جمعرات، 19 جون، 2025

شام کی کہانی (2)



شام اور اسرائیل — ایک سلگتی سرحد سے آگے کی کہانی

شام اور اسرائیل کا تعلق محض دو ریاستوں کی جغرافیائی کشمکش نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں دھڑکتا ہوا ایک ایسا زخم ہے جو سات دہائیوں سے نہ صرف شام کی قومی روح کو زخمی کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور وحدت کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔ اس تنازعے کی بنیادیں ماضی کی تاریخ میں گہری پیوست ہیں، اور اس کی گونج آج بھی دمشق کی ویران گلیوں، گولان کی خاموش چوٹیوں، اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں میں سنائی دیتی ہے۔
اسرائیل کا قیام — شام کے زخموں کی شروعات
سن 1948 میں جب اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر کے ریاست کے قیام کا اعلان کیا، تو شام ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے سفارتی مخالفت کی تھی اور اس ردعمل کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی اور انسانی رشتہ تھا۔
صدیوں سے فلسطین شام کا حصہ رہا تھا۔ دونوں سرزمینوں کے درمیان خونی رشتے، تجارتی روابط اور روحانی تعلقات موجود تھے۔ فلسطین میں "نقبہ" کے نام پر جو قیامت ٹوٹی، جس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کے اثاثے لوٹے گئے، اور انہیں دربدر کیا گیا — وہ سب کچھ شام کے عوام کے دل میں خنجر کی طرح پیوست تھا۔
شام نے فلسطینیوں سے اخوت اور ہمدردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا۔ اور اعلان کیا کہ اسرائیل کے ۔ اقدامات غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانیں کی کھلی خلاف ورزی ہے
اس موقع پر اسرائیل نے موقف اپنایا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور جو ممالک اس کے وجود کے لیے ان پر
Preemptive strike
کا اسرائیل کو حق حاصل ہے ۔ مغربی ممالک نے اسرائیل کے اس حق کو تسلیم کیا ا یہ وہی حق ہے جو اب اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحیت کر کے
اپنایا ہے ۔
گولان کی پہاڑیاں — دفاعی حصار، قومی غیرت
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ دراصل اسی اجتماعی خوف کا اظہار تھی جس میں عرب دنیا کو یقین ہو چلا تھا کہ اگر آج فلسطین چھینا گیا ہے، تو کل ان کے اپنے دروازے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی حمایت کے سائے تلے شام کے انتہائی اہم علاقے — گولان کی پہاڑیوں — پر قبضہ کر لیا۔ یہ پہاڑیاں محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ شام کے دفاع، آبی وسائل اور عسکری توازن کا مرکز تھیں۔ ان کا چھن جانا شام کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا، جو قومی غیرت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف تھا۔
شام نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں سے انصاف کی اپیل کی، مگر جلد ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اسرائیل مغرب کا وہ لاڈلا ہے جس کے خلاف نہ کوئی قرارداد اثر رکھتی ہے، نہ کوئی قانون۔
اس کے بعد شام نے عراق اور مصر کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جس کا نتیجہ 1973 کی رمضان جنگ کی صورت میں نکلا۔ شامی افواج نے ابتدائی طور پر حیرت انگیز پیش قدمی کی، اور گولان کے کچھ حصے واپس لیے۔ مگر مغربی امداد نے ایک بار پھر اسرائیل کو طاقتور بنا دیا، اور شام کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آج بھی گولان کی پہاڑیاں شام کے لیے صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ قومی غیرت، قدرتی وسائل، اور مسلسل مزاحمت کی علامت ہیں۔
