جمعرات، 26 جون، 2025

سوچ کا فرق


دبئی میں برج خلیفہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی اب سعودی عرب میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت بنانے کی بات ہورہی ہے۔
دوبئی میں ایسی عمارتیں بن رہی ہیں جن کی قیمت چھ ملین ڈالر تک ہے ان میں چاندی اور سونے کے نلکے اور ہیرے لگے ہیں، لباس کو چھوڑیں صرف عطر کی ایک بوتل ملین ڈالر میں بکتی ہے۔ کسی کی چھت پر ہیلی پیڈ ہے، تو کسی کے گیراج میں رولز رائس کی قطاریں کھڑی ہیں۔ قطر سے بحرین اور ریاض سے ابوظہبی تک، تعمیرات کی چمک دمک اور شاہانہ طرزِ زندگی دنیا کو دکھائی دیتی ہے۔ قاہرہ اور اسلام آباد بھی پیچھے نہیں ہیں ۔
اب ذرا مغرب کی طرف نگاہ ڈالیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ دس ڈاؤننگ اسٹریٹ، جو باہر سے دیکھیں تو لندن کے عام مکانوں میں گم ہو جاتی ہے۔ جرمنی کی سابق چانسلر اینگیلا مرکل کا معمولی فلیٹ اور ان کا پبلک ٹرین پر سفر معمول رہا۔ امریکہ میں دنیا کے امیر ترین افراد، جیسے مارک زکربرگ یا ایلون مسک، اکثر سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی دولت تحقیق، خلائی پروگرامز اور نئی ٹیکنالوجی پر لگا دیتے ہیں۔ ان کے ملکوں میں نہ سونے کے نلکے عام ہیں، نہ ہر عمارت محل جیسی۔ لیکن علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاع میں وہ دنیا کی صفِ اول میں ہیں۔
یہ فرق راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ یورپ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کبھی وہ بھی جہالت، تعصب اور خانہ جنگیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ قرونِ وسطیٰ میں ان کے چرچ اندھی عقیدت کے مرکز تھے، علم و سائنس کو کفر سمجھا جاتا تھا، اور معاشرے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
اسی دور میں مسلمان دنیا جگمگا رہی تھی۔ بغداد کی درسگاہیں، دمشق کی یونیورسٹیاں، قاہرہ کی لائبریریاں، اندلس کی درس و تدریس، اور خلافت عثمانیہ کی طاقت و تنظیم، دنیا بھر میں مسلمانوں کی علمی، سائنسی اور تہذیبی برتری کا نشان تھیں۔
پھر ہم نے علم چھوڑا، تحقیق بھلا دی، فرقہ واریت اور لسانیت میں الجھ گئے۔
ہم نے وہی غلطیاں دہرائیں جو یورپ نے قرونِ وسطیٰ میں کی تھیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ انیس سو اٹھارہ میں شام اور بغداد بکھر گئے۔ انیس سو انیس میں مصر غیرملکی تسلط کا شکار ہوا۔ انیس سو چوبیس میں خلافت عثمانیہ ختم کر دی گئی۔
وقت کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ، پر تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوئےتھے
امریکہ کا صرف ایک بی ٹو اسٹیلتھ بمبار طیارہ، دو ارب دس کروڑ میں بنا۔
اسرائیل، جس کا قیام انیس سو اڑتالیس میں ہوا، سائنس، زراعت، دفاع اور ٹیکنالوجی میں دنیا سے آگے نکل چکا ہے۔
ان میں اور ہم میں فرق کیا ہے ؟
وہ لیبارٹریاں بناتے ہیں، ہم محل۔ وہ سائنسدان پیدا کرتے ہیں، ہم کلرک
وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، ہم ماضی پر فخر۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

موساد اور را کی ملی بھگت

 



ایرانی انٹیلی جنس نظام کو دنیا میں ایک سخت گیر اور فعال نیٹ ورک سمجھا جاتا رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس ساکھ پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی را، ایران کے دل میں گھس چکی ہیں اور بظاہر ناقابلِ رسائی سمجھے جانے والے اداروں کی دیواریں لرز چکی ہیں۔

