اتوار، 8 اکتوبر، 2017

سٹینڈرڈ


ہم لوگ جنازہ پڑھ کر واپس آرہے تھے، جنازے میں مولوی سمیت بتیس آدمی میں نے گنے۔ہمار ا پرانا ہمسائیہ ایک پوش علاقے میں جا بسا تھا، اس کا 14 سالہ بیٹا فوت ہوا تھا۔محلے سے بس ہم دونوں ہی گئے تھے وہ توخیر اس کا رشتہ دار تھا ،میں بس مروت میں چلا گیا تھا،جب ہمارے محلے میں اس کا دادا فوت ہوا تھا تو جنازہ کافی بڑا تھا۔ گاوں سے بھی بہت لوگ آئے تھے ۔ راستے میں خاموشی توڑنے کی نیت سے میں نے کہا ْ جنازے میں زیادہ لوگ نہیں تھے ْ اس نے کہا ْ بات یہ ہےْ لہجہ یخ بستہ تھا ْ جو لوگ اس کے سٹینڈرڈ کے نہیں ہیں ، ان کو یہ منہ نہیں لگاتا اور جن کے سٹینڈرڈ کا یہ نہیں ہے وہ اسے منہ نہیں لگاتے ْ 

مردے کی مسکراہٹ


کیشیرنے بل میرے حوالے کرتے ہوئے کہا  ْ آپ کافی دنوں بعد ہمارے سٹور میں تشریف لائے ہیں ، آپکو ہمارے معیار یا قیمتوں کے بارے کوئی گلہ تو نہیں ْ ایسی بات نہیں ہے دراصل آّ پ کے ہاں ورائٹی اتنی زیادہ ہے اور ڈسپلے اتنا شاندار ہے کہ ایک چکر  میں ہی پورے مہینے کا بجٹ گڑ بڑ ہو جاتا ہے، اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا ، نوجوان لڑکی کی مسکراہٹ ، ایسے لگا جیسے مردہ مسکرا رہا ہو۔

باپ

                                                                                   
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ              

مرکز ثقل

میری عمر ساٹھ سال ہے، میرے بچپن میں دادی اماں کا کمرہ گھر کا مرکز ثقل ہوا کرتا تھا۔دادی کا انتقال ہوا تو گھر میں ٹی وی آگیا ۔ ٹی وی والد صاحب کے کمرے کی بغل والے کمرے میں رکھا ہوا تھا ، پھر وہی کمرہ گھر کامرکز ثقل بن گیا۔والد صاحب کی وفات کے بعد گھر میں تبدیلی آئی اور اپنے اپنے کمرے کے ساتھ باتھ روم بھی اپنااپنا ہوگیا۔ آج میرے گھر کا مرکز ثقل وائی فائی ہے اور سب کے پاس موبائل اپنا اپنا ہے

گدھے کی کھال

اس نے بچھو پالنے کا کام شروع کیا تو اس کے گھر والوں نے اسے بہت برا بھلا کہا، دوستوں نے مذاق اڑایا ، مگر آدمی ضدی تھا ، ہر نصیحت کے جواب میں کہتا ،مجھے یقین ہے ۔۔۔ ، 
پچھلے تین سالوں میں اس نے بچھو وں کی برآمد سے بہت ڈالر کمائے، اس کے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے مگر بیچارہ ہے کیونکہ چھڑا ہے۔۔ 
اب دوست اس نے کاروباری مشورے لیتے ہیں۔
تم گدہے پالنے کا کام شروع کر دو، اس نے دوست کو مشورہ دیا ۔اگلے دو سالوں میں گدہے کی قیمت 10 لاکھ روپے تک جمپ کرنے والی ہے وہ دیر تک دوست کو مفید مشورے دیتا رہا ۔۔۔ میں پاس بیٹھا سن رہا تھا ۔
جب اس کا دوست اٹھ کر جانے لگا تو کہا۔
ہاں سنو ۔۔۔ گدہے کو مارنے سے پہلے بھوکا رکھنا کھال اتارنے میں آسانی رہے گی۔