پیر، 15 ستمبر، 2025

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ
فلسطین کی زمین پر اسرائیل کا قیام محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی مہم تھی، جسے "صیہونیت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کی جڑیں مذہب، نسل، سیاست اور استعمار کے گٹھ جوڑ میں پیوست ہیں۔ صیہونی منصوبہ محض ایک یہودی ریاست کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسے پورے معاشرے کو مٹانے کی کوشش ہے جو صدیوں سے فلسطین میں رچ بس چکا تھا — زبان، ثقافت، زمین، تاریخ، مذہب اور شناخت سمیت۔
صیہونی تحریک کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں تھیوڈور ہرزل نے رکھی۔ اس کا ابتدائی ہدف صرف فلسطین میں یہودی وطن کا قیام تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے میں ڈھل گیا۔ برطانیہ کی سرپرستی میں 1917 کا بالفور اعلامیہ اور 1948 میں اسرائیل کا قیام اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر ایک الگ قوم کی بنیاد رکھنے کے لیے، مقامی آبادی کی زمینیں چھینی گئیں، گاؤں جلائے گئے، اور لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا — جسے فلسطینی "نقبہ" یعنی تباہی کہتے ہیں۔
صیہونی نظریے کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جو شناخت کے خلاف ہے۔ فلسطینیوں کی زبان عربی، ان کی تاریخ، ان کے شہروں کے نام، حتیٰ کہ ان کی کھانوں اور ملبوسات کو بھی صیہونی ثقافت میں ضم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ یافا کے سنترے، القدس کی زیتون کی شاخیں، نابلس کی کُنافہ — یہ سب کچھ اب اسرائیلی شناخت میں ضم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔

اسرائیلی نصاب میں فلسطینی وجود کو سرے سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فلسطینی بچوں کی کتابوں سے ان کی تاریخ مٹا دی گئی، دیہات کے نام بدلے گئے، حتیٰ کہ قبرستانوں پر بھی اسرائیلی بستیاں کھڑی کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ ایک نسل کو ان کی جڑوں سے کاٹنے کے لیے کیا گیا تاکہ آنے والے وقت میں فلسطینی وجود ایک "ماضی کی کہانی" بن جائے۔
عالمی خاموشی اور مغربی حمایت

فلسطینی شناخت کے خلاف یہ جنگ صرف اسرائیل نہیں لڑ رہا۔ مغربی میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سیاسی طاقتیں اس بیانیے کو پھیلا رہی ہیں کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں اور اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، اور جو فلسطینی اپنی شناخت بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
فلسطینی مزاحمت: شناخت کا دفاع

اس سب کے باوجود فلسطینی عوام، خواہ وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارے میں، اپنی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کے گیت، ان کی شاعری، ان کا لباس اور ان کی یادگاریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ مٹنے والے نہیں۔ محمود درویش جیسے شاعر، غسان کنفانی جیسے ادیب، اور شیخ جراح کے رہائشی — سب شناخت کی بقاء کی علامت ہیں۔

صیہونی نظریہ، درحقیقت، ایک استعماری ذہنیت کی جدید شکل ہے جس کا ہدف صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ایک قوم کی روح، اس کی شناخت، اس کا ماضی اور اس کا مستقبل چھیننا ہے۔ لیکن یہ نظریہ جتنا بھی طاقتور ہو، وہ ایک زندہ قوم کی مزاحمت اور اس کے عزم کو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔


تاریخ خود کو دہرا رہی ہے



امریکہ کی کمزور قیادت، اسرائیل کی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں — تاریخ خود کو دہرا رہی ہے

دنیا میں طاقت صرف اسلحے یا معیشت کی بنیاد پر قائم نہیں رہتی، بلکہ اصل طاقت سمجھ داری، سیاسی تدبر اور چالاکیوں میں چھپی ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت امریکہ ہے، تو دوسری طرف اسرائیل ہے، جو اپنی چالاکی اور موقع پرستی سے ہمیشہ امریکہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اور ان کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہیں۔

دو ہزار ایک میں جب امریکہ نے افغانستان پر پوری طاقت سے حملہ کیا تو دنیا کو لگا کہ طالبان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ امریکہ کی ایئر پاور، نیٹو اتحادیوں کی شراکت اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود طالبان کو ختم نہ کیا جا سکا۔ طالبان نے اس جنگ کو طول دے کر امریکہ کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا، جہاں سے نکلنا اس کے بس کی بات نہ رہی۔ بیس برس کی جنگ کے بعد امریکہ کو شرمندگی کے ساتھ افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
ویت نام — بیس سال کی جنگ، امریکی ہزیمت

یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا۔ انیس سو پچپن میں امریکہ نے ویت نام میں فوجی مداخلت کی اور سمجھا کہ وہ چند مہینوں میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔ مگر بیس سال تک جاری رہنے والی اس خونی جنگ کا انجام امریکہ کی تاریخی شکست کی صورت میں نکلا۔ انیس سو پچہتر میں جب امریکہ کو ویت نام سے بھاگنا پڑا تو دنیا کو اندازہ ہو گیا کہ صرف ہتھیار طاقت کی ضمانت نہیں ہوتے۔
اسرائیل کی پرانی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے غداری

اسرائیل ہمیشہ چالاک سفارت کاری اور امریکہ کی طاقت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں فلسطینیوں کو اپنی ریاست دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر اسرائیل نے قبضہ کر کے فلسطینی علاقوں پر اپنی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی۔ انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ، گولان کی پہاڑیاں اور مصر کے کئی علاقے ہتھیا لیے۔ فلسطینیوں کو نہ صرف ان کی سرزمین سے محروم کیا گیا بلکہ انہیں بے گھر، مہاجر اور مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ نے ہر بار فلسطینیوں سے وعدہ کیا کہ وہ دو ریاستی حل کا حامی ہے، مگر حقیقت میں امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں اور دو ریاستی حل — سب کاغذوں کی حد تک محدود رہ گئے، جبکہ اسرائیل زمینی حقائق پر اپنی مرضی مسلط کرتا رہا۔
ایران، امریکہ اور اسرائیل — ایک اور سیاسی چال

دو ہزار پچیس میں ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے امریکہ کو اپنے مفاد کے لیے کیسے استعمال کیا۔ پندرہ جون دو ہزار پچیس کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان اہم مذاکرات طے تھے، جنہیں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی آخری امید سمجھا جا رہا تھا۔

مگر اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح چالاکی دکھاتے ہوئے تیرہ جون دو ہزار پچیس کو ایران پر حملہ کر دیا اور تمام سفارتی کوششوں کو روند ڈالا۔
ڈونلڈ ٹرمپ — کمزور قیادت کی علامت

ڈونلڈ ٹرمپ کی کمزور اور پل پل بیانئے نے امریکہ کو مزید بے بس ثابت کیا۔ انیس جون دو ہزار پچیس کو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر کے لیے دو ہفتے انتظار کریں گے۔ مگر اسرائیل نے ان کے اعلان کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پہلے ہی ایران پر حملہ کر دیا۔

مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اکیس جون دو ہزار پچیس کو پاکستان کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا، اور صرف اگلے دن یعنی بائیس جون کو ٹرمپ خود اسرائیل اور ایران کی جنگ میں عملی طور پر کود پڑے۔
نتیجہ — طاقت، کمزوری اور چالاکی کی کہانی

تاریخ بار بار بتاتی ہے کہ فوجی طاقت ہی سب کچھ نہیں۔ امریکہ اپنی عسکری برتری کے باوجود سیاسی میدان میں کمزور نظر آتا ہے۔ افغانستان اور ویت نام کی شکستیں، فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں، اور اسرائیل کی بار بار کی چالاکیاں اس کی واضح مثال ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل، جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے، اپنی چالاک حکمت عملی اور امریکہ کو استعمال کرنے کی مہارت سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی مرضی مسلط کرتا جا رہا ہے۔

فلسطینی عوام آج بھی ان وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل نے بارہا کیے مگر کبھی پورے نہ کیے۔ عالمی طاقتوں کی اس منافقت نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں بے چینی اور بد اعتمادی کو جنم دیا ہے۔


ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

مالی خوشحالی کا راز



چین کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلاب کے بعد قومیں کس طرح مشکلات کا سامنا کر کے ترقی کی راہیں کھول سکتی ہیں۔ 1949 میں جب عوامی جمہوریہ چین وجود میں آیا تو یہ ملک غربت، بھوک اور پسماندگی میں گھرا ہوا تھا۔ آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی جو جاگیردارانہ نظام کے ظلم کا شکار تھے، صنعت نہ ہونے کے برابر تھی اور تعلیم و صحت عام انسان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ ابتدائی برسوں میں کمیونسٹ حکومت نے گریٹ لیپ فارورڈ اور کلچرل ریولوشن جیسے سخت تجربات کیے جن کے نتیجے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد بھوک، غربت اور موت کا شکار ہوئے اور عوام کی حالت مزید بگڑ گئی۔

