ہفتہ، 12 جولائی، 2025

اصول یا سیاسی نعرہ





دوہزار اٹھارہ 
 کا سال تھا، پاکستان تحریکِ انصاف اقتدار کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ عمران خان، جو خود کو تبدیلی کا علمبردار اور کرپشن کے خلاف سب سے بڑا سپاہی قرار دے چکے تھے، اس وقت کے اہم سیاسی رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" قرار دے رہے تھے۔ اسی تسلسل میں عمران خان نے باقاعدہ ایک درخواست قومی احتساب بیورو (نیب) اور اسٹیٹ بینک کو دی، جس میں پرویز الٰہی اور ان کے بھائی پر 240 ملین روپے کا قرض سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے معاف کروانے کا الزام تھا۔ یہ قرض پنجاب شوگر ملز کے نام پر لیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر چوہدری خاندان کی ملکیت تھی۔

عمران خان کا مؤقف بڑا واضح تھا: کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہی "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" نہ صرف ان کا اتحادی بنا بلکہ پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب بھی تحریکِ انصاف کے تعاون سے منتخب ہوا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
اگر پرویز الٰہی واقعی کرپشن میں ملوث تھے، تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی؟
اور اگر وہ بے قصور تھے، تو پھر انہیں "ڈاکو" کیوں کہا گیا؟

یہ تضاد صرف ایک شخص یا ایک معاملے تک محدود نہیں۔ یہ اس بڑے تضاد کی علامت ہے جو عمران خان کی سیاست اور ان کے احتسابی بیانیے میں شروع سے چلا آ رہا ہے۔ احتساب کا نعرہ ایک دلکش سیاسی داؤ ضرور تھا، لیکن عمل کے میدان میں وہ نعرہ کہیں پیچھے رہ گیا۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جس احتساب کی امید عوام کو دلائی گئی تھی، وہ جلد ہی سیاسی جوڑ توڑ، مفادات اور وقتی اتحادوں کی نذر ہو گئی۔ وہی لوگ جو کل تک کرپشن کی علامت تھے، آج حکومت کا حصہ بنے نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ عمران خان کا احتسابی بیانیہ دراصل ایک سیاسی ہتھیار تھا — اصولی مؤقف نہیں۔

پرویز الٰہی کیس صرف ایک مثال ہے، لیکن یہ مثال ایک بہت بڑی سچائی کی نشاندہی کرتی ہے:
"نعرے ہمیشہ اصولوں پر نہیں، بلکہ وقتی فائدوں پر لگائے جاتے ہیں۔"

عمران خان کے احتسابی بیانیے نے اس ملک کے نوجوانوں کو خواب دکھائے، لیکن جب خواب حقیقت سے ٹکرائے، تو سچ یہ سامنے آیا کہ احتساب صرف ایک سیاسی نعرہ تھا — نہ کوئی مکمل احتساب ہوا، نہ کسی بڑے مافیا کو انجام تک پہنچایا گیا۔

عمران خان اگر واقعی احتساب کو اصول بناتے، تو پرویز الٰہی جیسے کردار کبھی اقتدار کے سنگھاسن پر نہ بیٹھتے۔ مگر افسوس، تبدیلی کے نعرے صرف جلسوں تک محدود رہے اور عملی سیاست میں وہی پرانے چہرے، وہی پرانے کھیل جاری رہے۔

عوام اب سوال پوچھ رہے ہیں:
کیا احتساب صرف سیاسی مخالفین کے لیے ہوتا ہے؟
کیا اتحادیوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں؟
کیا "نیا پاکستان" محض ایک خواب تھا؟

وقت گواہ ہے کہ جو لوگ احتساب کی بات کرتے ہیں، ان کے عمل ہی اصل گواہی ہوتے ہیں۔
اور بدقسمتی سے عمران خان کے عمل نے خود ان کے نعرے کی نفی کی۔

جمعرات، 10 جولائی، 2025

ٹرمپ کا مخالف نوجوان





زوہران ممدانی — موجودہ امریکی صدر کی آنکھ میں کھٹکنے والا نوجوان سیاستدان

آج جب دنیا بھر میں انتہا پسندی، نسل پرستی اور امیگریشن مخالف جذبات کو سیاسی طاقت حاصل ہو رہی ہے، ایسے میں نیویارک شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاستدان زوہران ممدانی ایک توانا اور جرات مند آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ زوہران ممدانی نہ صرف ترقی پسند سیاست کی علامت ہیں بلکہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہیں جس کی قیادت فی الوقت خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔

زوہران ممدانی 30 اپریل 1991 کو یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، پروفیسر محمود ممدانی، دنیا بھر میں معروف سیاسی مفکر اور اسکالر ہیں، جن کا تعلق بھارتی نژاد اسماعیلی مسلمان خاندان سے ہے۔ محمود ممدانی نے نو آبادیاتی تاریخ، افریقی سیاست اور شناخت کے موضوعات پر گہری تحقیق کی ہے اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

زوہران کی والدہ، میرا نائر، عالمی شہرت یافتہ بھارتی فلم ساز ہیں، جو بھارت کے صوبے اوڑیسہ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی فلمیں، جیسے سلام بمبئی، من سون ویڈنگ اور دی نیم سیک، نہ صرف عالمی فلمی میلوں میں سراہا جا چکی ہیں بلکہ ان میں سماجی مسائل، شناخت اور انسانیت کا درد نمایاں نظر آتا ہے۔

زوہران ممدانی نے بچپن سے ہی ایک کثیرالثقافتی اور وسیع سوچ رکھنے والے ماحول میں پرورش پائی۔ وہ مذہبی طور پر خود کو مسلمان کہتے مگرسیکولر سوچ کے حامل ہیں۔ انہیں انگریزی، ہسپانوی، اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں پر عبور حاصل ہے، جو انہیں نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں عوام کے قریب تر لے آتی ہے۔

2020
 میں زوہران ممدانی نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے حلقہ 36 (آسٹوریا کوئنز) سے انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری میں اس وقت کی رکن اسمبلی اراویلا سیموتاس کو شکست دی۔ اراویلا کا تعلق یونانی نژاد آرتھوڈوکس عیسائی کمیونٹی سے تھا اور وہ یونانی کمیونٹی میں خاصی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔

زوہران نے کرایہ داروں کے حقوق، سستی رہائش، مفت صحت کی سہولیات، پولیس اصلاحات اور تارکین وطن کے لیے آواز بلند کی، جس نے انہیں نوجوانوں اور ترقی پسند حلقوں میں بے حد مقبول بنا دیا۔

زوہران ممدانی کے مؤقف خاص طور پر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ 
(ICE)
 کی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف سخت موقف نے انہیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھ میں کھٹکنے والی شخصیت بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف زوہران کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں کھلے عام گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔

ٹرمپ نے کہا کہ اگر زوہران ممدانی 
ICE
 کی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ اس دھمکی کے جواب میں زوہران نے سوشل میڈیا پر دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا:

"صدر ٹرمپ نے مجھے اس لیے گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ میں قانون توڑ رہا ہوں؟ نہیں! بلکہ اس لیے کہ میں 
ICE
 کو ہمارے شہر میں دہشت پھیلانے سے روکنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ ان کے بیانات نہ صرف ہماری جمہوریت پر حملہ ہیں بلکہ وہ ہر نیویارکر کے لیے انتباہ ہیں کہ اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کو خاموش کروانے آئیں گے۔ ہم اس دھونس کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔"

زوہران کا یہ جرات مندانہ جواب محض ایک فرد کی طرف سے نہیں بلکہ نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر کی اجتماعی سوچ اور مزاحمت کی عکاسی ہے، جہاں لاکھوں تارکین وطن رہتے ہیں اور جہاں خوف کی سیاست کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔

زوہران ممدانی آج صرف نیویارک کے ایک حلقے کے نمائندے نہیں، بلکہ وہ ان نوجوان ترقی پسند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کی انتہا پسند، نسل پرست اور امیگریشن مخالف سیاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کا تعلق بائیں بازو کی اس نئی نسل سے ہے جو سرمایہ دارانہ جبر، نسل پرستی اور خوف کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔

موجودہ امریکہ جہاں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں واضح طور پر امتیازی ہیں، وہاں زوہران ممدانی جیسے نوجوان سیاستدان ایک امید کی کرن ہیں، جو نہ صرف مظلوموں کی آواز بنے ہیں بلکہ جمہوریت، مساوات اور انسان دوستی کی جنگ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔


اسرائیلی اسلحہ اور امریکہ



عنوان: امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے اسرائیلی بندوق تک


ایک عام امریکی شہری جب تنخواہ کا چیک وصول کرتا ہے، تو اسے شاید یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی محنت کی کمائی کا ایک حصہ کہیں مشرق وسطیٰ میں کسی F-35 طیارے، JDAM بم یا آئرن ڈوم میزائل کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے — اور وہ بھی ایک ایسی ریاست کے لیے جو دنیا کے ایک حساس ترین خطے میں مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے اسرائیل کی، اور اس کی عسکری طاقت کو سہارا دینے والے سب سے بڑے عالمی مالی مددگار، یعنی امریکہ کی۔
اسرائیل کا قیام اور امریکی آشیرباد

