پیر، 7 اپریل، 2025

خاک سے افلاک تک — ایک گمنام مجاہد کی حکایت





یہ قصہ ہے ایک ایسے انسان کا، جو مٹی سے اُٹھا، مگر مٹی پر چلنا نہ بھولا۔ راولپنڈی کی ایک پسماندہ وادی کا باسی، جہاں راستے کچے تھے اور زندگی کے خواب دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جس پر وقت تھم سا گیا تھا۔ نہ وہاں بجلی کی چمک تھی، نہ سڑکوں کی روانی، نہ کتابوں کی روشنی۔ صرف مٹی تھی، غربت تھی، اور سادہ دلوں کی خاموشی۔

اس کے والدین نے مقدور بھر کوشش کی۔ آٹھ جماعتیں پڑھا دیں، جیسے ماں باپ بیٹے کو دعا دے کر کسی انجانے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ اور پھر وہ شہرِ بے مہری، راولپنڈی کی طرف نکل کھڑا ہوا—پیروں میں چپل، دل میں آگ، اور آنکھوں میں خواب۔

بے سرو سامانی میں میٹرک کیا، ایک وکیل کے دفتر میں منشی بن کر کام سیکھا، دن کو نوکری، رات کو کتاب—حتیٰ کہ وکالت کی سند حاصل کر لی۔ پھر زندگی نے اسے ایک پرانی موٹر سائیکل دی، اور وہ عید کے روز اُسے لیے گاؤں جا پہنچا—وہیں، جہاں کبھی خواب مرجھا جاتے تھے۔

مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، کہ اُس کے گھر کا راستہ ایک کھیت سے گزرتا تھا جو کسی اور کی ملکیت تھا۔ زمین کے مالک نے رعونت سے کہا: "یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں!"
وہ خاموش رہا۔ کوئی احتجاج نہ کیا، صرف نگاہوں میں ایک سوال تھا اور دل میں ایک وعدہ۔

واپس راولپنڈی آیا۔ محنت کا دامن تھاما۔ چند برسوں میں ہائی کورٹ کا وکیل بن گیا۔ اور جب دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں آیا، تو اسی کھیت میں سے گزر کر گیا—مگر اس بار کھیت اس کا اپنا تھا، اور گندم کی فصل اُسی راستے میں جھک کر اس کی آمد کا استقبال کر رہی تھی۔

وہی موٹر سائیکل والا، آج گاڑی کا مالک تھا۔ مگر غرور میں گندم روندتے ہوئے وہ دروازے تک آیا۔ باپ نے ایک نظر بیٹے کو دیکھا اور کہا:

"بیٹا، فرق کیا رہا تم میں اور اُس میں؟ اُس نے تمہیں روک دیا تھا، تم نے فصل روند دی۔"

یہ جملہ تیر بن کر دل کے اندر پیوست ہو گیا۔ علم نے دستک دی، شعور جاگ اُٹھا۔ اگلی صبح اُس نے اعلان کیا:
"یہ بیس فٹ زمین، گاؤں کے لیے راستہ ہوگی—ہمیشہ کے لیے!"

یہی لمحہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ وہ وکیل نہیں رہا، وہ اب مٹی کا بیٹا بن چکا تھا۔ اس نے گاؤں کو اپنا کاغذ بنایا اور ترقی کو قلم، اور پھر تحریر کی وہ نظم جس میں ہر سطر خدمت، ہر مصرع محبت اور ہر بند انسانیت تھا۔

آج اُس گاؤں میں پکی سڑک ہے، بجلی کی روشنی ہے، سرکاری ڈسپنسری ہے، ہائی اسکول کی گھنٹی بجتی ہے، اور ہر درخت کی چھاؤں میں دعائیں پلتی ہیں۔ جب میں ایک بار اُس کے ساتھ گاؤں گیا، تو لوگوں کی نگاہوں میں ایک عجب تقدیس دیکھی۔
یہ عزت وہ تاج تھی، جو خدمت کی پیشانی پر خود چمک اٹھا تھا۔