اصل تبدیلی اُس وقت آئی جب ماؤ کے بعد ڈینگ ژیاوپنگ نے قیادت سنبھالی اور یہ سوچ سامنے رکھی کہ بلی کالی ہو یا سفید، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ چوہے پکڑتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت چین نے سخت کمیونسٹ معیشت کو ترک کر کے مارکیٹ اکنامی کے اصول اپنانے شروع کیے۔ کسانوں کو اپنی پیداوار بیچنے کی آزادی ملی، غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا، نئے صنعتی زون قائم کیے گئے اور تعلیم و سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کی گئی۔

ان اصلاحات کے اثرات عوام کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آئے، شہروں میں روزگار کے مواقع بڑھے اور دیہات میں کسان خوشحال ہوئے۔ صحت اور تعلیم پر سرمایہ کاری نے شرح خواندگی اور اوسط عمر میں اضافہ کیا، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے بہتر مواقع ملے اور بنیادی ڈھانچے میں حیرت انگیز ترقی نے چین کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔

چند دہائیوں کے اندر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر ابھرا اور تقریباً 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے کا کارنامہ سرانجام دیا جو انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آج چین جدید ٹیکنالوجی، خلائی پروگرام، ہائی اسپیڈ ٹرین اور ڈیجیٹل کرنسی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔

تاہم یہ ترقی اپنی قیمت بھی رکھتی ہے۔ چین میں آج بھی سیاسی آزادی محدود ہے، کمیونسٹ پارٹی کا سخت کنٹرول قائم ہے اور اظہارِ رائے پر قدغن موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر صرف معاشی اور سماجی حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انقلاب کے بعد چین کی قیادت نے ایسی لچکدار پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے عوامی زندگی کو حقیقی معنوں میں بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین کو دنیا کی سب سے بڑی کامیاب عوامی ترقی کی کہانی کہا جاتا ہے۔

صفوں میں خلا اور شیطان کی رسائی



صفوں کے خلا اور شیطانی وسوسے
نماز صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل اجتماعی تربیت ہے۔ جب ہم جماعت کے ساتھ صف در صف کھڑے ہوتے ہیں، تو درحقیقت ہم نظم، اتحاد اور ہم آہنگی کی ایک عملی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے نہ صرف جماعت کے ساتھ نماز کی ترغیب دی، بلکہ صفوں کی درستگی، خلا پُر کرنے، اور تراص (قریب قریب کھڑے ہونے) پر خاص تاکید فرمائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا تم صف بندی اس طرح نہیں کرتے جیسے فرشتے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں؟"
صحابہؓ نے عرض کیا: "فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟"
ارشاد ہوا: "وہ پہلی صف مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔"
دراصل، جب ہم صفوں میں خلا چھوڑتے ہیں، فاصلے بناتے ہیں یا بے ترتیبی برتتے ہیں، تو یہ محض جسمانی معاملہ نہیں رہتا بلکہ روحانی خرابی کی علامت بن جاتا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صفوں میں خلا چھوڑنا دراصل شیطان کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ وہ ان خلاؤں سے وسوسوں، غفلت اور بدگمانی کے تیر چلاتا ہے، اور نمازی کے دل کو عبادت کی روح سے کاٹ دیتا ہے۔
یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہے کہ "شیطان خود صف کے خلا میں آ کر نماز پڑھتا ہے"۔ کوئی مستند حدیث ایسی نہیں۔ شیطان نماز نہیں پڑھتا، وہ تو عبادت میں خلل ڈالنے والا ہے۔ وہ انہی خلاؤں کو استعمال کرتا ہے جہاں دل بکھرے ہوتے ہیں، صفیں کمزور ہوتی ہیں اور توجہ بٹی ہوتی ہے۔
صفوں کی ترتیب سنت مؤکدہ ہے، اور جان بوجھ کر صف میں خلا چھوڑنا مکروہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ فقہا—حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی—سب اس بات پر متفق ہیں کہ صفوں میں تراص یعنی قریب قریب کھڑے ہونا ضروری ہے۔ بعض خلفائے راشدین خود صفیں درست کیا کرتے تھے تاکہ نظم و ضبط کی عملی مثال قائم ہو۔
آج ہماری مساجد میں اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ امام تکبیر کہہ چکا ہوتا ہے، اور صفوں میں خلا موجود ہوتا ہے۔ نمازی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں، اور بعض تو یوں کھڑے ہوتے ہیں کہ کندھوں اور ایڑیوں کے درمیان دو دو فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ کیا یہی ہے وہ نظم جس کا سبق اسلام ہمیں دیتا ہے؟
یاد رکھیے، مسجد کا نظم معاشرے کے نظم کی بنیاد ہے۔ جب ہم صفوں کو سیدھا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، تو دلوں میں بھی قربت آتی ہے۔ اس سے نہ صرف نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے، بلکہ وحدتِ امت کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ:
صف میں خلا دیکھیں تو آگے بڑھ کر پُر کریں
کندھے سے کندھا نرم انداز سے ملائیں
بچوں اور بزرگوں کے ساتھ نرمی برتیں
ایہ محض ایک ظاہری ترتیب نہیں، بلکہ روحانی ربط کی علامت ہے۔ اگر ہم مساجد میں صفیں سیدھی کرنے کا شعور پیدا کر لیں، تو شاید ہمارے معاشرتی اور فکری انتشار میں بھی کچھ کمی آ جائے۔
شیطان کو صفوں میں جگہ نہ دیں۔
اپنے دل، اپنی صف، اور اپنی امت کو متحد رکھیں۔
نماز کو صرف فرض نہ سمجھیں، اس کو ایک اجتماعی فریضہ اور روحانی تربیت کا مرکز بنائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رضا، اتحادِ امت، اور روحانی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔

قربت اور دوری



پاکستان میں مذہبیت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اگر ہم اسے دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ تقابلی تناظر میں دیکھیں تو یہ تضادات اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چار لاکھ سے زائد مساجد اور تیس سے پینتیس ہزار مدارس کی موجودگی کو دین سے قربت کا انعام سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرہ اخلاقی و سماجی انحطاط کا شکار ہے۔

مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں مذہبی علامات بھی موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ریاستی سطح پر قوانین کی سختی اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سڑکوں پر نظم و ضبط، لین کا احترام اور سماجی انصاف کی فراہمی عام زندگی میں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں کے معاشرتی ڈھانچے نے مذہبیت کو صرف رسومات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی سطح پر قانون اور اخلاقیات کو مضبوطی سے قائم کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں مذہبی رسومات کی کثرت تو نظر آتی ہے لیکن ان کے اثرات روزمرہ زندگی میں نہیں جھلکتے۔

ترکی کی مثال بھی یہاں قابلِ ذکر ہے۔ وہاں جدیدیت اور مذہبیت کے امتزاج نے ایک ایسا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جہاں مذہب کو انفرادی زندگی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر ریاستی ادارے بنیادی طور پر قانون اور انصاف کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ اس ماڈل نے وہاں کرپشن اور سماجی بے نظمی کو ایک حد تک محدود رکھا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں تضادات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی ادارے اور مظاہر تو بڑھتے جا رہے ہیں مگر ساحل جیسی تنظیموں کی رپورٹیں سالانہ ہزاروں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے لا رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور کرپشن کے اعداد و شمار عالمی سطح پر پاکستان کو ایک پسماندہ تصویر میں پیش کرتے ہیں۔

یہ سوال مزید شدت اختیار کر لیتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کے قریب ہیں یا دین سے دور؟ اگر قربت صرف مساجد اور مدارس کی تعداد سے ناپی جائے تو شاید ہم دنیا کے سب سے مذہبی معاشروں میں شامل ہوں۔ لیکن اگر معیار قرآن و سنت کے مطابق اعمال، اخلاق، عدل اور انصاف ہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے اعمال ہمیں دین سے قریب نہیں بلکہ دین سے دور کر رہے ہیں۔

یوں بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصل دین داری کا معیار ظاہری مذہبیت نہیں بلکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کا عملی نفاذ ہے۔ جب تک یہ پہلو ہمارے معاشرے میں مضبوط نہیں ہوتے، ہم صرف دعووں اور رسومات کی سطح پر مذہبیت کے قائل رہیں گے مگر حقیقی دین سے دوری ہمارا مقدر بنی رہے گی۔