1948
 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہی امریکہ نے اسے تسلیم کیا اور چند ہی برسوں میں اسے معاشی و عسکری امداد دینا شروع کر دی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امداد ایک "تحفہ" سے بڑھ کر "معاہدہ" بن گئی — ایسا معاہدہ جو ہر امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا ستون بنایا۔ اندازہ کریں کہ اب تک امریکہ، اسرائیل کو تقریباً 297 سے 310 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، اور یہ رقم امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی امداد بن چکی ہے۔
2016
 کا تاریخی دفاعی معاہدہ

اوباما دور میں
 2016
 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک یادداشتِ
(MoU) 
پر دستخط ہوئے، جس کے تحت امریکہ 2028 تک ہر سال 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کو مہیا کرے گا — جس میں 33 ارب ڈالر ہتھیاروں کے لیے اور 5 ارب میزائل ڈیفنس سسٹمز کے لیے مختص ہیں۔ یہ رقم امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے نکلتی ہے، اور براہ راست اسرائیلی وزارت دفاع کے کام آتی ہے۔
اسرائیلی اسلحے کی امریکی فیکٹری

اسرائیل آج جو جدید عسکری طاقت رکھتا ہے، اس میں امریکہ کا براہ راست کردار ہے۔
 F-35
 اسٹیلتھ طیارے، آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام، ڈیوڈز سلنگ، ایرو میزائل، 
Apache
ہیلی کاپٹرز، اور جدید بم — سب امریکی فنڈنگ سے خریدے یا تیار کیے گئے ہیں۔ صرف آئرن ڈوم کے لیے امریکہ 2.6 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اسرائیل کو دی جانے والی امداد میں سے 26 فیصد رقم وہ اپنے ملک میں خرچ کر سکتا ہے — جس سے اس کی دفاعی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔
حالیہ جنگیں، فوری امداد
اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے لے کر جولائی 2025 تک، امریکہ نے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی — جو تاریخ کی سب سے بڑی سالانہ رقم ہے۔ مزید برآں، وائٹ ہاوس نے 2025 میں 8 ارب ڈالر کے اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں میزائل، توپیں، اور Hellfire
میزائل شامل تھے۔

تنقید اور سوالات
امریکی امداد پر سوال اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ ان اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی ضروریات سے چھینا جا رہا ہے جو امریکی عوام کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید یہ کہ یہ امداد ان جنگوں کو طاقت دیتی ہے جن میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا بارہا اس پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں — مگر امریکہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
نتیجہ: بندوق اور ضمیر کا حساب

اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد، صرف ایک سفارتی یا دفاعی تعلق نہیں، بلکہ یہ اس عالمی ضمیر کا امتحان ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت، اور انصاف کی بات کرتا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ ان کی محنت کی کمائی آخر کس کے ہاتھوں میں جا رہی ہے — اور کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، یہ اخلاقیات، اصولوں اور عالمی امن کی بات ہے۔ بندوق کی نالی سے نکلنے والی ہر گولی کا حساب صرف فائر کرنے والے کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ اس کو خریدنے والے کے ضمیر میں بھی محفوظ ہوتا ہے۔
کیا امریکی عوام کو معلوم ہے کہ ان کا پیسہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے؟
کیا کانگریس نے امداد کے اس بہاؤ پر کبھی جامع آڈٹ کرایا ہے؟
کیا کسی فلسطینی کی موت کا بوجھ امریکی ووٹر پر بھی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں ودنیا بھر میں پوچھے جا رہے ہیں


پیر، 7 جولائی، 2025

جمہوریت بہترین انتقام.




جمہوریت بہترین انتقام

بے نظیر بھٹو کا نعرہ تھا کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے" — اور وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کی بیٹی کا یہ نعرہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک ایسی فکری سمت تھی جس نے فرد کی جگہ نظام کو طاقت دی، ذاتی انتقام کی بجائے قومی سیاست کو مضبوط کیا، اور پاکستان میں عوامی شعور کو ایک نئی جہت بخشی۔
آج جب ہم آزاد کشمیر اور پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نعرے کی روح کچھ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف، جو ایک اصولی سیاسی تحریک کے طور پر سامنے آئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ محض افراد کے خلاف مزاحمت میں الجھ کر رہ گئی۔
عمران خان کی گرفتاری نے پارٹی کو ذاتی انتقام کے راستے پر ڈال دیا، مگر اصولی جدوجہد کا وہ معیار نظر نہیں آیا جس سے تحریک مضبوط ہوتی۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے — نہ پارٹی کو فائدہ ہوا، نہ عمران خان کو۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر جاوید بٹ اس وقت اسی سیاسی موقع پرستی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔
کل تک عمران خان کے خود ساختہ "ٹائیگر" تھے، ان کی ہر تقریر میں عمران خان کے گن گاتے، ان کے جلسوں میں پیش پیش نظر آتے۔
مگر جب عمران خان قید ہوئے، آزمائش کا وقت آیا، تو سب سے پہلے چھلانگ لگانے والوں میں جاوید بٹ کا نام شامل ہو گیا۔
مسلم لیگ ن نے اصولی موقف اپنایا اور جاوید بٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، شاید ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی داغدار ماضی کو دیکھتے ہوئے۔
آخرکار پیپلز پارٹی نے، سیاسی وزن بڑھانے کی خواہش میں، جاوید بٹ کو اپنے قافلے میں شامل کر لیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس فیصلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے:
کیا یاسی بوری کا وزن کھوٹے سکوں سے بڑھایا جا سکتا ہے؟
کیا ایسے متنازع افراد کی شمولیت سے عوام میں اعتماد پیدا ہوگا یا نظریاتی کارکنان بدظن ہوں گے؟
جاوید بٹ جیسے شخص کے لیے جیالوں کی جماعت میں لمبے عرصے تک قدم جمانا شاید اتنا آسان نہ ہو جتنا بظاہر لگتا ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی اڑان درحقیقت راولپنڈی کے سیاسی مافیا اور شیخ رشید کی سرپرستی کا نتیجہ تھی۔
آزاد کشمیر اسمبلی کی مخصوص نشست پر کامیابی میں شیخ رشید کی پسِ پردہ سپورٹ کوئی راز نہیں۔
حلقے میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر دولت کی ریل پیل، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اور عوامی پیسوں سے سیاسی سرمایہ کاری ان کی پہچان بن چکی ہے۔
جاوید بٹ کا ذاتی کردار بھی عوام میں زیرِ بحث رہا ہے:
مختلف خواتین کے ساتھ مبینہ تعلقات، جو راولپنڈی اور اسلام آباد کی سیاسی و سماجی محفلوں میں زبان زدِ عام ہیں۔
ایک معروف خاتون کے ساتھ ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ جاوید بٹ نے ان تعلقات کو سیاسی مقاصد اور مالی فوائد کے لیے استعمال کیا۔
جاوید بٹ کا لندن کا "مطالعہ دورہ" درحقیقت ایک خاندانی تفریحی ٹرپ تھا، جس پر آزاد کشمیر کے خزانے سے 50 ملین روپے خرچ کیے گئے 
عوام اور اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود نہ کوئی احتساب ہوا، نہ کوئی شرمندگی نظر آئی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر سے مبینہ روابط
جاوید بٹ کی مہاجر حیثیت پر سوالیہ نشان تب اور گہرا ہو گیا جب ان کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مقیم افراد سے ذاتی اور مالی روابط کی خبریں منظرِ عام پر آئیں۔
سابق ڈپٹی کمشنر میرپور کی رپورٹ کے مطابق ان کی مہاجر حیثیت کا کوئی قانونی ثبوت دستیاب نہیں۔
یہ معاملہ آزاد کشمیر میں قومی سلامتی اور سیاسی شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی کہانی درحقیقت پاکستان اور آزاد کشمیر میں جاری اس سیاسی سرکس کی عکاسی ہے جہاں:
نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔
اصول پسندی کے بجائے موقع پرستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
عوامی پیسہ ذاتی عیاشیوں پر لٹایا جا رہا ہے۔
بدعنوانی، تعلقات اور اثر و رسوخ کے بل پر اقتدار کے سنگھاسن سجائے جا رہے ہیں۔
نتیجہ — عوامی بیداری ہی واحد امید
عوام کے پاس اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ شخصیات اور پارٹی جھنڈوں سے بالاتر ہو کر صرف کردار، کارکردگی اور سیاسی اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔ ورنہ جاوید بٹ جیسے کردارجو کل عمران خان کے ٹائیگر بن کر عوام کو سبز باغ دکھاتے تھے ،آج کی جھنڈی تھام کر ان ہی  عوام کودوبارہ بے وقوف بنائیں گے۔

صرف یہود نہیں، ہم بھی





صرف یہود نہیں، ہم بھی 

اکثر ہم یہود و نصاریٰ کی مذہبی قیادت پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ دین کے نام پر عوام کا مال کھاتے ہیں، ان کی سادگی اور عقیدت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا کی آسائشیں سمیٹتے ہیں۔ بلاشبہ یہ حقیقت ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے؟

