بدھ، 20 اگست، 2025

عمل کے کرشمے



عمل  کے کرشمے


معاشرے میں خاندانی زندگی ہمیشہ سکون، محبت اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن آج یہ زندگی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی۔ جدید دور کی دوڑ میں جہاں سہولتیں بڑھ رہی ہیں، وہیں شک، وہم اور بے اعتمادی نے خاندان کے اندر اعتماد کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی گھروں کی خوشیاں ایک لمحے کے وہم یا ایک غلط فیصلے کی نذر ہو جاتی ہیں۔

ہمارے محلے میں کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک شادی شدہ جوڑا، جن میں مرد کی عمر تقریباً 55  برس کے قریب تھی، اپنے بڑے مکان میں رہتا تھا۔ گھر میں دو کتے، کچھ بلیاں اور پرندے تھے۔ ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا کہ کیوں نہ ہم کوئی بچہ گود لے لیں۔ چند ماہ بعد یہ خواہش حقیقت بنی اور ان کے گھر ایک بچہ آ گیا۔

بچے نے ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ کتے اور بلیاں گھر سے نکل گئے۔ ماں باپ کی محبت کا مرکز یہ بچہ بن گیا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ بچہ محلے کا ایک صاف ستھرا، ذہین اور باادب نوجوان بن کر ابھرا۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ لے پالک ہے، لیکن اس حقیقت نے اس کے وقار اور کردار کو کم نہیں کیا۔
میٹرک پاس کرنے پر اس  گھر میں جشن منایا گیا، مگر اسی دوران اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے سب کے سامنے بیٹے کو نصیحت کی
"بیٹا! تعلیم جاری رکھنا اور میرے خوابوں کو پورا کرنا۔"
لڑکے نے یہ وصیت اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس نے ماسٹرز، پھر ایم فل اور بالآخر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اسی دوران والد اس کی منگنی کر چکا تھا۔ شادی کے بعد بیوی ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی اور شوہر کو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری مل گئی۔ باپ اپنے انتقال سے پہلے اپنا مکان اور جائیداد اسی بیٹے کے نام کر گیا۔
 اس نے اپنے باپ کا مکان ایک ریسٹ ہاؤس میں بدل دیا جہاں یتیم اور بے سہارا بچے رہنے لگے۔ آج اس گھر میں 14 بچے ہیں جنہیں وہ اور اس کی بیوی روزانہ وقت دیتے ہیں۔ جیسے کبھی اس کے والدین نے اسے اپنی گود میں پروان چڑھایا تھا، ویسے ہی اب وہ ان بچوں کو سنبھال رہا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے — وہ سوچ جو فرد، خاندان اور معاشرے کو سکون اور آسودگی دیتی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھئے۔ ایک اور گھر کی کہانی ہے۔ ایک عورت اور اس کا شوہر، جنہوں نے 
IVF
 کے ذریعے والدین بننے کا فیصلہ کیا۔ عورت چاہتی تھی کہ گھر اعتماد اور محبت پر بسے لیکن شوہر کے دل میں وہم نے جگہ بنا لی۔ اس نے چھپ کر بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا کیونکہ اسے لگا بچے اس پر نہیں گئے۔ بیوی جانتی تھی کہ اگر نتیجہ منفی آیا تو گھر ٹوٹ سکتا ہے، دادا دادی کا پیار ختم ہو سکتا ہے اور بچے ساری زندگی کے لیے زخم کھا لیں گے۔
یہ ہے شک اور بدگمانی کا انجام، جو خاندان کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں صاف حکم ہے:
(اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔)
[سورۃ الحجرات: 12]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔) [صحیح بخاری و مسلم]
یہ دونوں واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ ایک طرف ایثار اور اعتماد ہے، جو ایک یتیم بچے کو خاندان، عزت اور معاشرے کے لیے روشنی بنا دیتا ہے۔ دوسری طرف شک اور بدگمانی ہے، جو خوشیوں بھرے گھر کو لمحوں میں اجاڑ سکتی ہے۔
ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہم کون سا راستہ اپنائیں گے۔ وہ راستہ جو محبت، اعتماد اور قربانی پر مبنی ہے یا وہ جس میں شک، وہم اور خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کا زعم چھپا ہے۔


منگل، 19 اگست، 2025

کلاؤڈ برسٹ — فطری آفت یا خدائی تنبیہ



کلاؤڈ برسٹ — فطری آفت یا خدائی تنبیہ؟
گزشتہ کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ پر ایک لفظ بار بار سننے کو مل رہا ہے: کلاؤڈ برسٹ۔ کہیں اسلام آباد کی وادیوں میں اچانک پانی کا ریلا اُمڈ آیا، کہیں کشمیر کے پہاڑی سلسلوں میں چند ہی لمحوں میں بستیاں ڈوب گئیں، کبھی بھارتی لیہہ (لداخ) میں سینکڑوں جانیں لقمۂ اجل بن گئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کلاؤڈ برسٹ ہے کیا؟ کیا یہ محض ایک سائنسی مظہر ہے یا دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ و پکڑ؟
ماہرینِ موسمیات کے مطابق کلاؤڈ برسٹ اُس وقت ہوتا ہے جب بادل ایک محدود علاقے پر ٹھہر جاتے ہیں اور نہایت کم وقت میں غیر معمولی بارش برساتے ہیں۔ اگر ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو جائے تو اسے کلاؤڈ برسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی یا وادی والے علاقوں میں ہوتا ہے، کیونکہ وہاں بادل زمین کے قریب پھنس جاتے ہیں اور برسنے لگتے ہیں۔
موسمیاتی ماہرین اس کی وجہ مون سون سسٹم، ہوا کے بہاؤ میں رکاوٹ، پہاڑوں سے ٹکراؤ اور گلوبل وارمنگ کو قرار دیتے ہیں۔آج کے دور میں کلائمیٹ چینج نے ایسے واقعات کی شدت اور تعداد کو بڑھا دیا ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر فطری آفت میں صرف سائنس نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید سورۃ سبا کی آیت (15-17) میں قوم سبا کے ذکر میں ہمیں یہی کلاؤڈ برسٹ دکھائی دیتا ہے:
ترجمہ: "پھر انھوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیجا اور ان کے دو باغوں کے بدلے دو اور باغ دیے جو بد مزہ پھلوں اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔" یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی خوشحالی کو سیلاب کے ذریعے بدحالی میں بدل دیا۔ یہ سیل العرم دراصل کلاؤڈ برسٹ ہی تھا، جو پشتے اور بند توڑ گیا اور پورے علاقے کو ویران کر دیا۔
دنیا میں کلاؤڈ برسٹ کے کئی بڑے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں:
لیہہ (لداخ)، بھارت 2010: کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں چند گھنٹوں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو گئے۔
کشمیر 2021: وادی نیلم اور آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کے بعد درجنوں مکانات تباہ اور سینکڑوں افراد متاثر ہوئے۔
اسلام آباد، پاکستان 2021: سیکٹر ای الیون میں چند گھنٹوں کی بارش نے اچانک ندی نالوں کو ابلتے دریا میں بدل دیا، گاڑیاں اور مکانات پانی میں بہہ گئے۔
نئی دہلی 2023: شہر کے مختلف علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ نے شہری نظام مفلوج کر دیا اور ریکارڈ بارش نے گلیاں ندیوں میں بدل دیں۔
یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ کلاؤڈ برسٹ صرف ایک علاقائی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ جب بادل دیکھتے یا تیز آندھی آتی تو گھبرا جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے سبب پوچھا تو فرمایا: "مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ اللہ کی پکڑ نہ ہو۔" آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ»
(صحیح بخاری) یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فطرت کی ہر تبدیلی اللہ کی طرف سے ہے، اس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔
کلاؤڈ برسٹ ہمیں دو باتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے:
عملی اقدامات: بہتر منصوبہ بندی، ڈیمز، نکاسی آب اور ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے اس کے نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں۔
روحانی اقدامات: یہ اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ بھی ہے۔ ہمیں توبہ، دعا اور نبی ﷺ کی سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔
کلاؤڈ برسٹ صرف ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک خدائی اشارہ ہے۔ قوم سبا کی تباہی سے لے کر آج کے دور کے حادثات تک، پیغام ایک ہی ہے:
اللہ کی طرف رجوع کرو، ورنہ خوشحالی لمحوں میں بدحالی میں بدل سکتی ہے۔