پراکسی جنگیں — خفیہ مداخلت اور کھلا کھیل
انیس سو بیاسی سے دو ہزار چھ تک کا عرصہ شام اور لبنان کی سرزمین پر پراکسی جنگوں کا دور رہا۔ اسرائیل نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف براہِ راست عسکری حملے کیے بلکہ شام کے اندرونی معاملات میں بھی خفیہ مداخلت کی۔
اسرائیل نے بعض شدت پسند جہادی گروہوں کو اسلحہ، انٹیلیجنس اور مالی وسائل فراہم کیے تاکہ شام کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔ یہ چالاک منصوبہ بندی وہ آہستہ زہر تھا جس نے شام کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔
دو ہزار گیارہ میں خانہ جنگی کا آغاز اسرائیل کے لیے ایک نیا موقع بن کر ابھرا۔ ایران، حزب اللہ اور شامی حکومت کو خطرہ قرار دے کر اسرائیل نے درجنوں فضائی حملے کیے۔ ساتھ ہی بعض "معتدل باغی" گروہوں کی حمایت کی گئی، جو بعد میں شدت پسند بن کر ابھرے، مگر اسرائیل اور مغرب کے مفادات کے لیے "کارآمد" ثابت ہوئے۔
اسرائیل کا وتیَرہ ہمیشہ یہی رہا ہے: جو جرم خود کرے، اس کا الزام دوسروں پر لگا دے۔ وہ شام پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے، مگر خود شامی سرزمین پر مسلسل دراندازی، حملے اور پراکسی کھیل کھیلتا رہا ہے۔
نئی قیادت، پرانے سوالات — احمد الشراع کا دور
بشار الاسد کے طویل اقتدار کے بعد 2023 میں احمد الشراع شام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے انتخاب کو مغرب اور اسرائیل نے "نئی مشرقِ وسطیٰ" منصوبے کا حصہ قرار دیا۔
ان کے دور میں
ایران اور حزب اللہ سے فاصلہ بڑھا
اسرائیل سے درپردہ روابط قائم ہوئے
مغربی امداد کے بدلے پالیسی میں نرمی اختیار کی گئی
یہ تمام اقدامات عوامی سطح پر شدید تنقید، احتجاج اور بے چینی کا سبب بنے۔ کیونکہ شامی عوام آج بھی فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف پرعزم ہیں۔
شامی عوام — زخم ابھی بھرے نہیں
اگرچہ حکومت نے پالیسی میں لچک دکھائی، مگر عوام کا دل آج بھی 1948 کے دکھ سے لبریز ہے۔
وہ گولان کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں
فلسطینیوں کی حمایت ان کی روح کا حصہ ہے
اسرائیلی اثر سے نجات ان کا نصب العین ہے
دمشق کی سڑکوں پر آج بھی وہی جذبات زندہ ہیں، جو اُس وقت تھے جب پہلی بار فلسطینی خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر شام کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
ایک سلگتی ہوئی جنگ کا تسلسل
شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخ پچھتر برس سے زائد کی مسلسل کشمکش پر مشتمل ہے 
جنگ،
سفارت کاری،
پراکسی،
خفیہ سازشیں،
اور عالمی طاقتوں کی مداخلت 
یہ سب مل کر ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس میں عوامی امن سب سے بڑا ہارنے والا ہے۔
جب تک:
گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں،
فلسطینی عدل سے محروم ہیں،
شامی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جاتا —
تب تک شام اور اسرائیل کے درمیان "امن" صرف ایک فریب، ایک خوش فہمی اور ایک کاغذی خواب ہے۔
دیوار پر لکھی حقیقت:
اب 2025 میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ جنگی حکمت عملی نے ثابت کر دیا ہے ۔ کہ اس کا پری ایمپٹو والا فارمولا نہ صرف 1948 سے کامیاب ہے بلکہ اب بھی ایران کے خلاف جارحیت کر کے اس نے ثابت کر یا ہے کہ مغرب اب بھی اس کے بینایے کو مانتا ہے اور اسے نافذ کرنے میں عملی طور پر اس کے ساتھ بھی ہے ۔