حالیہ انکشافات کے مطابق، اسرائیل نے ایرانی ایئر فورس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی وقت میں نشانہ بنایا، اور اس کارروائی میں سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ موساد کو ایرانی افسروں کی میٹنگ کی درست مدت اور مقام کی مکمل معلومات حاصل تھیں۔ اس حد تک رسائی، کسی عام انٹیلی جنس کارنامے سے بڑھ کر، ایران کے داخلی نظام میں موجود دراڑوں کی عکاسی ہے۔

یہ واحد واقعہ نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ایک اسرائیلی خفیہ افسر کی جانب سے براہِ راست ایک ایرانی جنرل کو فون کر کے دھمکیاں دینا اور اس گفتگو کی آڈیو کا عالمی میڈیا میں آ جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ذاتی رابطہ نمبرز تک موساد کی رسائی ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ موساد ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ تشویش اس بات پر ہے کہ ایران کا دفاعی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک اس سب کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آ رہا ہے۔

اگر ہم اس تمام صورتحال کی تہہ میں جائیں تو ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے جسے ایران کے حکام یا میڈیا زیادہ اجاگر نہیں کرتے، اور وہ ہے بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" کا اس ساری کہانی میں کردار۔ چاہ بہار بندرگاہ پر بھارتی موجودگی اور اس کے خفیہ مراکز اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اطلاعات یہی ہیں کہ را، موساد کو مکمل معلومات اور زمینی مدد فراہم کرتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند گروپ، افغان دہشتگرد عناصر اور خطے میں موجود دیگر مخالفین کو بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ ایران کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔

اس تمام پس منظر میں ایران کے نیوکلیئر سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ اور حساس فوجی ٹھکانوں پر حملے، محض اتفاق نہیں، بلکہ دشمن کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ اس وقت ایران کے لیے سب سے بڑا خفیہ خطرہ بن چکا ہے، جس سے صرف طاقتور بیانات، انقلابی نعروں یا بیرونی الزامات کے ذریعے بچا نہیں جا سکتا۔

حقیقت یہی ہے کہ ایران کو اب اپنی انٹیلی جنس مشینری میں بنیادی اصلاحات، داخلی صفائی، ٹیکنالوجیکل بہتری  اور قومی سلامتی کے ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ دوست نما دشمنوں سے بھی ہوشسیار رہنا ہو گا۔


بدھ، 25 جون، 2025

مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنے والا منظم پروپیگنڈہ




مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنے والا منظم پروپیگنڈہ:

امتِ مسلمہ اس وقت جن مشکلات، شکست و ریخت اور باہمی اختلافات کا شکار ہے، اس کی وجوہات میں ایک اہم عنصر ایسا پراپیگنڈہ ہے جو مسلمانوں کو شعوری یا غیر شعوری طور پر مایوسی، بے عملی اور مرعوبیت کی طرف دھکیلتا ہے۔ اس منظم ذہن سازی میں مذہبی روایات، احادیث اور یہودی مذہبی حوالہ جات کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان دشمن کی طاقت کو ناقابلِ شکست سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنے کردار، ذمہ داری اور جدوجہد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم ان تمام روایات، احادیث اور یہودی عقائد کا تحقیقی جائزہ لیں گے جنہیں بنیاد بنا کر مسلمانوں میں مایوسی پیدا کی جاتی ہے اور پھر یہ واضح کریں گے کہ دینِ اسلام اور تاریخِ امت کا اصل پیغام کیا ہے۔

حدیثِ جابر بن عبداللہؓ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کریں گے، یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپیں گے اور درخت اور پتھر کہیں گے: 'اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آؤ اسے قتل کرو۔' سوائے 'غرقد' درخت کے کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الفتن، حدیث: 2922)
تحقیقی تجزیہ:
یہ حدیث مسلمانوں کو مستقبل کی ایک پیش گوئی کے طور پر بتاتی ہے کہ ظلم کے خلاف آخری معرکہ برپا ہوگا، لیکن اس میں مسلمانوں کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کا حکم نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد اور باطل کے خلاف کھڑا ہونے کی تیاری کی طرف اشارہ ہے۔

