جمعہ، 10 نومبر، 2017

فاصلہ

فاصلہ 
1970 
کے الیکشن کا زمانہ تھا ، لاہور سے اٹھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا ، پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا
روٹی، کپڑا ، مکان
نا انصافی اس وقت بھی تھی مگر اتنی نہ تھی کہ سیاسی پارٹی اپنے نعرے میں اس کا ذکر کرتی ۔ شائد موٹر سائیکلوں کی کمی کے باعث سڑکوں پر کرپشن کے مظاہرے نایاب تھے، جاگیر داروں اور صنعتکاروں کے ظلم میں پسی عوام نے اس نعرے کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اگر حلقے میں کھمبے کو ٹکٹ دیا تو عوام نے اسے بھی ووٹ دے کر کامیاب کرایا ۔ کھمبے کی اصطلاح بھی اسی زمانے کی ایجاد ہے ۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے ، مقدموں کی نایابی کا شکار مگر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ نے انھیں پاکستان کی قومی اسمبلی کا ممبر بنوا دیا۔پہلے وہ وزیر بے محکمہ بنائے گئے ، جی ہاں اس زمانے میں ایسے وزیر بھی ہوا کرتے تھے جن کے پاس کوئی وزارت نہیں ہوا کرتی تھی ایسے وزیروں کو وزیر بے محکمہ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا تھا۔ خورشید حسن میر صاحب بعد میں ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے اس زمانے میں ہم اخبار میں دلچسپی سے پڑہا کرتے تھے کہ ریل کا پورا انجن کیسے غائب کیا جاتا ہے۔ خود بھٹو صاحب البتہ امین تھے ۔ سیاستدان کے لیے صادق ہونا ممکن ہے یا نہیں ، یہ تو لال حویلی والے شیخ صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔
بھٹو صاحب نے اپنی مدت بھی پوری کی اور دوسرا الیکشن بھی کامیابی سے لڑا، مگر ان کی چاند جیسی شکل کے مقابلے میں پہلے نو اور پھر گیارہ ستارے لائے گئے ۔ در اصل بھٹو مخالف اتحا د بنانے والوں کے جھنڈے میں گیارہ ستارے تھے۔کیونکہ اس وقت سیاسی پارٹیاں ہی اتنی تھیں۔ چوبیس گھنٹے چلنے والے درجنوں ٹی وی چینلوں کی جگہ صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جو مخصوص وقت پر کھلتا اور بند ہو جاتا تھا۔ ایف ایم ریڈیو سے لوگ نامانوس تھے۔ سوشل میڈیا کا تصور بھی نہیں تھا جلد ہی عوام کو یقین ہو گیا کہ ان کے ووٹ چوری ہو گئے ہیں۔ بھٹو کے خلاف ایک بلند آواز ریٹائرڈ ائر ماشل اصغر خان کی ہوا کرتی تھی ان کی پارٹی کا نام جسٹس پارٹی تھا، جیسے آج کل نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان صاحب ہیں اور ان کی پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔جلسے کم اور جلوس زیادہ نکلا کرتے تھے ۔ ایک دن راولپنڈی میں جلوس نکلا کسی نے جی ایچ کیو کے سامنے بینر لٹکایا جس پر لکھا تھا ْ خلقت مٹ جائے گی تب انصاف کرو گےْ عوام کی فریاد سن لئی گئی ۔ بھٹو کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر خلقت خدا کے مطالبے پرملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ مارشل لا لگ جانے پر شیریں بانٹنے کی روائت کی ابتداء بھی ہوئی ، ورنہ اس سے قبل مارشل لاء کی أمد پر شیرین تقسیم نہیں ہوتی تھی،عام طور پر مانی ہوئی منت کے پورا ہو جانے پر شیرین تقسیم کی جاتی ہے، عوام کی منت پوری ہوئی اور پاکستان کو جنرل ضیاء الحق کی صورت میں ایسا مرد مومن نصیب ہوا جو کھلی استین والا کرتاپہنتا ، نیو یارک میں اللہ کے اس بندے نے اللہ کی کتاب کی تلاوت کی ریت ڈالی، اللہ نے اسے اپنے گھر بلایا تو امام کعبہ مقام امامت سے یہ کہہ کر ہٹ گئے کہ آپ امت کے رہنماء ہیں امامت فرمائیں، پھر انھوں نے تلاوت کی خود بھی گریہ کیا اور اپنے مقتدیوں کو بھی رلایا ، ایسے ہی بتایا جاتا ہے ، شہادت کی موت مرے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر دفن ہیں، پھر سیاستدان آئے کبھی بے نظیر تو کبھی نواز شریف ، مگرعوام راولپنڈی کے جی ایچ کیو کے باہر پھر بینر لگا چکے تھے۔ ہاتھ دعا کے لئے اٹھے تو فضاوں سے شرف قبولیت اترا ۔
یہ ساری تمہید اس لیے بیان کی کہ اس دن ایک بالکل ہی نوجوان، گل خان ، مسکراتاہو�آیا
ْ آپ نے رات کو خطاب سنا ْ پھر خود ہی کہنے لگا ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
میں اس کی خوشی پہ خوش تھا
ْ آپ بھی کچھ کہیں ْ 
میں کہنا چاہتا تھا ْ برخوردار تم نے یہ خطاب زندگی میں پہلی بار سنا ہے ْ میں چپ رہا کہ گل خان کے چہرے پر آئی امید بھری مسکرائٹ اچھی لگ رہی تھی
آج جمعہ کی نماز پڑھ کر راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کے پل پر کھڑا ہوا ہوں میرے ساتھ گل خان بھی ہے میں نے پوچھا گل خان بتا سکتے ہو یہاں سے جی ایچ کیو کا فاصلہ کتنا ہے
ْ ْ جتنا ان لوگوں ْ گل خان نے مجمع کی طرف اشارہ کر کے کہا ْ اور عوام میں ہے ْ 

