ہفتہ، 13 دسمبر، 2025
نوبختی خاندان
Pakistan’s Evolving Strategic Role
Pakistan’s Evolving Strategic Role
Pakistan’s international standing has risen markedly amid recent geopolitical shifts. Strategic engagements, diplomatic outreach, and participation in high‑level global forums have underscored Islamabad’s increased relevance in international affairs and attracted sustained attention from major powers. For example, Pakistan’s leadership held multiple high‑profile meetings with U.S. counterparts in 2025, drawing significant global attention to its diplomatic posture. [1]
In the context of 21st‑century great‑power rivalry, the United States, China, and Russia are actively seeking reliable partners to secure influence across the vast Eurasian landmass. Pakistan’s geographic location at the nexus of West, South, and Central Asia positions it as a crucial strategic “pivot” state in this emerging multipolar order. Its role is underscored by its access to key land and maritime routes and by its involvement in regional initiatives that intersect with great‑power strategies. [2][4]
Contrary to reductionist portrayals—such as those propagated in parts of India that dismiss Pakistan as a “failed state”—geopolitical realities reflect a more nuanced picture. Strategic utility, access, and influence often outweigh unidimensional assessments based solely on economic indicators. Contemporary global strategic assessments recognize that Pakistan’s location and relationships confer leverage, particularly as powers recalibrate their priorities in Eurasia’s complex security and economic landscape. [6][9]
Pakistan’s strategic value is multifaceted. Its landmass offers access routes to South and Central Asia and proximity to the Arabian Sea, presenting logistical and security benefits for external powers seeking regional connectivity. Initiatives such as the China‑Pakistan Economic Corridor (CPEC) enhance Pakistan’s role in China’s regional economic architecture, while Islamabad’s diplomatic outreach to the United States and Gulf states has diversified its partnerships. [4][1] This reflects Pakistan’s broader strategy of balancing relationships across multiple power centers rather than aligning solely with one bloc.
Pakistan’s active involvement in regional multilateral frameworks further amplifies its global role. By engaging with institutions that shape security and economic cooperation across Asia, Pakistan participates in evolving regional governance structures that matter to great powers and smaller states alike. [2] This engagement reinforces its identity as a stakeholder capable of contributing to regional stability and connectivity.
In conclusion, Pakistan’s emergence as a geopolitical pivot reflects substantive strategic dynamics rather than peripheral perception. Its geography, diplomatic engagements, and links to regional connectivity initiatives make it indispensable to global powers navigating the complexities of Eurasian competition. While external narratives may lag behind these developments, the international strategic community’s deepening engagement with Pakistan signals acknowledgment of its evolving role in shaping the region’s future.
References
Pakistan’s leadership engagements with U.S. officials and heightened diplomatic attention in 2025.
Pakistan’s strategic geographic significance at the nexus of West, South, and Central Asia. Pakistan’s balancing of relations with major powers as part of global diplomatic strategy.
Analysis of Pakistan’s evolving role in great‑power regional strategies. [turn0search6]
Commentary on Pakistan’s historic geopolitical positioning and its modern implications.
Reports on Pakistan’s global role and defense partnerships highlighting broader recognition.