پاکستان — وسائل کی سرزمین، امکانات کی دنیا



پاکستان دنیا کے اُن خوش نصیب ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل اور قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگرچہ رقبے کے لحاظ سے یہ روس سے دس گنا چھوٹا ہے، لیکن اس کا نہری نظام روس کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی زرخیز زمین اور محنتی عوام کی بدولت دنیا کی زرعی اور معدنی پیداوار میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان مختلف اجناس اور پھلوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مٹر کی پیداوار میں دوسرا، خوبانی، کپاس اور گنے میں چوتھا، دودھ اور پیاز میں پانچواں، کھجور میں چھٹا، آم اور گندم میں ساتواں، چاول میں آٹھواں اور کینو و مالٹے میں دسویں نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معدنی شعبوں میں بھی پاکستان کسی سے کم نہیں۔ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے، تانبے میں ساتویں اور ایشیا میں گیس کے ذخائر میں چھٹے نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ دفاعی اعتبار سے یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔

پاکستان کے برقی آلات، پنکھے اور سینٹری مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں پاکستانی انجینئرز اور مزدوروں کی مہارت کو مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی قیمتی زرِمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی کاٹیج انڈسٹری گھریلو معیشت کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ کڑھائی، دستکاری، قالین بافی اور گھریلو مصنوعات نہ صرف خواتین کو بااختیار بنا رہی ہیں بلکہ یہ اشیا دنیا بھر میں برآمد ہو کر پاکستان کی شناخت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان ہیں جو کل آبادی کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ اگر یہ نوجوان بے روزگار اور مایوسی کا شکار ہوں تو یہ ملک پر بوجھ ہیں، لیکن اگر ان کی توانائی کو صحیح سمت دی جائے تو یہی نوجوان پاکستان کی ترقی کا سب سے بڑا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، صنعت، زراعت اور کاروبار میں ان کی شمولیت ملک کو خوشحال بنانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔

ترقی کا راستہ شکایات اور تنقید سے نہیں بلکہ محنت، درست سمت کے انتخاب اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا فرمان "کام، کام اور کام" دراصل ایک نعرہ نہیں بلکہ کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم اپنی توانائیاں مثبت جدوجہد میں لگائیں، اپنی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں استعمال کریں اور قومی وسائل کو منصفانہ طور پر بروئے کار لائیں تو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان اپنی زمین کے وسائل اور افرادی قوت دونوں کے اعتبار سے دنیا کا ایک باصلاحیت ملک ہے۔ اصل دولت اس کے لوگ ہیں۔ جب یہ قوم تنقید سے آگے بڑھ کر محنت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنائے گی تو پاکستان نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنائے گا بلکہ دنیا میں ایک باوقار اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرے گا۔

ملتانی عامل سے انوکھی ملاقات



جنات اور ان کی طویل العمری صدیوں سے انسانی تجسس کا حصہ رہی ہے۔ قرآنِ کریم میں جنات کی تخلیق اور ان کی پوشیدہ زندگی کا ذکر تو ہے، مگر ان کی عمروں کی حد بندی کے بارے میں کوئی صریح بات نہیں ملتی۔ البتہ عوامی قصوں، صوفی حلقوں اور بزرگوں کی محفلوں میں جنات کی ہزاروں سالہ عمروں کے قصے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
انہی حکایات میں ابلیس کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں زندہ تھا، کئی انبیائے کرام کی صحبت میں شامل رہا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس نے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ البتہ ان باتوں کی کوئی شرعی یا تاریخی حیثیت نہیں، یہ محض صوفیانہ روایات اور عوامی قصے ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ قصہ چند دن پہلے ہمارے ساتھ بھی پیش آیا، جو کسی حکایت سے کم نہ تھا۔
راولپنڈی صدر کا علاقہ ویسے جدید طرز کی عمارتوں اور ماڈرن دکانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اسی صدر میں ایک صاف ستھرا، جدید طرز کا کافی شاپ نما چائے خانہ بھی ہے، جس کا ماحول کسی بڑے شہر کی کافی شاپ جیسا تھا۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں، سفید اور گہرے سرمئی رنگ کی جدید فرنیچر، ایل ای ڈی لائٹس کی مدھم روشنی، میز پر رکھے خوبصورت مینو کارڈز، اور پیش خدمت عملہ انتہائی مہذب اور یونیفارم میں ملبوس۔ یہاں بیٹھ کر چائے پینا کسی پنج ستارہ ہوٹل کی کیفے میں بیٹھنے کا احساس دلاتا ہے۔
میں اور میرا بچپن کا دوست ناضر اس ہوٹل میں اکثر گپ شپ کے لیے بیٹھتے ہیں۔ اس دن بھی ہم حسبِ معمول چائے اور بسکٹ منگوا کر ملکی سیاست سے لے کر راولپنڈی کی پرانی کہانیوں تک ہر موضوع پر بات کر رہے تھے کہ اچانک دروازے سے ایک شخص داخل ہوا۔
لمبا قد، دبلا پتلا جسم، صاف ستھرا لباس، کندھے پر سفید چادر، ہاتھ میں سیاہ رنگ کی نفیس تسبیح، اور آنکھوں میں عجیب سا ٹھہراؤ اور گہرا اعتماد۔ انداز ایسا جیسے کوئی پڑھا لکھا، سلجھا ہوا صوفی ہو۔
اس نے خاموشی سے بھرے ہوئے ہال کا جاہزہ لیا۔ ہماری میز پر دو کرسیاں خالی تھیں ۔ ناصر کو سلام کر کے اور بیٹھنے کی اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر ناضر نے خود ہی پہل کی، "جناب، آپ کا تعلق بھی ملتان سے ہے؟ لہجہ کچھ ایسا لگ رہا ہے۔"
وہ مسکرایا، تسبیح کے دانے آہستہ آہستہ گھماتے ہوئے بولا، "جی، میرا تعلق ملتان سے ہے۔ بس راولپنڈی کے ٹنچ بھاٹہ جا رہا ہوں۔ کسی پر جن کا سایہ ہے، علاج کرنا ہے۔"
ناضر کے چہرے پر دلچسپی بڑھ گئی۔ میں بھی چونکا، کیونکہ ٹنچ بھاٹہ کی ایسی کہانیاں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔
بات چیت آگے بڑھی تو ملتانی عامل نے بڑے سکون اور اعتماد سے کہا، "میرے قبضے میں ایک ایسا جن ہے جس کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔"
ناضر نے جھٹ سے سوال داغ دیا، "دو ہزار سال؟ واہ بھئی! اتنی عمر میں تو اس نے آدھی دنیا گھوم لی ہو گی۔ بتاؤ، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے یا نہیں؟"
ملتانی عامل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "اس جن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور سنا تھا، مگر اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی ملاقات ہوئی تھی۔ بعد میں ایمان لایا۔ اب میرا مددگار ہے، جہاں بلاؤں، آ جاتا ہے۔"
ہم دونوں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ ماحول میں ایک عجب سنجیدگی چھا گئی تھی۔ سچ جھوٹ اپنی جگہ، مگر ملتانی عامل کے انداز میں اتنا وقار اور ٹھہراؤ تھا کہ بات کو مذاق میں اڑا دینا مشکل لگ رہا تھا۔
چائے ختم ہوئی، ملتانی عامل اٹھا، شائستگی سے سلام کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر کی ہوا کے ساتھ اس کی سفید چادر لہرا رہی تھی۔ ناضر نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا، "یار، بندہ سچا تھا یا جھوٹا، مگر کہانی زبردست ہے!"
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "پنڈی صدر میں نہ بیٹھو تو زندگی کی رنگینیوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اب جن کا علاج بھی ٹنچ بھاٹہ میں ہوتا ہے۔"
چائے کی خالی پیالیوں کے درمیان، ملتانی عامل کی باتیں اور جنات کی طویل العمری کی حکایتیں، سب ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، کون جانے؟ بس یہی سمجھ آیا کہ قصہ ہو یا حقیقت، عقیدے اور کہانی کے درمیان فرق رکھنا ہی دانشمندی ہے۔

خاموش خطرہ




خاموش خطرہ:

بھارتی برادری کو دنیا کی سب سے بڑی اور محنتی کمیونٹی مانا جاتا ہے، جس نے خلیجی ممالک کی تعمیر، ٹیکنالوجی، تجارت اور سکیورٹی جیسے شعبوں میں دہائیوں تک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور عمان کی مزدوری منڈی ہو یا متحدہ عرب امارات اور قطر کی ٹیکنالوجی و مالیاتی صنعت، بھارتی کارکن ہمیشہ ترقی اور استحکام کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس تعاون کے ساتھ ایک پوشیدہ خطرہ بھی جنم لے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کمیونٹی سیاسی یا نظریاتی طور پر استعمال ہو جائے تو کیا یہ میزبان معاشروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب اب زیادہ تر اثبات میں دیا جا رہا ہے۔