پیر، 18 اگست، 2025

ٹوٹا پھوٹا مسلمان

ٹوٹا پھوٹا مسلمان
دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمان ایک ہی اللہ، ایک ہی رسول ﷺ اور ایک ہی قرآن کو ماننے والے ہیں۔ لیکن عملی زندگی اور سماجی شناخت میں امتِ مسلمہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ تقسیم کبھی سیاسی اسباب کے باعث ہوئی اور کبھی فقہی و نظریاتی اختلافات کی وجہ سے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایمان میں اتحاد رکھنے کے باوجود امت کا عملی چہرہ تقسیم در تقسیم دکھائی دیتا ہے۔
قرآنِ کریم نے امتِ مسلمہ کو بارہا یاد دلایا ہے کہ اصل پہچان صرف "مسلمان" ہونا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: "اللہ نے تمہارا نام پہلے بھی مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی یہی نام رکھا ہے۔"(الحج: 78)
مزید فرمایا:ترجمہ: "اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔"(آل عمران: 103)
یہ ہدایات بالکل واضح کرتی ہیں کہ فرقہ واریت اللہ کو پسند نہیں، بلکہ اتحاد اور "مسلمان" کی یکساں شناخت ہی اصل ہے۔
امت کی تقسیم ایک حقیقت ہے ، اس وقت تحقیقات کے مطابق
اہلِ سنت: 85 تا 90 فیصد
اہلِ تشیع: 10 تا 15 فیصد
اباضیہ: ایک فیصد سے بھی کم
دیگر چھوٹے گروہ (اسماعیلی، بوهری، وغیرہ): 1 فیصد
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت دو بڑے فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔
آج ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے اور مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان۔ ان میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں: "ہم نہ سنی ہیں، نہ شیعہ، نہ کسی اور فرقے کے پیروکار، ہم صرف مسلمان ہیں۔"
Pew Research Center کی رپورٹس کے مطابق تقریباً 20 تا 25 فیصد مسلمان خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، جبکہ 70 تا 75 فیصد کسی خاص فرقے سے وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرقہ واریت کے بارے میں واضح خبردار کیا تھا:
"میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں ہوگا اور باقی دوزخ میں۔"(سنن ابوداؤد، ترمذی)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ محض فرقوں کی کثرت کامیابی کی ضمانت نہیں، بلکہ اصل کامیابی اس جماعت کے ساتھ جڑنے میں ہے جو فرقہ پرست نہ ہو،
سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی سوچ امت کو دوبارہ "ایک" کر پائے گی؟ کیا واقعی مسلمان فرقہ واریت کو پیچھے چھوڑ کر صرف قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ سکیں گے؟یہ فیصلہ وقت کرے گا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ قرآن کا حکم، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور امت کی بقا اسی میں ہے کہ ہم "مسلمان" کہلائیں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوں۔

بدھ، 13 اگست، 2025

پاکستان ہمیشہ زندہ باد



پاکستان ہمیشہ زندہ باد 

2025 کا سال پاکستان کے لیے ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز بن چکا ہے۔ وہ دور جس کا خواب کئی دہائیوں سے ہر پاکستانی کے دل میں تھا — سیاسی شفافیت، مذہبی ہم آہنگی، معاشی ترقی اور عالمی سطح پر وقار کی بحالی۔ حالات و واقعات اور صاحبانِ علم کی پیشن گوئیوں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اب کی بار سمت درست ہے اور رفتار بھی حوصلہ افزا۔

حکومت کی Vision 2025 اور Uraan Pakistan جیسے منصوبے اس نئے دور کی بنیاد ہیں۔ شرح خواندگی بڑھانے سے لے کر خواتین کو بااختیار بنانے تک، توانائی کے شعبے کی بہتری سے برآمدات میں اضافے تک، یہ خاکے محض کاغذی نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ڈھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسی دوران، مذہبی قیادت نے بھی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں مسلم علماء نے اتفاق کیا کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم ایک شرعی و سماجی ضرورت ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان میں مذہب اور ترقی کو ہم آہنگ کرنے کی علامت ہے۔

سماجی میدان میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم "اخوات" جیسے لوگ غریب اور نادار طبقے کو مالی خودمختاری دے کر ایک باوقار زندگی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ قومی وقار میں اضافہ کرتا ہے۔

علم نجوم کی دنیا بھی اس بار پاکستان کے لیے اچھی خبریں سناتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 2025 کے بعد ترقی کا ایک سلسلہ شروع ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور سیاسی قیادت میں بھی تصادم کے بجائے مصالحت کا امکان بڑھ جائے گا۔

سب سے اہم تبدیلی ہماری نوجوان نسل میں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ نسل جو کبھی مایوسی اور منفی تنقید میں گم تھی، اب آہستہ آہستہ ذاتی محاسبے، تعلیم، اور مہارت کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل معیشت، فری لانسنگ، اور اسکل ڈویلپمنٹ کے مواقع کو وہ کھلے دل سے اپنا رہی ہے۔

یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی، مذہبی، عسکری اور عدالتی قیادت میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی، پاکستان کا عالمی امیج نکھرے گا، اور پاکستانی پاسپورٹ کو وہ عزت ملے گی جس کا یہ حقدار ہے۔

یوں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک روشن دور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا سفر شاید آسان نہ ہو، لیکن سمت درست ہے۔ اور جب سمت درست ہو تو وقت ہی سب سے بڑا دوست بن جاتا ہے۔

دلپزیر احمد جنجوعہ

بدھ، 6 اگست، 2025

طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر

 طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر

تحقیقی و تنقیدی جائزہ

پاکستانی مذہبی و سیاسی منظرنامے میں ڈاکٹر طاہر القادری ایک معروف شخصیت ہیں، جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے دین و سیاست کے امتزاج کا بیانیہ پیش کیا۔ ان کی علمی، سیاسی اور روحانی گفتگو میں اکثر ایسے خواب شامل ہوتے ہیں جو وہ خود کو بارگاہِ نبوی ﷺ یا روحانی دنیا سے منسوب کرتے ہیں۔ انہی میں ایک خواب کا تذکرہ انہوں نے کئی مواقع پر کیا، جس میں مدینہ منورہ جانے والی "ٹکٹ" کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا ہے۔

خواب کا خلاصہ

ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان کردہ خواب کچھ یوں ہے:

"میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک روحانی پرواز مدینہ منورہ کی جانب جا رہی ہے، اور اس پرواز کے تمام مسافروں کا کرایہ کسی کو ادا کرنا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں سب کا کرایہ ادا کرتا ہوں۔"

یہ خواب ڈاکٹر طاہر القادری کی تقاریر اور بیانات میں مختلف انداز سے ذکر ہوا ہے اور ان کے ماننے والوں میں اسے ان کی "روحانی حیثیت" کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔


تعبیر، تاویل یا تاثر؟

اس خواب کو ان کے حامی ایک "روحانی فیضان" اور دینِ اسلام کی خدمت کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری نے نہ صرف علمی و تبلیغی خدمات سرانجام دیں، بلکہ امت کو "مدینہ کی طرف لے جانے والی" ایک فکری و روحانی راہ دکھائی۔

تاہم، ناقدین اس خواب کو محض خودساختہ روحانی برتری کے دعوے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواب ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے، اسے عوامی سطح پر دلیلِ عظمت یا حقانیت کے طور پر پیش کرنا علمی و دینی اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔


خوابوں کی شرعی حیثیت

اسلامی فقہ اور حدیث کی روشنی میں خواب تین قسموں کے ہوتے ہیں:

