پیر، 15 ستمبر، 2025

تاریخ خود کو دہرا رہی ہے



امریکہ کی کمزور قیادت، اسرائیل کی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں — تاریخ خود کو دہرا رہی ہے

دنیا میں طاقت صرف اسلحے یا معیشت کی بنیاد پر قائم نہیں رہتی، بلکہ اصل طاقت سمجھ داری، سیاسی تدبر اور چالاکیوں میں چھپی ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت امریکہ ہے، تو دوسری طرف اسرائیل ہے، جو اپنی چالاکی اور موقع پرستی سے ہمیشہ امریکہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اور ان کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہیں۔

دو ہزار ایک میں جب امریکہ نے افغانستان پر پوری طاقت سے حملہ کیا تو دنیا کو لگا کہ طالبان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ امریکہ کی ایئر پاور، نیٹو اتحادیوں کی شراکت اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود طالبان کو ختم نہ کیا جا سکا۔ طالبان نے اس جنگ کو طول دے کر امریکہ کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا، جہاں سے نکلنا اس کے بس کی بات نہ رہی۔ بیس برس کی جنگ کے بعد امریکہ کو شرمندگی کے ساتھ افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
ویت نام — بیس سال کی جنگ، امریکی ہزیمت

یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا۔ انیس سو پچپن میں امریکہ نے ویت نام میں فوجی مداخلت کی اور سمجھا کہ وہ چند مہینوں میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔ مگر بیس سال تک جاری رہنے والی اس خونی جنگ کا انجام امریکہ کی تاریخی شکست کی صورت میں نکلا۔ انیس سو پچہتر میں جب امریکہ کو ویت نام سے بھاگنا پڑا تو دنیا کو اندازہ ہو گیا کہ صرف ہتھیار طاقت کی ضمانت نہیں ہوتے۔
اسرائیل کی پرانی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے غداری

اسرائیل ہمیشہ چالاک سفارت کاری اور امریکہ کی طاقت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں فلسطینیوں کو اپنی ریاست دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر اسرائیل نے قبضہ کر کے فلسطینی علاقوں پر اپنی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی۔ انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ، گولان کی پہاڑیاں اور مصر کے کئی علاقے ہتھیا لیے۔ فلسطینیوں کو نہ صرف ان کی سرزمین سے محروم کیا گیا بلکہ انہیں بے گھر، مہاجر اور مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ نے ہر بار فلسطینیوں سے وعدہ کیا کہ وہ دو ریاستی حل کا حامی ہے، مگر حقیقت میں امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں اور دو ریاستی حل — سب کاغذوں کی حد تک محدود رہ گئے، جبکہ اسرائیل زمینی حقائق پر اپنی مرضی مسلط کرتا رہا۔
ایران، امریکہ اور اسرائیل — ایک اور سیاسی چال

دو ہزار پچیس میں ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے امریکہ کو اپنے مفاد کے لیے کیسے استعمال کیا۔ پندرہ جون دو ہزار پچیس کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان اہم مذاکرات طے تھے، جنہیں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی آخری امید سمجھا جا رہا تھا۔

مگر اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح چالاکی دکھاتے ہوئے تیرہ جون دو ہزار پچیس کو ایران پر حملہ کر دیا اور تمام سفارتی کوششوں کو روند ڈالا۔
ڈونلڈ ٹرمپ — کمزور قیادت کی علامت

ڈونلڈ ٹرمپ کی کمزور اور پل پل بیانئے نے امریکہ کو مزید بے بس ثابت کیا۔ انیس جون دو ہزار پچیس کو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر کے لیے دو ہفتے انتظار کریں گے۔ مگر اسرائیل نے ان کے اعلان کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پہلے ہی ایران پر حملہ کر دیا۔

مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اکیس جون دو ہزار پچیس کو پاکستان کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا، اور صرف اگلے دن یعنی بائیس جون کو ٹرمپ خود اسرائیل اور ایران کی جنگ میں عملی طور پر کود پڑے۔
نتیجہ — طاقت، کمزوری اور چالاکی کی کہانی