بھارت کی موجودہ حکومت اور اس کی نظریاتی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو شدت پسندی کی شکل میں دنیا بھر میں پھیلا رہی ہیں۔ اس کا اثر خلیج میں مقیم بھارتی برادری پر بھی پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسلام مخالف اور اسرائیل نواز بیانیہ پھیلانا اسی رجحان کا مظہر ہے۔ 2020 میں متحدہ عرب امارات نے ایسے کئی بھارتی شہری ملک بدر کیے جنہوں نے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کیا تھا۔ کچھ بھارتی ڈاکٹر اور انجینئر بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ رویہ نہ صرف خلیجی معاشروں کی مذہبی حساسیت کے خلاف ہے بلکہ فلسطین کے مسئلے پر خلیج کے تاریخی موقف کو بھی متاثر کرنے کی کوشش ہے۔

خطرہ صرف فرقہ وارانہ مواد تک محدود نہیں۔ خلیج میں بھارتی کمیونٹی کے کچھ افراد حساس اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، جیسے بندرگاہوں، سکیورٹی یا آئی ٹی کے شعبے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ افراد معلومات نئی دہلی یا اس کے اتحادیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایران نے اس حوالے سے پہلے ہی شکوک ظاہر کیے تھے، اور خلیجی ریاستوں میں بھی ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ براہِ راست میزبان ملک کی خودمختاری اور داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھارتی برادری کے بعض افراد کا کردار بھی تشویشناک ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران دبئی اور دوحہ میں مقیم بھارتی صارفین نے پرو اسرائیل بیانیہ پھیلایا جس پر عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس طرح کے اقدامات خلیجی ممالک کی متوازن خارجہ پالیسی اور داخلی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ فلسطین کے حق میں کھڑے ممالک جیسے کویت اور قطر زیادہ دباؤ میں آ سکتے ہیں، ایران اور اسرائیل کی کشیدگی میں بھارتی کارکن مشکوک یا ہدف بن سکتے ہیں، اور اگر خلیجی ممالک نے اسلام مخالف رویوں کے خلاف سخت قوانین بنائے تو سب سے زیادہ اثر بھارتی کمیونٹی پر پڑے گا۔

بھارتی برادری نے ہمیشہ خلیجی ممالک کے لیے ترقی اور تنوع کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ لیکن اگر ہندوتوا نظریہ اور خفیہ سرگرمیاں بے قابو ہو گئیں تو یہی برادری استحکام کے بجائے عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارتی کارکنوں کی محنت سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر سیاسی، فرقہ وارانہ اور جاسوسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگائیں۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ تارکینِ وطن کی سفارت کاری کو انتہا ۔پسندی کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا

جمعہ، 12 ستمبر، 2025

اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ




اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ابتدا ہی سے تنازعات اور غیر یقینی کیفیت کا شکار رہی ہے۔ ان کی غیر روایتی سیاست، جارحانہ بیانات اور غیر متوازن فیصلوں نے نہ صرف امریکی داخلی سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی بے چینی پیدا کی۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے حالات نے اس سوال کو مزید اہم بنا دیا ہے کہ آیا ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت مکمل کر سکیں گے یا نہیں۔ اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائیاں، قطر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر نظرثانی کا عندیہ، اور قطر میں عرب و اسلامی ممالک کی متوقع کانفرنس وہ عوامل ہیں جو براہِ راست امریکی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کی صدارت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی صحافیوں کی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت اس موقع پر خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ مرحوم ارشاد حقانی نے ایک کالم میں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کے فوراً بعد، یہ پیشن گوئی کی تھی کہ "زرداری ایک دن پاکستان کے صدر بن سکتے ہیں"۔ وقت نے ان کی اس بات کو درست ثابت کیا اور یوں ان کی صحافتی گہرائی ہمیشہ یادگار بن گئی۔ اسی طرح موجودہ دور میں صحافی اور وی لاگر رضوان رضی عرف رضی دادا نے بھی ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد اپنے وی لاگ میں کہا تھا کہ ٹرمپ اپنی صدارت کی مدت مکمل نہیں کر سکیں گے۔ آج جب عالمی سیاست نئے موڑ پر کھڑی ہے تو یہ تجزیات ایک بار پھر معنی خیز دکھائی دیتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا، قانونی ماہرین اور بعض نجومی بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھی اور امریکہ کے اتحادی اس سے لاتعلق یا مخالفانہ رویہ اختیار کر گئے تو ٹرمپ کو شدید دباؤ کا سامنا ہوگا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر صدر کے فیصلے امریکی قومی مفاد کے منافی ثابت ہوئے یا کانگریس نے ان پر اعتماد کھو دیا تو مواخذے
کی کارروائی بعید از قیاس نہیں۔ ان کے خیال میں ٹرمپ کی غیر متوازن اور جارحانہ پالیسیوں نے ان کے خلاف شواہد جمع کرنا پہلے سے زیادہ آسان بنا دیا ہے، جو مستقبل میں ان کی صدارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کا تسلسل محض داخلی سیاست کا محتاج نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ صورتحال، عالمی طاقتوں کے فیصلے اور قانونی چیلنجز پر بھی انحصار کرتا ہے۔ صحافیوں کی بصیرت، نجومیوں کی پیشن گوئیاں اور قانونی ماہرین کی رائے مل کر ایک ہی نقشہ پیش کرتی ہیں:
مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حالات واشنگٹن کے اوول آفس میں موجود اقتدارکی کرسی کا چوتھا پایہ ہیں، اور یہ پایہ کاٹنے والی آری اُن ظالم و بے رحم صیہونیت کے پجاریوں کے ہاتھ میں ہے جن کے نزدیک نہ اخلاق کی کوئی قیمت ہے، نہ انسانیت کا کوئی وقار، اور نہ ہی مذہب کی کوئی حرمت۔

بے قابو اثدھا



اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری کے بجائے طاقت اور عسکری کارروائی کو ترجیح دیتا ہے۔ حالیہ واقعے میں، جب مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن اور حماس کے زیرِ حراست یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت جاری تھی، اسرائیلی حملے نے نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو خاطر میں نہیں لاتا۔
قطر جیسا ملک، جو امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرا کے عالمی سطح پر ایک معتبر ثالث کے طور پر ابھرا تھا، اس حملے سے براہِ راست متاثر ہوا۔ یہ کارروائی نہ صرف قطر بلکہ پورے خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے لیے باعثِ تشویش بنی۔ اس واقعے کو سفارتی روایات اور امن قائم کرنے کی کوششوں پر ایک براہِ راست حملہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسرائیل نے اپنی سرحدوں سے باہر متعدد مواقع پر فلسطینی رہنماؤں اور اُن کے حامیوں کو نشانہ بنایا۔ 1972میں فلسطینی ادیب اور رہنما غسان کنعانی کو بیروت میں شیہد کیا - 1979 میں بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامہ کو
میں بیعت میں شہید کر دیا گیا -1988 میں تیونس میں ابو جہاد (خلیل الوزیر)، جو یاسر عرفات کے قریبی ساتھی تھے، اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں تیونس میں مارے گئے۔ 1992 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ عباس موسوی کو بیروت میں شہید کیا - 1995 میں مالٹا میں اسلامی جہاد کے بانی فتحی شقاقی کو شہید کیا۔ 2010 میں حماس کے کمانڈر محمود المبحوح کو دوبئی میں شہید کیا - 2023 میں حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کو اسرائیل نے بیروت میں مار دیا
اس کے علاوہ متعدد مواقع پر ایران اور شام میں بھی فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں اور کارکنان کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا۔
یہ تمام واقعات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف مقبوضہ علاقوں بلکہ دنیا بھر میں مخالفین کو ختم کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ تازہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ اسرائیل امن عمل اور مذاکرات کو اپنی عسکری حکمت عملی سے الگ نہیں دیکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ قطر سمیت جی سی سی ممالک میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی یہ روش عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے اختیارات کے لیے ایک چیلنج ہے۔ وہ کسی قانون یا ضابطے کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ قطر پر حالیہ حملہ دراصل اس ڈھٹائی کا اظہار ہے کہ فلسطینوں کی سر زمین ٓپر قابض اسرائیل فلسطینیوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنا سکتا ہے۔

