اتوار، 19 اکتوبر، 2025

وجود کے دو بازو (3)

وجود کے دو بازو (3)
کائنات ایک ایسا حیرت انگیز نظام ہے جو دو بنیادی ستونوں پر قائم ہے:
توانائی (حرکت کی قوت) اور وقت (حرکت کا پیمانہ)۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
توانائی وجود کو ظاہر کرتی ہے،
اور وقت اس ظہور کی ترتیب کو منظم کرتا ہے۔
اگر توانائی رک جائے تو وقت بے معنی ہو جاتا ہے،
اور اگر وقت نہ ہو تو توانائی کا کوئی بہاؤ باقی نہیں رہتا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
"وقت، توانائی کی زبان ہے — اور توانائی، وقت کی آواز۔"

 توانائی — وجود کا دھڑکتا پہلو
توانائی کسی بھی شے کی اثر پیدا کرنے یا تبدیلی لانے کی صلاحیت ہے۔
یہ وہ پوشیدہ قوت ہے جو کائنات کے ہر ذرے میں سانس لیتی ہے۔
یہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے:
حرارتی توانائی (Heat)
نوری توانائی (Light)
برقی توانائی (Electricity)
کیمیائی توانائی (Chemical Energy)
جوہری توانائی (Nuclear Energy)

سائنس نے ایک بنیادی اصول دیا
“توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے، نہ ختم — صرف ایک صورت سے دوسری میں تبدیل ہوتی ہے۔”
یہی وہ نکتہ ہے جو قرآن نے کھول کر بیا کر دیا  تھا:
اللّٰهُ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ
“اللہ ہر لمحہ کسی نئی حالت میں ہے۔” (الرحمن: 29)
یعنی کائنات میں ہر لمحہ ایک نیا ظہور ہو رہا ہے،
مگر اصل قوت، اصل وجود — ہمیشہ ایک ہی ہے۔
جب پنڈت اپنے فہم سے مجبور ہو کر پتھر میں الوہیت تلاش کرتا ہے،
تو وہ دراصل اسی پوشیدہ توانائی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے
جو ہر شے میں جلوہ گر ہے۔
وہ بھی جانتا ہے کہ
“کائنات میں ہر لمحہ توانائی نئی صورت میں جلوہ گر ہو رہی ہوتی ہے۔”
آج انسان کو معلوم ہو چکا ہے کہ 
“توانائی اور مادّہ ایک ہی حقیقت کی دو شکلیں ہیں۔”
تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ
وجود کی ہر صورت دراصل توانائی ہی کا لباس ہے۔
یہ وہی لباسِ مجاز ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں۔

 وقت — نظمِ کائنات کا محافظ
وقت کسی بھی حرکت یا تبدیلی کے تسلسل اور ترتیب کا پیمانہ ہے۔
یہ وہ بہاؤ ہے جس میں توانائی اپنی شکل بدلتی اور ظاہر ہوتی ہے۔
“وقت وہ حقیقت ہے جو ہر چیز کو ایک ساتھ ہونے سے روکتی ہے۔”
یعنی وقت نظمِ کائنات کا نگہبان ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى
“ہر چیز ایک مقررہ وقت تک چل رہی ہے۔” (الرعد: 2)
یوں وقت کائنات کے تسلسل، تقدیر اور توازن — تینوں کا محور ہے۔

توانائی اور وقت — ایک ابدی رشتہ
1. جہاں توانائی ہے، وہاں وقت بہتا ہے
کیونکہ توانائی کی حرکت ہی وقت کا پیمانہ ہے۔
اگر تمام ایٹم رک جائیں، تو وقت بھی رک جائے گا۔
2. توانائی وقت کو خم دیتی ہے
نظریۂ اضافیت کے مطابق:
“زیادہ توانائی یا زیادہ کششِ ثقل والے مقام پر وقت سست ہو جاتا ہے۔”
یعنی وقت خود توانائی کے دباؤ سے متاثر ہوتا ہے۔
3. وقت توانائی کو سمت دیتا ہے
اگر وقت نہ ہو تو توانائی بے سمت ہو جائے۔
سورج کی روشنی صرف اس لیے اثر رکھتی ہے
کہ وہ وقت کے ساتھ بہتی ہے۔
قرآن اس تعلق کو یوں ظاہر کرتا ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
“بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی۔” (القمر: 49)
یہ "قدر" — دراصل توانائی کی مقدار اور وقت کی ترتیب دونوں کا مجموعہ ہے۔

