اتوار، 26 اکتوبر، 2025

غزہ: امن کی تلاش یا طاقت کی آزمائش



 غزہ: امن کی تلاش یا طاقت کی آزمائش

 امریکہ نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پر نئی بساط بچھانے کی کوشش کی ہے۔ اس بار عنوان ہے: غزہ کے لیے بین الاقوامی سیکیورٹی فورس 
ISF) 
 ایک ایسا منصوبہ جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن فارمولے کا مرکزی ستون بتایا جا رہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’کئی ممالک‘‘ نے اس فورس میں شمولیت کی پیش کش کی ہے، مگر ساتھ ہی شرط عائد کی گئی ہے کہ اس میں صرف وہی ممالک شامل ہوں گے جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو۔ یہ جملہ بظاہر سادہ ہے، مگر اپنے اندر پوری سیاست سمیٹے ہوئے ہے۔ گویا امن کا پیغام بھی اسی دروازے سے گزرے گا جس کی چابی اسرائیل کے پاس ہے۔
 وزیرِ خارجہ کے مطابق اس منصوبے پر مذاکرات جاری ہیں اور اسے جلد عملی شکل دینے کا ارادہ ہے۔ تاہم انہوں نے خود اعتراف کیا کہ جب تک حماس کے ساتھ کسی درجے کی مفاہمت نہیں ہوتی، اس فورس کی تعیناتی ایک خواب ہی رہے گی۔  وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس فورس کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ  غزہ ایک غیر مسلح خطہ بن جائے جہاں کوئی گروہ اسرائیل یا اپنی ہی عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔ ٹرمپ پلان کے مطابق حماس کا غیر مسلح ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، اور اگر اس نے اسلحہ چھوڑنے سے انکار کیا تو ’’معاہدے کی خلاف ورزی‘‘ سمجھا جائے گا — جسے، ان کے الفاظ میں، ’’نافذ‘‘ کرنا پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ’’نافذ کرنے‘‘ والا مرحلہ کس کے ہاتھ میں ہوگا؟ اسی ضمن میں 
ISF
 کی ساخت سامنے آتی ہے۔ منصوبے کے تحت یہ فورس ایک کثیرالملکی امن مشن ہوگی، جس کے ساتھ ایک مقامی تربیت یافتہ پولیس فورس بھی ہوگی۔ مقصد ہے ایک ایسا غیر مسلح اور دہشت گردی سے پاک غزہ قائم کرنا جہاں حالات مستحکم ہوں، اور اسرائیلی افواج کو بتدریج واپس بلایا جا سکے۔ فورس کے فرائض میں سرحدوں کی نگرانی، انسدادِ دہشت گردی، انسانی امداد کا تحفظ اور فلسطینی پولیس کی معاونت شامل ہوں گے۔ 
جب حالات معمول پر آئیں گے، اسرائیلی افواج مرحلہ وار واپسی کریں گی — لیکن تب تک ایک سیکیورٹی پٹی برقرار رکھی جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کئی ممالک نے فورس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، آذربائیجان، آسٹریلیا، ملائیشیا، کینیڈا، فرانس، اور قبرص ان میں شامل بتائے جاتے ہیں۔ مگر اسرائیلی وزیرِاعظم نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ترکیکی فوج کو غزہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد خبریں آئیں کہ آذری اور انڈونیشی افواج کو مرکزی کردار دیا جا سکتا ہے، جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ امن کی راہ پر چلنا ابھی آسان نہیں۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ خود بھی مانتے ہیں کہ ’’مشکلات ضرور آئیں گی، مگر ہمیں اس منصوبے کو کامیاب بنانا ہے۔‘‘ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا یہ فورس واقعی امن لائے گی یا ایک نئے سیاسی معاہدے کی پیش بندی ثابت ہوگی؟
 غزہ کے زخم ابھی تازہ ہیں، اور ہر نئی ’’بین الاقوامی فورس‘‘ کے ساتھ وہاں کے عوام کو یہ اندیشہ ضرور ستاتا ہے کہ کہیں ان کے امن کا سودا کسی اور کی شرائط پر تو نہیں ہو رہا۔ 
 "غزہ کا امن اب طاقت کے توازن سے مشروط ہو چکا ہے۔"


