بدھ، 5 اگست، 2020

ان پڑھ جاہل



ہم یقین رکھتے ہیں کہ علم کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے۔  اس فانی زمین پر علم جس شہر میں اتارا گیا۔ اس کے اکلوتے دروازے 
پر کنندہ ہے کہ ظلم  تو برداشت کر لیا جاتا ہے مگر بے انصافی تباہی لاتی ہے۔  اس جملے کو یوں ہی کہا جا سکتا ہے کہ میرٹ کے بغیر شہر کھوکھلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کھوکھلا درخت ہو کہ معاشرہ تیز ہواوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ 
حکومت کے  لیے دولت و قوت بنیادی عوامل ہوتے ہیں اور 1947 میں جب پاکستان بن رہا تھا۔ تاج برطانیہ کے پاس دولت کی کمی تھی نہ قوت کی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ فاتح قوم تھی۔ مگر ہندوستان میں اس کی اخلاقی برتری محض اس لیے ختم ہو چکی تھی وہ کچھ طبقات کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام تھی۔ 
بہادر شاہ ظفر کو اگر دو گز زمین نہ ملی تو اس کا سبب انگریزوں کے ساتھ اس کے اپنے بھی تھے جن کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی کے سلیمان دی گریٹ جس کی حکومت  بیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی کے وارثین جب دستبرداری کے معاہدے پر عمل کر رہے تھے تو ان کے اپنے وزیر و مشیر ان کے ساتھ نہ تھے۔اور ان کو بے انصافی نے دشمنوں کی گود میں جا بٹھایا تھا۔ یہ ماضی کی نہیں حال کی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہم خود ستائی کے دور گذر رہے ہیں۔ ہر زبان غدار وطن اور ہر لفظ کافر دین  قرار پاتا ہے۔  دشنام طرازی سے بڑھ کر بات اغواء  باالجبر اور گولی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ نظریات پر روٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جواب تھا روٹی کا بندوبست کرو نظریہ قبول ہو جائے گا۔ ایک سیاسی اجتماع کے دوران ایک صاحب نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتاب پکڑ کر لوگوں کو روٹی پر کتاب کو ترجیح دینے کی نصیحت کی تھی ووٹ مگر روٹی کو ملے تھے۔ انسان  کی بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے اسی لیے  سب سے بڑی نیکی لوگوں کو کھلانا ہے تو سب سے بڑی بے انصافی خدا کے کنبے کو بھوکا رکھنا ہے۔ 
 ہم اسلام کے جس قلعے کے باسی ہیں اس کی دیواریں ضخیم اور بلند ہیں۔ اس قلعے کے اندر بعض چھتیں عام چھتوں سے چالیس گناہ زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کی منڈیر کے کنگروں پر ایٹمی ابابیل اس قلعے کی حفاظت کرتی ہیں تو ایٹمی چھتری اس قلعے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔  مگر اس قلعے کے باہر ہمارے کہے کا اثر نہیں ہوتا۔ ہماری دہمکیاں ہوا بھرے غبارے ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طاقت ہمارا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہمارا نظریاتی ٖ فخرخاک راہ ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہمدرد بے سروپا کر دیے جاتے ہیں۔  اس قلعے کے اندر ہماری محنتیں بے ثمر رہ جاتی ہیں۔ ہماری قابلیت اور ہنر بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے فتوے نا قابل عمل بن جاتے  ہیں۔ امید وہ سہارا ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر انسان زندگی بسر کر لیتا ہے مگر مایوسی کے لشکر اس مضبوط قلعے کے خفیہ راستوں سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ملکوں میں سویت یونین اور شخصیات میں حسین شہید سہروردی، دونوں ہی داستان بن چکے مگر ہم داستانوں سے کیا سبق سیکھیں گے۔ 
آج کل پاکستان میں ارطغرل کے کارناموں پر عوام کو ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا پر 600 سال تک حکمرانی کرنے والے اس گروہ کے بارے میں کتابوں میں درج ہے وہ یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا کرتے تھے۔پاکستان میں میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنا آئینی تقاضا ہے مگر عملی طور پر     آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے    جس کا مقام   ردی کی ٹوکری    ہے ۔  اور بیانیہ یہ ہے کہ قوم ان پڑھ اور جاہل ہے۔

