ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

نوبختی خاندان

نوبختی خاندان 
ہم جب اسلامی تاریخ کے علمی خانوادوں پر نظر ڈالتے ہیں تو کچھ نام محض افراد نہیں رہتے بلکہ پورے فکری ادوار کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ نوبختی خاندان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ خاندان عباسی دور کے ابتدائی زمانے میں نہ صرف دربارِ خلافت سے وابستہ رہا بلکہ علم، عقل اور روایت کے باہمی امتزاج کی ایک روشن مثال بھی بنا۔
نوبختی خاندان کی جڑیں قبل از اسلام ایران کی علمی روایت میں ملتی ہیں۔ نوبخت بن فیروز، جو اس خاندان کے بانی سمجھے جاتے ہیں، علمِ نجوم کے ماہر تھے۔ عباسی انقلاب کے بعد جب بغداد نئی خلافت کا مرکز بنا تو نوبخت اور ان کے اہلِ خانہ کو دربار میں خاص مقام ملا۔ روایت ہے کہ بغداد شہر کی بنیاد رکھتے وقت سعد ساعت کے تعین میں نوبختی علما سے مشورہ لیا گیا۔ یہ اس زمانے کی فکری فضا کا عکس تھا، جہاں علمِ نجوم کو ریاستی منصوبہ بندی سے الگ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
عباسی عہد کا ایک نمایاں پہلو ترجمہ اور علم کی سرپرستی تھا۔ یونانی، فارسی اور ہندی علوم کو عربی میں منتقل کرنے کی جو تحریک شروع ہوئی، نوبختی خاندان اس کے فکری ماحول کا حصہ رہا۔ اگرچہ تمام تراجم براہِ راست ان کے نام سے منسوب نہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان نے اس علمی فضا کو جنم دینے اور اسے فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہی وہ دور تھا جب عقل، فلسفہ اور تجربے کو دینی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں زور پکڑ رہی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ نوبختی خاندان کی ایک شاخ نے علمِ کلام میں نمایاں مقام حاصل کیا، خصوصاً امامیہ شیعہ روایت کے اندر۔ ابو سهل اسماعیل بن علی النوبختی اور حسن بن موسیٰ النوبختی جیسے علما نے عقلی استدلال کو مذہبی مباحث کا حصہ بنایا۔ حسن بن موسیٰ النوبختی کی تصنیف فرق الشیعہ آج بھی شیعہ فرقوں کی تاریخ پر ایک بنیادی ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں اختلاف کو محض فتنہ نہیں بلکہ ایک تاریخی اور فکری حقیقت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
نوبختی خاندان کا اصل امتیاز یہی تھا کہ وہ روایت اور عقل کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے بجائے دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے ہاں فلسفہ کوئی اجنبی علم نہیں تھا بلکہ ایسا ذریعہ تھا جس کے ذریعے عقائد کو بہتر طور پر سمجھا اور واضح کیا جا سکتا تھا۔ یہی طرزِ فکر بعد میں اسلامی کلام کی تشکیل میں دور رس اثرات کا باعث بنی۔
چوتھی صدی ہجری کے بعد نوبختی خاندان اجتماعی طور پر تاریخ کے منظرنامے سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے۔ عباسی خلافت کی کمزوری، درباری سرپرستی کا خاتمہ اور علمی مراکز کی تبدیلی نے اس خاندان کی شناخت کو منتشر کر دیا۔ مگر تاریخ کا اصول یہی ہے کہ بعض نام خاموش ہو جاتے ہیں، ان کے افکار نہیں۔ نوبختی علما کی تحریریں اور فکری اثرات بعد کے زمانوں میں مختلف صورتوں میں زندہ رہے۔
 نوبختی خاندان کا ذکر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اسلامی تہذیب کسی ایک نسل، زبان یا خطے کی پیداوار نہیں تھی۔ یہ مختلف تہذیبوں، علوم اور فکری روایتوں کے امتزاج سے بنی۔ نوبختی خاندان اسی امتزاج کی ایک علامت ہے—ایرانی دانش،عباسی سیاست اور اسلامی فکر کے درمیان ایک خاموش مگر مضبوط ربط۔

Pakistan’s Evolving Strategic Role

Pakistan’s Evolving Strategic Role

Pakistan’s international standing has risen markedly amid recent geopolitical shifts. Strategic engagements, diplomatic outreach, and participation in high‑level global forums have underscored Islamabad’s increased relevance in international affairs and attracted sustained attention from major powers. For example, Pakistan’s leadership held multiple high‑profile meetings with U.S. counterparts in 2025, drawing significant global attention to its diplomatic posture. [1]

In the context of 21st‑century great‑power rivalry, the United States, China, and Russia are actively seeking reliable partners to secure influence across the vast Eurasian landmass. Pakistan’s geographic location at the nexus of West, South, and Central Asia positions it as a crucial strategic “pivot” state in this emerging multipolar order. Its role is underscored by its access to key land and maritime routes and by its involvement in regional initiatives that intersect with great‑power strategies. [2][4]

Contrary to reductionist portrayals—such as those propagated in parts of India that dismiss Pakistan as a “failed state”—geopolitical realities reflect a more nuanced picture. Strategic utility, access, and influence often outweigh unidimensional assessments based solely on economic indicators. Contemporary global strategic assessments recognize that Pakistan’s location and relationships confer leverage, particularly as powers recalibrate their priorities in Eurasia’s complex security and economic landscape. [6][9]

Pakistan’s strategic value is multifaceted. Its landmass offers access routes to South and Central Asia and proximity to the Arabian Sea, presenting logistical and security benefits for external powers seeking regional connectivity. Initiatives such as the China‑Pakistan Economic Corridor (CPEC) enhance Pakistan’s role in China’s regional economic architecture, while Islamabad’s diplomatic outreach to the United States and Gulf states has diversified its partnerships. [4][1] This reflects Pakistan’s broader strategy of balancing relationships across multiple power centers rather than aligning solely with one bloc.

Pakistan’s active involvement in regional multilateral frameworks further amplifies its global role. By engaging with institutions that shape security and economic cooperation across Asia, Pakistan participates in evolving regional governance structures that matter to great powers and smaller states alike. [2] This engagement reinforces its identity as a stakeholder capable of contributing to regional stability and connectivity.

In conclusion, Pakistan’s emergence as a geopolitical pivot reflects substantive strategic dynamics rather than peripheral perception. Its geography, diplomatic engagements, and links to regional connectivity initiatives make it indispensable to global powers navigating the complexities of Eurasian competition. While external narratives may lag behind these developments, the international strategic community’s deepening engagement with Pakistan signals acknowledgment of its evolving role in shaping the region’s future.


References

  1. Pakistan’s leadership engagements with U.S. officials and heightened diplomatic attention in 2025. 

  2. Pakistan’s strategic geographic significance at the nexus of West, South, and Central Asia. Pakistan’s balancing of relations with major powers as part of global diplomatic strategy. 

  3. Analysis of Pakistan’s evolving role in great‑power regional strategies. [turn0search6]

  4. Commentary on Pakistan’s historic geopolitical positioning and its modern implications. 

  5. Reports on Pakistan’s global role and defense partnerships highlighting broader recognition. 


پاکستان میں استحکام


پاکستان میں استحکام

ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں تقریباً ہر قومی مسئلے کی جڑ ماضی کے کسی نہ کسی زخم میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو، ادارہ جاتی کشمکش، عوامی بداعتمادی یا معاشرے میں پھیلتا ہوا غصہ—ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے کہ معاملات یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچے۔ مسئلہ معلومات کی کمی نہیں، اصل مسئلہ اجتماعی سطح پر سچ سے گریز ہے۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں، مگر تسلیم کرنے کا حوصلہ کم ہی دکھاتے ہیں۔

ہماری قومی روایت یہ رہی ہے کہ مشکل اور غیر آرام دہ سوالات کو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر مؤخر کر دیا جائے، اور کڑوی حقیقت کو حب الوطنی کے خلاف قرار دے دیا جائے۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ سچ بوجھ بنتا چلا گیا اور جھوٹ سہارا۔ حالانکہ قومیں سہارا لے کر نہیں، سچ کو قبول کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں 

Truth & Reconciliation Commission 

کی ضرورت محض ایک خیال نہیں بلکہ وقت کی ناگزیر پکار بن جاتی ہے۔

یہ کمیشن کسی فرد، جماعت یا ادارے کے خلاف انتقامی فورم نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ سچ کو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنانا، غلطیوں کے اعتراف کا راستہ ہموار کرنا، اور متاثرہ افراد کو سنا جانا ہے۔ جب ریاست خود یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیتی ہے کہ ہاں، یہاں غلطیاں ہوئیں، تب ہی قوم میں یہ اعتماد جنم لیتا ہے کہ آئندہ ان غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔

بدقسمتی سے ہم ہر بحران کا حل نئے نعروں، وقتی صف بندیوں اور عارضی مفاہمتوں میں تلاش کرتے رہے ہیں، جبکہ اصل مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب تک ماضی واضح نہیں ہوگا، حال شکوک میں گھرا رہے گا اور مستقبل خوف سے آزاد نہیں ہو سکے گا۔ ایسے میں یہ کمیشن اسی دھند کو چھانٹنے کا ایک مہذب، پُرامن اور سنجیدہ راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سچ بولنے سے ریاست کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بند فائلیں اور خاموشیاں نہیں، بلکہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ جب شہری دیکھتے ہیں کہ ان کے دکھ، ان کے سوال اور ان کی شکایات ریاستی سطح پر سنی جا رہی ہیں، تو قانون کی بالادستی ایک محض نعرے کے بجائے عملی حقیقت بننے لگتی ہے۔

یقیناً اس راستے میں مزاحمت ہوگی۔ طاقتور حلقے ہمیشہ سچ سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ سچ ان کے گھڑے ہوئے بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے سچ کو دباکر استحکام حاصل کرنا چاہا، انہیں کبھی حقیقی اور دیرپا امن نصیب نہیں ہوا۔ وقتی خاموشی ممکن ہے، مگر پائیدار استحکام نہیں۔

اگر یہ کمیشن واقعی خودمختار ہو، اس کی تشکیل شفاف ہو، اور اس کی سفارشات محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہیں، تو یہ قدم ملک کو انتقام، نفرت اور بداعتمادی کے دائروں سے نکال سکتا ہے۔ شاید اسی عمل کے ذریعے ہم یہ سیکھ سکیں کہ قوم بننے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے مشکل قدم خود سے سچ بولنا ہوتا ہے۔

ممکن ہے یہی وہ موڑ ہو جہاں زوال کی کہانی تھم جائے اور بہتری کی سمت سفر کا آغاز ہو۔ کیونکہ تاریخ میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنے ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں—اور شاید ہمارے لیے بھی استحکام کی طرف پہلا قدم یہی ہے۔

اتوار، 7 دسمبر، 2025

کارل مارکس — پاکستانی اہلِ فکر کی نظر میں





 کارل مارکس — اہلِ فکر کی نظر میں
1. علامہ محمد اقبال
"مارکس کا دردِ انسانیت سچا ہے، مگر اس کی دنیا میں روحانی ارتقاء کا چراغ بجھا ہوا ہے۔ وہ معاشی عدل تو چاہتا ہے، مگر انسان کی باطنی پرواز کو سمجھ نہیں سکا۔ اس کا اشتراکیت مادہ پرستی کی اسیر ایک نامکمل دنیا پیش کرتی ہے۔"
2. ڈاکٹر مبشر حسن 
"مارکس نے سرمایہ دارانہ استحصال کا جو نقشہ کھینچا، پاکستان جیسے معاشروں میں وہ آج بھی جوں کا توں نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں طاقت کے تمام مراکز اسی معاشی جبر سے جنم لیتے ہیں۔"
3. ڈاکٹر پرویز ہود بھائی 
"مارکس کے معاشی تجزیے کی سائنسی گہرائی حیران کن ہے۔ تاہم انسانی آزادی، جمہوریت اور علمی تنوع کے بغیر مارکسی معاشرہ بھی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے نظریات اکثر جذباتی نعروں تک محدود رہے۔"
4. ڈاکٹر محمد حنیف رامے 
"مارکس کی فکر نے محکوم طبقات کو زبان دی۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں اس کی تعبیر کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، فلسفیانہ بنیادوں پر نہیں۔"
5. احمد بشیر 
"مارکس نے انسان کے دکھ کو معاشی زاویے سے دیکھا، جو اپنی جگہ درست تھا، مگر ہمارے معاشرے میں دکھ کی تہیں کہیں زیادہ پیچیدہ اور تہذیبی ہیں۔ یہاں صرف معاشی انقلاب کافی نہیں ہوتا۔"
6. فیض احمد فیض 
"مارکس نے ظلم کی وہ شکلیں دکھائیں جو عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے مزدور اور کسان کو تاریخ کا اصل ہیرو بنایا۔ ہمارے ادب میں جو انقلابی روشنی ہے، اس کی جڑیں مارکس کی فکر تک جاتی ہیں۔"
7. حبیب جالب
"مارکس نے ہمیں بتایا کہ ظلم کے سامنے خاموشی بھی جرم ہے۔ اس کے نظریات نے ہمیں طاقت کے ایوانوں سے سوال کرنے کا حوصلہ دیا۔"
8. ڈاکٹر خالد جاوید 
"مارکس نے سماجی ڈھانچے کی جو تشریح کی، وہ برِصغیر کے جاگیردارانہ نظام پر بھی پوری اترتی ہے۔ ہمارے یہاں طبقاتی تقسیم اور طاقت کا کھیل اسی کے بیان کردہ اصولوں پر چلتا ہے۔"
9. ڈاکٹر اعجاز احمد 
"مارکس کو صرف معاشیات تک محدود کرنا غلط ہے؛ وہ تاریخ، ادب، ثقافت اور سیاست سب کے اندر چھپے رشتوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس کی تعبیرات کئی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔"
10. عابد حسن منٹو 
"مارکس نے قانون اور انصاف کے پیچھے کارفرما طبقاتی قوتوں کو آشکار کیا۔ پاکستان کے عدالتی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اس کی فکر آج بھی ناگزیر ہے۔"
11. ڈاکٹر لئیق احمد 
"مارکس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فکر کو عمل سے جوڑا۔ نظریہ اگر انسان کے دکھ میں کارآمد نہ ہو تو بے معنی ہے۔"
12. امجد اسلام امجد 
"مارکس کا تصورِ عدل خوبصورت ہے، مگر انسان صرف روٹی سے نہیں بنتا—وہ محبت، خوف، خواب اور روحانیت سے بھی جڑا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے ادب نے ہمیشہ مارکسزم سے زیادہ بہتر سمجھا۔"
13. ڈاکٹر مقصود علی 
"پاکستانی سماج میں سرمایہ داری اور جاگیرداری ایک ساتھ چلتی ہیں؛ مارکس کے اصولوں کا ان کے باہمی ملاپ پر اطلاق بہت اہم ہے۔ اس نے جو تضادات دکھائے وہ آج بھی موجود ہیں۔"
14. ڈاکٹر راشد شاز 
"مارکس کے سوال درست تھے، مگر اس کے جواب ادھورے۔ انسان کو بدلنے کے لیے صرف ڈھانچے نہیں، اخلاقی بنیادیں بھی درکار ہوتی ہیں۔"

سماع و وجد


 

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ 
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے  توں توں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ 
اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔
 عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ 
سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'الف۔ اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ 
ادراک  و  ورود  دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔
 نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔
 کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔
 اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔
 شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔
 ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ 
جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔
حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ 
روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ 
جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔
 جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔
 سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

مایوسی کا عالمی جال




 مایوسی کا عالمی جال

دنیا آج ایک ان دیکھے محاذ پر لڑ رہی ہے—ایک جنگ جو نہ توپ، نہ ٹینک، نہ سرحدوں کی ہے۔ یہ جنگ انسانی ذہن، دل اور ایمان کی ہے، اور سب سے مہلک ہتھیار مایوسی ہے۔
"اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو" — الزمر 53
 خوف کی گہری چھاؤں
عالمی میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور سیاسی بیانیے مسلسل خوف اور منفی سوچ پھیلا رہے ہیں۔
نیوروسائنس کے مطابق:
منفی خبریں
تیز رفتار اطلاعات
خوف پر مبنی بیانیے
دماغ میں ایسے کیمیکل خارج کرتے ہیں جو انسان کو مایوس، بے بس اور غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔
قرآن میں اس کیفیت کو ’’قنوط‘‘ اور ’’یأس‘‘ کہا گیا ہے، اور آج یہ عالمی ذہنی جنگ کا بنیادی ہتھیار بن چکی ہے۔
  ذہن پر حکومت
پروپیگنڈہ صرف جھوٹ نہیں، بلکہ ایک سائنس ہے، جس کے اصول یہ ہیں:
خوف پیدا کرنا: الجھا دو، ڈراؤ، بے بس کر دو۔
جھوٹ کی تکرار: بار بار دہرانے سے جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔
معلومات کی بھرمار: ذہن تھک جاتا ہے، سوچنے کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔
احساسِ کمتری: سب کامیاب ہیں، ہم پیچھے ہیں۔
مسلسل بے چینی
FOMO (Fear of Missing Out) 
ایک عالمی ذہنی بیماری بن چکی ہے۔