وجود کا خالق — نظم اور حرکت کا مالک
توانائی اور وقت دراصل خالقِ کائنات کی تجلی کے دو پہلو ہیں 
ایک پہلو میں حرکت ہے، دوسرے میں ترتیب۔
جہاں توانائی ہے وہاں “ہونا” ہے،
جہاں وقت ہے وہاں “ظہور” ہے۔


  :  حتمی نکتہ
اللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
“اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔” (النور: 35)
اسی نور سے وجود جنم لیتا ہے،
اسی سے وقت بہتا ہے،
اور اسی سے ہر توانائی اپنے رخ اور معنی پاتی ہے۔

جواب، جو ہر سوال کو معنی دے(4)


دنیا کا سب سے پرانا سوال آج بھی زندہ ہے:
کیا خدا موجود ہے؟
یہ سوال کبھی مندر کے پتھروں پر گونجا، کبھی مسجد کے محراب میں،
کبھی فلسفے کے درسگاہ میں اٹھا، کبھی سائنس کی لبارٹری میں سنا گیا
اور کبھی ایک تنہا انسان نے رات کی خاموشی میں خود اپنے دل سے پوچھا۔

زمانہ بدلا، علم بڑھا، سائنس نے زمین و آسمان کے کئی راز کھول دیے
لیکن "خالق" کا سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے انسان نے سوچنا شروع کیا تھا۔

خدا کے بارے قران کیا کہتا ہے؟
قرآن مجید نے خدا کے وجود کو صرف ایمان کا معاملہ نہیں بنایا،
بلکہ عقل، مشاہدے اور فطرت کی روشنی میں سمجھایا۔ فرمایا:
"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"(سورۃ آلِ عمران: 190)ایک اور جگہ اعلان کیا:"اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔"
(الزمر: 62)اور پھر سورۃ الاخلاص میں آخری بات کہہ دی:
"اللہ ایک ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔"
(الاخلاص: 1–3)

یعنی جو سب کو پیدا کرتا ہے، وہ خود کسی کے پیدا کرنے کا محتاج نہیں۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں انسانی عقل اپنی آخری حد کو چھو لیتی ہے —
اور رک کر سوچتی ہے کہ "جو سب کا سبب ہے، اس کا سبب کون ہو سکتا ہے؟"

اسلامی فلسفہ — مسلمان فلسفیوں نے اسی سوال کو عقل کے پیمانے پر پرکھا۔ ابنِ سینا نے کہا:دنیا کی ہر چیز کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں،
تو ضرور کوئی ایسا وجود ہے جو لازمی طور پر موجود ہو —جسے وہ "واجب الوجود" کہتے ہیں، یعنی وہ جس کا ہونا خود اپنی دلیل ہے۔
پھر آئے امام غزالی —انہوں نے کہا کہ عقل روشنی ہے، لیکن وحی سورج ہے۔
عقل راستہ دکھاتی ہے، مگر منزل تک وحی پہنچاتی ہے۔
ملا صدرا نے کہا:کائنات میں جو کچھ ہے، وہ ایک ہی وجود کے مختلف درجے ہیں۔یعنی خدا صرف خالق ہی نہیں، بلکہ وجود کی اصل حقیقت بھی ہے۔

مغربی فکر — عقل کی جستجو، ایمان کی بازگشت
ارسطو نے کہا: ہر شے حرکت میں ہے، تو کوئی پہلا "غیر متحرک محرک" ضرور ہوگا — وہی خدا ہے۔
ڈیکارٹ نے کہا:“میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں موجود ہوں۔”
اور چونکہ میرے اندر کمال کا تصور ہے،تو وہ کسی کامل ہستی نے ہی رکھا ہوگا — یعنی خدا۔
اسپنوزا نے کہا: خدا اور فطرت ایک ہی ہیں ۔جو کچھ ہے، وہی خدا کی صورت ہے۔
کانٹ نے کہا: خدا کو عقل سے نہیں، اخلاق سے پہچانا جا سکتا ہے۔
اگر جزا و سزا نہ ہو،تو نیکی اور بدی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔
یوں اخلاق خود خدا کی گواہی بن جاتا ہے۔

سائنس کا جواب — ادھورا اور خاموش: سائنس نے بتایا کہ کائنات کیسے بنی،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں بنی۔
"بگ بینگ" نے ابتدا سمجھا دی،مگر اس ابتدا کے پیچھے ارادہ کس کا تھا — یہ نہیں بتایا۔
آج جدید انسان کہتا ہے کہ سب کچھ اتفاق سے ہوا،مگر وہ خود یہ سوچنے پر مجبور ہے: "اگر سب کچھ اتفاق ہے تو اتفاق اتنا منظم کیوں ہے؟"

