ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

نوبختی خاندان

نوبختی خاندان 
ہم جب اسلامی تاریخ کے علمی خانوادوں پر نظر ڈالتے ہیں تو کچھ نام محض افراد نہیں رہتے بلکہ پورے فکری ادوار کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ نوبختی خاندان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ خاندان عباسی دور کے ابتدائی زمانے میں نہ صرف دربارِ خلافت سے وابستہ رہا بلکہ علم، عقل اور روایت کے باہمی امتزاج کی ایک روشن مثال بھی بنا۔
نوبختی خاندان کی جڑیں قبل از اسلام ایران کی علمی روایت میں ملتی ہیں۔ نوبخت بن فیروز، جو اس خاندان کے بانی سمجھے جاتے ہیں، علمِ نجوم کے ماہر تھے۔ عباسی انقلاب کے بعد جب بغداد نئی خلافت کا مرکز بنا تو نوبخت اور ان کے اہلِ خانہ کو دربار میں خاص مقام ملا۔ روایت ہے کہ بغداد شہر کی بنیاد رکھتے وقت سعد ساعت کے تعین میں نوبختی علما سے مشورہ لیا گیا۔ یہ اس زمانے کی فکری فضا کا عکس تھا، جہاں علمِ نجوم کو ریاستی منصوبہ بندی سے الگ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
عباسی عہد کا ایک نمایاں پہلو ترجمہ اور علم کی سرپرستی تھا۔ یونانی، فارسی اور ہندی علوم کو عربی میں منتقل کرنے کی جو تحریک شروع ہوئی، نوبختی خاندان اس کے فکری ماحول کا حصہ رہا۔ اگرچہ تمام تراجم براہِ راست ان کے نام سے منسوب نہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان نے اس علمی فضا کو جنم دینے اور اسے فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہی وہ دور تھا جب عقل، فلسفہ اور تجربے کو دینی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں زور پکڑ رہی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ نوبختی خاندان کی ایک شاخ نے علمِ کلام میں نمایاں مقام حاصل کیا، خصوصاً امامیہ شیعہ روایت کے اندر۔ ابو سهل اسماعیل بن علی النوبختی اور حسن بن موسیٰ النوبختی جیسے علما نے عقلی استدلال کو مذہبی مباحث کا حصہ بنایا۔ حسن بن موسیٰ النوبختی کی تصنیف فرق الشیعہ آج بھی شیعہ فرقوں کی تاریخ پر ایک بنیادی ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں اختلاف کو محض فتنہ نہیں بلکہ ایک تاریخی اور فکری حقیقت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
نوبختی خاندان کا اصل امتیاز یہی تھا کہ وہ روایت اور عقل کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے بجائے دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے ہاں فلسفہ کوئی اجنبی علم نہیں تھا بلکہ ایسا ذریعہ تھا جس کے ذریعے عقائد کو بہتر طور پر سمجھا اور واضح کیا جا سکتا تھا۔ یہی طرزِ فکر بعد میں اسلامی کلام کی تشکیل میں دور رس اثرات کا باعث بنی۔
چوتھی صدی ہجری کے بعد نوبختی خاندان اجتماعی طور پر تاریخ کے منظرنامے سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے۔ عباسی خلافت کی کمزوری، درباری سرپرستی کا خاتمہ اور علمی مراکز کی تبدیلی نے اس خاندان کی شناخت کو منتشر کر دیا۔ مگر تاریخ کا اصول یہی ہے کہ بعض نام خاموش ہو جاتے ہیں، ان کے افکار نہیں۔ نوبختی علما کی تحریریں اور فکری اثرات بعد کے زمانوں میں مختلف صورتوں میں زندہ رہے۔
 نوبختی خاندان کا ذکر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اسلامی تہذیب کسی ایک نسل، زبان یا خطے کی پیداوار نہیں تھی۔ یہ مختلف تہذیبوں، علوم اور فکری روایتوں کے امتزاج سے بنی۔ نوبختی خاندان اسی امتزاج کی ایک علامت ہے—ایرانی دانش،عباسی سیاست اور اسلامی فکر کے درمیان ایک خاموش مگر مضبوط ربط۔