"وہ اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں" — الصف 8
 دین، سائنس اور امید کا ملاپ
حیرت انگیز طور پر قرآن، حدیث، تصوف اور جدید نیوروسائنس سب ایک ہی بات کہتے ہیں:
ذکر اور تلاوت: دماغ کو پرسکون، دل کی دھڑکن کو متوازن اور بے چینی کم کرتے ہیں۔
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
توکل: یقین رکھنے والے افراد میں سٹریس ہارمونز 45٪ تک کم ہوتے ہیں۔
امید: ڈوپامین زندگی کا محرک ہے اور قرآن اسی امید کو ایمان کا حصہ بناتا ہے۔
 روشنی کی طرف سفر
یہ جنگ ذہن اور دل کی ہے۔ قرآن کا نسخہ واضح ہے: خوف کو رد کرو، امید اپناؤ، نور کی طرف دیکھو، اور شعور زندہ رکھو۔
"اللہ اپنا نور مکمل کر کے رہے گا" — الصف 8
دنیا جتنا بھی ظلمت بچھائے، روشنی کی راہ باقی رہے گی، اور وہی کامیاب ہوگا جو مایوسی کے جال کو پہچان لے اور امید، ایمان اور شعور کے ساتھ زندگی کی راہ پر گامزن ہو۔


جمعرات، 27 نومبر، 2025

رسول اللہ کا محسن

رسول اللہ کا محسن
طائف کی سرزمین آج بھی تاریخ کے وہ زخم اپنے خشک میدانوں میں سنبھالے بیٹھی ہے، جہاں رسول اللہ ﷺ پر سنگ برسائے گئے، جہاں گلیوں میں لڑکوں کو شہہ دے کر اس کاینات کے وحید صادق ا امین کو ایسا لہولہان کیا گیا، کہ صاحب کرسی و سماوات نے فرشتہ نازل فرما کر اپنا قہر نازل کرنا چاہا ۔۔۔۔لیکن شاید تاریخ کا سب سے کٹھن لمحہ وہ نہیں تھا جب پتھر لگے۔ اصل اذیت وہ تھی جب آپ ﷺ مکہ کے دروازے پر کھڑے تھے، وہی مکہ جو آپ کا شہر تھا، آپ کا گھر تھا، مگر قریش کا فیصلہ تھا:
"محمد ﷺ بغیر پناہ کے مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔"
یہ اعلان اس زمانے کے سماجی ڈھانچے کا آئینہ تھا۔ مکہ میں ’’جوار‘‘ یعنی پناہ، اس وقت کی دستوری ضمانت تھی۔ جسے جوار نہ ملتا، اس کی جان بھی محفوظ نہ ہوتی۔ اور طائف کے سفرِ اذیت کے بعد یہ دوسرا دروازہ بھی بند ملا۔
رسول اللہ ﷺ نے دو سرداروں کو جوار کا پیغام بھیجا
سہیل بن عمرو، حارث بن حرب—دونوں نے انکار کر دیا۔
مکہ کے دروازے پرایک مسلسل ناامیدی تیر رہی تھی۔ پھر رسول اللہ نے اس شخصیت کو پیغام بھیجا جس نے چند سال قبل بنی ہاشم کے معاشرتی بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اور صحیفۂ مقاطعہ کو پھاڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔۔۔ یہ شخسیت تھی ۔۔۔۔ مطعم بن عدی۔۔۔۔۔۔ بنو نوفل کا سردار، ایک ایسا شخص جومزہب کے اختلاف کے باوجود انصاف کی حرمت پر یقین رکھتا تھا۔
مطعم بن عدی نے جواب دیا: "آؤ محمد ﷺ، تم میرے جوار میں ہو۔"
یہ صرف لفظی اعلان نہ تھا۔ مکہ کے داخلی راستے پر مطعم نے اپنے بیٹوں،
بھائیوں اور قبیلے کے کئی افراد کو ہتھیاروں کے ساتھ لا کر کھڑا کیا۔ خود اونٹ پر سوار ہوئے اور کعبہ کے پاس آ کر اعلان کیا: "محمد ﷺ میرے جوار میں ہیں، خبردار! ان پر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے۔"
رسول اللہ ﷺ شہر میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے کعبہ کا ظواف کیا۔۔۔۔
قریش کے چہروں پر حیرانی، خاموشی اور اک تحفظ کا بوجھ تھا۔
مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف قریش کے بڑے اور معزز خاندان بنو نوفل کے سردار تھے۔ ان کا نسب عبد مناف تک پہنچتا تھا، یعنی وہ قریش کے ممتاز خانوادے سے تھے، وہی خاندان جس سے ہاشم، عبد شمس اور مطلب جیسے بڑے سردار نکلے تھے۔
مطعم بن عدی ایک ممتاز ’’حلیفِ انصاف‘‘ کے طور پر جانے جاتے تھے۔
قریشی معاشرے کے قبائلی فیصلوں میں ان کی رائے انتہائی معتبر تھی
وہ ’’دارالندوہ‘‘ کے مستقل رکن تھے ۔ قریش ان کی بات کو سیاسی اور سماجی وزن دیتے تھے ۔ اعلیٰ اخلاق اور باکمال شرافت ان کی پہچان تھی
ان کا گھر قریش کی مجلسِ شوریٰ اور اہم قبائلی فیصلوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
مطعم بن عدی کی عظمت تین بنیادوں پر قائم ہے:
(1) اخلاقی جرات : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ مذہب نہیں بلکہ انصاف کی بنیاد پر دیا، وہ بھی ایسے وقت میں جب قریش کی پوری طاقت آپ ﷺ کے خلاف صف آراء تھی۔
(2) انسانی وقار کی پاسداری: ان کا کردار ثابت کرتا ہے کہ اخلاق ایک آفاقی قدر ہے، اور نبی ﷺ نے اس قدر کو مذہب سے بالا قرار دے کر سراہا۔
(3) تاریخ کا واحد غیر مسلم جسے نبی ﷺ نے اس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ
۔۔۔۔ سالوں بعد، غزوۂ بدر کے موقع پر جب مشرکین کے قیدی رسول اللہ ﷺ کے سامنے لائے گئے تو آپ ﷺ نے ایک جملہ کہا جو تاریخ میں مطعم کے مقام کو امر کر گیا: آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کے بارے میں سفارش کرتے، تو میں احترام میں سب کو بغیر فدیہ کے آزاد کر دیتا۔" (صحیح بخاری)
مطعم اسلامی تاریخ کا وہ "غیر مسلم محسن" ہے جس کے کردار پر خود رسول اللہ ﷺ نے مہرِ تصدیق ثبت کی۔

بدھ، 26 نومبر، 2025

زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی ابتدا کیسے کی۔



خالقِ کائنات نے علم کو اپنی امانت بنا کر انسان کو تلاش کا شوق دیا ہے۔ جب انسان کھوج کے سفر پر نکلتا ہے تو علم کی نئی جہات اس پر وا ہونے لگتی ہیں، اور ذہن کا افق روشن ہوتا جاتا ہے۔ یہی نورِ علم "حقیقت" کے پردے چاک کرتا ہے اور دیکھنے والے پر وہ راز کھلنے لگتے ہیں جو عام نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
“زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی ابتدا کیسے کی۔”
(العنکبوت: 20)
 رسول اللہ ﷺ حقیقت کی طلب میں یہ دعا مانگا کرتے تھے:
“اے اللہ! چیزوں کی حقیقت مجھے ویسی ہی دکھا جیسے وہ ہے۔”

علم کی اس روشنی نے کئی بڑے اذہان کا رخ بدل دیا۔ وہ لوگ جو ابتدا میں الحاد اور انکار کے مسافر تھے، تحقیق کے سفر میں آگے بڑھتے گئے تو کائنات کی "حکمت" نے انہیں مجبور کیا کہ کسی "عظیم خالق" کا اعتراف کریں۔ 
 ، ان علماء (اہل علم) میں
, اینٹونی فلیو
،آلن سینڈیج
،فریڈ ہوئل
،فرانسس کولنز
 ،ڈین کینیون
 ،الیسٹر میک گراتھ
 ،پال ڈیوس
 ،آرنو پینزیاس
 ،جے پول کنگھورن
 ،پیٹرک گلن
 ،البرٹ آئن اسٹائن
 ،ورنےر ہائزنبرگ
 ،ماکس پلینک
،رابرٹ جیسٹرو
اور
جوہانس کیپلر
جیسے سائنس دان شامل ہیں
یہ وہ مسافر تھے جنہیں آخرکار علم نے وہ دکھایا جو صرف آنکھ نہیں، بینائی مانگتا ہے—اور بینائی وہی پاتا ہے جو تلاش میں نکلے۔