یاد رکھیں، صرف یہود و نصاریٰ ہی اہلِ کتاب نہیں، مسلمان بھی اہلِ کتاب ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی وہی بیماری سرایت کر چکی ہے جس کی نشان دہی قرآن نے کی تھی۔ آج ہمارے اپنے علما، شیخ، پیر، مبلغ اور دینی رہنما دین کی خدمت اور تبلیغ کے نام پر چندہ، زیور، عطیات اور تحائف اکٹھے کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ وہ دولت بیرونِ ملک جائیدادیں خریدنے اور اہل و عیال سمیت وہاں مستقل منتقل ہونے پر خرچ کرتے ہیں، پھر بڑے فخر سے خود کو "بین الاقوامی مبلغ" قرار دیتے ہیں۔

یہی نہیں، ان کے بچے مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، خود قیمتی لباس اور اعلیٰ طرزِ زندگی اختیار کرتے ہیں، جبکہ پیروکاروں کو کفایت شعاری، قناعت اور مالی قربانی کا درس دیتے ہیں۔ ان کے اپنے لیے دنیا، اور عوام کے لیے دین — یہی ان کا اصول بن چکا ہے۔ یہ کھلی منافقت اور دنیا پرستی ہے، جسے دین کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔

ایسے علما اور رہنما حقیقت میں دین کے خادم نہیں، بلکہ دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے عذاب بنے گا، اور ان کی ظاہری دینداری کا پول کھل جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ظاہری لبادے اور بلند دعووں کے بجائے کردار اور عمل کو دیکھیں۔ جو شخص دین کا سچا خادم ہو، اس کی زندگی میں سادگی، اخلاص اور قربانی نظر آئے گی۔ جو محض دعوے کرے، دنیا کمائے اور عوام کو دھوکہ دے، وہ دین کے نہیں، اپنے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔

مسلمان اگر واقعی دین کے خیر خواہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایسے فریب کاروں سے ہوشیار رہیں، دین کو دنیا کا کاروبار بنانے والوں کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ دین کی خدمت، قربانی اور تبلیغ صرف زبان سے نہیں، کردار اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔

بہشتی دروازہ



 بہشتی دروازہ 

 روایت کے مطابق یہ دروازہ سال میں مخصوص ایام میں کھولا جاتا ہے اور لاکھوں افراد اس دروازے سے گزرنے کے لیے دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ صدیوں سے یہ عقیدہ عام ہے کہ جو شخص اس دروازے سے گزر جائے، اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

یہ روایت، جو صوفی بزرگ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی نسبت سے منسوب ہے، برصغیر پاک و ہند کی صوفیانہ تاریخ اور عوامی عقائد میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دینِ اسلام میں اس نوعیت کی نجات اور مغفرت کی ایسی مخصوص 'زمینی علامت' یا 'مخصوص راستہ' کوئی شرعی بنیاد رکھتا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ایسی روایات اور عقائد کا مقام اور دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟

قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کی تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ، ندامت، اعمالِ صالحہ، حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ کی رحمت بنیادی ذرائع ہیں۔ سورہ زمر میں ارشاد ہے:
"اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف فرما دیتا ہے۔" (سورۃ الزمر: ۵۳)

یہ آیت ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مغفرت ایک ذاتی روحانی کیفیت اور رب کی بارگاہ میں انکساری کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی مخصوص دروازے یا علامت کے گزرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

بلاشبہ، روحانی مقامات، بزرگانِ دین کی نسبتیں، اور صوفی روایات ہمارے معاشرتی اور روحانی ورثے کا حصہ ہیں، لیکن جب ان روایات کو دین کے بنیادی اصولوں سے بلند کر کے لازمی عقائد یا بخشش کی یقینی ضمانت بنا دیا جاتا ہے تو یہاں سوالات جنم لیتے ہیں۔

مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس جیسے مقدس ترین مقامات کے دروازوں میں بھی ایسی کوئی روایت یا عقیدہ موجود نہیں کہ محض ان کے نیچے سے گزرنے سے گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر دنیا کے مقدس ترین مقامات پر ایسی سہولت موجود نہیں تو پھر صوفیانہ محبت اور عقیدت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی باتوں کو مذہب کے مسلمہ اصولوں کا درجہ دینا دین کی سادہ روح کے ساتھ ناانصافی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بہشتی دروازے پر ہر سال انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ ۲۰۲۱ میں پیش آنے والا سانحہ، جس میں ۲۷ افراد اپنی جان سے گئے، اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب عقیدہ، غیر ضروری ہجوم، اور حفاظتی تدابیر کی کمی یکجا ہو جائیں تو نتیجہ المیہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

سوال پھر وہی ہے کہ دین اور روایت میں توازن کہاں ہے؟ عقیدت اور عمل میں فرق کیسے واضح کیا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر، قوم کو کیسے یہ شعور دیا جائے کہ جنت کسی دروازے یا مخصوص رسم کا محتاج نہیں، بلکہ نیت، تقویٰ، حقوق العباد اور اللہ کی رضا کی طلب سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ بحث جذبات سے نہیں، شعور اور علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ عقیدت قابلِ احترام ہے، لیکن جب عقیدت عقل پر حاوی ہو جائے تو معاشرہ استحصال، جہالت اور اندھی تقلید کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔


منگل، 1 جولائی، 2025

زمین پر جنت کی نشانیاں


زمین پر جنت کی نشانیاں
دلپزیر احمد جنجوعہ

انسان ہمیشہ سے جنت کے تصور میں گم رہا ہے۔ کبھی اس کی جستجو میں، کبھی اس کی تمنا میں، اور کبھی اس کے خواب آنکھوں میں سجا کر۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جنت کی چند نشانیاں تو رب نے ہماری اس زمین پر بھی بھیج دی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انہیں پہچانیں اور ان کی قدر کریں۔

اسلامی روایات اور احادیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بعض چیزیں جنت سے اس زمین پر نازل کی گئیں، جو آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یہ چیزیں نہ صرف اللہ کی عظمت کی نشانیاں ہیں بلکہ ہمیں جنت کی یاد دلاتی ہیں اور اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ جنت کوئی خیالی تصور نہیں بلکہ ایک حقیقی مقام ہے۔

سب سے نمایاں نشانی حجرِ اسود ہے، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت کے مطابق، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حجرِ اسود جنت سے نازل ہوا تھا اور ابتدا میں وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، مگر انسانوں کے گناہوں نے اُسے کالا کر دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک پتھر پر انسان کے گناہوں کا اثر اتنا گہرا ہو سکتا ہے، تو انسان خود گناہوں میں ڈوبا ہو تو اس کی حالت کیا ہوگی؟

دوسری بڑی نشانی کھجور کا درخت ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے مسلمان کی مثال قرار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ کھجور حضرت آدمؑ کی مٹی کے بقیہ حصے سے پیدا ہوئی، جو جنت کی مٹی تھی۔ اس درخت کی پائیداری، برکت اور ہر موسم میں فائدہ دینا، سب کچھ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک سچا مومن بھی معاشرے میں اسی طرح فائدہ مند اور مستقل مزاج ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر آیا ہے، جو ساتویں آسمان پر موجود ہے۔ اگرچہ زمین پر موجود بیری کے درخت کو براہِ راست جنت سے نازل ہونے والی چیز کہنا درست نہیں، لیکن اس کی نسبت ضرور جنت کی اس عظیم الشان نشانی کی طرف کی جاتی ہے۔

اسی طرح دنیا میں موجود مشک کی خوشبو کو جنت کی خوشبو سے مشابہت دی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنتی انسانوں کا پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا۔ یوں دنیا کی یہ خوشبو جنت کی یاد دلاتی ہے۔

حضرت آدمؑ اور حضرت حواءؓ کی زمین پر آمد بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی اصل ابتدا جنت سے ہوئی۔ اگر انسان اپنی اصل کو نہ بھولے تو وہ زمین پر رہ کر بھی جنت کے حصول کی تیاری کرتا رہے گا۔

آبِ زمزم، جسے دنیا کا بہترین پانی قرار دیا گیا، جنت کا پانی تو نہیں لیکن اس کی برکت اور اس میں شفا کی خاصیت ہمیں جنت کی نعمتوں کی یاد دلاتی ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں جنت کے پھلوں — جیسے انار، کھجور، انگور — کا ذکر موجود ہے، اور ان پھلوں کی موجودگی زمین پر جنت کی یادگار ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان نشانیوں کے درمیان رہتے ہیں، مگر اکثر ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ حجرِ اسود کو دیکھ کر دل میں توبہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، کھجور کھاتے وقت ہمیں جنت کی تمنا یاد نہیں آتی، آبِ زمزم پیتے ہوئے شفا کا یقین کمزور ہو چکا ہے۔

یہ کائنات رب کی نشانیوں سے بھری ہوئی ہے، بس آنکھِ بینا کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں اور نشانیوں کی قدر کریں، ان سے سبق لیں، تو زمین پر رہتے ہوئے جنت کا راستہ ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔

 اختتام اس دعا کے ساتھ
اللہ ہمیں جنت کی ان نشانیوں کو پہچاننے، ان کی قدر کرنے اور جنت کے حقیقی حقدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