ہم ایک ایسی امت کے وارث ہیں جس کا پہلا پیغام تھا: "اقْرَأْ" — پڑھو!
مگر ہم نے نہ پڑھا، نہ سمجھا۔ نہ رب کی مانی، نہ رسول ﷺ کی۔ ہم دل سے سوچتے ہیں، دماغ سے نہیں؛ جذبات سے فیصلے کرتے ہیں، حکمت سے نہیں۔

یاد رکھو—ایک فرد کو سنورنے میں دس سال لگتے ہیں، ایک گاؤں کو بدلنے میں پچاس، اور ایک قوم کو سربلند ہونے میں صدیاں۔
لیکن اگر چراغ علم سے روشن ہو، اگر رہبر مخلص ہو، اگر دل میں اخلاص اور ہاتھوں میں محنت ہو—تو خاک سے افلاک تک کا سفر ناممکن نہیں۔

زبان جتنی بھی دراز ہو، اور جذبات جتنے بھی بلند ہوں، مقام صرف علم، ہنر، اور عمل سے ہی حاصل ہوتا ہے۔


یہ محض ایک انسان کی کہانی نہیں، یہ شعور کی جیت ہے۔ یہ اس مٹی کی بات ہے جو اپنے بیٹے کو پالتی ہے، گراتی ہے، سنوارتی ہے، اور آخرکار، ایک مثال بنا دیتی ہے۔


اتوار، 6 اپریل، 2025

ابو ایوب انصاری






یمن کے بادشاہ تبع خمیری کا ایک مشہور واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنے وزیر کے ساتھ مکہ معظمہ کا دورہ کیا۔ جب مکہ کے لوگوں نے ان کی عزت نہ کی تو بادشاہ نے کعبہ کو گرانے اور اہل مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن ایک عالم ربانی نے بادشاہ کو اس نیت سے توبہ کرنے کو کہا اور بادشاہ نے توبہ کر کے کعبہ کی تعظیم کی۔ بعد ازاں، مدینہ پہنچ کر انہوں نے وہاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی علامات دیکھ کر وہاں چار سو مکان بنوائے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک دو منزلہ مکان تعمیر کیا۔ انہوں نے اپنے خط میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کا اظہار کیا اور قیامت کے دن شفاعت کی درخواست کی۔ یہ خط نسل در نسل محفوظ رہا اور بالآخر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے آئے تو قصویٰ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہری اور آپ نے بادشاہ تبع کا خط نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دو منزلہ گھر کو اپنی قیام گاہ بنایا۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک معروف صحابی رسول اور میزبان رسول کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ مدینہ منورہ کے خوش نصیب انصاری تھے جن کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات ماہ تک آپ کے مکان میں قیام کیا اور اس دوران آپ نے بے پناہ عقیدت اور جاں نثاری کا مظاہرہ کیا۔ ایک مرتبہ، اوپر کی منزل میں قیام کے دوران پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سارا پانی اپنے لحاف میں جذب کر لیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ آپ کی میزبانی، سخاوت، شجاعت اور بہادری کی مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جہاد قسطنطنیہ میں شامل ہو کر آپ نے مجاہدانہ شان کے ساتھ لڑائیاں لڑیں اور اسی دوران 52ھ میں وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق قسطنطنیہ کے قلعے کے پاس دفن کیا گیا اور آپ کی قبر آج تک زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

للہ تعالیٰ کی قدرت اور اونٹ کی تخلیق




اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو بارہا یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ کائنات میں اس کی تخلیق کردہ نشانیوں پر غور و فکر کریں۔ ہر شے اس کی بے پایاں قدرت کی گواہی دیتی ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک نمایاں مثال "اونٹ" ہے، جس کی تخلیق میں حیرت انگیز حکمت اور صناعی چھپی ہوئی ہے۔

