جمعہ، 9 مئی، 2025
چوتھا راونڈ
بھارت کی جانب سے پاکستان پر جارحیت کا آغاز ابتدائی مرحلے میں ہی شدید ناکامی کا شکار ہو چکا ہے۔ سفارتی، عسکری اور تکنیکی محاذوں پر بھارت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ پاکستان نے بھرپور دفاع اور تدبر سے اپنی پوزیشن مضبوط رکھی۔
پہلا راؤنڈ: سفارتی ناکامی
سفارتی میدان میں بھارت کو پہلی شکست اس وقت ہوئی جب عالمی برادری نے پاکستان پر لگائے گئے بھارتی الزامات کو شواہد کے بغیر مسترد کر دیا۔ بھارت نے بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، مگر اسے کسی بھی بڑی طاقت یا بین الاقوامی ادارے کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ نتیجتاً، سفارتی محاذ پر بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسرا راؤنڈ: فضائی محاذ پر ناکامی
تیسرا راؤنڈ: ڈرون حملے اور پاکستانی دفاع
تیزی سے بدلتی عالمی رائے
بھارت کے یہ اقدامات نہ صرف امریکی اور یورپی حلقوں کے لیے حیران کن ہیں، بلکہ ان کی اسٹریٹیجک سوچ پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ امریکہ جو بھارت کو چین کے خلاف اپنا شراکت دار سمجھ رہا تھا، اب سوچنے پر مجبور ہے: اگر بھارت پاکستان جیسے نسبتاً محدود دفاعی وسائل والے ملک کا سامنا نہیں کر پا رہا، تو چین جیسے عالمی طاقت سے کیسے نمٹے گا؟
بھارتی جنرل بخشی کا ترکی پر قبضے کا غیر سنجیدہ دعویٰ مغرب اور عرب دنیا کے لیے مزید تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ سب کو 2019 کا وہ جھوٹا دعویٰ یاد آ گیا جب بھارت نے پاکستان کے ایف-16 کو گرانے کا دعویٰ کیا تھا، جو بعد ازاں امریکی دفاعی اداروں نے فیک نیوز قرار دیا۔
امریکی دفاعی بھارت کے اس جھوتے دعوے پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس نے پاکستان کا ایک ایف--16 اور دو جے-17 تھنڈر طیارے مار گرائے ہیں ۔ بھارت سے سنجیدہ سوال کیا جارہا ہے کہ یہ طیارے کس نے اور کہاں گرائے ہیں اور اس کی باقیات کہاں ہیں ۔
چوتھے راؤنڈ کی جھلک
جنگ کا چوتھا راؤنڈ اُس وقت شروع ہو گا جب پاکستان ان حملوں کا جواب دے گا، جن میں بھارتی میزائلوں نے پاکستانی شہروں کو نشانہ بنایا اور بے گناہ شہریوں کی جانیں لیں۔
بھارت نے پاکستان پر 22 اپریل کے واقعہ میں ملوث ہونے کے اعلان کے 15 دنوں بعد پاکستان پر فضائی دہشت گردی کی تھی ۔ پاکستان نے اپنی چوائس کے وقت اور جگہ پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اعلان کیا ہےاکہ یہ حملہ کیا جائے گا تو دنیا کو نظر بھی ائے گا اور اس کی گونج بھی سنائی دے گی
مودی کے ناکم حکمت عملی
بھارت کے اندر مودی سرکار سےعوام پوچھ رہی ہے ۔ پہلاگام پر حملہ کرے والے ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے ، دوسری طرف
بھارت کے وزیر خارجہ سعودیہ ، یو اے ای، قطر، برطانیہ کے وزرا خارجہ کو فون کرتا ہے کہ ۔ ہم نے اپنے عوام کا غسہ ٹھنڈا کر دیا ہے اب پاکستان کو کسی بھی طرح روکیں
پاکستان کا موقف دو ٹوک ہے کہ اس کے لیے بھارت کو 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جانا ہوگا، سندھ طاس معاہدے نکل جاے کا اعلان واپس لینا ہو گا اور مستقبل میں ضمابت دے گا کہ وہ کشمیر میں یا بھارت ہونے والے ہر واقعے کا الزام پاکستان پر نہیں لگائے گا ، اور اپنی انتخابی سیاست کو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گا،
چوتھا راونڈ
جمعرات، 8 مئی، 2025
ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟
ہیروپ ڈرون ٹیکنالوجی کیا ہے ؟
سندور
