جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

خان کہاں ہے ؟

عمران خان کیلئے تصویری نتیجہ
اس ملک کو ڈاکو اور چور کھا گئے، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا یہ آواز ہر کان تک پہنچ چکی۔ ایک وزیر با تدبیر ٹی وی پر ریوالنگ کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں میری وزارت سے سابقہ چور حکمران سب کچھ لوٹ کر لے گئے وزارت کے کھاتے میں صرف تیس روپے پڑے ہیں ۔ اس پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اس کا صدقہ کر دو۔
ہر سیاسی جماعت معاشرے کے کسی طبقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے جہاں سے اس کو مالی کمک مہیا کی جاتی ہے۔منفرد اور طویل دھرنے کے دوران شیخ الاسلام صاحب نے رات گئے خواہش کا ااظہار کیا اور صبح ہم نے سکول کے لیے سامان لیے ٹرک موقع پر دیکھے تھے۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت جس طبقے کے مفاد کی دعویدار ہوتی ہے ، عمل اس کے بر عکس نہ ہو تو بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی اعمال عوام کی اکثریت کو بد ظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں کمی کا سبب لاتعلقی کا اظہار ہے۔
عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی کا المیہ مگر اس سے بڑھ کر ہے ۔اس جماعت کا دعویٰ تھا مر جائیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، پورے پاکستان میں مہنگائی کو عوام نے سہہ لیا۔ہزاروں ڈیم کے بارے میں عوام کہتی ہے سو دنوں میں ہونے والاکام نہیں ہے۔مگر عوام پوچھتی ہے وہ دو ارب ڈالر کیا ہوئے جو عمران خان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پاکستان میں آنا تھے۔ اب ہمارے وزیر خزانہ صاحب اس سوال پر ہنس دیتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ ہنسی عوام کے فہم پر ہے؟ عوام کو یہ بھی یاد ہے چوروں کی حکومت میں جو سات ارب روپے کی مبینہ روزانہ کرپشن تھی وہ اب رکی کہ نہیں ؟ تو جواب ملتا ہے پولیس اور بیرو کریسی ہماری بات ہی نہیں مانتے۔  عوام تو اس پولیس اور بیورو کریسی کو نسلوں سے جانتی ہے بس آپ کی جماعت ہی اس زمینی حقیقت سے ایک صوبے میں پانچ سال کی باری کے بعد بھی بے خبرنکلی۔عوام کو یاد ہے آپ نے پچاس بلین ڈالر سالانہ کے موصول زر کا ذکر کیا تھا۔ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے اور پاک چین راہداری کی درآمدات پر تبرہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ سابقہ وزیر اقبال احسن کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی اگلے سال سے شروع ہونی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ وہ چور ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ تین سوارب جو سوئس بنکوں سے پاکستان میں آنا تھے اس کا جواب وزیر اطلاعات جیسے با خبر بھی تراشنے میں ناکام ہی ہیں۔لیکن سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ رکنے اور دس ٹریلین کا ٹیکس امیروں سے اکٹھاکر کے غریبوں پر خرچ کرنے کی امید اس دن دم توڑ گئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سابقہ بجٹ پر قلم پھیر کر اپنا بجٹ اسمبلی سے منظور کرا لیاتھا۔
نا اہل وزیر اعظم نے تین ماہ میں ملک مین بجلی پوری کرنا کا دعویٰ کیا تھا ،پہلے سو دنوں میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر عوام کی ڈھارس بندہی تھی کہ سو دنوں مین نہ سہی پانچ سالوں میں ہی یہ گھاٹی عبور کر لی جائے۔آخر کار چار سالوں بعد عوام کے گھروں کے اندہیرے اجالے میں بدلے۔
سپریم کورٹ نے جب سے عمران خان کے بارے میں صادق و امین کی سند جاری کی تھی ۔اس کے بعد سے عوام کا خان صاحب کے اقوال پر یقین دو چند ہو گیا تھا۔ خان صاحب نے مگر پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرتے زمینی حقائق کو دیکھا تک نہیں۔
ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کو ازبر ہوتا ہے۔اس بیانئے کو لے کر افراد اور معاشرہ آگے جاتا ہے۔امریکہ میں غلامی اسی صدی میں ختم ہوئی ہے مگر ایک شخص نے عوام کو ایک بیانیہ دیا تھا۔ اس کی تبلیغ پر اپنا تن ،من دھن لگا دیا تھا۔مگر اس کا بیانیہ سادہ اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے والا تھا۔برطانیہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے تاج اچھالے بنا ایسا بیانیہ عوام کو دیا جس کو رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔چین کی موجودہ ترقی بھی ایک بیانئے کا کرشمہ ہے۔ ایک شخص ایسا بیانہ لے کر اٹھا جو حکمران پارٹی کے دشمنوں کو چین لانے کی دعوت پر مشتمل تھا۔ پارلیمان کے ممبران تو دور کی بات ہے خود پارٹی کی سطح پر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ہی اس کے وژن پر ایمان لائے تھے۔مگر اس نے ایک ایک فرد کے پاس جا کے اپنا بیانیہ لوگوں کو سمجھایا تھا۔ آج چین کی معیشت کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے۔
عمران خان صاحب کی جماعت عوام کو بتاتی تھی یہ ہم ۲۲ سالوں سے محنت کر رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنائیں گے ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ بلواسطہ ٹیکس ختم ہو جائیں گے، ہر شخص کو کام پر لگایا جائے گا۔ مگر کبھی وزیر خزانہ ہنس دیتے ہیں تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چور وزارت کے اکاونٹ میں تیس روپے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چور تو نواز شریف بتایا جاتا تھا۔ وہ تو سزا بھگتنے کے لیے لندن سے چل کر آ گیا تھا۔اگرچور تھا، عوام پوچھتے ہیں، چوری کا مال نکلواتے کیوں نہیں۔وزیر با تدبیر فرماتے ہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔ عدالت کہتی ہے پارلیمان سست ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب تو کہتے ہیں می ں چھوڑوں گا نہیں ۔مگر پارٹی میں موجود سند یافتہ چوروں، ڈاکووں ، منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کا نام لیا جائے تودوسرے ہفتے نام لینے والا ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔
اب عوام کہتی ہے پی ٹی آئی نے ۲۲ سال اپنے بیانئے کو مقبول بنانے ہی میں صرف کیے ہیں۔ وہ معاشرے کے جس طبقے کے مفادات کی نگہبان ہے ان ہی کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہے۔ عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس شہداء کی جو فہرست ہے ان میں اکثریت امید کی بتی کے پیچھے دوڑ میں ہانپ کر مر جانے والوں ہی کی ہے۔
کرسی کا اپنا ہی بیانیہ ہے۔ جوانگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا حاکم ہے باقی سب محکوم۔ 
پاکستان میں دوبارہ ایسے بیانئے کے لیے جگہ خالی ہے جہاں عوام کے ساتھ معاملہ کرنے والے پٹواری اور تھانیدار جو حکمران ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھا دیا جائے جس کو احساس ہو کہ اس کا کام عوام کی خدمت ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ان دونوں کرسیوں کے بیچ میں کھڑے عوامی نمائندے کو بیٹھنے کے مستقل کرسی مہیا نہ کر دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی کارکن ہانپ ہانپ کر گرتے ، مرتے رہیں گے جن کو سیاسی مبلغین سیاست کی جنت برین میں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کی اولادیں تعلیم کو اور ان کا خاندان دو وقت کی روٹی کو ترس جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے ۔عوام تو یہی کر سکتی ہے خان صاحب کی بجائے نیازی صاحب پکارنا شروع کر دے۔جب عمران خان صاحب کے سابقہ شیدائی سے اس کا سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا۔ عمران احمد نیازی میں خان کہاں ہے