شام کی کہانی (1)




شام صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ تہذیب، ایمان، قربانی اور طاقت کی کشمکش کی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جس نے دنیا کی ہر عظیم طاقت کا سامنا کیا۔ پانچویں صدی عیسوی سے لے کر آج کے احمد الشراع کے دور تک، شام مسلسل اندرونی اور بیرونی آزمائشوں سے دوچار رہا ہے۔
بازنطینی عہد — مذہب اور سیاست کا ٹکراؤ
پانچویں صدی عیسوی میں شام، بازنطینی سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا۔ انطاکیہ مذہبی و عسکری مرکز رہا۔ کلیسائی نظام مضبوط تھا، لیکن فرقہ واریت (کیتھولک، مونوفیزائٹس، نیسٹورین) نے سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔
اسلامی فتوحات اور خلافتِ راشدہ
چھ سو چھتیس ہجری میں جنگ یرموک کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں مسلم افواج نے بازنطینی افواج کو شکست دی اور شام اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔ دمشق خلافتِ اُمویہ (چھ سو اکسٹھ تا سات سو پچاس) کا دارالحکومت رہا، اور اسلامی تہذیب کا مرکز بن گیا۔
عباسی، فاطمی اور ایوبی ادوار
آٹھویں سے تیرھویں صدی تک، شام عباسی خلافت کے ماتحت رہا، جبکہ کچھ حصے فاطمی خلافت کے قبضے میں بھی آئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شام کو اسلامی مزاحمت کی علامت بنا دیا۔
منگولوں کے حملے اور عثمانی خلافت
تیرھویں صدی کے اختتام پر منگول حملوں نے شام کو غیر مستحکم کیا۔ پندرہ سو سولہ میں سلطان سلیم اوّل نے شام کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اگلی چار صدیوں تک دمشق حج کے قافلوں کا مرکز اور علم و روحانیت کا گہوارہ رہا۔
فرانسیسی قبضہ (انیس سو بیس تا انیس سو چھیالیس)
پہلی جنگِ عظیم کے بعد، شام فرانس کے زیرِ تسلط آ گیا۔ انیس سو پچیس کی عظیم بغاوت نے فرانسیسی اقتدار کو چیلنج کیا۔ انیس سو چھیالیس میں شام نے آزادی حاصل کی، لیکن داخلی فرقہ واریت اور مغربی اثرات ختم نہ ہو سکے۔
آزادی کے بعد: بغاوتیں، قوم پرستی، اور اسرائیل دشمنی
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے بعد شام کی ساری سعی اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے آگے بند باندھنے ہی صرف رہی اور انیس سو اٹھاون میں شام نے مصراور عراق کے ساتھ متحدہ عرب جمہوریہ بنائی گئی۔ مگرانیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیاں قبضے میں لے لیں۔
حافظ الاسد (انیس سو ستر تا دو ہزار)
جنرل حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کر کے علوی اقلیت کی حکومت قائم کی۔ انیس سو بیاسی میں اخوان المسلمون کی بغاوت کو حما شہر میں خونریز آپریشن کے ذریعے کچلا گیا۔ ایران-عراق جنگ میں شام، ایران کا حامی رہا۔
بشار الاسد (دو ہزار تا دو ہزار تئیس)
دو ہزار میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ ابتدائی اصلاحات کے بعد وہ بھی سخت گیر حکمران بن گیا۔ دو ہزار گیارہ میں عرب بہار کی لہر شام پہنچی، لیکن احتجاجوں کو طاقت سے دبایا گیا۔ خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں لاکھوں افراد جاں بحق اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ روس، ایران، امریکہ، ترکی، داعش، کرد ملیشیاؤں، اور اسرائیل سمیت کئی طاقتیں شام میں مداخلت کرتی رہیں۔
احمد الشراع کا دور (دو ہزار چوبیس تا حال)
دو ہزار تئیس کے اواخر میں عالمی سفارتی کوششوں اور امریکہ و اسرائیل کی درپردہ حمایت سے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔اور دو ہزار چوبیس  میں احمد الشراع کو شام کا نیا صدر بنایا گیا، جنہیں بعض مبصرین "ویسٹ فریینڈلی" اور "اسرائیل ٹالرنٹ" کہتے ہیں۔
ابتدائی طور پر احمد الشراع نے وعدہ کیا کہ وہ شام کو ازسرنو تعمیر کریں گے، معاشی اصلاحات لائیں گے، اور مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائیں گے، مگر ان کے اقتدار کا آغاز ہی متنازع ثابت ہوا۔
ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات محدود کیے گئے۔
اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی خبریں سامنے آئیں۔
روسی حمایت کم ہوئی، جب کہ مغربی اثرات بڑھنے لگے۔
عوامی سطح پر کئی مظاہرے شروع ہوئے جن میں احمد الشراع کو "امریکی منصوبہ" قرار دیا گیا۔
معاشی بحران، بے روزگاری، اور اندرونی کشمکش اب بھی جاری ہے۔
قوم پرستوں اور ایرانی وفادار گروہوں کی مزاحمت احمد الشراع کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔
زخموں سے چور شام
شام، جو کبھی علم، حکمت، اور جمال کا گہوارہ تھا، آج ایک سیاسی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔
دمشق، جو کبھی صوفیانہ محبت کا استعارہ تھا، آج مفادات کی جنگ میں جل رہا ہے۔
لیکن شاید...
یہی شام، جسے بار بار مٹانے کی کوشش کی گئی، کل پھر اپنی خاک سے اٹھے گا۔
کیونکہ تہذیبیں مٹی میں دفن تو ہو سکتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں۔