ہفتہ، 25 اکتوبر، 2025

مفت دوائیں

مفت  دوائیں

جب انسان بیمار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں دوا، ڈاکٹر اور اسپتال کا خیال آتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، جبکہ معالجوں اور اسپتالوں کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں لمبی قطاریں، فائلوں کا بوجھ، اور گھنٹوں کی انتظارگاہیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ علاج آج بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ بعض اوقات مریض علاج کے انتظار میں ہی مزید بیمار ہو جاتا ہے۔

 البتہ زندگی میں کچھ ایسی "دوائیں" بھی ہیں جن پر کوئی خرچ نہیں آتا، پھر بھی وہ انسان کے جسم و روح دونوں کے لیے شفا بن جاتی ہیں۔ یہ وہ مفت کی دوائیں ہیں جنہیں اکثر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 

ورزش — جسم و دل کی تندرستی
 ورزش سب سے آسان اور مؤثر دوا ہے۔ یہ نہ صرف جسم کو متحرک رکھتی ہے بلکہ دل و دماغ کو بھی تازگی بخشتی ہے۔ روزانہ چند منٹ کی چہل قدمی، ہلکی پھلکی ورزش یا سانسوں کی مشقیں انسان کے جسم میں نئی توانائی پیدا کرتی ہیں۔ ڈاکٹر اکثر کہتے ہیں کہ "حرکت میں برکت ہے"۔ ورزش دراصل جسم کے نظام کو قدرتی طور پر متوازن رکھتی ہے اور بہت سی بیماریوں کو آنے سے پہلے روک دیتی ہے۔ 

مسکراہٹ — خوشی کا راز
 ایک سادہ سی مسکراہٹ بھی دوا ہے۔ جب آپ مسکراتے ہیں تو دماغ میں خوشی کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو ذہنی دباؤ کم کرتے ہیں۔ ایک مسکراہٹ نہ صرف آپ کے لیے بلکہ آپ کے آس پاس کے لوگوں کے لیے بھی راحت کا باعث بنتی ہے۔ کسی بیمار چہرے پر مسکراہٹ واپس لانا دراصل اس کے دکھ کا نصف علاج ہے۔ گہری 

نیند — جسم و روح کا آرام
 ایک اور مفت مگر قیمتی دوا نیند ہے۔ مناسب اور گہری نیند جسم کو آرام دیتی ہے، ذہن کو سکون بخشتی ہے، اور روزمرہ کی تھکن دور کرتی ہے۔ بے خوابی نہ صرف اعصاب کو کمزور کرتی ہے بلکہ کئی ذہنی و جسمانی امراض کی جڑ بھی بن جاتی ہے۔ لہٰذا وقت پر سونا، پر سکون ماحول میں نیند لینا خود ایک شفا ہے۔ 

گھر والوں کے ساتھ کھانا — محبت کا ذائقہ
 اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت اب کم ہوتی جا رہی ہے، مگر یہ بھی ایک دوا ہے۔ جب آپ اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو اس لمحے کی محبت، گفتگو، اور قربت انسان کو اندر سے مضبوط کرتی ہے۔ یہ تعلقات کو گہرا اور دلوں کو قریب کرتی ہے۔ 

پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا — روح کی غذا
 انسان صرف جسم نہیں، احساسات اور جذبات کا مجموعہ بھی ہے۔ اپنے دوستوں، بچوں، والدین یا شریکِ حیات کے ساتھ وقت گزارنا دل کو خوشی دیتا ہے، ذہنی دباؤ کم کرتا ہے، اور زندگی کو بامعنی بناتا ہے۔ محبت، خلوص، اور قربت ایسی دوائیں ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں۔ 

 دیکھا جائے تو زندگی میں ایسی بہت سی دوائیں موجود ہیں جنہیں ہم مفت میں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے نہ ڈاکٹر کی پرچی چاہیے، نہ لمبی قطاریں، نہ مہنگی فیسیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان مفت دواؤں کی قدر کریں اور انہیں اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ ورزش، مسکراہٹ، نیند، خاندانی محبت، اور اچھا وقت  یہ سب قدرت کی طرف سے ہمیں عطا کردہ وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے جسم و روح کو تندرست رکھتی ہیں۔ اگر ہم ان پر عمل کریں تو شاید اسپتالوں کی قطاریں چھوٹی ہو جائیں اور دلوں کی مسکراہٹیں بڑھ جائیں۔ 

