بدھ، 15 اکتوبر، 2025

علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)


علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
تحریک لبیک پاکستان کی کہانی دراصل عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے شروع ہوئی تھی۔ علامہ خادم حسین رضویؒ نے اس تحریک کو عشق، ایمان، اور اخلاق کے سنگم پر کھڑا کیا۔ ان کے خطابات میں جہاں جوش ہوتا، وہاں تہذیب بھی ہوتی؛ جہاں غیرتِ ایمانی دکھائی دیتی، وہاں احترامِ انسانیت بھی جھلکتا تھا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک ایک ایسے موڑ پر آ گئی جس نے اس کے اخلاقی اور فکری وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اختلافات کی بازگشت
خادم حسین رضویؒ کے انتقال کے فوراً بعد پارٹی کے اندر قیادت کے تعین پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تحریک کے کچھ بانی اراکین کا مؤقف تھا کہ قیادت کے لیے صرف نسب کافی نہیں، بلکہ دینی علم، سیاسی بصیرت اور اخلاقی پختگی بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ: “تحریک ایک جذباتی طوفان ہے، اگر اسے تجربہ کار ہاتھ نہ سنبھالیں تو یہ اپنے ہی خوابوں کو توڑ دے گی۔” اس اختلاف کے باوجود، مرکزی شوریٰ نے سعد رضوی کو نیا امیر مقرر کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی احترام میں تو درست محسوس ہوا، مگر تنظیمی لحاظ سے کئی سوالات اٹھ گئے - ان سوالات میں ایک سوال ایک بانی کارکن کا بھی تھا “جو شخص کسی کو محض قرابت یا دوستی کی بنیاد پر ذمہ داری دے، وہ اللہ اور رسول ﷺ سے خیانت کرتا ہے۔”
(سنن بیہقی، ج5، ص65)
بانی اراکین کی خاموش رخصتی
علامہ صاحب کے چند قریبی رفقا، جو تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا نظریاتی اختلاف کے باعث خود کو الگ کر لیا۔ان میں بعض وہ تھے جو خادم رضویؒ کے ابتدائی جلسوں، احتجاجوں اور تنظیمی خاکے کے معمار تھے۔ان کے نزدیک تحریک کا رخ آہستہ آہستہ عوامی اصلاح سے زیادہ سیاسی مفاد کی طرف مڑ رہا تھا۔
ایک سابق ضلعی ناظم نے کہا: “اب تحریک کے اندر رائے دینا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا بغاوت۔”
اخلاقی گراوٹ
تحریک کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی سطح پر ہوا۔علامہ خادم رضویؒ کی زندگی میں کارکنوں کو "زبان کی پاکیزگی" پر سختی سے تاکید کی جاتی تھی۔ ان کا فرمان ریکارڈ پر ہے “زبان بندہ کا آئینہ ہے، اگر زبان خراب ہو گئی تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔” (بیان فیضِ رضوی، لاہور اجتماع 2017)
لیکن آج تحریک کے کارکنان اور رہنما اکثر غلیظ زبان، طنز اور گالی کو دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے بلکہ اصلاحی ناقدین کے بارے میں ایسے جملے استعمال ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عشق کا بیانیہ اخلاقی زوال میں بدل گیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ زوال خطرناک ہے
قرآن مجید فرماتا ہے: “اور اپنے قول میں نرمی اختیار کرو، بے شک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔”
(سورۃ الاسراء، آیت 53)
جب عشق نفرت میں بدل جائے
تحریک کی اصل بنیاد محبت، ادب، اور عشقِ رسول ﷺ تھی۔
مگر اب جلسوں اور تقاریر میں جذباتی ردعمل، ذاتی حملے، اور بد زبانی کا رنگ غالب رہنے لگآ جو تحریک عشقِ نبی ﷺ کے نام پر اُٹھی تھی، وہ رفتہ رفتہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اور جب محبت نفرت میں بدل جائے تو سنجیدہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خادم رضویؒ کے زمانے کے کئی سنجیدہ مذہبی علما، صوفیا، اور فکری ہمدرد اب اس تحریک سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔
نا تجربہ کاری
سعد رضوی کی جوانی اور بے تجربگی کے باعث تنظیمی نظم ڈھیلا پڑ گیا۔
نوجوان قیادت کا جوش، دانائی کے بغیر، اکثر شدت میں بدل گیا۔ کئی بار تحریک کے بیانات اور پالیسی فیصلے ملک کے اندر سیاسی بحران کا سبب بنے۔
یہ سب وہ اشارے ہیں جن سے لگتا ہے کہ پارٹی فکری کمزوری اور اخلاقی بحران دونوں کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “جو شخص تجربے سے خالی ہو، وہ خود اپنی رائے کا قیدی بن جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ)
تحریک کی بقا اخلاقی اصلاح میں ہے
تحریک لبیک اگر واقعی خادم حسین رضویؒ کے مشن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو اسے تنظیمی اصلاح، اخلاقی تربیت، اور قیادت میں بہتری لانا ہو گی۔ محبت اور ادب کے بغیر مذہبی بیانیہ، صرف نعروں کا شور بن جاتا ہے۔
اور نعروں کا شور سیاسی پارتی کا تو ممکن ہے مگر مزہبی پارٹی پر سوال اتھ جایا کرتے ہین اور یہ سوال باہر سے نہیں تحریک لبیک کے ابدر سے اتھ رہے ہیں
اگر تحریک نے خود احتسابی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عشقِ رسول ﷺ کا نعرہ بھی سیاست کی گرد میں دب جائے گا۔
(جاری ہے )

