پیر، 14 جولائی، 2025

یہودی اور بنی اسرائیل میں فرق

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں بہت سے ایسے معروف یہودی لیڈر، سیاستدان اور دانشور موجود ہیں جو خود کو "بنی اسرائیل" اور "یہودی قوم" کا نمائندہ قرار دیتے ہیں، مگر تاریخی و تحقیقی شواہد کے مطابق ان کی نسلی جڑیں بنی اسرائیل یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے نہیں ملتیں۔
ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اُس "خزر" قوم سے ہے جس نے 8ویں صدی عیسوی میں اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، جبکہ وہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی ترک نسل کی قوم تھی اور ان کا بنی اسرائیل سے کوئی نسلی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ مشرقی یورپ، روس اور امریکہ میں آباد اکثریتی اشکنازی یہودی اسی نسل سے جُڑے سمجھے جاتے ہیں۔
چند مشہور یہودی لیڈرز اور شخصیات جو نسلی طور پر بنی اسرائیل نہیں، مگر خود کو یہودی یا بنی اسرائیل کہتے ہیں:
1. ڈیوڈ بین گوریان
اسرائیل کا پہلا وزیراعظم
پیدائش: پولینڈ میں، اشکنازی یہودی خاندان میں
تاریخی شواہد کے مطابق ان کے آباؤ اجداد کا بنی اسرائیل سے کوئی خالص نسلی تعلق ثابت نہیں، بلکہ وہ خزر نسل یا مشرقی یورپی اشکنازی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
2. گولڈا مئیر
اسرائیل کی چوتھی وزیراعظم
پیدائش: کیف، یوکرین میں، اشکنازی خاندان میں
مشرقی یورپ کی وہ کمیونٹی جس میں نسلی خلوص کا دعویٰ کمزور ہے، مگر مذہبِ یہودیت کے ماننے کی بنیاد پر وہ بنی اسرائیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
3. بنجمن نیتن یاہو
اسرائیل کے کئی بار منتخب وزیراعظم
ان کے آباؤ اجداد پولینڈ اور لتھوانیا کے یہودی تھے، جن کا تعلق اشکنازی نسل سے ہے۔
اشکنازی یہودیوں کی اکثریت خزر قوم سے منسوب کی جاتی ہے، نہ کہ خالص بنی اسرائیل نسل سے۔
4. شمعون پیریز
اسرائیل کے سابق صدر اور وزیراعظم
پولینڈ میں پیدا ہوئے، اشکنازی نسل کے یہودی
ان کا تعلق بھی مشرقی یورپ کے اُس گروہ سے ہے جس کے بارے میں خالص بنی اسرائیل نسل ہونے پر تحقیق میں اختلاف ہے۔
5. موشے دیان
اسرائیلی فوج کے مشہور جنرل اور دفاعی وزیر
فلسطین میں پیدا ہوئے، مگر ان کے خاندان کی جڑیں مشرقی یورپ کی اشکنازی کمیونٹی سے ملتی ہیں۔
6. جارج سوروس
دنیا کے مشہور سرمایہ دار، فلاحی اداروں کے بانی
ہنگری میں پیدا ہونے والے اشکنازی یہودی
یہودی عقیدے سے وابستگی رکھتے ہیں، مگر ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی نسلی بنی اسرائیل سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔
خزر قوم کا پس منظر:
8ویں صدی میں قفقاز، بحیرہ اسود اور وسط ایشیا میں آباد خزر سلطنت کی پوری قوم نے سیاسی و معاشرتی مفادات کے پیش نظر یہودیت قبول کی۔ ان کا تعلق ترک نسل، قفقازی اور وسط ایشیائی اقوام سے تھا، نہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے۔
موجودہ اشکنازی یہودیوں کی بڑی تعداد، جو دنیا کے طاقتور یہودیوں، اسرائیل کے لیڈروں اور مغربی یہودی کمیونٹیز میں غالب ہے، انہی خزر قوم کی نسل سے مانی جاتی ہے۔
نتیجہ:
آج بہت سے ایسے یہودی لیڈر، سیاستدان اور سرمایہ دار خود کو "بنی اسرائیل" کہتے ہیں، مگر ان کا حقیقی نسلی تعلق بنی اسرائیل کی خالص اولاد سے نہیں ہے بلکہ مذہبِ یہودیت قبول کرنے یا خزر نسل کی بنیاد پر وہ یہودی کہلاتے ہیں۔
لہٰذا، یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ "یہودی" ہونا اور "بنی اسرائیل" کی اصل نسل سے ہونا، دونوں میں فرق موجود ہے۔ اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق اصل معیار نسب نہیں بلکہ ایمان، کردار اور عمل ہے۔

