منگل، 15 اپریل، 2025

ریڈ ایپل کی کہانی


 

ریڈ ایپل کا خواب" — ایک امریکی لوک کہانی

یہ کہانی ہے ایلی نامی ایک نوجوان کی، جو انیسویں صدی کے آخر میں امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔ اس کے پاس صرف ایک سیب کا درخت تھا — اور ایک بڑا خواب۔

لوگ کہتے: "ایلی، ایک درخت سے دنیا نہیں بدلی جا سکتی!"
مگر ایلی کہتا:
"اگر پہلا ایپل درخت ایڈم اور ایو کو سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے، تو میرا درخت بھی کچھ نہ کچھ کر دکھائے گا!"

پہلا قدم: مسئلے میں موقع تلاش کرنا

ایک سال، موسم سخت آیا، اور اکثر کسانوں کی فصل برباد ہو گئی۔ مگر ایلی کا درخت سرخ، چمکدار سیبوں سے لد گیا۔ اس نے سوچا، "لوگوں کو سیب کھانے سے زیادہ، امید کی ضرورت ہے۔"

اس نے ہر سیب کے ساتھ ایک کاغذ باندھ دیا، جس پر لکھا تھا:
"یہ سیب صرف پھل نہیں، یہ اگلے سال کی ہمت ہے!"

لوگوں نے خریدنا شروع کیا، کچھ نے جمع کیے، کچھ نے تحفے دیے — اور ایلی کا "ریڈ ایپل" ایک مقامی علامت بن گیا۔

دوسرا قدم: برانڈ بنانا، صرف بیچنا نہیں

اگلے سال، ایلی نے اپنے سیبوں کے لیے لکڑی کے خوبصورت کریٹ تیار کیے جن پر لکھا تھا:
"ریڈ ایپل — امید کا ذائقہ!"

وہ صرف سیب نہیں بیچ رہا تھا، وہ ایک کہانی بیچ رہا تھا۔
ایک جذبہ، ایک خواب — جس میں ہر خریدار خود کو شامل محسوس کرتا۔

تیسرا قدم: پھیلاؤ اور رسک

ایلی کو نیویارک سے ایک تاجر کی آفر آئی: "ہم تمہارے سیب ملک بھر میں بیچنا چاہتے ہیں، مگر تمہیں معیار برقرار رکھنا ہو گا، اور سپلائی بڑھانی ہو گی۔"

قصبے والوں نے کہا: "اتنی بڑی ڈیل خطرناک ہے، اگر ناکام ہوا تو؟"
ایلی نے جواب دیا:
"امریکی خواب رسک لینے سے بنتا ہے، محفوظ کھیلنے سے نہیں!"

اس نے آس پاس کے کسانوں کو شامل کیا، سب نے اپنے درخت لگائے، ایلی نے ریڈ ایپل کارپوریشن بنائی — اور وہ قصبہ امریکہ کے بہترین سیب برآمد کرنے والوں میں شامل ہو گیا۔


سبق:

امریکی لوک دانش ہمیں سکھاتی ہے کہ:

  • ہر بحران میں ایک موقع چھپا ہوتا ہے،

  • برانڈ وہ ہے جو دل کو چھو لے، صرف آنکھ کو نہیں،

  • اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو خطرہ مول لینے سے نہیں ڈرتا۔

"ریڈ ایپل" صرف ایک سیب نہیں تھا — یہ امریکی ذہنیت کی عکاسی تھی:
خواب دیکھو، رسک لو، اور باقی دنیا کو حیران کر دو!

دو کوڑی کا تاجر


 

"دو کوڑی کا تاجر" — ایک چینی لوک کہانی

کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے چین کے ایک پہاڑی گاؤں میں لین بو نامی ایک غریب مگر ذہین نوجوان رہتا تھا۔ اس کے پاس نہ زمین تھی، نہ دکان، نہ مال، صرف دو کوڑیاں اور ایک نرم دل۔

گاؤں میں ہر کوئی اسے مذاق میں "دو کوڑی کا تاجر" کہتا، مگر لین بو ہر بار مسکرا کر جواب دیتا:
"تجارت دولت سے نہیں، نیت سے ہوتی ہے!"