بھارت کا منافقانہ کردار




 بھارت کا منافقانہ کردار

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایک طرف بھارت دنیا میں جمہوریت، ترقی اور ٹیکنالوجی کے دعوے کرتا ہے، دوسری طرف اسی بھارت کی خفیہ سرگرمیاں بتدریج خطے کے امن اور ہمسایہ ممالک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایران اور پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جس خفیہ نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے، اس نے بھارت کے اس منافقانہ چہرے کو مزید واضح کر دیا ہے، جو برسوں سے پردے کے پیچھے رہ کر سازشوں کے تانے بانے بنتا آ رہا ہے۔

خبر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر کم از کم دو سو اسٹار لنک ریسیورز خلیجِ عمان کے راستے ایران میں اسمگل کیے۔ یہ ریسیورز تہران جیسے مرکزی شہروں کی بجائے ساحلی علاقوں اور صوبہ سیستان-و-بلوچستان کے دور دراز قصبات میں نصب کیے گئے، جہاں موساد کے بدنام زمانہ سائبر یونٹ 8200 کی مکمل تکنیکی معاونت موجود تھی۔

ان ریسیورز کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ایک محفوظ وی پی این ٹنل کے ذریعے اسرائیلی گراؤنڈ اسٹیشنز سے منسلک تھے، جس کی بدولت ایرانی ائیر ڈیفنس اور سرکاری کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی حقیقی وقت میں نگرانی ممکن ہو گئی۔ گویا ایک غیر علانیہ جنگ کا میدان، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی آڑ میں ایران کے اندر کھول دیا گیا۔

صورتحال اس وقت مزید سنجیدہ ہو گئی جب ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بلوچستان سے متصل ایرانی علاقے سراوان میں چھاپہ مار کر ایک خفیہ کمانڈ نوڈ سے پانچ ریسیورز برآمد کیے۔ یہ صرف ایرانی سلامتی پر حملہ نہیں تھا، بلکہ ان ریسیورز سے پاکستان کے جنوب مغربی سرحدی علاقوں کے سگنل لاگز بھی برآمد ہوئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب تہران نے اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی کے سپرد کیا اور محض 48 گھنٹوں کے اندر اندر اسٹار لنک پر مکمل پابندی لگا دی گئی، جبکہ ریسیور رکھنے کو سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔

مشترکہ فرانزک تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہی نیٹ ورک بلوچ شدت پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے درمیان خفیہ رابطوں کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ تربت، آواران اور پنجگور کے پہاڑی کیمپوں سے برآمد ہونے والے شواہد نے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر دیا۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تفتان اور زاہدان کے درمیان چلنے والی مسافر کوچ سروس کو بھی اس اسمگلنگ میں استعمال کیا جا رہا تھا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے نوجوانوں کو ’ٹیک سپورٹ‘ کے نام پر اس سازش میں گھسیٹا گیا۔ انہیں ریسیورز کی تنصیب کے دوران مترجم اور مقامی گائیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا، بدلے میں انہیں آن لائن پروپیگنڈہ مہم چلانے کے لیے جدید لیپ ٹاپ، بٹ کوائن والیٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی گئیں۔

کراچی میں گرفتار ہونے والے BYC میڈیا ونگ کے دو کارکنان نے اعتراف کیا کہ وہ انہی انکرپٹڈ وِز اکاؤنٹس کو چلاتے رہے، جن سے بی ایل اے کے حملوں کی ذمہ داری لی جاتی تھی۔ یوں یہ سازش صرف ایران تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان کے حساس علاقوں میں بھی اس کا جال بچھا دیا گیا۔

تحقیقات نے ایک اور خطرناک پہلو کو بھی بے نقاب کیا۔ بھارتی ریاست گجرات کے کنڈلا پورٹ سے ان ریسیورز کو ’ڈپلومیٹک کارگو‘ کے جعلی ٹیگ کے تحت روانہ کیا گیا، پھر عمان میں راس الحد کے نجی گودام میں دوبارہ پیکنگ کی گئی اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ایرانی ساحل تک پہنچایا گیا۔ ہر کھیپ کے ساتھ ایک مخصوص اپڈیٹ فائل آتی تھی، جس پر اسرائیلی یونٹ 8200 کے کوانٹم سائنچر ثبت ہوتے تھے۔

ایران نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے ملک بھر میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن ریگولیٹری فریم ورک کا ازسرِنو جائزہ لیا اور سیستان-و-بلوچستان میں فائبر آپٹک لنکس پر ریئل ٹائم ڈیپ پیکٹ انسپیکشن نافذ کر دی گئی۔ پاکستان نے بھی خضدار اور گوادر میں اسپیکٹرم مانیٹرنگ اسٹیشنز کو اپ گریڈ کیا، جن کی نگرانی کی صلاحیت اب دو سو کلومیٹر تک بڑھا دی گئی ہے۔

سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے مشترکہ انٹیلیجنس ٹاسک فورس کی مدت 2027 تک بڑھا دی ہے۔ اس فورس کا مقصد سرحدی سائبر خطرات کا سدباب اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی مالیاتی رگوں کو کاٹنا ہے۔

دو سو اسٹار لنک ریسیورز کی کہانی محض ایک کھیپ کی برآمدگی نہیں بلکہ اس وسیع نیٹ ورک کا سراغ ہے جس کی جڑیں بھارتی ساحلوں سے جا ملتی ہیں اور کنٹرول اسرائیلی سائبر لیبز کے پاس ہے۔ یہ تمام حقائق بھارت کے اس دہرا معیار کو بے نقاب کرتے ہیں، جو ایک جانب دنیا میں خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور ٹیکنالوجی کا علمبردار ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور خودمختاری پر حملہ آور ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک  بھارت کے اس منافقانہ کردار پر سنجیدگی سے غور کرے۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور ہائبرڈ وار کے اس نئے دور میں خاموشی یا نظراندازی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ پاکستان اور ایران نے بروقت اقدامات کے ذریعے اس گٹھ جوڑ کی کمر ضرور توڑی ہے، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جب تک بھارت اور اسرائیل کی سازشوں کا ہر پہلو بے نقاب نہ کیا جائے، خطے کا امن خواب ہی رہے گا۔


پنجاب کو یہ جنگ لڑنا ہو گی





پنجاب کو پانی اور ماحول بچانے کی جنگ لڑنا ہو گی

پاکستان اس وقت پانی کی قلت کے خطرناک دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس چیخ چیخ کر متنبہ کر رہی ہیں، مگر ہمارے ایوان اور حکومتی حلقے شاید ابھی تک خوابِ غفلت میں ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز 
 کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں پانی کی قلت سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ 1947 میں ہمارے پاس فی کس 5,260 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، جو اب کم ہو کر محض 850 مکعب میٹر رہ گیا ہے — یہ وہ حد ہے جس کے نیچے اترنے کو عالمی زبان میں "آبی قحط" 
 کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہر سال تقریباً 30 ملین ایکڑ فٹ پانی، جو ہماری زمینوں کو زرخیز بنا سکتا تھا، سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ( وزارت آبی وسائل، پاکستان، 2022)۔
المیہ یہ ہے کہ تربیلا ڈیم کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہ کر سکے۔ کالا باغ ڈیم ہو یا بھاشا دیامر اور مہمند ڈیم — یہ سب سیاست، سستی اور وسائل کی کمی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ادھر بھارت، سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتا ہوا، چناب، جہلم اور دیگر دریاؤں پر 150 سے زائد ڈیم اور منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ 
، جب تک پاکستان خود پانی ذخیرہ نہیں کرے گا، دنیا میں کوئی طاقت ہمیں آبی تحفظ نہیں دے سکتی۔
یہ وقت ہے کہ پنجاب پہل کرے۔ محض بڑے ڈیموں پر انحصار کافی نہیں، ہمیں مقامی سطح پر انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس ضمن میں ایک سادہ مگر مؤثر تجویز سامنے ہے — پنجاب کے ہر گاؤں، ہر چک اور ہر ڈھوک میں ایک تالاب لازمی تعمیر کیا جائے۔
یہ تالاب نہ صرف بارشی پانی محفوظ کرے گا بلکہ:
 مقامی سطح پر زراعت کے لیے پانی میسر آئے گا۔
 زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی۔
 تالاب کے گرد شجرکاری سے ماحول بہتر ہو گا، درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔
 مقامی جنگلی حیات اور چرند پرند کیلئے پانی کی دستیابی ممکن ہو گی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس
 کی 2021 کی تحقیق کے مطابق اگر مقامی سطح پر تالاب اور چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تو مقامی معیشت میں 20 سے 30 فیصد بہتری آ سکتی ہے۔
چین، اسرائیل اور دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر بارشی پانی کا ایک ایک قطرہ محفوظ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے پہاڑی علاقوں، رود کوہیوں، چشموں اور برساتی نالوں پر اگر چھوٹے ذخائر اور تالاب بن جائیں تو ہم نہ صرف سیلابی تباہی روک سکتے ہیں بلکہ مقامی معیشت، ماحول اور زراعت کو بھی نئی زندگی دے سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ سیاستدانوں کی انا سے بالاتر ہو کر پانی کے مسئلے کو قومی ایجنڈا بنایا جائے۔ ہر گاؤں میں تالاب کی تعمیر کو بلدیاتی منصوبوں میں شامل کرنا ہوگا، بڑے آبی ذخائر پر کام تیز کرنا ہوگا اور عوام کو پانی کے تحفظ کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔
پانی کے بغیر نہ زراعت بچے گی، نہ صنعت، نہ زندگی — اور نہ ہی پاکستان۔