 Islamabad.  10 November 2017

جمعرات، 9 نومبر، 2017

والیم 10

ایک بزرگ ہیں ، بندہ ان کا دلی عقیدت مند ہے ، صبح فون پر یاد فرمایا ، ننگے پاوں بغیر ناشتہ کئے حاضرہوا۔ سلام کیا فرمایا بیٹھو، خادم سے کہا جو سلیپر میری الماری کے نیچے والے خانے میں رکھے ہپیں لے کر آو, کمال شفقت سے بندہ کو عنائت فرمائے، گل خان کو ناشتہ لانے کا کہا ۔۔ انھین معلوم ہو گیا کہ میرا عقیدت مند بغیر ناشتہ کے اور ننگے پاوں آیا ہے .. میں اللہ کے ساتھ شرک نہیںکرتا مگر میرے بزرگ واقعِ پہنچے ہوئے ہیں , ساری رات اللہ اللہ کرتے ہیں ، ٹی وی وہ نہیں دیکھتے، اخبار ان کا وقت ضاءع کرتا ہے , فون بھی کسی عقیدت مند نے دے دیا وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے البتہ گل خان کا بھلا ہو رابطہ کر لیتا ہے۔۔۔ ناشتہ کر کے دست بستہ ہوکر عرض کیا کہ آپ نے خاکسار کو یاد فرمایا ہے .. حکم ۔۔ متبسم ہوئے فرمایا '' والیم 10 " کیا ہے ..."میں نے ابلیس کو پسینے میں شرابور دیکھا ہے"

کالی رات لمبے خنجر



چارنومبر 2017 کی رات کو جو معرکہ برپا ہوا ، اسے عالمی میڈیا نے ْ لمبے خنجروں والی رات ْ کا نام دیا ہے، ناتجربہ کار، نوجوان ، اختیارات کا حریص سمجھا جانے والا 32 سالہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اس بحران سے سعودی نوجوانوں اور خواتین کا ہیرو بن کے اٹھا ہے، شہزادے نے حیرت انگیز طور پر شاہی محل کے اندر ان شخصیات پر ہاتھ ڈالا جو مقتدر خیال کی جاتی تھیں۔ 
نومبر کے شروع میں جب ریاض کے ہوٹل کو خالی کرایا جا رہا تھا تو کسی کے وہم ہو گمان بھی نہ تھا کہ 4نومبر کو اس میں ایسے مہمان لائے جائیں جن کی امد پر ہوٹل میں موجود ہر شخص ادب سے سر جھکاتا تھا مگر اس دن کی صبح کو اس ہوٹل پر سیکورٹی اداروں کا مکمل کنٹرول ہو گیا تو طے شدہ پروگرام کے مطابق سورج غروب ہوتے ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیامگر یہاں انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے ہوٹل کا عملہ نہیں بلکہ سیکورٹی اور تفتیشی اداروں کے افسران تھے۔ سعودیہ میں ، لوگوں کو شک بھی نہیں ہو سکتا ، کہ ال سعود کے خلاف کوئی سازش نیشنل گارڈز یا مقامی طور پر الحرس الوطنی کے نام سے معروف ادارے سے اٹھ سکتی ہے جس کا اول و آخر مقصد ہی آل سعود اور بادشاہت کی حفاظت ہے مگر یہ آل سعود کے خلاف بغاوت بالکل بھی نہیں تھی۔



شہزادہ محمد بن سلیمان مملکت سعودی عرب کے ولی عہد ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی پشت پناہی سے حقیقی حکمران بھی ثابت ہو رہے ہیں، انھوں نے اسی سال ایک ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا
 ْ جو کوئی کرپشن میں مبتلاء ہو گا اسے چھوڑا نہیں جائے گا خواہ وہ وزیر ہو یا شہزادہ ْ    
۔ انھوں نے سترہ شہزادوں اور درجنوں حاضر یا سابقہ وزراء ، وزراء مملکت اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں اور کاروباری شخصیات کو سرکاری تحویل میں لینے کا دبنگ فیصلہ ہی نہیں لیا بلکہ اس پر عمل بھی کر ڈالا، دو کروڑ سعودیوں جن میں خواتین اور نوجوان بھی ہیں نے شہزادے کے اس عمل کو خوش گوارحیرت سے دیکھا ، جو ان کے نزدیک 
تبدیلی ، جدیدیت اور کرپشن کے خلاف ہیرو بن کے اٹھا ہے




