ہفتہ، 21 جون، 2025

اسرائیل کے دوست




اسرائیل کے دوست

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

دنیا میں قوموں کے تعلقات صرف معاہدات، مفادات یا وقتی ضروریات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بعض رشتے فطری ہوتے ہیں — نظریاتی ہم آہنگی، تاریخی تجربات، تہذیبی مماثلت، اور اسٹریٹجک ضروریات کے باعث بعض ممالک ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حدود مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں، لیکن اس کے قدرتی اتحادی عموماً مغربی یا غیر عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں کا مفصل تجزیہ کریں گے۔
 امریکہ: اسٹریٹجک رفیق یا روحانی بھائی؟
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اقتصادی اور سائنسی تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔ اس تعلق کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
یہودی لابی کا اثر: امریکہ میں یہودی برادری کا اثرورسوخ بہت گہرا ہے۔
 AIPAC
 جیسی تنظیمیں امریکی پالیسی پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔
مسیحی صہیونی تحریک: ایک بڑی امریکی عیسائی آبادی عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طاقت مسیحا کی آمد کے لیے لازمی ہے۔
اسٹریٹجک ضرورت: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے اسرائیل ایک مستقل عسکری اڈہ ہے، جہاں سے وہ علاقائی طاقتوں ایران، شام، اور حتیٰ کہ ترکی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
بھارت: نظریاتی ہم آہنگی اور اسلام دشمنی کا اشتراک
اگرچہ بھارت نے 1992 میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تعلقات حیرت انگیز حد تک گہرے ہو چکے ہیں۔
اسلام مخالف بیانیہ: بھارت اور اسرائیل دونوں نے مذہبی اقلیتوں — خصوصاً مسلمانوں — کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں یہ رشتہ مزید مستحکم ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد: دونوں ممالک خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
دفاعی تجارت: اسرائیل، بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرون، سائبر ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز فراہم کرتا ہے۔
 یونان اور قبرص: اسرائیل کے یورپی پڑوسی
مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی قرب میں واقع یونان اور قبرص اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
ترکی مخالف اتحاد: ترکی کے ساتھ ان تینوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا فائدہ باہمی اشتراک میں ہو رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے گیس نکالنے اور یورپ تک پہنچانے کے لیے مشترکہ پائپ لائن منصوبے بنائے ہیں۔
بحری تحفظ: یہ ممالک مل کر سمندری تحفظ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور نیول مشقیں کرتے ہیں۔
 افریقی ممالک: نظریاتی نہیں، لیکن فائدے مند اتحادی
متعدد افریقی ممالک جیسے کینیا، یوگنڈا، ایتھوپیا، اور روانڈا اسرائیل کے ساتھ دفاعی، زرعی اور تکنیکی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ بنیادی وجوہات شامل ہیں:
ترقیاتی منصوبے: اسرائیل ان ممالک کو ٹیکنالوجی، زراعت، اور پانی کی صفائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ووٹنگ سپورٹ: یہ ممالک اسرائیل کو عالمی فورمز پر ووٹ کے ذریعے فائدہ دیتے ہیں۔
 خلیجی ممالک (نئے اتحادی)
ابراہام معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایران مخالف بیانیہ: ان ممالک کے لیے اسرائیل ایک طاقتور حلیف ہے جو ایران کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
معاشی مفادات: ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت ان ممالک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
امریکی دباو: امریکہ نے ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرائے۔

اسرائیل کے " اتحادی" صرف وہ ممالک نہیں جو اس سے سفارتی یا عسکری تعلقات رکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو
نظریاتی طور پر اسلام دشمنی میں شریک ہیں،
ایران مخالف بیانیے کے حامل ہیں،
امریکہ کی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہیں،
یا پھر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسرائیل آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ عالمی جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ



اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ

اتحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

اردن ایک منفرد عرب ریاست ہے۔ اس کی تاریخ خلافت عثمانیہ کے خاتمے، عرب بغاوت، اور برطانیہ کی مہربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔ حکومت ہاشمی خاندان کے پاس ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے، مگر حرمین کا اختیار ان کے مخالف آلِ سعود کے پاس ہے۔ اردن ایک طرف امریکہ کی مالی چھتری تلے سانس لیتا ہے، دوسری طرف اسرائیل سے امن معاہدہ رکھتا ہے، اور تیسری طرف فلسطینی عوام کے ساتھ دلی ہمدردی بھی جتاتا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ممکن کیسے ہے؟ اس کا جواب صرف "مشرقِ وسطیٰ کی سیاست" میں پوشیدہ ہے، جو اصولوں سے نہیں، مجبوریوں سے لکھی جاتی ہے۔
ہاشمیوں کی بادشاہت: برطانوی تحفہ
اردن کا قیام 1921 میں ہوا جب برطانیہ نے شریف حسین کے بیٹے عبداللہ اول کو "امیرِ شرقِ اردن" مقرر کیا۔ شریف حسین وہی شخص تھا جس نے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت پر اکسایا، اس وعدے پر کہ برطانیہ انہیں آزاد عرب ریاست دے گا۔ مگر برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہ کیا اور صرف ایک چھوٹا سا صحرا — موجودہ اردن — انعام میں دیا۔ باقی عرب سرزمین، فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لی۔ یوں ہاشمی قیادت خلافت تو نہ پا سکی، مگر ایک چھوٹی بادشاہت ضرور مل گئی۔
آلِ سعود اور ہاشمی کشمکش
     انیس سو چوبیس 
 میں آلِ سعود نے شریف حسین کو مکہ سے بے دخل کیا، اور یوں حرمین پر ہاشمیوں کی تاریخی نگرانی ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج تک ہاشمی خاندان کی سیاسی اور روحانی نفسیات پر اثرانداز ہے۔ آج اگرچہ اردن اور سعودی عرب بظاہر اتحادی ہیں، مگر دلوں میں تاریخی چبھن باقی ہے۔ اردن اپنے آپ کو مسجد اقصیٰ کا محافظ سمجھتا ہے، اور آل سعود کو خادمینِ حرمین کا دعویدار۔ دونوں کی مذہبی حیثیت کا ٹکراؤ ہمیشہ ایک خاموش کشمکش کی صورت میں موجود ہے۔
امریکہ کی چھتری
اردن کی معیشت، دفاع اور سفارت کاری کی ڈوریں امریکہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہر سال اردن کو امریکہ سے اربوں ڈالرز کی امداد ملتی ہے۔ امریکہ اردن کو ایک "معتدل، پرو-ویسٹ، اور قابلِ اعتماد" عرب اتحادی سمجھتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف کسی سخت رویے میں شریک نہیں ہوتا۔ اردن میں کئی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جو شام، عراق اور ایران پر نظر رکھنے کے کام آتے ہیں۔
اسرائیل سے امن، مگر کس قیمت پر؟
این سو چورانوے
 میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بدلے اردن کو پانی، تجارتی مواقع، اور امریکی حمایت ملی۔ اسرائیل نے اردن کو مسجد اقصیٰ کے اسلامی انتظام کا غیر رسمی حق بھی تسلیم کیا۔ مگر یہ معاہدہ اردنی عوام کو کبھی ہضم نہ ہوا۔ اردن کی اکثریت فلسطینی نژاد ہے، جن کے دل میں اسرائیل کے لیے شدید نفرت ہے۔ ہر بار جب اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہے، اردن کی سڑکوں پر عوام سُلگ اٹھتی ہے، مگر حکومت صرف "اظہارِ تشویش" تک محدود رہتی ہے۔
گیس اور پانی: خاموش مجبوریاں
اردن اسرائیل سے پانی خریدتا ہے۔ ساتھ ہی 2016 میں اردن نے اسرائیل سے گیس خریدنے کا اربوں ڈالر کا معاہدہ بھی کیا، جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔ مگر اردن جیسی خشک اور مالی لحاظ سے کمزور ریاست کے لیے ان معاہدوں سے نکلنا آسان نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی بقا اور اخلاقی موقف آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔
اسرائیل کی سخت گیر حکومت اور اردن کا اضطراب
نیتن یاہو کی موجودہ شدت پسند حکومت نے مسجد اقصیٰ پر مسلسل دھاوے بولے، بستیوں کی تعمیر تیز کی، اور فلسطینیوں پر ظلم بڑھایا۔ اردن نے ہر موقع پر سخت بیانات دیے، مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ وجہ واضح ہے — امن معاہدہ ختم کرنے کا مطلب امریکی امداد کا خاتمہ، اندرونی استحکام کا خطرہ، اور اسرائیل سے براہِ راست محاذ آرائی۔
عوام اور حکومت: دو الگ دنیائیں
اردنی حکومت اسرائیل سے امن چاہتی ہے، مگر عوام کے لیے اسرائیل ایک ظالم، غاصب اور مذہب دشمن ریاست ہے۔ اردن کا یہ تضاد — جہاں حکومت اور عوام دو الگ بیانیوں پر زندہ ہیں — مشرق وسطیٰ کی سیاست کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔

اردن کا اسرائیل سے رشتہ دو جہتوں پر مبنی ہے — مجبوری اور مفاد۔ حکومت کے لیے امن، پانی، گیس، اور امریکی حمایت ضروری ہے۔ عوام کے لیے فلسطین، مسجد اقصیٰ، اور اخلاقی انصاف اہم ہے۔ ہاشمی بادشاہت کو اپنے وجود کے لیے مغرب سے جڑنا پڑا، مگر اپنی عوام سے جڑے رہنے کے لیے فلسطینیوں کے درد کو بھی محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یوں اردن ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جو دونوں کناروں کو چھونے کی کوشش کر رہی ہے، مگر کسی ایک کنارے پر اترنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
یہ وہ ریاست ہے جہاں سیاست مجبوری ہے، مذہب شناخت ہے، اور امن معاہدہ ایک ناپسندیدہ ضرورت۔


اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟






عنوان: اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مصر، جو فراعنہ کی سرزمین بھی ہے، اسلام کا قلعہ بھی اور عرب دنیا کی عسکری قوت بھی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہمیشہ مرکزیت رکھتا رہا ہے۔ مگر اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات عرب دنیا میں سب سے پہلے "امن" پر منتج ہوئے — ایک ایسا امن جو کاغذ پر لکھا گیا، مگر دلوں میں کبھی اُترا نہیں۔
اسرائیل اور مصر کی کہانی صرف دو ریاستوں کی سفارتی تاریخ نہیں، بلکہ یہ عرب قومی جذبات، فلسطینی کاز، امریکی اثر، اور عوامی نفرت کے درمیان پھنسی ہوئی ایک ایسی داستان ہے جسے سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کئی دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔
 مصر کی تاریخ: عظمت، نوآبادیات اور قوم پرستی
 قدیم عظمت
مصر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے۔ فراعنہ، اہرام، نیل، اور علم و حکمت کی تاریخ اسے منفرد بناتی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مصر نے خلافتوں اور سلطنتوں کا دور دیکھا، یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے زیراثر آ گیا۔
برطانوی قبضہ اور آزادی
1882
 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا، اور 1922
 میں جزوی آزادی ملی۔ مگر اصل خودمختاری
 1952
 میں "فری آفیسرز موومنٹ" کے بعد حاصل ہوئی، جب بادشاہ فاروق کو معزول کر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت سنبھالی۔ ناصر عرب قوم پرستی اور اسرائیل مخالفت کا سب سے بڑا علمبردار بنا۔
 اسرائیل کے ساتھ جنگیں: 
عرب خون، شکست اور امن
1948
 میں مصر نے عرب اتحاد کے تحت اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی، مگر کامیابی نہ ملی۔
1956
 میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سویز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے ناصر نے عوامی جذبات سے شکست دی۔
1967
 کی "شش روزہ جنگ" میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا چھین لیا — ایک ایسی شکست جو ناصر کی زندگی پر بوجھ بن گئی۔
1973
 کی  جنگ میں مصر نے شام کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنا غصب شدہ علاقہ واگزار کرانے کی کوشش کی، کچھ کامیابی ملی، مگر مکمل فتح حاصل نہ ہو سکی۔
. انور السادات اور امن معاہدہ
صدر انور السادات نے
 1978
 میں امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ "کیمپ ڈیوڈ معاہدہ" پر دستخط کیے۔
1979
 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب دنیا کی پہلی مسلم ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کیا — اور شدید تنقید کا سامنا کیا۔
  تعلقات بحال مگر فاصلے باقی
مصر اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانے فعال ہیں، وزرائے خارجہ ملاقاتیں کرتے ہیں، انٹیلیجنس افسران تعاون کرتے ہیں، اور فوجی سطح پر بھی رابطے ہوتے ہیں، خصوصاً غزہ کی سرحد پر۔
 انٹیلیجنس شراکت داری
مصر اور اسرائیل، غزہ میں حماس کے خلاف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
مصر سینا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اسرائیلی انٹیلیجنس کا سہارا لیتا ہے۔
 امریکی اثر
امریکہ، مصر کو ہر سال 1.3 ارب ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے، جس کی شرط ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ امن رکھے۔
امریکہ مصر کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے لیے سب سے اہم خارجی طاقت ہے، اور وہ اسرائیل سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
 مصری عوام کا احساس 
عام مصری، اسرائیل کو ایک غاصب اور ظالم ریاست سمجھتے ہیں۔
غزہ کے محاصرے میں مصر کا کردار عوام کو تکلیف دیتا ہے — کیونکہ رفح بارڈر اکثر بند رکھا جاتا ہے، اور فلسطینیوں کو امداد یا علاج کے لیے مصر داخلے پرسختیاں ہوتی ہیں۔
 انور سادات کا قتل اور اس کے اثرات
سادات کو 1981 میں انہی کی فوج کے ایک رکن نے قتل کیا — اسرائیل سے امن معاہدے پر ناراضی اس کی بڑی وجہ تھی۔
آج بھی سادات کو بعض حلقے "قومی خائن" اور بعض "دور اندیش قائد" مانتے ہیں، مگر اختلاف قائم ہے۔
 عوامی سطح پر بائیکاٹ
مصر میں اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
فنکار، ادیب، اور دانشور اسرائیل سے کسی بھی قسم کے ثقافتی یا تجارتی تعلقات کے مخالف ہیں۔
 مفادات کی سیاست
مصر کی فوج، جو ملکی اقتدار کی اصل وارث ہے، اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی۔
صدر السیسی کا طرزِ حکمرانی سیکیورٹی، اسٹیبلشمنٹ اور معیشت پر مبنی ہے، اور ان تینوں کو اسرائیل سے تعلق میں فائدہ ہے، نقصان نہیں۔سادگی سے کہا جا سکتا ہے: "امن معاہدہ زندہ ہے، مگر امن مردہ ہے۔"
  مجبوری کا امن
مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایک ایسے معاہدے پر قائم ہیں جو دنیا کے سامنے امن کی مثال ہے، مگر عوامی دلوں میں شکست اور غصے کی یاد بھی ہے۔ حکومت کو امن، استحکام اور امریکی امداد کی فکر ہے، اور عوام کو فلسطینی خون، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسرائیلی جبر کا غصہ۔
مصر نے اسرائیل کو تسلیم تو کر لیا، مگر دلوں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
یہی وہ تضاد ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا خاصہ ہے —  امن معاہدے زندہ ہوتے ہیں، مگر امن کی روح مر چکی ہوتی ہے۔


جمعہ، 20 جون، 2025

بھارت کی پراکسی جنگ



 پاکستان میں چینی شہریوں پر بڑھتے حملے

پاکستان اور چین کی دوستی کو دنیا بھر میں "آہنی برادری" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبے اس تعلق کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے پیچھے بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیوں کا ہاتھ ہونے کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔

حالیہ حملے اور ان کے پس منظر

اکتوبر 2024 میں کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں دو چینی انجینئرز ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی، جو ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے اور پاکستان میں چینی منصوبوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔

اسی طرح، مارچ 2025 میں خیبر پختونخوا کے بشام علاقے میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ ہوا، جس میں پانچ چینی شہری اور ایک پاکستانی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی، تاہم تحقیقات میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ملوث ہونے کے شواہد ملے۔

بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیاں

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" (RAW) BLA اور TTP جیسے گروپوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں چینی مفادات کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی تحقیقات میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے تھے، تاہم عدالت میں ان شواہد کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔

علاوہ ازیں، اپریل 2025 میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ 

TTP

کے ارکان تھے اور انہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ 

چینی ردعمل اور پاکستان کی ذمہ داری

چین نے پاکستان میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے چین-پاکستان تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ 

پاکستانی حکومت نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم، ان حملوں کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مزید مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ CPEC جیسے اہم منصوبوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیوں کے ذریعے ان حملوں کی پشت پناہی خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ان سرگرمیوں کو بے نقاب کرے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔


A Spy Game Gone Wrong in Middle East

The arrest of alleged Indian spies in Iran has triggered quiet ripples across West Asia’s diplomatic landscape. While governments are yet to respond formally, the implications of these events could be significant — not just for New Delhi’s relations with Tehran, but for the millions of Indian workers spread across the Middle East.

