جمعہ، 11 اپریل، 2025

کیا فلسطین کو تسلیم کرنا دہشتگردی کو انعام دینا ہے؟


 

مشرقِ وسطیٰ میں جاری خونریز کشمکش، سیاسی تعطل، اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے دنیا کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جہاں ہر قدم، ہر بیان، اور ہر سفارتی فیصلہ کئی زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی طرف سے دیا گیا بیان کہ "فرانس آئندہ چند ماہ میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے"، بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔

اس بیان نے دو دھڑوں میں منقسم عالمی بیانیے کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ ایک جانب وہ قوتیں ہیں جو اس اقدام کو فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق، ریاستی حیثیت اور دو ریاستی حل کی طرف مثبت پیش رفت سمجھتی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک، جن کے مطابق یہ اقدام دراصل دہشتگردی کے لیے ایک "انعام" ہو گا، کیونکہ یہ حماس جیسے گروہوں کو حوصلہ دے گا کہ تشدد سے بھی ریاستی پہچان حاصل کی جا سکتی ہے۔

لیکن کیا واقعی یہ اتنا سادہ اور یک رخی معاملہ ہے؟ کیا کسی مظلوم قوم کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرنا صرف تشدد کی حمایت ہے، یا یہ انصاف کا تقاضا ہو سکتا ہے؟

فرانس نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہو گا کہ وہ اسے "درست" سمجھتے ہیں۔ صدر میکرون کا کہنا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے فرانس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ان عناصر کے خلاف مؤثر آواز بلند کرے جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، جیسے کہ ایران۔

یہ مؤقف بظاہر متوازن نظر آتا ہے۔ ایک جانب فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دیا جا رہا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے وجود اور سلامتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اسرائیل نے اس پر سخت ردِعمل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سار نے فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو وہ درحقیقت حماس جیسے "دہشتگرد" گروہوں کو انعام دے گا۔

اس تنازعے کی گہرائی میں جائیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ صرف سرحدوں یا ریاست کی پہچان کا نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور ایک پرامن بقائے باہمی کا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ مگر امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ فرانس کا یہ اعلان اگر عملی جامہ پہن لیتا ہے تو یہ یورپی سطح پر ایک بڑا اقدام ہو گا۔

اس اقدام سے دو ریاستی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی سر اٹھائے گا: کیا مغربی دنیا اپنی پالیسیوں میں واقعی انصاف کو مقدم رکھتی ہے یا وہ اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو؟

آخر میں، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ریاستوں کی پہچان اور ان کے عوام کے حقِ خودارادیت کا تعلق کسی گروہ یا تنظیم کی پالیسیوں سے مکمل طور پر جوڑ دینا بھی خود ناانصافی ہے۔ فلسطینی عوام کی شناخت، ان کا حق اور ان کی آزادی کسی ایک جماعت کے رویے سے مشروط نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بدھ، 9 اپریل، 2025

ظاہر و باطن کا تضاد اور اس کے معاشرتی اثرات:




 

اسلامی تناظر میں ظاہر و باطن کا تصور

اسلامی تعلیمات میں ظاہر اور باطن دونوں کی اصلاح کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

"إنَّ أكرمَكم عندَ اللَّهِ أتقاكم"
"بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے" (الحجرات: 13)

یہ آیت اس تصور کو مسترد کرتی ہے کہ صرف ظاہری مذہبی علامات یا سماجی مقام کسی کی برتری کا سبب بن سکتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم"
(صحیح مسلم)
"بے شک اللہ تمہارے چہروں اور مال کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔"

یہ تعلیمات ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ظاہری نمائش کے بجائے باطنی صفائی اور کردار کی تطہیر اہم ہے۔


معاشرتی تجزیہ

1. معاشرتی منافقت (Hypocrisy as a Social Norm)

معاشرے میں "ظاہر داری" کو فضیلت سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً، لوگ دوسروں کی نظر میں اچھے بننے کے لیے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو وہ اصل میں نہیں ہوتے۔ اس رویے نے خلوص، اعتماد، اور سچائی کو کمزور کیا ہے۔

2. سماجی تعلقات میں عدم اعتماد

ظاہر و باطن کے تضاد نے افراد کے درمیان اعتماد کے بحران کو جنم دیا ہے۔ جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سامنے والا وہ نہیں ہے جو نظر آتا ہے، تو دلوں میں بدگمانی، شک، اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔

3. دینی طبقات کی ساخت پر اثر

مذہبی لباس اور ظاہری شناخت کو تقویٰ کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ جدید لباس پہنتے ہیں یا مذہبی علامات اختیار نہیں کرتے، ان پر اعتماد کم کیا جاتا ہے، چاہے ان کے اعمال اور باطن زیادہ صاف ہوں۔

4. نوجوانوں پر اثر

نوجوان نسل ایک الجھن کا شکار ہے۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ "نظر آنا" زیادہ اہم ہے، بجائے اس کے کہ "اصل میں اچھا ہونا"۔ سوشل میڈیا نے اس رویے کو مزید فروغ دیا ہے، جہاں "فالوورز" اور "لائکس" ظاہری خوبصورتی کی بنیاد پر ملتے ہیں، کردار کی بنیاد پر نہیں۔


مثالیں

  • ایک اسکول پرنسپل جو نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے لیکن اساتذہ کی تنخواہیں دباتا ہے۔

  • ایک نوجوان جو سوشل میڈیا پر حجاب کے فضائل بیان کرتا ہے، مگر نجی زندگی میں غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے۔

  • ایک سیاسی رہنما جو عوام کے سامنے عاجزی سے پیش آتا ہے لیکن ذاتی زندگی میں تکبر کا پیکر ہوتا ہے۔


نتائج  

  1. ظاہر و باطن کا تضاد معاشرے میں اخلاقی زوال کا سبب بن رہا ہے۔

  2. اس تضاد نے اعتماد، خلوص، اور سچائی جیسی اقدار کو کمزور کیا ہے۔

  3. معاشرتی قبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگ منافقانہ رویے اختیار کرنے لگے ہیں۔

  4. ظاہری خوبصورتی اور نمائش کو کردار اور اخلاق پر فوقیت دی جا رہی ہے۔


ظاہر و باطن کا تضاد آج ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تضاد نے نہ صرف انفرادی شخصیت کو مجروح کیا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی خلوص، دیانت، اور سچائی جیسی بنیادی اقدار کو متزلزل کیا ہے۔ اگر ہم ایک متوازن، پرخلوص، اور بااعتماد معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ظاہری نمائش کے خول کو توڑ کر باطن کی پاکیزگی کو ترجیح دینی ہو گی۔ یہی وہ راستہ ہے جو فرد، معاشرہ، اور اُمت کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

پیر، 7 اپریل، 2025

خاک سے افلاک تک — ایک گمنام مجاہد کی حکایت





یہ قصہ ہے ایک ایسے انسان کا، جو مٹی سے اُٹھا، مگر مٹی پر چلنا نہ بھولا۔ راولپنڈی کی ایک پسماندہ وادی کا باسی، جہاں راستے کچے تھے اور زندگی کے خواب دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جس پر وقت تھم سا گیا تھا۔ نہ وہاں بجلی کی چمک تھی، نہ سڑکوں کی روانی، نہ کتابوں کی روشنی۔ صرف مٹی تھی، غربت تھی، اور سادہ دلوں کی خاموشی۔

اس کے والدین نے مقدور بھر کوشش کی۔ آٹھ جماعتیں پڑھا دیں، جیسے ماں باپ بیٹے کو دعا دے کر کسی انجانے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ اور پھر وہ شہرِ بے مہری، راولپنڈی کی طرف نکل کھڑا ہوا—پیروں میں چپل، دل میں آگ، اور آنکھوں میں خواب۔

بے سرو سامانی میں میٹرک کیا، ایک وکیل کے دفتر میں منشی بن کر کام سیکھا، دن کو نوکری، رات کو کتاب—حتیٰ کہ وکالت کی سند حاصل کر لی۔ پھر زندگی نے اسے ایک پرانی موٹر سائیکل دی، اور وہ عید کے روز اُسے لیے گاؤں جا پہنچا—وہیں، جہاں کبھی خواب مرجھا جاتے تھے۔

مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، کہ اُس کے گھر کا راستہ ایک کھیت سے گزرتا تھا جو کسی اور کی ملکیت تھا۔ زمین کے مالک نے رعونت سے کہا: "یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں!"
وہ خاموش رہا۔ کوئی احتجاج نہ کیا، صرف نگاہوں میں ایک سوال تھا اور دل میں ایک وعدہ۔