ولی عہد شہزادے کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے والا ایک طاقتور شہزادہ الولید بن طلال ہے ، جن کے مالی اثاثوں کی مالیت مملکت کے اندر اور باہر اتنی زیادہ ہے کہ انھیں عرب دنیا کا امیر ترین فرد کہا جاتا ہے


تحویل میں لیے جانے والے دوسرے طاقتور شہزادے کا نام متعب بن عبداللہ ہے جو مملکت کے اہم ادارے الحرس الوطنی کے وزیر تھے، وہ اسی ادارے کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ان کو معزولی کے حکم کے ساتھ ہی حراست میں لے لیا گیا 




 

پرنس محمد بن سلیمان جو سعودیہ میں تبدیلی اور جدیدیت کے بانی کے طور پر خود کو متعارف کرانا پسند کرتے ہیں ، بات چیت میں عربی کے ساتھ ایک ہی جملے میں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، سعودیہ میں ، جہاں عورتوں کو گاڑی چلانیکی اجازت دینا عشروں سے ایک سماجی مسٗلہ بنا ہوا تھا اس قسم کی زبان کا استعمال بھی ایک بڑا جرات مندانہ اقدام ہے، ولی عہد شہزادہ کی جرات اس وقت ہی دو چند ہو گئی تھی جب خادم الحرمیں شریفین نے 2015 میں ان کو مالی معاملات کی دیکھ بھا ل اور نگرانی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس خود مختاری کے بعد جو
Vision 2030
 سامنے آیا ہے اس کے مطابق تبدیلی اور جدیدیت کا عملی مظاہرہ شروع ہو گیا ہے ، بول چال میں انگریزی 
زبان کے الفاظ کا استعمال خود شہزادے نے شروع کیا ہے، عورتوں کو گاڑی کی ڈرائیونگ کی اجازت دیا جانا ایک بڑا اور جدیدیت کا انقلابی فیصلہ شمار کیا جاتا ہے جو سعودی معاشرے کو بدل کر رکھ دے گا ،اصل ترقی اور خوشحالی کا دور اس وقت شروع ہونا ہے جب سرکاری کمپنی آرامکو کی نجکاری کا عمل شروع ہوگا جس کے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ 2 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ بتایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ایک بالکل ہی نیا اور منفرد آئیڈیا مملکت کے اندر مجوزہ بسائے جانے والے اس شہر کا ہے جس کا نام شہزادے نے 
NEOM
 تجویز کیا ہے، اسی شہر کے بارے میں منعقدہ ایک سیمنار میں شہزادے نے نام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ
NEO
  کا مطلب تو
New
  ہے البتہ
M
 عربی زبان کے لفظ مستقبل کو ظاہر کرتا ہے۔ان تمام مجوزہ تبدیلیوں کے اعلان کے بعد مملکت میں پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس انقلاب نما جدیدیت کا ذکر تمام اذکار پر چھایا ہوا ہے حتیٰ کہ مملکت کے اندر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس سال جون کے مہینے میں اس وقت کے طاقتور وزیر داخلہ اور شاہ سلیمان کے ولی عہد کو جدہ کے ایک محل میں اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ ولی عہدی کے عہدے سے شہزادہ محمد بن سلیمان کے حق میں دستبردار ہو جائیں، اس رات کی صبح کو دنیا نے یہ خبر حیرت سے سنی تھی کہ شہزداہ محمد بن نائف اپنے چچازاد کے حق میں ولی عہدی سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ولی عہدی کے منصب اور طاقتور وزارت داخلہ کے بعد وزرات الحرس الوطنی ایسا ادارہ تھا جو وزارت داخلہ سے بھی طاقت ور اور مملکت میں حکومت کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ادارے کو تو 1950 میں قائم کیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا رہا۔ اس وقت اس کی ہیت ترکیبی اس طرح ہے کہ اس ادارے میں آل سعود کے حلیف قبائل کے مستعد و پھر تیلے جوانوں کو لیا جاتا ہے اور ان کی کمان بھی متعلقہ قبیلہ یا مذہبی گروہ کا فرد ہی کرتا ہے ، اس ادارے کے بارے میں مملکت کے اندر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ادارہ جانتا ہے کہ کس گھر میں کون سا سالن پکے گا۔اس ادارے کی اپنی وزارت ہے اور اس کے وزیر شہزادہ متعب بن عبد العزیزتھے۔ 65 سالہ متعب ، مرحوم شاہ عبداللہ کے بیٹے میں ان کو اس قدر احترام حاصل تھا کہ شاہ سلیمان کی تخت نشینی کے موقع پر ان کا نام بھی تخت کے امیدوار کے طور پر سامنے آیا تھا۔ شاہ سلیمان کی تخت نشینی ، شہزادہ محمد بن سلیمان کے نائب ولی عہد بن جانے کے جب شہزادے محمد بن سلیمان کی وزارت داخلہ پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ان کو ولی عہدی کا منصب بھی حاصل ہوگیا تو ان کو حوصلہ ملا کہ وہ طاقت کے مرکز کی وزارت الحرس الوطنی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر کے اپنے تخت و تاج کو محفوظ کر لیں، مگر یہ کام اتنا آسان بھی نہ تھا۔ جیسے پانی اپنا رستہ خود بناتا ہے اسی طرح اقتدار بھی اپنے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کو کچل دیتا ہے ، رکاوٹوں کو کامیابی سے کچل دینے والے انقلابی اور کامیاب حکمران کہلاتے ہیں اور ناکام ہونے والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوتے ہیں ۔ بہرحال سعودیہ کے ولی عہد طاقتورحکمران بن کر ابھرے ہیں ، اب انھوں نے تخت و تاج اپنے نام کر لیا ہے اور ان کے رستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں ۔ حکمرانی کے اس کھیل میں کچھ بیرونی ، علاقائی اور اندرونی کھلاڑیوں کا ذکر کئے بغیر کہانی مکمل نہیں ہوتی ، سب سے پہلے امریکہ:ہ