خود کو بہتر بنائیں

                              

جون 2025 کی ایران اسرائیل جنگ نے دنیا پر ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ کسی قوم کی اصل کمزوری اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی کمی، ٹیکنالوجی یا فوجی سازوسامان میں نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جڑیں اُس کی داخلی حالت میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس جنگ کے ابتدائی لمحات میں ہم نے دیکھا کہ ایران کو کئی نامور سائنس دانوں، فوجی جرنیلوں اور سیاسی رہنماؤں کی قربانی دینا پڑی۔ ابتدا میں دشمن کو ایران کی صفوں میں موجود غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی طور پر بکھرے عناصر نے فائدہ پہنچایا۔

لیکن حیرت انگیز طور پر ایران محض چند گھنٹوں میں سنبھل گیا، اپنی صفوں کو درست کیا، اور دنیا کو یہ سبق دے گیا کہ کوئی قوم ظاہری طور پر کتنی ہی مضبوط ہو، اگر اندرونی کمزوری موجود ہو تو دشمن اُس کا فائدہ اٹھا لیتا ہے، اور اگر اندرونی استقامت پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی۔
قرآنی اصول: تبدیلی ہمیشہ اندر سے شروع ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔''
(سورۃ الرعد: 11)

امام رازیؒ  لکھتے ہیں:
"قوموں کی عزت یا ذلت کا دارومدار ان کی ظاہری طاقت یا ساز و سامان پر نہیں بلکہ ان کی داخلی حالت، اخلاق اور نظریاتی یکجہتی پر ہے۔"

ایران کے داخلی مسائل، بے راہ رو افراد اور نظریاتی کمزوریوں نے دشمن کو موقع فراہم کیا، مگر جب قوم نے خود احتسابی کی اور اندرونی صفوں کو درست کیا، تب جا کر خارجی دشمن پر قابو پایا جا سکا۔ یہی اصول فرد، معاشرے اور ملک، سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

انسان کی زندگی میں مثبت سوچ، روشن نگاہ اور دل میں خیر کا جذبہ داخلی استحکام کی بنیاد ہیں۔ نفسیات کے مشہور ماہر ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل اپنی شہرۂ آفاق کتاب
 "The Power of Positive Thinking"
 میں لکھتے ہیں:
"مثبت سوچ ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسان کو مایوسی، کمزوری اور شکست خوردگی سے نکال کر امید، طاقت اور کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس داخلی کیفیت کی اصلاح کو سب سے مقدم قرار دیا
''بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔''
(صحیح بخاری، حدیث: 6064)
یعنی انسان کی سوچ اور نیت اگر صاف ہو، تو اُس کی زندگی، تعلقات اور معاشرہ خود بخود بہتر ہو جاتا ہے۔


مشہور اسلامی مفکر علامہ ابن القیمؒ لکھتے ہیں:
"جو دل حسنِ ظن، خیرخواہی اور محبت کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں سکون اور کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے، کیونکہ اس میں نفرت، حسد اور بغض کی تاریکی باقی نہیں رہتی۔"
(مدارج السالکین، جلد 2، صفحہ 480)

ایران کی حالیہ جنگ کا یہی عملی سبق تھا کہ دشمن کی گولہ باری سے زیادہ نقصان غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی بکھراؤ نے پہنچایا۔ یہی اصول ہر فرد اور معاشرے پر لاگو ہوتا ہے۔ جب انسان اندر بدگمانی، نفرت اور حسد پیدا ہو جائے  تو وہ خود اپنے وجود کو کمزور کرتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ
 اپنی آنکھوں کو ان چیزوں پر مرکوز رکھے جو امید، روشنی اور مثبت سوچ پیدا کریں۔
 اپنے دل میں دوسروں کے لیے بھلائی، خیرخواہی اور محبت کے جذبات رکھے۔
 اپنی سوچ کو منفی پہلو، شکایت اور بدگمانی کی بجائے اصلاح، ہمدردی اور تعمیر کی طرف لے جائے۔
یہ وہ معرکہ ہے جو 
بیرونی معرکہ جیتنے سے پہلے اندرونی طور پر جیتنا لازم ہے

دنیا کی کوئی فوج، معاہدہ یا طاقت اس وقت تک کسی قوم کو محفوظ نہیں بنا سکتی جب تک اُس کے افراد اندر سے کمزور، منتشر اور بدظن ہوں۔ 

اتوار، 29 جون، 2025

Kashmir: A Region Bleeding in Silence as the World Looks Away



In 1947, India was born amid promises of democracy, secularism, and human rights. But for the people of Indian-administered Kashmir, these ideals have remained a cruel illusion. Behind the majestic Himalayan peaks lies a valley soaked in blood, scarred by decades of state-sponsored violence, systematic oppression, and the world's collective indifference.
A Staggering Toll of State Violence

Since the eruption of the armed uprising in 1989, the people of Kashmir have endured unimaginable suffering at the hands of Indian security forces. Verified reports from independent organizations, including Human Rights Watch (HRW), Amnesty International (AI), and local rights groups paint a grim picture:

Atrocity Estimated Figures Source
Civilians Killed Over 96,300 Kashmir Media Service (KMS), 2023
Deaths in Custody Over 7,300 HRW, AI
Injured (partial/complete disabilities) Over 50,000 (8,500 blinded in 2016 alone) Al Jazeera, 2017
Arbitrary Arrests Over 170,000 since 1989 AI, KMS
Enforced Disappearances Over 8,000 missing; 6,000 mass graves found UN Working Group on Enforced Disappearances
Cases of Rape & Sexual Violence Over 11,260 documented, including gang rapes like Kunan-Poshpora (1991) Amnesty International, HRW
Forced Marriages Hundreds of Kashmiri women forcibly married outside the region under demographic engineering plans Local NGOs, Independent reports
Homes & Properties Destroyed Over 110,500 homes and businesses razed KMS
Orphaned Children Over 107,950 UNICEF, KMS
Widowed Women Approximately 23,000 KMS

A Land Turned into an Open-Air Prison

Today, Kashmir is less a region and more an open-air prison — heavily militarized, under surveillance, stripped of fundamental freedoms:
Armed checkpoints choke towns and villages
Thousands languish in detention centers without trial
Young men face extrajudicial killings branded as "terrorists"
Women face systemic sexual violence, humiliation, and harassment
Families mourn missing loved ones, their whereabouts buried under official silence
In recent years, the Indian government's aggressive push for demographic change — through controversial domicile laws and settlement policies — has added salt to the wounds. Local Muslims fear becoming a marginalized minority in their own homeland.
Hindutva Nationalism and Weaponized Oppression

Prime Minister Narendra Modi's government, guided by the hardline Hindutva ideology, has transformed Kashmir into a laboratory of repression:
Journalists are silenced, activists jailed
Internet blackouts stifle dissent
Mosques and religious sites face restrictions
Daily life is punctuated by arbitrary raids, arrests, and property seizures
Kashmiri women, in particular, suffer doubly — as victims of sexual violence and as targets of a state-driven campaign to dismantle the region's social fabric.
A Deafening Global Silence

Despite decades of UN resolutions — over 23 in total — Kashmir's plight remains largely ignored by the international community. Western powers, quick to champion human rights elsewhere, have consistently avoided holding India accountable:
The United Nations issues toothless statements
The European Union expresses "concerns" without action
The Organization of Islamic Cooperation (OIC) remains fragmented and ineffective
Global human rights organizations publish reports — only to be dismissed as "anti-national propaganda" by India
Meanwhile, Kashmiris continue to bleed, mourn, and resist — abandoned by the very global system that claims to protect the vulnerable.
A Chilling Parallel with Gaza
Kashmir today increasingly mirrors the tragedy of Gaza:
Blockaded, militarized, and suffocated
Its people stripped of dignity, mobility, and hope
Collective punishment meted out under the guise of "national security"
Demographic engineering designed to alter its identity permanently
Yet, while Gaza's suffering occasionally pierces global media, Kashmir remains hidden beneath India's formidable propaganda machinery and international geopolitical convenience.
The World Cannot Look Away Forever
History has shown that buried injustices fester into explosive crises. The silence over Kashmir is not only immoral but dangerously short-sighted.
The question is simple yet haunting:
How long can the world look away as an entire people are slowly erased?
Until the international community abandons its hypocrisy and applies the same standards of justice to Kashmir as elsewhere, peace in South Asia will remain a distant, vanishing dream.