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔

پیر، 22 اکتوبر، 2018

آزمودہ نسخہ



یہ واقعہ مستند کتاب میں درج ہے۔ زبان دراز اور بے عمل ہجوم پر مشتمل ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ تنظیم نام کی شے سے وہ واقف نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ پھر قدرت نے اپنے دن پھیرنے کے قانون کے تحت چاہا ان کے دن پھیر دے۔لیکن وہ نئے سفر پر روانگی کے لیے گھر کی دہلیز ہی چھوڑنے پر تیا ر نہ تھے۔ ان ہی میں سے اللہ نے ایک بندے کو نبی بنایا۔ جو ساری بھیڑکو ہانک کر ایک میدان میں لے گئے۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں مگر ان کا اصرار تھا کہ مقابلہ ان کی بجائے ان کا نبی اور نبی کا خدا کرے۔خدا تو مقابلے میں ان کی فتح کا فیصلہ لکھ ہی چکا تھا مگر خدا نے حالات بھی ان بے عملوں کے موافق کر دیے۔ جب وہ فتح یاب ہو چکے تو ان کا قصہ اسی خدا نے ایک دوسری قوم کے سنانے کے لیے ایک دوسرے نبی کے دل پر القاء کیا ۔ اس نبی نے کتاب میں لکھوایا اور وہ کتاب پوری دنیا میں مستند مانی جاتی ہے ۔ اس دوسرے نبی کی قوم کو بھی نوازنے کا فیصلہ وہی خدا کر چکا تھا۔ نبی نے قوم کو میدان میں نکالنے کے لیے اکٹھا کیا۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں۔ اس قوم نے اپنے نبی سے کہا ۔ خدا تو آسمانوں میں اپنی کرسی پر ہی بیٹھا رہے۔ اور اپنے نبی سے کہا ہم میدان میں مقابلہ کریں گے ۔ آپ بس ہمارے درمیان موجود رہ کر ہماری ڈھارس بڑہاتے رہیں ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے رہیں گے، ہم میدان میں لڑیں گے، لڑتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور اگر ضرورت پڑی تو گہرے پانیوں میں بھی کود جائیں گے۔ اس قوم کے نبی نے اپنے لوگوں کے عمل کو دیکھا ، پرکھا، ان کے کر گذرنے کی داد اس طرح دی کہ ان کو بتا دیا تم شما ل اور جنوب ، مغرب اور مشرق کے مالک بنادیے جاو گے۔ جاہ و جلال چل کر تمھیں سجدہ کرنے آئیگا۔ دنیا کی فراوانی تمھاری دہلیز پر پہنچے گی۔لوگ تمھیں حکمران بنا کر عافیت پایا کریں گے۔یہ قوم میدان امتحان سے فراغت پاتی تو کام میں جت جاتی۔کام سے فرغ ہوتی تو علم کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی۔ یہ قوم کھانے مین سست اور کھانے کا حق ادا کرنے میں چست ہو گئی۔ اس قوم نے عملی طور پر معلوم کر لیا تھا امارت قناعت میں ہے۔ اقل طعام ان کے معدے کو سیر کرنے کا سبب بنا۔یہ کفائت شعار رات کو بے ضرورت دیا نہ جلاتے مگر بھوکی انسانیت کے لیے اپنی تجارت کے مال کا اصل بھی لٹا دیا کرتے تھے۔ان کے دبدبے کا یہ عالم ہوا کہ وہ تلوار نیام میں لیے جس شہر میں داخل ہوتے وہ شہر اپنے مکینوں سمیت ان کی جھولی میں آ گرتا۔ 
ہر طاقت کو آزمایا جاتا ہے۔ صناع اپنی صنعت کو صنعت سے آزماتا ہے، طاقت کو طاقت سے ، علم کو علم سے اور اخلاق کو اخلاق سے آزمایا جاتا ہے۔ کلاشنکوف نام کے شخص نے اپنی گن سے پہلی گولی خود چلا کر اسے جانچا تھا۔ جرنیل اپنی فوج کو آزمائشی جنگوں میںآزماتا رہتا ہے، ادیب اور شاعر وں کی محفلیں اپنے فن کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان سے گذارا جاتا ہے ۔ خدا بھی اپنے نائبیں کا محاسبہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ 
نبوت کا در بند ہو چکا ۔ قوموں کو نوازنے کا فیصلہ اب بھی وہی خدا کرتا ہے۔جس کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اسباب ارزان کر دیتا ہے۔ 
جب بات اسباب کی ارزانی کی ہو تو نبی آخرالزمان کی قوم کے لیے ارزانی صرف اس کے خون کی باقی رہ گئی ہے۔ اس کا سبب لوگوں کو زبانی ازبر ہے،بتایا جاتا ہے ہم میدان میں نکلنے کی بجائے گھر کی چوکھٹ ہی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ 
کیا مرض لا علاج ہو چکا۔ کیا ہم آنکھیں بند کر کے اپنے مرمٹنے کا انتظار کریں؟
نہیں ۔ نہیں ۔ نہیں، دنیا نشیب و فراز کا نام ہے ہر نشیب کو فرازہے ۔ ہر پستی کو عروج ہے۔ ہر مجرم کے لئے کفارہ ہے۔کوئی قوم غلط نہیں ہوا کرتی مگر افراد۔ فرد ہی کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتا یا گیا ہے۔فرد کو آج تک خود فرد ہی نے بدلا ہے۔ آج کا فرد اگر اپنی ذات ، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنہ امت کو بدلنا چاہتا ہے کہ وہ حق کو اپنا لے۔ حق کے لیے ٓآسان ترین اور سادہ ترین لفظ ْ سچ ْ ہے۔ایسا ْ سچ ْ جو خود اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