جیسے سعودیہ کے حکمران خاندان اور آل سعود کے لیے

House of Alsaud
  کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے بالکل ویسے ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے
House of Trump
  کی اصطلاح مشہور اخبار فنانشل ٹائم میں استعمال ہوئی ہے، اسی اخبار نے ایک بار لکھا تھا کہ ترمپ کی خارجہ پالیسی میں خاندان اور زر بڑا کردار ادا کرتے ہیں، اخبار نے جاپان کے وزیر اعظم کے صدر ترمپ کی بیٹی 
Ivanka Trump and $ 50M
 اور خود صدر ترمپ کو گاف کی گولڈ پلیٹڈ گاف کھیلنے والی چھڑی کا تحفہ دیے جانے کاذکر کر نے کے 
بعد سعودیہ اور متحدہ امارات کی طرف سے
$100M
 ی گرانٹ کا ذکر کے کہا تھا یہ اقدام صدر امریکہ کا دل جیتنے کا سبب بنے تھے۔ صدر امریکہ کے بارے میں کہا گیا کہ چین جیسے کنجوس اور بنئیے ملک نے بھی 
Ivanka Trump Trademarks
 کی صورت میں صدر ترمپ کو سلامی پیس کی تھی۔ ہمیں ان کی حقیقت کا علم ہے نہ یہ ہمارا موضوع ہیں البتہ ان 
$ 110 Bn
 کی سعودی امریکہ دفاعی ڈیل کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا جس کے مطابق سعودیہ کو جو بحری جہاز اور انٹی میزائل سسٹم ملنے ہیں ابھی ان جہازوں نے بننا ہے اور میزائل سسٹم نے کاغذ کے نقشوں سے حقیقت کا روپ دہارنا ہے۔اس میں کون کس کو استعمال کر رہا ہے ہم نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ عرب بنیادی طور پر تاجر ہیں، سعودیوں نے ترمپ کے دور ے کے دوران ریاض میں جو سرخ قالینین بچھائیں تھیں اور شاہ نے تلوار ہاتھ میں لے کر روائتی رقص کے دوران اسامہ بن لادن کی باقیات کو ختم کرنے کا جو وعدہ کر کے صدر ترمپ کا دل جیت لیا تھا۔شاہ سلیمان کی اشیرباد سے اب سعودی ولی عہد ان سرخ قالینوں اور 
تحائف کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔جب سعودی عرب ۔میں ایک ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد ریاض کے ہوٹل
Ritz Carlton International 
 میں ولی عہد اپنے مخالفین کو چن چن کر جمع کر رہے تھے اس وقت دنیا نے امریکہ صدر کا یہ ٹوئیٹ پڑہا۔
The Crown Prince and his father know what they are doing
مرحوم شاہ عبدالعزیز کے فرزند شاہ سلیمان اور پوتے شہزادہ محمد کو تو معلوم ہی تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں مگر صدر امریکہ بھی اس سے بے خبر نہ تھے کہ وہ خود اپنے مشیر اور داماد کو بطور مدد ریاض روانہ کر چکے تھے۔اصل میں صدر امریکہ کا کلیجہ تو ولید بن طلال کے تحویل میں لئے جانے نے ٹھنڈا کیا تھا کہ اس خبر کے ساتھ ہی ولید کی دولت میں سے کتنے ملین کس کے اکاونٹ میں منتقل ہو گئے تھے یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہمیں تو یہ عرض کرنا ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکی صدر سعودی ولی عہد کے ساتھ رہے، قطر کے گھیراو کے عمل کی پشت پر صدر امریکہ ہی تھے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ قطر ایران کے زیادہ ہی قریب ہے۔علاقے کے حالات ایسے ہیں کہ ایران کو کر خود بخود ہی در آتا ہے۔
جیسے شمال مشرقی ایشیاء اور افغانستان کے سیاسی حالات پر تجزیے کے دوران پاکستان کا ذکر لازمی ہے بالکل اسی طرح مشرق وسطیٰ کے حالات بیان کرتے ہوئے ایران اور اسرائیل کا ذکر کیے بغیر بات بنتی ہی 

