بدھ، 28 فروری، 2018

جگاڑ


گل خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ، سند مجھے دکھائی اور جلیبی بھی کھلائی ۔ میں نے ویسے ہی پوچھا لیا ْ جگاڑ ْ کیا ہوتا ہے۔ گل خان نے میری طرف عالمانہ انداز میں دیکھا ۔گلا صاف کیا
ْ ْ جگاڑ در اصل ایک ایسا عمل ہوتاہے جس کو مقامی حالات کے مطابق ڈھال کر اس پر اخراجات کو انتہائی حد تک کم کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے معاشرتی رویے ایک طرح سے انفرادی اعمال کے اچھا یا برا ہونے کی سند ہوتے ہیں۔ جگاڑ کو ہمارا معاشرہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے سند قبولیت عطا کرتا ہے۔
بہت خوب ، کو ئی مثال بیان کر سکتے ہو
ْ دھرنا ْ 
وہ کیسے 
ْ دھرنا دینابھی معاشرتی عمل ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلہ کی طرف مبذول کر ا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ْ 
اس میں جگاڑ کہا ں ہے
ْ سر جی جگاڑ یہ ہے کہ پانچ سو بندے لے کر دھرنے کے کنٹینڑ پر چڑھ کر ہر آتے جاتے راہگیر سے کلمہ شہادت سنا جائے جس کو نہ آتا ہو، جس کا تلفظ ٹھیک نہ ہو ، جس کے مخرج اپنے ،مقام سے نہ نکلتے ہوں ۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے

اگر کوئی آپ کو منع کرے تو مائیک پر اہل پاکستان کو بتائیں کہ اسلامی ملک میں اسلام کتنا مظلوم ہے۔کوئی زبردستی کنٹینر سے اتارنے کی کوشش کرئے تو آپ کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر باندھ لیں اور اسلام کے نام پر شہید ہونے کا اعلان کر دیں
میں نے جیب سے نوٹ نکال کر کہا گل خان جلیبی بہت مزے کی تھی اور لے آو ۔ گل خان نے منہ بنایا مگر جلیبی لینے چل دیا۔

منگل، 27 فروری، 2018

جذبے


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

اتوار، 25 فروری، 2018

شیطان پر لعنت


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ مطلب اس کا استاد نے یہ بتایا تھا۔ اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا توڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔اور دین کو ہم عصر کرنا علامہ صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جس کی تعریف علامہ صا حب کو حوصلہ بخشتی ہے۔
دین کی تبلیغ اور اسلام کی خدمت بہت اچھا اور پسندیدہ عمل ہے بلکہ بقول علامہ قادری صاحب اصل جہاد ہی یہی ہے , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور ان کے عقیدت مندوں کو ان سے متنفر کرتا ہے۔ اب فرید ملت ہسپتال کے نام پر اکٹھا کیے گئے چند ٹکوں کے عوض میزان میں ان کی تصنیفات کو رکھیں جس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو یقین ہے کہ تصانیف کا وزن گراں ہی نکلے گا۔اور وہ لوگ دین کے ازلی دشمن ہیں جو نبی اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی جگہ پر ماضی کے ایک معمولی سے قبضہ کرنے کے عمل کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی نسبت قادری صاحب کے تعلیمی اداروں میں تنظیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ان اداروں میں جنسی بے راہ روی کا الزام محض ان کی دینی خدمات کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے چند حاسدین معمولی واقعات کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔ واویلا کرنے والوں کو قادری صاحب کایہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان مردود انسان کا ازلی دشمن ہے اور بہترین تعوذ یہ ہے کہ مخالفین کی تحریریں پڑہی ہی نہ جائیں ۔ اور پڑھ لی جائیں تو ان پر یقین نہ کیا جائے ۔

ہفتہ، 24 فروری، 2018

اتھرا جن


تماشہ دیکھنے والوں میں بھی شامل تھا ۔ عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، عامل نے تماشائیوں پر نظر ڈالی اور کہا ْ خونی رشتہ دارباہر جائیںْ اور اپنے عمل میں محو ہو گیا۔ پھر ہم نے کانپتے لہجے میں دھمکی سنی ْ اس کی جان لے لوں گا ْ میں نے دل ہی دل میں عامل کی فراست کی داد دی جس نے ماں کو باہر نکال دیا تھا ورنہ ْ جن ْ کی یہ دھمکی ماں کا کلیجہ ہی چیر دیتی۔آ

ماں کا رشتہ رحمت کا استعارہ ہے۔ پاکستان میں تحریک بحالی عدلیہ، جو عوام نے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے شروع کر رکھی تھی۔ اس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی ْ ماں جیسی دھرتی ْ بہت مقبول ہوئی تھی۔ماں کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس پر جوان گرم انسانی خون قربان ہو جاتا ہے۔ اور گھر کی حفاظت کے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ْ دھرتی ماں ْ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اس پر کفر کے فتووں کے باوجود عوام نے ووٹ روٹی ، کپڑے اور مکان ہی کو دیا تھا کہ انسان کی فطری ضروریات ہیں،۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ خدا سے زیادہ بھوک سے ڈرتے ہیں تو جواب آیا تھا پہلے بھوک ہی ختم کر لو۔

