جمعرات، 24 جنوری، 2019

آخر کیوں


آج کی سرخیاں

پاکستان کی بیلسٹک میزائل نصرکی کامیاب آزمائشی لانچنگ
Image



سانحہ سائیوال کی ویڈیو فیک ہیں ۔ محمودالرشید


کسی کواٹضا کر پھانسی نہیں لگا سکتا ۔ عثمان بزدار


راو انور سے لے کر سائیوال تک مارنے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا ۔ شیرین مزاری


ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والے کسی تاجر کو تنگ یوز فنہ کیا جائے ۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ہدایات


پہلے پاکستانی یہودی کو پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی اجازت مل گئی
‪fishel benkhald‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ



زرداری دور میں گالیاں زرداری اور واپڈا کو پڑتی تھیں نواز شریف دور میں واپڈا والوں کو گالیاں ملنے میں نوے فیصد کمی آئی عمران خان کے دور میں لوگ واپڈا کو بھول کے عمران خان کے وزراء گالیاں دے رہے ہیں



بدھ، 23 جنوری، 2019

تم کتنے اچھے باپو ہو


بچے من کے سچے ہوتے ہیں ، ایک بچے کا واقعہ ہے جو ہندوستان کے ایک مشہور شہر کے مضافات میں اپنے والدین کے ساتھ ایک کھولی میں رہتا تھا۔ اس کا والد دیہاڑی دار مزدور تھا۔ دیہاڑی دار مزدورں کے بیوی بچے شام کو اپنے والد کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ کچھ کما کر لائے گا تو چولہے میں آگ جلے گی ۔ چولہے کو جو نسبت پیٹ سے ہوتی ہے ۔ غریب خاندانوں کو وہی نسبت اپنے باپ سے ہوا کرتی ہے۔ مگر ہم جس بچے کا قصہ آپ کو سنانے لگے ہیں اس کا مسٗلہ پیٹ کے لیے روٹی سے بڑھ کر تھا۔ پہلے تو اس نے اپنا مسٗلہ اپنی ماں کو بتایا مگر جلد ہی اسے سمجھ آ گئی کہ اس کے مسٗلے کا حل ماں کے پاس ہے ہی نہیں۔ اس نے اپنے باپ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا باپ دیر سے گھر آتا تھا عام طور پر وہ سو چکا ہوتا تھا۔ جن گھروں مین بجلی نہیں ہوتی وہاں رات سورج غروب ہوتے ہی اتر آتی ہے۔مگر وہ باپ کا انتظار کر رہا تھا۔ جوں ہی اس کا باپ کھولی میں داخل ہوا وہ دوڑ کر باپ کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا۔ باپ کی پورے دن کی تھکاوٹ اتر گئی ۔ ادہر ہی بیٹھ کر باپ نے پورے بدن کا پیار سمیٹ کر اپنے ہونٹوں پر جمع کیا اور بیٹے کو چوم لیا۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب چاہتوں کو قبولیت بخشی جاتی ہے ۔ بڑے فیصلے ایسے ہی جذبانی لمحات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہی لمحہ تھا جب بیٹے نے ْ سائیکل ْ کا مطالبہ باپ کے سامنے رکھا۔ باپ نے ہاں کر دی ۔ بیٹا سکون کی اور باپ تکھن کی نیند سوگیا ۔ صبح ہوئی باپ کام پر چلا گیا ۔ شام ہو گئی ۔ باپ کام سے گھر واپس پہنچا تو بیٹے کو منتظر پایا مگر آج انتطار سائیکل کا کیا جا رہا تھا۔ بیٹے نے باپ کو کل والا وعدہ یاد دلایا ۔ باپ کو احساس ہو گیا کہ بیوی سے کیے گئے وعدے اور بیٹے سے کیے گئے وعدے مین بہت فرق ہوتا ہے۔ بیوی تو اس کی تھکن کو ہی دیکھ کر سارے وعدے بھول جایا کرتی تھی۔ جو کسر رہ جاتی خاوند کے پسینے والے کپڑے دھوتے نکل جاتی ۔ اس کو ادراک ہو گیا تھا کہ کیا ممکن ہے اور کیا نہیں مگر بچہ ادراک سے واقف ہی نہ تھا۔ اس کو تو صرف یہ یاد تھا کہ اس کے باپ نے اسے سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ہر شام کو اس کے من میں امید کے پھول کھلتے اور رات کو باپ کے آنے کے بعد مرجھا جاتے۔ ہفتوں بیت گئے ۔ جب خواب بکھرتے ہیں تو انسان کے اندر ، خواہ ، بے ادراک بچہ ہویا عقل مند مردو زن ، اس کے اندر ایک بغاوت جنم لیتی ہے ۔ بغاوت ایک لمحے کا فیصلہ نہیں ہوا کرتی ۔ بغاوت کا پس منظر ہوا کرتا ہے ۔ محرومی باغیانہ خیالات کو جنم دیتی ہے۔ محرومیوں کی طوالت باغیانہ خیالات کو مستحکم کرتی ہے۔ یہ ایک لاوہ ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا مگر انسان کے اندر ایک بھٹی جل رہی ہوتی ہے جہاں کچے خیالات پک رہے ہوتے ہیں۔ مٹی کی کچی اینٹ اور بھٹی سے پک کر نکلنے والی اینٹ میں ہم نام ہونے کے باوجود بہت فرق ہوتا ہے ۔ کچی اینٹ سخت چیز سے ٹکرا کرمٹی بن جاتی ہے مگر پکی اینٹ حالات کے سرد و گرم کہ سہنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اور سخت مزاحمت سے ٹکرا کر مٹی کا ڈھیر نہیں بنتی بلکہ مزحمت کو پاش پاش کر دیتی ہے۔بچے کے من میں مزاحمت کے خیالات نے جڑ پکڑ لی تھی۔ تین ماہ کے با صبر مطالبے نے بچے کے من میں لاوہ روشن کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور ہر رات وعدے کو اگلے دن پر ٹالا جا رہا تھا۔ وقت کی طوالت مزاحمت کے الاو کوایندہن فراہم کر چکی تھی۔ اب بچہ سائیکل کی خواہش کا اظہار نہیں کرتا تھا باپ کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی یاد دہانی کراتا تھا۔ اس کو معلوم ہو گیا تھاکہ ماں کی طرح اس کے باپ پر اس کا رونا اثر انداز نہیں ہوتا۔ روٹھ جانا بھی کارگر نہ ہوا۔ یہ کیسا انسان ہے کہ وعدہ کرکے پورا نہیں کر رہا ۔اس سوچ نے بغاوت کے شعلے کو بلند کر دیا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا۔ اس کے اس فیصلے سے ماں بھی بے خبر تھی ۔ حالانکہ اس دن اس کا باپ بہت دیر سے گھر واپس آیا تھا مگر وہ جاگ رہا تھا۔ اج اس نے باپ سے پوچھنے کا حوصلہ پیدا کر لیا تھا۔ باپ گھر میں داخل ہوا بچے نے اس کی ٹانگوں کو جکڑ لیا۔ باپ نے وہیں بیٹھ کر سارے جسم سے پیار کشید کر کے ہونٹوں پر جمع کرنا شروع کیا کہ اس کے کانوں نے سنا ْ باپو ۔۔ تم ہی میرے باپو ہو ، تم نے سائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا تھا ۔۔ مجھے بتاو میرا کوئی دوسرا باپو ہے جس سے میں سائیکل کا مطالبہ کروں ْ باپ کے جسم سے کشید ہوتا پیار بکھر گیا۔ ْ بتاو میرا دوسرا باپو ہے ْ باپ نے من میں شور اٹھا ْ میں ہی تیرا باپو ہوں ْ مگر اس کی زبان نے ساتھ نہ دیا۔ اٹھا ، الٹے قدموں سے گھر سے باہر نکل گیا۔ ماں نے کہا تم نے اپنے باپو کو ناراض کر دیا ہے ۔ انھوں نے کچھ کھایا بھی نہیں اور بن بتائے کہیں چلے گئے ہیں۔ باہر اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ ارد گرد کی کھولیوں والے سو چکے تھے ۔ پتہ نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ باپ واپس آیا۔ اس کے کاندھے پر نئی سائیکل تھی۔وہ رات تینوں دیر تک جاگتے رہے۔ صبح باپ کام پر جانے لگا تو اس نے جھک کر بیٹے کے ماتھے کو چوما۔ بیٹا ایک دم اٹھ بیٹھا۔ اس نے باپ کو گلے لگایا ۔ باپ کا منہ چومتا جاتا تھااور کہتا جاتا تھا ۔۔ میرے باپو ،میرے باپو اور باپ کا منہ چومتا جاتا تھا۔ ۔ جب باپ گھر سے نکلنے لگا تو بیٹا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا ۔ باپ نے بیٹے کو دیکھا دونوں کی نظریں چار ہوئیں ۔۔ ْ میرے باپو ۔۔ تم کتنے اچھے باپو ہو ْ 