جہاں عقل ختم ہوتی ہے، وہاں ایمان جاگتا ہے
قرآن کہتا ہے: "وہی اول ہے اور وہی آخر، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن۔"
(الحدید: 3) یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفہ خاموش ہو جاتا ہے اور دل کہتا ہے:
"میں اسے دیکھ نہیں سکتا، مگر ہر شے میں اس کی جھلک محسوس کرتا ہوں۔"

حتمی نکتہ: خدا کوئی سوال نہیں جو ختم ہو جائے بلکہ وہ جواب ہے جو ہر سوال کو معنی دیتا ہے۔ اس کے ہونے کا ثبوت دلیلوں میں نہیں،
زندگی کے ہر سانس میں ہے۔ جب دل سچائی کی طرف مائل ہوتا ہے،
وہ دراصل خدا کی طرف ہی لوٹتا ہے۔

ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025

خدا — وجود کا سرچشمہ (5)

خدا — وجود کا سرچشمہ

دنیا کے ہر سوال کی جڑ ایک ہی سوال میں سمٹی ہوئی ہے:
“خدا کیا ہے؟” یہ سوال انسان نے اپنے وجود کے پہلے لمحے سے کیا ہے — کبھی حیرت سے، کبھی عشق سے، اور کبھی بغاوت کے لہجے میں۔
مگر جواب ہمیشہ ایک ہی سمت سے آیا: خدا ہے — اور وہی ہر وجود کی بنیاد ہے۔

کائنات اور خالق کا تعلق
قرآن کہتا ہے:
“اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ” (النور 24:35)
یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں "نور" سے مراد وجود بخشنے والی حقیقت ہے۔
تفسیرِ ابنِ کثیر کے مطابق، کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے — ستارے، روشنی، توانائی، وقت، مادہ — یہ سب اسی نورِ الٰہی کے ظہور ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی شے "ہوتی" ہی نہیں۔

اللہ — وقت و توانائی کا خالق
جدید انسان جب کہتا ہے کہ "توانائی کبھی پیدا یا فنا نہیں ہوتی"، تو وہ دراصل اسی ازلی قوت کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے جسے قرآن نے "اللہ" کہا۔ وہ خود توانائی نہیں، بلکہ توانائی کا خالق ہے۔
وہ خود وقت نہیں، بلکہ وقت کا مالک ہے۔
قرآن کہتا ہے: “هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ” (الحدید 57:3) یعنی وہی اول ہے اور وہی آخر۔ امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اللہ کے وجود سے پہلے کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد بھی کچھ باقی نہیں رہے گا۔"

"خدا کو کس نے پیدا کیا؟" — ایک عقلی جواب
یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں آتا ہے: اگر ہر شے کا خالق ہے، تو خود خدا کو کس نے پیدا کیا؟
قرآن اس کا جواب مختصر مگر مکمل انداز میں دیتا ہے:
“اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ” (الزمر 39:62) یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔

تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ اگر ہر شے کو کسی خالق نے بنایا، تو یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں جا کر رکنا ضروری ہے۔ ورنہ خالقوں کا ایک لا متناہی سلسلہ بن جائے گا — اور ایسا تسلسل خود عقل کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایک ایسی ہستی کا ہونا ضروری ہے جسے کسی نے پیدا نہ کیا ہو۔
وہی "واجب الوجود" ہے — جس کا ہونا لازمی ہے۔

انبیا کی زبان میں خدا
انبیائے کرام نے کبھی فلسفے سے نہیں، بلکہ فطرت سے خدا کو پہچانا۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب چاند اور سورج کو غروب ہوتا دیکھا تو کہا:
“میں غروب ہونے والی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔” (الانعام 6:76)
یہ انسان کی عقلِ فطری کی پہلی گواہی تھی کہ جو فانی ہے، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