آیت‌اللّٰہ سید علی حسینی خامنہ‌ای






آیت‌اللّٰہ سید علی حسینی خامنہ‌ای (پیدائش: 17 جولائی 1939، مشہد) ایران کے دوسرے سپریم لیڈر ہیں، جو 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے قم، نجف اور مشہد میں دینی تعلیم حاصل کی اور 1960–70 کی دہائی میں شاہی حکومت کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انقلاب 1979 میں نمایاں کردار ادا کیا، جنگ ایران–عراق (1980–88) میں وزیرِ دفاع اور بعد ازاں صدارتی خدمات سرانجام دیں۔ 1989 میں آیت‌اللّٰہ خمینی کے وفات کے بعد وہ ایران کی اعلیٰ قیادت پر فائز ہوئے ۔

ایران کا بنیادی آئینی ستون ولایتِ فقیہ خامنہ‌ای کے تحت مضبوط ہوا۔ ان کے اقتدار میں فوج، عدلیہ، میڈیا، اور خارجہ پالیسی شامل ہے ۔
انہوں نے 
IRGC
 (سپاہ پاسداران)
 اور بیسج جیسے نیم فوجی اداروں کو ریاستی طاقت کے مرکزی ستون بنایا، جو ان کے اقتدار کا اہم حصہ ہیں ۔

 ان کی شخصیت کو امام علی سے تشبیہ دی جاتی ہے اور یہ تصور نسل درنسل پھیلا ہے کہ وہ معصوم ہیں، بیرون ایران اس تصور کو تعجب سے دیکھا جا سکتا ہے مگر ان کے پیرو کار ایسا ہی مانتے ہیں

عالمی سطح پر ایران–امریکہ اور ایران–اسرائیل تعلقات میں خامنہ‌ای کا کردار بنیادی ہے۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام، شام، لبنان ، اور یمن میں ایرانی اثرات کو مستحکم کیا ہے ۔

موجودہ جنگ ایران–اسرائیل میں خامنہ‌ای نے 
“escalate-to-de-escalate”
 حکمت عملی اپنائی، محدود جوابی حملوں کی حمایت کی اور امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ سے گریز کا اشارہ دیا 

دنیا بھر میں تقریباً 20 کروڑ شیعہ ہیں۔ عراق، لبنان، پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں خامنہ‌ای کی قیادت کو مذہبی و سیاسی اہمیت دی جاتی ہے ۔ بعض گروہ تو انہیں روحانی باپ اور امام کا درجہ دیتے ہیں ۔
پاکستانی شیعہ تنظیمیں قم اور تہران سے فتاوی اورمبینہ فنڈنگ لے کر انہیں اپنا رہبر تسلیم کرتی ہیں ۔
خامنہ‌ای کی شخصیت سیاسی-مذہبی طاقت کی علامت ہے، جہاں ریاست، مذہب اور بین الاقوامی مفادات یکجا ہیں۔ 


Ex-Indian Army Personnel in the Middle East — Silent Guests or Strategic Threats?



Ex-Indian Army Personnel in the Middle East — Silent Guests or Strategic Threats?

Across the glittering skylines of Dubai, the oil-rich fields of Saudi Arabia, and the expanding ports of Oman and Qatar, thousands of Indian nationals play a critical role in construction, healthcare, technology — and security. Among them, a growing but largely unnoticed group is raising eyebrows in strategic circles: ex-servicemen from the Indian Army and paramilitary forces employed in private security firms, defense consultancies, training missions, or port protection units.

While these former soldiers often enter the region as disciplined professionals seeking post-retirement livelihoods, a closer look reveals a complex picture. Can their presence evolve into a security risk for host countries, especially amid growing intelligence and defense cooperation between India and Israel, and New Delhi’s assertive foreign policy? The answer lies in the interplay of identity, geopolitics, and covert influence.
⚔️ From Uniforms to Contracts: A Growing Trend

India’s large military — one of the world’s biggest — retires thousands of trained personnel every year. Many of them find second careers in the private sector. Middle Eastern security firms and corporations often hire these individuals for:


VIP protection


Private security services


Port and oil facility surveillance


Military training programs (especially in UAE and Oman)

In some Gulf states, entire private security firms are reportedly staffed or trained by ex-Indian Army or paramilitary personnel, many of whom possess combat experience from Kashmir, the northeast insurgency, or counterterrorism operations.
🕵️‍♂️ The Intelligence Angle: Hidden in Plain Sight?

In recent years, India has expanded its intelligence outreach in West Asia, particularly in counter-terrorism, surveillance, and cyber-intelligence domains. The risk arises when former military personnel — especially those with intelligence backgrounds — are deployed in sensitive commercial or diplomatic environments where data, access, or surveillance tools can be leveraged.

This concern becomes sharper when considering:


India’s increasing alignment with Israel in intelligence sharing and regional operations.


RAW's alleged operations in Iran, UAE, and beyond, including surveillance of Pakistani and Kashmiri dissidents abroad.


Allegations that Indian agents have used diplomatic cover or third-country nationals to carry out missions abroad.

Could ex-servicemen, intentionally or inadvertently, become a tool in broader state agendas? History suggests it's not far-fetched.
🔥 Real-World Incidents: Precedent Exists
✅ UAE’s 2022 Spy Crackdown

The UAE arrested several individuals suspected of being part of a foreign espionage network. Though details were kept classified, reports hinted at multiple nationalities, including South Asians. Indian intelligence presence has been quietly noted by regional observers — especially in Dubai, which hosts a large Pakistani diaspora.
✅ Saudi Arabia’s Surveillance Concerns

Following regional tensions, Saudi Arabia tightened scrutiny over security contractors and foreign personnel working near sensitive installations. Reports emerged in 2020 of certain private guards being reassigned or monitored, including some with military backgrounds.
✅ Iran's Caution Post-Kulbhushan Case

After the arrest of Kulbhushan Jadhav in Pakistan, who allegedly used Iran as a transit point for Indian intelligence missions, Iran quietly reviewed its labor and security profiles, especially for those near borders or strategic assets.
⚖️ Why Host Countries Should Be Concerned


Loyalty Ambiguity
Former soldiers may maintain ideological or nationalistic ties with their homeland. In sensitive scenarios — such as Iran-Israel tensions, Kashmir protests abroad, or diaspora surveillance — host governments can’t always be certain of their neutrality.


Access to Sensitive Areas
Ex-servicemen working in oil fields, ports, or telecom infrastructure often have physical and digital access that could be exploited by hostile actors.


Recruitment Channels
Some of these individuals are recruited through Indian-controlled or influenced private security firms, raising questions about indirect government linkage.


Potential for Covert Operations
The line between private work and covert surveillance can blur — especially when ex-military personnel are trained in reconnaissance, electronic surveillance, or counterintelligence.
🔍 What Should Host Countries Do?


Enhanced Vetting: Governments must create special vetting protocols for ex-servicemen from foreign militaries, especially those linked to active intelligence networks.


Localized Training: Invest in local human capital to reduce dependency on foreign defense labor.


Transparency from Recruiters: Private firms should be mandated to disclose full career histories of recruits.


Monitoring Strategic Sites: Expatriates working in ports, defense zones, or telecom hubs must be monitored — regardless of nationality.
🧭 Final Thought

India remains a valued economic and labor partner for many Middle Eastern nations. But as geopolitical fault lines harden, and as New Delhi deepens its partnerships with countries like Israel and the U.S., host countries must adopt a realist lens.

Ex-Indian Army personnel may arrive in uniformed silence — but in an era of hybrid warfare, surveillance diplomacy, and asymmetric threats, their presence should be noted, assessed, and managed.


A Triangle of Espionage in South Asia





RAW, NDS, and Mossad: A Triangle of Espionage in South Asia

By: Dilpazir Ahmad Janjua

Espionage has long replaced conventional war as the preferred method of exerting geopolitical pressure. In the shifting sands of South Asia and the Greater Middle East, the collaboration between India’s Research and Analysis Wing (RAW) and Afghanistan’s intelligence services—primarily the now-defunct National Directorate of Security (NDS)—has evolved into a potent alliance aimed at sabotage operations, proxy warfare, and regional destabilization.

