جمعرات، 30 جنوری، 2020

'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ'


بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ تیز اور پھرتیلی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لیئے ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ اس کے ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ یہ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حسنٍ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ.
ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ بطورٍ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛
1 - ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
2 - ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
3 - ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ.
4 - ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
5 - ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ﮬﺰﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ہمارے لیئے ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍیئے ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ بہترﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍسی لیئے ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ ۔۔۔ !
Translated from National Geographic Arabic (UAE)

بدھ، 29 جنوری، 2020

نئی تقسیم



پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔

جمعہ، 9 اگست، 2019

لمبڑ سے نمبر ایک

پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے ایک فرمان کے ذریعے لداخ اور جمون و کشمیر کے جغرافیے کی ترتیب نو کی ہے۔
اس فرمان کے جاری ہونے سے پہلے کشمیرمیں سیکورٹی فورسز کی تعداد اس حد تک بڑہائی جا چکی تھی کہ ہر گھر کے باہر آٹھ سے دس فوجی یا پولیس والے موجود تھے۔ محلوں کا آپس میں رابطہ کاٹنے کے لیے کانٹے دار تار بچھ چکے تھے۔ تعلیمی ادارے اور بازار بند ہوچکے تھے۔کشمیریوں کو قتل اور زخمی کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔لینڈ لائن اور سیل فون کام چھوڑ چکے تھے۔ انٹر نیٹ معطل ہو چکا تھا۔ لوگوں کے پاس نقدی ختم ہو چکی ہے۔ اے ٹی ایم خالی پڑے ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے کارڈ قبول نہیں کیے جا رہے۔ کرفیو نافذ کر کے عملی طور پر کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں قید کر دیا گیاالبتہ دودھ، دہی، سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو چکی ہیں۔اس کا سبب آرتیکل 370 اور اے 35 بتائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ان اقدامات پر اگر دنیا خاموش ہے تو یقینااس کے اسباب بھی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں عوام کا مسٗلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں عوام جاہل ہے اس لیے وہ سچ جاننے کا حق نہیں رکھتے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حکمران غلط بیانی کرتے ہیں۔ مگر بعض حکومتی اقدامات عوام کو ان ہونی پر یقین کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جیسے بھارت اور پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ کوئی تہاڑ میں بیمار پڑا ہے تو کوئی کوٹ لکھپت میں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور ٓزاد کشمیر میں اجتماع کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔اسلام کا نام لینے والوں پر وہاں بھی زمین تنگ ہے تو یہاں بھی حافظ سعید کے بعد توپوں کا رخ طاہر اشرفی کی طرف پھر چکا ہے۔
 پچھلے تین ماہ کے حالات اور واقعات تینوں کو ایک پیچ پر بتاتے ہیں۔ امریکہ درمیان میں بیٹھتا ہے۔ جاپان میں مودی کو بائیں طرف بٹھاتا ہے تو واشنگٹن میں کپتان کو دائیں ہاتھ رکھتاہے۔