ہندوستان نے صدیوں تک بیرونی حملہ آوروں کا سامنا کیا۔ ان حملہ آوروں میں پٹھان، ترک، اور دیگر وسطی ایشیائی اقوام شامل تھیں، جنہوں نے نہ صرف زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ مقامی آبادی کی عزت و آبرو کو بھی روند ڈالا۔ ان حملہ آوروں کے لشکروں کا ایک معمول بن چکا تھا کہ وہ مقامی خواتین، خصوصاً نوجوان اور خوبصورت عورتوں کو قیدی بناتے، اپنے ساتھ لے جاتے ۔
ان حالات میں ہندو معاشرہ نہایت اضطراب کا شکار ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان خاندانی نظام کو پہنچا، کیونکہ شادی شدہ عورتوں کو بھی ان حملوں سے استثنا نہ تھا۔ شوہر زندہ ہونے کے باوجود بیویوں کو اغوا کر لینا، ایک اخلاقی، مذہبی، اور معاشرتی بحران کی صورت اختیار کر چکا تھا۔درخواست اور مشورہ
روایت کے مطابق، اس ظلم سے تنگ آکر ہندو برادری کے معززین نے ان حملہ آوروں سے درخواست کی کہ اگر وہ کنواری لڑکیوں کو اٹھاتے ہیں تو کم از کم شادی شدہ عورتوں کو بخش دیا جائے، تاکہ معاشرتی ڈھانچہ کچھ حد تک محفوظ رہے۔ اس بات پر حملہ آوروں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر تم چاہو کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورت میں فرق کیا جا سکے، تو کوئی واضح نشانی مقرر کرو تاکہ فوراً پہچانا جا سکے۔
اس مشورے پر غور و خوض کے بعد ہندو برادری نے طے کیا کہ شادی شدہ عورتیں اپنے ماتھے کے بیچ میں سرخ رنگ کا ایک نشان لگائیں گی، جسے بعد ازاں "سندور" کہا گیا۔
-
یہ نشان چونکہ ماتھے پر ہوتا تھا، اس لیے فوراً نظر آ جاتا۔
-
اس کا گہرا سرخ رنگ دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔
-
یہ نشان ایک ظاہری علامت بن گیا کہ یہ عورت شادی شدہ ہے۔
شادی شدہ عورتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس ہدایت پر فوری عمل شروع کر دیا۔ جلد ہی پورے معاشرے میں یہ علامت عام اور قبول شدہ بن گئی۔ خواتین اپنے شوہروں کے تحفظ میں یہ علامت فخر سے اختیار کرنے لگیں۔
رسم سے روایت اور روایت سے مذہب
وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشان صرف تحفظ کی علامت نہ رہا، بلکہ ایک رسم، روایت، اور پھر مذہبی علامت بن گیا۔ آج بھی لاکھوں ہندو عورتیں شادی کے بعد سندور لگاتی ہیں، اور اسے اپنے ازدواجی رشتے کی طاقت، وقار، اور دعاؤں کی علامت سمجھتی ہیں۔
یوں ایک علامت جو کسی وقت مجبوری اور شناخت کے لیے اختیار کی گئی تھی، آج عزت، محبت، اور وابستگی کی علامت بن چکی ہے۔
بدھ، 7 مئی، 2025
روشن ہندوستان کہاں ہے
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جنوبی ایشیا ایک بار پھر کشیدگی، بداعتمادی اور جنگی جنون کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ملک جو کبھی "روشن انڈیا" کے نعرے کے ساتھ خطے کے لیے ترقی، امن اور ٹیکنالوجی کی علامت بننے جا رہا تھا، آج جنگی اشتعال، سفارتی ناکامی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھارتی مؤقف کی پذیرائی کم ہوتی جا رہی ہے۔
سفارتی محاذ پر ناکامی سامنے کی بات ہے
حال ہی میں خریدے گئے جدید جنگی طیاروں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ بھارتی فوج مہم جوئی سے گریز کا عندیہ دے رہی ہے، اور ایئر فورس خود اپنے وسائل اور تکنیکی کمی کا اعتراف کر چکی ہے۔