بدھ، 10 ستمبر، 2025

انقلاب — زندہ باد



انقلاب — زندہ باد
انقلاب ہمیشہ انسانی تاریخ کا وہ موڑ رہا ہے جو تہذیبوں کو بدل دیتا ہے۔ جب حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں، جب بھوک اور ناانصافی کا بوجھ حد سے بڑھ جائے، اور جب عوام کو اپنی آواز سنانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ یہی بغاوت جب اجتماعی شعور کے ساتھ ابھرتی ہے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب سے اصل فائدہ عوام کو ہوتا ہے یا نئے حکمرانوں کو؟

1789  فرانسیسی انقلاب دنیا کے بڑے سیاسی واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ عوام بھوک، مہنگائی اور شاہی فضول خرچی سے تنگ تھے۔ انہوں نے قلعہ باستیل پر دھاوا بولا، جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، اور شاہی خاندان کے اقتدار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ انقلاب "آزادی، مساوات اور بھائی چارے" کے نعرے سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانیاں عوام نے دیں اور فائدہ بورژوا طبقے  نے اٹھایا۔ یوں ایک ظالم طبقہ ختم ہوا لیکن طاقت اور وسائل ایک نئے طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔

1949 چینی انقلاب بھی کسانوں اور مزدوروں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ جاگیرداری نظام اور غیر ملکی قبضے نے عوام کو غلام بنا رکھا تھا۔ ماؤ زے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی نے اس بغاوت کو قیادت دی اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا خاتمہ کیا۔ ابتدا میں زمینوں کی تقسیم، تعلیم اور صحت کی سہولتوں نے عوام کو ریلیف دیا، مگر جلد ہی اقتدار مکمل طور پر پارٹی اور نئی بیوروکریسی کے ہاتھ میں آگیا۔ عوام کی قربانیوں کا ثمر انہیں سیاسی آزادی کی صورت میں نہ مل سکا، بلکہ سخت ریاستی کنٹرول ان کا مقدر بنا۔

آج کے دور میں انقلاب کا تصور سوشل میڈیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز عوامی ذہن سازی کے سب سے بڑے ہتھیار بن چکے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید انقلابات اکثر ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے پلان کیے جاتے ہیں۔
ذہن سازی کے لیے بیرونی ایجنسیاں اور تھنک ٹینک سرگرم رہتے ہیں۔
مخصوص گروہوں کو وسائل اور سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔
پھر جلاؤ گھیراؤ، خونریزی اور خانہ جنگی کے ذریعے ایک ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

چند سال قبل "عرب بہار" کے نام سے تحریکیں مشرقِ وسطیٰ میں چلیں۔ تیونس، مصر، یمن، شام اور لیبیا اس کے بڑے مراکز تھے۔ سب سے بڑا اور ڈرامائی انقلاب لیبیا میں آیا، جہاں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ قذافی کو ایک "ڈکٹیٹر" کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس کے دور میں:
بچہ پیدا ہوتا تو حکومت اس کا وظیفہ مقرر کرتی تھی۔
صحت اور تعلیم بالکل مفت تھیں۔
شادی، مکان اور کاروبار کے لیے حکومتی امداد دستیاب تھی۔
لیکن قذافی کے جانے کے بعد لیبیا میں نہ صرف خانہ جنگی نے جنم لیا بلکہ ملک ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ آج لیبیا کا کوئی بھی شہری بتا سکتا ہے کہ "انقلاب" کے نام پر اسے کیا ملا؟ تباہ شدہ ادارے، برباد معیشت اور گرتا ہوا سماجی ڈھانچہ۔

اسی طرز کے انقلابات کی تازہ جھلکیاں نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں سڑکوں پر عوامی ہجوم تو موجود ہوتا ہے مگر اصل کھیل کہیں اور کھیلا جاتا ہے۔ نتیجہ وہاں بھی وہی نکلتا ہے جو عرب دنیا میں نکلا — عوام کا خون، ٹوٹے ادارے اور کمزور معیشت۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلاب عوام کے نام پر آتا ہے، عوام ہی قربانیاں دیتے ہیں، لیکن اقتدار اور فائدہ ہمیشہ کسی اور کے حصے میں جاتا ہے۔
پرانے انقلابات (فرانس اور چین) عوامی طاقت پر کھڑے تھے، مگر آخرکار نئے حکمرانوں کو فائدہ ہوا۔
جدید انقلابات زیادہ تر بیرونی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں، اور ان کا انجام خانہ جنگی اور معاشی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
عوام ہر دور میں ایک ہی سوال کرتے ہیں:
"انقلاب کے نام پر ہمیں کیا ملا؟"
اور اکثر جواب یہی ملتا ہے:
"لاشیں، بربادی، تقسیم اور نئے حکمرانوں کی طاقت۔"



منگل، 9 ستمبر، 2025

خوف زدہ حکمران



خو زدہ حکمران

انیس سو چوراسی کا واقعہ ہے۔ ایک مذہبی فرقے کے عمائدین اپنے گاؤں سے راولپنڈی میں اپنے بڑے فرقہ باز مولانا کے پاس پہنچے۔ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ مخالف فرقے کے لوگ ان کی نو تعمیر شدہ مسجد پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے ان کی بات تحمل سے سنی اور پوچھا: “تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
آنے والوں نے کہا کہ ہمیں عملی مدد درکار ہے۔ ہمارے فرقے کے لوگ تعداد میں کم ہیں اور دوسرے زیادہ ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ بھیجے جائیں جو ہماری مسجد میں درسِ قرآن منعقد کریں اور ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، کیونکہ گاؤں کے لوگ اجتماع روکنے کی کوشش کریں گے اور جھگڑا ہونا لازمی ہے۔
مولانا نے ان کی بات سنی اور کہا: “ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر جھگڑا ہوا تو ہمارے لوگ تمہارے دفاع میں شامل ہوں گے اور ان کی تعداد تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلا مقابلہ تم لوگ خود کرو گے۔ میرے آدمی تمہاری مدد کے لیے ہوں گے، مگر لڑائی کا بوجھ مقامی لوگوں کو ہی اٹھانا ہوگا۔”

یہ بات صرف ایک فرقے کی کہانی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا المیہ ہے۔ آج بھی اصل سوال یہی ہے: پہلا قدم کون اٹھائے گا؟
جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا دفاع خود ایرانیوں نے کیا۔ ان کے دوست اور اتحادی بھی مدد کو آئے، مگر عملی مزاحمت کا آغاز خود ایران نے کیا تھا۔ ایران نے محض بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی جواب دیا۔ اس کے برعکس لبنان اور شام کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں عملی جواب نہ دینے کی وجہ سے تباہی کے سائے گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔
فلسطینی تو نہتے ہیں، لیکن دنیا کی سیاست بدل کر رکھ دی۔ وجہ صرف ایک ہے — وہ کھڑے ہیں، اپنے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ قطر کے سامنے بھی یہی سوال ہے کہ کیا صرف زبانی احتجاج کرنا ہے یا عملی قدم بھی اٹھانا ہے۔ قطر کا رقبہ، وسائل اور اسلحہ بہرحال فلسطینیوں سے بہتر ہے۔ لیکن مشکل فیصلہ یہی ہے کہ کیا قطر کھڑا ہوگا یا نہیں؟

تاریخ گواہ ہے کہ برا وقت آئے تو دوست ساتھ آ ہی جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ سب سے پہلے مقامی لوگ کھڑے ہوں۔ آج مسلمان حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والے ہیں یا خدا سے نہ ڈرنے والے  ظالموں سے خوفزدہ ہیں۔

فیصلہ بہرحال قطر نے خود کرنا ہے۔ لیکن کیا فیصلہ ہوگا؟ قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں 

فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین


فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین

فرانسیسی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔ وزیرِاعظم کے اچانک استعفے نے صدر ایمانوئل میکرون کو نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کروا دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب میکرون نے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے—ایک ایسا اعلان جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں زلزلے کے مترادف ہے۔