منگل، 21 اکتوبر، 2025

روح، نفس جسم



 انسان صدیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ زندگی کے اندر وہ کون سی قوت ہے جو مردہ مادے میں حرکت پیدا کر دیتی ہے؟ وہ کون سی روشنی ہے جو جسم کو احساس، سوچ اور شعور عطا کرتی ہے؟ مذہب اسے "روح" کہتا ہے، سائنس اسے "زندگی کی توانائی" کہہ کر خاموش ہو جاتی ہے، اور فلسفہ اسے ایک ماورائی حقیقت قرار دیتا ہے۔ لیکن قرآن مجید اس سوال کا ایک مختلف، متوازن اور پر سکون جواب دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
 "وہ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں علم میں سے بہت کم دیا گیا ہے۔" (الاسراء: 85)
 یہ آیت نہ صرف انسان کی محدود عقل کو یاد دلاتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ روح کوئی مادی چیز نہیں — یہ ایک "امرِ الٰہی" ہے، یعنی وہ قوت جو صرف اللہ کے حکم سے کام کرتی ہے۔ روح کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ قرآن اسے ہمیشہ زندگی کے آغاز، یعنی "حیات" سے جوڑتا ہے۔ جب آدمؑ کو مٹی سے بنایا گیا تو اللہ نے فرمایا: 
 "جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب سجدہ کرو۔" (الحجر: 29)
 یہ "نفخِ روح" دراصل وہ لمحہ ہے جب ایک جامد جسم زندہ وجود میں بدل گیا — یہی لمحہ انسانیت کی ابتدا ہے۔ 
 دوسری طرف قرآن "نفس" کا ذکر اس وقت کرتا ہے جب انسان اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنے ارادوں اور اپنے
 ضمیر سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی یہ نفس 
"برائی پر اکسانے والا"
ہوتا ہے — "إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ" (یوسف: 53)،
 کبھی وہ "ملامت کرنے والا ضمیر" بنتا ہے — "النَّفْسِ اللَّوَّامَةِ" (القیامہ: 2)،
 اور کبھی وہ سکون کی معراج پر جا پہنچتا ہے — "يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ" (الفجر: 27)۔ 
 یوں "روح" اور "نفس" ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں: روح وہ قوت ہے جو ہمیں زندگی دیتی ہے، اور نفس وہ مرکز ہے جو طے کرتا ہے کہ ہم اس زندگی کو کیسے گزاریں گے۔ روح آسمان سے آئی روشنی ہے، نفس زمین پر جلتی ہوئی وہ شمع ہے جو کبھی طوفان میں بجھ جاتی ہے، کبھی صبر سے مضبوط ہو جاتی ہے۔ فلاسفہ نے اس کو اپنے انداز میں سمجھنے کی کوشش کی۔
 ابن سینا نے کہا، "روح جسم سے الگ ایک لطیف جوہر ہے جو اس سے جڑا تو ہے مگر اس میں قید نہیں۔" 
 امام غزالی نے فرمایا، "روح ملکوتی ہے اور نفس حیوانی۔ جب نفس کو پاک کیا جائے تو وہ روح کے تابع ہو جاتا ہے۔" 
 صوفیاء کے نزدیک روح خدا کی طرف سے آنے والی روشنی ہے، اور نفس اس روشنی کا انسانی عکس — اگر عکس صاف ہو تو روشنی واضح دکھائی دیتی ہے۔ قرآن ان دونوں میں توازن سکھاتا ہے۔ نہ روح کو سمجھنے میں غلو کی اجازت دیتا ہے، نہ نفس کی خواہشات کے پیچھے اندھی تقلید کی۔ یہی وہ توازن ہے جو اسلام کو نہ صرف مذہب بلکہ ایک مکمل فکری نظام بناتا ہے۔
 آج جب دنیا سائنسی ترقی کے باوجود "انسانی شعور" کی اصل کو نہیں سمجھ سکی، تو قرآن کا یہ پیغام اور بھی واضح ہو جاتا ہے:
 انسان کا جسم مٹی سے بنا ہے، مگر اس کی اصل شناخت اُس "امرِ الٰہی" سے ہے جو اسے زندگی دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے کہا — "روح میرے رب کے حکم سے ہے" — تاکہ انسان یاد رکھے کہ وہ مٹی کا بھی ہے اور نور کا بھی۔ روح کے بغیر انسان جسم ہے، مگر نفس کے بغیر وہ شعور نہیں۔ روح زندگی دیتی ہے، نفس سمت۔ دونوں کا امتزاج ہی "انسان" کہلاتا ہے — ایک ایسا وجود جو زمین پر چلتا ہے مگر اس کی جڑیں آسمان میں پیوست ہیں۔