اتوار، 2 اگست، 2020

چاند اور ستارے


دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔  پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا 

  اگر روز جزا  میزان کا  پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا  ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا  تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے 
 
اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا  خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی  ﷺ  نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ  نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا    علم کو ان کے پاس تلاش کرنا    ۔
ان کو خود اللہ کے رسول  ﷺ  نے 300 کھجور کے درختوں اور 600  چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ  حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام  سلمان  خود رسول اللہ ﷺ  نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا  مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا    آپ کا نسب کیا ہے   تو انھوں نے جواب دیا تھا    اسلام     اور کہا کہ جب ہمارا دین  اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں  باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے 
 
سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی  کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔ 
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے  مگر انصار کا صرار تھا  سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول  ﷺ  تک پہنچی تو فرمایا۔     سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے   یہ ایسا شرف تھا جو صرف  حضرت  سلمان ؓ  کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ  میں تین ستارے چمکتے ہیں  
.  النقاط1
.  النیلم
  المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔  سلمان فارسی
۔ صہیب رومی 
۔  بلال حبشی ۔ شامل ہیں 
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ   مہاجرین   مسلمانوں کے قلوب میں  ایسے    انصار   بن کے رہے کہ  حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ    یا سیدی    سے مخاطب ہوتے تھے  تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔  
اصحاب رسول  ﷺ  ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ  نے ایمان ثبت کر دیا تھا  (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کے فرمان کی روشنی میں قمرو  نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم  کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔ 

جمعرات، 30 جولائی، 2020

گولڑے والے پیر



جون   22، 1974 کو جب حضرت بابو جی نے دنیا سے پردہ فرمایا تھا تو ہم یہ سوچ کر گریہ کناں تھے کہ اب تشنہ قلوب کو 
ضیائے نور کہان سے حاصل ہو گا مگر جب چھوٹے لالہ جی حضرت پیر شاہ عبدلحق بن غلام محی الدین بن مہر علی شاہ بن سید نذرالدین بن سید غلام شاہ بن روشن دین  نے اپنے دست مبارک سے ہمارا ہاتھ تھاما تو ادراک ہوا کہ ہدائت کے طلبگاروں کے لیے نور ہدائت ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اپنے والد گرامی سے بڑھ کر ہمارے دلوں میں احترام پانے والے ہمارے رفیق راہ، پیر، مرشداور نفس کو قابو رکھنے کے ہنر سے آشنا کرنے والے ہمارے اتالیق نے ہماری ترببیت الفاظ کے انبار سے نہیں کی مگر عمل کرنے کی تحریک سے دل روشناس کرایا تھا۔ یہ تحریک ایسی قوی ہوئی کہ اس کے مقابل جسم بھی تسلیم خم ہو گیا۔ دوران گفتگو چھوٹے چھوٹے جملے ایسی ایسی گرہیں کھولتے جو ضخیم کتب کے مطالعہ سے بھی نہ کھل پاتی تھیں۔ 
لالہ جی کی بیٹھک کے دروازے کے سامنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر یہ شکستہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا ہوا کرتا تھا۔ آج وہ بند مٹھی کھل گئی ہے جس میں برسوں کا صبر پوشیدہ تھا۔وہ سہارا ٹوٹ گیا ہے جسے شیشے کی کھڑکی سے دیکھ کر دل مطمن ہو جایا کرتا تھا۔ وہ لمبا کپڑا اج لپیٹ دیا گیا ہے جس کے ایک سرے پر ہاتھ کر کر درد مند اپنے مرشد کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا کرتے تھے۔ دربار گولڑہ کے رازوں کا امین میرا  مغفور بھائی حاجی سلطان محمود جنجوعہ کے ادا کیے ہوئے کلمات رہ رہ کر یاد آتے ہیں کہ لالہ جی روحانیت سے لبریز ہو چکے ہیں۔ دل چاہتا ہے چیخ کر لوگوں کو بتاوں کہ اج روحانیت کا وہ جام چھلک گیا ہے۔  
میرے والد گرامی مٖغفور حاجی محمد افسر جنجوعہ راہیا اس بات کاذکر کیا کرتے تھے کہ انھوں نے قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ کو دیکھا  تو تھامگر دست بیعت حضرت بابو جی کے ہاتھ میں دیاتھا ۔ وقت کا چرخہ گھوم کر اس مقام پر آ رکا ہے کہ ہم نے حضرت بابو جی کا دیدار تو کیا مگر ہمارا ہاتھ سرکار لالہ جی نے تھاماتھا۔
فراق ایسا غم نہیں ہے جو بھول پائے مگر ہمیں بتا دیا گیا تھاسدا رہنے والی ذات صرف احد و صمد کی ہے۔مادیت سب فانی ہے روحانیت اور علم مگر زندہ و جاوید ہے۔ہماری بلند درگاہ گولڑہ شریف کو رب محمد  ﷺ  سدا مینار نور کے طور پر سلامت رکھے۔یہ تقلید کا ایساقلعہ ہے جس میں مقلد پناہ گزیں ہو کر نفس و شیطان سے امان پاتا ہے۔