Pakistan’s Evolving Strategic Role

Pakistan’s Evolving Strategic Role

Pakistan’s international standing has risen markedly amid recent geopolitical shifts. Strategic engagements, diplomatic outreach, and participation in high‑level global forums have underscored Islamabad’s increased relevance in international affairs and attracted sustained attention from major powers. For example, Pakistan’s leadership held multiple high‑profile meetings with U.S. counterparts in 2025, drawing significant global attention to its diplomatic posture. [1]

In the context of 21st‑century great‑power rivalry, the United States, China, and Russia are actively seeking reliable partners to secure influence across the vast Eurasian landmass. Pakistan’s geographic location at the nexus of West, South, and Central Asia positions it as a crucial strategic “pivot” state in this emerging multipolar order. Its role is underscored by its access to key land and maritime routes and by its involvement in regional initiatives that intersect with great‑power strategies. [2][4]

Contrary to reductionist portrayals—such as those propagated in parts of India that dismiss Pakistan as a “failed state”—geopolitical realities reflect a more nuanced picture. Strategic utility, access, and influence often outweigh unidimensional assessments based solely on economic indicators. Contemporary global strategic assessments recognize that Pakistan’s location and relationships confer leverage, particularly as powers recalibrate their priorities in Eurasia’s complex security and economic landscape. [6][9]

Pakistan’s strategic value is multifaceted. Its landmass offers access routes to South and Central Asia and proximity to the Arabian Sea, presenting logistical and security benefits for external powers seeking regional connectivity. Initiatives such as the China‑Pakistan Economic Corridor (CPEC) enhance Pakistan’s role in China’s regional economic architecture, while Islamabad’s diplomatic outreach to the United States and Gulf states has diversified its partnerships. [4][1] This reflects Pakistan’s broader strategy of balancing relationships across multiple power centers rather than aligning solely with one bloc.

Pakistan’s active involvement in regional multilateral frameworks further amplifies its global role. By engaging with institutions that shape security and economic cooperation across Asia, Pakistan participates in evolving regional governance structures that matter to great powers and smaller states alike. [2] This engagement reinforces its identity as a stakeholder capable of contributing to regional stability and connectivity.

In conclusion, Pakistan’s emergence as a geopolitical pivot reflects substantive strategic dynamics rather than peripheral perception. Its geography, diplomatic engagements, and links to regional connectivity initiatives make it indispensable to global powers navigating the complexities of Eurasian competition. While external narratives may lag behind these developments, the international strategic community’s deepening engagement with Pakistan signals acknowledgment of its evolving role in shaping the region’s future.


References

  1. Pakistan’s leadership engagements with U.S. officials and heightened diplomatic attention in 2025. 

  2. Pakistan’s strategic geographic significance at the nexus of West, South, and Central Asia. Pakistan’s balancing of relations with major powers as part of global diplomatic strategy. 

  3. Analysis of Pakistan’s evolving role in great‑power regional strategies. [turn0search6]

  4. Commentary on Pakistan’s historic geopolitical positioning and its modern implications. 

  5. Reports on Pakistan’s global role and defense partnerships highlighting broader recognition. 


پاکستان میں استحکام


پاکستان میں استحکام

ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں تقریباً ہر قومی مسئلے کی جڑ ماضی کے کسی نہ کسی زخم میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو، ادارہ جاتی کشمکش، عوامی بداعتمادی یا معاشرے میں پھیلتا ہوا غصہ—ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے کہ معاملات یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچے۔ مسئلہ معلومات کی کمی نہیں، اصل مسئلہ اجتماعی سطح پر سچ سے گریز ہے۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں، مگر تسلیم کرنے کا حوصلہ کم ہی دکھاتے ہیں۔