سنن ابوداؤد کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مہدی میری امت میں سے ہوں گے... وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے یہ ظلم اور جَور سے بھری ہوگی۔"
(سنن ابوداؤد، کتاب المہدی، حدیث: 4282)

"عیسیٰ ابن مریمؑ نازل ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ ختم کر دیں گے..."
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، حدیث: 3448)
ان روایات کا مقصد امت کو امید دینا اور یہ باور کرانا ہے کہ ظلم و فساد کا خاتمہ یقینی ہے، مگر یہ کہنا کہ اس سے پہلے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں، سراسر دین کی غلط تعبیر ہے۔

قرآن میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو امید، صبر، اور جدوجہد کی تلقین کی گئی ہے:
 سورۃ الزمر (آیت: 53):
"کہہ دو: اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، یقیناً وہ بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔"

 سورۃ النساء (آیت: 75):
"اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی کارساز بنا اور کوئی مددگار بنا۔"
3. یہودی مذہبی روایات اور عالمی منصوبہ بندی:

یہودیوں کی مذہبی کتابوں میں ایسے حوالہ جات موجود ہیں جو ان کے قومی عزائم اور دنیا پر غلبے کے خواب کو ظاہر کرتے ہیں:
۔ تورات کے اقتباسات:
Genesis 15:18:
"اس دن خداوند نے ابرام سے عہد باندھا، کہ میں تیری نسل کو یہ زمین دوں گا، دریائے مصر سے لے کر دریائے فرات تک۔"
یہ وہی نظریہ ہے جسے 'گریٹر اسرائیل' یا 'ارضِ موعود' کی صورت میں آج کے یہودی حکمران اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔
۔ تلمود کی تعلیمات:
Sanhedrin 98a:
"دنیا اسی وقت اپنے مقصد کو پہنچے گی جب ہمارا مسیح
 (Messiah)
 آئے گا اور بنی اسرائیل کو دنیا کی قیادت دے گا۔"

Talmud Baba Bathra 75a
"جب مسیح آئے گا تو تمام غیر قومیں بنی اسرائیل کی خدمت کریں گی۔"
۔ صیہونی دستاویزات:

The Protocols of the Elders of Zion:
اگرچہ اس کتاب کی اصالت پر مختلف آراء ہیں، لیکن اس میں بیان کردہ نکات — جیسے کہ میڈیا پر کنٹرول، معیشت پر قبضہ، اقوام میں تفرقہ ڈالنا — آج کے حالات میں عملی طور پر نظر آتے ہیں۔
 مایوسی پیدا کرنے کا نفسیاتی اور فکری تجزیہ:

دشمن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان ہی کی مذہبی روایات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے:
 انہیں کمزور، مجبور اور بے بس باور کرایا جائے۔
 دشمن کی طاقت کو ناقابلِ شکست ثابت کیا جائے۔
 امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کی آمد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ اس سے پہلے کی تمام جدوجہد بے سود نظر آئے۔
 مسلمانوں کو تعلیم، معیشت، سیاست، دفاع اور میڈیا جیسے اہم شعبوں سے لاتعلق رکھا جائے۔
یہ تکنیک صرف مذہبی پلیٹ فارم تک محدود نہیں بلکہ عالمی میڈیا، فلموں، ڈراموں، اور تعلیمی نظام کے ذریعے مسلسل پھیلائی جا رہی ہے۔
 اسلامی تاریخ میں عملی جدوجہد کی مثالیں:
اگر امتِ مسلمہ صرف مہدی یا عیسیٰ علیہما السلام کی آمد کا انتظار کرتی، تو:
 بدر، اُحد اور خندق کے معرکے نہ ہوتے۔
 حضرت عمرؓ کے دور میں ایران و روم کی سلطنتیں نہ گرتیں۔
 صلاح الدین ایوبیؒ بیت المقدس آزاد نہ کرواتے۔
 سلطنت عثمانیہ پانچ صدیوں تک دنیا میں طاقتور ترین نہ رہتی۔
یہ تمام کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان ہر دور میں جدوجہد اور تدبیر کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔

مذہبی روایات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا، دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، اور مسلمانوں کو بے عملی کی تعلیم دینا، ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جو یہودی فکری یلغار اور مسلم دنیا کے مخصوص طبقات کی لاعلمی سے تقویت پاتا ہے۔