At the heart of the matter is a sensitive accusation: India, potentially in coordination with Israeli intelligence services, is using its presence in the region to gather intelligence against Iranian assets. Iran, locked in a silent war of attrition with Israel, views such activity as a threat to its sovereignty — and when such activity is traced to Indian nationals, alarm bells ring.

Kulbhushan Jadhav Revisited?

This isn’t the first time India’s intelligence activities have drawn controversy in the region. In 2016, Pakistan arrested Kulbhushan Jadhav, a former Indian Navy officer, claiming he was a RAW operative using Iranian soil to infiltrate Balochistan. Though India denied these claims, Iran privately confirmed to Pakistan that Jadhav had entered from its territory — an admission that damaged bilateral trust.

In the years since, Iran has arrested multiple foreign-linked operatives, often tied to Mossad. Regional security sources claim that some of these networks had indirect or logistical links to Indian nationals, particularly in cyber, telecom, or port-based operations.

A Vulnerable Labor Force

What does this mean for Indian workers in the Gulf?

With over 8 million Indian expatriates working across the Middle East — including in Saudi Arabia, the UAE, Oman, Qatar, and even Iran — any diplomatic crisis has real-world consequences. If espionage allegations gain traction, Indian nationals working in sensitive sectors like energy, ports, infrastructure, or IT could be subject to new scrutiny.

Iran itself hosts Indian engineers, port staff (notably at Chabahar), and oil sector workers. If Tehran sees New Delhi as compromising its national security, visa restrictions, project delays, or even deportations are possible — especially if domestic pressures mount.

Gulf States May Watch Closely

While Iran may be directly impacted, the wider Gulf region won’t remain unaffected. Many Gulf countries host large Shia populations, maintain careful balances with Tehran, and increasingly question India's alignment with Israel.

In a region where sectarian politics shape foreign policy, any indication that India is working against Shia interests or collaborating with Israel against Iran could spark religious and political backlash. While governments may not act overtly, pressure from clerics, activists, or the public could lead to increased vetting of Indian workers, especially in high-trust sectors.

We've seen parallels before. After Saudi Arabia labeled Hezbollah a terrorist group in 2016, Shia workers from Lebanon and Iraq faced quiet blacklisting across the Gulf. In Turkey, post-2016 coup crackdowns led to Turkish nationals being detained or expelled in several Arab states on suspicion of Gulenist ties.

Could Indian workers face similar pressures in a worst-case scenario?

Strategic Overreach?

India’s increasing intimacy with Israel, particularly in the intelligence domain, is well-documented. Cyber cooperation, facial recognition systems, drone technologies, and even counter-terror training are being exchanged — and operational reach is expanding.

But every expansion brings exposure. In a region as volatile and politically fragmented as West Asia, perceived overreach can backfire. India has long enjoyed goodwill in the Muslim world, seen as a balanced, secular democracy with strong historical and cultural ties. That image is slowly shifting.

If New Delhi is seen as a silent partner in covert operations targeting Iran or its allies, the impact could go beyond diplomacy — it could affect trade, investments, pilgrimages, and most critically, the security of Indian nationals abroad.

Final Thought

Intelligence operations are built on stealth. But when they go public, consequences are swift and far-reaching. If India is indeed stretching its strategic ambitions into Iran through covert means, it must prepare for the blowback — and not just at the diplomatic level.

For the millions of Indians living and working in the Gulf, the cost of a spy scandal could be more than embarrassment — it could be existential.


لبنان — مذہب، مزاحمت اور مشرقِ وسطیٰ کا آئینہ




لبنان، عرب دنیا کا ایک چھوٹا مگر تاریخی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے پیچیدہ ملک ہے۔ اس کی گلیاں نہ صرف رومن اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں بلکہ فلسطینیوں کے آنسوؤں سے بھی بھیگی ہوئی ہیں۔ یہ محض ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک ایسا رنگین مگر پیچیدہ کینوس ہے جس پر تاریخ، مذہب، جنگ، سیاست، قوم پرستی اور بین الاقوامی طاقتوں کی لکیریں واضح دکھائی دیتی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کا پیرس — ماضی کی ایک جھلک
کبھی لبنان کو "مشرق وسطیٰ کا پیرس" کہا جاتا تھا۔
یہاں کی امریکی یونیورسٹی پورے خطے میں علم کی روشنی بانٹتی تھی۔
لبنانی کھانے اور ضیافتیں لمحات کو یادگار بناتی تھیں، فیشن کا انداز پورے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی ایشیا پر اثر انداز ہوتا تھا،
ادب و صحافت ٹرینڈ سیٹ کرتے تھے۔
آج وہی لبنان اجڑا ہوا ہے۔
انسان زندگی کو گھسیٹ رہے ہیں، عمارتیں خود اپنے ماضی پر نوحہ کناں ہیں، اور معاشرت اپنے ہی بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر گریہ کناں۔
اگر مشرقِ وسطیٰ کو سمجھنا ہے تو لبنان کوسمجھنا  ہوگا — کیونکہ لبنان وہ آئینہ ہے جس میں عرب دنیا کی داخلی کشمکش، مذہبی تقسیم، اور عالمی سازشوں کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
تاریخی تناظر — سلطنتوں سے خانہ جنگی تک
تاریخ کی ابتدا: صور و صیدا کا کردار
قدیم بندرگاہی شہر صور اور صیدا تہذیب کے گہوارے تھے، جہاں سمندری تجارت نے تاریخ رقم کی۔
یہ خطہ وقت کے ساتھ رومی، بازنطینی، صلیبی اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ بنتا گیا۔
خلافت عثمانیہ سے فرانسیسی قبضے تک
لبنان صدیوں تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد فرانس نے اسے شام سے الگ کر کے "گریٹر لبنان" کی شکل دی۔
فرانسیسی اثر نے یہاں کی مسیحی اشرافیہ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا — جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
سیاسی بندوبست اور خانہ جنگی
اقتدار کی مذہبی تقسیم
لبنان نے 1943 میں آزادی حاصل کی، لیکن اقتدار کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کی گئی:
صدر: مارونی عیسائی
وزیراعظم: سنی مسلمان
پارلیمانی اسپیکر: شیعہ مسلمان
یہ نظام وقتی طور پر توازن کا ذریعہ تو بنا، مگر لمبے عرصے میں شدید اختلافات کا بیج بو گیا۔
خانۂ جنگی کا دور — خون اور سازشیں

1975
 سے 1990 تک لبنان شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔
اس جنگ میں فلسطینی، عیسائی ملیشیاز، شیعہ گروہ، اسرائیل اور شام سب کسی نہ کسی طور پر شامل تھے۔
1982 
کا اسرائیلی حملہ اور حزب اللہ کی پیدائش