دو حکمران، حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کی کہانی



دو حکمران، حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کی کہانی

تاریخِ انسانیت کے اوراق پر کچھ نام ایسے ہیں جن کی حکمرانی صرف زمین پر نہیں بلکہ دلوں اور ذہنوں پر بھی چھائی رہی۔ انہی میں سے دو درخشاں نام ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس — دو مختلف دنیاؤں کے حکمران، مگر ایمان کی ایک ہی روشنی میں جڑے ہوئے۔

نبوت اور بادشاہت کا حسین امتزاج
حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے ایسی بادشاہت عطا کی جو کسی اور کو نہ ملی۔
ان کے تابع جنات، پرندے، ہوائیں اور انسان سب تھے۔
ان کی سلطنت بیت المقدس سے لے کر شام، اردن، عراق اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہ حکومت صرف طاقت کی نہیں بلکہ عدل، علم اور روحانیت کی بنیاد پر قائم تھی۔
وہ نہ صرف ایک نبی تھے بلکہ ایک فلسفی بادشاہ بھی — جن کی عدالت میں مخلوقات کی زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔

یمن کی رانی — عقل و حکمت کی علامت
ادھر عرب کے جنوبی خطے یمن میں قومِ سبا کی حاکم ملکہ بلقیس تھیں۔
ان کا نام دولت، نظم و نسق، اور تعمیر و تجارت کا استعارہ تھا۔
ان کے دور میں سدّ مآرب تعمیر ہوا — ایک عظیم ڈیم جس نے ان کے ملک کو زراعت اور خوشحالی میں بے مثال بنا دیا۔
ان کی سلطنت حجاز سے بحرِ عرب، اور حبشہ سے عمان تک پھیلی ہوئی تھی۔
عورت کی قیادت میں ایک کامیاب، منظم اور ترقی یافتہ ریاست — یہ خود تاریخ کا انوکھا باب تھا۔

شورائی نظام — جمہوریت کی ابتدائی شکل
بلقیس کی حکومت مطلق العنان بادشاہت نہیں تھی۔
وہ فیصلوں میں درباریوں سے مشورہ کرتی تھیں۔
قرآنِ مجید سورۃ النمل میں ان کے الفاظ ہیں:
“اے سردارو! میرے معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی کام کا فیصلہ تمہارے مشورے کے بغیر نہیں کرتی۔”
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی حکومت شورائی نظام پر قائم تھی
ایک ایسا نظام جو آج کی جمہوریت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
طاقت کے بجائے عقل، اور تلوار کے بجائے تدبر — یہی ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔

 سورج  پرستی سے ربّ تک کا سفر
قرآن بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے لشکر کا پرندہ ہدہد جب سبا کی خبر لایا تو بتایا کہ وہاں کی قوم سورج کی پوجا کرتی ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے بلقیس کو ایک خط لکھا — ایمان کی دعوت کے ساتھ۔
انہوں نے جواب میں نہ غرور دکھایا، نہ انکار کیا۔
بلکہ مشورہ کیا، سوچا، اور آخرکار خود بیت المقدس حاضر ہوئیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں عقل نے ایمان سے ملاقات کی۔