علامہ خادم حسین رضوی (1)




عنوان: عاشقِ رسولؐ علامہ خادم حسین رضوی — علم، عشق اور توکل کی ایک داستان

 دلپزیر احمد جنجوعہ

دینِ اسلام کی تاریخ ایسے رجالِ کار سے بھری پڑی ہے جنہوں نے عشقِ رسول ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ انہی عاشقانِ مصطفی ﷺ میں ایک نام علامہ خادم حسین رضوی کا بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک عالمِ باعمل، نڈر مقرر، اور باوقار قائد تھے بلکہ عشقِ رسول ﷺ کے ایسے دیوانے کہ اپنی جان، مال اور آرام سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم

خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے سے حاصل کی اور بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ قرآن و حدیث پر گہری نظر، عربی و فارسی پر عبور اور فقہ و سیرت کی گہری فہم نے انہیں کم عمری ہی میں ممتاز بنا دیا۔
علم اور خطابت کا سفر

خادم حسین رضوی کا اصل تعارف ان کی دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی خطابت تھی۔ لاہور کے منبر سے لے کر کراچی اور پشاور کے اجتماعات تک، جب وہ زبان کھولتے تو دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی آگ بھڑک اٹھتی۔ ان کی گفتگو میں علم، درد، اور عقیدت کا ایسا امتزاج ہوتا کہ سننے والے دیر تک مسحور رہ جاتے۔
توکل اور زہد کی جھلک

حادثے کے باعث زندگی بھر وہیل چیئر پر رہنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان کی زندگی فقیرانہ انداز، قناعت، اور اللہ پر کامل توکل کی مثال تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے:


“میں نے اللہ کے دین کے لیے قلم اٹھایا ہے، اس کا نتیجہ وہی لکھے گا جو بہتر ہوگا۔”

دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز، وہ سادہ لباس، معمولی کھانے، اور کم سامانِ زیست پر قناعت کرتے تھے۔ مگر دل  
عشقِ رسول ﷺ سے مالا مال تھا۔
میں نے ان کی زبان سے سنا "ایک روٹی اور اچار کی دو ڈلیاں" میرے لیے کافی ہیں
عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت کا دفاع

علامہ خادم حسین رضوی کا سب سے نمایاں پہلو ان کا عشقِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا عزم تھا۔ وہ کسی بھی سطح پر گستاخیِ رسول ﷺ کے خلاف آواز بلند کرتے اور لاکھوں دلوں میں عشق کی حرارت پیدا کر دیتے۔ ان کے جلسوں میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک، سب کے دل عشق و ایمان سے لبریز ہوتے۔
اخلاص اور عوامی مقبولیت

خادم حسین رضوی نے اقتدار کی نہیں بلکہ عقیدت کی سیاست کی۔ ان کے جلسے کسی سیاسی شو سے زیادہ روحانی اجتماع کا منظر پیش کرتے۔ ان کے چاہنے والے انہیں “مجاہدِ ناموسِ رسالت ﷺ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
انتقال اور عوامی سوگ

