جمعرات، 26 جون، 2025
سوچ کا فرق
موساد اور را کی ملی بھگت
ایرانی انٹیلی جنس نظام کو دنیا میں ایک سخت گیر اور فعال نیٹ ورک سمجھا جاتا رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس ساکھ پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی را، ایران کے دل میں گھس چکی ہیں اور بظاہر ناقابلِ رسائی سمجھے جانے والے اداروں کی دیواریں لرز چکی ہیں۔
حالیہ انکشافات کے مطابق، اسرائیل نے ایرانی ایئر فورس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی وقت میں نشانہ بنایا، اور اس کارروائی میں سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ موساد کو ایرانی افسروں کی میٹنگ کی درست مدت اور مقام کی مکمل معلومات حاصل تھیں۔ اس حد تک رسائی، کسی عام انٹیلی جنس کارنامے سے بڑھ کر، ایران کے داخلی نظام میں موجود دراڑوں کی عکاسی ہے۔
یہ واحد واقعہ نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ایک اسرائیلی خفیہ افسر کی جانب سے براہِ راست ایک ایرانی جنرل کو فون کر کے دھمکیاں دینا اور اس گفتگو کی آڈیو کا عالمی میڈیا میں آ جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ذاتی رابطہ نمبرز تک موساد کی رسائی ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ موساد ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ تشویش اس بات پر ہے کہ ایران کا دفاعی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک اس سب کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آ رہا ہے۔
اگر ہم اس تمام صورتحال کی تہہ میں جائیں تو ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے جسے ایران کے حکام یا میڈیا زیادہ اجاگر نہیں کرتے، اور وہ ہے بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کا اس ساری کہانی میں کردار۔ چاہ بہار بندرگاہ پر بھارتی موجودگی اور اس کے خفیہ مراکز اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اطلاعات یہی ہیں کہ را، موساد کو مکمل معلومات اور زمینی مدد فراہم کرتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند گروپ، افغان دہشتگرد عناصر اور خطے میں موجود دیگر مخالفین کو بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ ایران کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔
اس تمام پس منظر میں ایران کے نیوکلیئر سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ اور حساس فوجی ٹھکانوں پر حملے، محض اتفاق نہیں، بلکہ دشمن کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ اس وقت ایران کے لیے سب سے بڑا خفیہ خطرہ بن چکا ہے، جس سے صرف طاقتور بیانات، انقلابی نعروں یا بیرونی الزامات کے ذریعے بچا نہیں جا سکتا۔
حقیقت یہی ہے کہ ایران کو اب اپنی انٹیلی جنس مشینری میں بنیادی اصلاحات، داخلی صفائی، ٹیکنالوجیکل بہتری اور قومی سلامتی کے ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ دوست نما دشمنوں سے بھی ہوشسیار رہنا ہو گا۔
بدھ، 25 جون، 2025
مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنے والا منظم پروپیگنڈہ
روایات کو مایوسی کا ذریعہ نہیں، بیداری اور عملی اقدام کا پیغام سمجھیں۔ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی آمد پر ایمان رکھیں، مگر اس سے پہلے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں، ورنہ تاریخ ہمیں کمزور قوموں کی صف میں دفن کر دے گی۔
"میں اس قوم سے ڈرتا ہوں جو دشمن سے پہلے خود شکست کھا چکی ہو۔"
مسلمانوں کو احساس کرنا ہوگا
اسلام زبانی کلامی دعووں کو اہمیت نہیں دیتا ۔ صرف عمل کو پرکھتا ہے ۔ جہاد دنیا کا عظیم ترین عمل ہے مگر جہاد کی حقیقت یہ ہے یہ ریاست کے زیر انتظام اور منظم ہو ، پانیوں پر مامور لوگ اپنا کام کریں، فضاوں اور امین کی حفاطت کرنے والے اپنا کام کریں ، تعلیم دینے والے اپنے کام سے مخلص رہیں ، میڈیا والے خبروں اور معلومات کی تحقیق کا فریضہ انجام دیں ، منصف انصاف کریں ، عوام اپنا اپنا فریضہ وقت پر اور ذمہ داری سے ادا کریں ۔ اور یہ سب حکومت وقت کے ہدائت ہو، جمہوری معاشروں میں حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، حکمران کسی بھی جماعت کا ہو اس کی پیروی اور اتباع میں ہی ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔
پروپیگندہ اور سوشل میڈیا سے متاثر نہ ہوں ۔ اپنے حصے کا کام جہاد سمجھ کر کریں ، ، منظم رہیں ، دوسروں کے لیے اسانیاں پیدا کریں وہ وقت آ چکا ہے جب مایوسی اور غلط فہمیوں کی دھند چھٹنے والی ہے ۔
دنیا کے ایک بہادر ، نڈر، میدان کے فاتح اور عظیم حکمران
عمر بن خطاب کا قول یاد رکھیں
"میں اس قوم سے ڈرتا ہوں جو دشمن سے پہلے خود شکست کھا چکی ہو۔"
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
"مایوسی سب سے بڑی کمزوری ، اور امید سب سے بڑی طاقت۔"