شیشے کا محل — بصیرت کی کرن
قرآن کے مطابق جب بلقیس حضرت سلیمانؑ کے شیشے کے فرش والے محل میں داخل ہوئیں،
تو اسے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیاں اٹھا لیں۔
اس لمحے ان پر حقیقت آشکار ہوئی،
اور ان کے دل سے غرور کی چادر ہٹ گئی۔
انہوں نے کہا:
“میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور اب میں سلیمان کے ساتھ ربّ العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔”
(سورۃ النمل: 44)
یہ اعلان صرف ایک ایمان کا اقرار نہیں تھا، بلکہ ایک عقلی انقلاب تھا 
جہاں سورج پرست عقل، توحید کی روشنی میں منور ہو گئی۔

سلیمانؑ اور بلقیس — ایک روحانی رشتہ
قرآن میں ان کی شادی کا صریح ذکر نہیں،
مگر کئی اسلامی اور حبشی روایات کے مطابق حضرت سلیمانؑ نے بلقیس سے نکاح فرمایا۔
بعض روایات کے مطابق وہ کچھ عرصہ بیت المقدس میں رہیں،
پھر واپس یمن گئیں اور ایمان کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہو گئیں۔
حبشہ کے شاہی خاندان نے خود کو انہی کی نسل سے منسوب کیا 
ایک نسبت جو آج بھی روحانی فخر کا نشان ہے۔

مذہبی، سیاسی اور انسانی سبق
حضرت سلیمانؑ اور بلقیس کی داستان مذہب، سیاست اور انسانیت کے ملاپ کی روشن مثال ہے۔
سلیمانؑ کی حکومت یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت جب وحی کے تابع ہو تو عدل قائم ہوتا ہے۔
اور بلقیس کی حکمرانی یہ سکھاتی ہے کہ عقل، علم اور مشاورت اقتدار سے زیادہ مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔
یہ دونوں شخصیات اپنے عہد سے آگے کی سوچ رکھنے والے حکمران تھے 
جنہوں نے روحانیت کو سیاست کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔

حکومت مٹ جاتی ہے پالیسی یاد رہتی ہے
وقت کی گرد نے سلیمانؑ اور بلقیس کی سلطنتوں کے آثار مٹا دیے،
مگر ان کی دانائی اور ایمان آج بھی زندہ ہیں۔
یہی اس کہانی کا اصل پیغام ہے 
ہر حکومت مٹ جاتی ہے، مگر عدل، عقل اور ایمان ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔
 “اقتدار کی اصل بنیاد ایمان اور بصیرت ہے، نہ کہ تخت و تاج”

بدھ، 15 اکتوبر، 2025

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)