  1. رحمانی خواب: جو اللہ کی طرف سے خوش خبری یا ہدایت کے طور پر آئے۔

  2. نفسیاتی خواب: جو انسان کے خیالات، اضطراب یا روزمرہ کے معمولات پر مبنی ہوں۔

  3. شیطانی خواب: جو فتنہ، خوف یا گمراہی پیدا کریں۔

جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:

"الرُّؤْيَا ثَلَاثَةٌ: فَرُؤْيَا صَالِحَةٌ بُشْرَى مِنَ اللَّهِ، وَرُؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَرُؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ الْمَرْءَ نَفْسَهُ"
(صحیح مسلم)

یعنی خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: نیک خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، غمناک خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، اور وہ خواب جو انسان اپنے خیالات سے بناتا ہے۔


تاریخی تناظر میں "روحانی خوابوں" کا سیاسی استعمال

ہمارے معاشرے میں "خواب" کو بعض اوقات سیاسی یا نظریاتی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے:

  • مولانا غلام محمد سیالویؒ سے منسوب "شہنشاہ جارج کا تاج" والا خواب

  • اوریا مقبول جان کا خواب کہ "جنرل باجوہ کی تقرری بارگاہِ رسالت سے ہوئی"

  • یا بعض سیاستدانوں کے دعوے کہ انہیں خواب میں "حکم" ملا کہ وہ قیادت کریں

ان تمام خوابوں کا ایک مشترکہ پہلو یہ ہے کہ یہ خواب سنانے والے اپنی رائے، فیصلے یا عمل کو ایک روحانی جواز عطا کرتے ہیں۔ لیکن یہ روش معاشرتی و فکری سطح پر ایک خطرناک رجحان کو جنم دیتی ہے: غیبی دعوے کو دنیوی اختیار کا جواز بنانا۔


نتیجہ

ڈاکٹر طاہر القادری کا خواب ایک ذاتی روحانی تجربہ ہو سکتا ہے، مگر اسے کسی نظریے، تحریک یا شخصیت کی حقانیت کا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ خواب شریعت نہیں، نہ ہی ان سے حتمی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ دین میں ایمان، علم اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتے۔

روحانیت کا اصل مطلب ہے دل کی اصلاح، عمل کی سچائی، اور باطن کی پاکیزگی۔ خواب اگر اس راہ پر استقامت دیں، تو خیر؛ لیکن اگر خواب، اقتدار، شہرت یا اختیار کا وسیلہ بنیں تو پھر ان کی حقیقت کی جانچ ضروری ہو جاتی ہے۔


اگر آپ چاہیں تو میں اس موضوع پر مزید حوالہ جات یا تقابلی جائزہ بھی شامل کر سکتا ہوں، یا اسے ایک کتابی مضمون یا کالم کی شکل میں ترتیب دے سکتا ہوں۔

پیر، 4 اگست، 2025

سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34


 


وعدے کی اہمیت — فلم سے حقیقت تک

برصغیر میں بننے والی شہرۂ آفاق فلم "مغلِ اعظم" کا ایک منظر آج بھی مجھے ذہن میں تازہ ہے۔ بادشاہ محل کی ایک خادمہ کو انگوٹھی انعام میں دیتے ہوئے کہتا ہے:
"تم زندگی میں مجھ سے کچھ بھی مانگو، عطا کیا جائے گا، اگر ہم بھول جائیں تو یہ انگوٹھی ہمارے وعدے کی گواہ ہوگی۔"

 وہ وعدہ بادشاہ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے، مگر اسے اپنے قول کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ یہ فلمی سین کوئی معمولی منظر نہیں، بلکہ اقتدار، تعلقات اور وعدے کی گہرائی کو خوبصورت انداز میں سمجھانے کی مثال ہے۔

اسی اصول پر اگر ہم اپنی زندگیوں، اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کو پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وعدے کی پاسداری صرف فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی عزت و وقار کی بنیاد ہے۔

وعدہ — دینِ اسلام کی روشنی میں

اسلام وعدے کو محض اخلاقی یا سماجی رویہ نہیں بلکہ دینی فریضہ قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"
(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"جس میں تین باتیں ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔"
(بخاری، حدیث نمبر: 33)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہمارے لیے سبق ہے۔ جب ان کی وفات قریب آئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق دیا گیا وعدہ یاد کیا اور فرمایا:
"میں نفاق کی علامت کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر نہیں ہونا چاہتا، لہٰذا میں وعدہ پورا کرتا ہوں۔"

صلح حدیبیہ — وعدے کی لازوال مثال

تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب صلح حدیبیہ ہے، جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ زخموں سے چور، بیڑیوں میں جکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مدینہ لے جانے کی درخواست کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات کی شدت کے باوجود معاہدے کی پابندی کی اور ابو جندل کو اہلِ مکہ کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وعدہ جذبات سے بڑا، تعلقات سے مقدم اور وقتی فائدے سے برتر ہے۔

وعدہ — صرف مذہبی یا سیاسی نہیں، روزمرہ زندگی کی ضرورت

بدقسمتی سے وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔ نکاح کارڈ پر وقت عصر کے بعد لکھا جاتا ہے، مگر بارات عشاء کے بعد آتی ہے۔ ولیمہ آٹھ بجے کا ہوتا ہے، لیکن کھانے کی ابتدا دس بجے ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے وعدوں کو توڑنا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے، اور یہی بے نظمی، بے وقت حاضری، اور بد اعتمادی کی جڑ ہے۔

معاشرتی زوال اور وعدہ خلافی

قوموں کی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا عمارتوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقیات، اعتماد اور قول کی پابندی سے ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے وعدہ توڑا، وہ ٹوٹ گئیں۔ وعدہ خلافی صرف فرد کی بدنامی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ساکھ کو برباد کر دیتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر آج بھی یہ الفاظ کندہ ہیں:
"محمد الرسول، صادق الوعد، الامین۔"
یہ الفاظ محض تعریفی القابات نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے عملی نصیحت ہیں کہ وعدہ نبھانا ایمان اور دین کا تقاضا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرمایا کرتے:
"جس میں امانت داری نہیں، اس کا ایمان نہیں، اور جس میں وعدے کی پابندی نہیں، اس کا دین نہیں۔"
(مشکوٰۃ المصابیح)

 وعدے کی پاسداری، ترقی کی پہلی سیڑھی

معاشرتی مسائل، انتشار، بد اعتمادی، اور زوال کی اصل جڑ وعدہ خلافی ہے۔ جب ہم چھوٹے وعدے پورے کرنا سیکھیں گے، وقت کی پابندی اپنائیں گے، تعلقات میں سچائی اور معاہدوں میں سنجیدگی لائیں گے، تب ہی ہم ایک بہتر معاشرہ، ایک مضبوط قوم، اور دنیا میں باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔

قوم کی ترقی کا آغاز وعدوں کی پاسداری سے ہوتا ہے، اور زوال کی کہانی وعدہ خلافی سے لکھی جاتی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم قول کے سچے بن کر تاریخ کا روشن باب بننا چاہتے ہیں یا وعدہ خلافی کی تاریکی میں گم ہو جانا چاہتے ہیں۔

اتوار، 3 اگست، 2025

سور بقرہ ایت 85



"کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟"

قرآنِ کریم انسان کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، اور اس میں ایسے اصول اور احکام بیان کیے گئے ہیں جو کسی خاص قوم یا دور کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہر دور اور ہر قوم کے لیے یکساں ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 85 میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ"
"کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ تو جو لوگ تم میں ایسا کریں، ان کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟ اور قیامت کے دن ان کو سخت عذاب میں ڈال دیا جائے گا، اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔" (البقرہ 85)