ہماری قومی روایت یہ رہی ہے کہ مشکل اور غیر آرام دہ سوالات کو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر مؤخر کر دیا جائے، اور کڑوی حقیقت کو حب الوطنی کے خلاف قرار دے دیا جائے۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ سچ بوجھ بنتا چلا گیا اور جھوٹ سہارا۔ حالانکہ قومیں سہارا لے کر نہیں، سچ کو قبول کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں 

Truth & Reconciliation Commission 

کی ضرورت محض ایک خیال نہیں بلکہ وقت کی ناگزیر پکار بن جاتی ہے۔

یہ کمیشن کسی فرد، جماعت یا ادارے کے خلاف انتقامی فورم نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ سچ کو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنانا، غلطیوں کے اعتراف کا راستہ ہموار کرنا، اور متاثرہ افراد کو سنا جانا ہے۔ جب ریاست خود یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیتی ہے کہ ہاں، یہاں غلطیاں ہوئیں، تب ہی قوم میں یہ اعتماد جنم لیتا ہے کہ آئندہ ان غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔

بدقسمتی سے ہم ہر بحران کا حل نئے نعروں، وقتی صف بندیوں اور عارضی مفاہمتوں میں تلاش کرتے رہے ہیں، جبکہ اصل مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب تک ماضی واضح نہیں ہوگا، حال شکوک میں گھرا رہے گا اور مستقبل خوف سے آزاد نہیں ہو سکے گا۔ ایسے میں یہ کمیشن اسی دھند کو چھانٹنے کا ایک مہذب، پُرامن اور سنجیدہ راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سچ بولنے سے ریاست کمزور نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بند فائلیں اور خاموشیاں نہیں، بلکہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ جب شہری دیکھتے ہیں کہ ان کے دکھ، ان کے سوال اور ان کی شکایات ریاستی سطح پر سنی جا رہی ہیں، تو قانون کی بالادستی ایک محض نعرے کے بجائے عملی حقیقت بننے لگتی ہے۔

یقیناً اس راستے میں مزاحمت ہوگی۔ طاقتور حلقے ہمیشہ سچ سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ سچ ان کے گھڑے ہوئے بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جن معاشروں نے سچ کو دباکر استحکام حاصل کرنا چاہا، انہیں کبھی حقیقی اور دیرپا امن نصیب نہیں ہوا۔ وقتی خاموشی ممکن ہے، مگر پائیدار استحکام نہیں۔

اگر یہ کمیشن واقعی خودمختار ہو، اس کی تشکیل شفاف ہو، اور اس کی سفارشات محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہیں، تو یہ قدم ملک کو انتقام، نفرت اور بداعتمادی کے دائروں سے نکال سکتا ہے۔ شاید اسی عمل کے ذریعے ہم یہ سیکھ سکیں کہ قوم بننے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے مشکل قدم خود سے سچ بولنا ہوتا ہے۔

ممکن ہے یہی وہ موڑ ہو جہاں زوال کی کہانی تھم جائے اور بہتری کی سمت سفر کا آغاز ہو۔ کیونکہ تاریخ میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنے ماضی کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں—اور شاید ہمارے لیے بھی استحکام کی طرف پہلا قدم یہی ہے۔