Behind the scenes of this axis, Israel’s Mossad appears increasingly aligned, offering technical expertise, digital tools, and ideological motivation—especially when it comes to countering Muslim-majority nations like Pakistan and Iran.
 RAW and NDS: A Symbiotic Intelligence Alliance
 RAW (Research & Analysis Wing)
India’s premier external intelligence agency, RAW, has a mandate for:
Cross-border operations
Political destabilization
Counter-terrorism surveillance (with a regional bias against Pakistan)
 NDS (Afghanistan’s National Directorate of Security)
Before the Taliban takeover in 2021, the NDS was:
Trained and funded largely by the CIA and India
Known for its deep hostility toward the Taliban and Pakistan
Often used to support anti-Pakistan elements like TTP (Tehrik-e-Taliban Pakistan) and BLA (Baloch Liberation Army)
Between 2014 and 2021, RAW-NDS coordination intensified dramatically, with joint training, intelligence sharing, and operational collaboration—particularly in regions bordering Balochistan and Khyber Pakhtunkhwa.
 Real Incidents of RAW–NDS Sabotage Operations
1. Kulbhushan Jadhav Case (2016)
Captured by Pakistani authorities in Balochistan, Jadhav was a RAW officer using Iran and Afghanistan as staging grounds for covert operations.
He admitted involvement in:
Fueling Baloch separatism
Funding terror groups like BLA
Planning attacks on Pakistan’s infrastructure
His travel records confirm RAW-NDS cooperation, with movements through Kandahar, Herat, and Chabahar.
 APS School Attack (2014): TTP Nexus
Pakistani investigations and intelligence reports have repeatedly suggested that RAW and NDS provided indirect support to TTP militants via safe havens and logistical facilitation.
While India denies the link, captured TTP commanders have claimed RAW officers operated safehouses in Jalalabad and Spin Boldak, facilitating attacks like the Army Public School massacre in Peshawar (over 150 killed, mostly children).
 Gwadar and Chinese Workers Targeted (2018–2020)
A wave of attacks on Chinese engineers and CPEC routes in Balochistan were traced to BLA militants, who reportedly received training and explosives through Afghan territory.
Intercepts suggested NDS officers worked with RAW handlers to fund these missions — with anti-China objectives aligning all three players: India, Afghanistan (pre-2021), and Israel.
 Chabahar Bombing Plot (Foiled in 2019)
Iran’s intelligence agencies unearthed a RAW-linked cell in Chabahar (on Iranian soil) planning attacks in Zahedan and Pakistani border areas.
The suspects had traveled from Afghanistan via Nimruz province, where NDS reportedly provided them safe corridors.
 The Role of Ideology and Strategic Alignment
 RAW’s Objectives:
Undermine Pakistan’s global image by linking it with terrorism.
Destabilize Balochistan to disrupt China’s CPEC corridor.
Use Afghan soil as a buffer to encircle and pressure Pakistan and Iran.
 NDS’s Incentive:
Enmity with Taliban (who had support from Pakistan).
Opportunity to internationalize Afghan grievances against Pakistani influence.
Support from India in weapons, training, and intelligence tools.
Mossad’s Entry:
Israel, through covert channels, has offered cyber training and digital surveillance support to both RAW and (unofficially) to NDS before 2021.
Shared interest in:
Weakening Muslim-majority strategic players (Pakistan, Iran)
Monitoring Shia and Sunni networks
Countering China’s expansion in the region
 Triangular Cooperation: RAW–NDS–Mossad
Though never officially admitted, credible intelligence leaks and independent investigations have revealed:
Joint workshops on cyber warfare attended by Indian and Israeli contractors.
Digital surveillance systems used by NDS were procured via Indian and Israeli firms—including software licensed from Tel Aviv tech startups.
After 2017, some Baloch separatist figures received Israeli visas for conferences in Europe — promoted by Indian lobbying groups.
 Strategic Goal:
Create a narrative of “liberation movements”, Islamic extremism spillover, and regional instability, all pinned on Pakistan — with support from both Afghan intelligence and Israeli media tools.
 Post-2021: Taliban Takeover and Collapse of NDS
The fall of Kabul in 2021 disrupted this triangle:
NDS dissolved, but its assets and officers remain in contact with foreign handlers.
RAW lost ground access to Balochistan from Afghanistan, shifting focus to Iranian corridors and Gulf-based operatives.
Israel’s digital tools remain in circulation, with remote access still a possibility via third-party firms or ex-Afghan networks.
 Implications for Regional Security
Pakistan:
Faces asymmetric warfare from foreign-funded separatists.
Must strengthen border intelligence, especially on Western frontiers.
Needs diplomatic outreach to Iran and Taliban to shut down RAW remnants.
Iran:
Must guard against Israeli and Indian manipulation of dissident groups in Sistan-Balochistan.
Should enhance IRGC border monitoring in Chabahar and Mirjaveh.
China:
Increasingly concerned about RAW-backed sabotage on CPEC projects.
Has boosted its security presence in Gwadar and along transport routes.
 Conclusion: A Dangerous Game of Shadows
The RAW–NDS–Mossad triangle, whether fully formalized or loosely coordinated, represents a new model of multi-layered espionage: ideology, cyber power, and proxy violence fused into one.
What connects them all is not just geopolitical strategy, but an ideological hostility toward Pakistan, Iran, and the Islamic world’s strategic cohesion.
The war today is not fought with armies — it’s fought with alliances, insurgents, and code.

The May 2025 Air Battle — Pakistan’s Strategic Triumph and the Lessons for the World

 

Title: The May 2025 Air Battle — Pakistan’s Strategic Triumph and the Lessons for the World
By: Dilpazir Ahmad Janjua

The dates of May 7 and 8, 2025, have now become a permanent chapter not only in South Asian military history but in global defense studies. What unfolded in the skies over the Line of Control (LoC) and adjoining regions was not just a routine skirmish between two nuclear-armed neighbors, Pakistan and India, but a defining moment in the evolution of modern aerial combat — a moment that defense analysts from Washington to Moscow and Beijing to Tel Aviv are still dissecting.

The Background: A Region on the Brink

Tensions between India and Pakistan had been simmering for months leading up to May 2025. The Kashmir dispute remained unresolved, border ceasefire violations were routine, and political rhetoric on both sides was heating up. What finally triggered the aerial engagement was a series of alleged Indian drone incursions into Pakistani territory along the Neelum Valley in late April 2025, followed by the downing of an Indian Army reconnaissance helicopter near Tatta Pani by Pakistani forces on May 2.

In response, India launched a large-scale aerial operation along the LoC on the night of May 7, aimed at targeting what it claimed were "terror launchpads" — a familiar but unproven narrative reminiscent of the Balakot incident of 2019.

But unlike 2019, this time Pakistan was not caught by surprise.

The Air Battle Unfolds: Precision, Patience, and Professionalism

As Indian jets, including Su-30MKIs, Rafales, Mirage 2000s, and MiG-29s, crossed into contested airspace, they were met with a calculated, technologically superior, and highly coordinated response from the Pakistan Air Force (PAF).

Relying on their latest JF-17 Block III Thunder jets — equipped with cutting-edge Active Electronically Scanned Array (AESA) radars, infrared tracking systems, and Chinese-made PL-15 BVR (Beyond Visual Range) missiles — the PAF executed what defense experts now call a "Zero Losses Air Superiority Operation."

Within minutes, PAF fighters had locked onto six Indian jets at distances exceeding 100 kilometers. Despite India's reliance on Spectra defense systems and electronic jamming aircraft, Pakistani pilots achieved clean missile hits:

  • 2 Su-30MKIs shot down near Bhimber sector

  • 2 Rafales destroyed over Poonch

  • 1 Mirage 2000 crashed in Indian territory near Jammu

  • 1 MiG-29 downed near Rajouri

Global Shockwaves and India's Embarrassment

The losses were not only material but symbolic. The Rafales, once paraded by India as the game-changing asset in South Asia, were proven vulnerable. The Su-30MKIs, considered India’s frontline air dominance fighters, failed to outmatch Pakistan's air defense matrix.

Adding insult to injury, Indian attempts at electronic warfare — including jamming PAF communications and radars — were foiled by Pakistani counter-electronic warfare teams operating from ground installations near Muzaffarabad and advanced AWACS (Airborne Warning and Control System) aircraft in the air.

Within 24 hours, images and videos emerged of burning Indian jet wreckage, while PAF jets returned safely to their bases — mission accomplished, with zero Pakistani losses.

Real Incidents that Set the Stage

It is important to note that this operation did not happen in isolation. It was the result of years of preparation, learning, and upgrades after key incidents:

  • Balakot 2019: When Indian jets briefly crossed into Pakistani airspace, dropped payloads without hitting any significant targets, and faced an immediate response where PAF shot down an Indian MiG-21 and captured Wing Commander Abhinandan Varthaman, the world witnessed Pakistan’s defensive readiness. But PAF knew it could not remain complacent.

  • Indian Drone Intrusions 2020-2024: Repeated Indian drone activities along the LoC, including the downing of multiple quadcopters by Pakistan Army troops, exposed the increasing use of unmanned surveillance by India.

  • Chinese-Pakistani Defense Cooperation: Over the last five years, Pakistan accelerated its collaboration with China, acquiring JF-17 Block III jets, HQ-9B air defense systems, and BVR missile capabilities — a critical factor in the 2025 victory.

International Recognition: From Conflict to Curriculum

Perhaps the most significant outcome of this battle was not military but academic. On June 26, 2025, the Royal Thai Air Force hosted an international defense seminar titled:
“May 7-8, 2025: A Case Study in Modern Air Combat — Lessons from the Indo-Pak Conflict.”

Defense delegations from the United States, China, Russia, France, Israel, Turkey, and UAE attended. Military experts unanimously recognized the operation as a textbook example of modern air superiority, especially in BVR warfare.

Global defense think tanks, including RAND Corporation, Jane’s Defence Weekly, and China’s PLA National Defence University, included this battle in their updated military doctrines and training modules.

The Lessons: Technology is Nothing Without Training and Nerves

Despite India's superior military budget and extensive acquisitions, the battle underscored timeless principles:

  • Superior technology means little without operational readiness.

  • Electronic warfare alone cannot overcome disciplined, well-trained pilots.

  • Real-time decision-making and control of the electromagnetic spectrum are critical.

  • Homegrown platforms like the JF-17 Thunder, when properly integrated, can outperform more expensive jets.

Conclusion: A New Strategic Balance

Pakistan's triumph in May 2025 reshaped the strategic calculus of South Asia. More importantly, it silenced doubts over the capabilities of Pakistan’s defense industry, air force leadership, and the combat spirit of its fighter pilots — the Shahins of Pakistan.

For Pakistan, this victory was not just about downing enemy jets but sending a clear message:

When faith, technology, and national resolve unite, no adversary — however well-armed — is invincible.

The skies of South Asia witnessed not only dogfights and missile trails but the resurgence of Pakistan's strategic confidence — and the world is still taking notes.