واپس راولپنڈی آیا۔ محنت کا دامن تھاما۔ چند برسوں میں ہائی کورٹ کا وکیل بن گیا۔ اور جب دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں آیا، تو اسی کھیت میں سے گزر کر گیا—مگر اس بار کھیت اس کا اپنا تھا، اور گندم کی فصل اُسی راستے میں جھک کر اس کی آمد کا استقبال کر رہی تھی۔

وہی موٹر سائیکل والا، آج گاڑی کا مالک تھا۔ مگر غرور میں گندم روندتے ہوئے وہ دروازے تک آیا۔ باپ نے ایک نظر بیٹے کو دیکھا اور کہا:

"بیٹا، فرق کیا رہا تم میں اور اُس میں؟ اُس نے تمہیں روک دیا تھا، تم نے فصل روند دی۔"

یہ جملہ تیر بن کر دل کے اندر پیوست ہو گیا۔ علم نے دستک دی، شعور جاگ اُٹھا۔ اگلی صبح اُس نے اعلان کیا:
"یہ بیس فٹ زمین، گاؤں کے لیے راستہ ہوگی—ہمیشہ کے لیے!"

یہی لمحہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ وہ وکیل نہیں رہا، وہ اب مٹی کا بیٹا بن چکا تھا۔ اس نے گاؤں کو اپنا کاغذ بنایا اور ترقی کو قلم، اور پھر تحریر کی وہ نظم جس میں ہر سطر خدمت، ہر مصرع محبت اور ہر بند انسانیت تھا۔

آج اُس گاؤں میں پکی سڑک ہے، بجلی کی روشنی ہے، سرکاری ڈسپنسری ہے، ہائی اسکول کی گھنٹی بجتی ہے، اور ہر درخت کی چھاؤں میں دعائیں پلتی ہیں۔ جب میں ایک بار اُس کے ساتھ گاؤں گیا، تو لوگوں کی نگاہوں میں ایک عجب تقدیس دیکھی۔
یہ عزت وہ تاج تھی، جو خدمت کی پیشانی پر خود چمک اٹھا تھا۔


ہم ایک ایسی امت کے وارث ہیں جس کا پہلا پیغام تھا: "اقْرَأْ" — پڑھو!
مگر ہم نے نہ پڑھا، نہ سمجھا۔ نہ رب کی مانی، نہ رسول ﷺ کی۔ ہم دل سے سوچتے ہیں، دماغ سے نہیں؛ جذبات سے فیصلے کرتے ہیں، حکمت سے نہیں۔

یاد رکھو—ایک فرد کو سنورنے میں دس سال لگتے ہیں، ایک گاؤں کو بدلنے میں پچاس، اور ایک قوم کو سربلند ہونے میں صدیاں۔
لیکن اگر چراغ علم سے روشن ہو، اگر رہبر مخلص ہو، اگر دل میں اخلاص اور ہاتھوں میں محنت ہو—تو خاک سے افلاک تک کا سفر ناممکن نہیں۔

زبان جتنی بھی دراز ہو، اور جذبات جتنے بھی بلند ہوں، مقام صرف علم، ہنر، اور عمل سے ہی حاصل ہوتا ہے۔


یہ محض ایک انسان کی کہانی نہیں، یہ شعور کی جیت ہے۔ یہ اس مٹی کی بات ہے جو اپنے بیٹے کو پالتی ہے، گراتی ہے، سنوارتی ہے، اور آخرکار، ایک مثال بنا دیتی ہے۔