1982 
میں اسرائیل نے فلسطینی تنظیم 
PLO
 کو نکالنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا اور بیروت تک قبضہ کر لیا۔
اسی کے ردِعمل میں حزب اللہ کی بنیاد پڑی — جو آج اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔
1976
 سے 2005 تک شام لبنان پر اثر انداز رہا۔
خانہ جنگی کے دوران شام نے مداخلت کی، جس سے وقتی امن قائم ہوا۔
مگر 2005 میں وزیرِاعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد عوامی دباؤ کے نتیجے میں شام کو اپنی افواج واپس بلانی پڑیں۔
فرقہ واریت اور سیاست کا شکنجہ
لبنان کی آبادی 18 مذہبی فرقوں پر مشتمل ہے، جیسے:
مارونی، کیتھولک، آرتھوڈوکس عیسائی
سنی، شیعہ، دروز
اور دیگر اقلیتی گروہ
یہ صدیوں سے امن سے رہ رہے تھے، مگر اسرائیل نے اس سماجی تنوع کو فرقہ واریت میں بدل دیا۔
ہر فرقہ اپنی ملیشیا، میڈیا اور حتیٰ کہ اپنی خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔
نتیجتاً، لبنان ایک مکمل ریاست نہیں، بلکہ ایک "معاہداتی ملک" بن گیا — جو گروہی سمجھوتوں پر قائم ہے۔
حزب اللہ لبنان کا سب سے بااثر، منظم اور مسلح گروہ ہے۔
یہ اسرائیل کی نظر میں دہشتگرد، مگر لبنانی عوام کی نظر میں "مقدس مزاحمت" ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک اسے دہشتگرد قرار دے چکے ہیں،
جبکہ لبنان میں یہ عوامی حمایت رکھتا ہے۔
اسرائیل حزب اللہ کے وجود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اسی لیے اس نے حزب اللہ کو عالمی سطح پر "دہشتگرد تنظیم" کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی —
اور اس کے کئی رہنما چن چن کر قتل کیے گئے۔
لبنان میں حزب اللہ کا اثر اس قدر ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے وہی واحد طاقت دکھائی دیتی ہے —
مگر اسرائیل کی دشمنی کی وجہ سے امن بھی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔
لبنان آج — ایک قوم، کئی خواب
زخم خوردہ ریاست، جاگتی ہوئی نسل
لبنان وہ ملک ہے جو:
تہذیب کا مرکز تھا
مزاحمت کی علامت بنا
اور سیاست کا قیدی بن چکا ہے
آج یہاں حکومت کمزور، عوام منقسم اور مستقبل غیر یقینی ہے۔
مگر لبنانی نوجوان اب جنگ سے تھک چکے ہیں۔
وہ نہ بیرونی اثرات چاہتے ہیں، نہ مذہبی تقسیم — صرف امن، تعلیم، روزگار اور شناخت کی خواہش رکھتے ہیں۔
لبنان کا نچوڑ — دل میں حزب اللہ، دماغ میں مغرب، روح میں فلسطین
لبنان نہ مکمل آزاد ہے، نہ مکمل غلام۔
یہ مشرق وسطیٰ کی:
سب سے خوبصورت
سب سے زخمی
اور سب سے الجھی ہوئی ریاست ہے۔
یہ ملک خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے — اور دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔
اسرائیل نے کو کچھ اٌنے ہمسائے لبنان کے ساتھ کیا ہے وہ وہی کچھ دوسرے ہماسئیوں ہی نہیں ،شرق وسطی کے تمام ممالک کے ساتھ کرنا چاہتا ہے ۔ 

India and Israel's Silent Game in the Gulf






Without Borders — India and Israel's Silent Game in the Gulf
By: Dilpazir Ahmad Janjua

The Persian Gulf — long seen as the world’s energy artery — is no longer just about oil tankers, trade routes, and naval chokepoints. In the digital age, it has quietly become the theatre of a new kind of warfare: one fought not with fighter jets or boots on the ground, but with spyware, cyberattacks, and intelligence operatives in suits.

And behind this invisible front line are two increasingly intertwined players: India and Israel.
Iran: Target Number One

Since the 1979 Islamic Revolution, Iran has been viewed by many regional and global powers as a destabilizing force. Its Revolutionary Guards, influence over proxy groups like Hezbollah and the Houthis, and resistance to Western-backed order have made it the focal point of espionage activity.

Iranian scientists have been assassinated. Nuclear facilities have been hacked. Its intelligence services have reported repeated infiltration. For Tehran, this isn’t random sabotage — it’s a well-orchestrated campaign of containment.

And leading that campaign is Israel’s feared intelligence agency, Mossad.
Israel’s Deep Penetration

Over the last two decades, Mossad has pulled off some of the boldest operations on Iranian soil. In 2020, top Iranian nuclear scientist Mohsen Fakhrizadeh was assassinated near Tehran — reportedly by a remote-controlled weapon. Before that, the infamous Stuxnet cyberattack — jointly attributed to Israel and the U.S. — disrupted centrifuges at Iran’s Natanz nuclear facility.

Dozens of Iranian officials have since been arrested, accused of feeding sensitive information to Israeli handlers. Iran's sovereignty, it seems, is under high-tech siege.
India in the Gulf: A Quiet Operator

India, often seen as a neutral power juggling ties with both Tehran and the Gulf monarchies, is quietly emerging as a major player in this regional intelligence matrix — not least due to its close and growing security partnership with Israel.

Since 2017, India and Israel have signed a series of cybersecurity and defense cooperation agreements. India’s RAW operatives receive Israeli training and technology, and reports suggest that India has leveraged Israeli spyware — most infamously Pegasus — not only for domestic surveillance but also in collaboration with Gulf regimes.

And there's a demographic dimension to this too. With over 8.5 million Indian nationals living across Gulf countries, India has access to a massive, embedded diaspora — some of whom are allegedly involved in passive data gathering or surveillance operations, often unknowingly.
Gulf States: Allies or Enablers?

The Abraham Accords (2020) opened the door for formal Israeli integration into Gulf security systems. Today, Israeli advisors, tech firms, and surveillance infrastructure are quietly becoming part of defense architecture in countries like the UAE and Bahrain.

India, already a major economic and defense partner of these same states, appears to be synchronizing its efforts with Israel — forming what analysts are beginning to call a "shadow alliance" against Iranian influence.
Tehran’s Alarm Bells

Iran has been vocally critical of this growing India-Israel-Gulf nexus. Officials in Tehran accuse Israel of engineering cyberattacks and targeted killings, criticize Gulf monarchies for "hosting the enemy," and have even detained Indian nationals under suspicion of espionage linked to Israeli interests.

For Iran, this isn't just a security threat — it's an ideological and geopolitical challenge to its regional identity and ambitions.
The Real Question

So what are we witnessing? A pragmatic security coalition? Or a slow erosion of sovereignty in exchange for political stability?

Have Gulf rulers, in trying to counter Iran, handed their digital borders over to foreign powers?

Or has Iran's own posturing left its neighbors with little choice but to lean on external intelligence partners?

Whatever the answer, one thing is certain: the Gulf is no longer just an oil zone — it’s an active front in a silent war.
And in this war, the wounds may take years to show, but the damage is already underway.


اسرائیل ،، تاریخی سچائی




عنوان: برطانیہ نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، امریکہ نے پروان چڑھایا — تاریخ کی ایک سچائی

اسرائیل کی تخلیق کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز برطانوی سامراج نے کیا اور جسے بعد ازاں امریکہ نے عالمی طاقت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ یہ منصوبہ صرف جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظریاتی، سیاسی اور عسکری جنگ کا آغاز تھا، جس کی جڑیں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی صہیونی تحریک، جنگ عظیم اول، بالفور اعلامیہ، اور ہولوکاسٹ جیسے واقعات میں پیوست ہیں۔
برطانیہ کا کردار — ابتدا کی اینٹ
سال 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے صہیونی رہنما لارڈ روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا، جو بعد میں بالفور اعلامیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں برطانیہ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کرے گا۔ اس وقت فلسطین برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت تھا، اور سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا۔
برطانیہ نے یہودیوں کو نہ صرف زمین دی، بلکہ ان کی آباد کاری، دفاع، اور اداروں کے قیام میں بھرپور معاونت کی۔
برطانیہ کی تھکن، امریکہ کی مداخلت
جنگ عظیم دوم کے بعد فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان فسادات شدت اختیار کر گئے۔ برطانیہ اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو گیا اور بالآخر 1947 میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا۔ یہاں سے امریکہ کی براہ راست مداخلت کا آغاز ہوا۔
امریکہ کا کردار — پشتیبان اور محافظ
14 مئی 1948 کو جیسے ہی ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، امریکہ نے صرف 11 منٹ بعد اسے تسلیم کر لیا۔ یہ کوئی سادہ سفارتی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک بڑے اسٹریٹیجک پلان کی شروعات تھی۔
صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کو نہ صرف سفارتی تحفظ دیا، بلکہ مالی، عسکری اور سیاسی امداد کی بنیاد بھی رکھی، جو آج تک جاری ہے۔ اسرائیل کو جدید ہتھیار، انٹیلیجنس، اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ذریعے تحفظ — یہ سب امریکہ کی جانب سے فراہم کیے گئے۔
تاریخی واقعات سے جھانکتی سچائی
بالفور اعلامیہ: یہ محض ایک سفارتی خط نہیں تھا، بلکہ روتھشیلڈ خاندان کے عالمی مالیاتی اثرورسوخ کا مظہر بھی تھا۔ اس اعلامیہ نے یہودی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھ دی، اور فلسطینیوں کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کا آغاز ہوا۔
صدر ٹرومین کا دباؤ: وائٹ ہاؤس میں موجود مشیروں نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی، لیکن امریکہ میں مضبوط یہودی لابی اور ووٹ بینک کے دباؤ نے ٹرومین کو فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔ ٹرومین نے کہا تھا:
"I am doing what I believe is right, even if it costs me the next election."
برطانوی فوجی کا تبصرہ: فلسطین سے انخلاء کے وقت ایک برطانوی کمانڈر نے کہا:
"We are leaving a war that we started, but its fire will now be fueled by others."
آج کی دنیا میں عکس
آج اسرائیل دنیا کی ایک جدید ترین فوجی طاقت ہے، جسے سالانہ اربوں ڈالر کی امریکی امداد حاصل ہے۔ امریکی اسلحہ، سفارتی تحفظ، اور میڈیا پر اثرورسوخ نے اسرائیل کو صرف زندہ ہی نہیں رکھا بلکہ اسے مشرق وسطیٰ کی ایک ناقابلِ شکست ریاست بنا دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کا قیام بیسویں صدی کی عالمی سیاست کا سب سے چالاک اور خطرناک تجربہ تھا۔ برطانیہ نے ایک خواب کی تکمیل کا آغاز کیا، اور امریکہ نے اسے تعبیر تک پہنچایا — لیکن اس خواب کی قیمت لاکھوں فلسطینیوں نے بے گھری، خون اور قربانیوں سے ادا کی۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف تاریخ نہیں، آج کا سیاسی منظرنامہ بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔

جمعرات، 19 جون، 2025

شام — نبی کریم ﷺ کی نگاہ میں (3)




شام — انبیاء، اولیاء اور قربانیوں کی سرزمین

شام... محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ روحانیت، نبوت، ولایت اور قربانی کی وہ زمیں ہے جو صدیوں سے اللہ والوں، اہلِ عرفان، اور انبیائے کرامؑ کے قدموں کا بوسہ لیتی آئی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جسے نبی کریم ﷺ نے "برکت والی زمین" قرار دیا، جہاں کے لیے دعا کی، جہاں انبیاء نے زندگی بسر کی، اور جہاں اسلام نے اپنی روحانی روشنی سے دنیا کو منور کیا۔
بلادِ شام 
بعثتِ محمدی ﷺ کے وقت بلاد الشام کا مفہوم آج کے شام تک محدود نہ تھا، بلکہ اس میں موجودہ شام، لبنان، اردن، فلسطین، اسرائیل، عراق کے مغربی علاقے، اور ترکی کے کچھ جنوبی حصے شامل تھے۔ یہ خطہ انبیاء کی سرزمین تھا، اور آج بھی ان کے آثار اور مزارات اس کی مٹی کو مقدس بنائے ہوئے ہیں۔
احادیث میں شام کی روحانی عظمت
رسولِ اکرم ﷺ نے شام کے لیے فرمایا:
"شام برکت والی زمین ہے"
(سنن ابی داؤد)
"فرشتے شام پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں"
(صحیح بخاری)
"حضرت عیسیٰؑ کا نزول دمشق کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا"
(صحیح مسلم)
"دجال شام و عراق کے درمیان ظاہر ہوگا"
(مسند احمد)
ان ارشادات میں شام کو محض ایک علاقہ نہیں بلکہ قربِ قیامت کے اہم ترین واقعات کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا شام سے تعلق
نبی کریم ﷺ نے اپنی جوانی میں بصریٰ، حلب اور دمشق کے تجارتی سفر کیے۔ آپ ﷺ کا سفر بصریٰ میں راہب بحیرا سے ملاقات کا ذریعہ بنا — جس نے آپ ﷺ میں نبوت کی علامات پہچانیں۔
وفات سے قبل آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں شام کی طرف لشکر روانہ کیا، گویا آپ ﷺ نے شام کے دروازے پر امت کی اگلی تاریخ لکھنے کا آغاز کیا۔
شام میں مدفون اسلامی ہستیاں
شام کی روحانی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت وہاں موجود صحابہ، تابعین، اولیاء، اور اہلِ بیت کے مزارات ہیں:
دمشق:
حضرت ابودرداءؓ — جلیل القدر صحابی، فقیہ اور زاہد
حضرت بلال حبشیؓ — مؤذنِ رسول ﷺ (روایت ہے کہ شام میں انتقال ہوا، مدفن دمشق میں ہے)
حضرت اویس قرنیؓ — مشہور تابعی، جن سے نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو دعا کی تلقین کی
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ — دامادِ رسول ﷺ
حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ — حضرت علیؓ کی بیٹی
حلب:
حضرت زین العابدینؒ — امام سجاد، کچھ اقوال کے مطابق مختصر قیام کے بعد شہادت کے بعد ان کا جلوس حلب سے گزرا
حضرت خولہؓ بنت حسین — روایت ہے کہ کربلا کے قافلے کی اسیر خواتین میں شامل تھیں، حلب کے نواح میں مدفن ہے
حمص:
حضرت خالد بن ولیدؓ — سیف اللہ، اسلام کے عظیم جرنیل
حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ — عشرہ مبشرہ میں شامل، شام کے پہلے گورنر
بصریٰ:
حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ — بانی خلافتِ امویہ، دمشق میں مدفون
حضرت ہندہؓ بنت عتبہ — صحابیہ، حضرت معاویہؓ کی والدہ
خلافتِ راشدہ سے خلافتِ امویہ تک
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں شام کی فتوحات کا آغاز ہوا
حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں یرموک کی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی
حضرت عمرؓ کے عہد میں بیت المقدس اور دمشق اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے
سن اکسٹھ ہجری میں خلافتِ امویہ قائم ہوئی، اور دمشق دارالخلافہ بنا
دمشق — علم، عرفان اور خلافت کا گہوارہ
اموی دور میں دمشق نہ صرف سیاسی مرکز تھا بلکہ علم، تصوف، فقہ، حدیث، اور روحانی تربیت کا مرکز بھی۔
یہاں کے مدرسے، خانقاہیں، کتب خانے اور علمی حلقے صدیوں تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہے۔
جدید شام: خانہ جنگی اور روحانی ورثے پر حملہ
خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد فرانسیسی قبضے نے روحانی اور دینی اداروں کو کمزور کیا
دو ہزار گیارہ سے شام میں خانہ جنگی جاری ہے — لاکھوں شہید، شہر کھنڈر، اور مزارات کی بے حرمتی
احمد الشراع — اسرائیلی حمایت یافتہ حکمران
 دو ہزار چوبیس میں احمد الشراع کو اسرائیل و امریکہ کی حمایت سے صدر بنایا گیا۔
مزارات پر حملے، مدارس کی بندش، اور دین پسند طبقات کی جلاوطنی میں اضافہ ہوا
شام — آج بھی نور کا مرکز
آج اگرچہ شام کی گلیاں ملبے سے بھری ہیں، مساجد خالی اور کتب خانے خاموش ہیں — لیکن حضرت بلالؓ کی اذان کی بازگشت، حضرت خالدؓ کی شمشیر کی گونج، اور حضرت ابودرداءؓ کی دعاؤں کی روشنی اب بھی اس سرزمین پر سایہ کیے ہوئے ہے۔
یہ وہی زمین ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا،
یہی وہ مٹی ہے جسے نبی کریم ﷺ نے برکت والی قرار دیا،
یہی وہ وادیاں ہیں جہاں آخری معرکے لڑے جائیں گے۔
شام ۔۔۔۔ جہاں آسمان جھکتا ہے
شام صرف ایک ملک نہیں —
یہ ماضی کا چراغ ہے، حال کی آزمائش ہے، اور مستقبل کی بشارت ہے۔
یہ وہ زمین ہے جسے جتنا روندھا جائے، اتنا ہی اس کا نور ابھرتا ہے۔
انبیاء کے قدموں کی خاک، اولیاء کی دعائیں، صحابہ کی قربانیاں —
یہ سب شام کے آسمان کو جگمگاتے رہیں گے۔

شام کی کہانی (2)