بھائی کا رشتہ


اسلام اور پاکستانی معاشرت میں بھائیوں کا رشتہ بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ بھائی نہ صرف خون کا رشتہ ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے سچے ساتھی، محافظ اور دوست ہوتے ہیں۔ اسلام میں بھائیوں کے رشتہ کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کی کہانی میں ہمیں بھائیوں کے درمیان محبت، معافی اور درگزر کا ایک اہم پیغام ملتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں بھائیوں کے درمیان تعاون اور محبت کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے:
“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”

پاکستانی معاشرت میں بھی بھائیوں کے رشتہ کو بڑی عزت دی جاتی ہے۔ یہاں بھائیوں کے درمیان محبت، اعتماد،
اور مدد کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ یہ رشتہ خاندان کی بنیاد اور یکجہتی کا ضامن ہوتا ہے۔

میاں محمد بخش نے کہا تھا :
ھائی بھائیاں دے درد ونڈاندے، بھائی بھائیاں دیاں بانہواں
باپ سِراں دے تاج، مُحمّد ! ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
بیویوں کا بھائیوں کے رشتہ میں مداخلت: ایک سنگین مسئلہ
لیکن آج کل ایک مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، جب شوہر اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر بھائیوں کے رشتہ میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ چھوٹی باتوں کو بڑھا کر پیش کرتی ہیں، جس سے خاندان میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ پاکستانی معاشرتی روایات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
ایسی بیویاں جو اپنے شوہر کو بہکاتی ہیں اور بھائیوں کے درمیان اختلافات بڑھاتی ہیں، وہ دراصل خاندان کی محبت اور سالمیت کو تباہ کرتی ہیں۔ یہ رویہ حسد، کینہ، اور بدگمانی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی بھی خاندان کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے۔
بھائیوں کے رشتہ کی اہمیت کا شعور
بھائیوں کا رشتہ اسلام اور پاکستانی معاشرت میں بہت قیمتی ہے۔ بیویوں کو سمجھنا چاہیے کہ انہیں اپنے شوہر کو بھائیوں کے درمیان تفریق ڈالنے کی ترغیب نہیں دینی چاہیے۔ اس کے بجائے، انہیں بھائیوں کے رشتہ کو مضبوط کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خاندان کی محبت کو کبھی نہ ٹوٹنے دیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھائیوں کے رشتہ کو ہمیشہ عزت اور احترام دینا چاہیے تاکہ ا خاندان مضبوط اور خوشحال رہ سکے۔

ہفتہ، 28 جون، 2025

سورہ بقرہ آیت 261

سورہ بقرہ آیت 261

تیسری دنیا کے ممالک میں عوام معاشی تنگ دستی اور غربت کا شکار ہیں ۔ سولہ گھنٹے اور دو دو جگہ ملازمت کر کے بھی لوگ مہنگائی کی چکی کے عذاب میں پس رہے ہیں  — ہر جگہ ایک ہی حل بتایا جاتا ہے: محنت کرو، منصوبہ بندی کرو، بچت کرو، اور عقل سے کام لو۔ یہ مادی نقطہ نظر ہے جو اس دور کا سب سے بڑا اصول بن چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہی راستہ زندگی کے بحرانوں سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے؟

راولپنڈی کے کاروباری مرکز صدر میں ایک چھوٹی سی مسجد کے باہر میں نے اپنی آنکھوں سے ایک ایسا منظر دیکھا، جس نے اس سوال کا عملی جواب دے دیا۔ ایک عورت، جس کی ظاہری حالت بتا رہی تھی کہ غربت اور فاقوں نے اُسے چُور کر رکھا ہے، اُس نے مسجد کے چندہ بکس میں دس روپے ڈالے 
مجھے حیرت ہوئی۔  اُس سے پوچھا  خود گزارا مشکل ہے تو یہ دس روپے کیوں؟ اُس کی کہانی سُن کر مادی سوچ کی دیواریں میرے ذہن میں ٹوٹنے لگیں۔

 وہ بولی کہ چند ماہ پہلے اُس کی بیٹی کی شادی طے ہوئی، لیکن جیب خالی تھی۔ 
جمعہ والے دن لاوڈ سپیکر پر مسجد سے واعظ کی آواز سنائی دی 
"صدقہ اور اللہ کی راہ میں خرچ، غربت اور محرومی کا سب سے بڑا علاج ہے۔"
اس عورت کے بقول، اُس کے پاس اُس وقت صرف دس روپے  تھے۔ اُس نے مادی سوچ کو ایک طرف رکھ کر اللہ کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ آخری دس روپے مسجد کے چندہ بکس میں ڈال دیے۔ اُس کی زندگی بدلی، مدد ملی، بیٹی کی شادی ہو گئی، اور آج بھی وہ روزانہ اسی "تجارت" پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی راہ میں کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اُن کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جسے چاہے کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔"
(سورۃ البقرہ، آیت 261)

یہ صرف ایک خاتون کی کہانی نہیں، بلکہ پوری تاریخ اس سچ کی گواہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں، چاہے بظاہر حالات کچھ بھی ہوں۔

 حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت (صحیح بخاری، حدیث: 1434)
مدینہ میں قحط پڑا۔ لوگ پیاس اور بھوک سے بے حال تھے۔ حضرت عثمانؓ نے شام سے آئے اپنے تجارتی قافلے کی پوری غلہ بھری گاڑیاں اللہ کی راہ میں دے دیں۔ تاجروں نے زیادہ قیمت کی پیشکش کی، مگر حضرت عثمانؓ نے کہا:
"مجھے اللہ نے اس سے کئی گنا دینے کا وعدہ کیا ہے۔"
تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے مال میں ایسی برکت آئی کہ وہ دنیا کے سب سے مالدار مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔

 شیخ سعدی کی حکایت (گلستان سعدی، باب اول)
مشہور فارسی شاعر شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک غریب نے اپنے پاس موجود آخری روٹی کسی بھوکے کو دے دی۔ اُس کے بعد اللہ نے اُسے ایسی جگہ سے رزق دیا، جس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔

 پاکستانی صنعت کار کا واقعہ (روزنامہ جنگ، 12 مارچ 2009)
کراچی کے معروف صنعت کار، جنہوں نے مالی بحران کے دوران لاکھوں روپے یتیم بچوں کی فلاح پر خرچ کیے، چند ماہ بعد اُن کی کمپنی کو سعودی عرب اور یورپ سے بڑے آرڈر ملے، اور وہ دوبارہ مستحکم ہو گئے۔

 بنگلہ دیش کی گارمنٹس کمپنی (بی بی سی اردو، رپورٹ 2017)
ڈھاکہ کی ایک گارمنٹس کمپنی مالی دیوالیہ پن کے قریب تھی۔ مالک نے غریبوں میں راشن بانٹا اور مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ چند ماہ بعد انہیں یورپ اور امریکہ سے آرڈر ملے اور کمپنی سنبھل گئی۔

 انفرادی مثال — لاہور (جیو نیوز، مقامی رپورٹ 2022)
لاہور کے ایک شخص نے مشکل وقت میں اپنی بچت مسجد کی تعمیر اور غریب بچوں کی تعلیم پر لگائی۔ چند ماہ میں اُس کو دبئی میں ایسی ملازمت ملی، جس کی تنخواہ اُس کی سابقہ آمدنی سے دُگنی تھی۔


دنیا کی مادی سوچ ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر وسائل کم ہیں تو بچا کر رکھو، مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر وسائل کم ہیں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔

ایمان کی نگاہ رکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا درحقیقت ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا منافع دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔
 ہم عقل اور وسائل کی محدود دنیا میں قید رہ کر زندگی گذار سکتے ہیں اور چاہیں تو اللہ کے وعدوں اور قرآن کی وسعت پر یقین کر کے اپنی زندگی کا رخ بدل بھی سکتے ہیں ۔ 

حسنِ ظن

حسن ظن
- ایک اعرا بی کو کہا گیا کہ تم مر جاؤ گے -
اس نے کہاں پھر کہاں جائیں گے ؟
کہا گیا کہ اللہ کے پاس -

عربی کہنے لگا آج تک جو خیر بھی پائی ھے اللہ کے یہاں سے پائی ھے پھر اس سے ملاقات سے کیا ڈرنا ،،




ابن عباسؓ سے ایک بدو نے پوچھا کہ حساب کون لے گا ؟
آپ نے فرمایا کہ " اللہ "
رب کعبہ کی قسم پھر تو ھم نجات پا گئے ،بدو نے خوشی سے کہا -


ایک نوجوان کا آخری وقت آیا تو اس کی ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی -
نوجوان نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ امی جان اگر میرا حساب آپ کے حوالے کر دیا جائے تو آپ میرے ساتھ کیا کریں گی ؟
ماں نے کہا کہ میں تجھ پر رحم کرتے ھوئے معاف کردونگی -
اماں جان اللہ پاک آپ سے بڑھ کر رحیم ھے پھر اس کے پاس بھیجتے ھوئے یہ رونا کیسا ؟


اللہ پاک نے حشر کی منظر کشی کرتے ھوئے فرمایا ھے ،

{ وخشعت الأصوات للرّحمٰن } اور اس دن آوازیں دب جائیں گی رحمان کے سامنے -
اس حشر کی گھڑی میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ " جبار " کے سامنے بلکہ اپنی صفتِ رحمت کا ھی آسرا دیا ھے