انیس  نومبر 2020 کو جب ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ لاکھوں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ ان کے چاہنے والوں کے چہروں پر آنسو اور زبانوں پر درود و سلام تھا۔ یہ محبت، یہ عقیدت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ دلوں پر راج کرنے والے انسان تھے۔

علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی ایک پیغام تھی
علم کے ساتھ عمل، عشق کے ساتھ ادب، اور قیادت کے ساتھ توکل۔
ان کی یاد آج بھی اس بات کی علامت ہے کہ عشقِ رسول ﷺ اگر خلوص کے ساتھ ہو تو انسان کے جسم کی معذوری بھی روح کے عزم کو روک نہیں سکتی۔
نوٹ: یہ مضمون تین قسطوں پر محیط ہے ۔ )
  (یہ پہلی قسط ہے 
 

پیر، 13 اکتوبر، 2025

امن کی نئی صبح



 مشرقِ وسطیٰ میں امن کی نئی صبح

 شرم الشیخ میں آج ایک تاریخی بین الاقوامی امن اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس غزہ میں جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے، تعمیرِ نو کے منصوبے بنانے اور مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے نئے دور کے آغاز کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔

شرکت کرنے والے ممالک
اس اہم اجلاس میں  فلسطین، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ، اردن، بحرین، عمان، کویت، لبنان، عراق، شام، الجزائر، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، یمن، ایران، چین، روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، نیدرلینڈ، یونان، ناروے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، جنوبی افریقہ، نائیجیریا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے نمائندے شامل ہیں۔
البتہ اسرائیل اور حماس کو اجلاس میں باضابطہ طور پر مدعو نہیں کیا گیا، تاہم دونوں کے نمائندوں سے بالواسطہ رابطہ رکھا جا رہا ہے۔

اجلاس کے مقاصد
مصری ایوانِ صدر کے مطابق اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کو پائیدار بنانا، انسانی امداد کی فراہمی کو منظم کرنا، تعمیرِ نو کا جامع منصوبہ بنانا، اور طویل المدتی سیاسی استحکام کے لیے مؤثر لائحہ عمل طے  کرنا ہے۔
یہ اجلاس اس تین روزہ جنگ بندی کے فوراً بعد منعقد ہو رہا ہے جو مصر، قطر، ترکیہ، امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ سفارتی کوششوں سے ممکن ہوئی۔
تازہ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی، خان یونس، رفح، بیت لحیا اور بیت حانون کے بعض حصوں سے جزوی انخلا شروع کیا ہے جبکہ پانچ سرحدی راستے انسانی امداد اور غذائی سامان کے لیے کھولے جا چکے ہیں۔

قیادت کے بیانات

صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے خطاب میں کہا
“مصر اس یقین کے ساتھ یہ کانفرنس منعقد کر رہا ہے کہ امن ہی ترقی، انصاف اور انسانی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ آج دنیا کو ایک متحد آواز میں ظلم کے خاتمے اور تعمیر کے آغاز کا پیغام دینا ہوگا۔”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا
“ہم مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے دور میں داخل کر رہے ہیں — ایسا دور جہاں جنگ نہیں بلکہ تعاون ہوگا۔ امریکہ، مصر، قطر، ترکیہ اور پاکستان نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو غزہ میں امن کو پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔”

عالمی تعاون اور وعدے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے خصوصی فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔
قطر نے ایک بین الاقوامی ریلیف میکنزم کی تجویز دی جو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں چلے گا۔
ترکیہ نے فوری بحالی اور طبی نظام کی تعمیرِ نو میں عملی مدد کا وعدہ کیا۔
پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ادویات، خوراک اور طبی عملہ بھجوانے کا اعلان کیا۔
چین اور روس نے اس بات پر زور دیا کہ امن صرف برابری، انصاف اور خودمختاری کے اصولوں پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔
یورپی ممالک — فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور یورپی یونین — نے تکنیکی و مالی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

فلسطینی عوام کی امید
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس کو “امید کی کرن” قرار دیتے ہوئے کہا
“اگر عالمی برادری اپنے وعدوں کو عمل میں تبدیل کرے تو ریاستِ فلسطین کا قیام اب ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن سکتا ہے۔”

