منگل، 12 دسمبر، 2017

دوزخ



بہشت سے ذہن میں ایسی جگہ آتی ہے جہان ذہنی آسودگی اور جسمانی راحت میسر ہو اور اگر حالات اس 
کے بر عکس ہوں تو اس کو دوزخ کہیں گے۔ مگر آگ جو خوف اور دہشت کا منظر ذہن میں لا سکتی ہے اس کے ذکر کے بغیر دوزخ ادھوری ہی رہتی ہے۔ جو اذیت خاص طور پر زندہ انسان کو آگ میں جلانے سے پیدا ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اج تک کوئی اذیت دریافت نہ ہو سکی ۔

ایک وقت تھا جب سیاسی اور مذہبی مخالفین کو کھولتے ہوئے تیل میں زندہ پھینک کر کلیجے ٹھنڈے کیے جاتے تھے ، پھر مگر انسان نے دریافت کر لیا کہ زندہ انسان کو آگ کے جلتے الاو میں پھینک دینے سے جو اذیت اور کرب دیا جا سکتا ہے وہ ہر قسم کی اذیت اور کرب سے فزوں تر ہے۔ ایک زندہ انسان کو آگ کے بڑے الاو میں پھینک دینا ایسی سزا تھی کہ اس سے زیادہ اذیت ناک اور کرب انگیز موت ممکن ہی نہ تھی اور انسان کے اس عمل پر اللہ نے اپنی کتابوں میں دکھ کا اظہار کیا۔

 وقت کے ساتھ ساتھ اور علم و تحقیق اور تجربے نے انسان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ ایسے ْ کرب ْ اور ْ بلا ْ دریافت کر چکا ہے جن سے گذارا جائے تو ْ اذیت ْ آگ میں جلائے جانے سے دو چند ہو جاتی ہے۔الفاظ ذہنی ْ کرب ْ کو بیان تو کر سکتے ہیں مگر ْ کرب ْ کے درد کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور جب ذہنی ْ کرب ْ میں مبتلاء کر کے اور جسمانی ْ بلا ْ میں گھیر کر ایک زندہ انسان کو ذبح کر دیا جاتا ہے تو ْ اہل ادراکْ اس ْ کربلا ْ پر خون کے آنسو روتے ہیں۔

مگر یہ بات بھی پرانی ہو چکی ، وقت کے ساتھ انسان کے علم و تحقیق نے وہ معرکہ سر لیا ہوا ہے کہ اب ایک ہی وقت میں ایسے حالات پید ا کر دیے جا سکتے ہیں جس میں ْ آگ میں جلنے ْ ذہنی و جسمانی ْ کربلا ْ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کے انفرادی اعضاء ایسے حالات سے گذارا جائے کہ اس کا لوں لوں چٹخ اٹھے ۔ اور یہی کچھ کشمیر اور  فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ہو رہا ہے ، جہاں ہر روز انسانیت کو کند چھری سے ذبح کیا جاتا ہے ۔ سسکتی ، مظلوم، قہر زدہ انسانیت پراب توبھار ت اور اسرائیل  کے اندر سے بھی ْ بس یا ظلم ْ کی صدا بلند ہونا شروع ہو گئی ہے مگر آفرین ہے مسلمانوں کے بے حس حکمرانوں پر 
جن کی آنکھوں پر ْ چمک ْ کی پٹی بندھی ہے اور ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون بے رنگ ہو چکا ہے۔




ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

ہمارے حصے کا کام




زمین کی ملکیت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نجی دوسری اجتماعی، اجتماعی املاک کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک اجتماعی شاملات اور دوسری سرکاری زمین ْ کھلیان ، راستے، پتن ، عبادت گائیں، وغیرہ شاملات کہلاتی ہیں اور ، ،ہسپتال،پارک، سڑکیں، ہوائی اڈے، ریل کی پٹڑیاں ،عدالتیں، دفاتر ، حکمرانوں کی رہائش گائیں وغیرہ سرکاری املاک ہوتی ہیں، اگر ایک گاوں یا محلہ کی ساری نجی املاک کوئی فرد خرید لے تو ان املاک سے جڑی ساری شاملات خود بخود خریدار کی ملکیت میں چلی جائیں گی۔ اسلام آباد میں ایک فرد نے سیکڑوں ایکڑ اراضی خرید کر جب ملحقہ شاملات پر قبضہ کر لیا تو فروخت کنندگان باوجود قوت و کوشش کامیاب نہ ہو سکے کہ خریدار کا قانونی حق تھا۔



ارض فلسطین
دوسری جنگ عظیم میں ترکی میں حکمران ْ خلافت عثمانیہ ْ تاج برطانیہ سے شکست کھا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو ارض فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ برطانیہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہودیوں کی فلسطینوں سے ویران اور زرعی اراضی کی خریداری کی حوصلہ افزائی کی۔خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور سیاستدان خان عبدالغفار خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں ، کہ انھوں نے اپنے دورہ فلسطین کے درمیان دیکھا کہ فلسطینی اپنی نجی زرعی زمینیں غیر ملکیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ جب پورے کا پورا علاقہ فروخت کر دیا گیا تو اس سے ملحقہ شاملات یہودیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اور سرکاری املاک تاج برطانیہ نے یہودیوں کے حوالے کر دیں یوں یہودی ایک کے بعد دوسرے علاقے کے مالک بنتے چلے گئے



جدید ہتھیار
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی علاقے کو فتح کرنے کے لئے زمینی راہ تلاش کی جاتی ہے، مگر فلسطین کو فتح کرنے کے لیے زمینی راستہ کی بجائے مکر و فریب، ذہنی تیاری، وسائل کی حاضری اور جذبات کے ردعمل کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ابتداء میں قانون و اخلاق کا سہارا لیا گیا اور جب قوت حاصل کر لی گئی تو قانون و اخلاق کی تشریح یوں کی گئی کہ ْ کوئی قوم علاقے کی مالک نہیں ہوتی بلکہ ملکیت کا دعویٰ تب ہی قابل قبول ہوتا ہے جب ْ صداقت کے ساتھ طاقت ْ بھی شامل ہو۔ اس اصول کو اردو کے ایک محاورے میں ْ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ْ کہا جاتا ہے۔



اصل طاقت
بیان کیا جاتا ہے، گو افسانہ ہے، کہ ایک طوفان میں گھرے ہوائی جہاز میں موجود بچے نے کہا تھا کہ اس جہاز کا پائلٹ میرا باپ ہے، جو مجھے اپنی جان سے عزیز رکھتا ہے اور عملی طور پر دنیا کے بہترین پائلٹوں میں شمار ہوتا ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائیوں کو برو کار لائے گا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد پر حملہ ہوا تو ٹی وی پر ایک طالبہ نے چشم پرنم کے ساتھ کہا تھا کہ حکمران تو باپ کی طرح ہوتا ہے۔ باپ جیسے حکمرانوں میں عمر بن خطاب کا نام لیا جا تا ہے اور ان کے اخلاص کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے ، مگر عمر ثانی تو پیدا ہوا مگر جب طویل انتظار کے بعد بھی عمر ثالث پیدا نہ ہو سکا تو اخلاص کے حصول کے لئے ووٹ کی پرچی ایجاد ہوئی، جب صدر امریکہ کہتے ہیں کہ اسرائیل میں حقیقی جمہوریت ہے تو ان کی بات کو ، کہ اسرائیلی شہری جو دنیا کے مختلف کونوں سے آ کر بسے ہیں ، تسلیم کرتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین اعتماد ہی اصل طاقت ہوتی ہے ۔ 



