پیر، 25 ستمبر، 2017

مہربان ماں شفیق باپ


واقعہ یوں ہوا کہ نوجوان جو کالج میں طالب علم تھا ، اس کی کسی شکائت پر اس کے والد نے اس کے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کر دی، موٹرسائیکل کو تالا لگایا اور چابی اپنے کمرے میں میز کی دراز میں رکھ دی۔ نوجوان نے والد کی غیر موجودگی میں چابی ڈہونڈ نکالی، موٹر سائیکل گھر سے نکالا اور سڑک پر آ کر ون ویلنگ کے وہی کرتب دکھانے شروع کیے جن کی پاداش میں اس پر پابندی لگی تھی۔اس بار مگر یہ ہوا کہ موٹر سائیکل ایک گاڑی کے ساتھ ٹکرایا، گاڑی میں موجود ایک آدمی زخمی ہوا ، نوجوان کی ٹانگ ٹوٹی، موٹر سائیکل تھانے میں اور نوجوان حوالات میں بند ہو گیا، خبر والد تک پہنچی۔ اس مفروضہ واقعہ میں والد کی صوابدید ہے کہ وہ نوجوان کے ساتھ جیسا چاہے ویسا انصاف کرے ، چاہے تو نوجوان کو حکم عدولی پر کڑی سزا دے یا اس کی پدرانہ شفقت غالب آجائے اور وہ اپنے بیٹے کی تمام خطاوں کو معاف کر دے۔ یہ انصاف کی وہ جھلک ہے جس میں فریق خود منصف اور مدعا علیہ اس کا بیٹا ہے اور خونی جذبات بھی فیصلے میں ایک مضبوط فریق ہیں۔ مگر اسی باپ کے سامنے جب اس کا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کی نا انصافی کی شکائت لے کر انصاف کا طلب گار ہو گا تو باپ پر بطور منصف ایسا فیصلہ قرض رہے گا جس میں انصا ف ہوتا ہوا نظر آئے ورنہ خود باپ اپنے ہی گھر میں دراڑیں ڈالنے والا مبدی ثابت ہو گا۔
مشرف کے دور میں جب افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی کی تحریک عروج پر تھی ،ان دنوں پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کی ایک نظم بارباردہرائی جاتی تھی ، جس میں ْ مہربان دھرتی ماں ْ کا ذکر باربار آتا تھا۔
مشرف ہی کے دور میں لال مسجد سے ملحقہ مدرسے جامعہ حفضہ پر یلغار کے دوران جیو ٹی وی پر ایک طالبہ کا نوحہ سنا گیا تھا جس میں وہ حکمرانوں کو باپ بتاتی تھی۔
دھرتی اگر شفیق ماں کا استعارہ ہے اور اداروں کے مجموعہ کو شفیق باپ تصور کر لیا جائے تو ملک کے سب سے زیادہ منظم ادارے کے سامنے یہ مقدمہ رکھ دیا گیا ہے کہ ایک طرف ادارے کا چہیتا اور ریٹائرڈ جنرل ہے جس پر دستور پاکستان سے غداری سمیت کئی مقدمات ہیں اور کئی مقدمات ابھی صرف مفروضہ ہیں، جب معاملہ شفیق والد اور بے باک و نڈر بیٹے کے درمیان تھا تو اس وقت شفیق باپ کے پاس اپنی شفقت کے استعمال کرنے کا حق تھا، مگر اب واقعات نے بیانئے کو بدل دیا ہے۔مہربان دھرتی جو ماں کی طرح ہے پر حکمران اداروں میں سب سے منطم ادارے کو جو مفروضہ باپ کا درجہ رکھتا ہے، کے سامنے ایک اور مقدمہ ہے اور دھرتی ماں کے بیٹوں اور بیٹوں کی اکثریت دیکھ رہی ہے کہ اب انصاف کے ترازو میںْ شفقتْ کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا پھر ْ اندھے انصاف ْ کو بروئے کار لا یا جائے گا۔ ظاہر ہے انصاف نہ ملنے پر دراڑیں پیدا ہوں گی اور بے انصافی کی دراڑوں سے مدینۃ العلم کے دروازے کے پاسبان نے بہت پہلے سے ڈرایا ہوا ہے۔
سویلین نا اہل وزیر اعظم بھی اسی دھرتی مان کا بیٹا ہے جس کا ریٹایرڈ جنرل سپوت ہے، مقدمات کی نوعیت دونوں پر سنگین ہے ، ملک کی عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر دھرتی مان پر بسنے والوں نے چونک کر عظمیٰ کی جانب دیکھا ہے۔ جب چھوٹے چو نک کر اپنے بڑوں کی طرف دیکھیں تو یہ منظر بڑا عجیب ہوتا ہے۔اولاد کی چونک کر اور حیرت سے دیکھنے والی نظروں کو باپ خوب سمجھتا ہے، اب فیصلہ دھرتی ماں کے رکھوالے اور گھر کے محافظ اور ملک کے سب سے منظم ادارے سے مانگا جا رہا ہے۔
سویلین نااہل ویراعظم کی زبان کھلی تو ہے مگر جو لفظ ادا ہوئے ہیں نپے تلے ہیں۔توہین کا عنصر مفقود ہے ۔شکوہ کا عنصر غالب ہے۔جبکہ دوسری طرف چہیتے سپوت کی زبان درازی دھرتی ماں کے سب سے منظم ادارے کے لیے توقیر کا سبب نہیں بن رہی ہے۔نہ ہی سیاسی جماعتوں کی اکثریت کے عمائدین اس کی زبان کی تلوار سے محفوظ ہیں۔
دھرتی ماں جو ْ ارض پاک ہےْ دیکھ چکی ہے کہ جو تابعدار ہوتے ہیں وہ نافرمابردار بن جاتے ہیں جیسے گھر میں انصاف نہ ملنے پر بیٹے باغی ہو جاتے ہیں۔جس ماں کے بیٹے باغی ہوں، وہ ایسے کر ب سے گذرتی ہے جس میں جدائی کے دکھ کے ساتھ زبانوں کے طعنے اصل دکھ سے بڑھ کر دکھ دیتے ہیں۔باپ کتنا ہی نا شفیق ہو ، گو زبان سے کچھ نہ کہے ۔دل اس کا بھی دکھی ہوتا ہے۔
زمینی حقائق یوں ہیں کہ ہمارے بعض سیاستدان خود کو اداروں کا خود ساختہ ترجمان بنائے ہوئے ہیں کوئی افواج پاکستان کا ترجمان بناہوا ہے اور کوئی بزعم خود عدلیہ کو جیب میں ڈالے گھوم رہا ہے۔ اور یہ عصر حاضر کے بقراط جدید ، جو نشان عبرت بنانے ا ور کر دکھانے کے میزائل داغ رہے ہیں وہ بھی اپنا فرض ہی نبھا رہے ہیں جو ان کو تفویض ہو چکا ہے۔مگر در گذر،عفو،محبت اور پیار ایسے الفاظ ہیں جو سننے میں ہی شیرین نہیں مگر ان کی تاثیر بھی بہت شفا بخش ہے اور ان کا ستعمال اپنوں پر ہی جچتا ہے اور افریقہ میں شکل کے کالے مگر من کے اجلے ایک انسان نے یہ نسخہ کامیابی سے استعمال کرکے اس کے شفا بخش ہونے کی نوید دنیا کو سنائی ہے۔
مان جیسی دھرتی ، باپ جیسے حکمران، تابعدار اولاد ۔ کمی ہے تو ایسے انصاف کی جو ہوتا ہوا نظر آئے اور دھرتی ماں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی اکثریت کو قابل قبول بھی ہو کہ عقل اجتماعی غلط نہیں ہوا کرتی۔