نہیں ہے۔




اسرائیل کا ذکر



اسرائیل کے بارے میں ہم بہت کچھ سنتے ہیں اور جانتے ہیں لیکن علاقے کے عوام اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اسرائیل میں جس کی بھی حکومت ہو وہ اول و آخر اپنے شہریوں کی محافظ ہے۔ اسرائیلی عوام کا اپنی حکومت پر بے حد بھروسہ ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے مابین اس طرح کا اعتماد علاقے کے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔ دوسری بات اسرائیل کی پالیسی ہے ۔ آپ اسرائیل کی تاسیس کے دن سے لے کر اج تک دیکھ لیں اسرائیل امن کا حامی، انسانی حقوق کا علمبرداروغیرہ سب کچھ ہے اس کی زبان سے شہد ٹپکتا ہے اس نے کبھی جنگ کی بات نہیں کی نہ کبھی کسی ملک کو دہمکی دی ۔ عملی طور پر صابرہ اور شاتیلا میں خون کی ہولی کھیلنے سے لے کر بچوں ، عورتوں اور مریضوں تک کو تختہ مشق بنانا روزانہ کا معمول ہے ۔ مگر وہ اپنے آپ کو امن پسند اور انسان دوست ملک کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہی نہیں بہت زیادہ کامیاب ہے، صرف اشارہ کر رہا ہوں کہ اس کی کامیابی ان یونیورسٹیوں کی مرہون منت ہیں جہاں ہنگامی طور پر تحقیقات کا عمل جاری ہے۔اسرائیل کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ وہاں سے شائع شدہ کچھ نقشے ایسے ہیں جن 

میں اس یثرب کا ذکر پایا جاتا ہے جس کو مسلمان مدینہ المنورہ کے نام سے جانتے ہیں۔







ایران کا ذکر
جنت مکین ایک پاکستانی دانا نے لکھا تھا کہ ہم مسلمان خود کو شیعہ سنی یا دوسرے فرقوں سے منسوب کر کے اہک دوسرے کو کافر کہتے ہیں مگر صرف غیر مسلم ہی سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے نزدیک شیعہ سنی دونوں مسلمان ہیں ، ایران اور سعودیہ اس کے نزدیک ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ کچھ ملک بہت خاموشی سے اس وقت کا انتطار کر رہے ہیں جب شیعہ ایران اور سنی سعودیہ اپنے اپنے حلیفوں سمیت ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں گے ۔ بعض واقعات نا ممکن نظر آتے ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے 

ناممکن ، ممکن بن جایا کرتا ہے۔



ماضی میں زیادہ دور نہ جائیں بس سر گھما کر دیکھ لیں کیا فلسطینوں کو فلسطین سے ہمارے دیکھتے دیکھتے نکال نہیں دیا گیا۔ شام میں کیسے رد عمل کی سیاست کے ذریعے پورے ملک کو لہو لہان کر دیا گیانوبت یہاں تک تو پہنچ گئی ہے دوسرے فرقے کے زخمی کو دوا تو دور کی بات ہے پانی تک کوئی نہیں پلاتاْعراق کے حصے بخرے ہوتے کیا ہم نے اپنی انکھوں سے نہیں دیکھے، کیا ایران کے حکمران رات کو چین کی نیند سوتے ہیں، کیا لبنان کے حالات سعودیہ پر اثر انداز نہیں ہوتے ، کیا یمن کی طرف سے سعودیہ اطمینان کا سانس لینے کے قابل ہے، کیا مصر کچھ کر گزرنے کا دم ہے؟ ہم سعودیہ کے استحکام کے لیے اس لئے فکر مند رہتے ہیں ، کہ یہ علاقہ ہماری عقیدتوں کا حامل ہے۔ 
1974
 میں سعودی عرب میں شاہ فیصل کا قتل ہوا تھا مگر آل سعود نے خون کے بدلے خون کے ذریعے سوگوار خاندان کو انصاف مہیا کر کے اور مرحوم شاہ کے بیٹے کو وزارت خارجہ دے کر عزت کو بر قرا ر رکھا تھا ،قلیل مدت میں ہی دکھ مندمل ہو گئے تھے۔ اب کے بھی خون بہا ہے بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے لاشے کو کندہا دیا ہے زخم گہرے ہیں ، مداوا ممکن ہے 