اسرائیل کا وجود






کیا اسرائیل امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

دنیا کی سیاسی بساط پر اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ضرور ہے، مگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی نے اسے اتنی اہمیت اور تحفظ دے رکھا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ناقابلِ نظرانداز حقیقت بن چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اور یورپی ممالک اپنی سیاسی، عسکری اور معاشی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں تو کیا اسرائیل اپنا وجود، طاقت اور اثرورسوخ برقرار رکھ سکے گا؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی مغربی طاقتوں کی سرپرستی سے رکھی گئی تھی۔ 1917 میں برطانوی بالفور اعلامیہ اور 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 مغربی حمایت کی واضح مثالیں ہیں۔ آج بھی، اسرائیل کی سلامتی اور ترقی میں امریکہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو مختلف شکلوں میں 150 billion ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جس میں عسکری، اقتصادی اور تکنیکی تعاون شامل ہے۔

یورپی ممالک اگرچہ دفاعی میدان میں امریکہ جتنے سرگرم نہیں، مگر اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی منڈی یورپ ہی ہے۔ EU-Israel Association Agreement کے تحت اسرائیلی مصنوعات کو یورپ میں خصوصی رسائی حاصل ہے، جبکہ امریکہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کی بدولت اسرائیل کی معیشت مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔

لیکن اسرائیل کی کامیابی صرف مغربی مدد پر نہیں بلکہ اس کی اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھی ہے۔ اسرائیل کو "Start-Up Nation" کہا جاتا ہے، اس کی ٹیکنالوجی، زراعت اور دفاعی صنعت دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ آئرن ڈوم میزائل سسٹم اور مرکاوہ ٹینک اس کی دفاعی خود انحصاری کی علامت ہیں، مگر ان کی تیاری اور ترقی میں بھی امریکہ کی مالی اور تکنیکی مدد شامل ہے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 billion ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے، جس کے بغیر اسرائیل کی دفاعی برتری قائم رکھنا ممکن نہیں۔

سفارتی سطح پر اگر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو نہ کرے تو اسرائیل کو عالمی پابندیوں، قانونی کارروائیوں اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران، حزب اللہ اور حماس جیسے دشمن پہلے ہی اسرائیل کی کمزوری کی تاک میں ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد اسرائیل کے لیے ڈھال کا کام دیتی ہے۔

اسرائیل کے پاس مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اس کی معیشت مستحکم ہے، فی کس آمدنی کئی مغربی ممالک کے برابر ہے، اور اس کی فوج تجربہ کار اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ مغربی ممالک کی مدد کے بغیر برقرار رکھا جا سکتا ہے؟

ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مغربی ممالک کی حمایت ختم ہونے کی صورت میں اسرائیل کو سخت چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اسرائیل کی برآمدات متاثر ہوں گی، غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو جائے گی، عسکری برتری خطرے میں پڑ جائے گی اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں اسرائیل تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔

کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل خود کفالت کی طرف بڑھ سکتا ہے، مگر اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور یہ راستہ آسان نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کی معاشی، عسکری اور سفارتی طاقت بڑی حد تک امریکہ اور یورپی ممالک کی مرہونِ منت ہے۔

لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل اپنی بقا کی جنگ خود ضرور لڑ سکتا ہے، مگر کامیابی، سلامتی اور عالمی اثرورسوخ کے لیے اسے امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل کی اصل طاقت اس کے ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ واشنگٹن اور برسلز کی سیاسی حمایت ہے، اور یہ حمایت ختم ہوتے ہی اسرائیل کو اپنی بقاء کے سوال کا عملی جواب ڈھونڈنا پڑے گا۔
اسرائیل اگرچہ عسکری اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط نظر آتا ہے، مگر امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد کے بغیر   
اس کی عالمی حیثیت، سلامتی اور ترقی کا موجودہ نقشہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ 
صرف ایران ہی اسے چند ہفتوں میں دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کیا اہلیت رکھتا ہے
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