میکرون کے نزدیک دو ریاستی حل ہی اسرائیل-فلسطین تنازع کا واحد راستہ ہے۔ وہ اسے صرف انصاف نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے سلامتی کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت، یہ اعلان یورپ کی خودمختاری کو اجاگر کرتا ہے، گویا فرانس یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کا محض پیروکار نہیں رہا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس فیصلے کو سختی سے رد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی ’’ساتھ رہنے نہیں بلکہ جگہ لینے‘‘ کے خواہاں ہیں۔ اس مؤقف کے پیچھے اسرائیلی لابی کا وہ دباؤ ہے جو یورپ اور امریکہ دونوں میں موجود ہے اور ہر اُس ملک کے خلاف استعمال ہوتا ہے جو فلسطینی ریاست کی حمایت کرے۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں زبانی طور پر دو ریاستی حل کے حامی ہیں، مگر عملی سیاست میں اسرائیل ہی کو فوقیت دیتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے جبکہ برطانیہ واشنگٹن کے ساتھ قدم ملانے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کا اعلان ایک جرات مندانہ قدم ہے جس نے یورپی صفوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے برسوں سے واضح کر رکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات ممکن نہیں۔ یہ موقف جزوی طور پر کامیاب ہوا ہے، کیونکہ اب اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، حتمی کامیابی ابھی باقی ہے کیونکہ اسرائیل کی ضد اور مغربی طاقتوں کی مصلحت پسندی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

وزیرِاعظم کے استعفے نے میکرون کے لیے اندرونی مشکلات ضرور پیدا کر دی ہیں۔ اپوزیشن اور اسرائیل نواز حلقے اس موقع کو استعمال کر کے میکرون کے فیصلے کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری جانب، میکرون اپنی خارجہ پالیسی کو سیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی فیصلہ ہے بلکہ انہیں یورپ کا قائد اور عالمی سیاست کا فعال کھلاڑی بھی بنا سکتا ہے۔

اگر میکرون ڈٹ گئے تو فرانس یورپ میں ایک نئی قیادت کا کردار ادا کرے گا اور مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر میکرون دباؤ کے آگے جھک گئے تو یہ فیصلہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا اور اسرائیل کو سفارتی برتری حاصل ہو گی۔
اگر یورپ متحد ہو گیا تو امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ بڑھے گا اور اسرائیل عالمی سطح پر مزید تنہا ہو سکتا ہے۔
اگر عرب دنیا نے سخت مؤقف اپنایا تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے اور مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

یہ مرحلہ صرف فرانس کے لیے نہیں بلکہ عالمی سیاست کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اب دنیا دیکھے گی کہ میکرون داخلی دباؤ اور خارجی مزاحمت کے باوجود تاریخ کا درست فیصلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔


جمعرات، 4 ستمبر، 2025

ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر




ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر

کچھ روز پہلے ایک عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین سے سوال پوچھا گیا:
“کیا مدر ٹریسا جنت میں جائے گی؟”

سوال سننے میں سادہ ہے مگر دراصل یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جو ہمیں اصل مقصد سے بھٹکا دیتی ہے۔ جنت اور دوزخ کا فیصلہ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ صرف ربِ کائنات کا اختیار ہے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں؟
بغداد کی الم ناک یاد

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بغداد پر تاتاری لشکر حملہ آور تھے، اس وقت شہر کے بڑے بڑے علماء اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ کوے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ دشمن شہر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا، مگر اہلِ علم لاحاصل بحثوں میں الجھے رہے۔ انجام یہ نکلا کہ دنیا کی عظیم لائبریریاں راکھ ہو گئیں اور علم و تہذیب کے مینار زمین بوس ہو گئے۔
اسلام آباد کا المیہ

صدیوں بعد آج ہم بھی ویسی ہی اندھی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کبھی گدھے کے گوشت کے حلال و حرام پر مناظرے ہوتے ہیں، اور کبھی مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی کے جنتی یا دوزخی ہونے پر۔ یہ بحث بغداد کے علماء سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ وہاں بات ایک پرندے تک محدود تھی، یہاں ہم مرے ہوئے انسانوں کے انجام پر فیصلہ صادر کر رہے ہیں۔
اندر کے دشمن

ہم نے اپنی ہی تاریخ کے ہیروز کو گروہوں میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک ہستی کو اپنا پرچم بناتا ہے، تو کوئی دوسری کو اپنا ہتھیار۔ یوں تاریخ سبق کے بجائے ہتھیار میں بدل گئی۔

بغداد کا دشمن باہر سے آیا تھا، ہمارا دشمن ہمارے اندر ہے۔ یہ دشمن ہمیں مذہب کے نام پر بانٹتا ہے، سیاست کے نام پر لڑاتا ہے، تاریخ کے نام پر گمراہ کرتا ہے اور معیشت کے نام پر تقسیم کرتا ہے۔
اصل پیغام

یاد رکھیں، ہر وہ وعظ، تقریر یا تحریر جو دل میں دوسرے انسان کے لیے نفرت پیدا کرے، وہ گمراہ کن ہے۔ دین کا اصل پیغام محبت، عدل اور ہمدردی ہے۔

مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جنت میں جائیں گے یا نہیں، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ دونوں کی زندگی انسانیت کی خدمت، محبت اور قربانی کی علامت تھی—نفرت اور تقسیم کی نہیں۔
سبق آج کے لیے

انسان نے ابتدا سے محنت، علم اور ہمدردی کے ذریعے ترقی کی ہے۔ تہذیبیں تعمیر اسی وقت ہوتی ہیں جب عقل اور محبت کو رہنما بنایا جائے۔ اور تہذیبیں ٹوٹتی اسی وقت ہیں جب قومیں لاحاصل بحثوں، نفرت اور تفرقے میں کھو جائیں۔

اے انسان! دوسروں کی جنت یا دوزخ پربحث کرنے کے بجائے اپنی جنت کے لیے عمل کر۔
کیونکہ روزِ محشر تیرے ساتھ تیرے اپنے اعمال ہوں گے، نہ مدر ٹریسا، نہ ایدھی، نہ کوئی دوسرا۔

منگل، 26 اگست، 2025

خوابیدہ لوگوں خواب




تاریخ میں کچھ واقعات اور خواب ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک عوامی شعور میں گردش کرتے رہتے ہیں، اور ان کی تعبیرات وقت کے ساتھ کئی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ "شہنشاہ جارج اور تاج" سے متعلق ہے، جو روحانیت، سیاست، اور استعمار کی تاریخ کے سنگم پر کھڑا ہے۔
یہ واقعہ برصغیر میں برطانوی حکومت کے ابتدائی دور میں مشہور ہوا۔ خواب کے مطابق ایک بزرگ کو روحانی طور پر دکھایا گیا کہ شہنشاہ جارج پنجم 
 جس نے 1911ء میں دہلی دربار میں شرکت کر کے ہندوستان کا باقاعدہ تاج پہنا، اس کے سر سے تاج اتار دیا گیا۔ تاہم، جب وہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا تو وہاں سے حکم ہوا کہ "تاج واپس اس کے سر پر رکھ دو۔" اس خواب کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ انگریز راج کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے وقتی طور پر "روحانی اجازت" حاصل ہو چکی ہے۔
یہ خواب سب سے زیادہ حضرت مولانا غلام محمد سیالویؒ (1293ھ/1876ء – 1383ھ/1963ء) سے منسوب کیا جاتا ہے، جو کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑوی (1837–1937ء) کے ہم عصر بزرگ تھے۔ بعض روایتوں میں اس خواب کو سید احمد شہید بریلویؒ یا دیگر اولیاء کے حوالے سے بھی نقل کیا گیا ہے، مگر مقبولیت اور استناد کے لحاظ سے یہ روایت سب سے زیادہ سیال شریف کے بزرگوں سے منسوب ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ خواب نہ صرف عوامی محافل اور مذہبی بیانیے میں بیان کیا جاتا رہا ہے بلکہ کئی خطباء، صوفی شخصیات، اور غیر رسمی دینی حلقے اس واقعے کو انگریز حکومت کی "روحانی حیثیت" کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ تاہم، اس روایت کی کوئی متفق علیہ سند یا مضبوط حوالہ روایتی کتبِ سیرت، تاریخ یا تصوف میں دستیاب نہیں۔ معروف محقق مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس واقعے کو عوامی روایت قرار دیتے ہیں اور اس پر تائید یا تردید سے گریز کرتے ہیں، البتہ اسے کسی شرعی دلیل یا عقیدہ سازی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ انگریز راج نے برصغیر میں اپنی حکومت کو صرف فوجی قوت سے نہیں، بلکہ مذہبی و روحانی تائید حاصل کر کے بھی مستحکم کیا۔ ایسے خواب اور روایات، جن میں انگریز حکومت کو خدائی تقدیر کا حصہ دکھایا جائے، دراصل نوآبادیاتی ذہنیت کی سادہ لوح عوام پر ایک نفسیاتی برتری قائم کرنے کی کوشش کا حصہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔
کچھ دانشوروں اور محققین کا ماننا ہے کہ ایسے خوابوں کا فروغ استعمار کے اس بیانیے کا حصہ تھا جس کے تحت وہ خود کو "خیر کا نمائندہ" اور "مہذب حاکم" ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف انگریزوں نے علما کو دبایا، وہیں کچھ خانقاہی حلقوں کے ذریعے روحانی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل







پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل
اگر آپ تیسری دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو جیسے پیدائش کے ساتھ ہی کانوں میں ایک پیغام ڈال دیا جاتا ہے: “تمہارے ملک کے پاس کچھ نہیں، تمہارے تعلیمی ادارے پسماندہ ہیں، صحت کا نظام ناکام ہے، کھیل کا میدان ہارنے والوں سے بھرا ہوا ہے، اور عملی زندگی میں کامیابی صرف خواب ہے۔” یہ بیانیہ دہائیوں سے تیسری دنیا کی نسلوں کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔
لیکن یہ پوری حقیقت نہیں، بلکہ آدھا سچ ہے۔یہی تیسری دنیا ہے جہاں عبدالسلام جیسے سائنسدان پیدا ہوئے جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ یہیں سے عبد الستار ایدھی جیسا انسان دوست اٹھا جس نے دنیا کو خدمتِ خلق کا نیا معیار دیا۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نکلے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔
کھیلوں کی دنیا میں دیکھیں تو پاکستان نے ہاکی کے میدان میں عالمی چیمپئن شپ جیتی، جہانگیر خان اور جان شیر خان نے دنیا بھر کو اسکواش میں پیچھے چھوڑا۔ کرکٹ میں عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا۔ آج بھی بابر اعظم اپنی بیٹنگ سے دنیا کو حیران کر رہا ہے اور ارشد ندیم جیسا ایتھلیٹ اولمپکس تک پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے۔ بھارت سے سچن ٹنڈولکر اور افغانستان سے راشد خان جیسے کھلاڑی اسی خطے کی محنت اور قابلیت کی علامت ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں ملالہ یوسفزئی نے امن کا نوبل انعام حاصل کرکے دنیا کو دکھایا کہ مشکلات کے باوجود علم کی شمع بجھائی نہیں جا سکتی۔ مریم محمّد جیسے پاکستانی نوجوان سائنسدان ناسا کے پروجیکٹس میں کام کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارتی نژاد ستیہ نڈیلا اور سندر پچائی دنیا کی بڑی کمپنیوں مائیکروسافٹ اور گوگل کے سربراہ ہیں۔
اس سب کے باوجود، میڈیا اور تعلیمی نصاب میں ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ ایک کرپٹ سیاستدان کی کہانی تو دن رات سنائی جاتی ہے لیکن وہ استاد، سائنسدان، کھلاڑی یا محقق جو دنیا میں پہچان بنا رہے ہیں، ان پر کتابیں کم لکھی جاتی ہیں اور میڈیا پر وہ ہیرو کم ہی تسلیم کیے جاتے ہیں۔
یہی اصل پروپیگنڈہ ہے: کامیابیوں کو دبانا اور ناکامیوں کو بڑھا کر پیش کرنا۔ نئی نسل کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ہاری ہوئی ٹیم کا حصہ ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر میں کامیابی کے پرچم لہرائے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کو اپنی شناخت بنائیں۔ نصاب، میڈیا اور گفتگو میں اپنی کامیاب مثالیں پیش کریں تاکہ نوجوان نسل یہ سمجھے کہ وہ ہارنے والوں کے وارث نہیں بلکہ کامیابی کی روایت رکھنے والوں کے جانشین ہیں۔
کیونکہ میدان زیست میں کامیابی محنت اور جذبے سے جیتی جاتی ہے، نہ کہ اسکور بورڈ پر پہلے سے درج اعداد و شمار سے۔

بدھ، 20 اگست، 2025

عمل کے کرشمے



عمل  کے کرشمے


معاشرے میں خاندانی زندگی ہمیشہ سکون، محبت اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن آج یہ زندگی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی۔ جدید دور کی دوڑ میں جہاں سہولتیں بڑھ رہی ہیں، وہیں شک، وہم اور بے اعتمادی نے خاندان کے اندر اعتماد کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی گھروں کی خوشیاں ایک لمحے کے وہم یا ایک غلط فیصلے کی نذر ہو جاتی ہیں۔

ہمارے محلے میں کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک شادی شدہ جوڑا، جن میں مرد کی عمر تقریباً 55  برس کے قریب تھی، اپنے بڑے مکان میں رہتا تھا۔ گھر میں دو کتے، کچھ بلیاں اور پرندے تھے۔ ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا کہ کیوں نہ ہم کوئی بچہ گود لے لیں۔ چند ماہ بعد یہ خواہش حقیقت بنی اور ان کے گھر ایک بچہ آ گیا۔

بچے نے ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ کتے اور بلیاں گھر سے نکل گئے۔ ماں باپ کی محبت کا مرکز یہ بچہ بن گیا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ بچہ محلے کا ایک صاف ستھرا، ذہین اور باادب نوجوان بن کر ابھرا۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ لے پالک ہے، لیکن اس حقیقت نے اس کے وقار اور کردار کو کم نہیں کیا۔
میٹرک پاس کرنے پر اس  گھر میں جشن منایا گیا، مگر اسی دوران اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے سب کے سامنے بیٹے کو نصیحت کی
"بیٹا! تعلیم جاری رکھنا اور میرے خوابوں کو پورا کرنا۔"
لڑکے نے یہ وصیت اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس نے ماسٹرز، پھر ایم فل اور بالآخر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اسی دوران والد اس کی منگنی کر چکا تھا۔ شادی کے بعد بیوی ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی اور شوہر کو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری مل گئی۔ باپ اپنے انتقال سے پہلے اپنا مکان اور جائیداد اسی بیٹے کے نام کر گیا۔
 اس نے اپنے باپ کا مکان ایک ریسٹ ہاؤس میں بدل دیا جہاں یتیم اور بے سہارا بچے رہنے لگے۔ آج اس گھر میں 14 بچے ہیں جنہیں وہ اور اس کی بیوی روزانہ وقت دیتے ہیں۔ جیسے کبھی اس کے والدین نے اسے اپنی گود میں پروان چڑھایا تھا، ویسے ہی اب وہ ان بچوں کو سنبھال رہا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے — وہ سوچ جو فرد، خاندان اور معاشرے کو سکون اور آسودگی دیتی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھئے۔ ایک اور گھر کی کہانی ہے۔ ایک عورت اور اس کا شوہر، جنہوں نے 
IVF
 کے ذریعے والدین بننے کا فیصلہ کیا۔ عورت چاہتی تھی کہ گھر اعتماد اور محبت پر بسے لیکن شوہر کے دل میں وہم نے جگہ بنا لی۔ اس نے چھپ کر بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا کیونکہ اسے لگا بچے اس پر نہیں گئے۔ بیوی جانتی تھی کہ اگر نتیجہ منفی آیا تو گھر ٹوٹ سکتا ہے، دادا دادی کا پیار ختم ہو سکتا ہے اور بچے ساری زندگی کے لیے زخم کھا لیں گے۔
یہ ہے شک اور بدگمانی کا انجام، جو خاندان کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں صاف حکم ہے:
(اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔)
[سورۃ الحجرات: 12]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔) [صحیح بخاری و مسلم]
یہ دونوں واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ ایک طرف ایثار اور اعتماد ہے، جو ایک یتیم بچے کو خاندان، عزت اور معاشرے کے لیے روشنی بنا دیتا ہے۔ دوسری طرف شک اور بدگمانی ہے، جو خوشیوں بھرے گھر کو لمحوں میں اجاڑ سکتی ہے۔
ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہم کون سا راستہ اپنائیں گے۔ وہ راستہ جو محبت، اعتماد اور قربانی پر مبنی ہے یا وہ جس میں شک، وہم اور خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کا زعم چھپا ہے۔