حضرت موسیٰؑ نے طورِ سینا پر عرض کی
“اے رب! اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تجھے دیکھوں۔”
اللہ نے فرمایا: “تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، مگر پہاڑ کی طرف دیکھ…” (الاعراف 7:143) یہ منظر بتاتا ہے کہ اللہ کا وجود ماورائی ہے — انسان کی آنکھ یا عقل اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا
“میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا، بلکہ وہی کرتا ہوں جو خالق چاہتا ہے۔”
(یوحنا 5:30) اسلامی تفاسیر کے مطابق، یہ بیان وحدانیتِ الٰہی کی تصدیق ہے — کہ خدا ایک ہے، اور تمام قوتیں اسی سے جنم لیتی ہیں۔

اور آخر میں نبیِ آخرالزماں ﷺ نے فرمایا
“اللہ تھا، اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔” (صحیح بخاری) یہ حدیث ہر فلسفے کی انتہا ہے۔ خدا ہمیشہ سے تھا — وہ وقت اور مکان سے ماورا ہے۔

وجود کی آخری حقیقت
تفسیرِ جلالین میں سورۃ الاخلاص کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
“قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ”
"کہہ دو: وہ اللہ ایک ہے۔"
یعنی وہ اپنی ذات میں یکتا، اپنی صفات میں کامل اور اپنے وجود میں غیر محتاج ہے۔ نہ وہ پیدا ہوا، نہ کسی نے اسے پیدا کیا۔

حتمی نکتہ
دنیا میں ہر نظریہ، ہر فلسفہ، ہر سائنس آخرکار اسی ایک نکتے پر آ کر رک جاتا ہے کہ کوئی ایسی حقیقت ضرور ہے جو سب کے پیچھے ہے، جو حرکت کو توانائی، اور توانائی کو معنی دیتی ہے۔ قرآن اسے “اللہ” کہتا ہے
جو "اول" بھی ہے، "آخر" بھی، جو "نور" بھی ہے، "وجود" بھی،
اور جو ہر سوال کا پہلا اور آخری جواب ہے۔

جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)



 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)
وجود — حقیقت کی اساس
وجود کی چار اقسام
فلسفے میں "وجود" کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر وجود کی چار بنیادی اقسام بیان کی جاتی ہیں:
پہلی قسم : جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں
یہ واجب الوجود ہے
دوسری قسم: جس کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں
— اسے ممکن الوجود کہتے ہیں،
جس کا ہونا ممکن ہی نہیں
— یہ ممتنع الوجود ہے،
جس کا ہونا اور مٹ جانا دونوں ممکن ہیں
— یہ حادث الوجود کہلاتا ہے،

 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت
سائنس کہتی ہے کہ ہر شے "توانائی" کی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
یہ توانائی کبھی ذرّے میں قید ہوتی ہے، کبھی روشنی بن کر سفر کرتی ہے،
اور کبھی نظامِ حیات میں حرکت اور شعور کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
یہی “توانائی کا تسلسل” دراصل وجود کی سائنسی تعبیر ہے۔
انسان کی عقل جب وجود کی حقیقت کو سمجھنے نکلتی ہے تو اسے وجود کی چار بنیادی جہتیں نظر آتی ہیں —
بالکل ایسے ہی جیسے طبیعیات میں مادہ چار حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے: ٹھوس، مائع، گیس اور پلازما۔

 1. وہ وجود جو مٹ ہی نہیں سکتا — واجب الوجود
کائنات کے تمام قوانین ایک مرکزی مستقل حقیقت پر قائم ہیں۔
سائنس اسے 
Universal Constant
 یا 
Law of Conservation
 کہتی ہے —
جس کے مطابق “توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے، صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی ہے۔”
یہی وہ ابدی اصول ہے جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
اگر یہ اصول لمحہ بھر کے لیے ٹوٹ جائے تو کائنات کا توازن ختم ہو جائے۔
اسی کو فلسفہ "واجب الوجود" کہتا ہے — وہ حقیقت جو ہر شے کے وجود کی بنیاد ہے۔

2. وہ وجود جو ہو بھی سکتا ہے اور نہ بھی — ممکن الوجود
یہ وہ دائرہ ہے جہاں خلقت، ارتقا اور انتخاب کا عمل جاری ہے۔
ایک بیج زمین میں ہو تو درخت بن سکتا ہے، نہ ہو تو مٹی میں مل جاتا ہے۔
ایک انسانی جنین ڈی این اے کے ایک معمولی تغیر سے پیدا ہوتا ہے — اگر وہ تغیر نہ ہو تو وجود ممکن نہیں رہتا۔
یہی “ممکن الوجود” کی سائنسی صورت ہے:
جس کے ہونے کے لیے شرائط لازم ہیں،
اور نہ ہونے کے لیے کمی کافی۔

