پیر، 12 مئی، 2025

10مئی یوم فتح



یوم فتح

تاریخ کے صفحات پر کچھ دن ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں، اور دس مئی بھی انہی دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک عظیم جنگ کا گواہ بنا، بلکہ اس نے پاکستان کے قومی وقار، عسکری برتری اور اجتماعی عزم کو دنیا کے سامنے ایک نئے انداز میں متعارف کروایا۔ اس معرکے نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جس کے اثرات نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

ماضی قریب تک پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ناکام ریاست یا غیر مستحکم ملک کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ہمارے دشمن اور ناقدین ہمیں معاشی اور سیاسی کمزوریوں کے تناظر میں دیکھ کر ہمارے وجود کو کمزور سمجھتے تھے۔ دوسری طرف بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی سے خود کو اس خطے کا واحد طاقتور ملک سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ خطے پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور دوسروں کو تابع رکھنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ لیکن دس مئی کی جنگ نے نہ صرف اس کے یہ خواب چکنا چور کر دیے بلکہ اس کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیا۔

اس تاریخی دن، پاکستان نے نہ صرف ایک فوجی معرکہ جیتا بلکہ ایک نظریاتی اور سفارتی جنگ میں بھی فتح حاصل کی۔ پاکستان کی بروقت اور مؤثر جوابی کارروائی نے ثابت کیا کہ ہم نہ صرف اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دشمن کو اُس کی زبان میں جواب دینے کی جرأت اور قابلیت بھی رکھتے ہیں۔ ہماری افواج نے جس پیشہ ورانہ مہارت، بہادری اور جذبے کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

یہ کامیابی صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لیے باعثِ فخر ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد دنیا نے دیکھا کہ ایک مسلمان ملک نے یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ کو شکست دی ہے۔ عرب دنیا اور مسلم ریاستوں نے پاکستان کی اس جرأت کو سراہا اور پاکستان کو ایک حقیقی مدافع قوت کے طور پر تسلیم کیا۔ عالمی میڈیا، جو اکثر پاکستان کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتا رہا ہے، اب ہماری دفاعی صلاحیتوں اور ذمہ دار رویے کو سراہنے پر مجبور ہوا ہے۔

یقیناً یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل، ہماری قومی یکجہتی، اور افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ آج کا دن ہم سب کے لیے فخر کا لمحہ ہے، لیکن ساتھ ہی یہ لمحہ ہمیں ذمہ داری کا احساس بھی دلاتا ہے۔ دشمن اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا؛ وہ چالاکی، پروپیگنڈا اور سازشوں کا سہارا لے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر اتحاد پیدا کریں، داخلی استحکام کی طرف قدم بڑھائیں، اور تعلیم، معیشت، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفالت کی راہیں تلاش کریں۔

پاکستانی قوم کو آج اپنی تاریخ کے اس روشن باب پر فخر کرنا چاہیے اور اپنے ملک کو مضبوط اور باوقار بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ملک ہم سب کی امید ہے، یہ ہماری پہچان ہے، اور یہی ہماری آنے والی نسلوں کا فخر ہے۔

پاکستان زندہ باد۔


اتوار، 11 مئی، 2025

جنوبی ایشیا میں نئی حقیقت



دس مئی 2025 کی شام جنوبی ایشیا میں دنیا نے حیرت سے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ اس خطے میں طاقت کے مراکز تبیل  ہوگئے ہیں

مریکی انٹیلی جنس نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ پاکستان اپنی جنگی کارروائیوں کے بعد اب مقبوضہ کشمیر پر مکمل قبضے کے لیے پیش قدمی شروع کر چکا ہے ۔ خبر سنتے ہی وائٹ ہاؤس میں کھلبلی مچ گئی۔ خاص طور پر نائب صدر جے ڈی وینس سخت پریشان ہوا۔ فوری طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو کال کی گئی۔

وینس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا:

"اگر ابھی سیز فائر کا اعلان نہ کیا، تو کشمیر تمہارے ہاتھ سے جا رہا ہے۔"