بدھ، 18 جون، 2025

غیر قانونی ایٹمی طاقت کا تعارف





اسرائیل کی 
 بغیر دھماکے کے ایٹمی قوت بننے کی کہانی
دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کے لیے عموماً ایٹمی دھماکہ ایک لازم امر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نہ کوئی ایٹمی تجربہ کیا، نہ ہی نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی
 (NPT)
 پر دستخط کیے، اور نہ ہی کبھی کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے — اس کے باوجود وہ ایک مکمل ایٹمی قوت ہے۔
ایٹمی ابہام کی پالیسی
اسرائیل نے ہمیشہ "ایٹمی ابہام" یا
 Nuclear Ambiguity 
کی پالیسی اپنائی ہے۔ نہ تصدیق، نہ تردید۔ اس سے اسے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک طرف خطے میں اپنی برتری کا پیغام دیتا ہے، اور دوسری طرف بین الاقوامی دباؤ سے بچا رہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا اس پالیسی کی خاموش حمایت کرتے رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑے نہیں۔
ابتدا کیسے ہوئی؟
اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے فرانس سے خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت اسرائیل کو جنوبی نیگیو کے علاقے "دیمونا" میں ایک ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں مدد ملی۔
یہ پلانٹ ظاہر میں "ٹیکسٹائل فیکٹری" کہلایا، لیکن دراصل یہاں پلوٹونیم تیار کیا جاتا رہا۔ فرانس نے نہ صرف ٹیکنالوجی دی بلکہ اسرائیلی سائنسدانوں کو تربیت بھی فراہم کی۔
امریکہ کا ردعمل
1960
 کی دہائی میں جب امریکی سیٹلائٹ نے دیمونا کی مشکوک سرگرمیاں نوٹ کیں تو امریکہ نے بازپرس کی۔ اسرائیل نے روایتی انداز میں اسے "میٹالرجیکل ریسرچ سنٹر" قرار دیا، اور امریکہ نے مزید سوالات نہ کیے۔
وانونو کا انکشاف
1986 
میں اسرائیلی ٹیکنیشن موردخائی وانونو نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیمونا پلانٹ کی تصاویر اور تفصیلات دیں، جن سے واضح ہوا کہ اسرائیل نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے بلکہ اس کے پاس 100 سے 200 ایٹمی وار ہیڈز کا ذخیرہ موجود ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے اسے اٹلی سے اغوا کیا اور اسرائیل لا کر 18 سال قید میں رکھا۔
چونکہ اسرائیل نے کبھی سرکاری طور پر اپنے ایٹمی ذخیرے کا اعلان نہیں کیا، اس لیے حتمی تعداد نامعلوم ہے۔ لیکن اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ
 (SIPRI)
 اور فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ
 (FAS)
 کے مطابق
اسرائیل کے پاس اس وقت 80 سے 90 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں
اور اس کے پاس اتنا پلوٹونیم موجود ہے کہ وہ 200 تک ہتھیار تیار کر سکتا ہے

اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے تین راستے رکھے ہیں، 
بیلسٹک میزائلز (ٰٰجیرکو II اور III)   
، جن کی رینج 5,000 کلومیٹر تک ہے
آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائلزجن کا پلیٹ فارم جرمنی سے حاصل کردہ ڈالفن کلاس آبدوزیں    

ایٹمی صلاحیت والے طیارے جیسے F-15 اور F-16
بغیر تجربے کے ایٹمی طاقت؟

یہ حیرت انگیز ہے کہ اسرائیل نے آج تک کوئی کھلا ایٹمی تجربہ نہیں کیا، لیکن پھر بھی وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ:
اسرائیل نے سب-کریٹیکل تجربات کیے جو مکمل دھماکہ نہیں کرتے
جدید کمپیوٹر سمیولیشنز سے ہتھیاروں کی افادیت جانچی گئی
1979 
میں جنوبی بحرِ اوقیانوس میں امریکی سیٹلائٹ نے "ڈبل فلیش" نوٹ کی، جسے بہت سے ماہرین نے اسرائیل-جنوبی افریقہ کے مشترکہ ایٹمی تجربے کا نتیجہ کہا