عوام و حکمران
مشرق وسطیٰ میں لبنان ایسا ملک ہے جو جمہوری اخلاص کے باعث اپنی مذہبی اور مسلکی تقسیم کے باوجود اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے جبکہ عراق و شام لہولہان ہیں ۔مصریوں نے اپنے منتخب صدر کو ذلیل کرنا شروع کیاتو ان کی اپنی عزت بھی خاک ہو رہی ہے۔ 



فتح و شکست
القدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو جانا ان کی فتح ہے مگر مفتوح کے لئے ادراک کرنے کا مقام یہ ہے کہ وہ تعداد ووسائل کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں۔ ترکی میں میلوں لمبی ریلی سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکوں کے دل مفتوحین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، لبنان ، مصر، اردن والوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، جذبات کا اظہار تو پاکستان، ایران اور دوسرے عرب اور افریقی ممالک میں بھی ہوا ہے حتیٰ کہ جرمنی و لندن سمیت سارے یورپی ممالک نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔کرنے کو تو واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے سامنے بھی مظاہرہ ہوا ہے مگر کیا ان مظاہروں سے طاقت کشید کر کے اس کو بطور قوت پیش کیا گیا ہے ؟ جواب ہے نہیں۔۔۔!!!
عام مسلمانوں کو، جو القدس سے کسی بھی طرح کی وابستگی رکھتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ناکامی اپنی غلطی اور بے عملی کا ثمر ہوتی ہے ۔میدان سے غیر فاتح ہو کر لوٹنے کا مطلب ہمیشہ کی شکست نہیں ہوتا ۔ انفرادی اور قومی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ 



آج مسلمانوں پرْ مصیبت ْ کی گھڑی ہے مگر میرے کانوں میں ایک آواز بچپن سے گونجتی ہے ْ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا ْ اس آواز کے الفاظ کی بجائے مجھے وہ لہجہ متاثر کرتا ہے جس لہجے کی مضبوطی پر کروڑوں مسلمانوں نے یقین کر کے اپنا اپنا اعتماد قائد اعظم کی جھولی میں ڈالا تھا۔اور اسی نسل نے اس نحیف البدن کو چو مکھی لڑائی میں سرخرو ہوتے دیکھا۔ 
مسلمان اس دن بھی مصیبت میں تھے جس دن ایک عالمی جنگ میںخلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور اس کے حصے بخرے ہوئے۔مگر کیا آج ترکی دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو چکا۔قائد اعظم کا پاکستان جب دو لخت ہوا وہ دن بھی پاکستانیوں پر ْ مصیبت ْ کا دن تھا کہ اس دن رات کے کھانے کی کسی کو یاد نہ تھی ، مگر کیا آج پاکستان دنیا کی چند اور اسلامی دنیا کی وحید ایٹمی طاقت نہیں ہے ؟ 
کیا مسلمانوں نے اپنے وقت کی معلوم ساری دنیا پر حکمرانی نہیں کی ؟ بے شک کی ہے اور اب مسلمان تنگی کے وقت سے گذر رہے ہیں ۔ اس وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کا فرمان ہے ْ تنگی کے وقت فراخی کا انتظار کرنا بہترین عبادت ہے ْ 
ایک ہوتی ہے شکست ، جس کے بعد قوم در بدر ہو جاتی ہے ، مایوسی چھا جاتی ہے اور انسان اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جو حالات سے مایوس ہو جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ ْ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا ْ ہم اللہ تعالیٰ
کے اس حکم کو ہر گز پس پشت نہیں ڈالتے ۔ 
اسی یوروشلم میں جب مسلمان داخل ہوئے تھے تو مفتوح لوگوں نے ان کے ہاتھ چومے تھے، یہی یوروشلم جب مسلمانوں سے چھنا تھا تو اس وقت بھی مسلمانوں نے ایک عہد کیا تھا اور اس عہد کو پورا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ وقت کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھراتا ہے ، آج اگر وقت نے ایک ایسا ورقہ پلٹا ہے جس کی تحریر ہمارے دلوں پر خنجر چلاتی ہے مگر یہ وقت کی کتاب کا آخری صفحہ ہر گز نہیں ہے ، اور نہ ہی یہودیوں کو آسانی سے یہاں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ 



