہ اور اسے اپنے اعمال پر نگراں سمجھتا ہے جبکہ صہیونزم دنیاوی اہداف رکھنے والا ایک سیاسی نظریہ ہے جو نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا صفات سے بالکل بے بہرہ ہے بلکہ اس کے برعکس سوچتا ہے اور اس کے برخلاف ہی عمل کرتا ہے۔
دوسرے ممالک پر تسلط، تجاوز کی ہوس، شیطنت اور اختلاف ڈالنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ہر طریقہ سے رقم بٹورنا، دوسروں کے مال قبضہ کرلینا اور دوسری ہزاروں اخلاقی برائیاں صہیونزم کی واضح صفات میں سے ہیں۔
صہیونیوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کو یہ باورکرادیں کہ جو صہیونی نہیں ہے، وہ یہودی نہیں ہے۔ جب کہ دنیا بھر کی یہودی تنظیموں کی صہیونی سیاست سے مخالفت اس دعویٰ کو مسترد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، خود مختار یہودی تنظیمیں ، صہیونیوں کے برخلاف ، امن و آشتی کے ساتھ اور اپنے ہی ملک (جہاں وہ رہائش پذیر ہوں) میں موجود حکومتی نظام میں ضم ہو کر رہنا چاہتی ہیں۔
حقائق، دستاویزات، یہودیوں حتیٰ کہ یہودی رہنماؤں کے مطابق صہیونزم، یہودیت سے علیحدہ چیز ہے کہ جس نے لفظ یہود سے سوء استفادہ کرتے ہوئے، بہت سے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک یہودی رہنما کا کہنا ہے:
'' صہیونزم نے دین یہود کو اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔''
ایرانی یہودیوں کی روشن خیال انجمن کا آرگن تموز لکھتا ہے :
'' صہیونیوں۔۔۔۔ کا دینِ یہود کی توحیدی اقدار اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے خدائی احکامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''
تاریخی شواہد کے مطابق صہیونزم کا نظریہ پرداز تھیوڈور ہرٹزل بے دین تھا اور خدا پر کوئی اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔
دوسری جانب سے، تمام صہیونی ، یہودی نہیں ہیں ، بلکہ بہت سے صہیونی رہنما اور سرکردہ افراد غیر یہودی رہے ہیں۔ یورپی اور امریکی سامراجی حکومتوں کے بعض سربراہوں اور حکومتی افراد نے یہودی نہ ہونے کے باوجود ، صہیونزم کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعتراف اور عملی طور پر اس پر فخر بھی کیا ہے۔ شایانِ ذکر ہے کہ سارے '' اسرائیلی'' بھی یہودی نہیں ہیں، کیونکہ یورپی اور امریکی ممالک سے کوچ کرنے والے افراد میں سے بہت سے لوگ یہودی نہیں تھے بلکہ وہ نسلاً بھی یہودی نہیں تھے۔

دجالی پروٹوکولز 1

ہزاروں سال پہلے دنیا پر یہودیوڑں نے دجالی حکومت کو قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا جو اب حقیقت بن چکا ہے اور یہودیوں نے تمام مزاہب کو جس طرح گمرہ کیا شراب نوشی ،فحاش،عریانی اور کس چلاقی سے تفرقہ بازی کو فروغ دے کر کسی کو اس کا علم بھی نہ ہو سکا یہودی آپنے علاوہ تمام مزاہب کے کو گمراہ کرنے کی سازش میں آج کامیاب ہو چکے ہیں اپنے دجالی نجات دہندہ امریکی حکومت کی مدد سے گریٹر اسرائیل بنارہیں ہے مگر مسلمان گمراه کن فرکہ واریت کی وجہ سے تباہ ہو رہیں ہے اگر آج بھی مسلمان طاقتورقوم اور مقبول ترین قوم بن سکتی ہے اگر متحد ہو کر قرآن مجید پر عمل کرنا شروع کر دے
’’ دجالی پروٹوکولز" اس قسم کی کتاب کی تشہیر تو کیا اس کا ذکر بھی امریکہ ، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک میں خودکشی کے مترادف ہوتا ہے - اس لیے ان " جمہوری" ممالک کے عوام کے لیے ان میں لکھیں باتیں انہونی اور بالکل ناممکن معلوم ہوتی ہیں اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دُنیا میں موجودہ غربت، بے روزگاری، نفسانفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی موجودگی کی اصل وجہ بھی معلوم ہو جائے گی۔یہودی اسکے نسخے خرید کر تلف بھی کرتے رہے ہیںتقریبا سو سال کے اس عرصے میں " پروٹوکولز " کو یہودیوں نظریہ دانوں میں ایک بائبل کی سی اہمیت حاصل ہو گئی،’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسے اجلاس کی کارروائی کو بیان کیا گیا ہے جس کے شرکاء میں طاقتور یہودی اور فری میسن شامل تھے جس میں انہوں نے اس بات پر غوروفکر کیا تھا کہ دنیا پر کس طرح غلبہ حاصل کیا جاۓ- فرانس1890 میں یہودیوں نے ایک عالمگیر سازش کا مرکزی نقطہ بنا دیا جو فری میسن کی مدد سے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے تھے.1890 میں یہودیوں اور فری میسن کے درمیان ایک میٹنگ تھی جسکا مقصد تمام مزاہب کا خاتمہ کرنا اور سیکولر ڈیموکریسی اور سوشلزم کی مدد سےپوری دنیا میں یہودی شہنشاہیت کا قائم کرنا تھا، صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے۔