بدھ، 19 نومبر، 2025

چائے چاہیے… کون سی جناب؟



چائے چاہیے… کون سی جناب؟

زندگی کی تیز دھڑکتی ساعتوں میں انسان کو اگر کوئی خوشبو لمحہ بھر میں سکون کے حاشیے تک لے جائے تو وہ چائے کی خوشبو ہے۔ یہ خوشبو محض بھاپ نہیں، ہمارے گھر کی چوکھٹ پر بسی تہذیب ہے۔ مہمان نوازی کا قرینہ ہے۔ محبت کا وہ اشارہ ہے جو لفظوں سے پہلے خوشبو بن کر ہمارے مزاج میں اترتا ہے۔
اسی لیے جب کوئی نرمی سے پوچھتا ہے،
“چائے ”
تو یہ سوال کانوں سے زیادہ دل پر دستک دیتا ہے۔

چائے — پیالی میں بند تہذیب
چائے کے پتے جب پانی میں اپنا رنگ چھوڑتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وقت تھم کر صدیوں کی روایت ایک پیالی میں انڈیل رہا ہو۔
پانی کی حرارت، پتی کی خوشبو اور انسان کی چاہت… یہ تینوں مل کر ایسی کیفیت بناتے ہیں جو ذہن کو تروتازہ اور دل کو ہلکا کرتی ہے۔
چائے صرف ایک مشروب نہیں؛ یہ کچھ دیر خود سے ملنے کا فن بھی ہے۔

پاکستان — جہاں چائے ایک طرزِ زندگی ہے
پاکستان میں چائے پینا کوئی عادت نہیں، ایک رسم ہے۔
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ، دوپہر کی تھکن کے بعد، شام کے ہلکے اندھیرے میں، اور رات کے سکوت سے پہلے— چائے ہر موقع کے ساتھ چلتی ہے۔۔

دودھ والی چائے — خوشبو جو گھر کہلاتی ہے
دودھ والی چائے ہمارے سماج کی سب سے مانوس آواز ہے۔
چولہے پر ابلتی بھاپ، گہری پتی کا رنگ، اور دودھ کی آمیزش— سب مل کر گھر کی بھینی بھینی خوشبو بن جاتے ہیں۔
یہ چائے:
بھرپور ذائقہ رکھتی ہے،
میٹھاس میں نرمی رکھتی ہے،
اور گھریلو محبت کی مکمل تصویر ہوتی ہے۔
سردیوں میں یہ لحاف کی گرمی جیسی،
اور بارش میں کسی بے ساختہ مسکراہٹ جیسی محسوس ہوتی ہے۔

بغیر دودھ کی چائے — ذوق، وقار اور لطافت
بغیر دودھ کی چائے میں ایک خاموش سنجیدگی ہے۔
یہ چائے جسم سے زیادہ ذہن کو جگاتی ہے۔
اس کی خوشبو دھیرے سے پھیلتی ہے اور کیفین کی ہلکی لہر سوچ میں واضح پن پیدا کرتی ہے۔
ایسی چائے پینے والوں کی شخصیت میں اکثر:
ٹھہراؤ،
نفاست،
اور گفتگو کی شائستگی
نمایاں ہوتی ہے۔

قہوہ — پہاڑوں کی زبان، سرد راتوں کی گرمی
پاکستان کے شمالی خطے— خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان— قہوہ کے اصل امین ہیں۔
ان علاقوں کے ٹھنڈے موسموں نے قہوہ کو محض مشروب نہیں رہنے دیا؛ اسے زندگی کی ضرورت بنا دیا۔

پشاور کا قہوہ
سنہری رنگ، ہلکی خوشبو، اور نرمی سے دل میں اتر جانے والا ذائقہ۔

کشمیر کا قہوہ
زعفران، بادام اور ملائمت سے لبریز— جیسے پہاڑوں کی خاموش دعا۔

گلگت بلتستان کا قہوہ
سادہ، خالص، اور سرد راتوں میں حرارت بخشنے والا۔
قہوہ کیوں مقبول؟

کیونکہ یہ بھاری نہیں لگتا، پیاس نہیں بڑھاتا، ہاضمہ بہتر کرتا ہے
اور سردیوں میں دل کو ایسے ڈھانپ لیتا ہے جیسے نرم شال۔
چائے کی اقسام — ذائقوں کا سفر

چائے کا ایک پودا… مگر رنگ، خوشبوئیں اور ذائقے بے شمار۔
پاکستان میں:
دودھ والی چائے،
سبز چائے،
پھولوں اور جڑی بوٹیوں والی خصوصی چائیں،

علاقائی قہوے
سب اپنی اپنی کہانی رکھتے ہیں۔
ہر پیالی ایک الگ مزاج، ایک الگ موسم۔

سبز چائے — بدن میں اُترتی ہوئی خاموشی
سبز چائے دنیا بھر میں صحت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
اس کے گھونٹ یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے بدن کی تھکن ہلکے دھوئیں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو رہی ہو۔
اس کے چند نمایاں فوائد:
وزن میں کمی میں مدد
کولیسٹرول میں کمی
دماغی تازگی
شوگر کے مریضوں کے لیے موزوں
بڑھاپے کے اثرات کو سست کرنے والی
ہاضمے کو آرام دینے والی
سبز چائے فطرت کا وہ لمس ہے جو شور میں بھی خاموشی کا تحفہ دیتی ہے۔

چائے — ہماری گفتگو، ہماری خاموشی
چائے ہمارے ہاں گفتگو کا بہانہ بھی ہے اور خاموشی کا سہارا بھی۔
غم بانٹنے میں بھی ساتھ دیتی ہے اور خوشیوں میں بھی برابر شریک رہتی ہے۔
کبھی مل بیٹھنے کی وجہ بن جاتی ہے اور کبھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا وسیلہ۔
چائے کو اگر ذائقے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ ایک تعلق کی خوشبو ہے،
دل کی دھڑکنوں میں بسا ہوا ایک نرم سا موسم۔

لہٰذا جب کوئی محبت سے پوچھے:
“چائے ”
تو سمجھ لیجیے یہ سوال پیالی کا نہیں،
قربت، رفاقت اور تعلق کا ہے۔

منگل، 18 نومبر، 2025

2: زائن ازم کا داخلی ڈھانچہ

 2: زائن ازم کا داخلی ڈھانچہ

زائن ازم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین مرکزی پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا:
اداری اور تنظیمی ڈھانچہ
فیصلہ سازی اور طویل مدتی منصوبہ بندی
عالمی سطح پر اثر و رسوخ کے طریقے

1. اداری اور تنظیمی ڈھانچہ
زائن ازم کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کا مرکزی ڈھانچہ ہے۔

(الف) عالمی سطح کی تنظیمیں
World Zionist Organization (WZO):
یہ سب سے قدیم اور مرکزی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1897 میں تھیوڈور ہیرزل نے رکھی۔
کام:
عالمی یہودی کمیونٹی کو متحد کرنا
سیاسی حمایت اور مالی وسائل جمع کرنا
عالمی کانفرنسز کے ذریعے حکمت عملی مرتب کرنا
Jewish Agency for Israel:
یہ تنظیم زائن ازم کے عملی منصوبوں کی نگرانی کرتی ہے، جیسے کہ عالمی یہودی مہاجرین کی آباد کاری، تعلیم، اور بنیادی خدمات۔
World Jewish Congress (WJC):
عالمی سطح پر یہودی مفادات کی نمائندگی، ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات، اور عالمی سطح پر یہودیوں کے لیے قانونی تحفظ۔

(ب) مالی اور اقتصادی نیٹ ورک
زائن ازم کے پاس ایک مضبوط عالمی مالیاتی نیٹ ورک ہے:
سرمایہ کار اور بینکروں کے ذریعے وسائل کی منظم تقسیم
بڑے مالی اداروں میں اس کا اثر
عالمی معیشت میں سازگار سرمایہ کاری

(ج) ثقافتی اور تعلیمی ادارے
یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے، اور تھینک ٹینکس
زبان، تاریخ، اور مذہبی تعلیم کے ذریعے قومیت اور شناخت کو مضبوط کرنا
میڈیا کے ادارے جیسے اخبارات، فلم، اور بعد میں ٹیلی ویژن و سوشل میڈیا