اتوار، 6 اپریل، 2025

ابو ایوب انصاری






یمن کے بادشاہ تبع خمیری کا ایک مشہور واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنے وزیر کے ساتھ مکہ معظمہ کا دورہ کیا۔ جب مکہ کے لوگوں نے ان کی عزت نہ کی تو بادشاہ نے کعبہ کو گرانے اور اہل مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن ایک عالم ربانی نے بادشاہ کو اس نیت سے توبہ کرنے کو کہا اور بادشاہ نے توبہ کر کے کعبہ کی تعظیم کی۔ بعد ازاں، مدینہ پہنچ کر انہوں نے وہاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی علامات دیکھ کر وہاں چار سو مکان بنوائے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک دو منزلہ مکان تعمیر کیا۔ انہوں نے اپنے خط میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کا اظہار کیا اور قیامت کے دن شفاعت کی درخواست کی۔ یہ خط نسل در نسل محفوظ رہا اور بالآخر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے آئے تو قصویٰ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہری اور آپ نے بادشاہ تبع کا خط نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دو منزلہ گھر کو اپنی قیام گاہ بنایا۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک معروف صحابی رسول اور میزبان رسول کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ مدینہ منورہ کے خوش نصیب انصاری تھے جن کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات ماہ تک آپ کے مکان میں قیام کیا اور اس دوران آپ نے بے پناہ عقیدت اور جاں نثاری کا مظاہرہ کیا۔ ایک مرتبہ، اوپر کی منزل میں قیام کے دوران پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سارا پانی اپنے لحاف میں جذب کر لیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ آپ کی میزبانی، سخاوت، شجاعت اور بہادری کی مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جہاد قسطنطنیہ میں شامل ہو کر آپ نے مجاہدانہ شان کے ساتھ لڑائیاں لڑیں اور اسی دوران 52ھ میں وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق قسطنطنیہ کے قلعے کے پاس دفن کیا گیا اور آپ کی قبر آج تک زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

للہ تعالیٰ کی قدرت اور اونٹ کی تخلیق




اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو بارہا یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ کائنات میں اس کی تخلیق کردہ نشانیوں پر غور و فکر کریں۔ ہر شے اس کی بے پایاں قدرت کی گواہی دیتی ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک نمایاں مثال "اونٹ" ہے، جس کی تخلیق میں حیرت انگیز حکمت اور صناعی چھپی ہوئی ہے۔

اونٹ — حیرت انگیز تخلیق

ذرا اونٹ کو دیکھیے! یہ جانور اپنی جسامت میں قوی، ساخت میں مضبوط، اور مزاج میں نہایت فرماں بردار ہے۔ بوجھ اٹھانے والا یہ جانور نہ صرف انسان کا قدیم ساتھی ہے بلکہ قدرت کا ایسا شاہکار ہے جو صحرا کی سختیوں میں بھی بخوبی زندہ رہتا ہے۔

اونٹ کے حیران کن حقائق

  1. چربی کا ذخیرہ، پانی نہیں
    اونٹ کے کوہان میں پانی نہیں بلکہ چربی جمع ہوتی ہے، جو توانائی کے ذخیرے کے طور پر کام آتی ہے، خصوصاً جب خوراک میسر نہ ہو۔

  2. مہینوں تک خوراک کے بغیر گزارا
    کوہان میں موجود چربی کی بدولت اونٹ 4 سے 5 ماہ تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہے۔ چربی ختم ہونے پر کوہان سکڑ جاتا ہے۔

  3. اونٹ کی اقسام

    • ڈرومیڈری (عربی اونٹ): ایک کوہان

    • بیکٹرین (ایشیائی اونٹ): دو کوہان

    • جنگلی بیکٹرین: ایک الگ اور نایاب نسل

  4. پیدائش پر کوہان نہیں ہوتا
    نومولود اونٹوں کے جسم پر پیدائش کے وقت کوہان نہیں ہوتا۔ یہ تقریباً 10 ماہ کی عمر میں ابھرنے لگتا ہے۔

  5. منفرد چال (Pacing)
    اونٹ مخصوص چال میں چلتا ہے جسے "پیسنگ" کہا جاتا ہے، جس میں ایک طرف کے دونوں پیر ایک ساتھ حرکت کرتے ہیں۔ یہی چال گھوڑے، زرافے اور ہاتھی میں بھی دیکھی جاتی ہے۔

  6. بیضوی خون کے خلیے
    اونٹ کے خون کے خلیے بیضوی (oval) ہوتے ہیں، جو پانی کی شدید کمی میں بھی خون کی روانی برقرار رکھتے ہیں۔

  7. پانی کے بغیر کئی ہفتے گزار سکتا ہے
    اونٹ کے گردے پانی کو بہت کم ضائع کرتے ہیں، اور جب یہ پانی پیتا ہے تو ایک ہی وقت میں 200 لیٹر تک پی سکتا ہے۔

  8. موٹی اور سخت کھال
    اونٹ کی کھال اسے گرمی سے بچاتی ہے اور سردی میں گرم رکھتی ہے، جو صحرا کے سخت موسم میں ایک نعمت ہے۔

  9. غذائیت سے بھرپور دودھ
    اونٹ کا دودھ وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے، اور اس میں چینی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بھارت سمیت کئی ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔

  10. کھڑے ہو کر سونا
    اگرچہ اونٹ عموماً بیٹھ کر سوتا ہے، مگر خطرات کے وقت یہ کھڑے ہو کر بھی سو سکتا ہے تاکہ شکاریوں سے محفوظ رہے۔


اونٹ اور انسانی زندگی

اونٹ صحرائی علاقوں میں انسانی بقا کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں۔ ان کا کردار نقل و حمل، خوراک، لباس، اور حتیٰ کہ حفاظت تک میں اہم رہا ہے۔ ان کی غیر معمولی جسمانی ساخت اور جینیاتی خصوصیات انہیں شدید گرم و خشک ماحول میں بھی زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔

دنیا کے مختلف خطوں، خصوصاً افریقہ، ایشیا اور عرب کے صحراؤں میں اونٹ نہ صرف سفر کا ذریعہ رہے ہیں بلکہ مقامی معیشت اور ثقافت کا اہم حصہ بھی ہیں۔

دو بڑی گھریلو اقسام درج ذیل ہیں:

  • Camelus dromedarius: ایک کوہان والا عربی اونٹ، جو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عام پایا جاتا ہے۔

  • Camelus bactrianus: دو کوہان والا ایشیائی اونٹ، جو سرد علاقوں میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔

تحقیقات کے مطابق، عربی اونٹ کو تقریباً پانچ سے چھ ہزار سال پہلے عرب علاقوں میں سدھایا گیا تھا، جو آج بھی انسانی خدمت میں مصروف ہے۔

سکوتِ زندگی کی دانائی



زندگی کی راہوں میں اگر دل کو چین اور روح کو قرار درکار ہو، تو کچھ نازک اصولوں کو سینے سے لگا لینا لازم ہے۔

یہ دنیا تماشا ہے۔ جب لوگ آپ کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو محض آپ کا چہرہ ہی نہیں، آپ کے حالات، طرزِ زیست، اور خوابوں کی ادھ کھلی جھروکیاں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ایسے میں دانش یہی ہے کہ اپنے رازوں کو در و دیوار تک محدود رکھا جائے۔ جو باتیں دل میں بند رہیں، وہی دل کو محفوظ رکھتی ہیں۔ راز اگر زبان پر آ جائیں، تو سکون در بدر ہو جاتا ہے۔

مشورے ہر سمت سے آئیں گے، ہر راہ گزر اپنی رائے دے گا۔ مگر اصل دانائی یہ ہے کہ سنا سب جائے، پر مانا صرف وہ جائے جو دل کی زمین پر اترے، اور اہلِ خانہ کی عقل و محبت سے ہم آہنگ ہو۔

ہر رشتہ چاہے کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، ایک حد چاہتا ہے — ایک خاموش لکیر، جو نہ تو بیگانگی ہے نہ ہی سختی، بلکہ ایک لطیف سا فاصلہ، جو عزت کو قائم رکھتا ہے اور دل کو محفوظ۔

انسان کی کمزوریاں تبھی عیاں ہوتی ہیں جب کوئی اس کے بہت قریب آ جائے۔ اس لیے ہر قربت کو محتاط محبت کے ساتھ نبھائیں۔

اور ہاں — جب غصہ آئے، تو زبان کو لگام دیں، کہ ایک لمحے کی تیزی سالوں کا سکون چھین سکتی ہے۔ اور جب خوشی دامن پکڑے، تو جذبوں کو حدود میں رکھیں، کہ بے لگام خوشی بھی اکثر ندامت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔

یہ چند سادہ باتیں ہیں، محض ایک نصیحت کی صورت —
مگر انہی میں وہ دانائی چھپی ہے جو عمر بھر کا چین دے سکتی ہے۔

اج کا کام کل پر مت ڈال



انسان کام موخر کیوں کرتا ہے

1-  کام پسند نہ ہونا

2-  سستی

3- اس کام کا اہل نہ ہونا

4- بیماری

5- کام مکمل کرنے کا حدف مقرر نہ کرنا

6- کام کےلیے بہت زیادہ مہلت کا مل جانا

7۔ وقت کا احساس نہ ہونا۔

کام موخر کرنے کے نقصانات :

1۔ کام بعض اوقات ہوہی نہیں پاتا

2۔ کام معیار کے مطابق نہیں ہوتا

3۔ لوگوں کی نظر میں آدمی گر جاتا ہے

4۔ لوگ اعتماد نہیں کرتے 

5۔ انسان مستقبل میں صرف کوئی بڑی منزل حاصل نہیں کرسکتا۔

ان مسائل کا حل :