اتوار، 7 دسمبر، 2025

کارل مارکس — پاکستانی اہلِ فکر کی نظر میں





 کارل مارکس — اہلِ فکر کی نظر میں
1. علامہ محمد اقبال
"مارکس کا دردِ انسانیت سچا ہے، مگر اس کی دنیا میں روحانی ارتقاء کا چراغ بجھا ہوا ہے۔ وہ معاشی عدل تو چاہتا ہے، مگر انسان کی باطنی پرواز کو سمجھ نہیں سکا۔ اس کا اشتراکیت مادہ پرستی کی اسیر ایک نامکمل دنیا پیش کرتی ہے۔"
2. ڈاکٹر مبشر حسن 
"مارکس نے سرمایہ دارانہ استحصال کا جو نقشہ کھینچا، پاکستان جیسے معاشروں میں وہ آج بھی جوں کا توں نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں طاقت کے تمام مراکز اسی معاشی جبر سے جنم لیتے ہیں۔"
3. ڈاکٹر پرویز ہود بھائی 
"مارکس کے معاشی تجزیے کی سائنسی گہرائی حیران کن ہے۔ تاہم انسانی آزادی، جمہوریت اور علمی تنوع کے بغیر مارکسی معاشرہ بھی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے نظریات اکثر جذباتی نعروں تک محدود رہے۔"
4. ڈاکٹر محمد حنیف رامے 
"مارکس کی فکر نے محکوم طبقات کو زبان دی۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں اس کی تعبیر کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، فلسفیانہ بنیادوں پر نہیں۔"
5. احمد بشیر 
"مارکس نے انسان کے دکھ کو معاشی زاویے سے دیکھا، جو اپنی جگہ درست تھا، مگر ہمارے معاشرے میں دکھ کی تہیں کہیں زیادہ پیچیدہ اور تہذیبی ہیں۔ یہاں صرف معاشی انقلاب کافی نہیں ہوتا۔"
6. فیض احمد فیض 
"مارکس نے ظلم کی وہ شکلیں دکھائیں جو عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے مزدور اور کسان کو تاریخ کا اصل ہیرو بنایا۔ ہمارے ادب میں جو انقلابی روشنی ہے، اس کی جڑیں مارکس کی فکر تک جاتی ہیں۔"
7. حبیب جالب
"مارکس نے ہمیں بتایا کہ ظلم کے سامنے خاموشی بھی جرم ہے۔ اس کے نظریات نے ہمیں طاقت کے ایوانوں سے سوال کرنے کا حوصلہ دیا۔"
8. ڈاکٹر خالد جاوید 
"مارکس نے سماجی ڈھانچے کی جو تشریح کی، وہ برِصغیر کے جاگیردارانہ نظام پر بھی پوری اترتی ہے۔ ہمارے یہاں طبقاتی تقسیم اور طاقت کا کھیل اسی کے بیان کردہ اصولوں پر چلتا ہے۔"
9. ڈاکٹر اعجاز احمد 
"مارکس کو صرف معاشیات تک محدود کرنا غلط ہے؛ وہ تاریخ، ادب، ثقافت اور سیاست سب کے اندر چھپے رشتوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس کی تعبیرات کئی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔"
10. عابد حسن منٹو 
"مارکس نے قانون اور انصاف کے پیچھے کارفرما طبقاتی قوتوں کو آشکار کیا۔ پاکستان کے عدالتی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اس کی فکر آج بھی ناگزیر ہے۔"
11. ڈاکٹر لئیق احمد 
"مارکس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فکر کو عمل سے جوڑا۔ نظریہ اگر انسان کے دکھ میں کارآمد نہ ہو تو بے معنی ہے۔"
12. امجد اسلام امجد 
"مارکس کا تصورِ عدل خوبصورت ہے، مگر انسان صرف روٹی سے نہیں بنتا—وہ محبت، خوف، خواب اور روحانیت سے بھی جڑا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے ادب نے ہمیشہ مارکسزم سے زیادہ بہتر سمجھا۔"
13. ڈاکٹر مقصود علی 
"پاکستانی سماج میں سرمایہ داری اور جاگیرداری ایک ساتھ چلتی ہیں؛ مارکس کے اصولوں کا ان کے باہمی ملاپ پر اطلاق بہت اہم ہے۔ اس نے جو تضادات دکھائے وہ آج بھی موجود ہیں۔"
14. ڈاکٹر راشد شاز 
"مارکس کے سوال درست تھے، مگر اس کے جواب ادھورے۔ انسان کو بدلنے کے لیے صرف ڈھانچے نہیں، اخلاقی بنیادیں بھی درکار ہوتی ہیں۔"

سماع و وجد


 

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ 
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے  توں توں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ 
اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔
 عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ 
سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'الف۔ اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ 
ادراک  و  ورود  دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔
 نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔
 کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔
 اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔
 شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔
 ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ 
جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔
حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ 
روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ 
جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔
 جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔
 سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