جب بھٹو نے دوبارہ الیکشن جیت لیا تو پاکستان میں ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا کہ یہ تو مطلق العنانی کی طرف جا رہا ہے۔ عامل جو آیا کتاب اس کی بغل میں تھی۔سایہ اتارنے میں دس سال لگ گئے ۔ مگر معاشرہ ایسا تقسیم ہوا کہ ہر مرض نظر آتی بیماری کا علاج کلاشنکوف کی گولی سے ہونا معمول بن گیا۔فتوئے عام ہو گئے اور مسلمانوں میں ڈہونڈ ڈہونڈ کر کافروں کو علیحدہ کیا گیا۔اور عوام کے ذہن میں راسخ کیا گیا کہ کوڑے کا استعمال ہی اصل دین ہے ۔

اندازہ لگایا گیا کہ سایہ ختم ہو گیا ہے لہذبھٹو کی بیٹی کووزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر پتہ چلا انھوں نے خالصتان بنانے والے سکھو ں کی فہرستیں انڈیا کے حوالے کی ہیں۔ اس کی پاکستان سے وابستگی پر طنز کرنے والوں نے اسے اپنے باپ کی چنیدہ اس جگہ کا دورہ کرنے سے روک دیا جہاں ذولفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ البتہ اس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان کے میزائلی دفاع کی مضبوطی میں اس کا کردارکتنا منفرد اور قابل تحسین تھا۔

بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں مضبوط ہوتا دیکھ کر پھر ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا۔ اس بار عامل ایسا لبرل تھا کہ کتے بغل میں دبا کر بلندیوں سے نازل ہوا۔مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی ، جہاں ہماری بہادر اور قابل فخر افواج کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں بھی ہمارے بیٹے فوجی وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ شہریوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا قابل فخر عمل ٹھہرا۔ ہر وہ کام جس کے عوض ڈالر مل سکتے تھے کیا گیااورمعترضوں کو افواج پاکستان کا دشمن بتایا گیا۔ اپنے محسنوں کو بے عزت کرنا ہمارا شیوہ بن گیا۔ جب ہم ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے شخص کو ٹی وی پر لا رہے تھے ۔ دراصل یہ ہمارے دلوں کی سختی کا اظہار تھا۔ ارادے مضبوط ہونے اور دل سخت ہونے کافرق کوئی لاپتہ افراد کے لواحقین سے بے شک نہ پوچھے عافیہ صدیقی کی بہن ہی سے پوچھ لے۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ جب عافیہ کے بیٹے کے دفاع میں آمر کے سامنے کھڑی ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا وہ عورت بے دین، فوج کی دشمن اور بھارت کی ایجنٹ تھی۔ ہمارے بیانئے ایسے ہی تراشے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ ان پر دل کی گہرائیوں سے ایمان بھی لایا جائے۔اور ایمان لایا جاتا رہا ہے۔

جب عوام نے آصف زرداری کو اعتماد بخشا تو ان کے وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر بے عزت کر کے گھر بھیج دیا۔ ۔البتہ دوسرے شریف اور کارکن راجہ پرویز کو راجہ رینٹل کا خطاب عطا کر دیا گیا۔ نواز شریف کو عوام نے اکثریت سے منتخب کیا۔ الیکشن سے چھ ماہ قبل تمام اعشاریے بتا رہے تھے کہ یہ دوبارہ مقبولیت حاصل کرے گا ۔ ایک بار ظالم ْ جن ْ پھر سایہ بن کر نازل ہوا۔ تین سوارب کی کرپشن تو عدالت میں ثابت نہ ہو سکی ۔ البتہ پتہ چلا پاکستان میں مودی کا یار وہی تو ہے، وطن کا غدار بھی ہے، اور پاکستان کی ۷۰ سال میں سے ۴۰ سال کی محرومیوں کا ذمہ دار وہی ہے۔ اور یہ کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ عوام البتہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ مسترد کنندگان کہا ں بستے ہیں۔ ۳۰۰ ۱ سو مبلغین کی وعظ پر یقین کرنے کرنے کے لیے جب عوم تیار ہی نہیں تو ان کو مومن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

کرپشن کا شور ذولفقار علی بھٹو کے وقت میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کی وزارت کرپشن کا گڑھ بتائی گئی اور ایک کارکن خورشید حسن میر جو وزیر ریلوے تھا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پورا انجن غائب کر دیا ہے ۔مگر رات گٗی بات گئی۔ آصف زرداری نام کا شخص جس نے وزیر اعظم ہاوس میں ایسے گھوڑے پال رکھے تھے جو صبح جام کھا کر دن کی ابتداء کرتے تھے اور رات کو بادام کھا کر سوتے تھے۔ مگر سورج غروب ہو کر چڑہا تو یہ داستان بھی بھلا دی گئی۔نواز شریف پر تین سو ارب کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو سکی تو پنامہ اور اقامہ کو گڈ مڈ کر کے داد طلب کی جاتی ہے۔

عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، مگر ہر بار لازم نہیں ، عامل جن کو قابو کر لے ۔ بعض اوقات جن عامل ہی کو قابو کر لینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور جو ْ جن ْ یہ کوشش شروع کر دے اس پر ماہرین بتاتے ہیں کوئی ْ عاملْ قابو نہیں پا سکتا۔


جمعہ، 23 فروری، 2018

اپنی زات کا محاسبہ


ہمارا مقصد چونکہ ذہن کے بند دریچے کھولنے کی کوشش ہے اس لیے ہم ذیل میں چند معاشرتی رویوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی ذات کا خود ہی جائزہ لے کے اپنے بارے کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت کر لیں:

کیاآپ سنی سنائی باتوں سے خود متاثر ہوتے ہیں ، افوائیں شوق سے سنتے ہیں اور خوش دلی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اور جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض گپ تھی تو کوئی افسوس نہیں ہوتا اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہْ سب لوگ ہی ایسا کرتے ہیں

کیا آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اسی لیے جھوٹے لوگوں سے نفرت ہے یا اپنا گناہ ہلکا مگر دوسروں کا بھاری نظرآتا ہے

کیا آپ اپنے گھر والوں، عزیز و اقار ب اور دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں یا ان کے اقوال و اعمال کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا دوسروں کا آپ کے اقوال و اعمال پر شک کرنا ان کا حق ہے یا یہ رویہ ہی غلط ہے

کیا اس بارے سوچتے ہیں کہ خود، خاندان ، محلہ اور گاوں کیوں پسماندہ ہے۔ کیا سوچنا ، غور کرنا آپ کا کام نہیں ہے اور اگر سوچتے ہیں تو کیا کوئی بھی ایسا عمل نامہ اعمال میں موجود ہے جس کو نکال کر دکھا سکیںیا آپ محض گفتار کے غازی ہیں

کیا اپنے والدین، معاشرے سے شاکی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر والوں اور معاشرے کو آپ کی سوچ کےمطابق تبدیل ہو جانا چاہیے، مگر آپ خود تبدیل ہونا پسند نہیں کرتے

کیا آپ بڑی شخصیات سے مرعوب ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ لوگ کیسے اور کیوں بڑے ہو گئے ہیں، کہیں بھیڑ چال کا شکار تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی ان میں کوئی بڑا پن ہے تو کیا آپ نے ان سے کچھ سیکھا ہے؟

کیا آپ کے خیالات اور اعتقادات کی بنیاد راسخ ہے ، آپ نے اپنا عقیدہ اور نظریہ سوچ سمجھ کر ، چھان پھٹک کر اپنایا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟

آپ نے اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کی پلاننگ کی ہے یا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے، جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منزل کا معلوم نہیں ہے بلکہ میں قافلے کا حصہ ہوں جہاں قافلہ اترے گا ، سب کے ساتھ وہی میری منزل ہے؟

جس معاشی غربت اور معاشرتی پسماندگی کا شکار ہیں کیا آپ نے اب تک اس کو کم کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے اور اب تک اپنی اس کوشش میں کتنے فی صد کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ یا اس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد آپ اور آپ کے خاندان کے معاشی اور معاشرتی حالات خود بخود بدل جائیں گے؟

آپ کے پاس حالات بدلنے کا زبردست پلان موجود ہے مگر اس معاشرے اور اس ملک میں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے اس لیے آپ پہلے انقلابیوں کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔آپ کا سیاسی رہنماء آپ کو یقین ہے آپ لیے اپنی جان کی بازی لگا دے گا اورآپ کا یہ یقین اس کی باتیں سن کر نہیں بلکہ اس کا ماضی کا عمل دیکھ کر پختہ ہوا ہے؟

آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماء معاشرتی تبدیلی کے لیے آپ کی توانائیوں اور مالی مدد کا خواہاں ہے آپ اس کی تنظیم میں متحرک ہیں آپ کی بات سنی جاتی ہے ، آپ اپنی مالی مدد کا حساب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ رہنماوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ کے دینی رہنماء نے آپ کودین بہتر طور پر سمجھایا ہے، اس کا مطالعہ وسیع ہے وہ راست گو ہمدرد ہے ، اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک اور دوسرے ادیان کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، خود اس کا اپنا ذریعہ روزگار ہے اور اس نے فقر کو امارت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ آپ جو بھی نذرانہ اس کو پیش کرتے ہیں وہ اس کی ذات اور خاندان پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ اپنے سیاسی یا مذہبی رہنماء کی مخالفت میں کچھ بھی سننے سے لئیے تیار نہیں ہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے رہنماء کی ذات پر یقین ہے کہ وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا�آ

*آپ خود ان سوالوں کے جواب اپنے پاس لکھ کر فیصلہ کریں کہ آ پ دماغ سے سوچتے ہیں یا دل سے ؟
اور یاد رکھیں جو لوگ دل سے سوچتے ہیں ان کی شخصیت کو عقل والے زینہ بنا کر مزید کامیابی کا ایک زینہ طے کر لیتے ہیں