بنی اسرائیل کی کوتاہیاں
یہ آیت خاص طور پر بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر تنقید کرتی ہے۔ بنی اسرائیل وہ قوم تھی جسے اللہ نے بے شمار انبیاء عطا فرمائے، آسمانی کتابیں دیں، معجزات دکھائے، اور دنیا میں عزت عطا کی۔ مگر اس قوم نے جب اللہ کے کچھ احکام کو مانا اور کچھ کو پسِ پشت ڈال دیا تو ان پر اللہ کی مدد موقوف ہو گئی۔ وہ حدوداللہ کی پابندی نہ کرتے، احکامِ تورات کو اپنی خواہشات کے تابع کر دیتے، اور صرف ان باتوں پر عمل کرتے جو ان کے مفاد میں ہوتیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ ہفتے کے دن شکار نہ کریں، تو انہوں نے حیلے بہانے تلاش کیے۔ جب جہاد کا حکم آیا تو بزدلی اور دنیا پرستی کا مظاہرہ کیا۔ انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ آئے، اور اللہ کی کتاب میں تحریف تک کر ڈالی۔
ان کی یہ روش بنی اسرائیل کے زوال کا سبب بنی۔ وہ جو کبھی "اللہ کے منتخب بندے" تھے، دنیا میں رسوائی کا نشان بن گئے، ان پر ذلت اور محکومی مسلط کر دی گئی، اور وہ زمین میں بکھر کر رہ گئے۔

مسلمانوں کی حالتِ زار
آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو بنی اسرائیل نے کیں۔ ہم نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے ظاہری اعمال پر تو زور دیتے ہیں لیکن دیانت، عدل، انصاف، جھوٹ سے اجتناب، ناپ تول میں انصاف، غیبت، بدگمانی، رشوت، ظلم، دھوکہ دہی، تکبر، اور ریاکاری جیسے گناہوں کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، ہم سنت کی بات کرتے ہیں مگر زندگی میں اسے نافذ کرنے سے گریزاں ہیں۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں دین الگ اور دنیا الگ کر دی گئی ہے۔ ہمارے سیاستدان اسلامی اقدار کی بات کرتے ہیں مگر عمل میں دنیا پرستی، کرپشن اور اقربا پروری غالب ہے۔ ہمارے تاجر "بسم اللہ" کہہ کر ترازو میں دو نمبری کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے پاس بے پناہ وسائل، تیل، گیس، افرادی قوت، اور قدرتی دولت ہونے کے باوجود وہ مغربی طاقتوں کے محتاج ہیں، اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ہم صرف وہی اسلامی احکام مانتے ہیں جو ہمارے مفاد میں ہوں، باقی کو یا تو فراموش کر دیتے ہیں یا نظرانداز۔

اللہ کی سنت: نہ بدلنے والی
اللہ تعالیٰ کی سنت نہ کبھی بنی اسرائیل کے لیے بدلی، نہ آج کے مسلمانوں کے لیے بدلے گی۔
"وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا"
"اور تم اللہ کی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔" (الاحزاب: 62)

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو، تو ہمیں پورے دین کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ عمل کی کتاب بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں اللہ کی رضا مقدم رکھنی ہوگی، نہ کہ اپنی خواہشات۔ امتِ مسلمہ کو دوبارہ عروج تب ہی ملے گا جب وہ دین کے ہر حکم کو دل سے تسلیم کرے گی اور عملاً نافذ کرے گی، خواہ وہ حکم اسے وقتی طور پر کٹھن ہی کیوں نہ لگے۔

سورہ البقرہ کی یہ آیت صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس قوم کے لیے ایک آئینہ ہے جو اللہ کی کتاب کے ساتھ دوہرا معیار رکھتی ہے۔ جب تک ہم اللہ کے احکام کو مکمل طور پر اختیار نہیں کرتے، ہمیں دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ملے گی اور آخرت میں بھی سخت عذاب کا سامنا ہو گا۔ اگر ہمیں اپنی حالت بدلنی ہے تو ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی۔
"اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔" (الرعد: 11)


بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے





 بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے

بڑھاپا زندگی کی سب سے سچی حقیقت ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں جسم کی توانائی، آنکھوں کی چمک، آواز کی روانی اور ذہن کی چستی پیچھے رہ جاتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان کا دل، بڑھاپے میں بھی، ویسا ہی حساس اور محبت کا طلبگار رہتا ہے جیسا بچپن میں ہوتا ہے۔
اس عمر میں سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے — وقت۔
نہ پیسہ، نہ دوائی، نہ آرام دہ بستر — فقط تھوڑا سا وقت، محبت بھرا لمس، اور چند لمحوں کی دلجوئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آج کی اولاد والدین کی اس محبت کی بھیک دینے پر بھی تیار نہیں۔ وہ ماں جس نے راتیں جاگ کر بچے پالے، وہ باپ جس نے اپنی خواہشیں مار کر بچوں کو سہولت دی — وہی ماں باپ آج ضعیفی کی دہلیز پر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باپ، ماں کے برعکس، سوال کا عادی نہیں ہوتا۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کو دباتا ہے، دکھ کو چھپاتا ہے، اور اولاد کی مصروفیت کا عذر خود بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کی ذاتی ضروریات پر نظر رکھے، ان میں کسی کمی کو محسوس کرے اور اس کی تلافی کرے۔
بڑھاپے میں والدین کی خدمت صرف خدمت نہیں، ان کی روح کی غذا ہے۔
ان کا ہاتھ تھامنا، ان کے چہرے کو چھونا، ان سے محبت سے بات کرنا — یہ سب انہیں توانائی دیتا ہے۔ یہ سادہ سے عمل انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے بچوں کی دنیا کا حصہ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بڑھاپے میں نظر انداز کیے گئے والدین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ "خرچ" یا "پرائیویسی" کے لیے "غیر موزوں" ہو گئے۔
ایک 78 سالہ شخص لاہور کی سڑک پر روتا ہوا ملا جسے بیٹے نے نکال دیا۔ کراچی کی ایک ماں، الزائمر کی مریضہ، ایدھی ہوم میں پڑی رہتی ہے اور دن رات بیٹوں کو یاد کرتی ہے۔ راولپنڈی کا ایک استاد، جو سینکڑوں بچوں کا استاد رہا، بڑھاپے میں فٹ پاتھ پر آ بیٹھا۔
ان مناظر کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں، انہیں محسوس کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔"
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص برباد ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔"
اسلام صرف عبادات کا دین نہیں، یہ تعلقات کا بھی دین ہے۔ اور سب سے پہلا تعلق — والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔
روزانہ اگر صرف پانچ منٹ بھی والدین کے ساتھ گزار لیے جائیں، ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے، ان کی بات سنی جائے — تو وہ دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے:
کیا ہماری مصروفیات، ہمارے والدین سے زیادہ قیمتی ہیں؟
کیا آج جو وقت بچا رہے ہیں، وہی کل ہمارے بچے ہمیں واپس دیں گے؟
یاد رکھیں، بڑھاپا وقت نہیں مانگتا — محبت مانگتا ہے، موجودگی مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے والدین کو وقت نہ دیا، تو کل ہم وقت کے سب سے بڑے قیدی ہوں گے — اور شاید ہمارے بچے بھی ہماری ہی مثال کو دہرا رہے ہوں گے۔

(یہ کالم "بڑھاپے" پر ایک اجتماعی اور ذاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسے ضرور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی ایک یاد دہانی سمجھا جائے، نہ کہ فقط ایک تحریر۔)