خواتین اساتذہ کی لباس کے چناو کی آزادی

                                         


بہادر لوگ اپنے تمغوں کو اور نفیس لوگ اپنے جوتوں کو چمکا کر رکھتے ہیں۔ تمغوں کے اظہار کے مواقع 
محدود ہوتے ہیں مگر جوتے تو روز مرہ استعمال کی چیز ہے۔ چمکتے جوتے بھی تب ہی جچتے ہیں جب سارا لباس ہی اجلا ہو۔ لباس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں، موقع محل کے مطابق اور مناسب ہونا چاہیے۔ 
امریکہ کی ایک عدالت میں1969 میں ایک مقدمہ سنا گیا جس میں موقع محل کے مطابق مناسب لباس پر بحث کر کے عدالت سے فیصلہ مانگا گیا تھا۔ اس زمانے میں امریکہ ویتنام میں جنگ لڑ رہا تھا اور امریکہ کے اندر اس جنگ کی مخالفت کے اظہار کے طور پر طلباء نے اپنے لباس پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندہنی شروع کی تو انتظامیہ نے سیاہ پٹیاں باندہنے پر پابندی لگا دی۔ عدالت میں لباس پہننے کی آزادی کو لے کر مقدمہ لڑا گیا۔ البتہ  عدالت نے سکول کی انتظامیہ کا یہ حق تسلیم کیا کہ وہ طلباء کے لیے 
Dress Code
 نافذ کرنے کا حق رکھتی ہے ۔ اس کے بعد سکولوں نے اپنے ڈریس کوڈ کو بطور یونیفارم نافذ کر دیا۔ اور اس یونیفارم کے علاوہ کچھ بھی پہننا ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی شمار ہونے لگا۔وقت کے ساتھ ضرورت کے مطابق اس ڈریس کوڈ میں ترامیم بھی ہوتی رہیں البتہ اس پر اس کا اتفاق ہے ایسا لباس نہ پہنا جائے :
ٌٌ جو کسی مخصوص طبقے، گروہ کا شعار ہو یا کسی تجارتی برانڈ یا لوگو کا پرچار کرتا ہوْ
 کسی نظریے ، فکر یا تحریک کو اجاگر کرتا ہو
 رنگ برنگے لباسوں کی بجائے یکساں رنگ کا لباس ہو
لباس کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ لمبائی کا بھی تعین کر دیا جائے
وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جو ترامیم ہونیں اس کے بعد 
ایسا لباس جو جنسی اشعال کا سبب بنتا ہو یا منشیات کی ترغیب دیتا ہو
ایسا لباس جو انسان کے زیر جامہ اور پردے کے مقامات کے اظہار کا سبب بنتا ہو ا پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ البتہ کچھ چیزوں کو استثناء بھی حاصل ہوا جن میں:
*لڑکیوں کا سر پر سکارف باندھنا
* لڑکوں کا پگڑی باندھنا
* کپہ ( مخصوص ٹوپی ) سر پر رکھنا
* صلیب والے نیکلس پہننا
البتہ لڑکوں کے سر کے بالوں 
* ادارے کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ترشوانا 
بھی ڈریس کوڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
پاکستان مین نجی تعلیمی اداروں کے ڈریس کوڈ ان کے ماخذ ادارے 
Mother Institution 
کی بجائے ان اداروں کی مقامی انتظامیہ طے کرتی ہے ، جو مقامی موسم و مزاج کے مطابق ہوتے ہیں ۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم جب سکول مین داخل ہو اس کی تعلیم کے حصول سے توجہ نہ ہٹ پائے اس کے لیے سکول کا ماحول اور اس کا لباس اس کا معاون بنے۔
تبدیلی کے اس دور میں نجی اداروں کی استانیوں کے عباء پہننے اور سر پر سکارف لینے کی ممانعت کی مہم زور شور سے جاری ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اداروں کو استانیوں کے بارے میں ایسا ڈریس کوڈ تجویز کرنا چاہیے جو طلباء کو استانی کی طرف متوجہ رکھنے کا سبب بنے تاکہ دوران لیکچر طلباء کی توجہ بکھرنے سے محفوظ رہے۔
کچھ نجی سکولوں کی انتظامیہ نے اس دلیل سے متاثر ہو کر اپنی خواتین اساتذہ کو زبانی ہدایت کی ہے کہ وہ کالے رنگ کے سکارف کی بجائے شوخ رنگ کے پھول دار سکارف استعمال کریں۔کہا جاتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس موضوع پر فکر مند لوگ دودھ ہی کے جلے ہوئے ہیں۔ جلن ، جلن ہی ہوتی ہے خواہ بلاواسطہ آگ کی ہو خواہ بلواسطہ۔
اس ملک میں کچھ نجی ادارے غیر مسلموں کے بھی ہیں۔ ان میں اسلامیات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ خواتین اساتذہ کو عباء ہی نہیں کالے سکارف پہننے کی بھی آزادی ہے۔ ان اداروں میں طلباء کو توجہ مضمون پر دینے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کیا مسلمان اداروں کے لیے ہی لازمی ہے کہ وہ اپنے طلباء کو خواتین اساتذہ کی ذات میں دلچسپی لینے کی ترغیب دیں۔ 