شرم الشیخ امن اجلاس کو مشرقِ وسطیٰ میں امن، استحکام اور تعاون کے نئے دور کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
اگر طے شدہ نکات عملی شکل اختیار کر گئے تو غزہ کی تباہ شدہ زمین ایک بار پھر زندگی، امید اور تعمیر کی علامت بن سکتی ہے۔
یہ اجلاس اس حقیقت کا مظہر ہے کہ دنیا کی طاقتیں اب جنگ نہیں، امن کی زبان بولنا چاہتی ہیں
اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کا سورج طلوع ہونے جا رہا ہے۔

ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025

شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا



دنیا کے سب سے باوقار اعزازات میں شمار ہونے والا نوبل امن انعام اس سال بھی عالمی سیاست کا مرکزِ نگاہ بنا رہا۔ مگر 2025 کا اعلان ایک غیر متوقع بحث کو جنم دے گیا — کیونکہ جنہیں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا، یعنی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ یہ انعام حاصل نہ کر سکے۔

صدر ٹرمپ کو یقین تھا کہ اُن کے حالیہ امن اقدامات، خصوصاً غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات، اُنہیں عالمی سطح پر امن کا علمبردار بنا چکے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے تھے کہ نوبل کمیٹی اس بار اُن کی کوششوں کو تسلیم کرے گی۔ لیکن جب اعلان ہوا تو یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے حصے میں آیا۔

صدر ٹرمپ کا ابتدائی ردِعمل بظاہر پُر سکون تھا، مگر ان کے الفاظ میں مایوسی کی ہلکی جھلک صاف محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ماریا کورینا ماچادو نے انہیں ذاتی طور پر فون کر کے بتایا کہ وہ یہ انعام ’’صدر ٹرمپ کے اعزاز میں‘‘ قبول کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:

’’میں نے وہ کام کیے جو کئی دہائیوں سے کوئی نہیں کر سکا — امن، قیدیوں کی رہائی، اور دشمنوں کے درمیان مذاکرات — لیکن کچھ ادارے امن سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ سیاست کو امن پر ترجیح دینے کا ثبوت ہے‘‘۔
 صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وہ ’’انعام کے بغیر بھی دنیا کے امن کے لیے کام جاری رکھیں گے‘‘، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ’’نوبل کمیٹی نے موقع گنوا دیا‘‘۔

صدر کے حامیوں میں اس فیصلے کے بعد ایک طوفان مچ گیا۔ ریپبلکن رہنماؤں اور قدامت پسند حلقوں نے نوبل کمیٹی پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ سوشل میڈیا پر نوبل کمیٹی کے خلاف  مہم شروع ہو گئی۔

کئی سیاسی شخصیات نے طنزیہ انداز میں ’’ٹرمپ امن انعام‘‘ کے مجسمے اور تصویریں شیئر کیں۔ ایک سینیٹر نے لکھا:


’’اگر نوبل کمیٹی نے انصاف کیا ہوتا، تو آج امن کے انعام کے ساتھ امریکہ کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔‘‘

ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، کوریا اور افریقہ میں امن کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی عالمی رہنما سے زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے نزدیک نوبل کمیٹی نے ’’عالمی اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر ایک سیاسی فیصلہ کیا۔‘‘


دنیا بھر میں اس فیصلے پر ردِعمل ملا جلا رہا۔

نوبل انعام حاصل کرنے والی ماریا کورینا ماچادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ اعزاز ’’صدر ٹرمپ کے ساتھ شیئر کرتی ہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے وینزویلا کی جمہوری تحریک کے لیے ’’اہم عالمی حمایت‘‘ فراہم کی۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے عملی کوششیں کیں‘‘۔
جبکہ نوبل کمیٹی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخاب خالصتاً میرٹ اور امن کے اصولوں پر مبنی تھا، کسی سیاسی دباؤ کے بغیر۔‘‘

امریکی میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ تر امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے کچھ اقدامات قابلِ ذکر ہیں، مگر وہ نوبل انعام کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔


یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر ٹرمپ نے عالمی اداروں کے فیصلوں کو ’’متعصب‘‘ قرار دیا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ صرف ایک انعام کا نہیں بلکہ عالمی ساکھ اور امریکی بیانیے کا بھی ہے۔

ٹرمپ کے لیے نوبل انعام نہ ملنا شاید وقتی دھچکا ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو ایک نئے نعروں میں بدل دیا ہے 