تاریخ بار بار بتاتی ہے کہ فوجی طاقت ہی سب کچھ نہیں۔ امریکہ اپنی عسکری برتری کے باوجود سیاسی میدان میں کمزور نظر آتا ہے۔ افغانستان اور ویت نام کی شکستیں، فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں، اور اسرائیل کی بار بار کی چالاکیاں اس کی واضح مثال ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل، جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے، اپنی چالاک حکمت عملی اور امریکہ کو استعمال کرنے کی مہارت سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی مرضی مسلط کرتا جا رہا ہے۔

فلسطینی عوام آج بھی ان وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل نے بارہا کیے مگر کبھی پورے نہ کیے۔ عالمی طاقتوں کی اس منافقت نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں بے چینی اور بد اعتمادی کو جنم دیا ہے۔


ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

مالی خوشحالی کا راز



چین کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلاب کے بعد قومیں کس طرح مشکلات کا سامنا کر کے ترقی کی راہیں کھول سکتی ہیں۔ 1949 میں جب عوامی جمہوریہ چین وجود میں آیا تو یہ ملک غربت، بھوک اور پسماندگی میں گھرا ہوا تھا۔ آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی جو جاگیردارانہ نظام کے ظلم کا شکار تھے، صنعت نہ ہونے کے برابر تھی اور تعلیم و صحت عام انسان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ ابتدائی برسوں میں کمیونسٹ حکومت نے گریٹ لیپ فارورڈ اور کلچرل ریولوشن جیسے سخت تجربات کیے جن کے نتیجے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد بھوک، غربت اور موت کا شکار ہوئے اور عوام کی حالت مزید بگڑ گئی۔

اصل تبدیلی اُس وقت آئی جب ماؤ کے بعد ڈینگ ژیاوپنگ نے قیادت سنبھالی اور یہ سوچ سامنے رکھی کہ بلی کالی ہو یا سفید، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ چوہے پکڑتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت چین نے سخت کمیونسٹ معیشت کو ترک کر کے مارکیٹ اکنامی کے اصول اپنانے شروع کیے۔ کسانوں کو اپنی پیداوار بیچنے کی آزادی ملی، غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا، نئے صنعتی زون قائم کیے گئے اور تعلیم و سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کی گئی۔

ان اصلاحات کے اثرات عوام کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آئے، شہروں میں روزگار کے مواقع بڑھے اور دیہات میں کسان خوشحال ہوئے۔ صحت اور تعلیم پر سرمایہ کاری نے شرح خواندگی اور اوسط عمر میں اضافہ کیا، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے بہتر مواقع ملے اور بنیادی ڈھانچے میں حیرت انگیز ترقی نے چین کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔

چند دہائیوں کے اندر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر ابھرا اور تقریباً 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے کا کارنامہ سرانجام دیا جو انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آج چین جدید ٹیکنالوجی، خلائی پروگرام، ہائی اسپیڈ ٹرین اور ڈیجیٹل کرنسی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔

تاہم یہ ترقی اپنی قیمت بھی رکھتی ہے۔ چین میں آج بھی سیاسی آزادی محدود ہے، کمیونسٹ پارٹی کا سخت کنٹرول قائم ہے اور اظہارِ رائے پر قدغن موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر صرف معاشی اور سماجی حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انقلاب کے بعد چین کی قیادت نے ایسی لچکدار پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے عوامی زندگی کو حقیقی معنوں میں بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین کو دنیا کی سب سے بڑی کامیاب عوامی ترقی کی کہانی کہا جاتا ہے۔

