مشرقِ وسطیٰ میں جاری خونریز کشمکش، سیاسی تعطل، اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے دنیا کو ایک ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جہاں ہر قدم، ہر بیان، اور ہر سفارتی فیصلہ کئی زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی طرف سے دیا گیا بیان کہ "فرانس آئندہ چند ماہ میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے"، بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔
اس بیان نے دو دھڑوں میں منقسم عالمی بیانیے کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ ایک جانب وہ قوتیں ہیں جو اس اقدام کو فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق، ریاستی حیثیت اور دو ریاستی حل کی طرف مثبت پیش رفت سمجھتی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک، جن کے مطابق یہ اقدام دراصل دہشتگردی کے لیے ایک "انعام" ہو گا، کیونکہ یہ حماس جیسے گروہوں کو حوصلہ دے گا کہ تشدد سے بھی ریاستی پہچان حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیکن کیا واقعی یہ اتنا سادہ اور یک رخی معاملہ ہے؟ کیا کسی مظلوم قوم کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرنا صرف تشدد کی حمایت ہے، یا یہ انصاف کا تقاضا ہو سکتا ہے؟
فرانس نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہو گا کہ وہ اسے "درست" سمجھتے ہیں۔ صدر میکرون کا کہنا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے فرانس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ان عناصر کے خلاف مؤثر آواز بلند کرے جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، جیسے کہ ایران۔
یہ مؤقف بظاہر متوازن نظر آتا ہے۔ ایک جانب فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دیا جا رہا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے وجود اور سلامتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اسرائیل نے اس پر سخت ردِعمل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون سار نے فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے تو وہ درحقیقت حماس جیسے "دہشتگرد" گروہوں کو انعام دے گا۔
اس تنازعے کی گہرائی میں جائیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مسئلہ صرف سرحدوں یا ریاست کی پہچان کا نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور ایک پرامن بقائے باہمی کا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ مگر امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ فرانس کا یہ اعلان اگر عملی جامہ پہن لیتا ہے تو یہ یورپی سطح پر ایک بڑا اقدام ہو گا۔
اس اقدام سے دو ریاستی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی سر اٹھائے گا: کیا مغربی دنیا اپنی پالیسیوں میں واقعی انصاف کو مقدم رکھتی ہے یا وہ اپنے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو؟
آخر میں، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ریاستوں کی پہچان اور ان کے عوام کے حقِ خودارادیت کا تعلق کسی گروہ یا تنظیم کی پالیسیوں سے مکمل طور پر جوڑ دینا بھی خود ناانصافی ہے۔ فلسطینی عوام کی شناخت، ان کا حق اور ان کی آزادی کسی ایک جماعت کے رویے سے مشروط نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