اصول یا سیاسی نعرہ





دوہزار اٹھارہ 
 کا سال تھا، پاکستان تحریکِ انصاف اقتدار کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ عمران خان، جو خود کو تبدیلی کا علمبردار اور کرپشن کے خلاف سب سے بڑا سپاہی قرار دے چکے تھے، اس وقت کے اہم سیاسی رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" قرار دے رہے تھے۔ اسی تسلسل میں عمران خان نے باقاعدہ ایک درخواست قومی احتساب بیورو (نیب) اور اسٹیٹ بینک کو دی، جس میں پرویز الٰہی اور ان کے بھائی پر 240 ملین روپے کا قرض سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے معاف کروانے کا الزام تھا۔ یہ قرض پنجاب شوگر ملز کے نام پر لیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر چوہدری خاندان کی ملکیت تھی۔

عمران خان کا مؤقف بڑا واضح تھا: کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہی "پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو" نہ صرف ان کا اتحادی بنا بلکہ پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب بھی تحریکِ انصاف کے تعاون سے منتخب ہوا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
اگر پرویز الٰہی واقعی کرپشن میں ملوث تھے، تو پھر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی گئی؟
اور اگر وہ بے قصور تھے، تو پھر انہیں "ڈاکو" کیوں کہا گیا؟

یہ تضاد صرف ایک شخص یا ایک معاملے تک محدود نہیں۔ یہ اس بڑے تضاد کی علامت ہے جو عمران خان کی سیاست اور ان کے احتسابی بیانیے میں شروع سے چلا آ رہا ہے۔ احتساب کا نعرہ ایک دلکش سیاسی داؤ ضرور تھا، لیکن عمل کے میدان میں وہ نعرہ کہیں پیچھے رہ گیا۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جس احتساب کی امید عوام کو دلائی گئی تھی، وہ جلد ہی سیاسی جوڑ توڑ، مفادات اور وقتی اتحادوں کی نذر ہو گئی۔ وہی لوگ جو کل تک کرپشن کی علامت تھے، آج حکومت کا حصہ بنے نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ عمران خان کا احتسابی بیانیہ دراصل ایک سیاسی ہتھیار تھا — اصولی مؤقف نہیں۔

پرویز الٰہی کیس صرف ایک مثال ہے، لیکن یہ مثال ایک بہت بڑی سچائی کی نشاندہی کرتی ہے:
"نعرے ہمیشہ اصولوں پر نہیں، بلکہ وقتی فائدوں پر لگائے جاتے ہیں۔"

عمران خان کے احتسابی بیانیے نے اس ملک کے نوجوانوں کو خواب دکھائے، لیکن جب خواب حقیقت سے ٹکرائے، تو سچ یہ سامنے آیا کہ احتساب صرف ایک سیاسی نعرہ تھا — نہ کوئی مکمل احتساب ہوا، نہ کسی بڑے مافیا کو انجام تک پہنچایا گیا۔

عمران خان اگر واقعی احتساب کو اصول بناتے، تو پرویز الٰہی جیسے کردار کبھی اقتدار کے سنگھاسن پر نہ بیٹھتے۔ مگر افسوس، تبدیلی کے نعرے صرف جلسوں تک محدود رہے اور عملی سیاست میں وہی پرانے چہرے، وہی پرانے کھیل جاری رہے۔

عوام اب سوال پوچھ رہے ہیں:
کیا احتساب صرف سیاسی مخالفین کے لیے ہوتا ہے؟
کیا اتحادیوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں؟
کیا "نیا پاکستان" محض ایک خواب تھا؟

وقت گواہ ہے کہ جو لوگ احتساب کی بات کرتے ہیں، ان کے عمل ہی اصل گواہی ہوتے ہیں۔
اور بدقسمتی سے عمران خان کے عمل نے خود ان کے نعرے کی نفی کی۔

جمعرات، 10 جولائی، 2025

ٹرمپ کا مخالف نوجوان





زوہران ممدانی — موجودہ امریکی صدر کی آنکھ میں کھٹکنے والا نوجوان سیاستدان

آج جب دنیا بھر میں انتہا پسندی، نسل پرستی اور امیگریشن مخالف جذبات کو سیاسی طاقت حاصل ہو رہی ہے، ایسے میں نیویارک شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاستدان زوہران ممدانی ایک توانا اور جرات مند آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ زوہران ممدانی نہ صرف ترقی پسند سیاست کی علامت ہیں بلکہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہیں جس کی قیادت فی الوقت خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔

زوہران ممدانی 30 اپریل 1991 کو یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، پروفیسر محمود ممدانی، دنیا بھر میں معروف سیاسی مفکر اور اسکالر ہیں، جن کا تعلق بھارتی نژاد اسماعیلی مسلمان خاندان سے ہے۔ محمود ممدانی نے نو آبادیاتی تاریخ، افریقی سیاست اور شناخت کے موضوعات پر گہری تحقیق کی ہے اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

زوہران کی والدہ، میرا نائر، عالمی شہرت یافتہ بھارتی فلم ساز ہیں، جو بھارت کے صوبے اوڑیسہ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی فلمیں، جیسے سلام بمبئی، من سون ویڈنگ اور دی نیم سیک، نہ صرف عالمی فلمی میلوں میں سراہا جا چکی ہیں بلکہ ان میں سماجی مسائل، شناخت اور انسانیت کا درد نمایاں نظر آتا ہے۔

زوہران ممدانی نے بچپن سے ہی ایک کثیرالثقافتی اور وسیع سوچ رکھنے والے ماحول میں پرورش پائی۔ وہ مذہبی طور پر خود کو مسلمان کہتے مگرسیکولر سوچ کے حامل ہیں۔ انہیں انگریزی، ہسپانوی، اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں پر عبور حاصل ہے، جو انہیں نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں عوام کے قریب تر لے آتی ہے۔

2020
 میں زوہران ممدانی نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے حلقہ 36 (آسٹوریا کوئنز) سے انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری میں اس وقت کی رکن اسمبلی اراویلا سیموتاس کو شکست دی۔ اراویلا کا تعلق یونانی نژاد آرتھوڈوکس عیسائی کمیونٹی سے تھا اور وہ یونانی کمیونٹی میں خاصی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔

زوہران نے کرایہ داروں کے حقوق، سستی رہائش، مفت صحت کی سہولیات، پولیس اصلاحات اور تارکین وطن کے لیے آواز بلند کی، جس نے انہیں نوجوانوں اور ترقی پسند حلقوں میں بے حد مقبول بنا دیا۔

زوہران ممدانی کے مؤقف خاص طور پر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ 
(ICE)
 کی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف سخت موقف نے انہیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھ میں کھٹکنے والی شخصیت بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف زوہران کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں کھلے عام گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔

ٹرمپ نے کہا کہ اگر زوہران ممدانی 
ICE
 کی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ اس دھمکی کے جواب میں زوہران نے سوشل میڈیا پر دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا:

"صدر ٹرمپ نے مجھے اس لیے گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ میں قانون توڑ رہا ہوں؟ نہیں! بلکہ اس لیے کہ میں 
ICE
 کو ہمارے شہر میں دہشت پھیلانے سے روکنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ ان کے بیانات نہ صرف ہماری جمہوریت پر حملہ ہیں بلکہ وہ ہر نیویارکر کے لیے انتباہ ہیں کہ اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کو خاموش کروانے آئیں گے۔ ہم اس دھونس کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔"

زوہران کا یہ جرات مندانہ جواب محض ایک فرد کی طرف سے نہیں بلکہ نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر کی اجتماعی سوچ اور مزاحمت کی عکاسی ہے، جہاں لاکھوں تارکین وطن رہتے ہیں اور جہاں خوف کی سیاست کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔

زوہران ممدانی آج صرف نیویارک کے ایک حلقے کے نمائندے نہیں، بلکہ وہ ان نوجوان ترقی پسند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کی انتہا پسند، نسل پرست اور امیگریشن مخالف سیاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کا تعلق بائیں بازو کی اس نئی نسل سے ہے جو سرمایہ دارانہ جبر، نسل پرستی اور خوف کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔

موجودہ امریکہ جہاں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں واضح طور پر امتیازی ہیں، وہاں زوہران ممدانی جیسے نوجوان سیاستدان ایک امید کی کرن ہیں، جو نہ صرف مظلوموں کی آواز بنے ہیں بلکہ جمہوریت، مساوات اور انسان دوستی کی جنگ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔


اسرائیلی اسلحہ اور امریکہ



عنوان: امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے اسرائیلی بندوق تک


ایک عام امریکی شہری جب تنخواہ کا چیک وصول کرتا ہے، تو اسے شاید یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی محنت کی کمائی کا ایک حصہ کہیں مشرق وسطیٰ میں کسی F-35 طیارے، JDAM بم یا آئرن ڈوم میزائل کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے — اور وہ بھی ایک ایسی ریاست کے لیے جو دنیا کے ایک حساس ترین خطے میں مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے اسرائیل کی، اور اس کی عسکری طاقت کو سہارا دینے والے سب سے بڑے عالمی مالی مددگار، یعنی امریکہ کی۔
اسرائیل کا قیام اور امریکی آشیرباد

1948
 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہی امریکہ نے اسے تسلیم کیا اور چند ہی برسوں میں اسے معاشی و عسکری امداد دینا شروع کر دی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امداد ایک "تحفہ" سے بڑھ کر "معاہدہ" بن گئی — ایسا معاہدہ جو ہر امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا ستون بنایا۔ اندازہ کریں کہ اب تک امریکہ، اسرائیل کو تقریباً 297 سے 310 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، اور یہ رقم امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی امداد بن چکی ہے۔
2016
 کا تاریخی دفاعی معاہدہ

اوباما دور میں
 2016
 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک یادداشتِ
(MoU) 
پر دستخط ہوئے، جس کے تحت امریکہ 2028 تک ہر سال 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کو مہیا کرے گا — جس میں 33 ارب ڈالر ہتھیاروں کے لیے اور 5 ارب میزائل ڈیفنس سسٹمز کے لیے مختص ہیں۔ یہ رقم امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے نکلتی ہے، اور براہ راست اسرائیلی وزارت دفاع کے کام آتی ہے۔
اسرائیلی اسلحے کی امریکی فیکٹری

اسرائیل آج جو جدید عسکری طاقت رکھتا ہے، اس میں امریکہ کا براہ راست کردار ہے۔
 F-35
 اسٹیلتھ طیارے، آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام، ڈیوڈز سلنگ، ایرو میزائل، 
Apache
ہیلی کاپٹرز، اور جدید بم — سب امریکی فنڈنگ سے خریدے یا تیار کیے گئے ہیں۔ صرف آئرن ڈوم کے لیے امریکہ 2.6 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اسرائیل کو دی جانے والی امداد میں سے 26 فیصد رقم وہ اپنے ملک میں خرچ کر سکتا ہے — جس سے اس کی دفاعی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔
حالیہ جنگیں، فوری امداد
اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے لے کر جولائی 2025 تک، امریکہ نے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی — جو تاریخ کی سب سے بڑی سالانہ رقم ہے۔ مزید برآں، وائٹ ہاوس نے 2025 میں 8 ارب ڈالر کے اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں میزائل، توپیں، اور Hellfire
میزائل شامل تھے۔

تنقید اور سوالات
امریکی امداد پر سوال اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ ان اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی ضروریات سے چھینا جا رہا ہے جو امریکی عوام کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید یہ کہ یہ امداد ان جنگوں کو طاقت دیتی ہے جن میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا بارہا اس پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں — مگر امریکہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
نتیجہ: بندوق اور ضمیر کا حساب

اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد، صرف ایک سفارتی یا دفاعی تعلق نہیں، بلکہ یہ اس عالمی ضمیر کا امتحان ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت، اور انصاف کی بات کرتا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ ان کی محنت کی کمائی آخر کس کے ہاتھوں میں جا رہی ہے — اور کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، یہ اخلاقیات، اصولوں اور عالمی امن کی بات ہے۔ بندوق کی نالی سے نکلنے والی ہر گولی کا حساب صرف فائر کرنے والے کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ اس کو خریدنے والے کے ضمیر میں بھی محفوظ ہوتا ہے۔
کیا امریکی عوام کو معلوم ہے کہ ان کا پیسہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے؟
کیا کانگریس نے امداد کے اس بہاؤ پر کبھی جامع آڈٹ کرایا ہے؟
کیا کسی فلسطینی کی موت کا بوجھ امریکی ووٹر پر بھی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں ودنیا بھر میں پوچھے جا رہے ہیں