صفوں میں خلا اور شیطان کی رسائی



صفوں کے خلا اور شیطانی وسوسے
نماز صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل اجتماعی تربیت ہے۔ جب ہم جماعت کے ساتھ صف در صف کھڑے ہوتے ہیں، تو درحقیقت ہم نظم، اتحاد اور ہم آہنگی کی ایک عملی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے نہ صرف جماعت کے ساتھ نماز کی ترغیب دی، بلکہ صفوں کی درستگی، خلا پُر کرنے، اور تراص (قریب قریب کھڑے ہونے) پر خاص تاکید فرمائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا تم صف بندی اس طرح نہیں کرتے جیسے فرشتے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں؟"
صحابہؓ نے عرض کیا: "فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟"
ارشاد ہوا: "وہ پہلی صف مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔"
دراصل، جب ہم صفوں میں خلا چھوڑتے ہیں، فاصلے بناتے ہیں یا بے ترتیبی برتتے ہیں، تو یہ محض جسمانی معاملہ نہیں رہتا بلکہ روحانی خرابی کی علامت بن جاتا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صفوں میں خلا چھوڑنا دراصل شیطان کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ وہ ان خلاؤں سے وسوسوں، غفلت اور بدگمانی کے تیر چلاتا ہے، اور نمازی کے دل کو عبادت کی روح سے کاٹ دیتا ہے۔
یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہے کہ "شیطان خود صف کے خلا میں آ کر نماز پڑھتا ہے"۔ کوئی مستند حدیث ایسی نہیں۔ شیطان نماز نہیں پڑھتا، وہ تو عبادت میں خلل ڈالنے والا ہے۔ وہ انہی خلاؤں کو استعمال کرتا ہے جہاں دل بکھرے ہوتے ہیں، صفیں کمزور ہوتی ہیں اور توجہ بٹی ہوتی ہے۔
صفوں کی ترتیب سنت مؤکدہ ہے، اور جان بوجھ کر صف میں خلا چھوڑنا مکروہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ فقہا—حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی—سب اس بات پر متفق ہیں کہ صفوں میں تراص یعنی قریب قریب کھڑے ہونا ضروری ہے۔ بعض خلفائے راشدین خود صفیں درست کیا کرتے تھے تاکہ نظم و ضبط کی عملی مثال قائم ہو۔
آج ہماری مساجد میں اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ امام تکبیر کہہ چکا ہوتا ہے، اور صفوں میں خلا موجود ہوتا ہے۔ نمازی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں، اور بعض تو یوں کھڑے ہوتے ہیں کہ کندھوں اور ایڑیوں کے درمیان دو دو فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ کیا یہی ہے وہ نظم جس کا سبق اسلام ہمیں دیتا ہے؟
یاد رکھیے، مسجد کا نظم معاشرے کے نظم کی بنیاد ہے۔ جب ہم صفوں کو سیدھا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، تو دلوں میں بھی قربت آتی ہے۔ اس سے نہ صرف نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے، بلکہ وحدتِ امت کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ:
صف میں خلا دیکھیں تو آگے بڑھ کر پُر کریں
کندھے سے کندھا نرم انداز سے ملائیں
بچوں اور بزرگوں کے ساتھ نرمی برتیں
ایہ محض ایک ظاہری ترتیب نہیں، بلکہ روحانی ربط کی علامت ہے۔ اگر ہم مساجد میں صفیں سیدھی کرنے کا شعور پیدا کر لیں، تو شاید ہمارے معاشرتی اور فکری انتشار میں بھی کچھ کمی آ جائے۔
شیطان کو صفوں میں جگہ نہ دیں۔
اپنے دل، اپنی صف، اور اپنی امت کو متحد رکھیں۔
نماز کو صرف فرض نہ سمجھیں، اس کو ایک اجتماعی فریضہ اور روحانی تربیت کا مرکز بنائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رضا، اتحادِ امت، اور روحانی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔

قربت اور دوری



پاکستان میں مذہبیت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اگر ہم اسے دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ تقابلی تناظر میں دیکھیں تو یہ تضادات اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چار لاکھ سے زائد مساجد اور تیس سے پینتیس ہزار مدارس کی موجودگی کو دین سے قربت کا انعام سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرہ اخلاقی و سماجی انحطاط کا شکار ہے۔

مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں مذہبی علامات بھی موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ریاستی سطح پر قوانین کی سختی اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سڑکوں پر نظم و ضبط، لین کا احترام اور سماجی انصاف کی فراہمی عام زندگی میں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں کے معاشرتی ڈھانچے نے مذہبیت کو صرف رسومات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی سطح پر قانون اور اخلاقیات کو مضبوطی سے قائم کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں مذہبی رسومات کی کثرت تو نظر آتی ہے لیکن ان کے اثرات روزمرہ زندگی میں نہیں جھلکتے۔