مودی، جو چند گھنٹے پہلے تک جنگی جنون میں مبتلا تھا، یکایک نرم پڑ گیا۔ اور پھر چند ہی لمحوں میں دنیا بھر میں "سیز فائر، سیز فائر" کی صدائیں گونجنے لگیں۔

لیکن اصل کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

ترک صحافی ابراہیم کاراگل نے واضح کیا کہ:

"جنگ بندی کی درخواست بھارت نے کی۔ وہ جنگ کے لیے بے تاب تھا، لیکن پاکستان نے اُس کے تمام اندازے خاک میں ملا دیے۔"

سی این این کے مطابق:

"پاکستان نے بھارتی اہداف پر اس شدت سے حملے کیے کہ بھارت نے گھبرا کر امریکہ، ترکی اور سعودی عرب سے ثالثی کی بھیک مانگی۔"

یہ صورتحال صرف ایک جنگ کا اختتام نہیں تھی — یہ جنوبی ایشیا کی عسکری حقیقت کی دوبارہ تحریر تھی۔ بھارت جو سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، اب ہزیمت کا سامنا کر رہا ہے۔

پاکستان کی افواج نہ صرف مؤثر، منظم اور مستعد ثابت ہوئیں بلکہ اُنہوں نے عالمی طاقتوں کو یہ باور کرا دیا کہ امن کی خواہش ایک طاقتور قوم کی علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔

اب دنیا کو یہ تسلیم کرنا ہو گا:

  • پاکستان صرف ایٹمی طاقت نہیں، فوجی حکمت اور میدانِ جنگ کی مہارت میں بھی غالب ہے۔

  • بھارت اب وہ طاقت نہیں رہا جسے جنوبی ایشیا میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔

  • طاقت کا توازن اب اسلام آباد کی جانب جھک چکا ہے۔

یہ صرف ایک کامیابی نہیں — یہ اعتماد، تدبر اور قومی وقار کی جیت ہے۔
اور ہاں، یہ جنگ پاکستان نے جیت لی ہے۔ دنیا کو اب نیا پاکستان دیکھنا ہو گا — ایک فیصلہ کن، پرعزم اور ناقابلِ تسخیر پاکستان۔


ہفتہ، 10 مئی، 2025

مذہبی منافرت کا خطرناک انجام


 

"نریندر مودی کی مذہبی منافرت اور برتری کے خمار کا خطرناک انجام"

حال ہی میں ایک بھارتی تجزیہ کار کی جانب سے ترکی کو "جہنم میں بدل دینے" کی دھمکی اور اس کے جواب میں ترک تجزیہ نگار کا سخت اور مذہبی جذبات سے لبریز ردعمل سامنے آیا۔

ترک تجزیہ نگار نے کہا:
"ہم سات شراکت دار برادر ملکوں کے ساتھ آئیں گے، اس گائے کو ذبح کر کے کھائیں گے جسے تم خدا سمجھ کر پوجتے ہو، ہمیں زیادہ تنگ نہ کرو!"

یہ محض ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک گہرے، وسیع اور دیرینہ رجحان کا مظہر ہے — ایک ایسا رجحان جو نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی داخلی اور خارجی پالیسی کا ستون بنتا جا رہا ہے: مذہبی منافرت، اقلیت دشمنی، اور ہمسایہ ممالک کو نیچا دکھانے کی پالیسی۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر آلود فضا

مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو فضا پیدا کی گئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گؤ رکھشا کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل، مساجد پر حملے، مدارس اور علماء کے خلاف مہم، اور مسلم تاجروں و فنکاروں کا سماجی بائیکاٹ، سب کچھ ایک منظم پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔

یہ داخلی پالیسی اب بھارت کی خارجہ حکمت عملی میں بھی جھلکنے لگی ہے، جہاں ہر ہمسایہ ملک — چاہے وہ پاکستان ہو، چین ہو، نیپال ہو,بنگلہ دیسش ہو یا ترکی — کو دشمن کے طور پر پیش کر کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔

ترک ردعمل: ایک مذہبی و تہذیبی پیغام

ترک تجزیہ نگار کا ردعمل، اگرچہ سخت تھا، لیکن اسے جذباتی نہیں بلکہ علامتی جواب سمجھنا چاہیے۔ گائے، جسے ہندو عقیدہ میں مقدس مانا جاتا ہے، کا ذبح کرنا ایک مذہبی علامت کے طور پر استعمال ہوا — یہ ردعمل اس نفرت انگیز بیانیے کے خلاف آیا جو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔

یہ جواب صرف ترکی کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی احساسات کی ترجمانی بھی کرتا ہے — ایک ایسا ردعمل جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث پروان چڑھ رہا ہے۔

سفارتی خطرہ یا خود ساختہ دشمنی؟

بھارت کی موجودہ قیادت نے پڑوسیوں کے ساتھ برابری، احترام، اور باہمی مفاد کے اصولوں کے بجائے، برتری، دھمکی، اور ثقافتی بالادستی کے اصول اپنا لیے ہیں۔ اس رویے نے بھارت کو خطے میں تنہائی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔
چاہے وہ پاکستان سے کشیدگی ہو، چین کے ساتھ سرحدی تنازع، نیپال و بنگلہ دیش کی ناراضگی، یا ترکی سے لفظی جنگ — یہ سب اسی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہیں جس کا مقصد بھارت کو "ہندو راشٹرا" کے طور پر مستحکم کرنا ہے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔

نتیجہ: منافرت کی فصل کبھی امن نہیں اگاتی

مودی حکومت کو سوچنا ہو گا کہ وہ بھارت کو کس سمت لے جا رہی ہے۔ اگر ملک کی شناخت کو صرف اکثریتی مذہب سے جوڑ دیا جائے، اور اقلیتوں کے جذبات کو بار بار روندا جائے، تو ردعمل صرف اندرون ملک نہیں بلکہ بیرونی دنیا سے بھی آئے گا — اور وہ ہمیشہ نرم نہیں ہوگا۔

بھارت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، اپنی مذہبی اقلیتوں کو برابر کا شہری تسلیم کرے، اور ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر بات کرے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس برتری کے زعم میں بھارت سفارتی، اخلاقی، اور ثقافتی طور پر تنہا رہ جائے گا۔

جنگ کے بعد



آخرکار، 10 مئی 2025 کی سہ پہر وہ اعلان ہوا جس نے توپوں کی گرج کو خاموش کر دیا، سرحدوں پر سکوت طاری ہو گیا، اور یوں محسوس ہوا جیسے خود وقت نے بھی سانس روک لی ہو۔ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا تھا۔ مگر یہ خاموشی راحت کا پیغام نہیں، بلکہ سوالوں سے بھرا ایک نوحہ تھی۔

یہ جنگ کوئی دفاعی مجبوری نہ تھی۔ نہ یہ اصولوں کی لڑائی تھی، نہ نظریات کی۔
یہ محض انا کا ٹکراؤ تھا — ایک شخص کی ضد، ایک قوم کی جھوٹی برتری کا خواب، اور ہندوتوا کے بگولےکی وہ آگ جس نے دو ارب انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیا 
پاکستان نے کئی بار، بار بار، کھلے دل سے کہا:

"ہم جنگ نہیں چاہتے، ہماری معیشت کمزور ہے، ہمیں سنبھلنے دیں۔"

مگر ہماری بات کو کمزوری سمجھا گیا۔ برداشت کو بزدلی جانا گیا۔
اور پھر حد ہو گئی — جب پاکستان کے دل پر وار کیا گیا۔
بے گناہ بچے، معصوم خواتین — سب خون میں نہلا دیے گئے۔

جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو ردِعمل لازم ہو جاتا ہے۔
پاکستان خاموش ضرور تھا، کمزور نہیں۔
اور پھر وہی ہوا — آپریشن بنیان مرصوص "۔
ہمارے جوان، ہمارے پائلٹ، ہمارے افسر — سب نے وہ کر دکھایا جو قومیں صدیوں تک یاد رکھتی ہیں۔

ہمارے ہوا بازوں نے آسمان پر وہ مہارت دکھائی کہ دشمن کے ریڈار بھی تھرّا اٹھے۔
ہمارے سپاہیوں نے زمین پر وہ حوصلہ دکھایا کہ بندوقیں بھی فخر سے جھک گئیں۔