ہفتہ، 2 اگست، 2025

دولت کو راستہ دو




دولت کو راستہ دو

یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "پاکستان ایک غریب ملک ہے"، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے بلکہ ایسے باصلاحیت، جفاکش، اور ذہین لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ غربت نہیں، بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم، اس کا درست بہاؤ، اور امیروں سے نفرت کی وہ فضا ہے جس نے معاشرتی ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
پاکستان کے  ایک تحقیقی ادارے نے حال ہی میں ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں  35 خاندان ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔  ایوب دور کے 22 سرمایہ دار گھرانوں کے خلاف ایک بیان اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے دیا اور امارت کے غلاف نفرت کا پہلا بیج بویا جو اب تناور درخت بن چکا ہے  ہر امیر آدمی، بڑے گھر اور قیمتی گاڑی کو دیکھ کر ناظر کے زہن میں ایک ہی لفظ آتا ہے "چور"۔
اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کو کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کے خدام کی تعداد ہزاروں میں تھی اور ان کے جانوروں کے ریوڑ اتنے تھے کہ ان کے چرواہوں کی جماعتیں تشکیل دی گئی تھیں۔ حضرت یوسفؑ، جو مصر کے وزیر خزانہ بنے، نے نہ صرف سلطنت کی معیشت کو بچایا بلکہ خود بھی حکومتی دولت کے نگران بنے۔ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ ان کے پاس ہواؤں، جنات، پرندوں اور بے پناہ خزانوں کا کنٹرول تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابہ شامل تھے جنہوں نے اپنی دولت سے اسلام کو مستحکم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ایک موقع پر پورا لشکر تیار کر کے دیا، اور ان کے باغات مدینہ میں آج بھی موجود ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں دولت مند ہونے کو فخر یا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے 
"وَأَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم"
یعنی "اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا۔"
اس کا مطلب ہے کہ دولت ہو تو خرچ کرنے کا حکم ہے، رکھی نہ جائے۔
یورپ، امریکہ اور چین میں امیر افراد کو قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہاں کے امیر لوگ سادگی سے رہتے ہیں، مگر اپنی دولت کو کاروبار اور فلاح میں لگاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ داروں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ، یہاں 300، 700 یا 1200 کنال کے محلات میں صرف دو انسانوں اور تین کتوں کا قیام معاشرتی توازن بگاڑتا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
پاکستان میں وہ دماغ، وہ صلاحیت، وہ وژن موجود ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہاں اتنا سرمایہ موجود ہے کہ اگر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو یہی مقامی سرمایہ غیر ملکی سرمایہ کو مقناطیس کی طرح کھینچ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہنر اور مواقع دیے جائیں، تاکہ وہ  اپنی بلکہ اپنے خاندان کی حالت بدل سکیں۔ غریبوں کو نفرت کے بجائے امید دی جائے، محنت کے ذریعے خوشحال ہونے کا خواب دکھایا جائے، اور دولت مندوں کو تجوریوں میں سونے ڈالنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سال نئی پالیسیوں اور قوانین سے گریز کیا جائے۔ ایک طویل المدتی معاشی روڈ میپ تشکیل دیا جائے جو کم از کم 10 سال پر محیط ہو۔ یقین کریں، اگر ہم نے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے عمل کیا، تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں جذبے کی کمی نہیں، ہنر کی قلت نہیں، اور خواب دیکھنے والے آج بھی بے شمار ہیں۔
دولت برائی نہیں، اس کا غلط استعمال اور دکھاوا مسئلہ ہے۔ امیروں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں معاشرے کے محرک کے طور پر قبول کریں، اور غریبوں کو عزت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھائیں۔ یہی 
ترقی  کا فارمولا ہے۔
جہاں تک خواب دیکھنے کا تعلق ہے 
  ذولفقار علی بھٹو نے تیل سے لبریز ایک
ایک بوتل اپنے دفتر کے میز پر سجائی تھی، میاں نواز شریف کی تصاویر بھی موجود ہیں جس میں وہ دھات کا ایک راڈ اٹھائے ہوئے چنیوٹ کا ذکر کر رہے تھے ، عمران خان فرماتے تھے  کے پی کے میں پانی کے لیے  کنواں کھودا جائے تو پانی کی بجائے تیل نکل آتا ہے ۔ 
پاکستانی معجزے برپا کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف سرپرستی اور میدان عمل مہیا ہو جائے تو نتیجہ وہ خود نکال لیں گے ۔

جمعہ، 1 اگست، 2025

ایک تاریک محاذ





صیہونیت اور ہولوکاسٹ کی سیاست: 

برس ہا برس تک یورپ کے یہودی اپنے گھروں، چرچوں اور بازاروں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میں صیہونی تحریک نے اپنے پیش رووں کو یہ پیام دیا کہ “محفوظ رہنے کے لیے آپ کو ایک خود مختار ریاست چاہیے”۔ پھر آیا ہولوکاسٹ — وہ انسانیت سوز المیہ جس نے چھ لاکھ یہودیوں کی جانیں نگل لیں۔ کیا ہولوکاسٹ نے صیہونیت کو جواز بخشا؟ یا صیہونی حکمت عملی نے اس المیہ کو سیاسی ہتھیار میں بدل دیا؟
 ہولوکاسٹ: صیہونیت کے لیے نیا حجت نامہ؟

1933
 سے 1945 تک نازی جرمنی نے یہودیوں کو 
منظم
 طریقے سے قتل کیا۔ یروشلم کے عقیدے میں قیامت صفت واقعہ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ صیہونی رہنماؤں نے اس المیے کو “عالمی ہمدردی” کی ایک سونامی میں بدل دیا۔ بلاشبہ یہ المیہ خود ایک تاریخ کا بدترین باب تھا، لیکن اس کی سیاسی استحصال نے صیہونیت کو
اخلاقی جواز فراہم کیا — ’’ہمیں اپنا وطن چاہیے‘‘

مغربی طاقتوں کو اسرائیل کی حمایت پر آمادہ کیا گیا، جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین کی قرارداد 
(1947)۔
ہولوکاسٹ کے بعد دنیا نے 
“Never Again”
 کا نعرہ لگایا۔ مگر کیا واقعی “دوبارہ نہیں” کے وعدے کا مرکز صرف یہودی المیے کی تکرار سے حفاظت تھا؟ یا اس کا ایک مظلومیت کا بیانیہ تھا، جس سے وہ ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو فلسطینیوں کے خون سے مسرور تھی؟
جب مغربی ممالک نے یہودیوں کو محفوظ اڈا دینے کا وعدہ کیا، تو فلسطینیوں کو اندھا دھند بے دخل کیا گیا۔
“Never Again”
 کا نعرہ اقوامِ متحدہ میں قراردادوں تک محدود رہا، عمل نہیں سامنے آیا۔
آج کل یورپ اور امریکہ میں ہر میوزیم اور تعلیمی پروگرام میں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہ یادگاری
صیہونی سفارت کاری کے زیر اہتمام چلتی ہے۔
مدرسوں، یونیورسٹیوں، اور سرکاری اداروں میں “ہولوکاسٹ ایجوکیشن” کے نام سے ہرگزروسی ضد ہوتی ہے۔
اس تعلیمی دباؤ نے آزاد تحقیق کو محدود کیا اور صیہونی روایت کو مقدس بنا دیا۔
نتیجتاً ہولوکاسٹ نے  فراہم کر دیا، جس کے خلاف تنقید مذہبی توہین کہلائی جاتی ہے۔
 سیاسی ہتھیار: ہولوکاسٹ سے استثناء؟
صیہونی ریاست جب فلسطینیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے، تو عالمی سطح پر مخالفت تو ہوتی ہے مگر فوری “مزدوری” کا شور بلند نہیں ہوتا۔ کیونکہ:
زچیت میڈیا ہولوکاسٹ کا حوالہ دے کر اسرائیلی کارروائیوں کو “تسلیم شدہ دفاع” کا درجہ دے دیتا ہے۔
اور فلسطینیوں کی حالت “غیر متعلقہ داخلی معاملات” بن جاتی ہے۔
یورپی یونین میں اکثر قراردادیں تو پاس ہوتی ہیں، مگر فنڈز دینے اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ ہولوکاسٹ کا المیہ ایک مستقل “سیاسی استثناء” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
 حقائق پر پردہ، المیے کی سیاست
کیا یہ درست ہے کہ ہولوکاسٹ کے زخم ہمیشہ تازہ رکھے جائیں مگر فلسطینی سربریدہ المیے کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے؟ اس میں دوہرے معیار کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے:
یہودی حقوق کی عالمی مہم کو ہر فورم پر سرفہرست رکھا جاتا ہے؛
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندیاں لگتی ہیں یا انہیں دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک المیہ کو یاد رکھنا انسانی فریضہ ہے، مگر دوسرا المیہ صرف سفارتی مذاکرات اور “میدانِ جنگ” میں لٹکایا جاتا ہے۔
 سوالِ ضمیر: انسانیت یا سیاست؟
ہولوکاسٹ نے ہمیں انسانیت کی بقاء کا سبق دیا۔ مگر اس واقعے کی سیاست نے ہمیں یاد دلایا کہ:
“مظلومیت کا بیانیہ جتنا درست، اس کا سیاسی استعمال اتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے۔”
یہ وقت ہے کہ ہم پوچھیں:
کیا صیہونی لابی ہولوکاسٹ کو محض سیاسی شرط بندی کے لیے استعمال کر رہی ہے؟
کیا انسانی المیات کا استحصال انسانی اقدار کے منافی نہیں؟
اور آخر کار، کیا انسانی بہبود کو مقدم رکھ کر ایک منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟

تقسیم کے بیج



اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" حکمتِ عملی

"تقسیم کرو اور حکومت کرو" (Divide and Rule) کی پالیسی انسانی تاریخ میں نوآبادیاتی طاقتوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر طویل حکومت کی، جبکہ روم کے حکمرانوں نے یونانی ریاستوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر انہیں محکوم بنایا۔ تاہم، جدید دور میں اگر کسی ریاست نے اس پالیسی کو بڑی چالاکی اور تسلسل سے استعمال کیا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔

اسرائیل نے اپنے وجود کے بعد جس انداز میں مسلم دنیا میں قومیت، مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے بیج بوئے، وہ خالصتاً ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ مسلم دنیا متحد نہ ہو سکے۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے اُن اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے مسلم دنیا کو تقسیم کیے رکھا:
1۔ عرب و عجم اختلافات کو ہوا دینا

عرب و عجم اختلاف کا تاریخی پس منظر قدیم دور سے موجود رہا ہے، لیکن اسلام نے ان امتیازات کو مٹا دیا تھا۔ بدقسمتی سے جدید دور میں ان اختلافات کو ایک بار پھر اجاگر کیا گیا، خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی کے ذریعے۔

اسرائیل نے ان اختلافات کو اپنی بقا کا ذریعہ بنایا۔ ایران کے انقلابِ اسلامی کے بعد مغربی میڈیا نے اسے "شیعہ خطرہ" بنا کر پیش کیا، جس سے سنی عرب ریاستیں خوف زدہ ہوئیں۔ اسرائیل نے اس فرقہ وارانہ بیانیے کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر تقویت دی، تاکہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہیں۔
2۔ کرد ریاست کا تصور

کرد، مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی اپنی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں۔ اسرائیل نے کردوں کی آزادی کی تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے خفیہ طور پر عسکری امداد بھی فراہم کی۔ 1960 کی دہائی میں عراق کے کردوں کو موساد نے ٹریننگ دی اور ہتھیار فراہم کیے۔

2017 میں جب عراق کے کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروایا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر خیرمقدم کیا۔ اس کا مقصد واضح تھا: عراق جیسے مضبوط مسلم ملک کو کمزور کر کے اسے اندرونی طور پر تقسیم کرنا۔
3۔ سعودی-ایرانی اختلافات کو شدت دینا

اسرائیل کا سب سے بڑا فائدہ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تناؤ سے ہوا۔ جب بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں بہتری کا امکان پیدا ہوتا، اسرائیل یا اس کے حلیف کوئی ایسا واقعہ ترتیب دیتے جس سے کشیدگی دوبارہ بھڑک اٹھے۔

مثلاً 2016 میں ایرانی مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارتخانے پر حملہ ہو یا یمن جنگ، ان تمام واقعات میں اسرائیلی تھنک ٹینکس نے دونوں فریقوں کی سوچ کو مزید سخت بنانے میں کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ سعودی عرب اور ایران کا اتحاد خطے میں اسرائیلی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گا۔
4۔ دروز کمیونٹی کی اسرائیل نوازی

دروز ایک منفرد مذہبی کمیونٹی ہے جو لبنان، شام، اردن اور اسرائیل میں موجود ہے۔ اسرائیل نے دروز کو اپنے معاشرے میں ضم کر کے انہیں دیگر عرب اقلیتوں سے الگ رکھا، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج میں بھی دروز نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

اس حکمت عملی سے اسرائیل نے عرب اتحاد کے ایک اور ممکنہ دھارے کو الگ کر دیا، اور دروز کمیونٹی کو ایک مخصوص شناخت دے کر عرب مسلم قوم پرستی سے کاٹ دیا۔ دروز اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں بطور انٹیلی جنس ایجنٹس اور افسران بھی موجود ہیں۔
5۔ عرب دنیا میں چھوٹے چھوٹے تنازعات کو بڑھاوا دینا

اسرائیل نے نہ صرف سعودی-ایرانی یا کرد-عرب اختلافات کو بڑھایا بلکہ مصر-ترکی، شام-اردن اور لبنان-خلیجی ممالک کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اسرائیلی میڈیا اور تھنک ٹینکس ان تمام تنازعات میں بطور پروپیگنڈہ مشینری کام کرتے رہے۔
نتیجہ: امت کی وحدت کے خلاف ایک منظم مہم

اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" پالیسی نے صرف فلسطین پر قبضے کو قائم نہیں رکھا، بلکہ پورے خطے میں مسلم اتحاد کو ممکن نہ بننے دیا۔ قومیت، فرقہ، نسل اور زبان کے نام پر تقسیم شدہ مسلمان آج بھی اسرائیل کو ایک مشترکہ دشمن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

جب تک مسلم دنیا تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی اور اتحاد و شعور کی راہ اختیار نہیں کرتی، اسرائیل جیسی ریاستیں اپنے مفادات کے لیے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالتی رہیں گی۔

بنی اسرائیل کون تھے؟




بنی اسرائیل کون تھے؟

بنی اسرائیل کا مطلب ہے "حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد"۔ عربی میں "بنی" کا مطلب ہے "بیٹے" اور "اسرائیل" حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جس کا مطلب بعض روایات کے مطابق "اللہ کا بندہ" یا "اللہ کا مجاہد" لیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ قرآن و بائبل دونوں میں ان کا ذکر ہے اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی ابتدا اور تاریخی پس منظر:

بنی اسرائیل درحقیقت ایک قوم تھی جس کی شروعات حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہوئیں۔ انہی بارہ بیٹوں کی نسل آگے جا کر بارہ قبائل میں تقسیم ہوئی، جو مجموعی طور پر "بنی اسرائیل" کہلائے۔ یہ قوم سب سے پہلے شام، فلسطین اور مصر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔
مصر میں قیام اور غلامی:

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے، جہاں ابتدائی دور میں انہیں عزت ملی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ فرعونوں کے دور میں یہ قوم غلامی، مظالم اور ذلت کا شکار ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خروج مصر:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی اور رہائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ انہوں نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی اور انہیں مصر سے نکال کر وعدے کی سرزمین (فلسطین) کی طرف روانہ کیا۔ اس واقعے کو "Exodus" یا خروجِ مصر کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی خصوصیات اور ان کی غلطیاں:

بنی اسرائیل وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء، معجزات اور آسمانی کتابوں سے نوازا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات، ان کی آزمائشوں، ناشکری، انبیاء کی نافرمانی اور بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی کا تفصیلی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی میں سے تھے۔
کیا موجودہ دور کے یہودی بنی اسرائیل ہیں؟
نسلی اعتبار سے:

جی ہاں، موجودہ دور کے بہت سے یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سفاردی، اشکنازی اور مزراحی یہودی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں آباد ہیں اور اپنی جڑیں قدیم بنی اسرائیل سے جوڑتے ہیں۔