شام اور اسرائیل — ایک سلگتی سرحد سے آگے کی کہانی

شام اور اسرائیل کا تعلق محض دو ریاستوں کی جغرافیائی کشمکش نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں دھڑکتا ہوا ایک ایسا زخم ہے جو سات دہائیوں سے نہ صرف شام کی قومی روح کو زخمی کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور وحدت کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔ اس تنازعے کی بنیادیں ماضی کی تاریخ میں گہری پیوست ہیں، اور اس کی گونج آج بھی دمشق کی ویران گلیوں، گولان کی خاموش چوٹیوں، اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں میں سنائی دیتی ہے۔
اسرائیل کا قیام — شام کے زخموں کی شروعات
سن 1948 میں جب اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر کے ریاست کے قیام کا اعلان کیا، تو شام ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے سفارتی مخالفت کی تھی اور اس ردعمل کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی اور انسانی رشتہ تھا۔
صدیوں سے فلسطین شام کا حصہ رہا تھا۔ دونوں سرزمینوں کے درمیان خونی رشتے، تجارتی روابط اور روحانی تعلقات موجود تھے۔ فلسطین میں "نقبہ" کے نام پر جو قیامت ٹوٹی، جس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کے اثاثے لوٹے گئے، اور انہیں دربدر کیا گیا — وہ سب کچھ شام کے عوام کے دل میں خنجر کی طرح پیوست تھا۔
شام نے فلسطینیوں سے اخوت اور ہمدردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا۔ اور اعلان کیا کہ اسرائیل کے ۔ اقدامات غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانیں کی کھلی خلاف ورزی ہے
اس موقع پر اسرائیل نے موقف اپنایا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور جو ممالک اس کے وجود کے لیے ان پر
Preemptive strike
کا اسرائیل کو حق حاصل ہے ۔ مغربی ممالک نے اسرائیل کے اس حق کو تسلیم کیا ا یہ وہی حق ہے جو اب اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحیت کر کے
اپنایا ہے ۔
گولان کی پہاڑیاں — دفاعی حصار، قومی غیرت
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ دراصل اسی اجتماعی خوف کا اظہار تھی جس میں عرب دنیا کو یقین ہو چلا تھا کہ اگر آج فلسطین چھینا گیا ہے، تو کل ان کے اپنے دروازے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی حمایت کے سائے تلے شام کے انتہائی اہم علاقے — گولان کی پہاڑیوں — پر قبضہ کر لیا۔ یہ پہاڑیاں محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ شام کے دفاع، آبی وسائل اور عسکری توازن کا مرکز تھیں۔ ان کا چھن جانا شام کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا، جو قومی غیرت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف تھا۔
شام نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں سے انصاف کی اپیل کی، مگر جلد ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اسرائیل مغرب کا وہ لاڈلا ہے جس کے خلاف نہ کوئی قرارداد اثر رکھتی ہے، نہ کوئی قانون۔
اس کے بعد شام نے عراق اور مصر کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جس کا نتیجہ 1973 کی رمضان جنگ کی صورت میں نکلا۔ شامی افواج نے ابتدائی طور پر حیرت انگیز پیش قدمی کی، اور گولان کے کچھ حصے واپس لیے۔ مگر مغربی امداد نے ایک بار پھر اسرائیل کو طاقتور بنا دیا، اور شام کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آج بھی گولان کی پہاڑیاں شام کے لیے صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ قومی غیرت، قدرتی وسائل، اور مسلسل مزاحمت کی علامت ہیں۔
پراکسی جنگیں — خفیہ مداخلت اور کھلا کھیل
انیس سو بیاسی سے دو ہزار چھ تک کا عرصہ شام اور لبنان کی سرزمین پر پراکسی جنگوں کا دور رہا۔ اسرائیل نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف براہِ راست عسکری حملے کیے بلکہ شام کے اندرونی معاملات میں بھی خفیہ مداخلت کی۔
اسرائیل نے بعض شدت پسند جہادی گروہوں کو اسلحہ، انٹیلیجنس اور مالی وسائل فراہم کیے تاکہ شام کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔ یہ چالاک منصوبہ بندی وہ آہستہ زہر تھا جس نے شام کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔
دو ہزار گیارہ میں خانہ جنگی کا آغاز اسرائیل کے لیے ایک نیا موقع بن کر ابھرا۔ ایران، حزب اللہ اور شامی حکومت کو خطرہ قرار دے کر اسرائیل نے درجنوں فضائی حملے کیے۔ ساتھ ہی بعض "معتدل باغی" گروہوں کی حمایت کی گئی، جو بعد میں شدت پسند بن کر ابھرے، مگر اسرائیل اور مغرب کے مفادات کے لیے "کارآمد" ثابت ہوئے۔
اسرائیل کا وتیَرہ ہمیشہ یہی رہا ہے: جو جرم خود کرے، اس کا الزام دوسروں پر لگا دے۔ وہ شام پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے، مگر خود شامی سرزمین پر مسلسل دراندازی، حملے اور پراکسی کھیل کھیلتا رہا ہے۔
نئی قیادت، پرانے سوالات — احمد الشراع کا دور
بشار الاسد کے طویل اقتدار کے بعد 2023 میں احمد الشراع شام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے انتخاب کو مغرب اور اسرائیل نے "نئی مشرقِ وسطیٰ" منصوبے کا حصہ قرار دیا۔
ان کے دور میں
ایران اور حزب اللہ سے فاصلہ بڑھا
اسرائیل سے درپردہ روابط قائم ہوئے
مغربی امداد کے بدلے پالیسی میں نرمی اختیار کی گئی
یہ تمام اقدامات عوامی سطح پر شدید تنقید، احتجاج اور بے چینی کا سبب بنے۔ کیونکہ شامی عوام آج بھی فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف پرعزم ہیں۔
شامی عوام — زخم ابھی بھرے نہیں
اگرچہ حکومت نے پالیسی میں لچک دکھائی، مگر عوام کا دل آج بھی 1948 کے دکھ سے لبریز ہے۔
وہ گولان کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں
فلسطینیوں کی حمایت ان کی روح کا حصہ ہے
اسرائیلی اثر سے نجات ان کا نصب العین ہے
دمشق کی سڑکوں پر آج بھی وہی جذبات زندہ ہیں، جو اُس وقت تھے جب پہلی بار فلسطینی خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر شام کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
ایک سلگتی ہوئی جنگ کا تسلسل
شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخ پچھتر برس سے زائد کی مسلسل کشمکش پر مشتمل ہے 
جنگ،
سفارت کاری،
پراکسی،
خفیہ سازشیں،
اور عالمی طاقتوں کی مداخلت 
یہ سب مل کر ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس میں عوامی امن سب سے بڑا ہارنے والا ہے۔
جب تک:
گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں،
فلسطینی عدل سے محروم ہیں،
شامی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جاتا —
تب تک شام اور اسرائیل کے درمیان "امن" صرف ایک فریب، ایک خوش فہمی اور ایک کاغذی خواب ہے۔
دیوار پر لکھی حقیقت:
اب 2025 میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ جنگی حکمت عملی نے ثابت کر دیا ہے ۔ کہ اس کا پری ایمپٹو والا فارمولا نہ صرف 1948 سے کامیاب ہے بلکہ اب بھی ایران کے خلاف جارحیت کر کے اس نے ثابت کر یا ہے کہ مغرب اب بھی اس کے بینایے کو مانتا ہے اور اسے نافذ کرنے میں عملی طور پر اس کے ساتھ بھی ہے ۔

شام کی کہانی (1)