2. فیصلہ سازی اور طویل مدتی منصوبہ بندی
زائن ازم کی طاقت اس کی پیشہ ورانہ اور طویل مدتی منصوبہ بندی میں ہے۔
(الف) مرکزی کونسل
عالمی سطح پر فیصلے اور اصول
مقامی سطح پر پالیسی نفاذ کے لیے رہنمائی
(ب) مشاورتی بورڈز
مالی، عسکری، اور سیاسی ماہرین
طویل مدتی حکمت عملی کی منصوبہ بندی
عالمی بحرانوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت
(ج) عسکری اور حفاظتی منصوبہ بندی
اسرائیلی فوج کی تشکیل، تربیت، اور عالمی تعاون
حفاظتی ادارے جیسے Mossad اور Shin Bet
عالمی سازشوں اور خطے میں سیاسی اثر کے لیے خفیہ نیٹ ورک

3. عالمی سطح پر اثر و رسوخ کے طریقے
زائن ازم نے عالمی سطح پر اثر ڈالنے کے کئی ذرائع استعمال کیے:
(الف) سفارت کاری
برطانیہ، امریکہ، اور یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات
Balfour Declaration
 اور بعد میں امریکی حمایت
عالمی تنظیموں میں اسٹریٹجک نمائندگی
(ب) میڈیا اور عوامی رائے
اخبارات، کتابیں، فلم، اور بعد میں سوشل میڈیا
مظلومیت کی تصویر کشی، عالمی ہمدردی حاصل کرنا
سیاسی اور فوجی فیصلوں کے لیے بیانیہ سازی
(ج) اقتصادی اور مالی اثر
عالمی سرمایہ کاری اور بینکنگ نیٹ ورک
بڑی کمپنیوں اور صنعتی اداروں میں اثر
مالی وسائل کے ذریعے سیاسی اور عسکری منصوبوں کی حمایت
(د) تاریخی اور سیاسی مواقع کا استعمال
عالمی جنگیں، ہولوکاسٹ، اور بحران
عالمی سطح پر یہودی ریاست کے قیام میں سازگار ماحول

4. اہم عالمی حکمت عملی کی مثالیں
بلفور اعلامیہ (1917):
برطانیہ کی جانب سے یہودی وطن کی حمایت
ہولوکاسٹ (1939–1945):
مظلومیت کے عالمی بیانیے کو استعمال کر کے اسرائیل کے قیام کی بنیاد مضبوط کرنا
1948 میں اسرائیل کی ریاست:
عالمی سطح پر تسلیم اور سفارتی حمایت حاصل کرنا
بعد ازاں 1967 کی جنگ:
فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور عالمی سیاست میں اثر

5. تجزیہ اور نتائج
زائن ازم ایک مرکزی نقطہ نظر اور مقامی عمل درآمد کی جامع حکمت عملی ہے
عالمی سطح پر مالی، سیاسی، عسکری، اور میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے اثر
تاریخی بحرانوں اور عالمی جنگوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی مہارت
ایک منظم تحریک، جو نظریہ سے عملی طاقت میں تبدیل ہوئی
خلاصہ

 زائن ازم نہ صرف ایک نظریاتی تحریک ہے بلکہ عالمی سطح پر منظم، مالیاتی اور عسکری طاقت کے ساتھ کام کرنے والا نیٹ ورک بھی ہے۔ اس کے داخلی ڈھانچے، فیصلہ سازی، اور عالمی حکمت عملی نے اسے ایک تاریخی قوت بنا دیا ہے۔


پیر، 17 نومبر، 2025

مکالمہ جو بھلایا نہیں جا سکے گا



مکالمہ جو بھلایا نہیں جا سکے گا
انسانی تاریخ میں دو قوتیں اکثر سچائی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی رہی ہیں: ابا پرستی اور تعصب یہی دو بیماریاں مکہ کے سرداروں کے دل و دماغ پر بھی مسلط تھیں۔ نبی کریم ﷺ کی صداقت اُس دور کے سب سے سخت دلوں کو بھی ہلا دیتی تھی، لیکن سچ قبول کرنے کے لئے صرف دلیل کافی نہیں ہوتی— دل کی ضد اور مفاد کا بوجھ بھی ہٹانا پڑتا ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں کچھ ایسے سوالات اور وساوس تھے جنہوں نے قریش کے ذہنوں میں کھلبلی مچا رکھی تھی۔ انہی حالات کے پس منظر میں ایک تاریخی مکالمہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ ابو جہل کے انکار کی اصل وجوہ عقل یا دلیل کا فقدان نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے "ابا پرستی، قبیلائی غرور اور سرداری کا نشہ" تھا۔
مکہ کی رات خاموش تھی، دارالندوہ کے ستونوں کے سائے طویل ہو رہے تھے۔ اسی فضا میں عمر بن ہشام (ابو جہل) اور ابنِ اخنس آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ابنِ اخنس نے پہلا سوال وہی اٹھایا جو مکہ کے ہر شخص کے ذہن میں گونج رہا تھا:
“اے ابو الحکم! محمد بن عبداللہ (ﷺ) کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ مگر کیا ہمارے آبا و اجداد غلط تھے؟ کیا اتنی نسلوں نے تین سو ساٹھ معبود یوں ہی پوجے؟”
یہ سوال صرف ایک شخص کا نہیں تھا، بلکہ پوری قوم کی نفسیات کا آئینہ تھا۔ مگر ابا پرستی نے عقل کی راہ بند کر رکھی تھی۔
ابو جہل نے ایک سرد طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:
“محمد (ﷺ) کا کلام دل کو ہلا دیتا ہے۔ وہ جو پڑھتا ہے… اس کی تاثیر انسان پنہاں نہیں رکھ سکتا۔ لیکن اگر ہم مان لیں تو سوچو— قریش کی سرداری کا کیا بنے گا؟ بنو ہاشم پہلے ہی فخر سے کہتے ہیں کہ نبوت انہی میں ہے۔ اگر ہم بھی مان جائیں تو قیادت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔”
یہ جملہ اس حقیقت کا اعتراف تھا جو تاریخ بار بار کہتی ہے: "قبیلہ پرستی سچائی کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔"
ابنِ اخنس نے پھر دریافت کیا:
“تو کیا تمہیں دل سے یقین نہیں کہ وہ سچا ہے؟”
ابو جہل نے ایک لمحہ خاموشی کے بعد اعتراف کیا:
“دل کہتا ہے وہ سچا ہے۔ لیکن اگر مان لیا تو ہمارے لات، عزیٰ اور منات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ تجارتیں بدل جائیں گی، پرانی روایات ختم ہو جائیں گی۔ اور سب سے بڑھ کر… قریش کی سرداری — میری سرداری — ختم ہو جائے گی۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب سچائی نے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر ضد نے اسے بند کر دیا۔
ابنِ اخنس نے افسوس سے کہا:
“تو تم عقل کو چھوڑ کر مفاد اور قبیلے کی محبت کو تھامے ہوئے ہو؟”
ابو جہل نے جواب دیا:
“میں عقل کو نہیں چھوڑ رہا، میں اپنی طاقت کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اگر خدا چاہتا ہے تو میری بادشاہت مجھ سے لے لے، مگر میں خود اسے اپنے ہاتھوں نہیں چھوڑوں گا۔”
یہ مکالمہ محض دو افراد کا نہیں، بلکہ تاریخ کی ان ساری قوموں کا آئینہ ہے جو سچائی کو پہچان لینے کے باوجود ابا پرستی، قبیلہ پرستی اور مفاد پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کر دیتی ہیں۔
قرآن کریم نے اسی رویے کو ایک مختصر اور فیصلہ کن جملے میں بیان کیا:
“انہوں نے حق کو پہچان لیا،
مگر ظلم اور تکبر کی وجہ سے انکار کیا۔” *(سورۃ النمل، آیت 14)*
آج بھی یہی دو بیماریاں— اندھی روایت پرستی اور گروہی تعصب— سچ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ قومیں علم کے دروازے پر ٹھوکریں کھا کر گرتی ہیں، مگر اپنی پرانی زنجیروں کو نہیں چھوڑتیں۔
سوال صرف مکہ کے سرداروں کا نہیں—
سوال یہ ہے کہ آج ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ سچ کی طرف یا اپنی ضد، رسموں اور تعصبات کی طرف؟

زبان اور رویّے





زبان اور رویّے

“بابو دیکھو، جب تم ‘ہاں’ کہتے ہو تو آواز گلے سے نکلتی ہے، مگر جب ‘جی’ کہتے ہو تو زبان سے۔”

