پیر، 1 مئی، 2017

انو کھی اور دلچسپ باتیں

انسانی دماغ ستر فیصد وقت پرانی یادوں یا مستقبل کی سنہری یادوں کے خاکے بنانے میں گزارتا ہے۔
5۔پندرہ منٹ ہنسنا جسم کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا دو گھنٹے سونا۔



 فلاسفی میں ایک لمحے کا مطلب ہوتا ہے نوے سیکنڈ



۔سردی کی کھانسی میں چاکلیٹ کھانسی کے سیرپ سے پانچ گنا زیادہ بہتر اثر دکھاتی ہے۔لہٰذا سردی والی کھانسی میں چاکلیٹ کھایا کریں



۔جتنی مرضی کوشش کر لیں جو مرضی کر لیں آپ یہ یاد نہیں کر سکتے آپ کا خواب کہاں سے شروع ہوا تھا۔



 گھوڑا، بلی اور خرگوش کی سننے کی طاقت انسان سے زیادہ ہوتی ہے، یہ کمزور سے کمزور آواز سننے کے لیے اپنے کان ہلا سکتے ہیں



کچھوا، مکھی اور سانپ بہرے ہوتے ہیں



دنیا میں سب سے زیادہ پہاڑ سوئٹزر لینڈ میں پائے جاتے ہیں



دنیا کے سب سے کم عمر والدین کی عمر 8 اور 9 سال تھی، وہ 1910ء میں چین میں رہتے تھے۔

تمام پھلوں اور سبزیوں کی نسبت تیز مرچ میں وٹامن سی کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔



فرعونوں کے زمانے کے مصر میں ہفتہ 10 دن کا ہوتا تھا



اٹھارویں صدی میں کیچپ بطور دواء استعمال ہوتا تھا




اٹھارہ مہینوں کے اندر دو چوہے تقریباً 1 ملین اپنے ساتھی پیدا کر لیتے ہیں۔




جیلی فش کے پاس دماغ نہیں ہوتا۔



 گلہری پیدا ہوتے وقت اندھی ہوتی ہے۔



۔دنیا میں سب سے ذہین جانور ایک پرندہ ہے، جسے انگریزی میں گرے پیرٹ اور اردو میں خاکستری طوطا کہا جاتا ہے۔



نابینا افراد ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے۔




۔کیا آپ بحیرہ مردار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔



عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 20099 میں جاری کیا تھا جو کہ 100ٹریلین ڈالر یعنی100 کھرب زمبابوے ڈالرکا تھا۔ 



۔ کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔





جمعہ، 13 نومبر، 2015

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

منگل، 10 نومبر، 2015

خوشیاں اور کامیابیاں


دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک : وہ لوگ جو اپنے ذاتی تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ عقلمند لوگ ہوتے ہیں۔ دو : وہ لوگ جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ خوش باش لوگ ہوتے ہیں۔ تین : وہ لوگ جو نہ اپنے تجربات سے کچھ سیکھتے ہیں اور نہ دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہ بےوقوف اور نادان لوگ ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے مایوس کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والے امیر اور کامیاب آدمیوں کو دیکھ کر ان سے حسد کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہم ان میں وہ جوہر تلاش کریں جن کے سبب انہوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک کامیاب انسان بھی زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کا سامنا کر سکتا ہے۔ لیکن کامیاب لوگ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ کسی مصیبت کے بغیر کوئی سکون نہیں۔ کسی دکھ کے بغیر کوئی سکھ نہیں۔ کسی رنج کے بغیر کوئی راحت نہیں۔ کسی کوشش کے بغیر کوئی کامیابی نہیں ! یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کامیابی جو راتوں رات حاصل کی جاتی ہے وہ صبح طلوع ہونے سے قبل ختم ہو جاتی ہے۔ پائیدار خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی شخصیت کی کمزوریوں پر قابو پانا اور ناکامی پر کڑھنے کے بجائے نئے حوصلوں کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگا۔