1۔ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں۔

2۔ بتکلف کام کو وقت پہ کریں۔

3۔ جب بھی کام کریں مکمل (Confidence)خود اعتمادی سے کریں ۔

4۔ اپنے کام کا ہدف بنالیں کہ میں نے یہ کام اتنے وقت میں کرنا ہے اور اسے کوشش کریں وقت سے قبل ہی مکمل کر لیں اور جلد بازی سے بھی کام نہ لیں کہ یہ بھی ایک نحوست ہے۔


الذو الفقار"



ذوالفقار: ایک تاریخی تلوار کی شان و عظمت

ذوالفقار ایک ایسی تلوار تھی جو اپنی منفرد ساخت اور معنوی عظمت کے باعث اسلامی تاریخ میں خاص مقام رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پھل دو دھاری یا دو شاخہ تھا، جس نے اسے دیگر تمام تلواروں سے ممتاز بنا دیا۔ بعض روایات کے مطابق، یہ تلوار رسولِ اکرم ﷺ کو جنگِ بدر میں غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی، اور بعد ازاں حضرت علیؓ کو عطا کی گئی۔


"لَا فَتٰی إِلَّا عَلِیٌّ، وَلَا سَیْفَ إِلَّا ذُوالفِقَار"

اسلامی تاریخ قربانی، دلیری اور حق کی سربلندی کے واقعات سے لبریز ہے، اور ان تمام واقعات میں حضرت علیؓ کا نام ایک روشن مینار کی مانند چمکتا ہے۔ ان کی حیاتِ مبارکہ عدل، وفا اور ایمان کا استعارہ ہے — اور انہی ہاتھوں میں تھامی ہوئی تلوار، ذوالفقار، ایک ایسا نشانِ عظمت بن گئی جو آج تک عالمِ اسلام کی یادداشت میں محفوظ ہے۔

یہ وہی تلوار ہے جس کا پھل درمیان سے کٹا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے "ذوالفقار" یعنی "ریڑھ دار" یا "دو دھاری" کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل و صورت ہی نہیں بلکہ اس کا پیغام بھی منفرد تھا — حق کے لیے بلند ہو، باطل کے خلاف اٹھے، اور ہمیشہ عدل کی جانب جھکی رہے۔


ذوالفقار: ہتھیار نہیں، انصاف کا ترازو

حضرت علیؓ نے ذوالفقار کو کبھی ذاتی مفاد یا غصے میں نہیں چلایا۔ یہ تلوار ہمیشہ مظلوم کی حمایت میں، باطل کے خلاف، اور حق کی سربلندی کے لیے استعمال ہوئی۔ جنگِ اُحد، خندق، خیبر اور دیگر معرکوں میں جب بھی ذوالفقار بلند ہوئی، اس نے حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی۔

جنگِ خیبر کا واقعہ اس تلوار کی قوت کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ جب قلعہ خیبر کا دروازہ کسی سے نہ کھلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کل میں عَلَم اُس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول جس سے محبت کرتے ہیں۔"

اگلے دن یہ علم حضرت علیؓ کے سپرد کیا گیا، اور ذوالفقار کی ایک ہی ضرب سے وہ مضبوط دروازہ زمین بوس ہو گیا جسے کئی بہادر مل کر بھی ہلا نہ سکے تھے۔ یہ صرف ایک دروازہ نہیں، بلکہ باطل کے قلعے پر کاری ضرب تھی۔


ذوالفقار کی علامتی حیثیت

ذوالفقار صرف ایک تاریخی ہتھیار نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے — عدل کا، وفا کا، اور جرأت کا۔
یہ تلوار ایک روایت ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل بہادری طاقت کے بے جا استعمال میں نہیں، بلکہ اس کے عادلانہ استعمال میں ہے۔ آج بھی مسلم دنیا میں اس کی دو شاخوں والی شکل کو غیر معمولی احترام حاصل ہے، اور بعض ممالک کی عسکری علامتوں میں اسے بہادری کی پہچان کے طور پر اپنایا گیا ہے۔


ذوالفقار: ایک نشانِ وفا

یہ تلوار ایک پیغام ہے:
حق کے لیے ڈٹ جانا، باطل کے سامنے نہ جھکنا، مظلوم کا ساتھ دینا، اور سب سے بڑھ کر رسولِ اکرم ﷺ سے غیر متزلزل وفاداری۔

امدن بڑھاو



 عنوان: آو۔۔ آمدن بڑھاؤ!