میں ایک دن ایک بزرگ سے محوِ گفتگو تھا۔ ان کا یہ فقرہ محض زبان کی لطافت نہیں بلکہ زندگی کی تہذیب کا فلسفہ تھا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا، “گلے سے نکلنے والے الفاظ میں حکم اور سختی ہوتی ہے، مگر زبان سے ادا ہونے والے لفظ میں محبت اور احترام چھپا ہوتا ہے۔” میں کچھ لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گیا — واقعی، انسان کے الفاظ ہی اس کے باطن کا آئینہ ہوتے ہیں۔

زبان انسان کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ ایک نرم جملہ دلوں کو جیت سکتا ہے اور ایک سخت لفظ برسوں کی محبت کو جلا سکتا ہے۔ لفظ محض آواز نہیں، یہ انسان کے اندر کی کیفیت، شعور اور احساس کا عکس ہوتے ہیں۔ جو لوگ گفتگو میں نرمی رکھتے ہیں، وہ دراصل اپنے دل کی وسعت اور ذہن کی روشنی کا اظہار کرتے ہیں۔

کسی دانا نے کہا تھا، “جب دو لوگ لڑتے ہیں، تو ایک بیوقوف ہوتا ہے اور دوسرا سمجھدار۔ اگر دونوں سمجھدار ہوں تو جھگڑا ممکن ہی نہیں۔”
مگر مسئلہ یہ ہے کہ عقل اکثر غصے میں قید ہو جاتی ہے۔ عورتیں اکثر ہنستے ہوئے کہتی ہیں، “باجی صحیح بتاؤں، مرد کی عقل غصے میں بند ہو جاتی ہے!” — یہ جملہ مزاح نہیں، مشاہدے کی صداقت ہے۔ مرد جب غصے میں ہوتا ہے تو اس کے لہجے میں دلیل کی جگہ جذبات آ جاتے ہیں، اور عورت اکثر اپنے ضبط اور صبر سے صورتحال سنبھال لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر گھریلو جھگڑے عورت کے نرم لہجے، خاموشی اور سمجھداری سے ختم ہو جاتے ہیں۔

زندگی بھی ایک گاڑی کی طرح ہے۔ کوئی کہتا ہے، “گاڑی دھیان سے چلاؤ، آگے کوئی جنت ونت نہیں!” یہ جملہ طنزیہ سہی مگر حقیقت سے خالی نہیں۔ زبان، رویہ اور جذبات — یہ تین پہیے ہیں جن پر انسان کی زندگی کا توازن قائم ہے۔ اگر یہ پہیے قابو میں رہیں تو سفر محفوظ ہے، ورنہ حادثہ یقینی۔

اکثر ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شعور تعلیم سے آتا ہے۔ لیکن شعور کسی اسکول، کالج یا ڈگری کا محتاج نہیں۔ تعلیم انسان کو پڑھنا لکھنا سکھاتی ہے، مگر شعور اسے جینا سکھاتا ہے۔ تعلیم عقل دیتی ہے، مگر شعور کردار بناتا ہے۔ تعلیم الفاظ دیتی ہے، مگر شعور لہجہ عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اخلاق اور برداشت سے محروم ہوتے ہیں، اور کئی ان پڑھ لوگ اپنی سادہ باتوں میں وہ گہرائی رکھ دیتے ہیں کہ بڑے بڑے فلسفی خاموش ہو جاتے ہیں۔

شعور دراصل زندگی کے تجربوں، دکھوں اور احساسات سے جنم لیتا ہے۔ وہ انسان جو تکلیف سے گزرا ہو، وہ نرمی کو بہتر سمجھتا ہے۔ جو ٹھوکر کھا چکا ہو، وہ دوسروں کے لیے نرم زمین بن جاتا ہے۔ اسی لیے باشعور انسان کبھی غرور نہیں کرتا — کیونکہ وہ جانتا ہے کہ لفظ کا زخم تلوار سے گہرا ہوتا ہے۔

انسان کی پہچان اس کے لباس، دولت یا تعلیم سے نہیں، بلکہ اس کے رویّے سے ہوتی ہے۔ جو شخص اپنی زبان میں نرمی، دل میں احترام اور عمل میں توازن رکھتا ہے، وہ دراصل تعلیم یافتہ نہیں بلکہ باشعور ہوتا ہے۔

اور یاد رکھیے، باشعوری ہی انسانیت کا سب سے بلند درجہ ہے — کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں علم خاموش ہو جاتا ہے، اور کردار بولنے لگتا ہے۔

اقتباس:
“نرمی اختیار کرو، کیونکہ نرمی دل کے زخموں کو شفا دیتی ہے، اور سختی محبت کو مار دیتی ہے۔”
— مولانا جلال الدین رومیؒ

جمعرات، 13 نومبر، 2025

موت نے نگل لیا مگر زندہ رہے گا۔۔۔۔



موت نے نگل لیا مگر زندہ رہے گا۔۔۔۔
خدا کی تخلیق کردہ کائنات کے وحید صادق و امین کا فرمان عالی شان ہے"علم انسان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے، کیونکہ اس سے انسانوں کو فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔" ( صحیح مسلم)
٭ ٭ ٭
راولپنڈی چھاؤنی کی ایک گلی میں میرا ایک قریبی دوست انعام صدیقی رہا کرتا تھا، اور اسی تعلق نے مجھے ایک ایسے گھر تک پہنچایا جو میرے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کے انداز پر گہرا اثر چھوڑ گیا — وہ گھر جس کے سربراہ تھے فردوس مکیں جناب "استاد حافظ‌الحق صدیقی" جنہیں اہلِ محلہ احترام سے "صدیقی سر" کہتے تھے۔
صدیقی سر کا گھر علم، اخلاق، دین اور روشن خیالی کا گہوارہ تھا۔ ان کے دروازے ہر آنے والے کے لیے کھلے رہتے، چاہے وہ پڑوسی ہو یا محلے کا کوئی طالب علم۔ وہ محض استاد نہیں تھے، بلکہ ایک مربی اور رہنما بھی تھے۔ ان کے لہجے میں نرمی، الفاظ میں وقار، اور رویے میں شائستگی نمایاں تھی۔ باب علم حضرت علی کا ایک قول دہرایا کرتے تھے "جو علم انسان کے رویے میں نرمی نہ لائے، وہ بوجھ ہے، برکت نہیں۔"
یہی اصول ان کی اولاد کی تربیت کی بنیاد تھا۔ اسی گھرانے کی فکری اور اخلاقی تربیت نے سینیٹر عرفان الحق صدیقی (ہلالِ امتیاز) کی فکری اور عملی کردار کی تشکیل کی ۔ عرفان صدیقی نے اپنی زندگی میں یہ سبق برقرار رکھا کہ علم صرف کتابوں میں نہیں بلکہ کردار، رویے اور تحریر میں بھی ظاہر ہونا چاہیے۔
عرفان صدیقی نے ملک بھر میں اپنے کالموں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ میں علم و فکر کی روشنی پھیلائی۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی فکری بنیادوں کا دفاع، مذہبی رواداری کی تبلیغ اور اخلاقی قدروں کا احیاء نمایاں رہا۔ ان کے قلم نے کبھی نفرت نہیں ٌٌپھیلائی ، ہمیشہ محبت، شائستگی اور فکری بصیرت کی رہنمائی کی۔ وہ لکھتے تو محسوس ہوتا جیسے ہر لفظ پاکستانیت کا وضو کر کے صفحے پر اترا ہو۔ رومی نے لکھا تھا "جو شخص علم چھوڑ جاتا ہے، وہ دراصل اپنے بعد روشنی چھوڑ جاتا ہے۔" ہم دیکھتے ہیں عرفان صدیقی نے خوب روشنی چھوڑی ہے۔
انھوں نے سیاست میں قدم رکھا تو صدیقی سر کے قول کو بھلایا نہیں "الفاظ میں تلخی نہیں، کردار میں بلندی رکھو۔" وہ پارلیمنٹ میں اختلاف رائے کو دشمنی نہیں بلکہ فکری وسعت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے دلائل میں سختی نہیں، بلکہ علم کی نرمی اور دلائل کی شائستگی نمایاں ہوتی تھی۔ انہوں نے قوم کو یہ باور کرایا کہ سیاست میں سب سے بڑی طاقت علم، استدلال اور کردار ہے۔
عرفان صدیقی کا قلم ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہا۔ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، منافقت کو بے نقاب کیا، اور عوام کو شعور و فہم کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کی تحریروں میں تنقید میں نرمی اور نصیحت میں وقار نمایاں رہا۔ ان کے مطابق قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے۔ ان کا ہر لفظ ایک سبق، ہر جملہ ایک فکری رہنمائی رہا انہوں نے یہ نیلسن منڈیلا کے اس جملے کو عزت دی "تعلیم ایک ایسی مشعل ہے جو ایک سے دوسری نسل تک روشنی پہنچاتی ہے۔" عرفان صدیقی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ علم کی اہمیت کا ادراک حاصل ہو تو زندگی کے ہر شعبے میں روشنی بکھیرتا ہے۔
عرفان صدیقی کے نزدیک پاکستانیت محض جغرافیہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، اخلاقی شناخت اور فکری شعور ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ قوم کو یہ باور کرایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور قوم کی ترقی علم، کردار اور اخلاق سے وابستہ ہے۔ "یہ ملک ہمیں صرف زمین کے طور پر نہیں، ایک نظریے کے طور پر عطا ہوا ہے۔" ان کی تحریروں میں وطن سے محبت، امید، اور فکری رہنمائی کی جھلک نمایاں رہی۔ وہ قوم کو یہ پیغام دیتے رہے کہ مایوسی شیطان کا ہتھیار ہے، اور امید مومن کا ایمان۔
10 نومبر 2025 کو سینیٹر عرفان صدیقی کی وفات نے صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ ایک فکری روایت کو رخصت کیا۔ اسلام آباد کے اسپتال میں ان کی سانسیں خاموش ہوئیں، مگر ان کے خیالات، تحریریں اور اخلاقی روشنی زندہ رہی۔ بابا اشفاق احمد کا قول بار بار میرے زہن پر دستک دیتا ہے کہ "وہ انسان کبھی نہیں مرتا جو علم، کردار یا محبت کی صورت میں یاد رہ جائے۔"
ان کے کالم، تحریریں اور تقریریں آج بھی عوام کو سوچنے اور شعور پانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان کا اندازِ بیان آج بھی زبانِ کی شائستگی کا معیار ہے، اور ان کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ علم کبھی مرتا نہیں — وہ کردار اور عمل کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ عرفان صدیقی کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کے علم و کردار کی روشنی کو ہمیشہ زندہ رکھے۔
خدا کرے وہ چراغ، جو عرفان نے جلایا، ہر دل میں امید اور ہر ذہن میں روشنی بن کر خیالات کو ،مور کرے۔ اور یہ وطن ان کے قلم کا امین رہے، اور ہم سب اس روشنی کے مسافر بنے رہیں۔