’’امن کی خدمت، انعام کی نہیں۔‘‘

صدر ٹرمپ کے لیے یہ انعام شاید نہ سہی، لیکن عالمی توجہ، سیاسی فائدہ اور عوامی تاثر — یہ سب ابھی بھی ان کے پاس ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست میں یہ سب کچھ نوبل انعام سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتا ہے۔
تحریر: دلپزیر  جنجوعہ

جمعہ، 10 اکتوبر، 2025

غزہ میں امن کی کرن






غزہ کی مساجد مین اب  بھی اذان کی صدا گونجتی ہے، یہ سرزمین محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے روحانی، مذہبی اور تاریخی تعلق اتنا گہرا ہے کہ سات دہائیوں کی آگ اور خون کی بارش بھی اسے کمزور نہ کر سکی۔

نو اکتوبر 2025، دوپہر دو بجے—دنیا نے ایک نیا منظر دیکھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور خونی جنگ کے بعد ایک نازک مگر امید بھرا معاہدہ نافذ ہوا۔ اس کے تحت 400 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے لگے، یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، اور شہری آبادیوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی خبریں آنے لگیں۔ برسوں کے بعد، ملبے کے درمیان کچھ چہروں پر زندگی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ غزہ کے لوگ جو بچ گئے، انہوں نے اس معاہدے کو امن کی پہلی سانس قرار دیا۔

لیکن امن کی یہ سانس کتنی نازک ہے، یہ صرف وہ جانتے ہیں جنہوں نے 724 دنوں تک موت کے سائے میں زندگی گزاری۔ دو برس سے زائد عرصے میں 92 فیصد اسکول تباہ ہو گئے، 63 یونیورسٹیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں، اور باقی تعلیمی ادارے بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔۔ 62 فیصد لوگ اپنے گھروں اور زمینوں کے دستاویزی ثبوت کھو چکے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ جانیں قربان ہو چکیں، اور 50 ہزار بچے بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جن پر کسی دنیاوی معاہدے کا نام تحریر نہیں، مگر ان کی خاموشی سب سے بڑا الزام ہے۔

سیاسی منظر بھی پیچیدہ ہے۔ نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار عرب و مسلم دنیا میں اتحاد کی نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ ٹونی بلیر کے بارے میں عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ "جنگی مجرم" ہے، ایک اسرائیلی وزیر نے کھلے عام کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کو ختم کر دیا جائے گا" — یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے پیچھے اب بھی انتقام کی آنچ باقی ہے۔

اس کے برعکس، بین الاقوامی منظرنامے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوداعتمادی اور آٹھ ممالک کی شمولیت نے اس معاہدے کو وقتی طور پر مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔  مگر اقوام متحدہ اور علمی برادری کا کہنا ہے کہ حقیقی امن انصاف اور جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے، اس لیے دنیا کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ اس بار انصاف کے ساتھ امن کو جوڑ سکتی ہے یا نہیں۔

غزہ کی داستان سیاست کی نہیں، انسانیت کی ہے۔ قحط نے جسم سوکھا دیے، مگر روح کو زندہ رکھا۔ انسان کا سر پھول جاتا ہے، ہڈیوں سے گوشت غائب ہو جاتا ہے، مگر بچے پھر بھی اپنے ٹوٹے کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امید ہے، جو اس ملبے میں بھی زندہ ہے۔ حماس اور فلسطینی عوام نے معاہدہ قبول کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت صرف گولی سے نہیں، یقین سے جیتی جاتی ہے۔ یہ فتح تحفے میں نہیں ملی؛ یہ خون، صبر اور قربانی سے حاصل کی گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس فتح کو کیسے دیکھے گی؟ اگر انصاف نہ ہوا، اگر جنگی جرائم کی نشاندہی اور احتساب نہ کیا گیا، تو یہ امن محض وقتی خاموشی بن کر رہ جائے گا۔  اگر اس موقع کو انصاف، تعمیر نو اور انسانی وقار کے ساتھ جوڑا گیا، تو یہی معاہدہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

غزہ آج بھی سانس لے رہا ہے—زخمی، کمزور، مگر زندہ۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ امید کو مارا نہیں جا سکتا۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشنی باقی ہے، وہ روشنی جو ملبے کے بیچ سے پھوٹتی ہے، جو دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ امن صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ اور جب انصاف قائم ہو جائے گا، تب شاید فلسطین کی زمین پر پہلی بار حقیقی امن کا سورج طلوع ہوگا۔