ہمارے کرنے کا کام
مسلمان اس وقت در بدر ہیں نہ ہی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں، ہمارے اپنے ممالک ہیں، زمین وزر کی بھی کمی نہیں ہے ۔ وسائل و ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ادارے بھی موجود ہیں ، 



کمزور و بے کار ہی سہی اسلامی سربراہی کانفرنس بھی موجود ہے ، دکھاوے کا ہی سہی چالیس ملکی اسلامی اتحاد بھی موجود ہے ،



 ہمارے کرنے کا کام صرف ایک ہے وہ یہ کہ ہم ْ ہر فن مولا ْ ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو کر اپنے اپنے ذمہ طے شدہ کام پر توجہ دیں ۔ زمین کا سینہ چیرنا کسان کا فرض ہے تو صنعت کا پہیہ مزدور کو چلانا ہے ، انصاف عدالتوں نے مہیا کرنا ہے تو امن و امان پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ وطن کا دفاع ہماری پاک فوج کے ہاتھوں محفوظ ہے ، حکومت کرنا سیاست دانوں کا کام ہے مگر یہ بد بخت ، چور ، لٹیرے ، بکے ہوئے ، دشمنوں کے ایجنٹ ، ذاتی تجوریاں بھرنے والے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اس کے باوجود یہ کام بہرحال سیاستدانوں ہی کا ہے۔ ہم عوام کی خطا یہ ہے کہ ہم اپنے رہنماوں کو ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں کہ وہ اسی کرپٹ معاشرے کا حصہ ہیں ہم ان کا احتساب تو دور کی بات ہے پلٹ کر ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ سیاسی رہنماء اپنے جلسے میں موجودتعداد سے قوت کشید کرکے طاقتور ہو جاتا ہے مگر ہم اس کی غلطی پر اسے ٹوکتے تک نہیں ہیں۔ کیا یہ نا ممکن کام ہے کہ ہم گاوں اور محلے کے چند لوگ وفد کی صورت میں اپنے اس رہنماء کے پاس جا کر یہ مطالبہ کریں کہ امریکی صدر نے ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور جارحیت پر مبنی یہ اعلان کیا ہے کہ اسرائیل میں امریکہ سفارت خانہ تل ابیب کی بجائے یوروشلم منتقل کر دیا جائے۔ لہذا آپ ہماری نمائندگی کا حق ادا کریں اور ہمارے جذبات مقامی حکومت ، صوبائی اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے توسط سے وزارت خارجہ تک پہنچائیں ۔ اور وزارت خارجہ عالمی فورموں پر ہمارے جذبات کی ترجمان بنے ۔اور ہم اپنا یہ مطالبہ بار بار اور اس وقت تک دہراتے رہیں جب تک ہماری حقیقی جذبات اسمبلیوں اور حکومت کی آواز نہ بن جائیں۔ 

یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟




تحریر: Asif Mahmood
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔
29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
معاملہ کا قانونی پہلواب آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حمایت کرنے کے لیے دو میں سے ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے۔اول: آدمی جاہل ہو۔ دوم: وہ بد دیانت ہو۔تیسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں۔