انٹرنیٹ نے دنیا کو جیتنے کے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں۔ آج ہر شخص اپنے ہنر کو آن لائن استعمال کر کے اپنی آمدن بڑھا سکتا ہے۔ یہاں کچھ حقیقی زندگی کی مثالیں دی جا رہی ہیں جو آپ کو بھی اپنی آمدن بڑھانے کی ترغیب دیں گی۔

1. فری لانسنگ: فہد خان

فہد خان نے فری لانسنگ پلیٹ فارمز جیسے Upwork پر اپنی گرافک ڈیزائننگ کی خدمات فراہم کیں۔ ان کی ساکھ اور معیار نے انہیں دنیا بھر کے گاہکوں تک پہنچایا، اور وہ اب ماہانہ ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔

2. آن لائن تدریس: سارہ علی

سارہ علی نے Udemy اور Teachable پر فزکس کے کورسز شروع کیے۔ سوشل میڈیا پر اپنی تدریس کی تشہیر کی، اور آج وہ آن لائن تعلیم کے ذریعے بڑی آمدن حاصل کر رہی ہیں۔

3. ای کامرس: امجد علی

امجد علی نے Shopify پر ڈراپ شپنگ کا کاروبار شروع کیا اور فیس بک و انسٹاگرام پر مارکیٹنگ کی۔ آج وہ ای کامرس کے ذریعے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔

4. یوٹیوب: عادل حیدر

عادل حیدر نے یوٹیوب پر کھانے کی ترکیبیں اور فوڈ ریویوز شیئر کیے۔ ان کے ویوز بڑھنے سے انہیں اسپانسرشپ اور اشتہارات سے آمدنی ہونے لگی، اور وہ یوٹیوب کے ذریعے لاکھوں کما رہے ہیں۔

5. ای بک: مریم قریشی

مریم قریشی نے اپنی ای بک Amazon Kindle پر بیچ کر ایک نئی آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا۔ آج وہ اپنی کتابوں سے مستحکم آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔

ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر شخص اپنی مہارت سے آمدن بڑھا سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنا ہنر آن لائن پلیٹ فارمز پر استعمال کریں، تو آپ بھی اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تو دیر مت کیجیے، آج ہی قدم اٹھائیں 



جنت میں حوروں کے بارے میں مختلف اسلامی متون اور روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حوریں جنت میں خوشبو دار، خوبصورت اور خوبصورتی میں بے مثال خواتین ہیں جو جنت کے باشندوں کے لیے انعام کے طور پر اللہ کی جانب سے عطا کی جائیں گی۔ ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں مختلف مواقع پر آیا ہے، اور یہ ان خوش نصیب افراد کے لیے مخصوص ہیں جو دنیا میں اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔

قرآن کی تعلیمات میں حوروں کا ذکر:

قرآن مجید میں حوروں کا ذکر جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔ چند آیات میں حوروں کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے:

  1. خوبصورت اور سفید رنگت: جنت کی حوریں بے حد خوبصورت اور چمکدار ہوں گی۔ ان کا چہرہ بہت صاف اور روشن ہوگا، اور ان کی جلد دودھ کی طرح سفید اور چمکدار ہو گی۔

    اللہ تعالی نے فرمایا:
    "وہ حوریں، جنہیں ہم نے مخصوص طور پر تیار کیا ہے، ایسے جنتی لوگوں کے لیے جو متقی ہیں۔" (الطور 20)

  2. کمزور لیکن مضبوط: حوریں جسمانی طور پر نرم و نازک ہوں گی، لیکن ان کی تخلیق میں کسی قسم کا عیب نہیں ہوگا، اور وہ جنتی مردوں کے لیے انعام کے طور پر ہوں گی۔

  3. خوبصورتی اور محبت: ان حوروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے محبت اور دل سے وابستہ ہوں گی۔

حدیث کی روشنی میں حوروں کی خصوصیات:

حدیث میں بھی حوروں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کی خوبصورتی اور خصوصیات پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔

  1. خوبصورتی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    "جنت میں ایک درخت ہے، اس کے نیچے حوریں ہوں گی جن کی آنکھوں کا رنگ سبز ہوگا، اور ان کا چہرہ چاند سے زیادہ روشن ہوگا۔"