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟


تحریر: سہیل احمد

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟
عام طور پر ہمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ھے کہ یہود کی بیت المقدس کے ساتھ عقیدت اپنی مذہبی تاریخ اور تعلق کی وجہ سے ھے، کہ بیت المقدس ایک طرح سے یہود کی جائے پیدائش تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور یہود کے کئی جلیل القدر انبیاء بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اور یہ وہ سرزمین ھے جہاں یہود کی مقدس عبادت گاہ ہیکلِ سلیمانی ہوا کرتی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوا کرتی تھی
اس تصور کا یہ مفہوم نکلتا ھے کہ یہودی مذہب بھی گویا عیسائیت کی طرح اپنے آپ کو آسمانی مذہب مانتا ھے بس ان کے مذہب میں کچھ ایسی باتیں پیدا ہوگئی ہیں جس سے وہ حق پر نہیں رہے جیسے ان کے اندر پیدا ہونے والا نسلی فخر و غرور جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دنیا کی تمام اقوام پر برتر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا لاڈلا کہلواتے ہیں .
یہ مغالطہ اور اس جیسے دوسرے مغالطے ہمارے ذہنوں میں اس لئیے پائے جاتے ہیں چونکہ یہود دنیا کی وہ واحد قوم ھے جو اپنے اصل مقاصد اور نظریات دنیا سے سو پردوں میں چھپا کر رکھتی ھے.
بیت المقدس پر دوبارہ قبضے کی جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہیں صہیونی کہا جاتا ہے اور صہیونیوں کے بارے میں یہ معلومات کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ خدا کے بجائے شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور فری میسنز اور الومیناٹی کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کا مقصد دنیا پر ایک شیطانی قوت دجال کی حکومت قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے تو ایک شیطان کی پوجا کرنے والی قوم کے لئیے بیت المقدس کی کیا اہمیت ہوسکتی ھے جس کے ساتھ ان کا رشتہ شیطانی نہیں بلکہ روحانی اور آسمانی ھے؟؟
یعنی بیت المقدس کی آسمانی تقدیس اور روحانیت یہود کے شیطانی منصوبے کے لئیے کس طرح کوئی مددگار بن سکتی ھے کہ انہیں اپنے شیطانی منصوبے کی تکمیل کے لئیے اس کی ضرورت پڑ رہی ہے!؟
اس کا جواب تھوڑا طویل ھے مختصرا ً اتنا عرض ھے کہ یہود کو بیت المقدس کی ضرورت ان کے اس آبائی تعلق اور نسبت کی وجہ سے نہیں ھے جو اسے ان کے انبیاء کی سرزمین بناتا ہے بلکہ یہود کو بیت المقدس اس لئیے چاہئیے چونکہ یہ سرزمین اور اس پر موجود ٹیمپل ان کے دنیا کی تمام اقوام پر برتری کی علامت ہوا کرتا تھا
یہود کی شیطانی محنت کا دارومدار محض پیشنگوئیوں پر ھے جس کے مطابق آخری زمانے میں ایک مسیحا (جس کی شیطانی حیثیت سے وہ بخوبی واقف تھے) آکر دنیا میں ایک دفعہ پھر یہود کو دنیا کی تمام اقوام پر برتری دلوائے گا اور چونکہ بیت المقدس ہی وہی مقام ھے جو یہود کی دوسری اقوام پر کوئی برتری کی علامت رہا ھے اور یہود کی جائے پیدائش بھی وہی تھا اس لئیے اس مقام پر پہلے قبضہ اور اسے اپنی برتری کی علامت بنانا یہود کے اولین مقاصد میں سے ھے تاکہ اپنی نسلی برتری کو دنیا والوں سے منوا کر اپنے پوری دنیا پر قبضے کے شیطانی منصوبے کی تکمیل کی جائے. تو یہود کو بیت المقدس کسی مذہبی رشتے یا تقدس کی وجہ سے نہیں چاہیے بلکہ انہیں وہ اس لئیے چاہئیے چونکہ بیت المقدس ان کی دنیا والوں پر نسلی برتری کی علامت ہے
دیوار گریہ کے ساتھ لگ کر تورات کی آہ و زاری کے ساتھ تلاوت کرتے یہودیوں سے مغالطہ نہ ہو کہ یہود اگر پوری دنیا کو اپنے مقاصد کے بارے میں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں تو اپنی قوم کے ہر فرد کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ اپنے شیطانی منصوبے کے لئیے انہیں اپنا مدد گار بنائیں. مذہب کو انہوں نے صرف اس لئیے زندہ رکھا ہوا ہے کہ یہ وہ واحد ذریعہ ھے جو ان میں نسلی تفاخر کو پیدا کرتا ہے. یہی وجہ ھے کہ آپ کو ایسے یہودی بھی ملیں گے جو ہماری طرح ان کے مذہبی ڈرامے کو کوئی حقیقت سمجھ کر صہیونیت سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آئیں گے.
یہود کی اگر اصل عبادات اور رسومات دیکھنی ہیں تو فری میسنز لاجز یا ان کے مشہور کلبز سکل اینڈ بونز اور بوہیمین وغیرہ میں دیکھی جائیں جہاں شیطان کے سامنے معصوم نوزائیدہ بچوں کو آگ میں زندہ جلایا جاتا ہے..