 3. وہ وجود جو عقلاً یا طبعاً ممکن ہی نہیں — ممتنع الوجود
فطرت میں کچھ تصورات ایسے ہیں جو منطقی یا طبیعی قوانین کے منافی ہیں۔
مثلاً:
روشنی سے زیادہ تیز سفر کرنا
Relativity 
کی خلاف ورزی
Absolute zero
 سے نیچے درجہ حرارت حاصل کرنا
یا بیک وقت کسی ذرّے کا دو متضاد سمتوں میں موجود ہونا بغیر کسی کوانٹم سپرپوزیشن کے۔
یہ سب ناممکن الوجود ہیں —
یعنی وہ تصورات جنہیں نہ توانائی قبول کرتی ہے، نہ منطق۔

3. وہ وجود جو پیدا بھی ہوتا ہے اور فنا بھی — حادث الوجود
یہ وجود “وقت” کے تابع ہے۔
ستارے پیدا ہوتے ہیں، توانائی ختم ہوتی ہے،
انسان جنم لیتا ہے، بڑھتا ہے، اور مٹی میں لوٹ جاتا ہے۔
فزکس کی زبان میں یہ 
Entropy
کا دائرہ ہے —
جس میں ہر نظام آہستہ آہستہ اپنی ابتدائی ترتیب کھو کر
انتشار 
(disorder)
 کی طرف بڑھتا ہے۔
یہی “حادث الوجود” ہے —
جس کا ہونا بھی ممکن ہے، اور مٹ جانا بھی لازم۔

فلسفہ وجود کو لفظوں میں بیان کرتا ہے،
اور سائنس اسے توانائی، وقت، اور نظمِ کائنات کے اصولوں میں ناپتی ہے۔
دونوں مل کر بتاتے ہیں کہ
“وجود نہ صرف حقیقت کی بنیاد ہے، بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہنے والی توانائی ہے،
جو کبھی ظاہر ہو جاتی ہے، کبھی اوجھل رہتی ہے، مگر کبھی فنا نہیں ہوتی۔”

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)

وجود، خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔(2)



وجود اور ماہیت — خیال اور حقیقت کا فرق
دنیا میں ہر چیز دو مرحلوں سے گزرتی ہے:
پہلے وہ خیال بنتی ہے، پھر حقیقت۔
فلسفے کی زبان میں خیال کو ماہیت
(Essence)
اور حقیقت کو وجود
(Existence)
کہا جاتا ہے۔


ماہیت — کسی چیز کا "کیا ہونا"
ماہیت دراصل کسی شے کی شناخت یا تصور ہے۔
یعنی یہ چیز کیا ہے؟
مثلاً:
گلاب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "پھول" ہے۔
بلب کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "روشنی دینے والا آلہ" ہے۔
موبائل کی ماہیت یہ ہے کہ وہ "رابطے کا ذریعہ" ہے۔
یہ سب خیالات انسان کے ذہن میں پہلے بنتے ہیں —
بالکل ایسے جیسے کسی انجینئر کے دماغ میں پل کا نقشہ بننے سے پہلے وہ پل زمین پر موجود نہیں ہوتا۔

وجود — کسی چیز کا "ہونا"
جب وہی خیال عملی صورت اختیار کرتا ہے تو وہ وجود میں آ جاتا ہے۔
جب گلاب زمین سے اگتا ہے تو وہ “موجود” ہو جاتا ہے۔
جب بلب جلتا ہے تو روشنی “وجود” میں آتی ہے۔
جب موبائل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتا ہے تو وہ “حقیقت” بن جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماہیت سوچ ہے، وجود اس سوچ کی عملی شکل۔

ابنِ سینا کی سادہ تشریح
ابنِ سینا نے کہا تھا:
"چیز کی اصل اس کی ماہیت ہے، اور وجود بعد میں اس پر آتا ہے۔"
یعنی پہلے خیال بنتا ہے، پھر وہ حقیقت میں بدلتا ہے۔
بالکل ایسے جیسے:
ایک ایپ یا ویڈیو گیم پہلے کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں ذہن میں پیدا ہوتی ہے،
اور جب وہ اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے تو “وجود” حاصل کر لیتی ہے۔