پاکستان میں استحکام
پاکستان میں استحکام
ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں تقریباً ہر قومی مسئلے کی جڑ ماضی کے کسی نہ کسی زخم میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو، ادارہ جاتی کشمکش، عوامی بداعتمادی یا معاشرے میں پھیلتا ہوا غصہ—ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے کہ معاملات یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچے۔ مسئلہ معلومات کی کمی نہیں، اصل مسئلہ اجتماعی سطح پر سچ سے گریز ہے۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں، مگر تسلیم کرنے کا حوصلہ کم ہی دکھاتے ہیں۔
ہماری قومی روایت یہ رہی ہے کہ مشکل اور غیر آرام دہ سوالات کو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر مؤخر کر دیا جائے، اور کڑوی حقیقت کو حب الوطنی کے خلاف قرار دے دیا جائے۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ سچ بوجھ بنتا چلا گیا اور جھوٹ سہارا۔ حالانکہ قومیں سہارا لے کر نہیں، سچ کو قبول کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں
Truth & Reconciliation Commission
کی ضرورت محض ایک خیال نہیں بلکہ وقت کی ناگزیر پکار بن جاتی ہے۔
یہ کمیشن کسی فرد، جماعت یا ادارے کے خلاف انتقامی فورم نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ سچ کو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنانا، غلطیوں کے اعتراف کا راستہ ہموار کرنا، اور متاثرہ افراد کو سنا جانا ہے۔ جب ریاست خود یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیتی ہے کہ ہاں، یہاں غلطیاں ہوئیں، تب ہی قوم میں یہ اعتماد جنم لیتا ہے کہ آئندہ ان غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔
بدقسمتی سے ہم ہر بحران کا حل نئے نعروں، وقتی صف بندیوں اور عارضی مفاہمتوں میں تلاش کرتے رہے ہیں، جبکہ اصل مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب تک ماضی واضح نہیں ہوگا، حال شکوک میں گھرا رہے گا اور مستقبل خوف سے آزاد نہیں ہو سکے گا۔ ایسے میں یہ کمیشن اسی دھند کو چھانٹنے کا ایک مہذب، پُرامن اور سنجیدہ راستہ فراہم کر سکتا ہے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سچ بولنے سے ریاست کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بند فائلیں اور خاموشیاں نہیں، بلکہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ جب شہری دیکھتے ہیں کہ ان کے دکھ، ان کے سوال اور ان کی شکایات ریاستی سطح پر سنی جا رہی ہیں، تو قانون کی بالادستی ایک محض نعرے کے بجائے عملی حقیقت بننے لگتی ہے۔
یقیناً اس راستے میں مزاحمت ہوگی۔ طاقتور حلقے ہمیشہ سچ سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ سچ ان کے گھڑے ہوئے بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے سچ کو دباکر استحکام حاصل کرنا چاہا، انہیں کبھی حقیقی اور دیرپا امن نصیب نہیں ہوا۔ وقتی خاموشی ممکن ہے، مگر پائیدار استحکام نہیں۔
اگر یہ کمیشن واقعی خودمختار ہو، اس کی تشکیل شفاف ہو، اور اس کی سفارشات محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہیں، تو یہ قدم ملک کو انتقام، نفرت اور بداعتمادی کے دائروں سے نکال سکتا ہے۔ شاید اسی عمل کے ذریعے ہم یہ سیکھ سکیں کہ قوم بننے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے مشکل قدم خود سے سچ بولنا ہوتا ہے۔
ممکن ہے یہی وہ موڑ ہو جہاں زوال کی کہانی تھم جائے اور بہتری کی سمت سفر کا آغاز ہو۔ کیونکہ تاریخ میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنے ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں—اور شاید ہمارے لیے بھی استحکام کی طرف پہلا قدم یہی ہے۔
اتوار، 7 دسمبر، 2025
کارل مارکس — پاکستانی اہلِ فکر کی نظر میں
سماع و وجد
سماع و وجد
مایوسی کا عالمی جال
جمعرات، 27 نومبر، 2025
رسول اللہ کا محسن
بدھ، 26 نومبر، 2025
زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی ابتدا کیسے کی۔
بدھ، 19 نومبر، 2025
چائے چاہیے… کون سی جناب؟
منگل، 18 نومبر، 2025
2: زائن ازم کا داخلی ڈھانچہ
پیر، 17 نومبر، 2025
مکالمہ جو بھلایا نہیں جا سکے گا
زبان اور رویّے
جمعرات، 13 نومبر، 2025
موت نے نگل لیا مگر زندہ رہے گا۔۔۔۔
اتوار، 9 نومبر، 2025
منفی سوچ — ایک بیماری
ہفتہ، 1 نومبر، 2025
یک ادبی اور معقول مکالمہ
مقام: مدینہ، مسجد نبوی ﷺ کے قرب
حضور ﷺ: عقیل! سنو، تمہارے دل میں کچھ سوالات ہیں جو تمہیں بے چین کرتے ہیں۔
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! میں جاننا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے سلسلے میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟
حضور ﷺ: عقیل! سب سے اہم وہ عمل ہے جو دل سے اخلاص کے ساتھ کیا جائے، اور جو لوگوں کے حق میں نفع پہنچائے۔
عقیل بن رضیل: لیکن یا رسول اللہ ﷺ، بعض لوگ بہت عمل کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں حسد اور غرور ہوتا ہے۔ وہ کس قدر کامیاب ہیں؟
حضور ﷺ: جو عمل دل سے خالص نہ ہو، وہ صرف ظاہری شکل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور جو تم کرتے ہو، اس میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو۔"
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! پھر کیا ہر انسان کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے؟
حضور ﷺ: ہاں، عقیل! تمہیں علم اور عقل دونوں سے کام لینا ہوگا۔ دل کی روشنی اور عقل کی رہنمائی کے بغیر انسان گمراہ ہو سکتا ہے۔
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ، اور اگر کوئی انسان گمراہی میں ہو، تو ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
حضور ﷺ: اسے نصیحت دو، مثال پیش کرو، صبر سے کام لو، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق جیو۔ انسان کے دل کو اللہ کی یاد سے روشنی ملتی ہے۔
عقیل بن رضیل: جزاک اللہ خیر، یا رسول اللہ ﷺ۔ آپ کی باتیں میرے دل میں روشنی ڈالتی ہیں۔
حضور ﷺ: یاد رکھو، عقیل! علم اور عمل دونوں کا ساتھ ہو تو انسان کی زندگی میں سکون، فہم اور صحیح راستہ ممکن ہے۔
جمعرات، 30 اکتوبر، 2025
خسارۂ ذات
**خسارۂ ذات**
*دلپزیر احمد جنجوعہ*
زندگی کا ہر دن نفع اور نقصان کے ایک نئے توازن میں گزرتا ہے۔ مگر ایک ایسا نقصان ہے جس کا احساس سب سے کم ہوتا ہے — **خسارۂ ذات**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی اندر سے کچھ کھو دیتا ہے، اپنی روح سے، اپنی سچائی سے، اپنی اصل سے۔
سوچیے، ایک مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے، لیکن شام کو اُسے مزدوری نہ ملے — یہ صرف مالی نقصان نہیں، یہ اُس کی محنت کی بے قدری کا خسارہ ہے۔ ایک ملازم پورا سال دیانت داری سے کام کرے، لیکن سالانہ ترقی کی فہرست میں اس کا نام نہ آئے — یہ اس کی ذات کا خسارہ ہے۔ ایک طالب علم جو راتوں کی نیند قربان کر کے امتحان کی تیاری کرے مگر ناکام ہو جائے، وہ اپنی محنت اور حوصلے کا نقصان جھیلتا ہے۔ ایک سرمایہ کار جو اپنے خوابوں کی رقم کسی کمپنی میں لگا دے اور مارکیٹ میں اس کے حصص گر جائیں — وہ صرف روپے نہیں، اعتماد بھی کھو دیتا ہے۔
لیکن ان سب سے بڑا خسارہ وہ ہے جو **انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے**۔ جب وہ اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ جھوٹ نہیں بولے گا، اور پھر وعدہ توڑ دے — یہ اخلاقی شکست اس کے اندر ایک خلا چھوڑ جاتی ہے۔ یہی خلا رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو چاٹنے لگتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
> **وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**
(سورۃ العصر)
زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی اور صبر کی وصیت کی۔
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی کا پیمانہ بینک بیلنس یا عہدہ نہیں، بلکہ ایمان، عمل، سچائی اور صبر ہیں۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
> “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”
(صحیح بخاری)
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی صحت اور وقت کو کس طرح ضائع کر دیتے ہیں؟ ہم دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لیے تو بہت فکرمند ہوتے ہیں، مگر خود اپنی ذات کے نقصان کے بارے میں کتنے غافل ہیں۔
امام غزالیؒ نے کہا تھا:
> “جو اپنی روح کی اصلاح کے بغیر دنیا کی فلاح چاہتا ہے، وہ سب سے بڑے خسارے میں ہے۔”
اور مولانا رومؒ نے فرمایا:
> “اگر تُو نے اپنی جان کو نہ پہچانا تو سمجھ لے کہ تُو نے سب کچھ کھو دیا۔”
یہ اقوال ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں — کہ اصل خسارہ دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ **خودی کا زوال** ہے۔
دنیا کا خسارہ تو کبھی پورا ہو سکتا ہے، مگر آخرت کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے۔ قرآن میں صاف فرمایا گیا:
> **"إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"**
(الزمر: 15)
بے شک سب سے بڑے خسارے والے وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو گنوا دیا۔
زندگی کی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے سرمائے کو ضائع نہ کرے۔ ایمان، کردار، سچائی اور صبر — یہی وہ اثاثے ہیں جو **خسارۂ ذات** سے بچاتے ہیں۔ ورنہ زمانے کے بازار میں وہ سب کچھ جیت کر بھی انسان خود کو ہار دیتا ہے۔
.png)