اتوار، 12 جولائی، 2020

چار عناصر





اقبال نے مسلمان کے بارے میں کہا تھا
قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 ہمارے ایک دوست نے  اپنے کالم میں قوم بننے کے لیے بھی چار عناصر ہی گنوائے ہیں
سرمایہ و اختیار و علم و محبت
بے شک سرمایہ اور اختیار پر حکومتوں کا حق ہوا کرتا ہے مگر علم و محبت عوام کی میراث ہوتی ہے ۔ مسائل ان ہی معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اپنی اجارہ داریوں کے حصول کے بعد عوام کی میراث پر بھی قبضہ کر لیا جائے ۔  
گلے میں گلہ بان کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے مگر اس ڈنڈے  کا اولین مقصد بکریوں کی حفاظت ہوتا ہے ۔ بکریاں نہیتی ہی ہوا کرتی ہیں مگر جب بھیڑیا آ جائے تو بزدار کے ڈنڈے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ہماری حکایات میں ایک ایسے بزدار کا تذکرہ ملتا ہے جو اس قدر صاحب علم تھا کہ زمین پر لکڑی سے لکیریں کھینچ کر مخاطب کا محل وقوع بتا دیا کرتا تھا۔ مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ علم عوام کا فخر اور انسان سے محبت اس کا مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں سرمایہ اور اختیار پر سرکار کا اجارہ ہی نہیں بلکہ مزید اختیار کی ہوس بھی پوشیدہ نہین ہے۔ گذرے زمانے میں علم برائے خود شناسی حاصل کیا جاتا تھا تو اج علم کا مقصد کم از کم ہمارے ہاں کچھ اور ہی ہے ۔
گیے وقتوں میں علم و محبت کے حصول میں صاحب سرمایہ و اختتیار حکومتیں عوام کی علم کے حصول میں عوام کی سرپرست ہوا کرتی تھیں ۔ آج حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔
حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ملک کا بادشاہ حکمران ہے تو کسی ملک کی وزیر اعظم رہنما ہے ۔ دونوں معاشروں کی سوچ رات اور دن کی طرح عیاں ہے ۔ اس فرق کو علمی تفریق کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا ۔
مرحوم طارق عزیز (نیلام گھر والے ) نے اپنے ترکے میں ایک پنجابی کی کتاب بصورت شاعری چھوڑی ہے اس میں ایک شعر ہے
مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں زہر نی پیتے اک جنہاں زہر پلائے نیں

 مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں روز اول سے دو طبقات ہیں ایک جو زہر کا پیالہ پیتا ہے اور دوسرا جو پلاتا ہے ۔ علم انسان کوان دونوں طبقات کے اذہان کو منور کر کے عمل کی قابل عمل راہ دکھاتا ہے ۔
رہنماوں کے سرمایہ جمع کرنے اور اختیارات کی خواہش پوری کرنے میں تعلیم حائل نہیں ہوا کرتی ۔ بہت سارے ممالک اس رواں دواں کرہ ارض پر موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو عام کیا اور امن و آشتی سے جی رہے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو علم کو پابند سلاسل کر کے خود بھی قلعوں میں بند ہیں اور ان کی عوام بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔

دنیا میں ایسی قومیں موجود ہیں جو تباہ ہو کر وسائل کی کمی کا شکار ہو گئیں مگر انھوں نے امید کے بل بوتے پر خود کو دوبارہ قوموں کی برادری میں سر خرو کر لیا ۔ امید پر یقین علم ہی پیدا کرتا ہے ۔
علم پر بنیادی طور پر خالق کائنات کی اجارہ داری ہے ، اس نے ابن آدم پر احسان کیا اور اپنے ذاتی علم سے اسے عطا کیا ۔ ہم نے اس نعمت کے ساتھ بے انصافی یہ کی کہ انفرادی منفعت و ہوس کے بل بوتے پر کچھ علوم کو غیر نافع کا نام دیا اور اسے ایک بوری میں ڈالتے گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بوری اس قدر ثقیل ہو چکی ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے سرکانا افراد کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔ مزید ظلم یہ کہ ہم نے اس بوری کا منہ اب بھی بند نہیں کیا ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی والوں نے ابلاغیات کا علم نہیں بلکہ گوبلز کے اعمال بوری میں ڈالے تھے ۔
انسان کا عقلی ادراک کچھ بیانیوں کے تسلیم کرنے میں مزاحم ہوتا ہے ۔ جس دور میں زمین ساکت مانی جاتی تھی ، اس دورمیں بھی عقل اس بیانیے پر مطمئن نہیں تھی ۔ اگر اج ہم کچھ بیانیوں سے مطمن نہیں ہیں تو لازمی طور پر ان بیانیوں میں کہیں نہ کہیں سقم ہے ۔ گلوبل ویلج میں اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ کون سا بیانیہ اور عمل بوری کا مستحق ہے ۔ آج کے دور میں اسی استحقاق کے بیان کرنے  پر زہر پیے اور پلائے جا رہے ہیں ۔
محبت ایسا پھول ہے جو انصاف کی زمین پر اگتا ہے ہمارے ہان تو ابھی زمین ہی ہموار نہیں ہے ۔ ہم دوسروے ملکوں میں مظلوموں کو انصاف ملتا دیکھ کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ مگر اپنے ہان عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے بھی بنا رکھے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ پھول اگلنے والی ہموار زمین کو لگا تار نا ہیموار کرتے رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اختیارات کسی عمارت میں قید ہیں ۔ معیشت صاحبان پنجہ کی مٹھی میں بند ہے ۔ تعلیم کے لیے ہمارے پاس بچا ہی کچھ نہیں ہے اور محبت لوک داستانوں یا فقیروں کے آستانوں تک محدود ہے ۔
عوام  کو صبر کی تلقین کتاب سے پڑھ کر سنائی جاتی ہے  اور سکون قبر میں بتایا جاتا ہے ۔
 اقبال نے سچ ہی کہا تھا ۔ 
تحقیق میرے دوست  کی بھی برحق ہے
ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بھی برحق بتاتے ہیں
بہتر سالوں سے مگر کر وہ رہے ہیں جو ہمارا دل کرتا ہے






منگل، 7 جولائی، 2020

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے


برطانیہ کے ایک باسی کم  اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی  جس کا عنوان تھا  عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق  1857 کے غدر میں 7 یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش  (انڈیا)  کا  باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ 
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے  نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ آئے ہیں۔
 امریکہ نے  1846  میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔  ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو میں مارے گئے تھے ان کی باقیات  امریکہ نے 170  سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ  اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور  (1884 ۔  1919) میں نمبیا سے  بیس انسانی کھوپڑیاں سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر  2011 میں وہ  بنیادی انسانی حق کی بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو  اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ مطیع الرحمان جو  بیس اگست  1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم  (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے   (صابر ظفر