دوزخ



بہشت سے ذہن میں ایسی جگہ آتی ہے جہان ذہنی آسودگی اور جسمانی راحت میسر ہو اور اگر حالات اس 
کے بر عکس ہوں تو اس کو دوزخ کہیں گے۔ مگر آگ جو خوف اور دہشت کا منظر ذہن میں لا سکتی ہے اس کے ذکر کے بغیر دوزخ ادھوری ہی رہتی ہے۔ جو اذیت خاص طور پر زندہ انسان کو آگ میں جلانے سے پیدا ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اج تک کوئی اذیت دریافت نہ ہو سکی ۔

ایک وقت تھا جب سیاسی اور مذہبی مخالفین کو کھولتے ہوئے تیل میں زندہ پھینک کر کلیجے ٹھنڈے کیے جاتے تھے ، پھر مگر انسان نے دریافت کر لیا کہ زندہ انسان کو آگ کے جلتے الاو میں پھینک دینے سے جو اذیت اور کرب دیا جا سکتا ہے وہ ہر قسم کی اذیت اور کرب سے فزوں تر ہے۔ ایک زندہ انسان کو آگ کے بڑے الاو میں پھینک دینا ایسی سزا تھی کہ اس سے زیادہ اذیت ناک اور کرب انگیز موت ممکن ہی نہ تھی اور انسان کے اس عمل پر اللہ نے اپنی کتابوں میں دکھ کا اظہار کیا۔

 وقت کے ساتھ ساتھ اور علم و تحقیق اور تجربے نے انسان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ ایسے ْ کرب ْ اور ْ بلا ْ دریافت کر چکا ہے جن سے گذارا جائے تو ْ اذیت ْ آگ میں جلائے جانے سے دو چند ہو جاتی ہے۔الفاظ ذہنی ْ کرب ْ کو بیان تو کر سکتے ہیں مگر ْ کرب ْ کے درد کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور جب ذہنی ْ کرب ْ میں مبتلاء کر کے اور جسمانی ْ بلا ْ میں گھیر کر ایک زندہ انسان کو ذبح کر دیا جاتا ہے تو ْ اہل ادراکْ اس ْ کربلا ْ پر خون کے آنسو روتے ہیں۔