پیر، 1 مئی، 2017

انو کھی اور دلچسپ باتیں

انسانی دماغ ستر فیصد وقت پرانی یادوں یا مستقبل کی سنہری یادوں کے خاکے بنانے میں گزارتا ہے۔
5۔پندرہ منٹ ہنسنا جسم کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا دو گھنٹے سونا۔



 فلاسفی میں ایک لمحے کا مطلب ہوتا ہے نوے سیکنڈ



۔سردی کی کھانسی میں چاکلیٹ کھانسی کے سیرپ سے پانچ گنا زیادہ بہتر اثر دکھاتی ہے۔لہٰذا سردی والی کھانسی میں چاکلیٹ کھایا کریں



۔جتنی مرضی کوشش کر لیں جو مرضی کر لیں آپ یہ یاد نہیں کر سکتے آپ کا خواب کہاں سے شروع ہوا تھا۔



 گھوڑا، بلی اور خرگوش کی سننے کی طاقت انسان سے زیادہ ہوتی ہے، یہ کمزور سے کمزور آواز سننے کے لیے اپنے کان ہلا سکتے ہیں



کچھوا، مکھی اور سانپ بہرے ہوتے ہیں



دنیا میں سب سے زیادہ پہاڑ سوئٹزر لینڈ میں پائے جاتے ہیں



دنیا کے سب سے کم عمر والدین کی عمر 8 اور 9 سال تھی، وہ 1910ء میں چین میں رہتے تھے۔

تمام پھلوں اور سبزیوں کی نسبت تیز مرچ میں وٹامن سی کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔



فرعونوں کے زمانے کے مصر میں ہفتہ 10 دن کا ہوتا تھا



اٹھارویں صدی میں کیچپ بطور دواء استعمال ہوتا تھا




اٹھارہ مہینوں کے اندر دو چوہے تقریباً 1 ملین اپنے ساتھی پیدا کر لیتے ہیں۔




جیلی فش کے پاس دماغ نہیں ہوتا۔



 گلہری پیدا ہوتے وقت اندھی ہوتی ہے۔



۔دنیا میں سب سے ذہین جانور ایک پرندہ ہے، جسے انگریزی میں گرے پیرٹ اور اردو میں خاکستری طوطا کہا جاتا ہے۔



نابینا افراد ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے۔




۔کیا آپ بحیرہ مردار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔



عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 20099 میں جاری کیا تھا جو کہ 100ٹریلین ڈالر یعنی100 کھرب زمبابوے ڈالرکا تھا۔ 



۔ کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔





جمعہ، 13 نومبر، 2015

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