پہلا سودا: اعتماد کی بنیاد

ایک دن وہ شہر سے گزرتے ایک مسافر کو ملا، جس کی چپل ٹوٹ گئی تھی۔ لین بو نے اپنی پرانی چپل دے دی اور بدلے میں مسافر سے دو انڈے لے لیے۔ لوگ ہنسے، "چپل دے کر انڈے لیے؟ نقصان کیا!"
لین بو بولا: "چپل میرے پاؤں سے نکل گئی، مگر اعتماد دل میں آ گیا۔"

دوسرا سودا: سادگی کا منافع

انڈے لے کر وہ گاؤں کی بزرگ خاتون کے پاس گیا جو بیمار تھی۔ اس نے انڈے اُبالے، خدمت کی، اور بزرگ خاتون نے خوش ہو کر اسے ایک چھوٹا سا مٹی کا برتن تحفے میں دے دیا۔
یہ برتن خوبصورت تھا، مگر خاص اس لیے تھا کہ اس پر ایک نایاب پرندے کی تصویر بنی تھی۔ شہر میں ایک تاجر نے وہ برتن دیکھ کر فوراً پانچ چاندی کے سکے پیش کیے۔

تیسرا سودا: نفع نہیں، تعلقات کا بیج

پانچ سکے لے کر لین بو نے گاؤں کے بڑھئی سے ایک چھوٹا سا لکڑی کا خوانچہ بنوایا، اور اس پر کھجور، جڑی بوٹیاں، اور خشک چائے رکھ کر گاؤں کے باہر بیٹھ گیا۔
لیکن اس نے قیمت نہیں لگائی — صرف ایک جملہ لکھا تھا:

"جو دے سکو، وہ دو — جو نہ دے سکو، دعا دے دو!"

لوگ حیران بھی ہوئے، متاثر بھی۔ کچھ نے چائے خریدی، کچھ نے دعائیں دیں، اور کچھ نے کاروبار کا راز سیکھا۔

آخر کار: گاؤں کا سب سے معتبر تاجر

وقت گزرا، لین بو کی دیانت، نرمی، اور تعلقات کی قدر نے اسے ایک کامیاب تاجر بنا دیا۔ مگر وہ آج بھی وہی کہتا:

"میں اب بھی دو کوڑی کا ہی تاجر ہوں — بس کوڑیوں کی قیمت سمجھنے لگا ہوں!"

چینی لوک دانش ہمیں سکھاتی ہے کہ تجارت صرف نفع کا کھیل نہیں،
بلکہ اعتماد، صبر، تعلق، اور نیت کا میدان ہے۔
جہاں سب کچھ قیمت پر نہیں تولتے، کچھ چیزیں دل سے دی جاتی ہیں — اور دل ہی میں بس جاتی ہیں۔

شطرنج

 شطرنج کا کھیل ایک قدیم اور ذہانت پر مبنی کھیل ہے، جس کی ایجاد کا درست مقام اور وقت مکمل یقین سے معلوم نہیں، مگر تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کھیل چھٹی صدی عیسوی میں ہندوستان میں "چتورنگا" (Chaturanga) کے نام سے وجود میں آیا۔

چتورنگا کیا تھا؟

"چتورنگا" سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں "چار حصے" — یعنی:

  1. پیدل سپاہی (پیدل فوج)

  2. گھڑ سوار

  3. رتھ سوار (یعنی آج کا رخ/بشاپ)

  4. ہاتھی سوار (یعنی آج کا نائٹ/گھوڑا)

یہ کھیل بعد میں ایران پہنچا، جہاں اسے "شترنج" کہا جانے لگا، اور پھر عرب دنیا میں آیا۔ عربوں نے اس کھیل کو اسلامی دنیا میں عام کیا، جہاں سے یہ یورپ پہنچا اور "Chess" کے نام سے مشہور ہوا۔