ترکی کی مثال بھی یہاں قابلِ ذکر ہے۔ وہاں جدیدیت اور مذہبیت کے امتزاج نے ایک ایسا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جہاں مذہب کو انفرادی زندگی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر ریاستی ادارے بنیادی طور پر قانون اور انصاف کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ اس ماڈل نے وہاں کرپشن اور سماجی بے نظمی کو ایک حد تک محدود رکھا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں تضادات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی ادارے اور مظاہر تو بڑھتے جا رہے ہیں مگر ساحل جیسی تنظیموں کی رپورٹیں سالانہ ہزاروں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے لا رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور کرپشن کے اعداد و شمار عالمی سطح پر پاکستان کو ایک پسماندہ تصویر میں پیش کرتے ہیں۔

یہ سوال مزید شدت اختیار کر لیتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کے قریب ہیں یا دین سے دور؟ اگر قربت صرف مساجد اور مدارس کی تعداد سے ناپی جائے تو شاید ہم دنیا کے سب سے مذہبی معاشروں میں شامل ہوں۔ لیکن اگر معیار قرآن و سنت کے مطابق اعمال، اخلاق، عدل اور انصاف ہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے اعمال ہمیں دین سے قریب نہیں بلکہ دین سے دور کر رہے ہیں۔

یوں بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصل دین داری کا معیار ظاہری مذہبیت نہیں بلکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کا عملی نفاذ ہے۔ جب تک یہ پہلو ہمارے معاشرے میں مضبوط نہیں ہوتے، ہم صرف دعووں اور رسومات کی سطح پر مذہبیت کے قائل رہیں گے مگر حقیقی دین سے دوری ہمارا مقدر بنی رہے گی۔

پاکستان — وسائل کی سرزمین، امکانات کی دنیا



پاکستان دنیا کے اُن خوش نصیب ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل اور قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگرچہ رقبے کے لحاظ سے یہ روس سے دس گنا چھوٹا ہے، لیکن اس کا نہری نظام روس کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی زرخیز زمین اور محنتی عوام کی بدولت دنیا کی زرعی اور معدنی پیداوار میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان مختلف اجناس اور پھلوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مٹر کی پیداوار میں دوسرا، خوبانی، کپاس اور گنے میں چوتھا، دودھ اور پیاز میں پانچواں، کھجور میں چھٹا، آم اور گندم میں ساتواں، چاول میں آٹھواں اور کینو و مالٹے میں دسویں نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معدنی شعبوں میں بھی پاکستان کسی سے کم نہیں۔ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے، تانبے میں ساتویں اور ایشیا میں گیس کے ذخائر میں چھٹے نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ دفاعی اعتبار سے یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔

پاکستان کے برقی آلات، پنکھے اور سینٹری مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں پاکستانی انجینئرز اور مزدوروں کی مہارت کو مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی قیمتی زرِمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی کاٹیج انڈسٹری گھریلو معیشت کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ کڑھائی، دستکاری، قالین بافی اور گھریلو مصنوعات نہ صرف خواتین کو بااختیار بنا رہی ہیں بلکہ یہ اشیا دنیا بھر میں برآمد ہو کر پاکستان کی شناخت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان ہیں جو کل آبادی کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ اگر یہ نوجوان بے روزگار اور مایوسی کا شکار ہوں تو یہ ملک پر بوجھ ہیں، لیکن اگر ان کی توانائی کو صحیح سمت دی جائے تو یہی نوجوان پاکستان کی ترقی کا سب سے بڑا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، صنعت، زراعت اور کاروبار میں ان کی شمولیت ملک کو خوشحال بنانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔

ترقی کا راستہ شکایات اور تنقید سے نہیں بلکہ محنت، درست سمت کے انتخاب اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا فرمان "کام، کام اور کام" دراصل ایک نعرہ نہیں بلکہ کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم اپنی توانائیاں مثبت جدوجہد میں لگائیں، اپنی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں استعمال کریں اور قومی وسائل کو منصفانہ طور پر بروئے کار لائیں تو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان اپنی زمین کے وسائل اور افرادی قوت دونوں کے اعتبار سے دنیا کا ایک باصلاحیت ملک ہے۔ اصل دولت اس کے لوگ ہیں۔ جب یہ قوم تنقید سے آگے بڑھ کر محنت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنائے گی تو پاکستان نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنائے گا بلکہ دنیا میں ایک باوقار اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرے گا۔