اس کے باوجود، بھارتی حکومت نے اپنی نااہلی کا بوجھ ہمسایوں پر ڈالنے کی روش اپنا لی ہے۔ سکھوں کو ریاستی اداروں سے کاٹ کر عضوِ معطل بنا دینا، پیشہ ور فوجی اور نیوی افسران کو برخاست کر کے گرفتار کرنا، اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے مذہبی جذبات ابھارنے کا سلسلہ مودی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی جنون اس حد تک بڑھا کہ پاکستان پر میزائل حملے کیے گئے، جن میں نہ صرف سویلین آبادی نشانہ بنی بلکہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو بھی جان بوجھ کر ہدف بنایا گیا۔
پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد، جب 26 جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان نے فوری مذمت کی، متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے انصاف کی فراہمی پر زور دیا، اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے بھی اسی موقف کی تائید کی۔ مگر بھارت میں جیسے پہلے ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان پر الزام دھر کر فوری حملہ کیا جائے۔
یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب پاکستان کی فضاؤں میں درجنوں سول طیارے فضا میں موجود تھے۔ نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ عبادت گاہیں بھی میزائل حملوں کی زد میں آئیں۔ خواتین، بچے، بزرگ—سب اس بربریت کا نشانہ بنے۔ اس گھناؤنے اقدام کا نہ تو اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی قانونی۔
پاکستان کی حکومت پر اب عوام کا دباو بڑھتا جا رہا ہے کہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ رات کو اپنے گھروں میں سوتے بچوں اور عورتوں کا قتل، مساجد میں عبادت گزاروں کی شہادت، یہ سب ایسے زخم ہیں جو کسی بھی قوم کو خاموش نہیں رہنے دیتے۔
"قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مودی نے اقتدار کے دوسرے دور میں ترقی، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے راستے کو چھوڑ کر "ہندوتوا کے انتہا پسند بیانیے کو اپنا لیا۔ "اکھنڈ بھارت" کا خواب ایک مخصوص ذہنیت کو ضرور لبھاتا ہے، مگر یہ خواب بھارت کے ان کروڑوں نوجوانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جنہوں نے سیکولر بھارت کی بنیاد پر تعلیم حاصل کی اور دنیا میں بھارت کا روشن چہرہ پیش کیا۔ یہی نوجوان جب اس بیانیے کے خلاف بولے، تو "گودی میڈیا" نے جنم لیا، اور ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جو اختلاف رائے کو دبا کر اپنے نظریے کو طاقت سے تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے معصوم شہریوں کے خون کو یونہی بہنے دے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم خاموش نہیں رہتا۔ پاکستان پر بھارتی حملے نے ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ حکومت پر عوامی دباؤ لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کر رہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی متکبرانہ رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے لیے ترقی کا مطلب صرف اپنے ہمسایوں کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے، حالانکہ حقیقی ترقی تعلیم، صحت، سائنس اور معیشت میں برتری سے حاصل ہوتی ہے، جنگوں اور نفرت سے نہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تکبر، چاہے فرد کا ہو یا قوم کا، بالآخر رسوائی ہی لاتا ہے۔ آج بھارت کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ایک ایسے رہنما کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ رکھنا چاہتے ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کا کٹھ پتلی بن چکا ہے، اور جس کی پالیسیاں نہ صرف بھارت کو بلکہ پورے خطے کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