بھارتی اعلان کے بعد پاکستان کی جان کو آئےایف ٹی ایف ٹی کے رویے میں نرمی آ چکی ہے ۔ایشیائی بنک نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر جاری کر دیے ہیں حالانکہ دو سال ہونے کو ہیں کہ پاکستان کے لیے بجٹ سپورٹ فنڈ بند تھا۔امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کے نقل و حرکت پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں۔کہا جاتا ہے  سی پیک کے پہیے کو پنکچر کر کے ٹائر واپس چین بجھوا دیا گیا ہے البتہ جو کچھ پاکستان میں رہ گیا ہے زنگ کی نظر ہو گا۔ اورنج ٹرین واٹر پروف نہیں ہے۔ پیسہ مگر ان غریبوں کاہے جو18 فیصد جی ایس ٹی ادا کر کے بھی تیکس نا دہندہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ عوام سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خود پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
 مودی کے الیکشن جیتنے کے بعدان اقدامات کے برپا کر دیے جانے کی بازگشت بھارتی، پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا میں سنائی دیتی رہی۔مگر منتقم مزاج دانش کو معلوم ہی نہ ہوا اور سیلاب ان پلوں کو بہا کر لے گیا جوسات دہائیوں سے سیلابوں کا راہ روکے ہوئے تھا۔
پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر کام کرنے والی 79تنظیموں پر کو یا تو خلاف قانوں قرار دیا جا چکا ہے یا ان کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔آشا کے نام پر کشمیر میں عائشہ کا دوپٹہ بھارتی فوجیوں کے قدموں میں گر چکا ہے۔بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہو کر ہندو توا کو آگے بڑہا رہا ہے اور پاکستان اسلامی جمہوری ہو کر بھی مذہبی لوگوں کے خیالات اور اعمال پر شرمندہ ہے۔ 
قومی اسمبلی میں سوال اٹھا یا جاتاہے کہ ہر دس سال بعد ہم فسطائیت کی طرف کیوں لوٹ آتے ہیں۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ  ادارے اپنا اپنا کام نہیں کر رہے ۔کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیف جسٹس کے سامنے ایک شہری ان پر رشوت لینے کا الزام لگاتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کون سا مطالبہ دین کا کافر یاملک کا غدار بناتا ہے۔
ہمارے سامنے عدالت کی مثالیں ہیں ساٹھ کی دہائی میں غلط طور پر سنائی گئی پھانسی کی سزاوں پر عمل درامد نہ ہو سکا۔بھارت کا ایجنٹ اور غدار ہونے کا بیانیہ اسی کی دہائی میں پٹ چکا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور کلاشنکوف کی گولی مار کر گرانے کے تجربات بھی بہتری نہ لا سکے۔ موجودہ دور میں جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔
سب سے بڑا سچ اداروں کا ایک پیچ پر ہونا ہے مگر اس پیج کی ہر سطر کی داستان البتہ لرزہ خیز ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان ٹوٹا۔ ہم نے سبق حاصل نہ کیا۔ ہمارے سامنے سویت یونین کا شیرازہ بکھرا مگر ہم اپنے ہی بیانئے کے اسیر رہے۔ ایک بیانیہ امریکہ کا ہے جو چاہے تو دس دن میں ایک کروڑ افراد کو ہلاک کر کے دنیا میں فتح کا جشن منا سکتا ہے۔ ایک بیانیہ بھارت کا ہے کہ بابر اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی کا بدلہ کشمیریوں کو نہتاکر کے اور ان کو خون میں نہلا کر لینا ہے۔ البتہ ہم نے پچھلی تین دہائیوں سے ایک ہمسائے کے بیانئے کو قریب سے دیکھا اور بھگتا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ بیانیہ دعوت فکر دیتا ہے۔اس بیانئے نے روس کا شیرازہ بکھیرا، امریکہ اپنے دعووں کے برعکس نا مراد لوٹنے کا ارادہ باندھ رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ ان کے حوصلے اور ہمت نے انھیں  لمبڑ سے نمبر ایک   بنا دیا۔