ایران جیسا ملک، جس نے 
NPT
پر دستخط کیے ہیں اور 
IAEA
 کو انسپکشن کی اجازت دی ہے، ہمیشہ دباؤ میں رہتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل، جو نہ معاہدہ مانتا ہے، نہ انسپیکشن، اس پر کوئی پابندی نہیں۔
یہ دہرا معیار مشرق وسطیٰ میں خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔




جنگ کا منافع




 جنگ کا منافع
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو دنیا کی نظریں بے اختیار امریکہ پر جم جاتی ہیں۔ ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے: کیا امریکہ اس جنگ میں براہِ راست کود پڑے گا؟ اور اگر ہاں، تو کیا یہ جنگ امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کا اقتصادی فائدہ لے کر آئے گی؟
ظاہر ہے، جنگوں میں کچھ صنعتوں کو عارضی فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جیسی فوجی طاقت رکھنے والے ملک میں، دفاعی صنعت سب سے پہلے منافع سمیٹتی ہے۔ دفاعی ٹھیکے، ہتھیاروں کی فروخت، اور اتحادی ممالک کو جنگی سازوسامان کی ترسیل — ان تمام سرگرمیوں سے 
Raytheon، Lockheed Martin، اور General Dynamics
 جیسے ادارے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اسرائیل، سعودی عرب، اور خلیجی ریاستیں امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہیں، اور جنگ کی صورت میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح توانائی کے شعبے کو بھی فوری فائدہ ہوتا ہے۔ ایران پر حملے یا پابندیاں اس کے تیل کی سپلائی کو متاثر کرتی ہیں، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ ایسے میں امریکی تیل اور گیس کمپنیاں، خاص طور پر شیل انڈسٹری، یورپ اور ایشیا کو زیادہ قیمت پر تیل بیچ کر خوب منافع کماتی ہیں۔ عالمی بحران میں سرمایہ دار محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں — اور عموماً وہ امریکی ڈالر اور اسٹاک مارکیٹ ہوتی ہے۔ یوں وال اسٹریٹ کو بھی وقتی فائدہ ملتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ فائدہ عوام تک بھی پہنچتا ہے؟
جنگ میں دفاعی صنعت تو امیر ہو جاتی ہے، لیکن عام امریکی کو مہنگائی، بے یقینی اور بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے، تو ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے، خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں، اور صنعتوں پر دباؤ آتا ہے۔ نتیجہ؟ مہنگائی، بے روزگاری، اور معیشت پر بوجھ۔
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا — کیا اس سے عام امریکی کو کوئی معاشی فائدہ ہوا؟ نہیں، بلکہ اسے 8 ٹریلین ڈالر کا خرچ، ہزاروں جانیں، اور ایک غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ ملا۔
امریکہ کی فوجی مہمات کبھی اقتصادی بحالی کا ذریعہ نہیں رہیں۔ جنگی اخراجات صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سرمایہ کاری معاشرے کے ہر فرد کو فائدہ دیتی ہے — لیکن جنگ اس سرمایہ کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج اگر امریکہ اسرائیل کے کہنے پر ایران سے جنگ چھیڑتا ہے، تو شاید چند کمپنیوں کے اسٹاک اوپر چلے جائیں، مگر امریکی شہریوں کو اس کا نقصان ہی ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر حملے، دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ — یہ وہ سچ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے جنگ اب نفع کا کاروبار بن چکی ہے — مگر صرف چند کے لیے۔ اور جو قومیں اپنے مستقبل کو چند کارپوریشنوں کے منافع کے لیے گروی رکھ دیتی ہیں، وہ بالآخر تاریخ میں قیمت ادا کرتی ہیں۔
جنگ کا نعرہ لگانے والوں سے پوچھنا چاہیے:
کیا اس منافع کی قیمت انسانی جانوں، عالمی امن، اور معاشی تباہی سے ادا کی جا سکتی ہے؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایران — تہذیب، تاریخ اور طاقت کا استعارہ


جب دنیا ایران کا نام لیتی ہے تو اکثر کے ذہن میں ایٹمی تنازع، عالمی پابندیاں یا "مرگ بر امریکہ" جیسے نعرے آتے ہیں۔ مگر ایران صرف حال کا سیاسی کردار نہیں بلکہ ہزاروں برسوں کی تہذیب، فکری ورثے، اور مزاحمتی تاریخ کا نمائندہ ہے۔
یہ وہی سرزمین ہے جسے دنیا قدیم دور میں "فارس" کے نام سے جانتی تھی — ایک عظیم سلطنت، ایک گہری ثقافت، اور ایک ایسا تمدن جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایشیا اور یورپ کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔
جغرافیہ اور آبادی کی جھلک