لیکن اس بارے میں کئی تاریخی، مذہبی اور سائنسی اختلافات بھی موجود ہیں:
1. خالص نسل کا دعویٰ مشکوک:

ہزاروں سالوں میں بنی اسرائیل کی نسل میں مختلف قوموں کی آمیزش ہوئی، غلاموں، نو مسلموں، شادیوں اور مختلف اقوام میں میل جول کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ تمام یہودی خالص بنی اسرائیل ہیں۔
2. خزر یہودیوں کا معاملہ:

تاریخی شواہد کے مطابق 8ویں صدی میں وسط ایشیا کی ایک قوم "خزر" نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، حالانکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ موجودہ دور کے مشرقی یورپ کے کئی اشکنازی یہودی انہی خزر قوم کی نسل سے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انہیں خالص بنی اسرائیل ماننا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
3. مذہب اور نسل کی تفریق:

یہودیت ایک مذہب بھی ہے اور نسل بھی۔ کچھ لوگ پیدائشی یہودی ہوتے ہیں (یعنی بنی اسرائیل کی نسل سے)، کچھ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبِ یہودیت قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہر یہودی کو نسلِ بنی اسرائیل سمجھنا درست نہیں۔
خلاصہ:

موجودہ دور کے بیشتر یہودی خود کو بنی اسرائیل کی اولاد سمجھتے ہیں اور مذہبی و تاریخی حوالوں سے اس پر فخر کرتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے ان کی نسل کی خالص حیثیت پر سوالات موجود ہیں۔ بعض یہودی حقیقی بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جبکہ بہت سے یہودی دیگر اقوام کی نسل سے ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہودیت قبول کی۔

اسلامی نقطہ نظر:
قرآن مجید بنی اسرائیل کو بطور قوم مخاطب کرتا ہے اور ان کے واقعات میں عبرت، ہدایت اور انتباہ کی نشانیاں بیان کرتا ہے۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی قوم کی اصل اہمیت تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر ہے، محض نسل یا حسب نسب کی بنیاد پر نہیں۔
نتیجہ:

نسلی اعتبار سے بنی اسرائیل کی موجودگی آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، مگر خالص نسل کی پہچان تاریخی اور سائنسی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ اصل کامیابی نسل میں نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اللہ کی رضا میں ہے، جو ہر انسان کے لیے کھلا راستہ ہے۔

سورۃ الحدید، آیت 23




افسوس کی زنجیروں سے نجات پانے کا نسخہ

انسان کی فطرت ہے کہ وہ خطا کرتا ہے، غلط فیصلے لیتا ہے، اور پھر انہی غلطیوں پر افسوس اور ندامت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ افسوس اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی حالیہ زندگی اور مستقبل دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے سے کچھ حاصل ہوتا ہے؟ کیا گزرے وقت کو واپس لایا جا سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں میں الجھنے کے بجائے اُن سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"المؤمن لا يلدغ من جحر واحد مرتين"
(مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا)
(صحیح البخاری)
یعنی مؤمن ایک ہی غلطی کو بار بار نہیں دہراتا، بلکہ اپنی کوتاہی سے سبق سیکھتا ہے اور آئندہ محتاط رہتا ہے۔
افسوس میں جینا کیوں نقصان دہ ہے؟
جب انسان مسلسل یہ سوچتا ہے:
"اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا..."
"کاش میں نے وہ بات نہ کہی ہوتی..."
"اگر میں نے وہ فیصلہ لیا ہوتا تو نقصان نہ ہوتا..."
تو وہ دراصل شیطان کے ایک فریب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"اگر" کہنا شیطان کے دروازے کھولتا ہے۔
(صحیح مسلم)
یہ "اگر" کا لفظ انسان کو مایوسی، حسرت اور شک میں ڈال دیتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا، وہ اللہ کی مشیئت سے ہوا، اور مومن کا کام یہ ہے کہ وہ حال کو سنوارے اور آئندہ بہتر کی کوشش کرے۔
قرآن کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ"
(تاکہ تم ان چیزوں پر افسوس نہ کرو جو تم سے چھن گئیں، اور ان پر اتراؤ نہیں جو تمہیں ملی ہیں)
(سورۃ الحدید، آیت 23)
یہ آیت انسان کو متوازن رویہ اپنانے کا درس دیتی ہے — نہ ماضی پر حد سے زیادہ افسوس، نہ حال پر فخر و غرور۔ یہ تعلیم ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم حال میں رہیں، شکر گزار ہوں اور آئندہ کے لیے عزم کے ساتھ کام کریں۔
مثبت سوچ: اسلامی رویہ
جب بھی ماضی کی کسی کوتاہی یا نقصان کا خیال آئے، تو بجائے افسوس اور مایوسی کے، خود سے یہ کہیں:
"اگلی بار میں یہ کام بہتر انداز سے کروں گا، ان شاء اللہ۔"
یہ ایک مثبت اسلامی رویہ ہے، جو انسان کو ماضی کی تاریکی سے نکال کر مستقبل کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ"
(ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو)
(سورۃ البقرۃ، آیت 216)
یہی ایمان ہے — مومن جانتا ہے کہ ہر ناکامی میں کوئی حکمت ہے، ہر ٹھوکر میں کوئی سبق ہے، اور ہر نقصان میں کوئی تربیت۔
غم اور اندیشہ: غیر ضروری بوجھ
بیشتر انسان یا تو ماضی کے کسی حادثے کا ماتم کرتے رہتے ہیں، یا پھر مستقبل کے کسی خدشے سے پریشان رہتے ہیں۔ مگر یہ دونوں ہی کیفیتیں اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگی:
"اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من الهمِّ والحَزَنِ..."
(اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے...)
(صحیح بخاری)
یہ دکھاتا ہے کہ مسلسل غم اور اندیشہ مومن کی روحانی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
عملی راستہ: سیکھنا، شکر کرنا، آگے بڑھنا
اسلام انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ:
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے
ان سے سیکھے
اللہ سے معافی مانگے
حال کو بہتر بنائے
اور مستقبل کے لیے اللہ پر بھروسا رکھے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"
(بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے)
(سورۃ الشرح، آیت 6)

ماضی کی کوتاہیاں آپ کو روکنے والی زنجیر نہ بنیں، بلکہ وہ آپ کے عزم کا ایندھن بنیں۔ افسوس کے کمرے سے نکل کر امید کی کھڑکی کھولیں۔ جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، وہ نہ ماضی سے ڈرتا ہے، نہ مستقبل سے گھبراتا ہے۔
"مؤمن مایوس نہیں ہوتا، افسوس میں نہیں جیتا، بلکہ عمل، صبر اور توکل سے اپنا راستہ خود بناتا ہے۔"


مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد




مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد

اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر ایک یہودی ریاست کے طور پر قائم ہوئے 75 برس سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن یہ ریاست اپنے اندر ایک عجیب و غریب تضاد کے ساتھ زندہ ہے — یہودی مذہب کی روحانی تعبیر اور جدید قومی ریاست کے آئینی ڈھانچے کا ایسا تصادم، جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس داخلی کشمکش کی سب سے نمایاں شکل "مذہبی صیہونیت" اور "اسرائیلی سیکولر آئین" کے درمیان تنازع ہے، جو نہ صرف اسرائیلی معاشرے کو تقسیم کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہودی شناخت اور سیاسی مستقبل پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد
صیہونیت کی ابتدا ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی، جس کا مقصد یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر فلسطین کی سرزمین پر ایک قومی وطن قائم کرنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تحریک صرف سیاسی نہیں رہی بلکہ مذہبی صیہونیت کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی۔ مذہبی صیہونی یہودی مذہب کی اس تشریح پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے سرزمینِ اسرائیل یہودیوں کو بطور "وعدہ شدہ سرزمین" عطا کی ہے، اور یہ سرزمین کسی طور بھی غیر یہودیوں کے ساتھ تقسیم نہیں کی جا سکتی۔