مگر یہ بات بھی پرانی ہو چکی ، وقت کے ساتھ انسان کے علم و تحقیق نے وہ معرکہ سر لیا ہوا ہے کہ اب ایک ہی وقت میں ایسے حالات پید ا کر دیے جا سکتے ہیں جس میں ْ آگ میں جلنے ْ ذہنی و جسمانی ْ کربلا ْ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کے انفرادی اعضاء ایسے حالات سے گذارا جائے کہ اس کا لوں لوں چٹخ اٹھے ۔ اور یہی کچھ کشمیر اور  فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ہو رہا ہے ، جہاں ہر روز انسانیت کو کند چھری سے ذبح کیا جاتا ہے ۔ سسکتی ، مظلوم، قہر زدہ انسانیت پراب توبھار ت اور اسرائیل  کے اندر سے بھی ْ بس یا ظلم ْ کی صدا بلند ہونا شروع ہو گئی ہے مگر آفرین ہے مسلمانوں کے بے حس حکمرانوں پر 
جن کی آنکھوں پر ْ چمک ْ کی پٹی بندھی ہے اور ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون بے رنگ ہو چکا ہے۔




ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

ہمارے حصے کا کام




زمین کی ملکیت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نجی دوسری اجتماعی، اجتماعی املاک کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک اجتماعی شاملات اور دوسری سرکاری زمین ْ کھلیان ، راستے، پتن ، عبادت گائیں، وغیرہ شاملات کہلاتی ہیں اور ، ،ہسپتال،پارک، سڑکیں، ہوائی اڈے، ریل کی پٹڑیاں ،عدالتیں، دفاتر ، حکمرانوں کی رہائش گائیں وغیرہ سرکاری املاک ہوتی ہیں، اگر ایک گاوں یا محلہ کی ساری نجی املاک کوئی فرد خرید لے تو ان املاک سے جڑی ساری شاملات خود بخود خریدار کی ملکیت میں چلی جائیں گی۔ اسلام آباد میں ایک فرد نے سیکڑوں ایکڑ اراضی خرید کر جب ملحقہ شاملات پر قبضہ کر لیا تو فروخت کنندگان باوجود قوت و کوشش کامیاب نہ ہو سکے کہ خریدار کا قانونی حق تھا۔



ارض فلسطین
دوسری جنگ عظیم میں ترکی میں حکمران ْ خلافت عثمانیہ ْ تاج برطانیہ سے شکست کھا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو ارض فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ برطانیہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہودیوں کی فلسطینوں سے ویران اور زرعی اراضی کی خریداری کی حوصلہ افزائی کی۔خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور سیاستدان خان عبدالغفار خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں ، کہ انھوں نے اپنے دورہ فلسطین کے درمیان دیکھا کہ فلسطینی اپنی نجی زرعی زمینیں غیر ملکیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ جب پورے کا پورا علاقہ فروخت کر دیا گیا تو اس سے ملحقہ شاملات یہودیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اور سرکاری املاک تاج برطانیہ نے یہودیوں کے حوالے کر دیں یوں یہودی ایک کے بعد دوسرے علاقے کے مالک بنتے چلے گئے



جدید ہتھیار
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی علاقے کو فتح کرنے کے لئے زمینی راہ تلاش کی جاتی ہے، مگر فلسطین کو فتح کرنے کے لیے زمینی راستہ کی بجائے مکر و فریب، ذہنی تیاری، وسائل کی حاضری اور جذبات کے ردعمل کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ابتداء میں قانون و اخلاق کا سہارا لیا گیا اور جب قوت حاصل کر لی گئی تو قانون و اخلاق کی تشریح یوں کی گئی کہ ْ کوئی قوم علاقے کی مالک نہیں ہوتی بلکہ ملکیت کا دعویٰ تب ہی قابل قبول ہوتا ہے جب ْ صداقت کے ساتھ طاقت ْ بھی شامل ہو۔ اس اصول کو اردو کے ایک محاورے میں ْ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ْ کہا جاتا ہے۔