بدھ، 6 دسمبر، 2017

سیکولرازم




سعودیہ ایک وسیع اور تاریخی ملک ہے۔ وہاں ، اگر کہا جائے ، دین لوگوں کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قبائل پرمشتمل اس ملک کے ایک صوبے نجد میں جو روایات کا قلعہ کہا جاتا ہے میں اشیقر نامی قلعے سے متصل ایک ویران گلی میں ایک نوجوان لڑکی نے علاقے کی روایات سے ہٹ کر ایسا لباس زیب تن کیا جو اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ وہ لڑکی کوئی عام لڑکی نہ تھی، اس کا نام خلود ہے جو سعودیہ کی ایک پروفیشنل ماڈل ہے، جب خلود سکرٹ پہن کر ایک ویران گلی میں چہل قدمی کر رہی تھی اس کے اس عمل کو فلمایا گیا۔ لوگوں نے اس کی شکائت کی  . اس کے خلاف تفتیش ہوئی ، اس کے جرم کو نا قابل گرفت بتاتے ہوئے اس کے خلاف تفتیش بند کر دی گئی۔ البتہ اس کاویڈیو 
 کلپ ایک بحث کا عنوان بن گیاکہ  " فرد کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نہیں۔

اب ایک مثال پاکستان کی، ایک دھرنے میں موجود ایک علامہ صاحب کے طرز تخاطب کو بنیاد بنا کر ، مولویوں ، علماء اور دینی مبلغین کے طرز تخاطب کو دین سے جوڑ کر دین کی بے ثمراتی پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اوربحث کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے کو دینی ہونا چاہیے یا سیکولر ؟ 

سوشل میڈیا ایسا فورم ہے جہاں آ پ اپنا بیانیہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر بھی اس کے ذہن میں انڈیل سکتے ہیں۔ جب پکتی دیگ میں خیالات کا ایک دانہ بھی ڈال دیا جائے تو اس نے پک جانا ہے اور کسی مرحلے پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر جاری سیکولرازم پر تبصروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہمارے لبرلز ہیں جن کو ْ دیسی ْ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک روایات، اخلاقیات اور دین ایسے سنگ گراں ہیں جو معاشرے اور ملک کی ترقی میں حائل ہیں ۔ 

یہ بحث اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ ، قوم پرست اور دین دار طبقے کو اس بحث کا حصہ بن جانا چاہئے تاکہ نوجوان ذہن یک طرفہ بیانئے سے متاثر ہونے سے پہلے بیانئے کا دوسرا رخ بھی جان سکے۔