شام صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ تہذیب، ایمان، قربانی اور طاقت کی کشمکش کی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جس نے دنیا کی ہر عظیم طاقت کا سامنا کیا۔ پانچویں صدی عیسوی سے لے کر آج کے احمد الشراع کے دور تک، شام مسلسل اندرونی اور بیرونی آزمائشوں سے دوچار رہا ہے۔
بازنطینی عہد — مذہب اور سیاست کا ٹکراؤ
پانچویں صدی عیسوی میں شام، بازنطینی سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا۔ انطاکیہ مذہبی و عسکری مرکز رہا۔ کلیسائی نظام مضبوط تھا، لیکن فرقہ واریت (کیتھولک، مونوفیزائٹس، نیسٹورین) نے سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔
اسلامی فتوحات اور خلافتِ راشدہ
چھ سو چھتیس ہجری میں جنگ یرموک کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں مسلم افواج نے بازنطینی افواج کو شکست دی اور شام اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔ دمشق خلافتِ اُمویہ (چھ سو اکسٹھ تا سات سو پچاس) کا دارالحکومت رہا، اور اسلامی تہذیب کا مرکز بن گیا۔
عباسی، فاطمی اور ایوبی ادوار
آٹھویں سے تیرھویں صدی تک، شام عباسی خلافت کے ماتحت رہا، جبکہ کچھ حصے فاطمی خلافت کے قبضے میں بھی آئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شام کو اسلامی مزاحمت کی علامت بنا دیا۔
منگولوں کے حملے اور عثمانی خلافت
تیرھویں صدی کے اختتام پر منگول حملوں نے شام کو غیر مستحکم کیا۔ پندرہ سو سولہ میں سلطان سلیم اوّل نے شام کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اگلی چار صدیوں تک دمشق حج کے قافلوں کا مرکز اور علم و روحانیت کا گہوارہ رہا۔
فرانسیسی قبضہ (انیس سو بیس تا انیس سو چھیالیس)
پہلی جنگِ عظیم کے بعد، شام فرانس کے زیرِ تسلط آ گیا۔ انیس سو پچیس کی عظیم بغاوت نے فرانسیسی اقتدار کو چیلنج کیا۔ انیس سو چھیالیس میں شام نے آزادی حاصل کی، لیکن داخلی فرقہ واریت اور مغربی اثرات ختم نہ ہو سکے۔
آزادی کے بعد: بغاوتیں، قوم پرستی، اور اسرائیل دشمنی
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے بعد شام کی ساری سعی اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے آگے بند باندھنے ہی صرف رہی اور انیس سو اٹھاون میں شام نے مصراور عراق کے ساتھ متحدہ عرب جمہوریہ بنائی گئی۔ مگرانیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیاں قبضے میں لے لیں۔
حافظ الاسد (انیس سو ستر تا دو ہزار)
جنرل حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کر کے علوی اقلیت کی حکومت قائم کی۔ انیس سو بیاسی میں اخوان المسلمون کی بغاوت کو حما شہر میں خونریز آپریشن کے ذریعے کچلا گیا۔ ایران-عراق جنگ میں شام، ایران کا حامی رہا۔
بشار الاسد (دو ہزار تا دو ہزار تئیس)
دو ہزار میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ ابتدائی اصلاحات کے بعد وہ بھی سخت گیر حکمران بن گیا۔ دو ہزار گیارہ میں عرب بہار کی لہر شام پہنچی، لیکن احتجاجوں کو طاقت سے دبایا گیا۔ خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں لاکھوں افراد جاں بحق اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ روس، ایران، امریکہ، ترکی، داعش، کرد ملیشیاؤں، اور اسرائیل سمیت کئی طاقتیں شام میں مداخلت کرتی رہیں۔
احمد الشراع کا دور (دو ہزار چوبیس تا حال)
دو ہزار تئیس کے اواخر میں عالمی سفارتی کوششوں اور امریکہ و اسرائیل کی درپردہ حمایت سے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔اور دو ہزار چوبیس  میں احمد الشراع کو شام کا نیا صدر بنایا گیا، جنہیں بعض مبصرین "ویسٹ فریینڈلی" اور "اسرائیل ٹالرنٹ" کہتے ہیں۔
ابتدائی طور پر احمد الشراع نے وعدہ کیا کہ وہ شام کو ازسرنو تعمیر کریں گے، معاشی اصلاحات لائیں گے، اور مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائیں گے، مگر ان کے اقتدار کا آغاز ہی متنازع ثابت ہوا۔
ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات محدود کیے گئے۔
اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی خبریں سامنے آئیں۔
روسی حمایت کم ہوئی، جب کہ مغربی اثرات بڑھنے لگے۔
عوامی سطح پر کئی مظاہرے شروع ہوئے جن میں احمد الشراع کو "امریکی منصوبہ" قرار دیا گیا۔
معاشی بحران، بے روزگاری، اور اندرونی کشمکش اب بھی جاری ہے۔
قوم پرستوں اور ایرانی وفادار گروہوں کی مزاحمت احمد الشراع کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔
زخموں سے چور شام
شام، جو کبھی علم، حکمت، اور جمال کا گہوارہ تھا، آج ایک سیاسی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔
دمشق، جو کبھی صوفیانہ محبت کا استعارہ تھا، آج مفادات کی جنگ میں جل رہا ہے۔
لیکن شاید...
یہی شام، جسے بار بار مٹانے کی کوشش کی گئی، کل پھر اپنی خاک سے اٹھے گا۔
کیونکہ تہذیبیں مٹی میں دفن تو ہو سکتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں۔



بدھ، 18 جون، 2025

غیر قانونی ایٹمی طاقت کا تعارف





اسرائیل کی 
 بغیر دھماکے کے ایٹمی قوت بننے کی کہانی
دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کے لیے عموماً ایٹمی دھماکہ ایک لازم امر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نہ کوئی ایٹمی تجربہ کیا، نہ ہی نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی
 (NPT)
 پر دستخط کیے، اور نہ ہی کبھی کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے — اس کے باوجود وہ ایک مکمل ایٹمی قوت ہے۔
ایٹمی ابہام کی پالیسی
اسرائیل نے ہمیشہ "ایٹمی ابہام" یا
 Nuclear Ambiguity 
کی پالیسی اپنائی ہے۔ نہ تصدیق، نہ تردید۔ اس سے اسے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک طرف خطے میں اپنی برتری کا پیغام دیتا ہے، اور دوسری طرف بین الاقوامی دباؤ سے بچا رہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا اس پالیسی کی خاموش حمایت کرتے رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑے نہیں۔
ابتدا کیسے ہوئی؟
اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے فرانس سے خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت اسرائیل کو جنوبی نیگیو کے علاقے "دیمونا" میں ایک ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں مدد ملی۔
یہ پلانٹ ظاہر میں "ٹیکسٹائل فیکٹری" کہلایا، لیکن دراصل یہاں پلوٹونیم تیار کیا جاتا رہا۔ فرانس نے نہ صرف ٹیکنالوجی دی بلکہ اسرائیلی سائنسدانوں کو تربیت بھی فراہم کی۔
امریکہ کا ردعمل
1960
 کی دہائی میں جب امریکی سیٹلائٹ نے دیمونا کی مشکوک سرگرمیاں نوٹ کیں تو امریکہ نے بازپرس کی۔ اسرائیل نے روایتی انداز میں اسے "میٹالرجیکل ریسرچ سنٹر" قرار دیا، اور امریکہ نے مزید سوالات نہ کیے۔
وانونو کا انکشاف
1986 
میں اسرائیلی ٹیکنیشن موردخائی وانونو نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیمونا پلانٹ کی تصاویر اور تفصیلات دیں، جن سے واضح ہوا کہ اسرائیل نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے بلکہ اس کے پاس 100 سے 200 ایٹمی وار ہیڈز کا ذخیرہ موجود ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے اسے اٹلی سے اغوا کیا اور اسرائیل لا کر 18 سال قید میں رکھا۔
چونکہ اسرائیل نے کبھی سرکاری طور پر اپنے ایٹمی ذخیرے کا اعلان نہیں کیا، اس لیے حتمی تعداد نامعلوم ہے۔ لیکن اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ
 (SIPRI)
 اور فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ
 (FAS)
 کے مطابق
اسرائیل کے پاس اس وقت 80 سے 90 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں
اور اس کے پاس اتنا پلوٹونیم موجود ہے کہ وہ 200 تک ہتھیار تیار کر سکتا ہے

اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے تین راستے رکھے ہیں، 
بیلسٹک میزائلز (ٰٰجیرکو II اور III)   
، جن کی رینج 5,000 کلومیٹر تک ہے
آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائلزجن کا پلیٹ فارم جرمنی سے حاصل کردہ ڈالفن کلاس آبدوزیں    

ایٹمی صلاحیت والے طیارے جیسے F-15 اور F-16
بغیر تجربے کے ایٹمی طاقت؟

یہ حیرت انگیز ہے کہ اسرائیل نے آج تک کوئی کھلا ایٹمی تجربہ نہیں کیا، لیکن پھر بھی وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ:
اسرائیل نے سب-کریٹیکل تجربات کیے جو مکمل دھماکہ نہیں کرتے
جدید کمپیوٹر سمیولیشنز سے ہتھیاروں کی افادیت جانچی گئی
1979 
میں جنوبی بحرِ اوقیانوس میں امریکی سیٹلائٹ نے "ڈبل فلیش" نوٹ کی، جسے بہت سے ماہرین نے اسرائیل-جنوبی افریقہ کے مشترکہ ایٹمی تجربے کا نتیجہ کہا

ایران جیسا ملک، جس نے 
NPT
پر دستخط کیے ہیں اور 
IAEA
 کو انسپکشن کی اجازت دی ہے، ہمیشہ دباؤ میں رہتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل، جو نہ معاہدہ مانتا ہے، نہ انسپیکشن، اس پر کوئی پابندی نہیں۔
یہ دہرا معیار مشرق وسطیٰ میں خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔




جنگ کا منافع




 جنگ کا منافع
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو دنیا کی نظریں بے اختیار امریکہ پر جم جاتی ہیں۔ ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے: کیا امریکہ اس جنگ میں براہِ راست کود پڑے گا؟ اور اگر ہاں، تو کیا یہ جنگ امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کا اقتصادی فائدہ لے کر آئے گی؟
ظاہر ہے، جنگوں میں کچھ صنعتوں کو عارضی فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جیسی فوجی طاقت رکھنے والے ملک میں، دفاعی صنعت سب سے پہلے منافع سمیٹتی ہے۔ دفاعی ٹھیکے، ہتھیاروں کی فروخت، اور اتحادی ممالک کو جنگی سازوسامان کی ترسیل — ان تمام سرگرمیوں سے 
Raytheon، Lockheed Martin، اور General Dynamics
 جیسے ادارے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اسرائیل، سعودی عرب، اور خلیجی ریاستیں امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہیں، اور جنگ کی صورت میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح توانائی کے شعبے کو بھی فوری فائدہ ہوتا ہے۔ ایران پر حملے یا پابندیاں اس کے تیل کی سپلائی کو متاثر کرتی ہیں، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ ایسے میں امریکی تیل اور گیس کمپنیاں، خاص طور پر شیل انڈسٹری، یورپ اور ایشیا کو زیادہ قیمت پر تیل بیچ کر خوب منافع کماتی ہیں۔ عالمی بحران میں سرمایہ دار محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں — اور عموماً وہ امریکی ڈالر اور اسٹاک مارکیٹ ہوتی ہے۔ یوں وال اسٹریٹ کو بھی وقتی فائدہ ملتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ فائدہ عوام تک بھی پہنچتا ہے؟
جنگ میں دفاعی صنعت تو امیر ہو جاتی ہے، لیکن عام امریکی کو مہنگائی، بے یقینی اور بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے، تو ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے، خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں، اور صنعتوں پر دباؤ آتا ہے۔ نتیجہ؟ مہنگائی، بے روزگاری، اور معیشت پر بوجھ۔
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا — کیا اس سے عام امریکی کو کوئی معاشی فائدہ ہوا؟ نہیں، بلکہ اسے 8 ٹریلین ڈالر کا خرچ، ہزاروں جانیں، اور ایک غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ ملا۔
امریکہ کی فوجی مہمات کبھی اقتصادی بحالی کا ذریعہ نہیں رہیں۔ جنگی اخراجات صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سرمایہ کاری معاشرے کے ہر فرد کو فائدہ دیتی ہے — لیکن جنگ اس سرمایہ کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج اگر امریکہ اسرائیل کے کہنے پر ایران سے جنگ چھیڑتا ہے، تو شاید چند کمپنیوں کے اسٹاک اوپر چلے جائیں، مگر امریکی شہریوں کو اس کا نقصان ہی ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر حملے، دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ — یہ وہ سچ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے جنگ اب نفع کا کاروبار بن چکی ہے — مگر صرف چند کے لیے۔ اور جو قومیں اپنے مستقبل کو چند کارپوریشنوں کے منافع کے لیے گروی رکھ دیتی ہیں، وہ بالآخر تاریخ میں قیمت ادا کرتی ہیں۔
جنگ کا نعرہ لگانے والوں سے پوچھنا چاہیے:
کیا اس منافع کی قیمت انسانی جانوں، عالمی امن، اور معاشی تباہی سے ادا کی جا سکتی ہے؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایران — تہذیب، تاریخ اور طاقت کا استعارہ


جب دنیا ایران کا نام لیتی ہے تو اکثر کے ذہن میں ایٹمی تنازع، عالمی پابندیاں یا "مرگ بر امریکہ" جیسے نعرے آتے ہیں۔ مگر ایران صرف حال کا سیاسی کردار نہیں بلکہ ہزاروں برسوں کی تہذیب، فکری ورثے، اور مزاحمتی تاریخ کا نمائندہ ہے۔
یہ وہی سرزمین ہے جسے دنیا قدیم دور میں "فارس" کے نام سے جانتی تھی — ایک عظیم سلطنت، ایک گہری ثقافت، اور ایک ایسا تمدن جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایشیا اور یورپ کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔
جغرافیہ اور آبادی کی جھلک

ایران مغربی ایشیا کے قلب میں واقع ہے اور سات ممالک سے جڑا ہوا ہے: عراق، ترکی، پاکستان، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان۔ اس کی زمینی وسعت 16 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے، جہاں البرز اور زاگروس جیسے پہاڑی سلسلے، دشتِ لوط اور دشتِ کویر جیسے تپتے صحرا، اور کارون جیسے دریا موجود ہیں۔
ایران کی آبادی تقریباً 88 ملین ہے۔ اکثریت فارسی النسل ہے، لیکن آذری ترک، کرد، بلوچ، لور، ترکمان، عرب اور دیگر قومیں بھی یہاں رہتی ہیں۔ مذہبی لحاظ سے شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، جبکہ سنی، زرتشتی، یہودی، عیسائی اور بہائی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔
ایران بطور تہذیب

ایران کو صرف ایک ملک کہنا زیادتی ہوگی۔ یہ ایک تہذیب ہے — زرتشت کی روشنی، فارسی کی نرمی، شعر و ادب کی بلندی، اور مزاحمت کی شدت، سب اس میں رچی بسی ہیں۔ ایرانی قوم پرستی اسلام سے پہلے کی سلطنتوں، زبان و ادب، اور فکری برتری پر بھی فخر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران خود کو عرب دنیا سے ایک الگ اور برتر شناخت کے ساتھ دیکھتا ہے۔
تاریخ کے اوراق

تاریخ ایران میں چار بڑے ادوار واضح ہیں:
قبل از اسلام سلطنتیں — ہخامنشیوں نے کثیرالقومی حکومت قائم کی، ساسانیوں نے زرتشتی مذہب کو سرکاری مذہب بنایا، اور رومیوں، بازنطینیوں و عربوں سے طویل جنگیں لڑیں۔
اسلامی عہد — 651ء میں عربوں نے ایران فتح کیا، لیکن ایران نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسے علم، ادب اور حکومت کے میدان میں نئی روح دی۔
صفوی عہد — ایران پہلی بار بطور "شیعہ ریاست" سامنے آیا، جو آج تک اس کی مذہبی و سیاسی شناخت کا مرکز ہے۔
پہلوی اور انقلابی دور — مغربی اثرات، شاہی جبر، اور پھر
1979
 کا اسلامی انقلاب۔ امام خمینی نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ ایران کو "ولایت فقیہ" کی فقہی قیادت میں بدل دیا۔
موجودہ ایران
ایران آج پابندیوں، معاشی دباؤ اور عالمی تنہائی کا شکار ضرور ہے، لیکن اس کے اندر ایک ایسی ریاستی مضبوطی ہے جو اسے مسلسل عالمی سیاست میں سرگرم رکھتی ہے۔
سپاہِ پاسداران (IRGC)
 بیلسٹک میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خطے بھر میں اس کا اثر و رسوخ — خاص طور پر شام، لبنان، یمن اور عراق میں — ایران کو ایک مزاحمتی طاقت بنا دیتے ہیں۔
جوہری مسئلہ

ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ
(NPT)
معاہدے پر دستخط کیے، لیکن امریکہ و مغرب کا شک اسے مسلسل تنازع کی شکل میں رکھتا ہے۔ 2015 کا JCPOA
معاہدہ امید کی کرن تھا، مگر ٹرمپ حکومت نے اسے توڑ کر حالات پھر بگاڑ دیے۔
عالمی اثر و نفوذ
ایران آج شیعہ دنیا کا نظریاتی و عسکری مرکز بن چکا ہے۔ بحرین سے لے کر یمن تک، اور افغانستان و پاکستان میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ روس و چین سے اس کے تعلقات گہرے ہو رہے ہیں، اور یہ بلاک امریکہ و اسرائیل مخالف سوچ کو مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
آخری بات
ایران کو کمزور کہا جا سکتا ہے، معاشی لحاظ سے تنہا بھی، لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو زخم کھا کر بھی زندہ ہے، اور دنیا کو بتا رہی ہے کہ مزاحمت صرف فوج سے نہیں بلکہ فکر، ثقافت اور نظریے سے بھی کی جاتی ہے۔
ایران کا وجود آج کی دنیا میں ایک یاد دہانی ہے — کہ قومیں صرف جنگوں سے نہیں، تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں۔

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