اصل طاقت
بیان کیا جاتا ہے، گو افسانہ ہے، کہ ایک طوفان میں گھرے ہوائی جہاز میں موجود بچے نے کہا تھا کہ اس جہاز کا پائلٹ میرا باپ ہے، جو مجھے اپنی جان سے عزیز رکھتا ہے اور عملی طور پر دنیا کے بہترین پائلٹوں میں شمار ہوتا ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائیوں کو برو کار لائے گا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد پر حملہ ہوا تو ٹی وی پر ایک طالبہ نے چشم پرنم کے ساتھ کہا تھا کہ حکمران تو باپ کی طرح ہوتا ہے۔ باپ جیسے حکمرانوں میں عمر بن خطاب کا نام لیا جا تا ہے اور ان کے اخلاص کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے ، مگر عمر ثانی تو پیدا ہوا مگر جب طویل انتظار کے بعد بھی عمر ثالث پیدا نہ ہو سکا تو اخلاص کے حصول کے لئے ووٹ کی پرچی ایجاد ہوئی، جب صدر امریکہ کہتے ہیں کہ اسرائیل میں حقیقی جمہوریت ہے تو ان کی بات کو ، کہ اسرائیلی شہری جو دنیا کے مختلف کونوں سے آ کر بسے ہیں ، تسلیم کرتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین اعتماد ہی اصل طاقت ہوتی ہے ۔ 



عوام و حکمران
مشرق وسطیٰ میں لبنان ایسا ملک ہے جو جمہوری اخلاص کے باعث اپنی مذہبی اور مسلکی تقسیم کے باوجود اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے جبکہ عراق و شام لہولہان ہیں ۔مصریوں نے اپنے منتخب صدر کو ذلیل کرنا شروع کیاتو ان کی اپنی عزت بھی خاک ہو رہی ہے۔ 



فتح و شکست
القدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو جانا ان کی فتح ہے مگر مفتوح کے لئے ادراک کرنے کا مقام یہ ہے کہ وہ تعداد ووسائل کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں۔ ترکی میں میلوں لمبی ریلی سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکوں کے دل مفتوحین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، لبنان ، مصر، اردن والوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، جذبات کا اظہار تو پاکستان، ایران اور دوسرے عرب اور افریقی ممالک میں بھی ہوا ہے حتیٰ کہ جرمنی و لندن سمیت سارے یورپی ممالک نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔کرنے کو تو واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے سامنے بھی مظاہرہ ہوا ہے مگر کیا ان مظاہروں سے طاقت کشید کر کے اس کو بطور قوت پیش کیا گیا ہے ؟ جواب ہے نہیں۔۔۔!!!
عام مسلمانوں کو، جو القدس سے کسی بھی طرح کی وابستگی رکھتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ناکامی اپنی غلطی اور بے عملی کا ثمر ہوتی ہے ۔میدان سے غیر فاتح ہو کر لوٹنے کا مطلب ہمیشہ کی شکست نہیں ہوتا ۔ انفرادی اور قومی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ 