اسرائیل کے ایک اخبار نے موجودہ سعودی اقدامات پر لکھا ہے ْ نوجوان شہزادہ سعودیہ کے اندر نوجوانوں کا نمائندہ ہے، اس کا واشنگٹن میں احترام کیا جاتا ہے، وہ یمن کا سر جھکا نا جانتا ہے، اس نے کامیابی سے قطر  کا مقاطعہ کیا ہوا ہے، 
گلف کواپریشن کونسل میں کوئی بھی اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتا ، عمان کے کثیر القومی وار روم میں جہاں مشترکہ کاروائیوں کی منظوری دی جاری ہے شہزادہ داخل ہو تو اسرائیل سمیت سب لوگ سر جھکا کر اس کا اس کا استقبال کرتے ہیں ْ یہ اور دوسرے تبصرے پڑھ کر لگتا ہے کہ ْ بابا آپ کو معلوم ہے میں نے آپ کی نہیں ماننی ، آپ حکم عدولی پر مجبور کر کے کیون گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ْ کیا یہ بگڑا شہزادہ ہے جو چند سالوں میں علاقے کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گا اور مملکت سعودی عرب پر آل سعود کی حکمرانی کو شخصی مطلق العنان حکومت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ؟ یاد رہے سعودی عرب میں آل سعود کی حکمرانی ہے ۔ شہزادوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، بادشاہ پوری آل کا مشترکہ نمائندہ ہوتا ہے۔ بادشاہت کا ادارہ لوگوں کی توقعات سے زیادہ مضبوط ہے، شاہ عبد العزیز نے اپنے بیٹوں ، جن کی مائیں مختلف قبیلوں سے تھیں، کی تربیت اس نہج پر کی ہے کہ جب تک ان کے بیٹوں میں سے ایک بھی زندہ ہے تفرقے کا امکان نہیں ہو سکتا ، ریاض کے شاہی محل میں سعودی سنگلاخ پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے ہیں ابھی اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔ 

بدھ، 8 نومبر، 2017

20000000Million



                                
سعودی خبر رساں نیٹ ورک العربیہ کے مطابق سعودی عرب میں شاہ سلمان بن عبدلعزیز نے انسداد رشوت ستانی یا انٹی کرپشن کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا ہے،جس کے سربراہ شاہ کے ولی عہد اور شہزادہ محمد بن سلیمان ہیں۔ اس کمیٹی کو مملکت سے کرپشن کے خاتمے کے لیے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں ، ان اختیارات کے تحت ولی عہد مملکت میں جس فرد کو چاہیں بغیر مقدمہ درج کیے کسی بھی فرد کو اپنی تحویل میں لے 
سکتے ہیں اور اس کی جائیداد کو ضبط کر سکتے ہیں اور اپنی اس کاروائی کو خفیہ بھی رکھ سکتے ہیں


اس کمیٹی کی تشکیل کے چند گھنٹوں کے اندر مملکت میں کئی عہدیداروں کو اپنے عہدوں سے برطرف کر کے ان کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔ پرنس متعب بن عبداللہ کو ان کے مقتدر ادرے نیشنل گارڈ کے عہدے سے معزول کرکے تحویل میں لیے جانے کے بعد ، مزید 16 شہزادوں سمیت ، کاروباری اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی کئی مقتدر شخصیات کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ایک اخباری نمائندے کی اطلاع کے مطابق شاہی خاندان کے تمام شہزادوں کے مملکت سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔


شہزادہ متعب ، شاہ عبد اللہ کے صاحبزادے ہیں ، جو 2005سے 2015 تک سعودی عرب کے بادشاہ تھے.شہزدہ متعب کو 4نومبر 2017کو ان کے عہدے سے معزول کر کے حراست میں لیا گیا 

شاہی خاندان کے دو اور شہزادوں ولید بن طلال اور ترکی بن ناصر کو
بھی تحویل میں لیا گیا ہے

اڑتیس 38 موجودہ یا سابقہ وزیر مملکت بھی زیر عتاب ہیں ان کو بھی حراست میں لیا گیا ہے
درجنوں سابقہ وزراء کو بھی پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا گیا ہ

اب تک 1200 لوگوں کے اکاونٹ منجمد کِے جا چکے ہیں جن مجموعی طور پر 20000000ملین سرمایہ موجود ہے