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

ذکر دو بہنوں کا


راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ایک شخص نے عدلیہ کے کردار کا ماتم کرتے ہوے کہا تھا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ اس سفید ریش کے ساتھ ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنے نوجوان کالجیٹ بیٹے کو موٹر سائیکل دے کر مہمانوں کے لیے سموسے لانے کے لیے بھیجا ۔ مہمان چائے پی کر چلے بھی گئے مگر نوجوان واپس نہ آیا ۔ موبائل فون پر ْ آپ کامطلوبہ نمبر بند ہے ْ کی گردان نے اسے پہلے غصہ دلایا پھر تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوا تشویش بھی گہری ہو گی ۔ کسی ممکنہ حادثے کے خوف نے سر اٹھایا ۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان کر بیٹھے تو والد کا فون بج اٹھا۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ میں تھانے کی حوالات میں بند اپنے عزیز سے ملنے گیا تھا۔ آپ کے بیٹے نے یہ نمبر دیا اور اطلاع دینے کی درخواست کی تھی ْ 
باپ بیٹے کی کہانی یہ تھی کہ بیٹے کو پولیس والے نے روکا ، لائسنس اور موٹر سائیکل کے کاغذات موجود تھے ۔ پولیس والے نے ایک سول کپڑوں میں ملبوس شخص کو پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آنے کا کہا، بیٹے نے گھر جلدی پہنچے اور مہمانوں تک سموسے پہچانے کا عذر پیش کیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔ سموسوں سمیت موٹر سائیکل تھانے میں اور بیٹا حوالات میں بند ہو گئے ۔ باپ نے تھانے پہنچ کر اس رویے پر احتجاج کیا تو والد کو بھی بیٹے کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔محکمے کے بڑوں تک بات پہنچی تو باپ پر منشیات فروشی کا مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ عدالت میں پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے باپ بیٹے کی بات سنے بغیر انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا ۔ اس بے انصافی پر باپ نے ہتھکڑیوں میں جکڑے دونوں ہاتھوں سے مکہ بنا کر مجسٹریٹ کو مارنے کی کوشش کی جو عدالت کے سٹینو گرافر نے ناکام بنا دی اور پولیس کو ایک اور مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر لڑکے کا چالان کیا تو نوجوان نے اس سے ہاتھا پائی کی اور چالان بک ٹریفک اہلکار سے چھین کر پھاڑ دی۔ نوجوان کے باپ کے خلاف تفتیشی افسر کے پاس ایک شہری کی درخواست موجود تھی جس میں منشیات فروشی کا الزام لگایا گیا تھا ۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور ملزم کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔عدالت سے باپ بیٹے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وکیل کے چمبر میں بیٹھے تفتیشی افسر کے مطابق جذباتی بڈھے نے خود ہی اپنے کیس کو الجھا لیا تھا۔اس کا جذباتی بڈھے کے پاس جواب نہیں تھا مگر جب بڈھے نے کہا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ تو اس کا جواب تفیشی افسر دے سکا نہ وکیل صاحب۔میں سوچتا ہوں اس کا جواب مجسٹریٹ کے پاس بھی نہیں ہو گا جس نے ذاتی انتقام میں ایک جذباتی بڈھے پر ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