اتوار، 9 نومبر، 2025

منفی سوچ — ایک بیماری

منفی سوچ — ایک بیماری
ہم زندگی میں خوشی اور سکون کی جتنی تلاش کرتے ہیں اتنی شاید ہی کسی اور چیز کی کرتے ہوں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اپنے سکون کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ہمارے خیالات، گمان اور رویّے — یہی وہ نادیدہ قوتیں ہیں جو یا تو زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں یا اسے تلخ کر دیتی ہیں۔
مثبت سوچ زندگی کو آسان بناتی ہے، جبکہ غلط فہمیاں فاصلوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر ہمیں دوسروں میں خوبیاں نظر آنا بند ہو جائیں تو سمجھ لیں کہ ہم منفی سوچ کی "بیماری" میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک خاموش بیماری ہے مگر بہت تباہ کن۔ یہ نہ صرف ہمارے تعلقات کو زہر آلود کرتی ہے بلکہ ہمارے اندرونی سکون کو بھی چُرا لیتی ہے۔
قرآن مجید نے اسی حقیقت کو کتنی سادہ مگر گہری بات میں سمیٹا ہے
"اِجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ، إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ" (الحجرات: 12)
"بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔"
ہم میں سے اکثر اپنی رائے، گمان اور سن گن پر فیصلے کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ محبت کے رشتے شکوک کے کانٹوں میں الجھ جاتے ہیں۔
ڈیل کارنیگی نے کیا خوب کہا تھا : "دنیا کی آدھی دشمنیاں غلط فہمیوں سے پیدا ہوتی ہیں، اور باقی آدھی ان کے نتیجے میں۔" یہ ایک سچ ہے جسے تسلیم کرنے میں ہمیں دشواری ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں گمان بناتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گمانوں کا احتساب نہیں کرتے۔
منفی سوچ کا سب سے پہلا نشانہ خود انسان کی اپنی ذات بنتی ہے۔
کارل یونگ نے لکھا تھا: "جو شخص دوسروں میں صرف برائیاں دیکھتا ہے، وہ دراصل اپنی اندرونی کمزوریوں کا عکس دیکھ رہا ہوتا ہے۔"
یہی تو اصل بیماری ہے — وہ ذہنی کیفیت جس میں انسان دوسروں میں روشنی دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ وہ تعریف کرنا بھول جاتا ہے، شکرگزاری سے دور ہو جاتا ہے، اور ہر خوشی میں شک کا سایہ تلاش کرتا ہے۔
دوسری طرف مثبت سوچ ہے — جو زخموں پر مرہم رکھتی ہے، گمانوں کو سمجھ میں بدل دیتی ہے، اور انسان کے اندر امید جگاتی ہے۔
نورمن ونسنٹ پیل نے لکھا تھا: "مثبت سوچ مسائل ختم نہیں کرتی، مگر ان کا سامنا کرنے کی ہمت ضرور دیتی ہے۔"
سچ یہی ہے کہ مثبت سوچ انسان کو طاقت دیتی ہے۔ یہ دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے — وہی اطمینان جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: 28)
"یادِ خدا ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔"
یہ اطمینان صرف عبادت سے ہی نہیں بلکہ طرزِ فکر سے بھی جنم لیتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، ان کی نیتوں پر شک نہیں کرتے، اور برائی کے بجائے بھلائی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا دل خود روشن ہونے لگتا ہے۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "بدگمانی محبت کو ختم کر دیتی ہے۔"
اور مولانا رومیؒ نے فرمایا: "جو دل میں بدگمانی رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کا جہنم جلا رہا ہوتا ہے۔"
کتنی بڑی سچائیاں ہیں یہ! ہم روز سنتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم خود کو دانا سمجھتے ہیں، مگر دانائی تو وہ ہے جو دلوں کو قریب کرے، نہ کہ دور۔
ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے خیالات کا معائنہ کریں۔ اگر ہماری گفتگو، سوچ اور فیصلوں میں منفی پن بڑھ رہا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے زندگی مشکل ہونے لگتی ہے۔ جتنی جلدی اس بیماری کا علاج کر لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔
علاج کیا ہے؟
دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنا۔ شکر گزار رہنا۔ بدگمانی کے بجائے حسنِ ظن اپنانا۔ اور سب سے بڑھ کر، خود سے یہ کہنا: "میں دوسروں کو ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں، جیسا میں خود ہوں۔"
زندگی یقیناً آسان نہیں، مگر اگر سوچ مثبت ہو تو راستے روشن ہو جاتے ہیں۔
خوشی کوئی خارجی شے نہیں، یہ ہمارے اندر کی کیفیت ہے۔
اگر ہم دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنے لگیں، ان کی نیتوں کو بہتر سمجھنے لگیں، اور ہر حال میں شکر گزاری کو اپنائیں تو زندگی خود بخود خوبصورت ہو جاتی ہے۔
"زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتے ہو تو لوگوں میں خامیاں نہیں، خوبیاں تلاش کرو۔"
دلپزیر احمد جنجوعہ

ہفتہ، 1 نومبر، 2025

یک ادبی اور معقول مکالمہ

 




مقام: مدینہ، مسجد نبوی ﷺ کے قرب

حضور ﷺ: عقیل! سنو، تمہارے دل میں کچھ سوالات ہیں جو تمہیں بے چین کرتے ہیں۔

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! میں جاننا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے سلسلے میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟

حضور ﷺ: عقیل! سب سے اہم وہ عمل ہے جو دل سے اخلاص کے ساتھ کیا جائے، اور جو لوگوں کے حق میں نفع پہنچائے۔

عقیل بن رضیل: لیکن یا رسول اللہ ﷺ، بعض لوگ بہت عمل کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں حسد اور غرور ہوتا ہے۔ وہ کس قدر کامیاب ہیں؟

حضور ﷺ: جو عمل دل سے خالص نہ ہو، وہ صرف ظاہری شکل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور جو تم کرتے ہو، اس میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو۔"

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! پھر کیا ہر انسان کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے؟

حضور ﷺ: ہاں، عقیل! تمہیں علم اور عقل دونوں سے کام لینا ہوگا۔ دل کی روشنی اور عقل کی رہنمائی کے بغیر انسان گمراہ ہو سکتا ہے۔

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ، اور اگر کوئی انسان گمراہی میں ہو، تو ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

حضور ﷺ: اسے نصیحت دو، مثال پیش کرو، صبر سے کام لو، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق جیو۔ انسان کے دل کو اللہ کی یاد سے روشنی ملتی ہے۔