اختلاف کی جڑ — اصل کیا ہے؟
یہ بحث تب پیدا ہوئی جب لوگوں نے سوال اٹھایا:
کیا اصل حقیقت خیال (ماہیت) ہے یا اس خیال کی عملی شکل (وجود)؟
مثلاً:
ایک گیت اگر کسی کے ذہن میں ہے مگر گایا نہیں گیا —
کیا وہ گیت "موجود" ہے یا نہیں؟
کچھ کہیں گے نہیں، کیونکہ آواز نہیں نکلی۔
کچھ کہیں گے ہاں، کیونکہ خیال موجود ہے۔
یہی “وجود اور ماہیت” کا اختلاف ہے۔
جدید مثال — ڈیجیٹل دنیا
آج کی دنیا میں یہ فرق سب سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جب آپ موبائل میں کوئی فائل بناتے ہیں —
اس کا "خیال" یا "ڈیزائن" آپ کے ذہن میں تھا (یہ ماہیت ہے)۔
جب آپ
“Save”
دباتے ہیں، تو وہ کمپیوٹر کی یادداشت میں “موجود” ہو جاتی ہے (یہ وجود ہے)۔
ہوسکتا ہے آپ اس فائل کو نہ دیکھ سکیں، مگر وہ پھر بھی وہاں ہے۔
اسی طرح کچھ چیزیں نظر نہیں آتیں مگر ان کا وجود حقیقتاً ہوتا ہے —
بالکل جیسے
Wi-Fi
کا سگنل، آواز کی لہریں، یا دل کی دھڑکن کے برقی سگنل۔


وجود کی شدت اور کمزوری
ہر وجود ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں (جیسے میز یا درخت)،
اور کچھ محسوس کی جا سکتی ہیں (جیسے خوشبو، محبت یا وقت)۔
یہی فرق “شدت و ضعفِ وجود” ہے۔
جو چیز جتنی زیادہ پائیدار اور اثر رکھتی ہے، اس کا وجود اتنا ہی مضبوط ہے۔
مثلاً:
روشنی لمحاتی ہے، مگر اس کا اثر ہر سمت پھیلتا ہے۔
محبت نظر نہیں آتی، مگر دنیا کا نظام اس کے بغیر ادھورا ہے۔

مظاہر سے حقیقت کی پہچان
جو چیز دکھائی نہ دے، اسے اس کے اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔
آپ ہوا کو نہیں دیکھ سکتے، مگر پتے ہلتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ہوا ہے۔
آپ بجلی کو نہیں دیکھتے، مگر بلب کا جلنا بتاتا ہے کہ بجلی موجود ہے۔
بالکل اسی طرح، انسان کا وجود اس کے اعمال، الفاظ اور اثرات سے پہچانا جاتا ہے۔

جدید سائنس کا زاویہ
افلاطون نے کہا:
“وجود ہی علم کی بنیاد ہے۔”
اور آئن سٹائن نے کہا:
“کائنات کا وجود خود ایک عقلی معجزہ ہے۔”
آج کی سائنسی زبان میں یہ یوں سمجھیں کہ
کائنات کا ہر ذرہ ایک منظم نظام کا حصہ ہے —
ایک ایسا کوڈ، جسے کسی نے نہ صرف تخلیق کیا بلکہ مسلسل چلائے رکھا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی مثال
جب 
یا
یا
 کوئی روبوٹ مسئلہ حل کرتا ہے،
تو وہ دراصل انسان کے تخلیق کردہ خیال (ماہیت) کا عملی نتیجہ ہے — وجود۔
پروگرام کا خاکہ انسان نے سوچا (ماہیت)،
اور جب وہ کوڈ لکھا گیا اور چلنے لگا،
تو وہ "موجود" ہو گیا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
“ماہیت خیال کی دنیا میں جنم لیتی ہے،
اور وجود اسے حقیقت کی زمین پر اُتارتا ہے۔”

خلاصہ
ماہیت: خیال، تصور، یا نقشہ
وجود: اس خیال کی حقیقت یا عملی صورت
فرق: ایک ذہن میں رہتا ہے، دوسرا دنیا میں ظاہر ہوتا ہے

اور حقیقت یہ ہے کہ
“کائنات میں جو کچھ ہے — وہ کبھی کسی خیال کی ماہیت تھا،
اور آج اس خیال کا وجود بن کر ہمارے سامنے ہے۔”
اور اسی حقیقت کو  یوں بیان کیا گیا:
"کُنْتُ كَنْزًا مَخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ"
"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔"
یہی جملہ تمام فلسفے، تمام سائنس، اور تمام معرفت کا خلاصہ ہے —
وجود، دراصل خالق کی خود شناسی کا ظہور ہے۔