دلچسپ بات:

"شاہ مات" (Checkmate) فارسی کے الفاظ "شاہ مات" سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے "بادشاہ ہار گیا"۔



🟡 1. ہندوستان (چتورنگا) – 6ویں صدی عیسوی

  • اصل نام: چتورنگا (Chaturanga)

  • زبان: سنسکرت

  • خصوصیات: یہ کھیل 8x8 کے بورڈ پر کھیلا جاتا تھا اور چار قسم کی فوجیں شامل ہوتی تھیں – پیدل، گھڑ سوار، رتھ، اور ہاتھی۔

  • مقصد: بادشاہ کو مات دینا، مگر قاعدے آج کی شطرنج سے مختلف تھے۔


🟠 2. ایران (شطرنج) – 6ویں تا 7ویں صدی

  • نام تبدیل: چتورنگا → شترنج

  • زبان: فارسی

  • ایرانیوں نے کھیل میں کچھ ترامیم کیں، اور یہ شاہی درباروں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔

  • بادشاہ اور وزیر جیسے الفاظ متعارف ہوئے۔


🔵 3. عرب دنیا – 7ویں تا 9ویں صدی

  • اسلامی فتوحات کے بعد ایران کے راستے یہ کھیل عرب دنیا میں پھیلا۔

  • خلافت عباسیہ کے دور میں شطرنج علمی اور درباری حلقوں میں مقبول ہوا۔

  • عربوں نے شطرنج پر علمی کتابیں لکھیں، جیسے کہ "کتاب الشطرنج"۔

  • "شاہ مات" (Checkmate) کا رواج بھی اسی دور میں ہوا۔


🟢 4. یورپ – 9ویں تا 15ویں صدی

  • اندلس (اسپین) کے ذریعے شطرنج یورپ میں داخل ہوا۔

  • ابتدائی یورپی ورژن میں بھی قاعدے کافی سست اور پرانے تھے۔

  • 15ویں صدی میں شطرنج نے بہت بڑی تبدیلی دیکھی:

    • وزیر (وزیر → Queen) سب سے طاقتور مہرا بن گیا۔

    • رفیق (رخ) اور دوسرے مہروں کی چالیں جدید انداز میں ترتیب دی گئیں۔

  • اسے "مدرن چیس" کی ابتدا کہا جاتا ہے۔


🟣 5. جدید دور – 19ویں صدی تا حال

  • یورپ میں ٹورنامنٹس شروع ہوئے اور قاعدے عالمی سطح پر معیاری بنائے گئے۔

  • FIDE (World Chess Federation) 1924 میں قائم ہوئی۔

  • شطرنج آج ایک بین الاقوامی کھیل ہے، جس کے بڑے بڑے عالمی چیمپیئن ہیں جیسے:

    • بوٹونک، کاسپاروف، کارلسن وغیرہ۔


📌 دلچسپ حقیقت:

ہر قوم نے شطرنج کو اپنی زبان اور ثقافت کے مطابق ڈھالا:

  • ہندوستانی بادشاہ → فارسی شاہ → عربی شطرنج → یورپی King

  • وزیر → Queen

  • ہاتھی → Bishop

  • رتھ → Rook

  • گھوڑا → Knight

  • پیدل → Pawn

تو ایک گورکھ دھندہ ہے




میں جب قران مجید کی سورہ رحمن کی اس آیت
یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ

پر پہچتا ہوں تو میری یاد مین ایک بزرگ عورت آتی ہے جو ایک درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی ہو ئی ہے اور مجھے ترغیب دے رہی ہے کہ درخت پر چڑھ جاو ۔ مگر میں چڑھ نہیں پاتا ۔ وہ عورت اپنی عمر پوری کر کے اپنے رب کے پاس جا چکی مگر میں اپنے بچپن میں اس درخت پر چڑھا ۔