جمعہ، 2 اگست، 2019

امید کی نوید

متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ  کے قریب ایک گاوں میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔  فرید خان نامی ایک شخص نے شیر شاہ سوری   (1486۔ 1545)  کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹنا شروع کیا۔ گاوں کے ایک فرد نے اسے سرکاری درخت کاٹنے سے منع کیا مگر فرید خان نے سنی ان سنی کردی اور اپنا کام جاری رکھا۔ دیہاتی گاوں سے کچھ اور لوگوں کو بلا لایا جنھوں نے اس اجنبی کو سرکاری درخت نہ کاٹنے کی تلقین کی۔ اجنبی نے ان کی بات بھی نہ مانی تو یہ لوگ گاوں کے مکھیا کو بلا لائے۔ مکھیا نے آتے ہی گرجدار لہجے میں کہا میں اس گاوں کا مکھیا ہوں یہ سرکاری درخت تم نہیں کاٹ سکتے۔ فرید خان نے کلہاڑا پھینک دیا۔ چہرے پر پڑا نقاب اتار دیا۔ ایک فوجی دستہ بھی سامنے گیا۔ گاوں والوں پر منکشف ہوا کہ درخت پر کلہاڑا چلانے والا فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ علاقے بھر کی انتطامیہ بھی دوڑی آئی۔ شیر شاہ سوری نے کہا ایک درخت کاٹنے پر تم سب لوگ دوڑے آئے ہومگر یہاں ایک مسافر قتل ہوا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے اور تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مجرم زنجیروں میں جکڑا ہوا بادشاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد میں واقع ایوان بالا میں چیرمین سینٹ کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یاداشت میں تازہ ہوا ہے۔
انسان کے کندہوں پر سوار کرامالکاتبین کے اعمال لکھنے کا سلیقہ یہ ہے کہ گناہ کو ایک جب کہ نیکی کو دس سے ضرب دے کر لکھتے ہیں۔لیکن دنیاوی اداروں کی بنائی ہوئی فائلوں میں انسانوں کی بد اعمالیوں کو قیافے سے درج کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے در گذر کیا جاتا ہے۔ بلکہ قیافہ گروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گناہگاروں کو وقت پڑہنے پر اپنا اعمال نامہ پڑہا بھی دیتے ہیں۔ 
 قران پاک میں درج نبی اللہ حضرت یونس کی دعا سے ماخوذ ہے کہ کامل اور سبحان صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی قائم رکھنے کے لیے بدنامی اور تاریک مستقبل کی سرنگ اور مال و زر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔حکمرانی بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ تخت اور تختہ منتخب کرنے کا چوائس مہیا کرتی ہے۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھ سے اپنے گلے میں پہنا ہے۔ ایسے انسان لوگوں کے ہیروز ہوتے ہیں۔ معاشروں میں ایسے ہیروزبھی پائے جاتے ہیں جو مشکل وقت پڑنے پر زیرو بن جایا کرتے ہیں۔یکم اگست والے دن ایوان بالا میں اپوزیشن رہنما راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی تو پی پی پی اور نون لیگ سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اور کندہے سے کندہا ملا کر اس کی تائید کی۔پھر خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو پچاس ووٹ ملے۔ 14  ووٹ یا تو حکومتی امیدوار کو ملے یا جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے۔ جرنیلی سڑک کے کنارے لگے 14 درخت نامعلوم طاقتوں نے کاٹ ڈالے۔ نہ شیر شاہ سوری موجود ہے جو ان کٹے درختوں کا حساب لے نہ اداروں ہی کو کوئی زحمت کرنے کی فکر ہے۔ عوام البتہ حیران ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔گو یہ تصویر جاذب نظر نہیں ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا امید افزاء ہے۔خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے جمہویت پسندوں کے لیے یہ واقعہ امید کی نوید ثابت ہوا ہے۔پاکستان،  جہاں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، یہ ادراک بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پودا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اعلانیہ اس پر کلہاڑا چلانے کی جراٗت نہیں ہو رہی۔ سینٹ کے ہال میں، گیارہ سالوں کی ٹوٹی پھوٹی، نحیف و لنگڑاتی جمہوریت نے اپنے آپ کو یوں منوایا ہے کہ چودہ منحرفین خود کو اس قدر مجبور پاتے ہیں کہ کھڑے ہونے والوں کے کندہے کے ساتھ کندہا ملانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہ منحرفین ہیں ہی نہیں، انھوں نے تو اپنے بے وضو اماموں کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا لیے ہیں۔ ان کی نماز کے کامل نہ ہونے کے فتوئے مسجد کے باہر کھڑے لوگ لگا رہے ہیں۔ امام کی مسکراہٹ کا قاتل پن بتا رہا ہے کہ منافقت کے حمام میں کپڑوں سمیت گھس آنے کا اشارہ حمام کے اندر سے ملا ہے، اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دولت انسان کو مصلحت کیش بنا دیتی ہے۔ اور پاکستان میں سیاست کے رقص سے فیض یاب ہونے کے لیے    مینوں دہرتی قلعی کرا دے    والی ضرورت پورا کرنا ہوتی ہے۔بے سلوٹ اجلے جامے، چون ہزار کے جوتے، بیٹھنے کے لیے کھلے ڈلے ڈیرے، ڈیروں میں ہمہ وقت روشن چولہے، مہمان نوازیاں، سفر کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، مہلک اسلحہ بردار محافظ، محلے اور گاوں کے معاملات کا مالی تحفظ، ان سب سے بڑھ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے چندے، پھر جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کے سامنے دو ہندسوں میں ناپ لیے جانے والے کروڑوں کی اہمیت ہی کیاہے۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ زر کی تھیلی اٹھانے سے انکار کی صورت میں ناگ کاٹ کھائے گا۔ایسے میں کوئی دیوانہ ہی ہیرو بننے کی کوشش کرے گا۔
 اس بھدی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے صرف 11 سال کے جمہوری دور کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگایا جا سکا۔ جمہوری عمل کے دشمن یہ چودہ لوگ بھی، ووٹنگ کے بعد ہونے والے حزب اختلاف کے اجلاس میں موجود تھے یعنی ان تاریک ستاروں کی قسمت میں روشن ہونا نہیں ہے۔
صرف گیارہ سالوں میں عوام کو جمہوریت کا یہ پودا کچھ نہ کچھ پھل دینے لگا ہے۔