اونٹ — حیرت انگیز تخلیق

ذرا اونٹ کو دیکھیے! یہ جانور اپنی جسامت میں قوی، ساخت میں مضبوط، اور مزاج میں نہایت فرماں بردار ہے۔ بوجھ اٹھانے والا یہ جانور نہ صرف انسان کا قدیم ساتھی ہے بلکہ قدرت کا ایسا شاہکار ہے جو صحرا کی سختیوں میں بھی بخوبی زندہ رہتا ہے۔

اونٹ کے حیران کن حقائق

  1. چربی کا ذخیرہ، پانی نہیں
    اونٹ کے کوہان میں پانی نہیں بلکہ چربی جمع ہوتی ہے، جو توانائی کے ذخیرے کے طور پر کام آتی ہے، خصوصاً جب خوراک میسر نہ ہو۔

  2. مہینوں تک خوراک کے بغیر گزارا
    کوہان میں موجود چربی کی بدولت اونٹ 4 سے 5 ماہ تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہے۔ چربی ختم ہونے پر کوہان سکڑ جاتا ہے۔

  3. اونٹ کی اقسام

    • ڈرومیڈری (عربی اونٹ): ایک کوہان

    • بیکٹرین (ایشیائی اونٹ): دو کوہان

    • جنگلی بیکٹرین: ایک الگ اور نایاب نسل

  4. پیدائش پر کوہان نہیں ہوتا
    نومولود اونٹوں کے جسم پر پیدائش کے وقت کوہان نہیں ہوتا۔ یہ تقریباً 10 ماہ کی عمر میں ابھرنے لگتا ہے۔

  5. منفرد چال (Pacing)
    اونٹ مخصوص چال میں چلتا ہے جسے "پیسنگ" کہا جاتا ہے، جس میں ایک طرف کے دونوں پیر ایک ساتھ حرکت کرتے ہیں۔ یہی چال گھوڑے، زرافے اور ہاتھی میں بھی دیکھی جاتی ہے۔

  6. بیضوی خون کے خلیے
    اونٹ کے خون کے خلیے بیضوی (oval) ہوتے ہیں، جو پانی کی شدید کمی میں بھی خون کی روانی برقرار رکھتے ہیں۔

  7. پانی کے بغیر کئی ہفتے گزار سکتا ہے
    اونٹ کے گردے پانی کو بہت کم ضائع کرتے ہیں، اور جب یہ پانی پیتا ہے تو ایک ہی وقت میں 200 لیٹر تک پی سکتا ہے۔

  8. موٹی اور سخت کھال
    اونٹ کی کھال اسے گرمی سے بچاتی ہے اور سردی میں گرم رکھتی ہے، جو صحرا کے سخت موسم میں ایک نعمت ہے۔

  9. غذائیت سے بھرپور دودھ
    اونٹ کا دودھ وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے، اور اس میں چینی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بھارت سمیت کئی ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔

  10. کھڑے ہو کر سونا
    اگرچہ اونٹ عموماً بیٹھ کر سوتا ہے، مگر خطرات کے وقت یہ کھڑے ہو کر بھی سو سکتا ہے تاکہ شکاریوں سے محفوظ رہے۔


اونٹ اور انسانی زندگی

اونٹ صحرائی علاقوں میں انسانی بقا کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں۔ ان کا کردار نقل و حمل، خوراک، لباس، اور حتیٰ کہ حفاظت تک میں اہم رہا ہے۔ ان کی غیر معمولی جسمانی ساخت اور جینیاتی خصوصیات انہیں شدید گرم و خشک ماحول میں بھی زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔

دنیا کے مختلف خطوں، خصوصاً افریقہ، ایشیا اور عرب کے صحراؤں میں اونٹ نہ صرف سفر کا ذریعہ رہے ہیں بلکہ مقامی معیشت اور ثقافت کا اہم حصہ بھی ہیں۔

دو بڑی گھریلو اقسام درج ذیل ہیں:

  • Camelus dromedarius: ایک کوہان والا عربی اونٹ، جو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عام پایا جاتا ہے۔