  2. نسبتاً کم عمر: حوریں ہمیشہ جوان اور بے مثال حسین ہوں گی۔ حدیث میں ہے کہ وہ ہمیشہ 33 سال کی عمر کی ہوں گی۔

  3. دولت اور شان: حوروں کی آرائش و زیبائش ایسی ہوگی کہ وہ دنیا کی تمام خوبصورتیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔

جنتی حوروں کی خصوصیات:

  1. کامل صفائی: حوریں پاکیزگی اور خوشبو سے معمور ہوں گی۔ ان کا جسم جنت کے مخصوص خوشبو سے معطر ہوگا۔

  2. محبت میں شدت: جنت میں حوریں اپنے شوہروں کے لیے بے حد محبت رکھیں گی۔ قرآن اور حدیث میں ان کے دلوں کی محبت اور وفاداری کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔

  3. جوڑوں کی تکمیل: حوریں جنتی مردوں کے لیے انعام کی طرح ہوں گی اور ان کا مقصد ان کی خوشی اور سکون کا باعث بننا ہوگا۔

حوروں کے بارے میں مختصر خیال:

حوریں جنت کی مخصوص مخلوق ہیں جو اللہ کے راستے پر چلنے والے افراد کے لیے انعام کے طور پر دی جائیں گی۔ ان کی صفات بے شمار اور بے نظیر ہیں، اور ان کا ذکر قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، حوریں جنت کے رہائشیوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں اور ان کی خوبصورتی، وفاداری اور محبت جنت کے سکون کا حصہ بنیں گی۔ 

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد



حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد

حضرت علیؓ کی ازواج:

تاریخ کی مشہور کتاب "البداية والنهاية" (امام ابن کثیر) کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نو بیویاں تھیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:

  1. حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا (بنتِ رسول اللہ ﷺ)

  2. ام البنین بنت حزام

  3. لیلیٰ بنت مسعود

  4. اسماء بنت عمیس

  5. ام حبیبہ بنت زمعہ (یا ربیعہ)

  6. ام سعید بنت عروہ بن مسعود

  7. محیات بنت امرء القیس

  8. امامہ بنت ابی العاص بن الربیع

  9. خولہ بنت جعفر بن قیس

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد آپؓ نے وقتاً فوقتاً نکاح کیے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی چار ازواج بقیدِ حیات تھیں۔


حضرت علیؓ کے بیٹے (14):

  1. حسن

  2. حسین

  3. محسن (بچپن میں وفات)

  4. محمد الاکبر (المعروف: محمد حنفیہ)

  5. عبداللہ

  6. ابو بکر

  7. عباس الاکبر

  8. عثمان

  9. جعفر

  10. محمد الاصغر

  11. یحییٰ

  12. عون

  13. محمد اوسط

  14. عمر الاکبر


حضرت علیؓ کی بیٹیاں (18):

  1. زینب الکبریٰ

  2. اُم کلثوم الکبریٰ

  3. رقیہ

  4. ام الحسن

  5. رملہ الکبریٰ

  6. ام ہانی

  7. میمونہ

  8. رملہ الصغریٰ

  9. زینب الصغریٰ

  10. ام کلثوم الصغریٰ

  11. فاطمہ

  12. امامہ

  13. خدیجہ

  14. ام الکرم

  15. ام سلمہ

  16. ام جعفر

  17. جمانہ

  18. تقیہ


بیٹیوں کی شادیاں:

اکثر بیٹیوں کی شادیاں بنو عقیل اور بنو عباس میں ہوئیں۔ چار بیٹیوں کی شادیاں ان کے علاوہ خاندانوں میں ہوئیں:

  1. زینب بنت فاطمہ – عبداللہ بن جعفر طیار کے ساتھ

  2. ام کلثوم بنت فاطمہ – خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ

  3. ام الحسن – جعفر بن ہبیرہ کے ساتھ

  4. فاطمہ – سعد بن اسود کے ساتھ


نوٹ: یہ معلومات ان کتابوں سے لی گئی ہیں

  1. البداية والنهاية – امام ابن کثیر

  2. الکامل فی التاریخ – امام ابن اثیر

  3. تاریخ طبری – امام ابن جریر طبری

  4. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب – ابن عبد البر

  5. تاریخ یعقوبی – احمد بن یعقوب یعقوبی

  6. مروج الذہب – مسعودی