ایک شاعر نے خدا کے بارے میں کہا تھا، "تو ایک گورکھ دھندہ ہے"۔ یہ گورکھ دھندہ، جو پیچیدگی اور پراسراریت سے بھرپور ہے، کائنات کی گہرائی میں ہر نئی دریافت ایک اور گورکھ دھندے کی صورت میں سامنے آتی ہے، اور ان میں سے ایک گورکھ دھندہ یو وائی سکٹی ہے۔
یو وائی سکٹی ایک ایسا ستارہ ہے جو جو ہماری زمین سے تقریباً 9,500 نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔ یہ ستارہ سورج سے تقریباً 1700 گنا بڑا ہے، اور اس کی روشنی زمین تک پہنچنے میں تقریباً نو ہزار پانچ سو سال کا وقت لیتی ہے۔

1969

میں اپالو 10 مشن نے واپسی کے دوران 24,791 میل فی گھنٹہ (تقریباً 39,897 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار حاصل کی تھی۔ یہ وہ رفتار ہے جو اب تک کسی انسان کے ذریعے خلا میں حاصل کی گئی سب سے زیادہ رفتار ہے۔


اب، اگر کوئی شخص اسی رفتار سے یو وائی سکٹی کی جانب سفر کرتا ہے، تو اسے وہاں تک پہنچنے میں 1,60,000 سال لگیں گے
یعنی اگر انسان نے زمین پر زندگی کے آغاز کے وقت سے ہی اس کی جانب 24781 میل فی گھنتہ کی رفتار سفر شروع کیا ہوتا تو
وہ ابھی تک راستے ہی میں ہوتا ۔
اوپر لکھی ہوئی آیت کا ترجمہ ہے

اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے ۔











پیر، 14 اپریل، 2025

تھیلے کہاں گئے


"تھیلے کہاں گئے؟"

شہر کا شور کچھ الگ سا لگتا تھا۔ لوگ جلدی میں تھے، دکانیں کھلی تھیں، اور سڑکوں پر چہل پہل تھی۔ کرناٹک کے اس چھوٹے سے شہر میں، جہاں وقت بھی دھیرے چلتا ہے، وہاں ایک دکان ایسی تھی جو ہمیشہ وقت سے آگے چلتی تھی — "وشواناتھ جنرل اسٹور"۔

وشواناتھ جی کا شمار ان تاجروں میں ہوتا تھا جن کی سچائی ضرب المثل بن چکی تھی۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم، کھرے، اور نرم مزاج انسان تھے۔ گاہکوں کو اپنے ہاتھ سے سامان تھماتے اور بچوں کو مفت ٹافی دے کر ان کے چہرے پر خوشی دیکھتے۔

مگر اب وقت بدل رہا تھا۔ دکان بڑی ہو چکی تھی، گاہکوں کی تعداد بھی۔ تنہا نبھانا مشکل ہو رہا تھا، اس لیے انھوں نے ایک نوجوان مینیجر رکھا — سوربھ۔

سوربھ، جو ابھی حال ہی میں شہر آیا تھا، تعلیم یافتہ تھا، کمپیوٹر جانتا تھا، اور خوش اخلاق بھی تھا۔ دکان کی ترتیب بدلی، ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوا، اور گاہک مزید مطمئن نظر آنے لگے۔ وشواناتھ جی کو لگا کہ انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔

پہلا اشارہ

ایک دن حساب کتاب دیکھتے ہوئے وشواناتھ جی نے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ کچھ تھیلوں کی تعداد کم نکل رہی تھی۔ انھوں نے سوربھ کو بلایا،
"بیٹا، تھیلے تین کم نکلے ہیں۔ نظر رکھو، شاید غلطی ہو گئی ہو۔"

سوربھ نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر سر ہلایا،
"جی سر، میں دیکھتا ہوں۔"

اگلے ہفتے پھر تھیلے کم تھے۔ اس بار تین نہیں، گیارہ۔

"یہ تو عجیب بات ہے۔ استعمال تو کم ہو رہا ہے، مگر تھیلے اور کم ہو رہے ہیں؟" وشواناتھ جی نے حیرانی سے کہا۔