منگل، 19 اگست، 2025

کلاؤڈ برسٹ — فطری آفت یا خدائی تنبیہ



کلاؤڈ برسٹ — فطری آفت یا خدائی تنبیہ؟
گزشتہ کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ پر ایک لفظ بار بار سننے کو مل رہا ہے: کلاؤڈ برسٹ۔ کہیں اسلام آباد کی وادیوں میں اچانک پانی کا ریلا اُمڈ آیا، کہیں کشمیر کے پہاڑی سلسلوں میں چند ہی لمحوں میں بستیاں ڈوب گئیں، کبھی بھارتی لیہہ (لداخ) میں سینکڑوں جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کلاؤڈ برسٹ ہے کیا؟ کیا یہ محض ایک سائنسی مظہر ہے یا دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ و پکڑ؟
ماہرینِ موسمیات کے مطابق کلاؤڈ برسٹ اُس وقت ہوتا ہے جب بادل ایک محدود علاقے پر ٹھہر جاتے ہیں اور نہایت کم وقت میں غیر معمولی بارش برساتے ہیں۔ اگر ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو جائے تو اسے کلاؤڈ برسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی یا وادی والے علاقوں میں ہوتا ہے، کیونکہ وہاں بادل زمین کے قریب پھنس جاتے ہیں اور برسنے لگتے ہیں۔
موسمیاتی ماہرین اس کی وجہ مون سون سسٹم، ہوا کے بہاؤ میں رکاوٹ، پہاڑوں سے ٹکراؤ اور گلوبل وارمنگ کو قرار دیتے ہیں۔آج کے دور میں کلائمیٹ چینج نے ایسے واقعات کی شدت اور تعداد کو بڑھا دیا ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر فطری آفت میں صرف سائنس نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید سورۃ سبا کی آیت (15-17) میں قوم سبا کے ذکر میں ہمیں یہی کلاؤڈ برسٹ دکھائی دیتا ہے:
ترجمہ: "پھر انھوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیجا اور ان کے دو باغوں کے بدلے دو اور باغ دیے جو بد مزہ پھلوں اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔" یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی خوشحالی کو سیلاب کے ذریعے بدحالی میں بدل دیا۔ یہ سیل العرم دراصل کلاؤڈ برسٹ ہی تھا، جو پشتے اور بند توڑ گیا اور پورے علاقے کو ویران کر دیا۔
دنیا میں کلاؤڈ برسٹ کے کئی بڑے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں:
لیہہ (لداخ)، بھارت 2010: کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں چند گھنٹوں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو گئے۔
کشمیر 2021: وادی نیلم اور آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کے بعد درجنوں مکانات تباہ اور سینکڑوں افراد متاثر ہوئے۔
اسلام آباد، پاکستان 2021: سیکٹر ای الیون میں چند گھنٹوں کی بارش نے اچانک ندی نالوں کو ابلتے دریا میں بدل دیا، گاڑیاں اور مکانات پانی میں بہہ گئے۔
نئی دہلی 2023: شہر کے مختلف علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ نے شہری نظام مفلوج کر دیا اور ریکارڈ بارش نے گلیاں ندیوں میں بدل دیں۔
یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ کلاؤڈ برسٹ صرف ایک علاقائی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ جب بادل دیکھتے یا تیز آندھی آتی تو گھبرا جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے سبب پوچھا تو فرمایا: "مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ اللہ کی پکڑ نہ ہو۔" آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ»
(صحیح بخاری) یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فطرت کی ہر تبدیلی اللہ کی طرف سے ہے، اس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔
کلاؤڈ برسٹ ہمیں دو باتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے:
عملی اقدامات: بہتر منصوبہ بندی، ڈیمز، نکاسی آب اور ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے اس کے نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں۔
روحانی اقدامات: یہ اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ بھی ہے۔ ہمیں توبہ، دعا اور نبی ﷺ کی سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔
کلاؤڈ برسٹ صرف ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک خدائی اشارہ ہے۔ قوم سبا کی تباہی سے لے کر آج کے دور کے حادثات تک، پیغام ایک ہی ہے:
اللہ کی طرف رجوع کرو، ورنہ خوشحالی لمحوں میں بدحالی میں بدل سکتی ہے۔

پیر، 18 اگست، 2025

ٹوٹا پھوٹا مسلمان

ٹوٹا پھوٹا مسلمان
دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمان ایک ہی اللہ، ایک ہی رسول ﷺ اور ایک ہی قرآن کو ماننے والے ہیں۔ لیکن عملی زندگی اور سماجی شناخت میں امتِ مسلمہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ تقسیم کبھی سیاسی اسباب کے باعث ہوئی اور کبھی فقہی و نظریاتی اختلافات کی وجہ سے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایمان میں اتحاد رکھنے کے باوجود امت کا عملی چہرہ تقسیم در تقسیم دکھائی دیتا ہے۔
قرآنِ کریم نے امتِ مسلمہ کو بارہا یاد دلایا ہے کہ اصل پہچان صرف "مسلمان" ہونا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: "اللہ نے تمہارا نام پہلے بھی مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی یہی نام رکھا ہے۔"(الحج: 78)
مزید فرمایا:ترجمہ: "اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔"(آل عمران: 103)
یہ ہدایات بالکل واضح کرتی ہیں کہ فرقہ واریت اللہ کو پسند نہیں، بلکہ اتحاد اور "مسلمان" کی یکساں شناخت ہی اصل ہے۔
امت کی تقسیم ایک حقیقت ہے ، اس وقت تحقیقات کے مطابق
اہلِ سنت: 85 تا 90 فیصد
اہلِ تشیع: 10 تا 15 فیصد
اباضیہ: ایک فیصد سے بھی کم
دیگر چھوٹے گروہ (اسماعیلی، بوهری، وغیرہ): 1 فیصد
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت دو بڑے فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔
آج ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے اور مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان۔ ان میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں: "ہم نہ سنی ہیں، نہ شیعہ، نہ کسی اور فرقے کے پیروکار، ہم صرف مسلمان ہیں۔"
Pew Research Center کی رپورٹس کے مطابق تقریباً 20 تا 25 فیصد مسلمان خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، جبکہ 70 تا 75 فیصد کسی خاص فرقے سے وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرقہ واریت کے بارے میں واضح خبردار کیا تھا:
"میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں ہوگا اور باقی دوزخ میں۔"(سنن ابوداؤد، ترمذی)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ محض فرقوں کی کثرت کامیابی کی ضمانت نہیں، بلکہ اصل کامیابی اس جماعت کے ساتھ جڑنے میں ہے جو فرقہ پرست نہ ہو،
سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی سوچ امت کو دوبارہ "ایک" کر پائے گی؟ کیا واقعی مسلمان فرقہ واریت کو پیچھے چھوڑ کر صرف قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ سکیں گے؟یہ فیصلہ وقت کرے گا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ قرآن کا حکم، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور امت کی بقا اسی میں ہے کہ ہم "مسلمان" کہلائیں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوں۔

بدھ، 13 اگست، 2025

پاکستان ہمیشہ زندہ باد



پاکستان ہمیشہ زندہ باد 

2025 کا سال پاکستان کے لیے ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز بن چکا ہے۔ وہ دور جس کا خواب کئی دہائیوں سے ہر پاکستانی کے دل میں تھا — سیاسی شفافیت، مذہبی ہم آہنگی، معاشی ترقی اور عالمی سطح پر وقار کی بحالی۔ حالات و واقعات اور صاحبانِ علم کی پیشن گوئیوں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اب کی بار سمت درست ہے اور رفتار بھی حوصلہ افزا۔

حکومت کی Vision 2025 اور Uraan Pakistan جیسے منصوبے اس نئے دور کی بنیاد ہیں۔ شرح خواندگی بڑھانے سے لے کر خواتین کو بااختیار بنانے تک، توانائی کے شعبے کی بہتری سے برآمدات میں اضافے تک، یہ خاکے محض کاغذی نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ڈھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسی دوران، مذہبی قیادت نے بھی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں مسلم علماء نے اتفاق کیا کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم ایک شرعی و سماجی ضرورت ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان میں مذہب اور ترقی کو ہم آہنگ کرنے کی علامت ہے۔

سماجی میدان میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم "اخوات" جیسے لوگ غریب اور نادار طبقے کو مالی خودمختاری دے کر ایک باوقار زندگی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ قومی وقار میں اضافہ کرتا ہے۔

علم نجوم کی دنیا بھی اس بار پاکستان کے لیے اچھی خبریں سناتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 2025 کے بعد ترقی کا ایک سلسلہ شروع ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور سیاسی قیادت میں بھی تصادم کے بجائے مصالحت کا امکان بڑھ جائے گا۔

سب سے اہم تبدیلی ہماری نوجوان نسل میں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ نسل جو کبھی مایوسی اور منفی تنقید میں گم تھی، اب آہستہ آہستہ ذاتی محاسبے، تعلیم، اور مہارت کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل معیشت، فری لانسنگ، اور اسکل ڈویلپمنٹ کے مواقع کو وہ کھلے دل سے اپنا رہی ہے۔

یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی، مذہبی، عسکری اور عدالتی قیادت میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی، پاکستان کا عالمی امیج نکھرے گا، اور پاکستانی پاسپورٹ کو وہ عزت ملے گی جس کا یہ حقدار ہے۔

یوں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک روشن دور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا سفر شاید آسان نہ ہو، لیکن سمت درست ہے۔ اور جب سمت درست ہو تو وقت ہی سب سے بڑا دوست بن جاتا ہے۔

دلپزیر احمد جنجوعہ