 روایات اور احادیث کو مکمل پس منظر کے ساتھ سمجھیں۔
 امت میں علم، سیاسی شعور اور عملی جدوجہد کو فروغ دیں۔
 میڈیا، معیشت اور دفاع جیسے شعبوں میں خود انحصاری پیدا کریں۔
 دشمن کی چالوں کا شعور اور دانشمندی سے مقابلہ کریں۔

روایات کو مایوسی کا ذریعہ نہیں، بیداری اور عملی اقدام کا پیغام سمجھیں۔ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی آمد پر ایمان رکھیں، مگر اس سے پہلے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں، ورنہ تاریخ ہمیں کمزور قوموں کی صف میں دفن کر دے گی۔


"میں اس قوم سے ڈرتا ہوں جو دشمن سے پہلے خود شکست کھا چکی ہو۔" 

مسلمانوں کو احساس کرنا ہوگا 

اسلام زبانی کلامی دعووں کو اہمیت نہیں دیتا ۔ صرف عمل کو پرکھتا ہے ۔ جہاد دنیا کا عظیم ترین عمل ہے مگر جہاد کی حقیقت یہ ہے یہ ریاست کے زیر انتظام اور منظم ہو ، پانیوں پر مامور لوگ اپنا کام کریں، فضاوں اور امین کی حفاطت کرنے والے اپنا کام کریں ، تعلیم دینے والے اپنے کام سے مخلص رہیں ، میڈیا والے خبروں اور معلومات کی تحقیق کا فریضہ انجام دیں ، منصف انصاف کریں ، عوام اپنا اپنا فریضہ وقت پر اور ذمہ داری سے ادا کریں ۔ اور یہ سب حکومت وقت کے ہدائت ہو، جمہوری معاشروں میں حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، حکمران کسی بھی جماعت کا ہو اس کی پیروی اور اتباع میں ہی ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔ 

پروپیگندہ اور سوشل میڈیا سے متاثر نہ ہوں ۔ اپنے حصے کا کام جہاد سمجھ کر کریں ، ، منظم رہیں ، دوسروں کے لیے اسانیاں پیدا کریں وہ وقت آ چکا ہے جب مایوسی اور غلط فہمیوں کی دھند چھٹنے والی ہے ۔

 دنیا کے ایک بہادر ، نڈر، میدان کے فاتح  اور عظیم حکمران 

عمر بن خطاب کا قول یاد رکھیں

"میں اس قوم سے ڈرتا ہوں جو دشمن سے پہلے خود شکست کھا چکی ہو۔" 

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

"مایوسی سب سے بڑی کمزوری ، اور امید سب سے بڑی طاقت۔"

پاکستان، مشرق وسطیٰ اور عالمی امن





پاکستان، مشرق وسطیٰ اور عالمی امن 

پاکستان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، جو دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے پر بعض حلقوں نے بلاوجہ شور مچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی یہ نامزدگی محض کسی شخصیت کی حمایت نہیں بلکہ عالمی امن کی مسلسل کوششوں کا تسلسل ہے، جس میں سعودی عرب، چین اور پاکستان مشترکہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین نے نہ صرف خطے بلکہ مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے اور امن کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ہو یا فلسطین کے مسئلے پر بیک چینل سفارت کاری، چین، پاکستان اور سعودی عرب کی کوششیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
پاکستان نے سفارتی محاذ پر بار بار دنیا کو باور کروایا کہ جنگ اور نفرت کی سیاست کے بجائے امن، محبت اور ترقی کی راہ اپنائی جائے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں جو مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان میں چین کی سفارت کاری اور پاکستان کی قائل کرنے کی صلاحیت کا نمایاں حصہ ہے۔
اگر اسرائیل، عالمی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں غزہ میں ظلم بند کرتا ہے، فلسطینیوں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور خطے میں مستقل امن قائم ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف ٹرمپ کو نہیں بلکہ محمد بن سلمان کو بھی جاتا ہے۔ دونوں نے براہِ راست اور بالواسطہ ایسے اقدامات کیے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں مستقل امن کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
دنیا میں اب واضح تقسیم ہے۔ ایک طرف جنگ، نفرت اور توسیع پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر ہیں، دوسری طرف چین، پاکستان، سعودی عرب اور دیگر امن پسند ممالک ہیں جو دنیا کو ترقی، استحکام اور انسان دوستی کی راہ پر لانا چاہتے ہیں۔
اگر عالمی برادری نے بروقت درست فیصلے نہ کیے تو اسرائیل اور بھارت جیسے انتہا پسندانہ پالیسیاں رکھنے والے ممالک دنیا کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلیں گے۔ لیکن اگر امن کی کوششیں کامیاب ہوئیں تو نوبل امن انعام صرف ایک شخص نہیں بلکہ اُن تمام قوتوں کا حق ہے جنہوں نے نفرت کی جگہ محبت اور جنگ کی جگہ مذاکرات کو ترجیح دی۔