اتوار، 5 نومبر، 2017

سعودیہ ۔ اج اور آنے والا کل


اختلاف کا سلیقہ
1989
 کا واقعہ ہے ، رمضان کا آخری عشرہ تھا ، راقم اپنے دو پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ عمرہ کے ارادے   سے محو سفر تھا،دوران سفر ایک مسجد میں نماز پڑہنے کے بعد میں نے تعجب سے اپنے ساتھی یوسف سے پوچھا کہ لوگ تزہیں شدہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے باہر کیوں نماز ادا کرتے ہیں، یوسف گو پاکستانی تھا مگر اس کی ماں عرب تھی ، گھر میں عربی بولتے تھے اور تعلیم بھی اس نے سرکاری سکول میں عربی میں ہی حاصل کی تھی ، یوسف کا جواب تھا کہ ریت پر نماز ادا کرنا سنت ہے، اس جواب پر میں خاموش تو ہو گیا لیکن تشفی نہ ہوئی ، اگلے سال ایسے ہی سفر میں میراہم سفر ایک مصری دوست تھا، ہم نے ایک گاوں میں عصر کی نماز ریت پر سنت کے مطابق ادا کی اور روانگی کے لیے گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے تو میں نے جو سوال پچھلے سال یوسف سے پوچھا تھا اس سے بھی پوچھا ، نوجوان مصری کویت یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اس نے بتا یا ْ پچھلے سال میں عمرہ کرنے ایک ساتھی سعودی طالب علم کے ساتھ آیا تھا ، سعودی کا گاوں رستے میں پڑہتا تھا ، اس کے گاوں میں عشاء کی نماز ہم نے مسجد کے باہر ریت پر ادا کی رات اس کے گھر رہنے کا پروگرام تھا، میں نے رات کو اس سے پوچھا کہ گاوں کے لوگ سجی سجائی مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے صحن میں ریت پر نماز کیوں ادا کرتے ہیں، اس کا جواب تھا مسجد میں موجود صفوں پر ہدیہ من وزارت الاوقاف بالریاض کی جو مہر لگی ہوئی ہے اس سے نماز کے دوران توجہ منتشرہوتی ہے ْ عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔
اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے ، سعودیہ عرب کے شاہی خاندان میں پہلا غبارہ شاہ فیصل کے قتل کی صورت میں پھٹا تھا، آواز پوری دنیا میں سنی گئی تھی کہ پستول کی گولی کی تھی اور حجاز مقدس سے سنائی دی تھی، مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اقتدار کی کشش
شاہی اقتدار کی تاریخ ، کسی بھی خطے میں ہو ، اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، سعودیہ بھی زمین پر ہی واقع ہے، وہاں بھی شاہی خاندان کے اندر رقابت نئی بات نہیں ہے ، 
آل سعود
آل سعود کی ترکیب باقی خاندانوں سے منفرد ہے، خاندان کا بانی ایک زبردست سپاہی، ذہیں حکمران اور وقت کی چال دیکھ کر چلنے والا سیاستدان تھا۔ اس نے سعودی قبائلی معاشرے کو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسے شیر شکر 
کیا کہ ْ شیر اور بکری ْ ایک ہی گھاٹ سے اپنی پیاس بجھانے کے خوگر ہو گئے۔
قبائل کو متحد کر کے پیدائشی طور پر آزاد منش سعودیوں پر حکمرانی کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل کبھی بھی نہیں رہا مگر اس خاندان کے بانی نے یہ معجزہ بھی کر دکھایا ، کئی شادیاں اور کثیر اولاد اسی معجزہ کا ثمر تھا ۔ حالیہ حکمران ملک سلیمان شاہد اپنے بھائیوں میں آخری حکمران ہوں گے کہ انھوں نے اپنے صاحبزادے محمد کو مستقبل کا بادشاہ نامزد کر دیا ہوا ہے۔
محمد بن سلیمان 
یہ نوجوان شہزادہ پہلے وزیر دفاع مقرر ہوا ، سعودی حکمرانی میں وزارت دفاع، نیشنل گارڈز کی وزارت ور وزارت داخلہ بادشاہت کے ستون ہیں ، وزارت دفاع سعودی عرب کی مسلح افواج کو کنٹرول کرتی ہے ، جن کی قوت دو لاکھ افراد ہیں، یہ مسلح قوت سعودیہ کی حدود پر پھیلی ہوئی ہے ، اس فورس کے متوازی سعودی نیشنل گارڈز ہیں جن کی تعدا د ایک لاکھ ہے اور ان کی تعیناتی کا مقام دارلخلافہ اور دو متبرک شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، اس فورس کے ساتھ پچیس سے تیس ہزار ایسے رضا کار بھی ہیں جو وردی نہیں پہنتے۔ یہ فورس در اصل بادشاہت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ،اندرونی خلفشار کو کنٹرول کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے ، مثال کے طور پر 1979 میں جب کچھ انقلابیوں نے مکہ مکرمہ کے حرم کی مسجد پر قبضہ کر لیا تھا اور قبضہ ختم کرانے میں اس فورس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بادشاہت کا ایک اور ستون وزارت داخلہ ہے جو بہت منظم اور قوی ادارہ ہے اور وزارتوں میں اس کے ہم پلہ کوئی دوسری وزارت نہیں ہے
اختیارات کا ارتکاز