تحریک لبیک اور مستقبل کا سوال (3)
تحریک لبیک پاکستان آج اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ذرا سی بے توجہی اس کے اصل مشن — عشقِ رسول ﷺ، امن اور اخلاق — کو مٹانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سیاست کے شور اور جذبات کے طوفان میں ایمان کی روشنی اور نظم و ضبط ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی تحریک کو بقا عطا کرتی ہیں۔ جب جذبات عقل پر حاوی ہو جائیں تو نعرے ایمان کے بجائے نفرت کی علامت بننے لگتے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قیادت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی اہمیت
پاکستان میں احتجاج کی منظم روایت سب سے پہلے جماعت اسلامی نے قائم کی۔ ان کے اجتماعات میں اسلحہ نہیں بلکہ تربیت، نظم اور مکالمہ ہوتا ہے۔ یہی سیاسی بصیرت کئی بار ملک کو تصادم سے بچاتی رہی۔ اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اختلافات کے باوجود اعتدال اور فہمِ سیاست کو اپنایا۔ یہ جماعتیں یاد دلاتی ہیں کہ مذہبی سیاست کی اصل طاقت شور نہیں بلکہ شائستگی اور حکمت ہے۔
خادم حسین رضوی کا دور
علامہ خادم حسین رضوی کے دور میں تحریک لبیک صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تحریک بن کر ابھری۔ ان کا علم، توکل اور عشقِ رسول ﷺ کا پیغام عوام کے دلوں میں اتر گیا۔ ان کے اجتماعات میں ایمان کی حرارت بھی تھی اور نظم کی قوت بھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک لبیک کا وہ فکری تسلسل، تنظیمی مرکزیت اور قیادت کا توازن آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا۔
قیادت کا بحران اور فکری انتشار
آج کی تحریک لبیک اندرونی اختلافات، غیر واضح فیصلوں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ کارکنان اور ہمدرد محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کا بیانیہ کمزور ہو گیا ہے۔ جذبات باقی ہیں مگر سمت غائب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد میں کمی اور فکری انتشار کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ربوہ، مریدکے واقعات کا بوجھ
ربوہ اور مریدکے کے واقعات نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریک لبیک کو سخت دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیجی ممالک استحکام اور گفت و شنید پر زور دے رہے ہیں، امریکہ نے حفاظتی وارننگز جاری کیں، اور یورپی ممالک — خصوصاً اسپین اور اٹلی — میں عدالتی کارروائیوں نے یہ ظاہر کیا کہ شدت پسندی عالمی تشویش کا موضوع بن چکی ہے۔ ایسے میں تحریک لبیک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ربوہ واقعے پر وضاحت نہ دینا، اسپین و اٹلی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرنا — یہ رویہ بگلے کو ریت میں چھپانے کے مترادف ہے۔
پروپیگنڈہ اور بیانیے کی کمزوری
اسی دوران ملکی و غیر ملکی میڈیا نے تحریک کے دفاتر اور گھروں سے برآمد ہونے والی رقوم کو بھارتی ایجنسی را، تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے، خیبرپختونخوا کی تبدیلی، اور افغانستان میں سرگرم فتنۂ خوارج سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ تمام ابواب دراصل اسی صیہونی مافیا کی کتاب کے مختلف عنوانات ہیں جو پاکستان کے وجود، اس کی عسکری قوت اور اسلامی تشخص سے خوفزدہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اور مغربی تجزیہ کار اس بیانیے کو مزید ہوا دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ افسوس کہ تحریک لبیک کی جانب سے اب تک کوئی مؤثر تردید یا وضاحتی موقف سامنے نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر نئی مہمات اور اندرونی خاموشی
ملک کے اندر یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ بھارت، تحریک انصاف کے علیحدگی پسند، فتنۂ خوارج، فتنۂ ہند، اور تحریک لبیک ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ مہمات تنظیمی خاموشی کے سبب تقویت پا رہی ہیں۔ نہ مجلسِ شوریٰ متحرک ہے، نہ میڈیا سیل فعال۔ یہ وہ وقت ہے جب قیادت کی حکمت، شوریٰ کی بصیرت اور کارکنان کی نظم و تربیت سب سے زیادہ درکار ہیں۔
نعرے اور پیغام
وقت آ گیا ہے کہ تحریک لبیک اپنے نعروں اور اندازِ احتجاج پر نظرِ ثانی کرے۔
وہ نعرے جو کبھی ایمان کی علامت تھے، اب اشتعال کی پہچان بن چکے ہیں۔ “سر تن سے جدا” جیسے نعرے دشمنوں کے ہاتھ میں ہتھیار بن گئے ہیں، جبکہ “صدقے یا رسول اللہ ﷺ” اور “لبیک یا رسول اللہ ﷺ” جیسے عقیدت آمیز نعرے اسلام کے محبت و رحمت والے پیغام کو زندہ رکھتے ہیں۔
اسلام کا پیغام نفرت نہیں، رحمت ہے۔
فیصلہ کن موڑ
تحریک لبیک کے لیے اب وقت احتجاج کا نہیں، احتساب اور اصلاح کا ہے۔
اگر قیادت نے تعلیم یافتہ، مکالمہ پسند اور بصیرت افروز رویہ اپنایا تو یہ جماعت دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک جذباتی داستان بن کر تاریخ میں دفن ہو جائے گی۔ قیادت کا کمال یہ نہیں کہ ہجوم جمع کر لے، بلکہ یہ ہے کہ ہجوم کو نظم، عقل اور امن کی راہ پر ڈال دے۔
اگر تحریک لبیک نے عشقِ رسول ﷺ کے پیغام کو سیاست کی تلخیوں سے نکال کر اخلاق، امن اور محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، تو یہ تحریک ایک بار پھر قوم کے ایمان، اخلاق اور اتحاد کی علامت بن سکتی ہے۔