خامنہ ای کو اندہ نہیں رہنے دین گے




خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے، مگر اس بار حالات کا رخ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران، جو ہمیشہ سے اپنی خودمختاری اور عزتِ نفس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا، ایک بار پھر دنیا کو اپنی طاقت کا احساس دلانے میں کامیاب ہوا ہے۔
چند روز قبل ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے کو میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق، ان حملوں میں تین میزائل انتہائی اہم اہداف پر لگے، جن کے نتیجے میں امریکہ کے بڑے اثاثے تباہ ہوئے۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مگر امریکہ کی دفاعی طاقت اور اثاثوں کو جو دھچکا پہنچا، اس نے واشنگٹن کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
اس تمام صورتحال کے پیچھے اسرائیل کی اشتعال انگیزی اور نیتن یاہو کی جنگ پسندی سب کے سامنے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے قیام کے دن سے اب تک اپنے ہی مانے ہوئے 78 سے زائد جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو آج بھی خطے کو خون میں نہلا رہی ہے۔ نیتن یاہو نہ صرف فلسطین بلکہ ایران میں بھی بدامنی اور بغاوت کی سازشیں کررہا ہے۔
تہران میں اس نے اس جیل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جہاں حکومت مخالف افراد قید ہیں، تاکہ ایران کو اندر سے کمزور کیا جائے۔ خوش قسمتی سے یہ سازش ناکام رہی۔ نیتن یاہو کا اصل مقصد ایران میں "رجیم چینج" کی راہ ہموار کرنا ہے، تاکہ اسرائیل کی اجارہ داری قائم رہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا سربراہ مارا گیا، جس نے نیتن یاہو کو مزید بے چین کردیا ہے۔ اس کا غصہ اب کھلم کھلا امن معاہدوں کو توڑنے اور خطے میں جنگ کا بازار گرم رکھنے پر مرکوز ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس صورتحال پر ایران اور اسرائیل دونوں کو تنبیہ کی ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے زیادہ ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔
ادھر غزہ میں انسانی المیہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ساٹھ افراد شہید ہو چکے ہیں، مگر اس سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تین لاکھ اسی ہزار لاپتہ افراد کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ غزہ اس وقت جدید کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔ پانی، خوراک اور ادویات غزہ کی سرحدوں کے باہر موجود ہیں، مگر اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مارنے کی ٹھان رکھی ہے۔
ایران کے سابق بادشاہ کے وارث رضا پہلوی اس وقت اسرائیل میں پناہ لیے بیٹھے ہیں اور ایران میں اقتدار کا خواب دیکھ رہے ہیں، مگر ایران کی عوام اور اس کی افواج نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ بیرونی سازشوں کے آگے جھکنے والے نہیں۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے بھی اس کشیدہ صورتحال میں امن کی امید جگاتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ رکنے کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ مگر جب تک نیتن یاہو جیسی سوچ خطے میں موجود ہے، امن محض ایک نعرہ ہی رہے گا۔
ایران نے ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ نہ صرف دشمنوں کے وار سہنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ بروقت اور مؤثر جواب دینا بھی جانتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل اور نیتن یاہو کی امن دشمن سوچ پورے خطے کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کی دوغلی پالیسیوں اور مسلسل معاہدہ شکنی کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