آج مسلمانوں پرْ مصیبت ْ کی گھڑی ہے مگر میرے کانوں میں ایک آواز بچپن سے گونجتی ہے ْ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا ْ اس آواز کے الفاظ کی بجائے مجھے وہ لہجہ متاثر کرتا ہے جس لہجے کی مضبوطی پر کروڑوں مسلمانوں نے یقین کر کے اپنا اپنا اعتماد قائد اعظم کی جھولی میں ڈالا تھا۔اور اسی نسل نے اس نحیف البدن کو چو مکھی لڑائی میں سرخرو ہوتے دیکھا۔ 
مسلمان اس دن بھی مصیبت میں تھے جس دن ایک عالمی جنگ میںخلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور اس کے حصے بخرے ہوئے۔مگر کیا آج ترکی دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو چکا۔قائد اعظم کا پاکستان جب دو لخت ہوا وہ دن بھی پاکستانیوں پر ْ مصیبت ْ کا دن تھا کہ اس دن رات کے کھانے کی کسی کو یاد نہ تھی ، مگر کیا آج پاکستان دنیا کی چند اور اسلامی دنیا کی وحید ایٹمی طاقت نہیں ہے ؟ 
کیا مسلمانوں نے اپنے وقت کی معلوم ساری دنیا پر حکمرانی نہیں کی ؟ بے شک کی ہے اور اب مسلمان تنگی کے وقت سے گذر رہے ہیں ۔ اس وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کا فرمان ہے ْ تنگی کے وقت فراخی کا انتظار کرنا بہترین عبادت ہے ْ 
ایک ہوتی ہے شکست ، جس کے بعد قوم در بدر ہو جاتی ہے ، مایوسی چھا جاتی ہے اور انسان اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جو حالات سے مایوس ہو جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ ْ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا ْ ہم اللہ تعالیٰ
کے اس حکم کو ہر گز پس پشت نہیں ڈالتے ۔ 
اسی یوروشلم میں جب مسلمان داخل ہوئے تھے تو مفتوح لوگوں نے ان کے ہاتھ چومے تھے، یہی یوروشلم جب مسلمانوں سے چھنا تھا تو اس وقت بھی مسلمانوں نے ایک عہد کیا تھا اور اس عہد کو پورا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ وقت کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھراتا ہے ، آج اگر وقت نے ایک ایسا ورقہ پلٹا ہے جس کی تحریر ہمارے دلوں پر خنجر چلاتی ہے مگر یہ وقت کی کتاب کا آخری صفحہ ہر گز نہیں ہے ، اور نہ ہی یہودیوں کو آسانی سے یہاں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ 



ہمارے کرنے کا کام
مسلمان اس وقت در بدر ہیں نہ ہی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں، ہمارے اپنے ممالک ہیں، زمین وزر کی بھی کمی نہیں ہے ۔ وسائل و ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ادارے بھی موجود ہیں ، 



کمزور و بے کار ہی سہی اسلامی سربراہی کانفرنس بھی موجود ہے ، دکھاوے کا ہی سہی چالیس ملکی اسلامی اتحاد بھی موجود ہے ،



 ہمارے کرنے کا کام صرف ایک ہے وہ یہ کہ ہم ْ ہر فن مولا ْ ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو کر اپنے اپنے ذمہ طے شدہ کام پر توجہ دیں ۔ زمین کا سینہ چیرنا کسان کا فرض ہے تو صنعت کا پہیہ مزدور کو چلانا ہے ، انصاف عدالتوں نے مہیا کرنا ہے تو امن و امان پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ وطن کا دفاع ہماری پاک فوج کے ہاتھوں محفوظ ہے ، حکومت کرنا سیاست دانوں کا کام ہے مگر یہ بد بخت ، چور ، لٹیرے ، بکے ہوئے ، دشمنوں کے ایجنٹ ، ذاتی تجوریاں بھرنے والے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اس کے باوجود یہ کام بہرحال سیاستدانوں ہی کا ہے۔ ہم عوام کی خطا یہ ہے کہ ہم اپنے رہنماوں کو ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں کہ وہ اسی کرپٹ معاشرے کا حصہ ہیں ہم ان کا احتساب تو دور کی بات ہے پلٹ کر ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ سیاسی رہنماء اپنے جلسے میں موجودتعداد سے قوت کشید کرکے طاقتور ہو جاتا ہے مگر ہم اس کی غلطی پر اسے ٹوکتے تک نہیں ہیں۔ کیا یہ نا ممکن کام ہے کہ ہم گاوں اور محلے کے چند لوگ وفد کی صورت میں اپنے اس رہنماء کے پاس جا کر یہ مطالبہ کریں کہ امریکی صدر نے ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور جارحیت پر مبنی یہ اعلان کیا ہے کہ اسرائیل میں امریکہ سفارت خانہ تل ابیب کی بجائے یوروشلم منتقل کر دیا جائے۔ لہذا آپ ہماری نمائندگی کا حق ادا کریں اور ہمارے جذبات مقامی حکومت ، صوبائی اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے توسط سے وزارت خارجہ تک پہنچائیں ۔ اور وزارت خارجہ عالمی فورموں پر ہمارے جذبات کی ترجمان بنے ۔اور ہم اپنا یہ مطالبہ بار بار اور اس وقت تک دہراتے رہیں جب تک ہماری حقیقی جذبات اسمبلیوں اور حکومت کی آواز نہ بن جائیں۔