  • Camelus bactrianus: دو کوہان والا ایشیائی اونٹ، جو سرد علاقوں میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔

تحقیقات کے مطابق، عربی اونٹ کو تقریباً پانچ سے چھ ہزار سال پہلے عرب علاقوں میں سدھایا گیا تھا، جو آج بھی انسانی خدمت میں مصروف ہے۔

سکوتِ زندگی کی دانائی



زندگی کی راہوں میں اگر دل کو چین اور روح کو قرار درکار ہو، تو کچھ نازک اصولوں کو سینے سے لگا لینا لازم ہے۔

یہ دنیا تماشا ہے۔ جب لوگ آپ کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو محض آپ کا چہرہ ہی نہیں، آپ کے حالات، طرزِ زیست، اور خوابوں کی ادھ کھلی جھروکیاں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ایسے میں دانش یہی ہے کہ اپنے رازوں کو در و دیوار تک محدود رکھا جائے۔ جو باتیں دل میں بند رہیں، وہی دل کو محفوظ رکھتی ہیں۔ راز اگر زبان پر آ جائیں، تو سکون در بدر ہو جاتا ہے۔

مشورے ہر سمت سے آئیں گے، ہر راہ گزر اپنی رائے دے گا۔ مگر اصل دانائی یہ ہے کہ سنا سب جائے، پر مانا صرف وہ جائے جو دل کی زمین پر اترے، اور اہلِ خانہ کی عقل و محبت سے ہم آہنگ ہو۔

ہر رشتہ چاہے کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، ایک حد چاہتا ہے — ایک خاموش لکیر، جو نہ تو بیگانگی ہے نہ ہی سختی، بلکہ ایک لطیف سا فاصلہ، جو عزت کو قائم رکھتا ہے اور دل کو محفوظ۔

انسان کی کمزوریاں تبھی عیاں ہوتی ہیں جب کوئی اس کے بہت قریب آ جائے۔ اس لیے ہر قربت کو محتاط محبت کے ساتھ نبھائیں۔

اور ہاں — جب غصہ آئے، تو زبان کو لگام دیں، کہ ایک لمحے کی تیزی سالوں کا سکون چھین سکتی ہے۔ اور جب خوشی دامن پکڑے، تو جذبوں کو حدود میں رکھیں، کہ بے لگام خوشی بھی اکثر ندامت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔

یہ چند سادہ باتیں ہیں، محض ایک نصیحت کی صورت —
مگر انہی میں وہ دانائی چھپی ہے جو عمر بھر کا چین دے سکتی ہے۔

اج کا کام کل پر مت ڈال



انسان کام موخر کیوں کرتا ہے

1-  کام پسند نہ ہونا

2-  سستی

3- اس کام کا اہل نہ ہونا

4- بیماری

5- کام مکمل کرنے کا حدف مقرر نہ کرنا

6- کام کےلیے بہت زیادہ مہلت کا مل جانا

7۔ وقت کا احساس نہ ہونا۔

کام موخر کرنے کے نقصانات :

1۔ کام بعض اوقات ہوہی نہیں پاتا

2۔ کام معیار کے مطابق نہیں ہوتا

3۔ لوگوں کی نظر میں آدمی گر جاتا ہے

4۔ لوگ اعتماد نہیں کرتے 

5۔ انسان مستقبل میں صرف کوئی بڑی منزل حاصل نہیں کرسکتا۔

ان مسائل کا حل :

1۔ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں۔

2۔ بتکلف کام کو وقت پہ کریں۔

3۔ جب بھی کام کریں مکمل (Confidence)خود اعتمادی سے کریں ۔

4۔ اپنے کام کا ہدف بنالیں کہ میں نے یہ کام اتنے وقت میں کرنا ہے اور اسے کوشش کریں وقت سے قبل ہی مکمل کر لیں اور جلد بازی سے بھی کام نہ لیں کہ یہ بھی ایک نحوست ہے۔