شہزادہ محمد بن سلیمان کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ وہ راسخ الذہن حکمران ہیں، اپنی رائے کو منوانے کا ہنر جانتے ہیں اور تیزی سے پیش قدمی کرتے ہیں ، انھوں نے سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلوں کی بنیاد رکھی ہے ۔مثال کے طور پر ان کا بیانیہ Vision 2030 ایک منفرد دستاویز ہے اورآنیوالے تیرہ سالوں میں سعودی معاشرہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا، تیزی سے پیش قدمی کی جرات کا اظہار ان کے یمن کے ساتھ تنازع اورقطر کے گھیراو کے دوران ہو چکا ہے۔ حالیہ اقدامات کے دوران نیشنل گارڈ کی وزارت ان کے کنٹرول میں آ چکی ہے اور وزارت داخلہ پر بھی ان ہی کی سرپرستی کا ہاتھ ہے۔ یوں یہ شہزادہ اختیارات کے لحاظ سے اپنے وقت کا مضبوط ترین بادشاہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار 
پرنٹ میڈیا سعودیہ میں مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، اور وہاں سے عام حالات میں مخالفت کی بدبو پیدا ہونے کا دور دور تک امکان نہیں ہے، الیکٹرونک میڈیا ایسا میزائل ہے جو کسی مقام سے کسی مقام کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے ، حساس مقام پر ، شیشوں کے محلات میں بیٹھے ، خاص طور پر امت مسلمہ کے حکمران اس میزائل سے مرعوب ہیں ۔مثال کے طور پر قطر کا الجزیرہ چینل۔
سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک اس ملاقات سے بخوبی ہو جاتا ہے جو سعودیہ کے مستقبل کے بادشاہ نے فیس بک کے چیف ایگزیکٹو سے کی ہے۔
ٹوئیٹر کا کردار
Twitter میڈیا کا وہ پستول ہے جو امریکہ کے صدرسمیت تمام حکمرانوں کی جیب میں ہوتا ہے، ٹوئیٹر کی ملکیت میں ایک سعودی ولید بن طلال کا موٹا حصہ ہے ،اس کے علاوہ ولید بن طلال کئی ایسے الیکٹرانک چینلوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو خود سعودیہ اور دوسرے عرب ممالک میں مقبول ہیں۔ اس ہفتے جو سعودی بادشاہ نے ہفتہ کے دن انٹی کرپشن کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے سربراہ خود شہزادہ محمد بن سلیمان ہیں ۔ اور اس کمیٹی کی تشکیل ہوتے ہی جن لوگوں کو زیر حراست لیا گیا ہے ان میں ولید بن طلال کے علاوہ ، کہا جاتا ہے ، نیشنل گارڈ کے سابقہ سربراہ بھی شامل ہیں، کچھ مذہبی رہنماوں پر چند ہفتے پہلے پابندی اور حراست میں لئے جانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
ہمسائے
سعودیہ کا ایک دور کا ہمسایہ بحرین ہے، عوام پر ایران کا اثر رسوخ ہے اور حکمران خاندان کی حفاظت کے لیے سعودی نیشل گارڈ کا دستہ وہاں موجود ہے، عراق میں سعودیہ کا اثر و رسوخ ناپید ہو چکا ہے اور ایران کے زیر اثر ہی نہیں بلکہ اندرونی خانہ جنگی کے باعث سانس بھی مشکل سے لے رہا ہے ، یمن سعودیہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمبل ریچھ ثابت ہو رہا ہے۔عرب دنیا میں مصر کسی کے لیے بھی قابل اعتبار نہیں ہے سوائے سپر طاقت کے۔ شام بچارہ خود لہو لہان ہے، لبنان سعودیہ کا معتمد ساتھی ہے کہ شاہی خاندان کے لبنانیوں کے اہم خاندانوں کے ساتھ رشتے داریاں جڑی ہوئی ہیں ۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ لبنان کے حکمران نے ریاض میں بیٹھ کر اپنا استعفیٰ لکھ بھیجا ہے۔
الولید بن طلال
2015 میں اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ طلال بن ولید نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے 32 بلین ڈالر خیراتی اداروں کو دان کرے گا ، ولید دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے، نیو یارک میں اس کے قیمتی ہوٹل ہیں ، فرنس میں بڑی سرمایہ کاری ہے، عرب دنیا میں دیکھا جانا والا نیوز کارپ اس کا ہے، سٹی گروپ میں اس کی موٹی سرمایہ کاری ہے، ساتھ ہی اس کے عالمی حکمرانوں سے بے تکلفانہ تعلقات ہیں ، سابقہ امریکہ صدر کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا ۔ موجودہ امریکی صدر کو اس نے انتخابات کے دوران مشورہ دیا تھا کہ اپ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکو گے ۔ صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد کے سعودی مستقبل کے بادشاہ کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں، اور موجودہ پکڑ دھکڑ سے قبل وہ صاحب سعودیہ ہ میں تھے۔ اور اس کا شمار ولید بن طلال کے مخالفین میں ہوتا ہے۔
نوجوانوں کا کردار
سعودی ولی عہد خود بھی نوجوان ہیں اور اس کے ملک کی دو کروڑ کی آبادی میں پچیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعدا د ایک کروڑ ہے، بادشاہ معظم ملک سلیمان اس وقت اکاسی سال کے ہیں اور کام سے زیادہ ٓرام کرتے ہیں،اختیارات عملی طور پر ولی عہد ہی کے پاس ہیں۔
عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے۔مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسل ﷺ پر عقیدت کے اظہار پھول نچھاور کر کے ختم کرتا ہوں اور یاد ہانی کراتا ہوں کہ انھوں نے فقر کو پسند کیا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت۔