مگر پھر بھی، یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے:
کیا یہ سب روکا نہیں جا سکتا تھا؟
کیا دہشتگردی کے جھوٹے الزام، پہاگام جیسے واقعے کو بنیاد بنا کر ایک پوری قوم کو سزا دینا درست تھا؟
کیا "ثبوت نہیں، بس الزام کافی ہے" کا اصول اپنایا جا سکتا ہے؟

پاکستان نے جنگ جیتی، میدان بھی، وقار بھی۔
مگر ہم جیتنے کے لیے نہیں لڑے تھے —
ہم تو امن چاہتے تھے۔

اب تاریخ بھارتی قیادت سے سوال کرے گی:
کیا اب بھی آنکھیں کھولو گے؟
یا اگلی جنگ تک یہی کھیل جاری رکھو گے؟

بنیان مرصوص



"بنیان مرصوص"

جب کوئی قوم اپنی سالمیت، نظریات اور مقدس مقاصد کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑی ہو، تو اس کی صفوں میں جو نظم، اخلاص اور اتحاد پیدا ہوتا ہے، وہ صرف عسکری طاقت نہیں بلکہ ایک روحانی طاقت کی علامت ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کسی فوجی یا نظریاتی کاروائی کو "بنیان مرصوص" کا نام دینا کوئی محض اتفاق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا قرآنی تصور اور اسلامی فکری اساس موجود ہے۔

"بنیان مرصوص" کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الصف میں آیا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ"
(الصف: 4)

"بیشک اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر ایسے لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔"

یہ آیت صرف ایک فوجی نظم کی تصویر نہیں، بلکہ ایمانی یکجہتی، مقصدِ واحد، اور قربانی کے اس جذبے کا آئینہ ہے جو کسی قوم کو ناقابلِ شکست بنا دیتا ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ:

نبی اکرم ﷺ نے مومنوں کی باہمی وحدت کو یوں بیان فرمایا:

"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضًا"
(بخاری و مسلم)

"مومن، مومن کے لیے ایسے ہیں جیسے ایک عمارت، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔"

یہ حدیث اس بات کو مزید واضح کرتی ہے کہ "بنیان مرصوص" صرف ظاہری نظم نہیں بلکہ باطنی اخلاص، یکجہتی اور باہم اعتماد کا نام ہے۔

نام کی اہمیت

پاکستان کی مسلح افواج صرف دفاعی طاقت نہیں، بلکہ قومی نظریات کی محافظ بھی ہیں۔ جب ریاست کسی مہم یا کاروائی کو "بنیان مرصوص" کا نام دیتی ہے، تو یہ چند اہم پیغامات دیتا ہے:

1. قرآنی بنیاد پر عمل:

یہ نام براہِ راست قرآن سے ماخوذ ہے، جو مہم کو دینی و اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ یہ عمل محض سیاسی یا جغرافیائی نہیں بلکہ ایمانی تقاضا بھی ہے۔

2. اتحاد کی دعوت:

ایسا نام پوری امت کو اتحاد، یکجہتی اور جذبۂ قربانی کے تحت جمع ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ ہر فرد اس "بنیان" کا حصہ بن جاتا ہے۔

3. دشمن کے لیے نفسیاتی پیغام:

جب دشمن کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ  قوم "سیسہ پلائی دیوار" کی طرح کھڑی ہے، تو یہ ایک طاقتور نفسیاتی دباؤ پیدا کرتا ہے۔

4. اخلاقی برتری کی علامت:

یہ نام ظاہر کرتا ہے کہ ہماری جنگ صرف دفاع کی نہیں، بلکہ سچ، امن، اور مظلوموں کے حق کی جنگ ہے — فی سبیل اللہ۔

"بنیان مرصوص" کوئی فوجی کوڈ یا خفیہ منصوبہ نہیں، بلکہ ایک فکری اور روحانی علامت ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب تک ہم اللہ کے راستے میں صف باندھ کر، اخلاص سے متحد رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

پاکستان کا ہر سپاہی، ہر شہری، ہر کارکن اسی عمارت کا حصہ ہے — جس کی بنیاد ایمان ہے، دیوار اتحاد ہے، اور چھت قربانی سے ڈھکی ہے۔

 اللہ ہمیں حقیقی "بنیان مرصوص" بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