یہ سوچ "توریت" کے ان حوالوں سے ماخوذ ہے جن میں ارضِ مقدس پر بنی اسرائیل کے حقِ ملکیت کو خدائی وعدے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے
"اور میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا، جو مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک ہے۔"
ایسی مذہبی بنیاد پرستی کے تحت، یہودی بستیوں کی تعمیر، مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی بحالی، اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ محض سیاسی فیصلے نہیں، بلکہ "مقدس فریضہ" بن جاتے ہیں۔

اسرائیلی آئین: ایک سیکولر ریاست کا خاکہ
دوسری جانب، اسرائیل کا آئینی ڈھانچہ خود کو ایک "جمہوری" اور "سیکولر" ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں تمام شہریوں کو برابری کا حق حاصل ہے، خواہ وہ یہودی ہوں، مسلمان، عیسائی یا دروز۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس مکمل تحریری آئین نہیں ہے، تاہم اس کی "بنیادی قوانین"  جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
اسی سیکولر فریم ورک کے تحت اسرائیلی عدالتیں، میڈیا اور بعض سیاسی جماعتیں مذہبی جنونیت کو خطرہ سمجھتی ہیں، کیونکہ اس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ خود اسرائیل کے اندر اقلیتوں اور آزاد خیال یہودیوں کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

ٹکراؤ کی عملی شکلیں
یہ نظریاتی تصادم وقتاً فوقتاً اسرائیلی سیاست میں شدت سے ابھرتا ہے
عدالتی اصلاحات کا بحران: 2023–2024 میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی، جسے لاکھوں اسرائیلی شہریوں نے "مذہبی آمریت" کی طرف قدم قرار دیا۔ ان مظاہروں نے اسرائیل کے سیکولر اور مذہبی حلقوں میں خلیج کو واضح کر دیا۔

مسجد اقصیٰ کا تنازع:
 مذہبی صیہونی گروہ بارہا مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر وہاں یہودی عبادت کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے رسمی طور پر اس عمل سے گریز کرتی ہے۔
حریدی (الٹرا آرتھوڈوکس) یہودیوں کی الگ حیثیت
 ان کے مدارس (یشیوا) کے طلبہ کو فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل ہے، جو سیکولر نوجوانوں میں غصے کا باعث بنتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ریاست اور مذہب کی کشمکش کو ہوا دیتا ہے۔

عالمی اثرات
اسرائیل کے اندر اس تضاد کا اثر صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں۔ چونکہ اسرائیل خود کو دنیا بھر کے یہودیوں کا نمائندہ سمجھتا ہے، اس لیے مذہبی صیہونیت کے انتہا پسندانہ اقدامات عالمی یہودی شناخت پر سوالیہ نشان بناتے ہیں۔ بہت سے آزاد خیال یہودی، خصوصاً امریکہ اور یورپ میں، اسرائیل کی مذہبی پالیسیوں سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔

وجود کی کشمکش
اسرائیل آج جس دو راہے پر کھڑا ہے، وہ اس کے وجود کے بنیادی سوال کو دوبارہ سامنے لاتا ہے: کیا اسرائیل ایک "یہودی مذہبی ریاست" ہے یا ایک "جمہوری قومی ریاست"؟ اگر اسرائیل مذہبی صیہونیت کی طرف جھکتا ہے تو یہ سیکولر آئینی نظام اور عالمی انسانی حقوق سے ٹکرا جائے گا۔ اور اگر وہ سیکولر رہتا ہے تو مذہبی صیہونیوں کے غصے اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ کشمکش جلد اسرائیل کی داخلی استحکام، علاقائی امن، اور دنیا بھر میں یہودی تشخص کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔

نو مسلم کا سوال



نو مسلم کا سوال
حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد ادب و احترام سے عرض گزار ہوئے:
"یا رسول اللہ ﷺ! ایک سوال ہے، اجازت ہو تو پوچھوں؟"
رحمتِ عالم ﷺ نے نرمی سے ارشاد فرمایا: "پوچھو صعصعہ، جو پوچھنا چاہتے ہو۔"
حضرت صعصعہؓ عرض کرنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! دورِ جاہلیت میں ہم نے جو نیکیاں کیں، کیا اللہ تعالیٰ ان کا بھی ہمیں اجر دے گا؟"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کیا نیکی کی؟"
صعصعہؓ نے عرض کیا:
"یارسول اللہ ﷺ! میرے دو اونٹ گم ہو گئے تھے۔ میں تیسرے اونٹ پر سوار ہو کر اُن کی تلاش میں نکلا۔ تلاش کرتے کرتے ایک پرانی بستی تک جا پہنچا، جہاں میرے اونٹ چر رہے تھے۔ ایک بوڑھا شخص جانوروں کی نگرانی کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ میرے اونٹ ہیں، اُس نے تسلیم کر لیا اور کہا: اگر تیرے ہیں تو لے جاؤ۔
اسی دوران اُس نے پانی منگوایا اور کچھ کھجوریں بھی آگئیں۔ میں پانی پی رہا تھا اور کھجوریں کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ بوڑھے نے پوچھا: بیٹا ہوا ہے یا بیٹی؟"
صعصعہؓ کہتے ہیں:
"میں نے اُس سے پوچھا: اگر بیٹی ہوئی ہو تو کیا کرو گے؟
تو وہ کہنے لگا: اگر بیٹا ہوا تو قبیلے کی شان بڑھے گی، اور اگر بیٹی ہوئی تو اُسے زندہ دفن کر دوں گا۔ میں اپنی گردن کسی داماد کے آگے جھکا نہیں سکتا۔ بیٹی کی پیدائش میرے لیے باعثِ ننگ ہے۔
یہ سن کر میرے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی، دل نرم ہو گیا۔ میں نے کہا: پہلے معلوم تو کرو، بیٹا ہے یا بیٹی؟
اُس نے خبر لی، تو پتہ چلا بیٹی ہے۔ میں نے کہا: کیا واقعی تُو اُسے دفن کر دے گا؟
وہ بولا: ہاں، ابھی۔
میں نے کہا: ایسا نہ کر، اُسے مجھے دے دے۔
وہ کہنے لگا: اگر میں اپنی بچی تمہیں دے دوں، تو تم بدلے میں کیا دو گے؟
میں نے کہا: میرے دو اونٹ لے لو، بچی دے دو۔
اس نے کہا: نہیں، تیسرے اونٹ سمیت تینوں دینے ہوں گے۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ ایک آدمی میرے ساتھ کر دو، تاکہ میں گھر پہنچ جاؤں، پھر اونٹ بھیج دوں گا۔"
حضرت صعصعہؓ کی آنکھیں نم ہو گئیں، کہنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچائی۔ اُسے گھر لا کر اپنی لونڈی کے حوالے کیا، جو اُسے دودھ پلاتی، اور وہ معصوم بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی، میرے سینے سے لگتی، اور میرا دل محبت سے بھر جاتا۔
پھر میرے دل میں یہ نیکی مزید راسخ ہو گئی۔ میں قبیلوں میں جا جا کر اُن لوگوں کو تلاش کرنے لگا جو بیٹیوں کو دفن کرتے تھے۔ یارسول اللہ ﷺ! ہر بار میں تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچاتا۔ یہاں تک کہ میں نے ۳۶۰ بچیوں کی زندگیاں بچائیں۔ وہ سب میری حویلی میں پلیں۔
یارسول اللہ ﷺ! کیا میرے رب مجھے اس کا اجر دے گا؟"
یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، رخسار مبارک تر ہو گئے، آپ ﷺ نے صعصعہؓ کو سینے سے لگایا، پیشانی چومی اور فرمایا:
"صعصعہ! تیرا رب تجھے ضرور اجر دے گا، بلکہ اُس نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے۔ یہ دنیا میں تیرا انعام ہے۔
اور سن لو! تمہارے رسول ﷺ کا تم سے وعدہ ہے کہ قیامت کے دن ربِ کریم تم پر اپنے خزانے کھول دے گا۔"