جمعہ، 1 دسمبر، 2017

شاہد خان کے نوکیلے قلم کا شاہکار



معروف واقعہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود اور مولانا عبدالستار نیازی دونوں ایک کمرے میں بیٹھے سیاسی گفتگو کررہے تھے کہ اچانک 
فضل الرحمان وہاں پر آگئے تب ان کا بچپن تھا انکے آتے ہی مفتی محمود صاحب نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر نیازی صاحب کو گفتگو روکنے کا اشارہ کیا بعد میں استفسار پر مفتی صاحب نے بتایا کہ سی آئی ڈی والوں نے فضل الرحمن کو میرا مخبر رکھا ہے لہٰذا اس کے سامنے ایسی ویسی بات مت کرنا۔
مولانا مفتی محمود کو اللہ نے پانچ صاحبزادوں سے نوازا، سب سے پہلے تو ان کے عہدے دیکھ لیں:
وہی والد کے مخبر مولانا فضل الرحمان، 6 مرتبہ ایم این اے، تیسری مرتبہ کشمیر کمیٹی کا چئیرمین، مراعات وفاقی وزیر کے برابر
انکے ایک بھائی مولانا عطا الرحمان آج کل سینیٹر ہے۔
دوسرے بھائی مولانا لطف الرحمان خیبرپختون خواہ اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر ہے، مراعات وزیراعلی کے برابر۔
تیسرا بھائی مولانا ضیا الرحمان 2007 میں وزیراعلی اکرم درانی کے زریعے غیرقانونی ڈیپوٹیشن کے زریعے افغان مہاجرین کا ایڈیشنل سیکرٹری مقرر ہوا - پچھلے سال پانامہ لیکس میں فضل الرحمان نے نوازشریف کے حق میں بیان دیا تو نوازشریف نے ضیا الرحمان کو کمشنر افغان مہاجرین کے عہدے پر ترقی دے دی - مراعات اور اوپر کی آمدنی کے لحاظ سے یہ گریڈ 20 کے 30 افسروں کی آمدن سے بھی زیادہ پرکشش عہدہ ہے۔
چوتھا بھائی مولانا عبیدالرحمان ضلع کونسل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپوزیشن لیڈر ہے۔
لوگوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں تو وہ خوش نصیب کہلاتے ہیں، مفتی محمود کے یہ پانچوں فرزند پورے کے پورے گھی میں ہیں، ان کی خوش نصیبی کے کیا کہنے۔
اس سے پہلے میڈیا میں خبر آچکی ہے کہ فضل الرحمان کے ایک بھائی کو پی آئی اے میں ایک نیا شعبہ " اسلامی " تخلیق کرکے اہم عہدے پر فائز کردیا گیا۔ مولانا صاحب کو بطور انسٹرکٹر پی آئی اے مسجد کے امام اور مؤذن کی " ٹریننگ " کرنا تھی لیکن موصوف ظہر کی چار فرض رکعات پڑھ کر ہی مسجد سے بھاگ جاتے۔
پھر یہ چھٹیاں لے کر، پی آئی اے کی بزنس کلاس کی مفت کی ٹکٹ پر امریکہ گئے، وہاں خود ہی اپنے آپ کو پی آئی اے کی طرف سے امریکہ میں پورا رمضان تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی تفویض کردی اور 6 ہفتے امریکہ گزارنے کے بعد واپس آئے تو لاکھوں روپے ٹی اے ڈی اے کی مد میں چارج کرلئے۔
پھر ایک دن اپنے ہی شعبہ اسلامی میں رکھا قیمتی سامان، فرنیچر، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ اپنے گھر پہنچا کر کہہ دیا کہ چوری ہوگئی۔
مولانا نے پی آئی اے میں ترقی پا کر اگلے گریڈ میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مقصد کیلئے ان کیلئے علیحدہ سے ایک آسان سا اسلامی امتحان رکھا گیا جس میں مولانا بمشکل 50 نمبر ہی لے پائے اور بعد میں سارا الزام ممتحن پر ڈال دیا کہ اس نے " آؤٹ آف سلیبس " پرچہ لیا۔ اور تو اور فضل الرحمن کے بیٹے نے اپنے ہی باپ کیخلاف بغاوت کردی میڈیا کے مطابق ان کے بیٹے اسد الرحمان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی مدرسے پر مبینہ قبضے کی کوشش کی ۔ مقامی اخبار کے مطابق ملتان کے کچہری چوک پر واقع مدرسے پر اسدالرحمان کی قبضے کی مبینہ کوشش کو پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ مدرسے کے باہر پولیس کی نفری تعینات کی گئ
پتہ نہیں مفتی محمود مرحوم کو کس کی نظر لگ گئی، اللہ نے پانچ صاحبزادے دیئے، پانچوں کے پانچوں ، کرپٹ اور حکمرانوں کے دربار کے باہر بیٹھے .
الحمد للہ مولانا فضل الرحمان تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ ہیں ۔ ان کے ایک بیٹے اسد محمود خیرالمدارس ملتان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے مگر ٹانک سے وہ عمران کے امیدوار سے شکت یافتہ ہیں جبکہ ہ لکی مروت کی چھوڑی ہوئی نشست پر بھی مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاءالرحمان کو تحریک انصاف کے امیدوار کی جانب سے بھی شکست کا سامنا ۔ دوسرے بیٹے انس محمود ڈی آئی خان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ تیسرے بیٹے اسجد محمود حفظ قرآن میں مگن ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی فدائی بنا ہے ‘ نہ افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہے ‘ نہ کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم ہے اور نہ جنوبی یا شمالی وزیرستان میں مورچہ زن ہے۔
ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا ۔ ۔ ۔ !!!


تحریر شاہد خان