جمعرات، 17 جنوری، 2019

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ

                                   

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پاکستان کے 26ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 18 جنوری 2019کوحلف اٹھا لیا وہ 20 دسمبر 2019 تک اس عہدے پر رہیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے،انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا، اسی یونیورسٹی سے  1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔اس وقت ملک میں 19 لاکھ کے قریب مقدمات التوا کا شکار ہیں ۔ 40871 مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں موجود ہیں جبکہ 130744 مقدمات خصوصی عدالتوں اور تریبونلز میں زیر التوا ہیں ۔ ملک کی ہائی کورٹس ، پنجاب میں 165515، کے پی کے 29624، بلوچستان 6842 ، سندھ  92169  جبکہ اسلام اباد میں 17085 مقدمات زیر التوا ہیں اس کے علاوہ ملک کی وفاقی شرعی عدالت میں بحی 422 مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں۔ 
  یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ١ میں ایک شہری نے چیف جستس پر رشوت لینے کے الزامات عائد کیے تو ادارے کو سانپ سونکھ گیا تھا۔ کسی جج نے جرات نہ کی کہ اپنے چیف کے خلاف لگائے گئے  الزام کی تحقیقات ہی کرا لی جائے ۔ البتہ چیف جستس صاحب کے نزدیک پاکستانی قوم اس لیے قابل رجم ہے کہ اس نے مزہب کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا لیکن سچائی، حق گوئی اور احتساب کو کوئی اپمیت نہیں دی ۔
 جستس کھوسہ کو اس قوم سے یہ گلہ ہے کہ وہ بے وقوف کو دانا سمجھتی ہے اور بد معاشوں کا احترام کرتی ہے۔
ان کے اس جرات مندانہ ریمارکس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد کو مایوسی ترک کر کے دوبارہ انصاف کے لیے پر امید ہو جانا چاہیےکیونکہ جستس کھوسہ یقین رکھتے ہیں کہ جج کو اپنے فیصلوں کے زریعے بولنا چاہیے ۔

پیر، 7 جنوری، 2019

بادشاہ



ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمھارا خدا بادشاہ۔۔۔ اس جملے پر دوبارہ نظر ڈالیں تو منکشف ہو گا کہ یہ کہانیاں صرف ان بادشاہوں کی ہوا کرتی تھیں ۔ جو بادشاہت سے محروم ہو چکے ہوتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ جب تک شاہی مسند پر براجمان ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی زبان نہیں کھولتا ۔ مگر جب وہ اپنے سر سے بادشاہ کا تاج اتار دیتا ہے تو پھر وہ لوک کہانیوں کا موضوع بن جایا کرتا ہے۔ 
تازہ ترین کہانی ملیشیاء کے بادشاہ کی ہے ۔ جس نے
 6 
جنوری
2019
کو بادشاہت کی کرسی خالی کر کے اپنی محبوبہ کو اپنا لیا۔
 49
 سالہ اس سابقہ بادشاہ کا نام سلطان محمد پنجم ہے ۔ جو ریاست کلینٹن کے بادشاہ تنکو اسماعیل پترا کا صاحبزادہ تھا ۔ شہزدہ محمد
1979
 میں ریاست کلینٹن میں اپنے والد کا ولی عہد بنا۔اور
 2010
میں اپنے والد کی وفات کے بعد ریاست کا بادشاہ بن گیا۔ 
2016
 میں پورے ملائیشیاء کا بادشاہ بن گیا۔






 سلطان محمد پنجم کی
 15 
نومبر 2004
 میں شاہی خاندان میں زبیدہ بنت نورالدین سے شادی ہوئی تھی مگر 
2008
میں شاہی جوڑے میں طلاق ہو گئی

                            
سلطان محمدپنجم ماسکو میں چھٹیاں گذار رہے تھے کہ
 22
 نومبر 2018 کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی ۔ جس میں بتایا گیاکہ سلطان نے ماسکو کی سابقہ ملکہ حسن ، 22
 سالہ 
OKsana Voevodina 
سے شادی کر لی ہے۔
                             
سلطان محمدپنجم کی دلہن ، ماسکو کے ایک سرجن کے گھر پید اہونی والی حسینہ ماسکوکا اسلامی نام ریحانہ رکھا گیا۔قبول اسلام کے بعد اس کی زندگی کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ۔ ریحانہ سے پورے جسم کو ڈہانپے والا با 
وقارلباس زیب تن کرتی ہے او ر سر پر سکارف پہنتی ہے۔