سوربھ نے تمام عملے کو سختی سے ہدایت دی:
"بغیر ضرورت کے تھیلے استعمال نہ کیے جائیں۔"

مگر صورتحال بدستور بگڑتی گئی۔ آخرکار وشواناتھ جی نے پرنٹ شدہ تھیلوں کی جگہ عام شاپنگ بیگ خرید لیے۔

خاموش چوری

تین ماہ ایسے گزرے جیسے سب کچھ نارمل ہو۔ گاہک آتے، جاتے، مسکراتے۔ سوربھ اپنی جگہ مگن، دکان چلانے میں مصروف۔ وشواناتھ جی پھر بھی مطمئن نہ تھے۔ دل کا ایک کونا مسلسل کچھ کہہ رہا تھا — "کچھ تو ہے..."

اور پھر وہ دن آیا۔

سوربھ نے اسٹاک لسٹ بنائی تو اس میں کئی چیزیں غائب تھیں۔ چاکلیٹس، شیمپو، کچھ قیمتی مصالحے۔ اس نے فوراً وشواناتھ جی کو رپورٹ دی۔

وشواناتھ جی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے۔ چند لمحے کچھ کہے بغیر گزرے۔ پھر آہستگی سے بولے:
"میں نے تمہیں تھیلوں کے بارے میں بتایا تھا، سوربھ۔ وہ تھیلے نہیں جا رہے تھے، وہ راہ کھل رہی تھی چوری کی۔ تم نے وقت پر نہیں روکا۔ تم نے خود ایک چور کو راستہ دے دیا۔"

سوربھ کو جیسے کسی نے آئینہ دکھا دیا ہو۔ دل میں شرمندگی کی ٹھنڈی لہر اتری۔

سچ کا سامنا

سوربھ نے اگلے ہی دن دکان کے مختلف کونوں میں چھوٹے کیمرے لگوا دیے۔ گودام کی نگرانی شروع کی۔ ہر تھیلا، ہر کارٹن اب اُس کی نظر میں تھا۔

پانچ دن بعد ایک کیمرے نے سچ بول دیا — راجو۔

راجو، جو سٹور کا سب سے پرانا ملازم تھا، جو وشواناتھ جی کے ساتھ تب سے تھا جب دکان ایک کمرہ ہوا کرتی تھی۔ راجو، جس نے وشواناتھ جی کے بچوں کو کندھے پر اٹھایا تھا۔

وہی راجو، ہر رات بند ہونے کے بعد کچرے میں ایک تھیلا چھپاتا، جس میں دو تین چاکلیٹس، شیمپو یا کوئی قیمتی چیز ہوتی۔ صبح آ کر، صفائی کے بہانے تھیلا اٹھا کر گھر لے جاتا۔

انجام

راجو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ وشواناتھ جی کے چہرے پر غصے سے زیادہ دکھ تھا۔ انہوں نے اسے پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے صرف ایک سوال کیا:
"کیوں راجو؟"

راجو نے سر جھکایا،
"بچوں کی دوا لینی تھی، پیسے کم پڑ جاتے تھے... پھر عادت بن گئی، بابو جی۔"

وشواناتھ جی نے اسے جانے دیا، لیکن دکان کے دروازے سے ہمیشہ کے لیے باہر۔

دکان پھر سے چل پڑی۔ تھیلے اب حساب سے آتے، اور حساب سے ہی جاتے۔ سوربھ نے سیکھ لیا کہ اعتماد اور نظر دونوں ساتھ چلنی چاہئیں۔

وشواناتھ جی نے بھی سیکھا کہ بعض اوقات سب سے قریبی لوگ سب سے گہرا زخم دیتے ہیں۔


ایمانداری صرف دیانت دار بننے کا نام نہیں، بلکہ ہر اشارے کو سمجھنا اور ہر ذمہ داری کو نبھانا بھی ہے۔
زندگی ایک دکان ہے — جس میں ہر عمل تول کر کیا جائے، ورنہ نقصان صرف مال کا نہیں، اعتماد کا بھی ہوتا ہے۔