عقیل بن رضیل: جزاک اللہ خیر، یا رسول اللہ ﷺ۔ آپ کی باتیں میرے دل میں روشنی ڈالتی ہیں۔

حضور ﷺ: یاد رکھو، عقیل! علم اور عمل دونوں کا ساتھ ہو تو انسان کی زندگی میں سکون، فہم اور صحیح راستہ ممکن ہے۔



جمعرات، 30 اکتوبر، 2025

خسارۂ ذات

**خسارۂ ذات**  
*دلپزیر احمد جنجوعہ*  

زندگی کا ہر دن نفع اور نقصان کے ایک نئے توازن میں گزرتا ہے۔ مگر ایک ایسا نقصان ہے جس کا احساس سب سے کم ہوتا ہے — **خسارۂ ذات**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی اندر سے کچھ کھو دیتا ہے، اپنی روح سے، اپنی سچائی سے، اپنی اصل سے۔  

سوچیے، ایک مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے، لیکن شام کو اُسے مزدوری نہ ملے — یہ صرف مالی نقصان نہیں، یہ اُس کی محنت کی بے قدری کا خسارہ ہے۔ ایک ملازم پورا سال دیانت داری سے کام کرے، لیکن سالانہ ترقی کی فہرست میں اس کا نام نہ آئے — یہ اس کی ذات کا خسارہ ہے۔ ایک طالب علم جو راتوں کی نیند قربان کر کے امتحان کی تیاری کرے مگر ناکام ہو جائے، وہ اپنی محنت اور حوصلے کا نقصان جھیلتا ہے۔ ایک سرمایہ کار جو اپنے خوابوں کی رقم کسی کمپنی میں لگا دے اور مارکیٹ میں اس کے حصص گر جائیں — وہ صرف روپے نہیں، اعتماد بھی کھو دیتا ہے۔  

لیکن ان سب سے بڑا خسارہ وہ ہے جو **انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے**۔ جب وہ اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ جھوٹ نہیں بولے گا، اور پھر وعدہ توڑ دے — یہ اخلاقی شکست اس کے اندر ایک خلا چھوڑ جاتی ہے۔ یہی خلا رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو چاٹنے لگتا ہے۔  

قرآن مجید میں ارشاد ہے:  
> **وَالْعَصْرِ ۝ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۝ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**  
(سورۃ العصر)  

زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی اور صبر کی وصیت کی۔  
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی کا پیمانہ بینک بیلنس یا عہدہ نہیں، بلکہ ایمان، عمل، سچائی اور صبر ہیں۔  

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:  
> “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”  
(صحیح بخاری)  

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی صحت اور وقت کو کس طرح ضائع کر دیتے ہیں؟ ہم دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لیے تو بہت فکرمند ہوتے ہیں، مگر خود اپنی ذات کے نقصان کے بارے میں کتنے غافل ہیں۔  

امام غزالیؒ نے کہا تھا:  
> “جو اپنی روح کی اصلاح کے بغیر دنیا کی فلاح چاہتا ہے، وہ سب سے بڑے خسارے میں ہے۔”  

اور مولانا رومؒ نے فرمایا:  
> “اگر تُو نے اپنی جان کو نہ پہچانا تو سمجھ لے کہ تُو نے سب کچھ کھو دیا۔”  

یہ اقوال ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں — کہ اصل خسارہ دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ **خودی کا زوال** ہے۔  

دنیا کا خسارہ تو کبھی پورا ہو سکتا ہے، مگر آخرت کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے۔ قرآن میں صاف فرمایا گیا:  
> **"إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"**  
(الزمر: 15)  
بے شک سب سے بڑے خسارے والے وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو گنوا دیا۔  

زندگی کی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے سرمائے کو ضائع نہ کرے۔ ایمان، کردار، سچائی اور صبر — یہی وہ اثاثے ہیں جو **خسارۂ ذات** سے بچاتے ہیں۔ ورنہ زمانے کے بازار میں وہ سب کچھ جیت کر بھی انسان خود کو ہار دیتا ہے۔

بدھ، 29 اکتوبر، 2025

روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ —




روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ 

مدینہ منورہ — وہ شہر جس کی فضا میں ایمان کی خوشبو ہے، اور جس کی گلیوں میں نبی ﷺ کے قدموں کی آہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے۔ یہاں کا سب سے مقدس مقام وہ ہے جہاں آقائے دو جہاں ﷺ آرام فرما ہیں۔ روضۂ رسول ﷺ پر نظر پڑے تو سب سے پہلے ایک جملہ دل کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے -

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔
یہ الفاظ نہ صرف ایمان کی بنیاد ہیں بلکہ صداقت اور امانت کی وہ سند ہیں جو انسانیت کو آسمان سے عطا ہوئی۔

پہلا حصہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین
یعنی "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بادشاہ، حق اور ظاہر کرنے والا ہے۔"
یہ جملہ توحید کی مکمل تصویر ہے۔ یہاں “المَلِک” یعنی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے — کوئی طاقت، کوئی حکومت، کوئی اقتدار اس کے حکم کے بغیر نہیں۔ “الحق” اس بات کی شہادت ہے کہ حقیقت صرف وہی ہے، باقی سب مظاہر عارضی ہیں۔ اور “المبین” وہ ذات ہے جو سب کچھ ظاہر کرنے والی ہے، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
یہ کلمہ محض عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ شعور کی بیداری ہے — کہ دنیا کا ہر نظام، ہر قانون، ہر حرکت اسی کی مشیت کے تابع ہے۔ جب انسان دل سے اس آیت کو سمجھتا ہے تو اس کا غرور پگھل جاتا ہے، اور بندگی کا شعور جاگ اٹھتا ہے۔

دوسرا حصہ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین
یعنی "محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، وعدے کے سچے اور امانت دار۔"
یہ وہ تعریف ہے جو کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ ایک مثالی وجود کے لیے ہے — جس نے انسانیت کو سچائی، انصاف، صبر اور محبت کا کامل درس دیا۔ “صادق الوعد” — وہ جو کبھی وعدہ خلاف نہ ہوا۔ “الامین” — وہ جس کی امانت و دیانت پر دشمن بھی گواہ تھے۔
روضۂ رسول ﷺ پر یہ الفاظ محض تبرک نہیں بلکہ اعلان ہیں — کہ سچائی، امانت اور وعدے کی پاسداری ایمان کا جزوِ لازم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایمان صرف زبان سے ادا کیے گئے کلمے کا نام نہیں، بلکہ کردار میں اترے ہوئے نور کا نام ہے۔

روحانی مفہوم
یہ دو جملے دراصل ایک ہی پیغام کے دو رخ ہیں — ایک اللہ کی وحدانیت اور دوسرا نبی ﷺ کی رسالت۔ ایک ہمیں مقصدِ حیات بتاتا ہے اور دوسرا اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ۔ جب کوئی دل سے کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو وہ اپنے وجود کی تمام جھوٹی خدائیوں سے انکار کرتا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ تو وہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سچائی اور امانت کے اس راستے کا پیروکار ہے جو محمد ﷺ نے دکھایا۔

روضۂ رسول ﷺ کی تاثیر
وہ لمحہ جس میں کوئی مؤمن روضۂ اقدس کے سامنے کھڑا ہو کر یہ الفاظ پڑھتا ہے، اس کے دل پر ایک عجیب سکون نازل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ الفاظ صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ روح کے اندر لکھے جا رہے ہوں۔ وہاں کا نور، وہاں کی فضا، اور وہ سکوت — سب اسی ایک حقیقت کی گواہی دیتے ہیں:
کہ “اللہ حق ہے، اور محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں۔”
روضۂ رسول ﷺ صرف ایک زیارت گاہ نہیں، یہ ایمان کی تجدید کا مقام ہے۔ یہاں انسان اپنی ساری خواہشیں، غم، اور تکبر چھوڑ کر خالص بندگی کی کیفیت میں ڈھل جاتا ہے۔

ان دو جملوں میں کائنات کا نچوڑ چھپا ہے۔ ایک اللہ کے وجود کی دلیل ہے، اور دوسرا انسان کے کامل ترین 
یونے کی گواہی۔
اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو اس کے دل سے خوف، نفرت اور جھوٹ ختم ہو جائیں — اور باقی رہ جائے صرف روشنی، وہ روشنی جو مدینہ کے آسمان سے پھوٹتی ہے۔

“لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین،
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔”
یہ وہ کلمہ ہے جو روح کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے،
اور انسان کو بندگی کے سچ میں زندہ کر دیتا ہے۔