یہ قصہ ہے ایک ایسے انسان کا، جو مٹی سے اُٹھا، مگر مٹی پر چلنا نہ بھولا۔ راولپنڈی کی ایک پسماندہ وادی کا باسی، جہاں راستے کچے تھے اور زندگی کے خواب دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جس پر وقت تھم سا گیا تھا۔ نہ وہاں بجلی کی چمک تھی، نہ سڑکوں کی روانی، نہ کتابوں کی روشنی۔ صرف مٹی تھی، غربت تھی، اور سادہ دلوں کی خاموشی۔
اس کے والدین نے مقدور بھر کوشش کی۔ آٹھ جماعتیں پڑھا دیں، جیسے ماں باپ بیٹے کو دعا دے کر کسی انجانے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ اور پھر وہ شہرِ بے مہری، راولپنڈی کی طرف نکل کھڑا ہوا—پیروں میں چپل، دل میں آگ، اور آنکھوں میں خواب۔
بے سرو سامانی میں میٹرک کیا، ایک وکیل کے دفتر میں منشی بن کر کام سیکھا، دن کو نوکری، رات کو کتاب—حتیٰ کہ وکالت کی سند حاصل کر لی۔ پھر زندگی نے اسے ایک پرانی موٹر سائیکل دی، اور وہ عید کے روز اُسے لیے گاؤں جا پہنچا—وہیں، جہاں کبھی خواب مرجھا جاتے تھے۔
مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، کہ اُس کے گھر کا راستہ ایک کھیت سے گزرتا تھا جو کسی اور کی ملکیت تھا۔ زمین کے مالک نے رعونت سے کہا: "یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں!"
وہ خاموش رہا۔ کوئی احتجاج نہ کیا، صرف نگاہوں میں ایک سوال تھا اور دل میں ایک وعدہ۔
واپس راولپنڈی آیا۔ محنت کا دامن تھاما۔ چند برسوں میں ہائی کورٹ کا وکیل بن گیا۔ اور جب دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کر گاؤں آیا، تو اسی کھیت میں سے گزر کر گیا—مگر اس بار کھیت اس کا اپنا تھا، اور گندم کی فصل اُسی راستے میں جھک کر اس کی آمد کا استقبال کر رہی تھی۔
وہی موٹر سائیکل والا، آج گاڑی کا مالک تھا۔ مگر غرور میں گندم روندتے ہوئے وہ دروازے تک آیا۔ باپ نے ایک نظر بیٹے کو دیکھا اور کہا:
"بیٹا، فرق کیا رہا تم میں اور اُس میں؟ اُس نے تمہیں روک دیا تھا، تم نے فصل روند دی۔"
یہ جملہ تیر بن کر دل کے اندر پیوست ہو گیا۔ علم نے دستک دی، شعور جاگ اُٹھا۔ اگلی صبح اُس نے اعلان کیا:
"یہ بیس فٹ زمین، گاؤں کے لیے راستہ ہوگی—ہمیشہ کے لیے!"
یہی لمحہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ وہ وکیل نہیں رہا، وہ اب مٹی کا بیٹا بن چکا تھا۔ اس نے گاؤں کو اپنا کاغذ بنایا اور ترقی کو قلم، اور پھر تحریر کی وہ نظم جس میں ہر سطر خدمت، ہر مصرع محبت اور ہر بند انسانیت تھا۔
آج اُس گاؤں میں پکی سڑک ہے، بجلی کی روشنی ہے، سرکاری ڈسپنسری ہے، ہائی اسکول کی گھنٹی بجتی ہے، اور ہر درخت کی چھاؤں میں دعائیں پلتی ہیں۔ جب میں ایک بار اُس کے ساتھ گاؤں گیا، تو لوگوں کی نگاہوں میں ایک عجب تقدیس دیکھی۔
یہ عزت وہ تاج تھی، جو خدمت کی پیشانی پر خود چمک اٹھا تھا۔
ہم ایک ایسی امت کے وارث ہیں جس کا پہلا پیغام تھا: "اقْرَأْ" — پڑھو!
مگر ہم نے نہ پڑھا، نہ سمجھا۔ نہ رب کی مانی، نہ رسول ﷺ کی۔ ہم دل سے سوچتے ہیں، دماغ سے نہیں؛ جذبات سے فیصلے کرتے ہیں، حکمت سے نہیں۔
یاد رکھو—ایک فرد کو سنورنے میں دس سال لگتے ہیں، ایک گاؤں کو بدلنے میں پچاس، اور ایک قوم کو سربلند ہونے میں صدیاں۔
لیکن اگر چراغ علم سے روشن ہو، اگر رہبر مخلص ہو، اگر دل میں اخلاص اور ہاتھوں میں محنت ہو—تو خاک سے افلاک تک کا سفر ناممکن نہیں۔
زبان جتنی بھی دراز ہو، اور جذبات جتنے بھی بلند ہوں، مقام صرف علم، ہنر، اور عمل سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
یہ محض ایک انسان کی کہانی نہیں، یہ شعور کی جیت ہے۔ یہ اس مٹی کی بات ہے جو اپنے بیٹے کو پالتی ہے، گراتی ہے، سنوارتی ہے، اور آخرکار، ایک مثال بنا دیتی ہے۔