ایران مغربی ایشیا کے قلب میں واقع ہے اور سات ممالک سے جڑا ہوا ہے: عراق، ترکی، پاکستان، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان۔ اس کی زمینی وسعت 16 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے، جہاں البرز اور زاگروس جیسے پہاڑی سلسلے، دشتِ لوط اور دشتِ کویر جیسے تپتے صحرا، اور کارون جیسے دریا موجود ہیں۔
ایران کی آبادی تقریباً 88 ملین ہے۔ اکثریت فارسی النسل ہے، لیکن آذری ترک، کرد، بلوچ، لور، ترکمان، عرب اور دیگر قومیں بھی یہاں رہتی ہیں۔ مذہبی لحاظ سے شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، جبکہ سنی، زرتشتی، یہودی، عیسائی اور بہائی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔
ایران بطور تہذیب

ایران کو صرف ایک ملک کہنا زیادتی ہوگی۔ یہ ایک تہذیب ہے — زرتشت کی روشنی، فارسی کی نرمی، شعر و ادب کی بلندی، اور مزاحمت کی شدت، سب اس میں رچی بسی ہیں۔ ایرانی قوم پرستی اسلام سے پہلے کی سلطنتوں، زبان و ادب، اور فکری برتری پر بھی فخر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران خود کو عرب دنیا سے ایک الگ اور برتر شناخت کے ساتھ دیکھتا ہے۔
تاریخ کے اوراق

تاریخ ایران میں چار بڑے ادوار واضح ہیں:
قبل از اسلام سلطنتیں — ہخامنشیوں نے کثیرالقومی حکومت قائم کی، ساسانیوں نے زرتشتی مذہب کو سرکاری مذہب بنایا، اور رومیوں، بازنطینیوں و عربوں سے طویل جنگیں لڑیں۔
اسلامی عہد — 651ء میں عربوں نے ایران فتح کیا، لیکن ایران نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسے علم، ادب اور حکومت کے میدان میں نئی روح دی۔
صفوی عہد — ایران پہلی بار بطور "شیعہ ریاست" سامنے آیا، جو آج تک اس کی مذہبی و سیاسی شناخت کا مرکز ہے۔
پہلوی اور انقلابی دور — مغربی اثرات، شاہی جبر، اور پھر
1979
 کا اسلامی انقلاب۔ امام خمینی نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ ایران کو "ولایت فقیہ" کی فقہی قیادت میں بدل دیا۔
موجودہ ایران
ایران آج پابندیوں، معاشی دباؤ اور عالمی تنہائی کا شکار ضرور ہے، لیکن اس کے اندر ایک ایسی ریاستی مضبوطی ہے جو اسے مسلسل عالمی سیاست میں سرگرم رکھتی ہے۔
سپاہِ پاسداران (IRGC)
 بیلسٹک میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خطے بھر میں اس کا اثر و رسوخ — خاص طور پر شام، لبنان، یمن اور عراق میں — ایران کو ایک مزاحمتی طاقت بنا دیتے ہیں۔
جوہری مسئلہ

ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ
(NPT)
معاہدے پر دستخط کیے، لیکن امریکہ و مغرب کا شک اسے مسلسل تنازع کی شکل میں رکھتا ہے۔ 2015 کا JCPOA
معاہدہ امید کی کرن تھا، مگر ٹرمپ حکومت نے اسے توڑ کر حالات پھر بگاڑ دیے۔
عالمی اثر و نفوذ
ایران آج شیعہ دنیا کا نظریاتی و عسکری مرکز بن چکا ہے۔ بحرین سے لے کر یمن تک، اور افغانستان و پاکستان میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ روس و چین سے اس کے تعلقات گہرے ہو رہے ہیں، اور یہ بلاک امریکہ و اسرائیل مخالف سوچ کو مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
آخری بات
ایران کو کمزور کہا جا سکتا ہے، معاشی لحاظ سے تنہا بھی، لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو زخم کھا کر بھی زندہ ہے، اور دنیا کو بتا رہی ہے کہ مزاحمت صرف فوج سے نہیں بلکہ فکر، ثقافت اور نظریے سے بھی کی جاتی ہے۔
ایران کا وجود آج کی دنیا میں ایک یاد دہانی ہے — کہ قومیں صرف جنگوں سے نہیں، تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں۔

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